اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

عصمت کے مفهوم کی وضاحت فرمایئں اور بتایئں کیا ائمه معصومین علیهم السلام کے علاوه دوسرے افراد بھی صاحب عصمت هو سکتے هیں ؟

عقیده کی اصطلاح میں صاحب عصمت کو معصوم کهتے هیں ، معصوم وه هے جو خداوند عالم کے خاص لطف و کرم کے ذریعه هر طرح کے برے اور ناپسند کاموں اور گناهون کو انجام نهیں دیتا ، اور چھوٹے سے چھوٹے گناه ، اشتباه اور خطا و غلطی نیز بھول چک سے دور رهتا هے ، البته یه حالت جبر و اکراه کی وجه سے نهیں هوتی بلکه گناهوں کے انجام دینے کی قدرت و اختیار کے همراه هے ،اس اختیار کے باوجود ، گناه اور خطا اور اشتباه کا مرتکب نه هونے کے چند اسباب خود معصوم شخصیت میں پائے جاتے هیں :کام کی واقعی بھلائی اور برائی سے حقیقی اور و
عصمت کے مفهوم کی وضاحت فرمایئں اور بتایئں کیا ائمه معصومین علیهم السلام کے علاوه دوسرے افراد بھی صاحب عصمت هو سکتے هیں ؟

عقیده کی اصطلاح میں صاحب عصمت کو معصوم کهتے هیں ، معصوم وه هے جو خداوند عالم کے خاص لطف و کرم کے ذریعه هر طرح کے برے اور ناپسند کاموں اور گناهون کو انجام نهیں دیتا ، اور چھوٹے سے چھوٹے گناه ، اشتباه اور خطا و غلطی نیز بھول چک سے دور رهتا هے ، البته یه حالت جبر و اکراه کی وجه سے نهیں هوتی بلکه گناهوں کے انجام دینے کی قدرت و اختیار کے همراه هے ،اس اختیار کے باوجود ، گناه اور خطا اور اشتباه کا مرتکب نه هونے کے چند اسباب خود معصوم شخصیت میں پائے جاتے هیں :کام کی واقعی بھلائی اور برائی سے حقیقی اور واقعی طور پر واقف هونا ؛ خداوند عالم کی جانب سے خاص توفیق؛ روح القدس کا همراه هونا ؛ وه روح جو که معصوم کے ساتھ همیشه رهتی هے ۔

انبیائے الٰهی اور ائمه معصومین علیهم السلام کے سوا جن کا اسلام میں تعارف کرایا گیا هے کوئی دوسرا معصوم نهیں هے ۔ اس لئے که کوئی دلیل ایسی نهیں هے جو ان کے علاوه دوسروں کے صاحب روح القدس هونے پر دلالت کرے ۔

لیکن ایک نهایت اهم نکته کی طرف توجه بھی بهت ضروری هے که بعض با عظمت شخصیتوں ، جیسے حضرت ابوالفضل العباسؑ ، حضرت علی اکبرؑ، امیر المؤمنین ؑ کے والد محترم حضرت ابوطالب نیز معصومین ؑ کی پاک و پاکیزه ماؤں وغیره کے صاحب عصمت نه هونے کے یه معنی نهیں هیں که یه حضرات گنهگار هیں ، بلکه عدالت کے درجه سے بهت بلند و برتر اور عصمت کے درجه سے نیچے هیں حقیقت میں اسلامی اصطلاح کی تحقیق کے وقت انسان کی مثبت شخصیت کے سلسله میں تین الفاظ کے سلسله میں بحث کی جاتی هے ۔

1. عدالت : واجبات کی انجام دهی اور گناهوں کو ترک کرنے میں معنویات کے بلند درجه پر فائز هونا ۔

اس میں فقط واجبات کو انجام دینا اور محرمات کو ترک کرنا کافی هےا ور گناهان کبیره سے پرهیز کرتے هوئے صغیره پر اصرار نه کرنا عدالت هے ۔

2. عظمت : عدالت سے بلند و برتر هے صاحب عظمت نورانی روح کا حامل هوتا هے اور خدا کے نیک بندوں میں شمار هوتا هے ۔

