اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

توحید مُفضّل ہے مفسّر توحید

پچیس شوال ایک ایسی عظیم المرتبت ہستی سے تعلق رکھتی ہے جس نے تمام علوم کے ماہر ترین اساتید کو دنیا کے حوالے کیا۔ توحید مُفضّل آپ کے شاگرد ابو محمد مُفَضَّل بن عُمَر جُعْفی کوفی کے نام سے معروف ہے جو ایک شیعہ فقیہ، مخلص صحابی اور اما
توحید مُفضّل ہے مفسّر توحید

پچیس شوال ایک ایسی عظیم المرتبت ہستی سے تعلق رکھتی ہے جس نے تمام علوم کے ماہر ترین اساتید کو دنیا کے حوالے کیا۔ توحید مُفضّل آپ کے شاگرد ابو محمد مُفَضَّل بن عُمَر جُعْفی کوفی کے نام سے معروف ہے جو ایک شیعہ فقیہ، مخلص صحابی اور امام علیہ السلام کے وکیل تھے۔ درج ذیل مضمون اسی توحید مفضل کے بارے میں چند الفاظ پر مشتمل ہے۔

بقلم: سید افتخار علی جعفری

نہج البلاغہ خطیب منبر سلونی کا وہ کلام ہے جو آپ کی فصاحت و بلاغت کے جوہر دکھلاتا ہے صحیفہ سجادیہ، زبور آل محمد سید الساجدین کی ان مناجات کا مجموعہ ہیں جو حقیقی معشوق کے سامنے عاشق کی نغمہ سرائی کی یاد دلاتا ہے۔  اسی طرح توحید مفضل عالم آل محمد(ص) کا وہ الہی فلسفہ ہے جو تمام توحید پرستوں کے لیے خدا کی وحدانیت و یکتائی کو ثابت کرنے میں فصل الخطاب ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کو شیخ الائمہ بھی کہا جاتا ہے آپ کا معروف ترین لقب حضرت’’صادق‘‘ ہے آپ کا یہ لقب آپ کے کلام میں صداقت اور سچائی کی ضمانت ہے۔
آپ کے دسترخوان علم پر بیٹھنے والے چار ہزار شاگرد نہ صرف معمولی شاگرد تھے بلکہ ہر کوئی اپنے فن میں مولا اور استاد کی حیثیت رکھتا تھا بلکہ یوں کہا جائے کہ آپ نے تمام علوم میں نہ صرف شاگرد تربیت کئے بلکہ ہر علم میں صاحب نظر فقیہ دنیا کو پیش کئے اسی وجہ سے کوئی بھی ایسا علم نہیں جس کی بازگشت عالم آل محمد(ع) کی طرف نہ ہوتی ہو۔
آپ کے ایک اہم ترین شاگرد ابو محمد مفضل بن عمر جعفی تھے جو کوفہ کے فقیہ اور امام علیہ السلام کے اس شہر میں وکیل تھے۔
آپ پہلی صدی ہجری کے آخر میں کوفہ میں پیدا ہوئے۔ مفضل  نے امام صادق علیہ السلام اور امام موسی کااظم علیہ السلام سے بہت ساری روایات نقل کی ہیں اور آپ اہل اسلام مخصوصا تشیع کے نزدیک ثقہ راویوں میں سے شمار ہوتے ہیں۔
اکثر شیعہ علما جیسے شیخ کلینی، شیخ مفید، شیخ طوسی نے آپ کو چھٹے اور ساتویں امام کے خاص صحابی قرار دیا ہے۔  محدث قمی آپ کے بارے میں کہتے ہیں: ’’(مفضل) شیعوں کے درمیان وجود میں آنے والے اختلافات کو حل کرتے تھے اور آپ امام جعفر صادق اور امام موسی کاظم علیہماالسلام کے نمائندے تھے‘‘۔ مختلف روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مفضل ائمہ طاہرین کے نزدیک قابل اعتماد شخص تھے۔
آپ کی شہرت کی وجہ وہ کتاب ہے جو توحید مفضل کے نام سے معروف ہوئی ہے جو عالم آل محمد کے حضور میں کسب فیض کا ماحصل ہے۔ مفضل اس کتاب کی تالیف کے واقعہ کو یوں بیان کرتے ہیں: ایک دن بوقت عصر میں مدینہ میں قبر رسول خدا (ص) کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور آپ کے مقام و منزلت کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ اچانک ابوالعوجاء اور اس کے  پیروکار مسجد میں داخل ہوئے اور ایک کونے میں بیٹھ کر علمی بحث و مباحثہ کرنے لگے ۔
انہوں نے اپنی گفتگو میں رسول اسلام (ص) کو ایک چالاک فلاسفر کے عنوان سے یاد کیا کہ جنہوں نے انتہائی ہوشیاری سے اپنے نام کا سکہ دنیا میں منوا لیا (معاذ اللہ ) اس کے بعد انہوں نے یہ ثابت کرنا شروع کیا کہ اس دنیا کا (نعوذ باللہ) کوئی خدا نہیں ہے اور ہر چیز خود بخود وجود میں آئی ہے اور کائنات ہمیشہ سے تھی اور ہمیشہ رہے گی۔
