اردو
Thursday 28th of March 2024
0
نفر 0

امام حسن علیہ السلام اور افسانۂ طلاق‏ / تحقیقی مقالہ

امام حسن علیہ السلام اور افسانۂ طلاق‏ / تحقیقی مقالہ

اس بار جو الزام اچھالا گیا ہے وہ یہ ہے کہ طلاق اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ فعل ہے لیکن امام حسن علیہ السلام نے نکاح اور طلاق کے حوالے سے معاذاللہ افراط کا راستہ چنا تھا۔ ہم نے تھوڑی سے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ بعض اپنے بھی اس بہتان سے متاثر ہوئے ہیں اور بعض نے تو اس کو امام علیہ السلام کے لئے باعث فخر گردانا ہے اور لکھا ہے کہ آپ (ع) نے 300 شادیاں کی ہیں جبکہ حقیقت میں آپ (ع) کی بائیس یا اکتیس اولادیں ہیں جو اس تشہیری مہم کی دستاویزات سے مغایرت رکھتی ہے۔

بقلم: ف۔ح۔مہدوی

امام حسن علیہ السلام اور افسانۂ طلاق / تحقیقی مقالہ

اشارہ: حال ہی میں بعض نواصب کی جانب سے ایک ایمیل میسج بھیجا گیا جس میں عصمت ائمۂ اہل بیت علیہم السلام کو مخدوش کرنے کے لئے ریحانۃ الرسول (ص) حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام کی ولادت با سعادت کے موقع پر ایسے شبہے کو ہوا دی گئی ہے جو عباسی بادشاہ منصور دوانیقی کے دور سے سرکاری منشیوں اور مستوفیوں نے وضع کیا اور ہزاروں بار اس کا جواب دیا گیا لیکن عباسی اور اموی بادشاہتوں اور آج کے زمانے کے برطانیہ، امریکہ اور اسرائیل کی پالیسی یہی رہی ہے کہ تہمتوں اور الزامات کو دہراؤ اور ان کے جواب پر کان مت دھرو حتی کہ تہمتوں کا نشانہ بننے والا شخص، نظام حکومت یا گروہ وغیرہ کے اپنے بہی خواہ بھی اس کی حقانیت میں شک کرنا شروع کردیں" چنانچہ امویوں کے دین کے پیروکار نہ صرف اس موضوع میں بلکہ تمام اعتقادی موضوعات میں تیرہ صدیاں پرانے بہتان دہراتے رہتے ہیں اور پیروان اہل بیت (ع) کی دل آزاری کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اور دوسری طرف سے امریکہ اور اسرائیل کے مفادات کے تحفظ کے لئے اتحاد بین المسلمین پر وار کررہے ہیں۔
اس بار جو الزام اچھالا گیا ہے وہ یہ ہے کہ طلاق اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ فعل ہے لیکن امام حسن علیہ السلام نے نکاح اور طلاق کے حوالے سے معاذاللہ افراط کا راستہ چنا تھا۔ ہم نے تھوڑی سے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ بعض اپنے بھی اس بہتان سے متاثر ہوئے ہیں اور بعض نے تو اس کو امام علیہ السلام کے لئے باعث فخر گردانا ہے اور لکھا ہے کہ آپ (ع) نے 300 شادیاں کی ہیں جبکہ حقیقت میں آپ (ع) کی بائیس یا اکتیس اولادیں ہیں جو اس تشہیری مہم کی دستاویزات سے مغایرت رکھتی ہے۔
بہرحال یہ ایک جعلی روایت ہے جو بعض مسلم مؤرخین نے جان کر یا انجانے میں نقل کی ہے۔ افسوس یہ ہے کہ انھوں نے اس روایت کے بارے میں تحقیق کو ضروری نہیں سمجھا ہے اور اندھادھند انداز سے اسے نقل کرتے رہے ہیں حتی کہ آج اہل بیت (ع) کے دشمنوں نے اسے اہل بیت (ع) کی عدم عصمت کی دستاویز قرار دیا ہے اور یہ جاہل لوگ اتنا بھی نہیں سوچتے کہ جس فعل کی برائی کو یہ سمجھتے ہیں کیا سبط نبی (ص) اس کو سمجھنے سے قاصر تھے؟ اور جس کو رسول اللہ (ص) نے اپنا پھول اور سردار جوانان جنت قرار دیا ہے یہ اس کی شخصیت پر کیچڑ اچھال کر ان کی شان میں رسول اللہ (ص) سے منقولہ درجنوں احادیث شریفہ کو متنازعہ بنا رہے ہیں۔
یہ ان ہی موضوعات میں سے ہے کہ جاہلوں نے اسے اچھالا اور اسلام دشمن قوتوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا جس طرح کہ ان ہی جاہلوں نے اسلامی روایات میں رسول اکرم (ص) کی نسبت بھی ایسے ہی جعلی افسانے شامل کئے جو بعد میں شیطانی آیات جیسی توہین آمیز کتابوں کی صورت میں برآمد ہوئیں اور اسلامیان عالم کی دل آزاری کا سبب بن گئے اور کفار نے بھی انہیں اسلام سے انتقام لینے کا وسیلہ قرار دیا۔ اور اکرم البستانی جیسوں نے بھی ان ہی روایات کا سہارا لے کر اسلام کی خوب خوب بے حرمتی کردی۔
امام حسن علیہ السلام اور تہمت طلاق
بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ امام حسن علیہ السلام پے درپے شادیاں کرتے اور طلاق دیا کرتے تھے اور یہ سلسلہ اس حد تک جاری رہا کہ کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے کوفہ کے عوام سے فرمایا: اے اہل کوفہ! اپنے بیٹیاں میرے بیٹے حسن سے مت بیاہو کیونکہ وہ بہت زیادہ طلاق دینے والے ہیں!
قبیلۂ ہمدان کے ایک فرد نے اٹھ کر کہا: ہم ان کو بیٹیاں دیں گے چاہے انہیں رکھ لیں چاہیں انہيں طلاق دیں۔ 1
حالانکہ قبیلۂ ہمدان جدی پشتی شیعہ قبیلہ تھا اور اس قبیلے نے امام زمانہ (ع) کی غیبت کے بعد عراق میں پہلی شیعہ حکومت کی بنیاد رکھی تھی جو ایران میں علوی سادات اور آل بویہ کی شیعہ حکومتوں کی معاصر تھی۔

بہر حال یہ ایک بے بنیاد بہتان ہے اور اس کا حقیقت سے دور کا تعلق بھی نہیں ہے۔ کیونکہ:
1۔ یہ روایت ریحانۃ الرسول امام حسن مجتبی علیہ السلام کی شان کے خلاف ہے۔
2۔ یہ روایت اور اس قسم کی دیگر روایات تین ہی راویوں سے نقل ہوئی ہیں اور یہ تینوں غاصب عباسی حکمرانوں کے درباری کاتب یا مؤرخ تھے۔
3۔ یہ روایات اگر درست ہوتیں تو بنو امیہ کے درباری اسے کیوں بھول گئے تھے اور عباسیوں کے دور میں کیوں سامنے آئیں؟
4۔ عباسی بادشاہ منصور دوانیقی کے دور میں جب حسنی سادات نے اس کے خلاف تحریک کا آغاز کیا تو امام حسن علیہ السلام کے خلاف زہر افشانی اسی سفاک اور غاصب بادشاہ کے حکم پر ہی شروع ہوئی اور نکاح و طلاق کثیر والی روایات بھی اسی سازش کے تحت وضع کی گئیں اور مقصد حسنیوں کی تحریک کو نقصان پہنچانا تھا۔