3. عصمت : صاحب عصمت ، چھوٹے سے چھوٹے گناه ، اشتباه ، وهم ، گمان اور خطا و غلطی سے بھی دور هوتا هے اس مرتبه کا لازمه متعدد روایات کے مطابق روح القدس سے بهره ور هونا هے ۔

تفصیلی جوابات

اسلامی اصطلاح کی تحقیق کے وقت انسان کی مثبت شخصیت کے سلسله میں تین اصطلاح میں بحث کی جاتی هے :

1. عدالت : اسلام میں جو شخص اپنی روح کی اس طرح تربیت کرے که هر طرح کے گناه اور خطرات سے اپنے کو بچالے اور طاعت و عبادت کی دوڑ میں همیشه آگے رهے ایسے شخص کو ((عادل)) کهتے هیں ، ایسا شخص اپنے دامن کو گناهوں کے دھبه سے پاک کر کے خداوند عالم کی معرفت اور اس کے احکام کی رعایت کرنے میں ممتاز نظر آتا هے ؛ یه مقام کم از کم خدا کے نیک بندوں کا هے جس تک پهنچنے کی کوشش کا مطالبه خداوند عالم نے هر ایک سے کیا هے ۔

اس مقام تک پهنچنے کا راسته گناهان کبیره سے پرهیز اور گناهان صغیره پر اصرار نه کرنا هے ، لیکن یه ضروری نهیں هے که وه گناه کا خیال بھی نه کرے ۔

2. عظمت : صاحب عظمت وهی شخص هے جو عدالت کے درجه سے آگے بڑھ کر خداوند عالم کے صالح بندوں اور سو فیصدی پاک و پاکیزه بندوں کے زمره میں شامل هوگیا هو ایسے لوگوں کی روح نورانی هوتی هے جو گناهوں کی وادی سے دوری کے علاوه روح کو آلوده کرنے والی هر چیز سے پرهیز کرتے هیں ، اس عظمت کے مرتبه کو مختلف ناموں جیسے ((ورع )) ، ((زهد)) ،((تائی تلو عصمت۔[عصمت سے نزدیک درجه])) ، (( صلیب الایمان)) [1] اور ((نافذ البصیره)) و غیره جیسے القابات سے یاد کیا جاتا هے ۔

یهاں پر چند نکته قابل ذکر هے وه یه هے که عصمت سے نیچے اور عدالت سے بلند و برتر مقام جسے هم نے عظمت سے تعبیر کیا هے اس کا دائره بڑا وسیع هے ، جس طرح سے عصمت کے بھی درجات هیں ، اور انسان جس قدر خدا سے نزدیک هوتا هے اسی قدر تکوینی ولایت کا حامل هوتا هے اور کائنات پر تصرف حاصل کرتا هے ، اسی وجه سے هر ولی خدا کا مقام و مرتبه ایک هی نهیں هوتا ۔

لیکن اس کا یه مطلب نهیں که هر شخص اس مرتبه و مقام تک پهنچ جائے ، اس لئے که اس حالت کا پیمانه نور کا حامل هونا اور ظلمت سے دور رهنا هے ۔

یه دو لفظ (( نور و ظلمت )) اپنے تمام تر معانی اور مصادیق کے باوجود قرآن و اهلبیت علیهم السلام کی اصطلاح میں اچھے لوگوں اور اچھایئوں کو منعکس کرتے هیں اور برے لوگوں برایئوں کی حکایت کرتے هیں ۔

اس لئے بعض افراد کو ((عبد صالح )) ، (( صاحب نور و روح )) ، و نورانی روح کے حامل کے نام سے یا صاحب نور (خدا) اور انبیاء اور ائمه معصومین علیهم السلام کے انوار محض کے عنوان سے پکارا جاتا هے ۔