میں ان کی یہ بیہودہ باتیں سن کر اپنا غصہ کنٹرول نہیں کر پایا اور ان پر زور سے چلایا اور کہا: اے اللہ کے دشمنو! کیا کافر ہو چکے ہو!؟ انہوں نے جواب میں کہا: اگر تم جعفر بن محمد کے صحابیوں میں سے ہو تو وہ تو ایسے ہم سے بات نہیں کرتے۔ میں ان کے پاس سے اٹھا اور امام صادق علیہ السلام کے حضور میں چلا گیا اور سارا ماجرا ان کے لیے بیان کیا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: کل صبح میرے پاس آو اور ساتھ میں ایک قلم اور کاغذ بھی لے کر آو تاکہ تمہارے لیے کائنات کی خلقت میںپائی جانے والی اللہ کی حکمتوں کو بیان کروں۔ میں بھی دوسرے دن صبح کو قلم اور کاغذ کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ نے چار نشستوں میں اس حدیث کو بیان فرمایا اور میں نے سب مرقوم کیا آپ نے اس حدیث کے شروع میں خداوند عالم کے بارے میں شک یا اس کے انکار کی وجہ کو خلقت کائنات کی حکمتوں سے ناآشنائی بیان فرمایا۔ اس کے بعد کائنات کی خلقت، انسان کی تخلیق، انسان کے بدن کے اعضاء کی خلقت کی حکمتوں جیسے نظام ہاضمہ، حواس پنجگانہ، وغیرہ کے بارے میں تفصیل سے بیان کیا کہ ان میں سے ہر ایک چیز اپنے خالق کے علم و قدرت پر دلیل ہے۔
امام علیہ السلام نے دوسری نشست میں دنیائے حیوانات کی حیرت انگیزیوں، جیسے گھوڑا، ہاتھی، بندر، کتا، مرغ، چمگادڑ، شہد کی مکھی، ٹڈی، چیونٹی اور مچھلی وغیرہ کے بارے میں بیان کیا۔ اور تیسری نشست میں آسمان اور زمین کے عجائب جیسے آسمان کا رنگ، سورج کا طلوع و غروب کرنا، سال کے موسموں کا بدلنا، سورج چاند ستارے اور آسمان میں ان کا تیزی سے حرکت کرنا، سردی و گرمی کا وجود پانا اور بادلوں کا گرجنا وغیرہ کے سلسلے میں گفتگو فرمائی۔ چوتھی نشست میں امام علیہ السلام نے زندگی اور موت کی حقیقت، انسان کی پیدائش کی وجہ، عالم ہستی کی شناخت کا راستہ اور اس شناخت میں عقل و حس کے درمیان فرق کو انتہائی خوبصورت انداز میں بیان فرمایا۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کی شہادت کے ایام بہت ہی خوب فرصت ہے کہ ہم اس کتاب کا مطالعہ کریں۔
آخر میں حاجتمندوں کی حاجت روائی کے لیے ایک اہم نماز جو مفضل نے امام صادق علیہ السلام سے نقل کی ہے کو بیان کرتے ہیں: «رَوَى الْمُفَضَّلُ بْنُ عُمَرَ عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ (ع) قَالَ إِذَا کَانَتْ لَکَ حَاجَةٌ إِلَى اللَّهِ وَ ضِقْتَ بِهَا ذَرْعاً فَصَلِّ رَکْعَتَئیْنِ فَإِذَا سَلَّمْتَ کَبِّرِ اللَّهَ ثَلَاثاً وَ سَبِّحْ تَسْبِیحَ فَاطِمَةَ (ع) ثُمَّ اسْجُدْ وَ قُلْ مِائَةَ مَرَّةٍ یَا مَوْلَاتِی فَاطِمَةُ أَغِیثِینِی ثُمَّ ضَعْ خَدَّکَ الْأَیْمَنَ عَلَى الْأَرْضِ وَ قُلْ مِثْلَ ذَلِکَ ثُمَّ عُدْ إِلَى السُّجُودِ وَ قُلْ ذَلِکَ مِائَةَ مَرَّةٍ وَ عَشْرَ مَرَّاتٍ وَ اذْکُرْ حَاجَتَکَ فَإِنَّ اللَّهَ یَقْضِیهَا» جلیل القدرعالم،  کفعمی کی تالیف شدہ کتاب " بلد الامین" میں درج ہے۔ علامہ مجلسی نے بھی بحارالانوار میں اسے کفعمی کی کتاب "بلد الامین" اور " مصباح" سے نقل کیا ہے
مفضل نے امام جعفر صادق{ع} سے نقل کیا ہے کہ آپ{ع} نے فرمایا: اگر بارگاہ الہی سے کوئی حاجت ھو اور اس حاجت کی استجابت چاہتے ھو، اوریہ حاجت ضروری ھو تو پہلے دورکعت نماز بجا لانا اور اس نماز کی سلام بجا لا تے وقت تین بار تکبیر کہنا اور اس کے بعد حضرت فاطمہ زہراء {ع} کی تسبیح پڑھنا، اس کے بعد سجدہ میں جاکر ایک سو مرتبہ " یا مولاتی فاطمہ اغیثنی"{ اے فاطمہ زہراء میری فریاد سننا} پڑھنا اس کے بعد اپنے دائیں رخ کو زمین پر رکھ کر اس عبارت کو دہرانا اس کے بعد پھر سے سجدہ میں جاکر اس عبارت کو ایک سو دس مرتبہ دہرانا اور اس کے بعد اپنی حاجت کو خداوند متعال سے طلب کرنا، خدا اس حاجت کو پورا کرے گا-


source : abna
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عقل کا استعمال اور ادراکات کا سرچشمہ
عید مباہلہ
آیہٴ” ساٴل سائل۔۔۔“ کتب اھل سنت کی روشنی میں
انہدام جنت البقیع تاریخی عوامل اور اسباب
ماہ رمضان کے دنوں کی دعائیں
جمع بین الصلاتین
ہم اور قرآن
نہج البلاغہ کی شرح
شفاعت کا مفہوم
شب قدر کو کیوں مخفی رکھا گیا؟

 
user comment