ابتداء میں ہم روایات اور تاریخی نقل کے سلسلے میں تحقیق کرتے ہیں اور اس کے بعد اس باعث شرم بہتان کا جواب دیتے ہیں۔
امام حسن مجتبی علیہ السلام کی متعدد شادیوں اور بار بار طلاق کی روایات کو تین گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
پہلا گروہ:
اس گروہ میں وہ روایات نقل ہوئی ہیں جن میں متعدد شادیوں سے منع کیا گیا ہے اور اس حکم کے دلائل بیان ہوئے ہیں۔
1۔ برقی نے محاسن نامی کتاب میں امام صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ "ایک آدمی امیرالمؤمنین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: میں آپ کی خدمت میں اپنی بیٹی کے بارے میں مشورہ کرنے حاضر ہوا ہوں کیونکہ آپ کے بیٹے امام حسن اور امام حسین (ع) اور آپ کے بھتیجے عبداللہ بن جعفر (رض) اس کا رشتہ لے کر آئے ہیں، امیرالمؤمنین (ع) نے فرمایا: المستشار مؤتمن؛2 جان لو کہ امام حسن بیویوں کو طلاق دیا کرتے ہیں چنانچہ اپنی بیٹی کا رشتہ امام حسین سے کردو کیونکہ یا تماری بیٹی کے لئے بہتر ہے۔3
2۔ محمد بن یعقوب کلینی نے اپنی سند سے عبداللہ بن سنان سے روایت کی ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ایک روز امیرالمؤمنین علیہ السلام کوفہ کے منبر پر رونق افروز ہوئے اور فرمایا: میرے بیٹے حسن کو اپنی بیٹیوں کا رشتہ مت دیا کرو کیونکہ وہ بہت زیادہ طلاق دینے والے ہیں؛ اتنے میں قبیلہ ہمدان میں سے ایک مرد اٹھا اور کہا: ہاں! اللہ کی قسم کہ ہم اپنی بیٹیوں کی شادیاں امام حسن سے کرائیں گے کیونکہ وہ رسول اللہ (ص) اور امیرالمؤمنین (ع) کے فرزند ہیں؛ پس اگر وہ چاہیں تو ہماری بیٹیوں کو رکھ لیں چاہیں تو انہیں طلاق دیں۔4
روایات کا دوسرا گروہ
ان روایات میں گویا امیرالمؤمنین علیہ السلام نے امام حسن کی متعدد شادیوں اور بار بار طلاق سے شدید تشویش ظاہر کی ہے:
1۔ بلاذری نے ابو صالح ابوصالح سے روایت کی ہے کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا: حسن نے اتنی شادیاں کیں اور طلاقیں دیں کہ مجھے خوف لاحق ہوا کہ کہیں ان کا یہ عمل ہمارے لئے دشمنیاں پیدا نہ کرے!۔5
2۔ سیوطى نے امیرالمؤمنین علیہ السلام سے روایت کی ہے: حسن علیہ السلام شادیاں کرتے اور طلاق دیتے یہاں تک کہ میں فکرمند ہوا کہ کہیں قبائل اور اقوام کی جانب سے ہمیں کوئی دشمنی نہ پہنچے!۔6
3۔ ابوطالب مکی لکھتا ہے: امیرالمؤمنین علیہ السلام امام حسن علیہ السلام کی شادیوں اور طلاقوں سے پریشان رہتے تھے اور اپنی تقاریر میں فرمایا کرتے تھے: میرے فرزند حسن اپنی بیویوں کو طلاق دیتے ہیں چنانچہ انہیں اپنی بیٹیوں کا رشتہ نہ دیا کریں!۔ 7
4۔ مجلسى محمد بن عطیه سے نقل کرتے ہیں کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام امام حسن علیہ السلام کی پے درپے شادیوں اور طلاقوں سے پریشان ہوا کرتے تھے اور مطلقہ بہوؤں کے خاندانوں سے شرم و حیا کیا کرتے تھے۔ اور فرمایا کرتے تھے: حسن بہت زیادہ طلاقیں دیا کرتے ہیں چنانچہ انہيں رشتے نہ دیا کریں۔8
اپنی بات: ان روایات کو اگر درست مان لیا جائے تو پہلی بات تو یہ ہے کہ امام حسن علیہ السلام کی شادیوں اور طلاقوں کا مسئلہ جنگ جمل و صفین و نہروان کے برابر اہم مسئلہ بن چکا تھا، معاذ اللہ امیرالمؤمنین علیہ السلام اپنے بیٹی کی نافرمانیوں سے تنگ آچکے تھے اور معاذاللہ ان کی نافرمانی کا حال یہ تھا کہ امیر علیہ السلام ان سے براہ راست بات کرنے کی بجائے لوگوں سے درخواستیں کررہے تھے کہ وہ آپ (ع) کو بیٹے کے رشتوں کا منفی جواب دیا کریں!!! کیا کوئی عقلمند شخص راکب دوش رسول امام حسن مجتبی پر نافرمانی کا الزام لگا سکتا ہے؟
روایات کا تیسرا گروہ
اس قسم کی روایات میں امام حسن علیہ السلام کی شادیوں کی تعداد بیان ہوئی ہے گو کہ رسول اللہ (ص) اور آل رسول اللہ کے گھوڑوں، خچروں، گدھوں، اونٹوں، تلواروں، دستاروں اور جوتوں تک کے نام ذکر کرنے والے ان مؤرخین نے آپ (ع) کی بیویوں کے نام اور ان کے خاندانوں کے نام ذکر کرنا ضروری نہیں سمجھے ہیں۔ ان راویوں میں بھی سنیوں کے علاوہ شیعہ راوی بھی موجود ہیں:
1۔ كفعمى نے لکھا ہے کہ آپ (ع) نے چونسٹھ شادیاں تھیں۔9
2۔ ابوالحسن مدائنى کے مطابق آپ کی شادیوں کی تعداد ستر۔ 10
3۔ ابن حجر کے مطابق نوے۔ 11
4۔ كلینى کے مطابق پچاس۔12
5۔ بلخى کے مطابق دوسو۔13
6۔ ابوطالب مكى کے مطابق دوسوپچاس۔14
7۔ بعض دیگر نے امام حسن علیہ السلام کی شادیوں کی تعداد بڑھا کر 300 بھی بتائی ہے۔15
8۔ بعض نے کہا ہے کہ امام (ع) نے 400 تک شادیاں کی تھیں۔16
ہمارا جواب
ستم ظریفی تو یہ ہے کہ یہ روایات اپنوں اور پرایوں نے امام حسن مجتبی علیہ السلام کے بارے میں بیان کی ہیں اور اگرچہ شیعہ راویوں اور بعض غیر شیعہ راویوں نے یقینی طور پر بدنیتی سے یہ روایات نقل نہیں کی ہیں لیکن نتیجہ وہی ہوا ہے جو دشمن چاہتا تھا اور آج اہل بیت (ع) کے دشمن ان ہی روایات کو دستاویز بنا کر حریم اہل بیت (ع) پر یلغار کررہے ہیں۔
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے امامین حسنین علیہما السلام کے بارے میں فرمایا:
قال رسول الله (ص): الحسن و الحسین سبطان من الاسباط۔ 17
حسن اور حسین اسباط میں سے دو سبط ہیں۔
قال رسول الله (ص): الحسن و الحسین سیدا الشباب اهل الجنة۔18
حسن اور حسن جوانان جنت کے دو آقا اور دو سرور و سردار ہیں ۔