نتیجه میں عظمت کا مرتبه عدالت کے اوپر هے ، اس لئے که عدالت میں گناه کبیره مرتکب کرنا اور صغیره پر اصرار نه کرنا کافی هے لیکن الله کے صالح بندے زهد و تقویٰ کے ایسے اعلیٰ درجے پر فائز هوتے هیں که عبد صالح کا لقب ان کے پورے وجود کے لئے شائسته هوتا هے ۔

عظیم و جلیل القدر انسان روح کی خاص نورانیت کا حامل هوتا هے اس لئے که اس کی کامل عقل و بلند روح اسے هر تاریک چیز سے دور رکھتی هے اور اس کے تمام اعمال وکردار ، عبادات اور عمل صالح کے محود پر گھومتے هیں ۔

یه خاص نورانیت ، اعلیٰ درجه کی معرفت ، خالص ایمان ، عمل صالح ، پاک نیت اور سب سے بڑھ کر ولی مطلق (خدا) اور اس کے اولیاء (معصومین علیهم السلام) کی خاص عنایت کا نتیجه هے  ۔

وه نور لوگوں کی پوری حقیقت کی تصویر هے ، جس طرح ظلمت بھی بعض افراد کے نقاب کے پیچھے کی واقعی تصویر هوتی هے ۔

الله کے صالح بندے اپنی تمام تر خوبیون کے باوجود روح القدس کے حامل نهیں هین ، روح القدس ایک بلند و پاک و پاکیزه روح هے جو فرشته نهیں هے اور گذشته لوگوں میں کسی کے همراه نهیں تھی سوائے حضرت رسول خدا (صل الله علیه و آله وسلم) کے اور وهی ائمه معصومین علیهم السلام کی بھی حمایت کرتی هے ۔

جهاں کلام یه هے که :

الف: هر چند بعض افراد کا مرتبه بهت بلند و برتر هے لیکن ان کا مرتبه اس ملکوتی مینار

(( عصمت)) کے سایه تک بھی نهیں پهنچ سکتا ، عصمت کچھ ایسے امور سے مربوط اور مخصوص هے جس کی اعلیٰ حد فقط چوده معصومین علیهم السلام میں ملتی هے ، کیوں اور کیسے ؟ یه جاننے کے لئے همارے ساتھ ساتھ رهئے ۔

حضرت ابوالفضل العباس ؑ ، جناب معصومه ؑ ، جناب زینب ؑ ، جناب رقیه ؑ ،جناب ابوطالب ؑ ، جناب خدیجهؑ، جناب فاطمه بنت اسد و حضرت علی اکبر ؑ اور ان کے جیسی گئی چنی شخصیتیں معصوم تو نهیں هیں مگر عظمت کے مقام پر (جو که مخصوص اولیائے خدا کا مقام هے) فائز هیں ۔

ان بزرگ شخصیتوں کے مقام عظمیٰ پر فائز هونے کی مثالیں :

عصمت معصوم کی جانب سے دعوے اور دلیل کے ذریعه ثابت هوتی هے اور مخصوص اولیائے کرام هرگز اس طرح کا دعویٰ نهیں کرتے اور کوئی دلیل بھی ایسی نهیں هے جو ان کے اندر عصمت کی مقدس روح کے وجود پر گواه هو لیکن کچھ ایسی دلیلیں هیں جو ان کی عظمت پر گواه نهیں هم ان میں سے بعض حضرات کا تذکره کرتے هیں :

حضرت ابو طالب (علیه السلام) :

حدیث میں هے که ایک شخص نے جو دشمنوں کے پروپگنڈوں کے سبب حضرت ابوطالب (علیه السلام) کو مسلمان نهیں سمجھتا تھا ، اس نے امیر المؤمنین کو طعنه دینے اور آپ کے پدر بزرگوار کی شان میں گستاخی کرنے کی غرض سے آپ (علیه السلام) سے سوال کیا : ((کیا آپ کے باپ عذاب الٰهی میں اور جهنم کی آگ میں هیں ؟ تو آپ (علیه السلام) نے فرمایا : قسم اس خدا کی جس نے محمد صل الله علیه وآله وسلم بناکر بھیجا میرے والد هر گنهگار کی شفاعت کریں گے اور خداوند عالم بھی آپ کی شفاعت قبول کرے گا کیا ابوطالب (علیه السلام) ، میرے والد جهنم کی آگ میں جلائے جائیں گے جب کے آن کا بیٹا جنت و جهنم اور جنت کی نعمتوں کو تقسیم کرنے والا هے ؟ خدا کی قسم روز قیامت پنجتن پاک کے نور کے علاوه تمام لوگوں کے نور کو میرے والد کا نور ماند کرے گا اس لئے که میرے پدر کا نور همارے نور سے هے اور همارا نور بھی جناب آدم علیه السلام کی پیدائش کے دو هزار سال پهلے خلق هوا هے ))[2]۔

