اردو
Thursday 28th of March 2024
0
نفر 0

شفاعت وھابیوں کی نظر میں

شفاعت وھابیوں کی نظر میں

وھابیوں نے جس کے بارے میں بہت زیادہ شور و غل مچایا اورجسے تکفیر و تفسیق کی دلیل قرار دیتے ھیں ان میں سے ایک مسئلہٴ شفاعت بھی ھے تقریباً محمد بن عبد الوھاب کی ”کشف الشبھات“ اسی مسئلہ کے متعلق، پوری کتاب گھما پھرا کر لکھا ھے جیسا کہ ھم پھلے بھی اس سے چند چیزیںنقل کر چکے ھیں اور اسی طرح اس کے پوتے شیخ عبد الرحمٰن آل الشیخ نے جو کتاب ”التوحید“ لکھی اور اس کی شرح ”فتح المجید“ کے نام سے منتشر ھوئی ھے اسی مسئلہٴ شفاعت سے مخصوص ھے۔

ھماری نظر میں مسئلہٴ شفاعت جو کہ ”بحث ِقیامت “کی فروعات میں سے ھے بہت ھی وسیع و پیچیدہ مسئلہ ھے اس کے لئے ایک مستقل رسالہ اور الگ سے اس مسئلہ پر کتاب تالیف کی جائے تا کہ اس کے تمام نشیب و فراز اچھی طرح سے روشن ھو جائیں اور منکرین و مخالفین کے شبھات و اعتراضات کا جواب دیا جاسکے۔

اگر چہ پھلے ھم نے مسئلہٴ شفاعت ، درخواست مغفرت ، اولیاء خدا سے طلب حاجت اور اس کے مانند مسائل ، میں ابن تیمیہ کی آراء پر جرح و بحث و نقد کیا ھے لیکن چونکہ وھابیوں کی کتابوں میں (جیسا کہ ھم پھلے کہہ چکے ھیں) ان مسائل کے متعلق مختص ایک مستقل بحث پائی جاتی ھے اور یہ وھابیوں کے جنجالی ترین اور شوروغل والے مباحث و مسائل ھیں جن کو اصطلاح میں فرھنگی معرکہ اور آئیڈیا لوزی !! کا نام دیتے ھیں۔

اس لئے ھم بھی اختصار کا خیال رکھتے ھوئے اور اس کتاب کی مناسبت کو خاطر میں رکھتے ھوئے ضرورت کے مطابق خصوصاً مسئلہٴ شفاعت کے بارے میں بحث کریں گے اور مفصل و وسیع بحث و انشاء اللہ کسی اور فرصت کے وقت بیان کریں گے۔

پیغمبر اسلام(ص) کے زمانے سے لیکر آج تک مسلمانوںکی تاریخ اور ان کی سیرت اس بات پر شاھد ھے کہ ھمیشہ اور ھر دور میں شفاعت حق اور صحیح رھی ھے اور ھمیشہ ھر حال میں، حیات و ممات کے بعد بھی مسلمان، اولیاء خدا و بندگان خدا سے شفاعت طلب کرتے رھے ھیں، کسی اسلامی دانشمنداور مفکر نے درخواست شفاعت کو اصولِ اسلام کے خلاف نھیں جانا ھے یھاں تک کہ آٹھویں صدی ہجری میں ابن تیمیہ نے اس مسئلہ (شفاعت) کی مخالفت کی اور اس کے بعد محمد ابن عبد الوھاب نجدی ، جو کہ وھابیت کا بانی ھے، اس کی پیروی کی اور شفاعت کے خلاف علم بلند کیا۔

وھابیوں کا دوسرے اسلامی فرقوں سے ایک نقطہٴ پر اختلاف یہ بھی ھے کہ مسلمانان عالم نے شفاعت کو ایک اصل اسلامی کی حیثیت سے قبول کر لیا ھے ، وہ کہتے ھیں کہ قیامت کے دن گنھگاروںکے لئے شافعین حضرات شفاعت کریں گے اور پیغمبر اسلام(ص) کا شفاعت کرنے میں زیادہ حصہ ھے اور ساتھ ھی یہ بھی کہتے ھیں کہ ”ھم ھرگز یہ حق نھیں رکھتے کہ اس دنیا میں ان سے شفاعت طلب کریں“