قال رسول اللہ (ص) لفاطمۃ الزہراء (س) یا حبیبتی ۔۔۔ و منا سبطا هذه الامة و هما ابناک الحسن و الحسین و هما سیدا شباب أهل الجنة و أبوهما و الذی بعثنی بالحق خیر منها۔ 19
اے میری پیاری بیٹی! اور ہم میں سے ہی ہیں دو سبط جو آپ کے بیٹے حسن و حسین ہیں جو جوانان جنت کے سردار ہیں اور ان کے باپ ـ اس خدا کی قسم جس نے مجھے نبوت پر مبعوث فرمایا ـ ان دو سے افضل ہیں۔
قال رسول الله (ص): احب اهل بیتی الی الحسن و الحسین۔20
میری اہل بیت اور میرے خاندان میں میں حسن و حسین (ع) سے سب سے زیادہ محبت کرتا ہوں۔
قال رسول الله (ص): من احبهما فقد احبنی و من ابغضهما فقد ابغضنی۔21
جس نے امام حسن حسن اور امام حسین (ع) سے محبت کی میں اس سے محبت کرتا ہوں اور جس نے ان دو سے دشمنی کی میں اس کو اپنا دشمن سمجھتا ہوں۔
قال رسول الله (ص): الحسن و الحسین ابنای من احبهما احبنی و من احبنی احبه الله و من احبه الله ادخله الجنة۔22
حسن اور حسین میرے دو بیٹے ہیں جو ان سے محبت رکھے وہ مجھ سے محبت رکھتا ہے اور جو مجھ سے محبت کرے اللہ اس سے محبت کرتا اور اس کو جنت میں داخل کرتا ہے۔
قال رسول الله (ص) للحسن و الحسین: انتما امامان ولامکما الشفاعة، و قال من احبنی و احب هذین و اباهما و امهما کان معی فی درجتی فی الجنة یوم القیامة۔23
آپ (ص) نے امامین حسنین (ع) سے مخاطب ہوکر فرمایا: آپ دونوں پیشوا اور امام ہیں اور شفاعت آپ دونوي کی والدہ ماجدہ (سیدہ بنت الرسول (ص)) کے لئے مخصوص ہے۔ نیز فرمایا: جو شخص ان دو اور ان کے والد اور والدہ کو دوست رکھے وہ قیامت کے روز جنت میں میرے ساتھ اور میرے رتبے میں ہوگا۔
ان احادیث کا ذکر اس لئے ضروری نظر آیا کہ موضوع بہت دشوار ہے اور قابل برداشت نہیں ہے کہ کوئی اہل بیت (ع) کو ایسی نسبتیں دیں جو وہ اپنے عام سے بچوں کو دینا پسند نہیں کرتے جبکہ یہاں قطب عالم امکان امام حسن ریحانۃ الرسول (ص) کو انھوں نے ایک ساتھ کئی الزامات دیئے ہیں تا کہ ان کو اپنے بعض پسندیدگان کے رتبے تک پہنچاسکیں کیونکہ اہل بیت کے برابر ہونا تو ممکن نہیں چنانچہ ان کا رتبہ ہی گرادیا جاتا ہے۔
امیرالمؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں: نحن أهل البيت لا يقاس بنا أحد۔ 24
ہم اہل بیت سے کسی کا بھی قیاس نہیں کیا جاسکتا (کبھی بھی کسی کے بارے میں نہیں کہا جاسکتا کہ فلان شخص اہل بیت رسول کی مانند ہے)۔
اور پھر وہی امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: زمانے کے لوگوں نے میرا رتبہ گرایا پھر گرایا اور پھر گرایا حتی کہ کہنے لگے "علی اور معاویہ!" یہاں بھی بعض دوسروں کو امام حسن کے برابر لانا مشکل ہوتا ہے تو بادشاہ وقت حکم دیتا ہے "گرادو امام حسن کا رتبہ حتی کہ وہ میرے برابر ہوجا ئیں تو اب کوئی بات نہیں ملتی تو شادیوں والا افسانہ گڑھ لیا جاتا ہے۔
چنانچہ ہم نے اپنے مجروح دل کو دلاسا دینے کے لئے ان احادیث کا سہارا لیا آخر حسنین کریمین حضرت ذوالجلال کا آ ئینۂ جلال و جمال ہیں؛ دین کے محافظ، اسلام کو زندہ کرنے والے اور احکام قرآن کی بقاء کی ضمانت دینے والے ہیں؛ دونوں نے دین کے تحفظ کی خاطر ابوسفیان کے بیٹے اور پوتے کے ہاتھوں جام شہادت نوش کیا ہے؛ اور دونوں نے دین کی حفاظت کے لئے مشیت الہیہ پر عمل کیا؛ وہ معصوم ہیں اور حضرت سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں: "ما یشاءون الا ان یشاء الله"25 اہل بیت (ع) کوئی کام نہیں چاہتے سوائے اس کے جو اللہ نے چاہا ہو بالفاظ دیگر وہ وہی چاہتے ہیں جو اللہ نے چاہا ہو۔
اب ہم بحث کی طرف لوٹتے ہیں:
یہ روایات امام حسن مجتبی (ع) کی شان و شخصیت کے منافی ہیں
جس طرح کہ اس سے پہلے بھی اشارہ ہوا یہ عمل امام حسن مجتبی علیہ السلام کے مقام و شخصیت سے سازگار نہیں ہے کیونکہ امام حسن علیہ السلام کی شخصیت کی جو تصویر کشی قرآن اور نبی اکرم (ص) اور ائمہ معصومین (ع) کی احادیث سے ہوئی ہے وہ ان روایات سے تناسب نہیں رکھتیں جو یہاں نقل ہوئی ہیں۔
اللہ تعالی قرآن مجید میں امام حسن علیہ السلام سمیت دیگر اصحاب کساء سے مخاطب ہوکر ارشاد فرماتا ہے: (اِنَّمَا یُرِیدُ اﷲُ لِیُذْہِبَ عاَنْکُمْ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا۔ 26
''(پیغمبر کے) گھر والو!اﷲ تعالیٰ صرف یہ چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) گندگی (ناپاکی) دور کرے اور تم کو خوب ستھرا و پاک صاف بنادے۔''
آیت مودت میں فرماتا ہے: "قل لا أسألكم عليه أجراً إلا المودة في القربى"۔27
اے میرے رسول (ص)! کہہ دو کہ میں تم (امتیوں) سے اپنی رسالت پر کوئی اجر نہیں مانگتا سوائے اس کے کہ میرے اہل بیت (ع) سے محبت و مودت رکھو۔
اور ہم تمام سنی اور شیعہ راویوں نے کہا ہے کہ رسول اللہ کی آل اور اہل میں امام علی، حضرت سیدہ فاطمہ، امام حسن، امام حسین اور امام حسین کی نسل سے آنے والے نو ائمہ علیہم السلام شامل ہیں۔
فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ )28
اور تم کو حقیقت الحال تو معلوم ہو ہی چلی ہے تو ان سے کہنا کہ آؤ ہم اپنے بیٹوں اور عورتوں کو بلائیں تم اپنے بیٹوں اور عورتوں کو بلاؤ اور ہم خود بھی آئیں اور تم خود بھی آؤ پھر دونوں فریق (خدا سے) دعا والتجا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت بھیجیں۔
یہ ثابت کرنے کے لئے سند و ثبوت کی ضرورت نہیں ہے کہ آیت مباہلہ بھی آیت تطہیر اور آیت مودت کی طرح اہل بیت علیہم السلام کی شان میں آئی ہے اور اس آیت میں ابنائنا سے مراد امام حسن اور امام حسین (ع) ہیں۔