حضرت خدیجه (سلام الله علیها)

حضرت رسول خدا صل الله علیه وآله وسلم معراج کا واقعه یوں بیان فرماتے هیں : میں نے معراج سے واپسی پر جبرئیل سے پوچھا : کیا تمهاری کوئی حاجت هے اور تمهاراکوئی کام هے ؟ جبرئیل نے کها : میری آرزو یه هے که (( أن تقرأ علیٰ خدیجۃ من الله و منی الاسلام)) خداوند عالم اور میری جانب سے خدیجه کو سلام پهنچا دیجئے ۔ ۔ ۔ [3] ۔

حضرت رسول اکرم صل الله علیه وآله وسلم آیت (( ان الله الصطفیٰ آدم و نوحاً و آل ابراھیمَ و آل عمرانَ علی العالمین )) بیشک الله نے آدم ، نوح ، آل ابراهیم ؑ اور آل عمران کو منتخب کر لیا هے ، کی تفسیر کرتے هوئے فرماتے هیں : (( دیگر منتخب افراد میں علیؑ ، حسنؑ، حسینؑ،حمزهؑ،جعفرؑاور فاطمه و خدیجهؑ هیں جو پوری دنیا کے لوگوں کے سردار اور ان میں ممتاز هیں [4] اور یه واضح سی بات هے که الله کی جانب سے سلام اسی کے لئے آتا هے جو پوری طرح الله والا هو ۔

حضرت فاطمه بنت اسد(حضرت علیؑ کی مادر گرامی)

عظیم الشّان محدث ، صاحب کتاب مفاتیح الجنان جناب شیخ عباس قمی اس محترم خاتون کی شان میں لکھتے هیں (( آپ کا جاه و جلال اور مرتبه ، خانه کعبه میں حضرت علی علیه السلام کی ولایت کے واقعه سے معلوم هوتا هے آپ سب سے پهلے ایمان لانے والوں سے تھیں اور آپ علی الاعلان اسلام قبول کرنے والی گیارهویں فرد تھیں ، رسول خدا صل الله علیه وآله وسلم آپ کی تعظیم کرتے تھے اور همیشه آپ کی تعریف کیا کرتے تھے اور ماں کے عنوان سے خطاب کرتے تھے ))

تاریخ نویسوں نے لکھا هے که (( حضرت رسول اکرم صل الله علیه وآله وسلم نے آپ کی وفات کے بعد گریه کیا اور غم منایا آنحضرت صل الله علیه وآله وسلم نے آپ کو اپنے مخصوص کپڑے میں کفنایا اور آپ کی نماز جنازه پڑھی ، آنحضرت صل الله علیه وآله وسلم نے آپ کی نماز جنازه میں 40 تکبیریں کهیں اور خود هی قبر میں لٹاکر آخرت کے سفر کے لئے آماده کیا ۔ ۔ ۔ ))[5] ۔

حضرت محمد مصطفیٰ صل الله علیه وآله وسلم آپ کی شان میں فرماتے هیں :وه خداوند عالم کی بهترین مخلوق تھیں جنھوں نے ابوطالب کے بعد میرے ساتھ نیکیاں اور اچھائیاں کیں ۔[6]