اور اس بارے میں اتنے افراط سے کام لیا ھے کہ ھماری زبان ان کی باتوں کو نقل کرنے سے عاجز ھے، اور ھم نے اس کتاب کے مقدمہ اور بعض حاشیے پر جبراً و قھراً ان کی شرم آور باتوں کی طرف اشارہ کیا ھے، ان کے کلام کا خلاصہ یوں ھے کہ:

پیغمبر اسلام(ص) اور دوسرے پیامبران اور فرشتے و اولیا خدا قیامت کے دن ”حق شفاعت“ رکھتے ھیں لیکن ضروری ھے کہ شفاعت ”مالک شفاعت“ و ”اذن شفاعت دینے والے“ سے جو کہ خدا ھے، طلب کریں اور کھیں: ”پروردگارا ! پیغمبر(ص) اور دیگر صالح بندوں کو قیامت کے دن ھمارا شفیع قرار دے“ لیکن ھم کو کوئی حق نھیں پھونچتا کہ ھم کھیں: ”اے پیغمبر(ص) خدا ھم آپ(ص) سے اپنے حق میں شفاعت طلب کرتے ھیں“ چونکہ شفاعت ایسی چیز ھے کہ خدا کے علاوہ کوئی اس پر قادر نھیں ھے۔

وھابیوں نے پنجگانہ دلیلوں کے ذریعہ شافعین کی شفاعت کو ممنوع قرار دیا ھے، ھم ان کے دلائل پر تحقیق سے پھلے، شفاعت کو قرآن و سنت و عقل کے مطابق بحث کرتے ھیں پھر اس کے بعد ان کے دلائل پر تنقید اور جواب پیش کریں گے۔

اولیا ء خدا سے شفاعت کے جواز پر دلائل

اگر” حقیقت شفاعت“ کو گنھگاروں کے حق میں شفیع کی دعا جانیں،اور یھی ایک مستحسن و پسندیدہ امر ھے جیسے کسی برادر مومن سے درخواست دعا کرنا، اور پیغمبروں و اولیا ء خدا سے درخواست دعا کرنا، تو عقلی لحاظ سے اس میں کسی طرح کی کوئی حرمت و ممانعت نھیں دکھائی دیتی۔

اگر وھابی حضرات اپنے برادر مومن سے درخواست دعا کو جائز مانتے ھیں توان کو چاھیئے کہ زندہ شفیع سے درخواست شفاعت کو بغیر کسی پس و پیش کے جائز و صحیح مانیں، اور اگر زندہ انسان سے درخواست شفاعت کو جائز و صحیح نھیں مانتے تو اس کا مطلب یہ ھے کہ وہ لوگ شفاعت کے معنی ”دعا“کے لیتے ھیں۔

اسلامی احادیث اور سیرت صحابہ ،درخواست شفاعت کو بہت ھی حسن اسلوب و روشن طریقے سے ثابت کرتی ھے کہ ھم ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ھیں۔

۱۔ انس بن مالک کہتے ھےں:

”سَاَلتُ النبَِّی(ص) اَن یَشفَعَ لِی یَومَ القِیَامَةِ فَقَالَ: اَنَا فَاعِلٌ فَقُلتُ فَاَینَ اَطلُبُکَ؟ فَقَالَ: عَلَی الصِّرَاطِ“

پیغمبر اسلام(ص) سے میں نے شفاعت کی درخواست کی کہ روز قیامت میری شفاعت فرمائیں گے تو رسول اسلام(ص) نے میری درخواست کو قبول فرمایا، انس نے ظرافت طبیعت کے ساتھ رسول اسلام(ص) سے درخواست شفاعت کی اور اس کی جگہ کے بارے میں سوال کیا ،رسول اسلام(ص) بھی فرماتے ھیں کہ ”صراط پر“ اور انس کے دل میں ھرگز یہ خطور بھی نھیں پیدا ھوا کہ یہ کام اصول ِتوحید کے خلاف ھے پیغمبر اسلام(ص) بھی اس کی شفاعت قبول فرماتے ھیں اور اسے خوشخبری دیتے ھیں۔

۲۔ سواد بن قارب جو پیغمبر اسلام(ص) کے مدرگاروں میں سے تھے، اپنے اشعار کے ضمن میں رسول اسلام(ص) سے شفاعت طلب کرتے ھیں ، فرماتے ھیں:

وَ کُنْ لِیْ شَفِیْعاً یَوْمَ لَا ذُوْ شَفَاعَةٍ

بِمُغْنٍ فَتِیْلاً عَنْ سُوَادِ بِنْ قَارِبِ

”اے پیغمبر اسلام(ص) روز قیامت میر ی شفاعت فرمائےے جس دن شافعین کی شفاعت ذرہ برابر سوادبن قارب کے حق میں فائدہ مند نہ ھوگی“۔

وھابی حضرات ممکن ھے کھیں کہ: یہ تمام درخواستیں رسول اسلام(ص) کی حیات سے مربوط ھیں اور ان میں سے ایک بھی درخواست شفاعت رسول اسلام(ص) کے انتقال کے بعد نھیں ھے، لیکن اس کا جواب بھی واضح ھے ، جیسا کہ گذر چکا ھے، وھابی مطلقاً شفاعت کو حرام جانتے ھیں، موت و حیات معتبر نھیں ھے بلکہ معتبر لغو اور عدم لغو ھے۔

اسلامی احادیث سے یہ استفادہ ھوتا ھے کہ رسول اسلام(ص) کے اصحاب و مددگار رسول اسلام(ص) کی وفات کے بعدبھی ھمیشہ ان سے شفاعت کی درخواست کرتے رھے ھیں۔

۳۔ جس وقت حضرت امیر المومنین(ع) رسول اسلام(ص) کی تجھیز و تکفین سے فارغ ھوئے رسول اسلام(ص) کے چھرہٴ منور کو کھولا اور کھا:

بِاَبِی اَنتَ وَ اُمِّی (طِبتَ حَیّاً وَ طِبتَ مَیِّتاً )… اُذکُرنَا عِندَ رَبِّکَ۔

میرے ماں باپ آپ پر قربان ھوں (آپکی حیات و ممات طیب و طاھر رھی ) اپنے پروردگار کے پاس ھمار ا تذکرہ کریں۔

اب ھم خیال کرتے ھیں کہ سیرت اصحاب رسول کو ذکر کرنے سے درخواست شفاعت عملاً اسلام کی رو سے واضح ھوگئی ھوگی۔

وھابیوں کے اشکالات و اعتراضات کا خلاصہ

اب و ہ وقت پھونچ چکا ھے کہ جب ھم وھابیوں کے بعض دلائل جس کے ذریعہ درخواست شفاعت کو حرام قرار دیتے ھیں ان کی تحقیق اور ان پر نقد کریں ، وہ لوگ کچھ ایسے دلائل کا سھارا لیتے ھیں جو مندرجہ ذیل ھیں۔

درخواست شفاعت شرک ھے

وھابی حضرات کہتے ھیں : پیغمبران ا ور اولیا ء اللہ اس دنیا میںحق شفاعت نھیں رکھتے، بلکہ یہ حق صرف اور صرف انھیں آخرت میں حاصل ھے اور جو کوئی شخص بندگان خدا کو اپنے اور خدا کے درمیان واسطہ قرار دے،تا کہ اس کے حق میں شفاعت کریں وہ مشرک ھے، وھابی کہتے ھیں کہ درخواست شفاعت کے وقت اس طرح کھیں: ”اَلّٰلھُمَّ اجْعَلنَا مِمَّن تَنَالُہُ شَفَاعَةُ مُحَمَّدٍ“ یعنی خدایا ھمیں ان لوگوں میں قرار دے جن کو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شفاعت نصیب ھوگی۔

وہ لوگ کہتے ھیں : ھمیں ھرگز یہ حق حاصل نھیں ھے کہ ھم کھیں: ”یَا مُحَمَّدُ اِشفَعْ لَنَا عِندَ اللّٰہِ“ اے محمد(ص) ! اللہ کے نزدیک ھمارے حق میں شفاعت کیجئے، وہ کہتے ھیں ، کہ یہ صحیح ھے کہ اللہ نے رسول اسلام(ص) کو حق شفاعت دیا ھے لیکن اللہ نے ھم کو اس کے مطالبہ سے منع فرمایا ھے بلکہ ھم شفاعت کو خدا سے طلب کریں جس نے رسول اسلام(ص) کو یہ حق دیا ھے۔