ابن كثیر دمشقى لکھتا ہے: امیرالمؤمنین علیہ السلام اپنے بیٹے امام حسن علیہ السلام کا بہت ہی احترام اور تعظیم کیا کرتے تھے۔29
امام حسین علیہ السلام اپنے بھائی امام حسن علیہ السلام کے لئے اتنے احترام و تعظیم کے قائل تھے کہ کبھی اپنے بڑے بھائی کی موجودگی میں بات نہیں کرتے تھے۔30
طواف کی حالت میں لوگ اس طرح امام حسن اور امام حسین علیہ السلام کی طرح ہجوم کیا کرتے تھے کہ کبھی تو ان کے کچلے جانے کا خطرہ پیدا ہوجایا کرتا تھا۔ 31
کبھی امام حسن علیہ السلام اپنے گھر کے دروازے پر تشریف لاکر بیٹھ جاتے تھے اور جب تک وہاں رہتے آپ (ع) کی ہیبت کی وجہ سے لوگوں کا آپ (ع) کے گھر پر آنا جانا بند رہتا تھا۔ 32
امام حسن علیہ السلام کے معنوی اور روحانی حالات میں منقول ہے کہ: حالت وضو میں آپ (ع) کے چہرہ منور کا رنگ دگرگوں ہوجاتا تھا اور پوچھنے والوں کے جواب میں فرمایا کرتے تھے:
«حقّ على كلّ من وقف بین یدى ربّ العرش ان یصفر لونه و یرتعد فرائصه»۔ 33
یہ ان پر سب کے حق ہے جو رب عرش کے سامنے کھڑے ہونے جاتے ہیں کہ ان کا چہرہ پیلا پڑجائے اور وہ لرزہ بر اندام ہوجائے۔
اب ہم پوچھتے ہیں کہ:
1۔ جو امام معصوم خالق یکتا کے حضور اس طرح لرزہ بر اندام ہو کر حاضر ہوتے ہیں وہ خدا کو چار سو مرتبہ کیونکر ناراض کرسکتے ہیں اور طلاق کا عمل اتنی مرتبہ کیونکر انجام دے سکتا ہے جو حلال اعمال میں سب سے مغضوب ترین عمل ہے؟
2۔ اگر بفرض محال یہ روایات درست ہوں تو یہ شادیوں اور طلاقوں سے متعلق روایات اس زمانے میں سے تعلق رکھتی ہیں جب امیرالمؤمنین علیہ السلام کوفہ میں تھے اور مسلمانوں کی ظاہری خلافت بھی آپ (ع) کے اختیار میں تھی اور اگر ہم جنگ جمل (میں ناکثین یا عہدشکنوں کے فتنے و بغاوت)، جنگ صفین میں قاسطین (حق سے روگردانی کرنے والے گمراہوں کی بغاوت اور فتنے، اور جنگ نہروان میں مارقین (یعنی دین سے خارج ہونے والوں) کی بغاوت اور فتنے کے ایام کو امیرالمؤمنین (ع) کی مدت حکومت سے کم کردیں تو کچھ ہی مہینے باقی رہ جاتے ہیں اور اگر ان فتنوں کے مقدمات و مؤخرات کو بھی شمار کریں تو دوسری اور تیسری شادی کے بارے میں سوچنے کا وقت بھی نہیں ملتا اور چنانچہ یہ دعوی عقلی لحاظ سے بھی مکمل طور پر باطل ہے۔ اگر ہم ہر شادی سے طلاق تک کی مدت کو ملحوظ رکھیں اور اس بات کو بھی مد نظر رکھیں کہ حجاز پر مسلط سعودی وہابی بادشاہوں کی روایت کے برعکس (جو سو تک شادیاں ایک ہی آن میں کرنا جائز سمجھتے ہيں اور اتنی ہی بیویوں کو ایک ہی آن میں اپنی حرمسراؤں میں رکھتے ہیں اور توحید و دینداری کے مدعی وہابی مفتی شریعت وہابیہ کے مطابق انہیں ایسا کرنے کے حوالے سے مجاز سمجھتے ہیں)، شریعت محمدیہ (ص) کے مطابق ایک ہی وقت چار سے زائد زوجات رکھنے کی اجازت رسول اللہ (ص) کے سوا کسی کو بھی نہیں ہے تو ایسی صورت میں ہر نئی شادی کے لئے ایک زوجہ کو طلاق دینی پڑے گی تو یہ ساری شرائط مد نظر رکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ یہ الزامات نہایت مضحکہ خیز ہیں اور ان الزامات سے ان کے بانی یعنی منصور دوانیقی اور اس کے منشیوں اور مستوفیوں کی کم علمی ظاہر ہوتی ہے۔
3۔ کیا امیرالمؤمنین علیہ السلام کی نہی نہی عن المنکر تھی یا نہی عن الحلال تھی؟ دونوں صورتوں میں غلط ہے کیوں؟ اس لئے کہ: امیرالمؤمنین اور امام حسن علیہماالسلام آیت تطہیر کی گواہی کے مطابق معصوم تھے اور دونوں کو ہر گونہ رجس سے پاک کردیا گیا تھا چنانچہ ان میں سے کوئی بھی ایسا فعل کرنہیں سکتا جس سے انہیں نہی کیا جاسکے اور نہی عن الحلال بھی تو بنیادی طور پر غلط ہے اور امام معصوم نہی عن الحلال جیسے فعل قبیح کے مرتکب نہیں ہوسکتے۔
4۔ کیا امیرالمؤمنین علیہ السلام کی نہی مقدمے پر مبنی تھی یا پھر مقدمے کے بغیر تھی؟ یعنی یہ کہ کیا آپ (ع) نے ابتداء میں آپ نے اپنے فرزند سے فرمایا تھا کہ ان کے ان افعال سے ناراض ہیں یا نہیں بلکہ براہ راست معاشرے میں جاکر اپنے بیٹے کی شکایت عوام تک پہنچائی ہے؟ اگر تمہید و مقدمے کے بشیر ہو تو یا عمل تو بنیادی طور پر امیرالمؤمنین (ع) سے بعید اور آپ (ع) کی روش کے منافی ہے اور محال ہے کہ آپ (ع) کسی تمہید کے بغیر اپنے فرزند ارجمند اور وہ بھی امام حسن (ع) جیسے بیٹے کی آبرو نیلام کردیں۔ اور اگر تمہید پر مبنی تھی تو امام حسن سے تو کیا ایک عام سے باایمان انسان سے بھی بعید ہے کہ وہ امیرالمؤمنین (ع) جیسے والد اور امام کو اتنا تنگ کرے اور اتنا پریشان کرے کہ وہ دلتنگ اور پریشان رہا کریں۔
5۔ میں ایمیل بھیج کر یا کتابوں یا ویب سائٹوں پر لکھ کر امام حسن مجتبی علیہ السلام پر طعن کرنے والے شخص یا اشخاص سے پوچھنا چاہوں گا کہ کیا وہ اپنے آپ کو باور کراسکتا/سکتے ہیں کہ امام حسن علیہ السلام اتنی بڑی شان و منزلت کے باوجود اپنے والد کے لئے شرم و حیا اور شرمندگی اور خجلت کے اسباب فراہم کرسکتے تھے؟! کیا امام حسن اور امام حسین اور ان کے والد سے منسوب کسی مبینہ پیر، قلندر، مولوی اور مفتی سے وہ ایسی توقع کرسکتے ہیں کہ وہ امام اور اسلام اور خدا کی اس طرح نافرمانی کرسکتے ہیں اور اس طرح اپنے امام اور اپنے باپ کی نافرمانی کرسکتے ہیں؟؟! کیا اپنے ان ہی عام رشتہ داروں یا بیٹوں اور بھائیوں سے توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ علاقے کی قوموں اور قبیلوں میں آپ کے لئے دشمنیاں ابھاریں کہ اگر ایسا کریں تو آپ ان پر دین سے دوری ہی کا نہیں بلکہ عقل سے محرومی تک کا الزام لگائیں گے؟!
