اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

عقیدہ بداء پر وھابیوں کا اعتراض

عقیدہ بداء پر وھابیوں کا اعتراض

ایسے تو بہت سے مسائل ھیں جنھیں وھابی فرقہ شیعوں کے خلاف استعمال کرتا ھے اور ان پر تھمتیں لگاتا ھے ان میں سے ایک بہت ھی اھم مسئلہ شیعوں کا بداء کے متعلق عقیدہ ھے ، یہ مسئلہ جو الٰھی فلسفہ کی ایک دشوار اور پیچیدہ ترین بحثوں میں شمار کیا جاتا ھے ھمیشہ شیعہ عقائد کا حصہ رھا ھے ، اس مسئلہ کو بطور دقیق اور فلسفی اعتبار سے بیان کرنے کے لئے ضروری تو یہ تھا کہ پھلے چند مفصّل باب اور مقدمے تحریر کئے جائیں لیکن اختصار کی خاطر فقط اس فلسفی موضوع سے متعلق ایک بزرگ شیعہ عالم کا بیان نقل کرنے پر اکتفاء کرتے ھیں یہ بزرگ شیعہ عالم جو عظیم فلسفی اور منطقی بھی ھیں اور عظیم فلسفی اور منطق داںحضرات کے ھم عصر بھی ھیں تا کہ سبھی پر واضح ھو جائے کہ بداء کا عقیدہ    نہ صرف یہ کہ اسلامی شریعت کے خلاف نھیں بلکہ یہ شیعہ مذھب کے افتخارات اور امتیازات میں شمار ھوتا ھے نیز شیعوں کی دقیق فھم و فراست کی علامت بن چکا ھے جو ظاھر بین اور فھم و فراست سے بے بھرہ لوگوں ( وھابیوں ) کی عقلوں سے بالاتر ھے اورایسے افراد تا قیامت اس مسئلہ کے در ک و فھم سے عاجز ھیں اور رھیں گے ۔ انشاء اللہ۔   

بداء کے حقیقی معنی 

انسان سے متعلق بداء کے معنی یہ ھیں کہ انسان ایسی کسی چیز کے بارے میں کوئی ایسا نظریہ پیش کرے کہ اس چیز کے متعلق ، اس کا پھلے یہ نظریہ نہ تھا ،جیسے کسی کام کو انجام دینے کا ارادہ کر چکا تھا لیکن بعد میں کچھ ایسے اسباب پیش آجائیں جن کی بنا پر ارادہ تبدیل کرنا پڑے ایسی صورت میں یہ کھاجاتا ھے کہ اس انسان کے لئے بداء واقع ھوا ھے چونکہ جس کام کو انجام دینے کے لئے قطعی ارادہ کر چکا تھا ،اب ترک کرنے کا ارادہ کر لیا یہ ارادہ میں تبدیلی انسان کی بی اطلاعی اور نادانی کا نتیجہ نیز گذشتہ ارادہ کی مصلحت پر پشیمانی اور اسکے اسرار و رموز سے نا آشنائی کی وجہ سے ھوا ھے اور یہ بات مسلم ھے کہ بداء اس مذکورہ معنی میں ذات الہٰی کے لئے محال اور ناممکن ھے۔

چونکہ خداوند عالم ھر طرح کے جھل و نقص سے پاک ومنزہ ھے ، اور شیعہ حضرات ایسے معنی کی نسبت کبھی بھی خداوند عالم کی طرف نھیں دیتے ۔

جیسا کہ مذھب شیعہ ( اور فقہ جعفری کے بنیان گذار عظیم پیشوا ) حضرت امام جعفر صادق (ع) کا فرمان ھے :

”مَن زَعَمَ اِنَّ اللهَ تَعٰالیٰ بَدَالَہُ فِی شَیٍٴٍ بَدَاءَ نِدَامَةٍ فَہُوَ عِندَناَ کَافِرٌ بِاللهِالعَظِیمِ“

”جو شخص بھی یہ گمان کرے کہ خداوند عالم نے کسی بھی چیز کے متعلق پشیمانی کی وجہ سے اپنا ارادہ تبدیل کیا ھے یا اسلئے کہ وہ چیز پھلے خدا کی ذات پر مخفی تھی اور اب ظاھر ھوئی ھے تو ھمارے نزدیک ایسا شخص خدائے عظیم کا منکر اور کافر ھے۔