3. تیسرا لفظ جس کا اسلامی نظام میں خصوصیت سے استعمال هے وه لفظ ((عصمت)) هے جس کی مختصر سی وضاحت یه هے : عقائد کی اصطلاح میں صاحب عصمت کو ((معصوم)) کهتے هیں اور معصوم وه هے جو خدا کے لطف و کرم سے هر طرح کے گناه اور برے افعال سے دور رهتا هے اور وه بھی جبری طور پر نهیں ، بلکه اس حالت میں که اس کے انجام دینے کی قدرت رکھتا هے ، پھر بھی انجام نهیں دیتا اس کے علاوه هر قسم کے اشتباه اور غلطی سے بھی دور هوتا هے ، امام جعفر صادقؑ اس سلسله میں فرماتے هیں : (( المعصومُ ھو الممتنع بالله من جمیع المحارم ۔ وقد قال الله تبارک و تعالیٰ : و من یعتصم بالله فقد ھدیٰ الیٰ صراطٍ مستقیم ، معصوم وه هے جو خدا کی جانب سے تمام گناهوں سے محفوظ هو ؛ جیسا که خداوند عالم ارشا فرماتا هے : جو بھی الله سے متمسک هوجاتا هے یقیناً وه صراط مستقیم کی طرف سے هدایت پاتا هے))[7]

اهم نکته : علم و عصمت کا آپس میں نزدیکی رابطه هے ، اس طرح که عصمت کا اصلی سرچشمه ، علم و معرفت هے ، انسان جب کسی چیز کی حقیقت کو درک کرلیتا هے تو اس کے نتیجه اور آثار سے بھی واقف هوجاتا هے اور خود هے اس کے ترک کرنے یا انجام دینے میں مستقل اراده کا مالک هوجاتا هے ۔

عصمت کو منحصر کرنے کا راز :

آپ پوچھتے هیں که کیوں چوده مخصوص افراد معصوم هیں دوسرے افراد معصوم کیوں نهیں هیں ؟

پهلا نکته : اس کا جواب خداوند عالم کے اراده ، حکمت اور قضاء و قدر کے دائره میں سمجھنا چاهئے یعنی اس طرح کا انتخاب کاملاً خداوند عالم کی مشیت اورالٰهی مصلحت سے مربوط هے لیکن یه مشیت و مصلحت ایک علت اور حکمت پر مبنی هے ۔ تمام دینی متون کا حصل یه هے که انسان کی زندگی اور اس کا وجود اس مادی دنیا کی چند ساله زندگی میں منحصر نهیں هے اور روح کی خلقت جسم کی خلقت سے کهیں برتر هے [8] ۔

اسی وجه سے همارے ماضی کے فیصلے اور عکس العمل نیز خداوند عالم کا هر انسان کے مستقبل سے باخبر هونا که کون شخص صحیح راه چلنے والا اور کون راهزن هوگا !

آپ میں مل جل کر بهت سی فضیلتوں اور امتیازات پهنچنے منجمله عصمت ، علم ، نبوت ، امامت اور وحی تک پهنچنے کے استحقاق و اسباب مهیا کرتے هیں ۔ مزید تفصیلات کے لئے دعائے ندبه کی یه عبارت ملاحظه فرمائیں :

[اللهمَّ لکَ الحمدُ علیٰ ما جریٰ به قضائُکَ فی اولیائکَ۔ ۔ ۔ ]

(پروردگارا ان نعمتوں پر تیرا شکر هے جنھیں تو نے اپنے ان اولیاء میں مقرر و معین فرمایا جن کو تو نے اپنی ذات کے لئے خالص قرار دیا اور اپنے دین کے لئے چن لیا ان کے انتخابات اور ان کی عظمت کی نشانی یه هے که تو نے ان کے لئے اپنی وه نعمتیں فراهم کی هیں جو همیشه باقی رهنے والی اور لازوال هیں لیکن اس انتخاب اور برتری کا سبب یه هے که تونے ان سے (گذشته عوالم میں ) یه شرط کی که وه اس دنیا کے درجوں میں تقویٰ و پرهیزگاری سے کام لیں اور اس کی چمک دھمک سے دور رهیں گے پس انھوں نے یه شرط قبول کی اور تجھے معلوم تھا که وه وفا کریں گے ، تو نے انھیں اپنا مقبول اور مقرب بنالیا اور ان کے لئے اپنے بلند ذکر روشن حمد و ثنا کو ان پر پیش کیا( یهاں تک که) ان پر اپنے فرشتے نازل کئے اور انھیں اپنی وحی کے ذریعه مکرم کیا اور ان پر اپنے مخصوص علم کی نوازش کی اور ایسے افراد کو اپنی ذات تک پهنچنے کا ذریعه قرار دیا اور اپنی خوشنودی اور جنت تک پهنچنے کا وسیله بنایا ۔ ۔)