الف: ابن عساکر کی روایت میں یہ دینی سقم اور نفسیاتی مشکل بخوبی واضح ہے:
ابن عساکر سوید بن غفله سے نقل کرتے ہیں:
امام حسن (ع) کی ایک زوجہ قبیلہ خثعم سے تھیں جنہوں نے امیرالمؤمنین علیہ السلام کی شہادت کے بعد امام حسن (ع) کے ہاتھ پر بیعت کی اور آپ (ع) کو خلافت سنبھالنے پر مبارکباد دی چنانچہ امام (ع) نے ان سے فرمایا: تم نے امیرالمؤمنین (ع) کی شہادت پر اپنی خوشی اور شماتت کا اظہار کردیا ""چنانچہ میں نے تمہیں تین طلاقیں دے دیں!!!!!؟""
اس خاتون نے کہا: خدا کی قسم میری بات کا مطلب یہ نہیں تھا۔ بہر حال یہ خاتون عدت کے ایام کے خاتمے پر آپ (ع) کے گھر سے خارج ہوگئیں!!!؟؟
امام (ع) نے رقم مہر کے ساتھ بیس ہزار درہم ملا کر ان کے لئے روانہ کردیئے تو خاتون نے کہا کہ یہ بہت ناچيز متاع ہے جو جدا ہونے والے دوست سے مجھے مل رہی ہے۔
خاتون کی بات امام (ع) تک پہنچتی ہے تو آپ بہت روتے ہیں اور فرماتے ہیں: اگر میں نے اپنے والد اور اپنے نانا سے نہ سنا ہوتا کہ "جب کوئی اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین ‍طلاقیں دیدے جب تک اس عورت نے نیا شوہر اختیار نہ کیا ہو پہلے شوہر پر حلال نہیں ہوسکے گی، تو میں رجوع کرتا۔ 34
اس من گھڑت افسانے کی جعلی پن کا پہلا ثبوت یہ ہے کہ:
1۔ امام حسن علیہ السلام کسی بھی تمہید کے بغیر اور اس خاتون کے مقصد کو توجہ دیئے بغیر صرف خلافت کا عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد کہنے کی پاداش میں اتنا سخت غصے ہوجاتے ہیں اور آپے سے باہر ہوجاتے ہیں کہ اپنی عزیز زوجہ کو طلاق دیدیتے ہیں جن کے درمیان محبت کا ناطہ ابن عساکر کی روایت سے ظاہر ہے۔ ایک عقلمند انسان سے ـ معصوم نہ بھی ہو ـ ایسی حرکت کی توقع نہیں رکھی جاسکتی چہ جائیکہ امام حسن علیہ السلام سے ایسی حرکت سرزد ہوجائے۔
2۔ فقہ اہل بیت (ع) کے مطابق طلاق دو عادل گواہوں کے سامنے ہونی چاہئے جبکہ ابن عساکر کی روایت کے مطابق اس شرط کو ملحوظ نہیں رکھا گیا ہے! فقہ اہل بیت بھی امام علی، امام حسن، امام حسین اور دوسرے اماموں سے آئی ہے اب سوال یہ ہے کہ یہ کیونکر ممکن ہے کہ امام معصوم اپنے ہی احکام اور اپنی ہی فقہ کی خلاف ورزی کرے؟
3۔ معلوم نہیں کہ یہ طلاق ہوئی بھی ہے یا نہیں؟ امام حسن علیہ السلام کی خثعمی زوجہ تھیں بھی یا نہیں تھیں؟ بہرحال اگر امام حسن علیہ السلام نے اپنی زوجہ کو اپنے والد اور امام کی شہادت پر خوش ہونے کی پاداش میں طلاق دی تھی تو حق مہر تو دینا چاہئے تھا لیکن یہ بیس ہزار درہم کا اضافہ کس لئے تھا۔
اور ہاں! اس روایت میں ابن عساکر کی اموی پرستی کا عنصر بھی تھوڑا تھوڑا عیاں ہوا ہے اور وہ یوں کہ اس نے امام حسن علیہ السلام کو معاذاللہ جلدباز انسان کے طور پر متعارف کرایا ہے جو بات بے بات پر آپے سے باہر ہوجاتے ہیں؛ پھر زوجہ کی زبان سے امام حسن (ع) کو ابن عساکر کی جانب سے کہا گیا ہے کہ "خدا کی قسم میرا مطلب یہ نہیں تھا: پھر تین طلاقوں کا الو سیدھا کرنے کے لئے انہیں امام حسن اور اہل بیت (ع) سے بھی منسوب کیا جاتا ہے؛ اور پھر امام حسن (ع) پر عدم ثابت قدمی کا الزام دھرتے ہوئے انہیں سابقہ زوجہ کو 20 ہزار درہم بھجواتے ہوئے دکھاتا ہے اور سابقہ زوجہ کی طرف سے پھر بھی امام حسن کو محبت بھرا پیغام بھجواتا ہے جس پر امام حسن (ع) نادم و پشیمان ہوتے ہيں اور رونے لگتے ہیں اور "تین طلاقوں کے ‍قانون" کے استحکام پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہوئے اپنی پیاری زوجہ کو اس قانون پر قربان کرتے ہوئے دکھاتا ہے؟!!
4۔ تین طلاقوں والا قانون جس کے تحت ایک ہی مجلس میں بیوی کو تین طلاقیں دی جاسکتی ہیں، مذہب اہل بیت (ع) سے دور دور کا تعلق بھی نہیں رکھتا اور یہ طلاق رسول اللہ (ص) کے زمانے میں نہیں تھی اور اگر کوئی ایک ہی نشست میں تین طلاقیں دیتا تو وہ ایک طلاق سمجھی جاتی تھی اور ابوبکر کے زمانے یہی درست شرعی قانون نافذ رہا جو اہل بیت (ع) کے مذہب میں آج تک نافذ ہے اور دوسرے خلیفہ کے دور کے ابتدائی دو برسوں تک بھی نافذ رہا جس کے بعد دوسرے خلیفہ نے شرعی قوانین میں تبدیلی ضمن میں اس قانون کو بھی تبدیل کیا اور تین طلاقیں ایک ہی مجلس میں دی جانی لگیں گو کہ مصر میں یہ ‍قانون منسوخ ہوگیا ہے اور شیعہ قانون طلاق رائج ہے جو وہی بنیادی اسلامی قانون ہے۔35 چنانچہ ائمہ اہل بیت (ع) سے اس نئے قانون کی نسبت دینا مضحکہ خیزی کی انتہا ہے۔
چنانچہ فقہ اہل بیت (ع) کے تحت ایک ہی مجلس میں سو بار طلاق بھی ایک ہی طلاق سمجھی جاتی ہے اور مرد طلاق کے بعد عدت کے ایام میں بیوی سے رجوع کرسکتا ہے یا پھر عدت کی مدت ختم ہونے کے بعد اس کے ساتھ نکاح کرسکتا ہے لہذا اگر ابن عساکر کا یہ افسانہ درست بھی مان لیا جائے تو امام (ع) کے پاس عدت کے دنوں میں رجوع یا عدت کے بعد نکاح کا امکان موجود تھا جو اگر ہمیں معلوم ہے تو امام (ع) کو بطریق اولی معلوم تھا چنانچہ رونے دھونے اور نادم ہونے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔
اور ہاں! تین طلاقیں رسول خدا (ص) کے حکم کے مطابق کچھ یوں ہیں کہ مرد اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے اور رجوع کرتا ہے، پھر طلاق دے کر رجوع کرتا ہے اور تیسری مرتبہ طلا‍ق دیتا ہے تو اس کے بعد اس سے رجوع نہیں کرسکتا حتی کہ کوئی اور شخص اس سے شادی کرلے اور اگر اس نے اس کو طلاق دی تو پہلا شوہر اس سے نکاح کرسکے گا اور یہ عمل تین مرتبہ جاری رہ سکتا ہے جس کے بعد وہ عورت اس پر حرام ہوجاتی ہے۔
ابن عساکرکی روایت کی صورت حال اتنی مضطرب ہے اور اس پر اتنے اعتراضات وارد ہیں کہ اس کی سند کا جائزہ لینے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
ب۔ اسناد کا جائزہ
1۔ اکثر مؤرخین نے اس تاریخی واقعے کو سند و ثبوت ذکر کئے بغیر نقل کیا ہے اور اس کو "ابوالحسن مدائنى"، "محمد بن عمر واقدى" اور "ابوطالب مكّى"۔
دونوں صورتوں میں قابل جرح اور حامل اشکال ہے کیونکہ: ابن عساکر لکھتا ہے: و روى محمد بن سیرین ۔۔۔ اور محمد بن سیرین نے روایت کی ہے کہ۔۔۔36؛ میرخواند شافعى لکھتا ہے: "نقل است كه۔۔۔ نقل ہے کہ ۔۔۔" 37؛ سیوطى کہتا ہے کہ: "كان الحسن یتزوج۔۔۔ امام حسن (ع) شادیاں کرتی تھے۔۔۔"۔38 "ابوطالب مكّى لکھتا ہے: "انّه تزوّج۔۔۔ بتحقیق کے اس نے شادی کی۔۔۔"39؛ "سبط بن الجوزى نے لکھا ہے: "و فى روایة انّه تزوّج۔۔۔ اور روایت ہے کہ بتحقیق انھوں نے شادی کی۔۔۔"40؛ ابوالحسن مدائنى نے لکھا ہے: "كان الحسن كثیرالتزویج۔۔۔ حسن (ع) کثیرالتزویج تھے۔۔۔"۔41
