اردو
Thursday 18th of April 2024
0
نفر 0

اللہ تعالي کے ديدار کے بارے ميں بعض مسلمانوں کا عقيدہ

دنيا کے بيشتر مذاھب ميں کسي نہ کسي طرح سے خدا کے تصوّر کو مانا جاتا ہے اور ان ميں سے ہر مذھب کے ماننے والے کسي ايسے ع
اللہ تعالي کے ديدار کے بارے ميں بعض مسلمانوں کا عقيدہ

دنيا کے بيشتر مذاھب ميں کسي نہ کسي طرح سے خدا کے تصوّر  کو مانا جاتا ہے اور ان ميں سے ہر مذھب کے ماننے والے کسي ايسے عامل پر يقين رکھتے ہيں جو خلقت ميں مؤثر  اور اس کائنات کے نظام کو چلانے والا ہے  -  آسماني اور بشري اديان ميں اس موثر طاقت اور معبود کو مختلف ناموں اور صورتوں کے ساتھ مورد توجہ قرار ديا گيا ہے - جہاں تک آسماني اديان کا تعلق ہے سبھي اس خدائے واحد و يگانہ پر اعتقاد رکھتے ہيں جس نے پيغمبران وحي کو بھيج کر اپني عبادت و پرستش اور معرفت کا سامان فراہم کيا ہے وہ خدا جو تمام عالم کا خالق ومدبر اور ہر قسم کے شرک و تجسم اور افسانوي تصورات سے پاک و پاکيزہ ہے -

بعض مسلمان اس   بات کے معتقد ہيں کہ

اللہ تعاليٰ نے آدم کو اپني صورت پر خلق کيا(1)

اللہ تعاليٰ انگلياں,2 ،پنڈلي,3 اور پاؤ ں رکھتا ہے-

وہ قيامت کے دن جہنم کي آگ ميں يا جہنم کے اوپر اپنا پاؤ ں رکھے گا تو جہنم کہے گي بس!،بس!!،بس!!!،،,4 -

 علاوہ بريں  اسے مادہ تصور کرتے ہيں يعني اس کے لئے مکان کي ضرورت ہے اور وہ ايک جگہ سے دوسري جگہ منتقل ہوتا ہے- اس عقيدے کي بنياد ان کي نقل کردہ وہ روايات ہيں جن کے مطابق رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا:

مخلوقات کي خلقت سے پہلے ہمارا پروردگار اندھيرے ميں تھا( يعني اس کے ساتھ کچھ نہ تھا)- اس کے نيچے ہوا تھي، اس کے اوپر بھي ہوا تھي اور پاني تھا- پھر اس نے پاني کے اوپر اپنا عرش بنايا-,5

آپ(ص) نے فرمايا:

اس کا عرش آسمانوں کے اوپر اس طرح سے ہے- يہ کہتے ہوئے آپ نے اپني انگليوں سے قبہ کي شکل بنائي- اور وہ چرچراتا ہے، جيسے سوار کے نيچے پالان چرچراتے ہيں-,6

نيز يہ کہ آپ(ص) نے فرمايا:

رات کے آخري حصے ميں خدا آسمان تک اتر آتا ہے اور کہتا ہے:

کون ہے جو مجھ سے سوال کرے تاکہ ميں اسے جواب دوں؟ کون ہے جو مجھ سے سوال کرے تاکہ ميں عطا کروں”؟,7

آپ(ص)نے فرمايا:

خدا پندرھويں شعبان کي رات کو نچلے آسمان پر اترتا ہےالخ 8

آپ (ص) نے روز قيامت کے متعلق فرمايا:

جہنم سے سوال کيا جائے گا: کيا تو سير ہو چکي ہے؟ جہنم جواب دے گي: اور چاہئے- پس اللہ تبارک و تعاليٰ اپنا پاؤ ں اس پر رکھے گا تب جہنم کہے گي: بس ہو گئي!!- بس ہو گئي!!”-

ايک اور روايت ميں مذکور ہے:

جہنم اس وقت تک سير نہ ہو گي جب تک اللہ اپنا پاؤ ں نہ رکھ دے- تب وہ کہے گي: بس بس- اس وقت وہ سير ہو گي اور اس کے حصے آپس ميں مل جائيں گے”-9

حوالہ جات:

1- صحيح بخاري باب بدء السلام، صحيح مسلم باب يدخل الجنة اقوام

2- صحيح بخاري تفسير سورة الزمر ج2 صفحہ122، صحيح مسلم کتاب صفة القيامة و الجنة والنار

3- صحيح بخاري زير آية يوم يکشف عن ساق، باب قولہ تعاليٰ وجوہ يومئذناضرة

4- صحيح بخاري تفسير سورة ق، سنن ترمذي باب ماجاء في خلود اھل الجنة، صحيح مسلم باب النار الفاريد خلھا الجبارون

5- سنن ابن ماجہ باب في ماانکرت الجھمية، سنن ترمذي تفسير سورہ ھود، مسند امام احمد ج4 صفحہ 11،12

6- سنن ابي داؤد باب في الجھمية، سنن ابن ماجہ باب في ما انکرت الجھمية، سنن الدارمي باب في شا ن الساعة و نزول الرب تعاليٰ-

7- صحيح بخاري باب الدعاء و الصلوة في آخر الليل ، صحيح مسلم باب الترغيب في الدعا و الذکر، سنن ابي داؤد باب في الرد عليٰ الجھمية، سنن ترمذي باب ماجاء في نزول الرب الي اسماء، سنن الدارمي باب ينزل اللہ الي السماء مسند امام احمد ج2صفحہ 264،282267،419،433،487

8- سنن ترمذي باب ماجاء في ليلة النصف، سنن ابن ماجہ باب ماجاء في ليلة النصف من شعبان، مسند امام احمد ج2 صفحہ 433

9- صحيح بخاري کتاب التوحيد، سنن ترمذي باب ماجاء في خلود اہل الجنة


source : tebyan
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

کيا ہم بھي عيد غدير کي اہميت کو اجاگر کرنے ميں ...
قرآن مجید اور ازدواج
فضائل ماہ شعبان و شبِ براء ت
سکیولریزم قرآن کی نظر میں
اسلام کے عقا ئد قرآن کریم کی رو شنی میں
صحیفہ سجادیہ یا زبور آل محمد (ص)
امام حسين (ع) کا دورانِ جواني
دین از نظر تشیع
علم کی فضیلت ۔قرآن وحدیث کی روشنی میں
حضرت علی علیہ السلام کا علم

 
user comment