وھابیوں کو ھمارا جواب

ھم کہتے ھیں: ”توحید در عبادت “ ”شرک درعبادت“کے مقابلہ میں ھے کہ جوارکان توحید میں ایک اھم رکن ھے قرآن کریم میں اس کو بہت اھمیت دی گئی ھے لیکن حقیقت یہ ھے کہ کیا ھر طرح کی دعوت و طلب یا کسی چیز کی درخواست، عبادت اور پرستش ھے؟ یا یہ کہ عبادت و پرستش کا ایک خاص معنی ھے اور وہ دعوت و طلب، اورامور دنیا و آخرت میں کسی کے سامنے اظھار ذلت و خضوع کرنا اس اعتقاد کے ساتھ کہ وہ (متصرف بلامنازع) و بغیر چون چرا کے صاحب قدرت ھے یا دوسرے لفظوں میں یوںکھا جائے کہ اس کو خدا جانیں یا مرتبہٴ خدائی اس کے لئے قائل ھوں، چاھے بڑا خدا یا چھوٹا خدا ، حقیقی خدا یا مجازی خدا ، یا خدا اس موجود کو کہتے ھیں جو کائنات کا پروردگار اور اس کا مدبر ھے یا خلقت کے امور میں سے کسی شان کا مالک ھے بطور مثال مقام ”رزاقیت“ یا ”مغفرت“ یا ”شفاعت“کا مالک ھے اگر کوئی اس اعتقاد کے ساتھ کسی سے کوئی چیز طلب کرے تو مسلّم ھے کہ اس نے اس کی پرستش کی ھے، اور یہ بات واضح ھے کہ شافعین حقیقی سے درخواست شفاعت اس طرح نھیں ھوتی، بلکہ اس اعتقاد و ایمان کے ساتھ ھوتی ھے کہ یہ لوگ اولیاء اللہ ھیںاور اس کی بارگاہ میں مقرب ترین بندے ھیں ،بارگاہ خداوندی میں ان کی دعا مستجاب ھوتی ھے دوسرے لفظوں میں یوں کھا جائے کہ خداوند کریم نے ان کو خاص شرائط کے تحت شفاعت کی اجازت دے رکھی ھے۔

اس مطلب کی وضاحت کے لئے قرآن کریم کی آیات واضح طور پر گواھی دیتی ھیں کہ قیامت کے دن حق و حقیقت کی گواھی دینے والے بندگان خدا شفاعت کریں گے، قرآن فرماتا ھے:

”وَ لاَیَملِکُ الَّذِینَ یَدعُونَ مِن دُونِہِ الشَّفَاعَةَ اِلّٰا مَن شَھِدَ بِالحَقِّ وَ ھُم یَعلَمُونَ“[1]

”وہ لوگ جو غیر خدا کی پرستش کرتے ھیں انھیں شفاعت کا حق نھیں ھے ھاں مگر وہ لوگ جو کہ توحید خدا کی گواھی دیتے ھیں شفاعت کریں گے او راس کی حقیقت سے آگاہ ھیں “

لفظ ”الّا“حروف استثناء میں سے ھے وہ لوگ جو خدا کی وحدانیت کی گواھی دیتے ھیں ان کے شفاعت کرنے پر روشن و واضح دلیل ھے۔

اب یھاں پر ایک سوال یہ پیش آتا ھے :جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بعض اولیاء کو حق شفاعت اور اجازہٴ شفاعت دیا ھے جو کوئی شخص بھی ان حضرات سے درخواست شفاعت کرے ، اگر درخواست کرنے والا شفاعت کے شرائط رکھتا ھے اور ان افراد میں سے ھو کہ اس کے حق میں شفاعت قبول کی جائے تو اس کی درخواست شفاعت قبول کی جائے گی ورنہ اس کی شفاعت ردّ کر دی جائے گی،بانی وھابیت کا یہ جملہ کتنا مضحکہ خیز ھے، وہ کہتا ھے کہ : ”خدا نے اپنے اولیاء کو حق شفاعت دیا ھے لیکن ھم کو اس کی درخواست سے منع فرمایا ھے۔

اولاً: ھم سوال کرتے ھیںکہ خداوند کریم نے قرآن کی کس آیت میں درخواست شفاعت سے منع فرمایا ھے؟ اگر اللہ نے ھمیں اس لئے روکا ھے کہ شافعین سے شفاعت طلب کرناشرک ھے تو ھرگز یہ درخواست پرستش اور عبادت کے مقابلہ میں نھیں ھے اور اگر کسی دوسری جہت سے ھے تو انشاء اللہ اس کے بعد ھم اس پر تحقیق کریں گے۔