اس دعا کی وسعتوں میں غور و فکر سے معلوم هوتا هے که انسان نے عالم ملکوت میں امتحان کی منزل گزاری هے جس میں اپنی قدر و منزلت کو غنیمت سمجھا اور اپنی عزت اور خدا سے رابطه کا دنیا سے سودا نهیں کیا اور یه امتحان هر ایک کے لئے تھا ، لیکن ان میں سے بهت کم لوگ کامیاب هوئے اور اس امتحان و آزمائش کی شرطوں کی رعایت کی ، اور چوں که خداوند عالم کو معلوم تھا که فقط یهی لوگ وعده کو وفا کریں گے اسی لئے اپنی بهترین نعمتوں کو ان پر نثار کر دیا ، جن میں سے خدا سے قربت ، ذکر بلند سے مستفیذ هونا ، حمد و ثناء الهی کرنا ، فرشتوں کا نازل هونا ، صاحب وحی و عالم علم مخصوص (خدا) هونا ، لوگوں کے لئے جنت تک پهنچنے کا وسیله قرار پانا اور خدا تک پهنچنے کا راسته و غیره هے ۔

اس طرح کچھ امام هوئے ، کچھ نبی هوئے تو کچھ عصمت کے درجه پر فائز هوئے اور هر منصب میں اس کے اهل هونے کے لحاظ سے الگ الگ درجه اور مرتبه هے ؛ مگر یه معلوم هونا چاهئے که حضرت محمد مصطفیٰ صل الله علیه و آله وسلم اور ان کے اهلبیت علیهم السلام کا مرتبه دنیا کے تمام لوگوں اور دوسرے برگزیده افراد سے کهیں بلند و برتر هے ۔

کیوں اور کیسے ؟ حضرت امام علی رضا ؑ کی اس حدیث پر غور فرمائیں :

الله عز وجل نے هماری تائید اس طرح کی هے که همارے همراه مقدس اور پاک و پاکیزه روح بھی قرار دی هے ، جو فرشته بھی نهیں هے اور یه گذشته لوگوں میں سے کسی کے همراه نه تھی سوائے رسول خدا صل الله علیه و آله وسلم    کے ، اور یه روح هم اماموں میں هر ایک کے ساتھ هے وهی روح هے جو اماموں کی حمایت اور انھیں کامیاب کرتی هے وه نور کا ایک سلسله هے جو همارے اور الله عز وجل کے درمیان هے [9] .

دوسرا نکته :کم یا زیاده جو کچھ بھی خداوند عالم نے مقدر کی اهے وه مخلوقات کی واقعی ضرورت کے مطابق هے ، جس طرح دو کان ، ایک زبان ، اور دو هاتھ کا هونا اسی مقدار میں کافی هونے کی حکایت کرتا هے اسی طرح دین اسلام میں فقط چوده معصوم کا هونا اس بات کی دلیل هے که امت اسلام اور تمام مخلوقات کے لئے چوده سے زیاده معصوم کی ضرورت نهیں تھی اور چوں که یهی تعداد کافی تھی لهذا عصمت کے اسباب اور عوامل کو دو سرے کے اختیار میں نهیں دیا گیا هے ۔

عصمت کے اسباب میں سے ایک ((روح القدس)) کا وجود هے جس کی طرف پهلے اشاره کیا جا چکا هے اور اب یهاں توضیح پیش کرتے هیں ۔