یہ تمام روایتیں مرسل ہیں اور ان کا سلسلۂ سند ذکر نہیں ہوا ہے۔ اور جن لوگوں نے ان تین مؤرخین پر اعتماد کیا ہے ان سے بس یہی کہنا چاہئے کہ: یہ تینوں مؤرخین بھی امام حسن علیہ السلام کے زمانے میں نہ تھے اور ان تینوں نے بھی تمہاری طرح یہ روایتیں سلسلہ سند ذکر کئے بغیر نقل کی ہیں جس طرح کے ہم نے مدائنى اور مكّى سے نقل کیا چنانچہ ہم یہاں کہتے ہیں کہ اس طرح کے ناقابل اعتماد راویوں کی بے اعتمادی اور بے ثبوتی کو دیکھ کر اعلان کیا جاتا ہے کہ ان لوگوں کی طرف سے امام حسن علیہ السلام کی شادیوں، زوجات کی تعداد، طلاقوں، تزویج و طلاق وغیرہ وغیرہ کے بارے میں منقولہ ہر قسم کی روایات جھوٹی اور بے بنیاد ہیں۔ 2۔ ارباب جرح و تعدیل میں سے بہت سوں نے ان تین راویوں کو کلی طور پر ناقابل اعتماد و اعتبار قرار دیا ہے۔ جن لوگوں نے ان افراد کو ناقابل استناد و اعتماد قرار دیا ہے ان میں الذہبى،42، العسقلانى 43، ابن الجوزى 44، عماد الحنبلى 45، الرازى 46، ابن الاثیر الجزرى 47، زركلى 48، علامه امینى 49، سیدمحسن الامین 50، هاشم معروف الحسنى 51 وغیرہ کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے۔
3۔ ان تین مؤرخین نے ایسے راویوں سے روایت کی یعنی ایسے استادوں کے شاگرد تھے جو یا تو بنو امیہ کے پیروکار تھے یا بالکل مجہول اور ضعیف تھے؛ مثلاً مدائنی عَوانة بن حَکَم کلبی سے نقل روایت کرتا ہے جبکہ عوانہ معاویہ اور بنی امیہ کی سوانح لکھنے اور ان کے فائدے میں وضع حدیث کا ملزم ہے اور اس کی روایات بہر کیف بنوامیہ کی جانب رجحان رکھتی ہیں۔ 52 اور اس کے بعض مشائخ اور اساتذہ منجملہ جعفر بن ہلال 53، عاصم بن سلیمان احول 54 و ابن عثمان 55، ضعیف یا مجہول ہیں۔ یحیی بن معین کہتے ہیں کہ واقدی جو روایات مدنیوں سے نقل کرتے ہیں ان میں مجہول رواة کی بھرمار ہے۔ 56
ہاشم معروف الحسنى لکھتے ہیں: مدائنى، عباسی بادشاہوں کا معاصر تھا اور اس پر دروغگوئی اور جعل حدیث کا الزام ہے۔
ذہبی نے میزان الاعتدال میں لکھا ہے کہ مسلم بن حجاج قشیری نے اپنی صحیح میں مدائنی سے روایت نقل کرنے سے اجتناب کیا ہے اور ابن عدی نے اس کو ضعیف گردانا ہے اور اصمعی نے اس سے کہا ہے: اللہ کی قسم! اسلام میں سے کچھ بھی تیرے وجود میں باقی نہیں بچا ہے۔۔۔ لسان المیزان کے مصنف نے اس کے بارے میں کہا ہے: وہ عبدالرحمن بن سمرہ بن حیبب اموی کے غلاموں میں سے تھا اور دوسری طرف سے اس کی بیشتر روایات مرسل ہیں جن کا کوئی سلسلۂ سند موجود نہیں ہے۔
ان سب حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ 70 شادیوں والی روایت جو مدائنی کے سوا کسی نے نقل نہیں کی ہے اس زمانے کی حکمرانوں کی جعلیات میں سے ایک ہے اور اس کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ وہی جو علویوں اور آل رسول اللہ (ص) کے دشمن تھے یہ روایتیں وضع کرلیا کرتے تھے اور یہ بات بھی مسلمات تاریخ میں سے ہے۔۔۔57
شیخ محمد بن یعقوب کلینی کی روایت ـ جو روایات کے پہلے گروہ میں ذکر ہوئی ہے ـ کی سند میں حمید بن زیاد اور حسن بن محمد سماعہ دکھائی دیتے ہیں جو واقفی ہیں۔ 58
علامہ حلّى حمید بن زیاد کے بارے میں کہتے ہیں کہ "میرے نزدیک اس کی روایت اس وقت قابل قبول ہے کہ اس روایت کی کوئی معارض (متصادم) روایت موجود نہ ہو۔ 59
علامہ مجلسی نے اس روایت کو معتبر قرار دیتے ہوئے اس کی یوں توجیہ کی ہے کہ: شاید امیرالمؤمنین (ع) کا مطلب یہ تھا کہ آپ (ع) لوگوں کے ایمان کے مراتب آزمانا چاہتے تھے نہ یہ اللہ کی بارگاہ میں تأئید پانے والے معصوم فرزند کی ملامت کرنا چاہتے تھے۔60
لیکن ان کی روایت کے بعض راوی واقفی ہیں (جو امام کاظم علیہ السلام کی شہادت کے بعد توقف کا شکار ہوئے اور امام رضا علیہ السلام کی امامت کے منکر ہوئے) لہذا علامہ حلی کے موقف کے مطابق ان کی روایت صرف اسی صورت میں قابل قبول ہے کہ اس سے متصادم روایت وارد نہ ہوئی ہے، چنانچہ یہ روایت حجت نہیں ہے اور پھر امام حسن مجتبی علیہ السلام کی عصمت، عظمت اور مقام و منزلت پر مبنی بے شمار روایات اس روایت سے متصادم ہیں جن کی وجہ سے علامہ حلی کے قاعدے کے مطابق اس روایت کی حجیت خود بخود ختم ہوجاتی ہے۔
روایات کے تیسرے گروہ میں الکافی کی روایت قرار پائی ہے جو ابوالعلاء سے نقل ہوئی ہے اور علامہ مجلسی اس روایت کو مجہول سمجھتے ہیں۔61
روایات کے پہلے گروہ میں مندرج برقی کی روایت ہے جو اس نے محاسن نامی کتاب میں احمد بن ابی عبداللہ سے نقل کی ہے اور اس کا جواب بھی یہ ہے کہ اگرچہ احمد بن ابى عبداللہ خود قابل توثیق و تأئید ہیں لیکن ان کی روایات قابل اعتماد نہیں ہیں کیونکہ انھوں نے اکثر روایات ضعیف راویوں سے نقل کی ہیں۔62
اپنی بات: حدیث و روایت سے استناد کا مسئلہ بھی بہت حساس مسئلہ ہے جو ہر آدمی کا کام نہیں ہے اور اس کے لئے علم حدیث اور علم رجال کا ہونا ضروری ہوتا ہے اور اگر انسان جرح و تعدیل کے قواعد سے آگہی نہ رکھتا ہو اس کو حدیث سے کو حکم اخذ کرنے اور اس سے استنباط و اجتہاد کرنے میں احتیاط کرنی چاہئے۔ اسی طرح مراجع تقلید کے فتاوی بھی ہیں جن کو جذبات و احساسات کے ترازو میں پرکھنے سے اجتناب کرنا چاہئے کیونکہ مراجع قرآن و حدیث سے حکم کا استباط کرتے ہیں اور شریعت کے احکام اخذ کرتے ہیں جن کا جذبات سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ہم بھی صرف اس لئے مسلمان ہیں کہ شریعت محمدی (ص) کے تابع ہیں اور جذبات کی متابعت سے مسلمانی کی ضمانت نہیں دی جاسکتی جس طرح کہ احادیث کو بھی اپنے جذبات کی ترجمانی کے لئے پیش کرنے سے گمراہی یقینی ہوجاتی ہے۔ دیکھیں جب ڈاکٹر ہمیں نسخہ دیتا ہے تو ہم اس میں چوں و چرا کئے بغیر اس پر عمل کرتے ہیں تو دین کے سلسلے میں ہمیں مراجع کی بات اور اہل بیت کی احادیث میں مداخلت کیوں کرتے ہیں؟ کیا ہمیں یہ حق حاصل ہے؟ ہم جب جسمانی صحت کے حوالے سے ڈاکٹر پر اعتماد کرتے ہيں تو اپنے دین کے سلسلے میں حدیث و قرآن کے متخصصین پر اعتماد کرنے کیوں سرتابی کرتے ہیں۔
اس شبہے کا بانی کون ہے؟