قارئین محترم! ملاحظہ فرمائیں کہ محمدبن عبدالوھاب کی پیدائش سے صدیوں پھلے ھمارے عظیم الشان امام صادق آل محمد (ع) نے بدا ء کے مذکورہ غلط اورفاسد معنی کو مردود ،قابل مذمت اور کفرکا سبب بتایاھے ، اور چونکہ وہّابی لوگ بدا ء کے صرف یھی معنی سمجھتے ھیں اور یھی گمان کرتے  ھوئے  کہ شیعہ حضرات شاید بدا ء سے یھی معنی مرادلیتے ھیں ، شیعوں کے خلاف الزام تراشیاں تھمتیں، گالیاں اور نازیبا باتیں اور طرح طرح کے حربے استعمال کرتے ھیں اور ظلم بالائے ظلم یہ کہ ان قبیح حرکات کے باوجود اس خوش فھمی میں بھی مبتلا ھیں کہ اس طرح کے جدید اور اصلاح دین کے نئے نئے طریقے انھیں کی کاوشوں کا نتیجہ ھیں !!          

ایک دوسری روایت میں حضرت امام جعفر صادق (ع)ارشاد فرماتے ھیں:

 ”مَن زَعَمَ اَنَّ اللّٰہَ بَدَالَہُ فِیشَيءٍ وَلَم یَعلَمہُ اَمسَ فَاٴبرَاٴ مِنہُ “ ۔

 ”جو شخص یہ گمان کرے کہ خداوند عالم نے اسلئے کسی چیز کے متعلق ارادہ بدلاھے کہ وہ پھلے اسے نھیں جانتا تھا توھم ایسے شخص سے بیزار ھیں“

مجھے نھیں معلوم کہ ان حدیثوںکے سننے اور پڑھنے کے بعد بھی وھابیوں کے پاس کھنے کو کچھ باقی رہ جاتا ھے یا وہ اس قدر ضمیر ، انصاف اور عقل و شعور رکھتے ھوں کہ حق کے سامنے سر جھکا دیں،اور شیعہ روایات کی کتابوں کی طرف رجوع کریں اور ھمارے ائمہ (ع) سے مروی حدیثوں کو ملاحظہ کریں اور کج فکر ی و خرافات سے باز آجائیں ،ھم نے تو محمدبن عبدالوھاب کی باتوں سے بخوبی سمجھ لیا ھے کہ موصوف نے شیعہ روایات کی کتابوں میں کسی ایک کا بھی مطالعہ نھیں کیا ھے ،نیز  شیعہ عقائد او ران کے پاک وپاکیزہ نظریات سے مطلقاً طور پر  ناواقف او ر جاھل تھے ۔

ائمہ اطھار (ع) سے بعض روایتیں منقول ( جس کے صحیح معنی درک نہ کرنے کی وجہ سے ) وھابیوں نے بداء کے واقعی معنی کے بجائے بداء کے غلط معنی تصور کرلئے ھیں اور ان کو یہ وھم ھے کہ ھم ایسے غلط معنی میں  بداء کی نسبت خداوند عالم کی طرف دیتے ھیں، جو ھر عیب و نقص سے منزہ ھے ،ان روایات میں سے ( جن کے صحیح معنی درک نہ کرسکے ) ایک روایت یہ ھے :

مَا بَدَا ِللهِ فِیشَيءٍ کَمَا بَدَا لَہُ فِی اِسمٰعِیلَ اِبنِی ۔

امام جعفر صادق (ع) فرماتے ھیں کہ خداوند عالم کو کسی چیز کے متعلق ایسا بداء یعنی ارادہ کی تبدیلی حاصل نھیں ھوئی جیسا کہ میرے فرزند اسمٰعیل کے متعلق حاصل ھوئی۔

بعض مسلمان مؤلفین نے امام جعفر صادق (ع) کے مذکورہ فرمان کے غلط معنی کرکے شیعوں پر طعن و تشنیع اور اعتراضات کی صورت میں پیش کرکے  بداء کے غلط معنی کی نسبت شیعوں کی طرف دی ھے اور ان غلط معنی کوشیعہ عقائد میں ایک منحرف عقیدہ کے عنوان سے مشھور کردیاگیا ھے ۔

لیکن وہ اس بات سے غافل رھے کہ امام جعفر صادق (ع) کی مذکورہ بالا روایت کے صحیح معنی وھی ھیں جن کی طرف خداوند عالم نے اس آیہٴ کریمہ میں ارشاد فرمایا ھے:

  ” یَمحُو اللهُ مَایَشَاءُ وَ یُثبُتُ وَعِندَہُ اُمُّ الکِتَا بِ“[1]

 خداوندعالم جس چیز کو چاہتا ھے مٹا دیتا ھے اور جس چیز کو چاہتا ھے باقی اور ثابت رکھتا ھے اور اسی کے پاس ام الکتاب ھے۔