شیعوں کا عقیده هے که خداوند عالم اپنے مخصوص بندوں کی ((روح القدس)) کے ذریعه تائید کرتا هے جس کے ذریعه وه خطا و غلطی اور بھول چوک سے محفوظ رهتے هیں ؛ امام جعفر صادقؑ فرماتے هیں : یقیناً رسول خدا کی ((روح القدس)) کے ذریعه الٰهی توفیق و تائید هوتی تھی جس کی وجه سے وه کبھی بھی لوگوں کے امور کی تدبیر میں خطا یا غلطی سے دوچار نهیں هوتے تھے [10]۔

اس کے علاوه ائمه طاهرین علیهم السلام کی روایتوں میں امامؑ کی عصمت فقط ان کی امامت کے زمانے سے مخصوص نهیں هے بلکه امامت سے پهلے بھی الٰهی عصمت پر فائز هوتے تھے ؛ امام محمد باقرؑ فرماتے هیں : (( اے جابر (انبیاء اور امام) عرش کے نیچے سے لےکر قبر تک روح القدس کے ذریعه پهچانے جاتے هین اور اسی کے ذریعه هر چیز کا علم رکھتے هیں ))[11] ۔

دوسری حدیث میں فرماتے هیں : (( روح القدس امام کے اندر همیشه باقی اور ثابت رهتی هے اور امام اسی کے ذریعه جو کچھ مشرق ، مغرب اور خشکی و دریا میں هے دیکھتا هے ؛ (کسی نے کها) میں آپ پر قربان: کیا امام اس چیز کو جو مثال کے طور پر بغداد میں هے اپنے هاتھ سے پکڑلیں گے ؟ حضرت نے فرمایا : هاں ! بلکه وه (امام ) هر اس چیز پر اس عرش الٰهی کے نیچے هے تصرف کر سکتا هے [12]۔

یه حدیث امامؑ کی غیر معمولی طاقت اور عالم تکوین پر آپ ؑ کے تصرف کی حکایت کرتے هے جو الله کے اذن سے آپ ؑ کے اختیار میں قرار دی گئی هے اور اسی سے پتا چلتا هے که علم اور قدرت میں بهت نزدیک رابطه هے [13] ۔


[1]  ایمان راسخ

[2]  بحار الانوار ۔ ج 35 ، ص 110

[3]  بحار الانوار ۔ ج 16 ،ص7

[4]  بحار الانوار ۔ ج 37 ،ص 63

[5]  سفینۃ البحار ، ج 7، ص 122 ، طبع ،سوده

[6]  بحار الانوار ، ج 35 ، ص79

[7]  معانی الاخبار ، ص 132

[8]  ملاحظه هو: ترخان ، قاسم ، خلقت ارواح قبل از اجسام

[9]  انَّ الله – عزّ وجل ایدنا بروح منھ مقدسۃ مطھرۃ لیست بملک لم تکن مع احداً ممن مضی الامع رسول الله (ص) و ھو مع الائمۃ منا تسددھم و توفقھم و ھو عمود من نور بیننا و بین الله عزّ وجل ۔ ۔ ۔ ، بحار الانوار ، ج 25 ، ص48

[10]  و انّ رسول الله (ص) کان مسدداً موفقاً مؤیداً بروح القدس لایزل ولایخطی فی شیء ممایسوس بھ الخلق ؛ الکافی ، دارالکتاب، ج 1 ، ص 266

[11]  فبروح القدس – یا جابر- عرفوا ما تحت العرش الی ما تحت الثری ؛ کافی ، ج 1 ، ص 272

[12]  بحار الانوار ، ج 25 ، ص 58

[13]  بیابانی ، محمد ، معرفت امام ، ص 73


source : islamquest
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

خود شناسی(پہلی قسط)
قرآن کی حفاظت
جھاد قرآن و حدیث کی روشنی میں
سیاست علوی
قرآن مجید و ازدواج
عید سعید فطر
شب قدر ایک تقدیر ساز رات
آخرت میں ثواب اور عذاب
انیس رمضان / اللہ کے گھر میں پہلی دہشت گردی
حضرت امام علی علیہ السلام کے حالات کا مختصر جائزہ

 
user comment