موجودہ دلائل اور شواہد سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ عباسی بادشاہ منصور دوانیقی کے دور میں حسنی سادات کی عباسی مخالف تحریک شروع ہونے سے پہلے کسی بھی کتاب میں یہ روایت نقل نہیں ہوئی ہیں اور منصور عباسی ہی تھا جس نے علویوں کی تحریک اور امام حسن مجتبی کے پوتوں کے حکومت مخالف اقدامات کو بے اثر کرنے کے لئے یہ تہمت ابلیس کی مدد سے گڑھ لی اور فرزند رسول (ص) امام حسن مجتبی کے خلاف اس شبہے کی بنیاد رکھی جو آج اہل بیت (ع) کے دشمنوں کے ہاتھوں میں دستاویز بنی ہوئی ہے۔
منصور علویوں اور حسنیوں کی تحریک سے سخت خوفزدہ تھا اس نے اور اس کے پاس اپنی تشویش کے خاتمے کے لئے اس سے زیادہ بہتر حربہ نہیں تھا کہ امام حسن علیہ السلام کا پاک اور معصوم چہرہ اپنی ناصبیت کا نشانہ بنائے۔ منصور نے عباسی ظلم و جبر کے خلاف قیام کرنے والے عبداللہ بن حسن کو گرفتار کرنے کے بعد لوگوں سے خطاب کیا اور اس نے اپنی ناصبیت کا ثبوت دیتے ہوئے علی ابن ابیطالب اور امام حسن علیہماالسلام سمیت ابوطالب علیہ السلام کے تمام فرزندوں کے خلاف دشنام طرازی کی اور گستاخی کا ثبوت دیتے ہوئے کہا: اس خدا کی قسم جس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے کہ ہم نے ابوطالب کے فرزندوں کے خلافت میں تنہا چھوڑا اور ہم نے ان سے کوئی سروکار نہیں رکھا؛ ابتداء میں علی ابن ابیطالب نے خلافت کی اور ان کے بعد حسن بن علی اٹھے ۔۔۔۔ (منصور نے یہاں جھوٹ کا سہارا لے کر کہا) اور معاویہ نے مکاری کرکے ان کو ولیعہدی کا وعدہ دیا اور معاویہ نے سفید و سیاہ پر قبضہ کیا اور انہیں بے دخل کردیا۔ حسن بن علی نے بھی تمام امور معاویہ کے سپرد کئے اور (معاذاللہ) حسن بن علی نے عورتوں کی طرف اپنی توجہ مبذول کردی۔٭ اور وہ آج ایک سے شادی کرتے اور دوسرے روز طلاق دیدیتے اور اسی کام میں مصروف تھے کہ اپنے بستر میں دنیا سے اٹھ گئے۔۔۔63
٭ اپنی بات: یہاں ناصبی منصور عباسی نے ایک فنی غلطی کا ارتکاب کیا ہے اور وہ یوں کے اس کے دسترخوانوں پر پلنے والے راویوں نے امام حسن علیہ السلام پر الزام لگایا ہے کہ آپ (ع) کوفہ میں اپنے والد امیرالمؤمنین علیہ السلام کی حکومت کے زمانے میں شادیوں اور طلاقوں کے چکر میں پڑ گئے تھے لیکن منصور نے اپنے ہی منشیوں کی بات رد کرتے ہوئے کہا کہ "جب معاویہ نے اقتدار پر مکاری سے قبضہ کیا تو امام (ع) نے عورتوں کو توجہ دینا شروع کردی اور اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ جھوٹے بھلکڑ ہوتے ہيں"۔
استاد هاشم معروف الحسنی اس بے بنیاد اور نامردی پر مبنی تہمت کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
ستر اور نوے اور ان سے کم یا زیادہ شادیوں سے متعلق روایات اور آپ پر (معاذاللہ) زن پرستی کا الزام لگانے والی روایات نیز امیرالمؤمنین علیہ السلام کی جانب سے امام حسن (ع) کی ملامت پر مبنی روایات کی اسناد سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا منبع و ثبوت صرف وہ روایات ہیں جو مدائنی اور اسی جیسے جھوٹوں سے نقل ہوئی ہیں۔
ہاشم معروف الحسنی مزید لکھتے ہیں: مدائنی، واقدی اور ان جیسے دیگر مؤرخین نے تاریخ ایسی جابر حکمرانوں کے سائے میں لکھی ہے جو اہل بیت علیہم السلام کے دشمن تھے، اور اہل بیت (ع) کے حقائق کو متنازعہ بنانے اور انہیں نقصان پہنچانے کے سلسلے میں کسی بھی کوشش و سازش سے فروگذاشت نہیں کرتے تھے۔ جبار عباسی حکمران بھی تعصب اور نیت کی پلیدی کے حوالے سے اپنے اموی اسلاف سے کسی طور بھی کم نہ تھے۔ عباسی بھی علویوں کے خلاف جعل حدیث کے حوالے سے امویوں کے ہمدست تھے (اور عباسیوں نے اہل بیت (ع) کے خلاف جعلی روایات و احادیث بنانے کا اموی سلسلہ جاری رکھا) عباسی حسنی سادات کے خلاف خاص قسم کا کینہ رکھتے تھے کیونکہ جن علویوں نے عباسی ستم کے خلاف جہاد کیا ان میں حسنی سادات سر فہرست تھے۔ 64
حقیقت کیا ہے؟
اب تک ہم نے امام حسن علیہ السلام کی شادیوں اور طلاقوں کی کثرت سے متعلق تہمتوں کا جواب دیا اور ثات کیا گیا کہ یہ بہتان امام حسن علیہ السلام کے زمانے اور امویوں کی طویل بادشاہت کے زمانے میں کہیں بھی نقل نہیں ہوا ہے اور عباسیوں کے دور میں منصور نے اس کی بنیاد رکھی ہے۔
حقیقت یہ ہے امام حسن علیہ السلام کی ازواج کی تعداد آٹھ یا دس65 سے زیادہ نہ تھی جن میں اکثریت کنیزوں کی تھی اور اس زمانے میں یہ ایک معمول کی بات تھی اور ہر آدمی کی بیویاں بھی ہوتی تھیں اور کنیزیں بھی تھیں جن کی تعداد کئی اشخاص کے ہاں اس تعداد سے کہیں زیادہ ہوتی تھی لیکن کسی نے کسی پر اس حوالے سے کوئی اعتراض نہیں کیا ہے اب کیا واقعہ رونما ہوا کہ زمانے کے معمول کے مطابق شادی کرنا اور کنیزیں رکھنا رسول اللہ (ص) کی آنکھوں کے تارے امام حسن علیہ السلام کے لئے عیب قرار پایا اور انہیں اس بے شرمانہ یلغار کا نشانہ بنایا گیا؟ کیا شادیوں کی اتنی تعداد روایت کے جعلی پن کی علامت نہیں ہے؟ اور پھر ہم نے ابتداء میں ہی ذکر کیا کہ رسول اللہ (ص) اور آل رسول اللہ (ص) کے گھوڑوں، خچروں، گدھوں، اونٹوں، تلواروں، دستاروں اور جوتوں تک کے نام ذکر کرنے والے مؤرخین نے آپ (ع) کی بیویوں کے نام اور ان کے خاندانوں کے نام ذکر کیوں ذکر نہيں کئے کیا یہ بات ان روایات کے جعلی پن کا ثبوت نہيں ہے؟
ابوطالب مكّى نے امام حسن علیہ السلام کی زوجات کی تعداد دوسوپچاس بتائی ہے ہم پوچھتے ہیں کہ اس نے ان زوجات میں سے چند ہی زوجات کا نام پتہ کیوں نہیں بتایا؟ اور ہاں! واقدی اور ابوالحسن کی راہ پر گامزن مؤرخین امام (ع) کے لئے اتنی ساری شادیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امام (ع) کے فرزندوں کی تعداد 22 یا 31 سے زیادہ کیوں نہیں بتاسکے ہیں؟66
ابوطالب مکی سے پوچھتے ہیں کہ اگر امام علیہ السلام کی زوجات کی تعداد چارسو سے زیادہ تھی تو آپ کے فرزندوں کی تعداد اکتیس سے زيادہ کیوں نہیں ہوئی؟ کیا ان زوجات میں سے اکثریت بانجھ خواتین کی تھی؟ یا پھر یہ روایت ایک بہتان اور ایک ناروا تہمت ہے؟
اپنی بات:
وہ جواب جو معترضین کے کے لئے زیادہ قابل قبول ہے
ہم نے یہاں علمی اور تحقیقی جواب دے دیا جو عام طور پر اہل بیت (ع) کے دشمن کم ہی پڑھتے ہیں لہذا ہم ان کے اپنی منطق سے استفادہ کرتے ہوئے ان ہی کی منطق میں بھی جواب دیتے ہیں اور وہ یوں کہ:
ہم کہتے ہیں کہ خالد بن ولید نے صحابی "مالک بن نویرہ کو قتل کیا اور اسی رات ان کی زوجہ سے ہم بستری کی" تو یہ حضرات کہتے ہیں کہ صحابی مجتہد ہے اور اس نے اجتہاد کرکے ایسا کیا اور اجتہاد میں خطا کرنے والا پھر بھی ایک ثواب کماتا ہے!