اس آیہٴ شریفہ کے معنی یہ ھیں کہ خداوند عالم پیغمبر اکرم(ص) یا صاحبان امر کی زبان مبارک یاکسی دوسرے طرح سے کوئی بات ظاھر فرماتاھے اسلئے کہ اسکے اظھارمیں کوئی مصلحت پوشیدہ ھے اور پھر جیسے ظاھر فرمایا تھا و یسے ھی مٹا دیتا ھے ، حالانکہ وہ اس بات کے اطراف و جوانب سے مکمل طور پر آگاہ ھے، دوسرے لفظوں میں اس طرح کھا جاسکتا ھے کہ ا س بات کے اظھار کی مصلحت فقط ایک مخصوص اور معیّن مدّت تک تھی یہ رائے کا بدلنا جھالت یا کسی طرح کی پشیمانی کی بنا پر نھیں ھے ۔

یہ ویسے ھی ھے جیسے جناب اسمٰعیل (ع)اور حضرت ابراھیم (ع) کا واقعہ کہ جب جناب اسمٰعیل باخبر  ھوئے کہ ان کے پدر بزرگوار الله کے حکم کے مطابق ان کی قربانی پیش کرنا چاہتے ھیں لیکن قربانی کرتے وقت جناب ابراھیم (ع) سے یہ حکم اٹھا لیاگیا ،اس واقعہ کی بنیاد پر جضرت امام صادق(ع) (ع)کے فرمان کے صحیح اور حقیقی معنی یہ ھیں :

 خداوند عالم نے کسی موضوع کو بھی اسطرح ظاھر نھیں فرمایا جسطرح میرے فرزند اسمٰعیل کے موضوع کو ظاھر اور روشن فرمایا اس لئے کہ ظاھرمیں یہ تصورکیا جا تا تھا کہ چونکہ حضرت کے بڑے فرزند اسمٰعیل ھیں لہذا حضرت کے بعدوھی امام ھوں گے ایسی صورت میں خداوند عالم کے حکم سے اسمٰعیل کی روح قبض کرلی گئی تا کہ لوگوں کو معلوم ھو جائے حضرت امام جعفر صادق (ع) کے بعد آپ کے فرزند اسمٰعیل امام نھیں ھیں ،مسئلہ بداء کے یہ حقیقی او رصحیح معنی جو اوپر ذکر کئے گئے قریب قریب یھی معنی ”نسخ “کے ھیں اور نسخ اسلام میں مسلم الثبوت امر ھے جیسا کہ اسلام کے آنے سے تمام گذشتہ ادیان نسخ ھوگئے یھاں تک کہ بعض احکام جو صدر اسلام میں واجب تھے اور آنحضرت کے زمانہ ھی میں الله کے حکم سے منسوخ کردئے گئے۔[2]

 


[1] سورہ رعد آیت ۳۹۔

[2] ھم نے اس حصہ کو قلمبند کرنے میں مرحوم علامہ شیخ محمدرضا مظفر (رہ)کی کتاب ”مسائل اعتقادی از دیدگاہ  تشیع“ سے استفادہ کیا ھے چونکہ فلسفی نقطہٴ نظر سے بداء کا مسئلہ اتنا عمیق اور مشکل ھے جس کے متعلق ایک مستقل کتاب لکھ کر امّت اسلامی کی خدمت میں پیش کرونگا انشاء اللہ، فی الحال متعلقہ موضوع سے دلچسپی رکھنے والے حضرات درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں:۱۔گوھر مراد، موٴلفہ جناب لاھیجی، ۲۔کشف الاسرار موٴلفہ امام خمینی (رہ) ، ۳۔تفسیر نمونہ، کلمات مکنونہ موٴلفہ فیض کاشانی،۵۔شناخت دین موٴلفہ آیت اللھی، ۶۔داوری وجدان موٴلفہ شیخ راضی نجفی تبریزی، ۷۔جبر واختیار موٴلفہ زین العابدین قربانی۔

 

 

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

توحید
اختیاری اور اضطراری افعال میں فرق
حضرت امام رضا (ع) کا کلام توحید کے متعلق
عقیدہ ختم نبوت
ماہ رمضان کی آمد پر رسول خدا (ص) کا خطبہ
جن اور اجنہ کے بارےمیں معلومات (قسط-1)
حکومت خدا کا ظھور اور اسباب و حسب و نسب کا خاتمہ
شیعہ:لغت اور قرآن میں
خدا کی راہ میں خرچ کرنا
جبر و اختیار

 
user comment