ہم کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ نے زبیر اور طلحہ کے ساتھ مل کر خلیفہ وقت کے خلاف بغاوت کی اور جمل کا فتنہ برپا کرکے سولہ ہزار مسلمانوں کو موت گھاٹ اتارا، کہتے ہیں جناب انھوں نے اجتہاد کیا اور اگر غلطی بھی ہوئی ایک ثواب پھر بھی انہیں ملا ہے!
ہم کہتے ہیں کہ غدیر خم میں اللہ کے حکم پر رسول اللہ (ص) نے امیرالمؤمنین علیہ السلام کو جانشین کے طور پر مقرر فرمایا اور اجتہاد بھی نص کے مقابلے میں بے کار ہے پھر بعض لوگوں نے رسول اللہ (ص) کا جنازہ چھوڑ کر سقیفہ میں "نجات امت" کا جرگہ بپا کیا اور خلیفہ ہوتے ہوئے انھوں نے خلیفہ کا تعین کیا تو کہتے ہیں کہ اصحاب کو ہر صورت میں اجتہاد کا حق حاصل ہے اور اگر خطا ہوئی بھی ہو پھر بھی اہل سقیفہ نے ایک ثواب کمالیا ہے!
ہم کہتے ہیں کہ معاویہ نے خلیفہ مسلمین کے خلاف بغاوت کی اور صفین میں عمار یاسر اور اویس قرنی اور چھیاسٹھ دیگر صحابہ سمیت ہزاروں مسلمانوں کا خون کیا تو کہتے ہیں کہ معاویہ مجتہد تھا اور اس کا یہ عمل کم از کم اس کے لئے ایک ثواب کما لایا ہے۔
ہم کہتے ہیں کہ بہت خوب اب ہماری اس بات کی طرف توجہ دیں کہ اگر ہم مان بھی لیں کہ امام حسن نے تمہارے بقول اتنی ساری شادیاں کی ہیں تو کیا ان کا علم و اجتہاد آپ کے محبوب صحابیوں سے بھی کم ہے جنہوں نے اسلام اور مملکت اسلام کی بنیادیں ہلادیں اور مرکزی حکومت کے خلاف بغاوت کی اور یہ حضرات کہتے ہیں کہ انھوں نے اجتہاد کیا لیکن امام حسن (ع) کو شادیوں اور طلاقوں کے بارے میں اجتہاد کا حق حاصل نہیں دیتے! اور اس عمل کو عصمت امام کا ناقض سمجھتے ہیں؟ چنانچہ اگر جھوٹوں کے جھوٹے دعوے صحیح ہیں تو ہم ان ہی کی منطق کے مطابق کہتے ہیں کہ آپ (ع) نے بھی اجتہاد کیا اور نہ صرف آپ (ع) کی شخصیت میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ ان ہی کے قاعدے کے مطابق کم از کم ایک ثواب بھی کمایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ كافى، ج 6، ص 56۔
2۔ یعنی جس شخص سے مشورہ کیا جاتا ہے اس کو معتمد اور ہوشیار و دانا ہونا چاہئے اور امور کے انجام سے واقف ہونا چاہئے۔
3۔ محاسن برقى، ج 2، ص 601؛ منتخب التواریخ، ص 190۔
4۔ كافى، ج 6، ص 56؛ بحارالانوار، ج 44، ص 172۔
5۔ انساب الاشراف، ج 3، ص 25۔
6۔ تاریخ الخلفاء، ص 191۔
7۔ وكان على (ع) یضجر من ذلك فكان یقول فى خطبته ان الحسن مطلاق فلاتنكحوه (بحارالانوار، ج 44، ص 169۔)
8۔ وہی منبع۔
9۔ چهارده معصوم (زندگانى امام حسن(ع))، ص 553۔
10۔ بحارالانوار، ج 44، ص 173۔
11۔ الصواعق المحرقه، ص 139۔
12۔ كافى، ج 6، ص 56۔
13۔ البدء و التاریخ، ج 5، ص 74۔
14۔ مناقب آل ابى طالب، ج 4، ص 30۔
15۔ وہی منبع۔
16۔ چهارده معصوم، ص 553، به نقل از قوت القلوب۔
17۔ صواعق المحرقہ ابن حجر ص 114۔
18۔ بحارالانوار ج 6 ص 58۔
19۔ احقاق الحق، ج 9، ص 266، بحوالہ المعجم الکبیر طبرانی، ص 135، طبع طهران; مناقب على بن ابى طالب (ابن المغازلى الشافعی) صص 150-148 و صص 102-101، روایت 144 ۔
20۔ الصواعق المحرقہ صفحه 114۔
21۔ صحیح ترمذی صفحه 306 ج 2۔
22۔ صحیح ترمذی صفحه 306 ج 2۔
23۔ ینابیع المودۃ صفحه 164۔
24۔ بحار الأنوار ج26 ص269 باب6 ح 5 41۔
25۔ خطبہ حضرت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا جس میں آپ (س) نے سورہ تکویر کی آخری آیت " وَمَا تَشَاؤُونَ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ ﴿آیت 29 سورہ تکویر﴾، سے تضمین فرمائی ہے۔
26۔ سورہ احزاب،آیت٣٣۔
27۔ سورہ الشورى آیت 23۔
28۔ سورہ آل عمران آیت61۔
29۔ البدایة و النهایة، ج 7، ص 37۔
30۔ مناقب آل ابى طالب، ج 3، ص 401۔
31۔ البدایة و النهایة، ج 7، ص 37۔
32۔ الامام المجتبى(ع)، ص 10۔
33۔ وہی منبع، ص 86۔
34۔ تاریخ دمشق، (حیاة الامام الحسن(ع))، ص 154۔
35۔ نیل الاوطار، ج 6، ص 230؛ من لایحضره الفقیه، ج 3، ص 320۔
36۔ تاریخ دمشق، (ترجمه امام حسن(ع))، ص 155۔
37۔ روضةالصفا، ج 3، ص 20۔
38۔ تاریخ الخلفاء، ص 191۔
39۔ بحارالانوار، ج 44، ص 169۔
40۔ تذكرةالخواص، ص 121۔
41۔ بحارالانوار، ج 44، ص 173۔
42۔ میزان الاعتدال، ج 3، ص 107۔
43۔ لسان المیزان، ج 4، ص 386۔
44۔ المنتظم، ج 7، ص 189۔
45۔ شذرات الذهب، ج 3، ص 120۔
46۔ الجرح والتعدیل، ج 4، ص 21۔
47۔ الكامل فى التاریخ، ج 9، ص 44۔
48۔ الأعلام، ج 7، ص 160۔
49۔ الغدیر، ج 5، ص 290۔
50۔ اعیان الشیعه، ج 46، ص 172۔
51۔ سیرةالائمة الاثنى عشر، ج 1، ص 620۔
52۔ لسان المیزان، ج 4، ص 386۔
53۔ میزان الاعتدال، ج 1، ص 430۔
54۔ وہی منبع، ج 4، ص 350۔
55۔ وہی منبع، ج 6، ص 198۔
56۔ تذكرة الحفاظ، ج 1، ص 348۔
57۔ زندگى دوازده امام، ج 1، ص 604۔
58۔ جامع الرواة، ج 1، ص 225 و 284۔
59۔ الخلاصة، ص ؟
60۔ مرآةالعقول، ج 21، ص 96۔
61۔ وہی منبع۔
62۔ الخلاصة، ص ؟
63۔ سیرةالائمة الاثنى عشر، ج 1، ص 618۔
64۔ زندگى دوازده امام، ج 1، ص 602۔
65۔ صلح الحسن(ع)، ص 25۔
66۔ البدء و التاریخ، ج 5، ص 74؛ الفصول المهمه، ص 166؛ بحارالانوار، ج 44، ص 168؛ كشف الغمه، ج 2، ص 152؛ اعلام الورى، ص 213؛ ناسخ التواریخ، جلد امام حسن(ع)، ص 270؛ تذكرة الخواص، ص 212؛ نورالابصار، ص 136؛ ذخائرالعقبى، ص 143؛ تاریخ یعقوبى، ج 2، ص 228۔

۔۔۔۔۔۔

 


source : www.abna.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article


 
user comment