ثانیاً: بذات خود یھاں قول و فعل میں تناقض پایا جارھا ھے اس لئے کہ اگر اللہ اپنے اولیاء کو یہ حق شفاعت دیا ، تو کس لئے ؟ تاکہ دوسرے لوگ اس سے فائدہ اٹھائیں، کیا یہ صحیح اور معقول ھے کہ جن لوگوں کو اس نے حق شفاعت دیا ھے ،تاکہ لوگ اس سے فائدہ اٹھائیں ان سے یہ کھا جائے کہ آپ کو درخواست شفاعت کرنے کا حق حاصل نھیں ھے، لہٰذایہ کھنا حکمت و رحمت اور عدل خداوندی کے خلاف ھے۔

مشرکین کا شرک بتوں سے شفاعت طلب کرنے کی وجہ سے تھا

وھابی حضرات کہتے ھیں:

مشرکین کا شرک اس وجہ سے تھا کہ وہ بتوں سے درخواست شفاعت کیا کرتے تھے ، ذیل کی آیت اس مطلب پر دلالت کرتی ھے:”وَ یَعبُدُونَ مِن دُونِ اللّٰہِ مَا لاَ یَضُرُّھُم وَ لاَ یَنفَعُھُم وَ یَقُولُونَ ھٰوٴُلاٰءِ شُفَعَاوُٴنَا عِندَ اللّٰہِ“[2] ”وہ لوگ اللہ کے علاوہ کسی اور چیز کی پرستش کرتے ھیں نہ وہ انھیں نفع پھونچا سکتی ھے اور نہ نقصان اور کہتے ھیں کہ یہ اللہ کے نزدیک ھمارے شفیع ھیں“اس بنا پر غیر خدا سے ھر طرح کی درخواست ایک طرح کا شرک اور پرستش ھے۔

وھابیوں کو ھمارا جواب

اولاً: ”واو عاطفہ“ اس بات پر دلالت کرتا ھے کہ مشرکین کی عبادت درخواست شفاعت کے علاوہ تھی ، اور اگر درخواست شفاعت ان لوگوں کی پرستش تھی تو لفظ واو یھاں پر زیادہ ھے۔

ثانیاً: کفارو مشرکین ”بتوں“ کو چھوٹے خدا تصور کرتے تھے او ران کو دنیاوی اور اخروی کاموں میں دخل وتصرف کا مالک جانتے تھے،لہٰذا اگر اس عقیدے کے تحت کسی سے شفاعت طلب کی جائے تو یہ واقعاً شفیع کی پرستش اور اس کی عبادت ھوگی، درحالیکہ ھم لوگ شافعین حضرات کو خدا کے مقرب بندے مانتے ھیں اور یہ عقیدہ رکھتے ھیں کہ یہ حضرات خدا کی اجازت کے بغیر کوئی کام نھیں کرتے، ایسی صورت میں یہ کس طرح ممکن ھے کہ ھماری ا س بحث کو مذکورہ آیت سے ربط دیا جائے۔

غیر خدا سے حاجت طلب کرنا حرام ھے

طلبِ شفاعت کی حرمت کے بارے میں وھابیوں کی تیسری دلیل یہ ھے کہ غیرخدا سے حاجت طلب کرنا حرام ھے ،جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے :

” فَلا تَدْعُوا مَعَ اللّٰہِ اَحَداً“[3]

”خدا کے ساتھ کسی کو نہ پکارو“

اسی طرح دوسری جگہ ارشاد ھوتا ھے :

”اٴُدْعُونِیْ اٴَسْتَجِبْ لَکُمْ “ [4]

”مجھے پکاروتاکہ تمھاری دعا قبول کروں“

وھابیوں کو ھمار جواب

مذکورہ آیات میں لفظ ”دعوت“ سے مراد حاجت طلب کرنا ،دعا وغیر دعا نھیں ھے بلکہ دعوت سے مراد غیر خدا کی پرستش اور عبادت ھے ھماری اس بات پر کلمہٴ ”مع اللہ“ گواہ ھے کہ جو دونوں مذکورہ آیات میں موجود ھے کیونکہ دوسری آیت کے ذیل میں اس طرح ھے ” إَنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ“ وہ لوگ جوھماری عبادت سے کنارہ کشی کرتے ھیں ، مذکورہ آیات کا مقصد صرف یہ ھے کہ ”غیر خدا“ کی عبادت نہ کریں، لیکن اگر گذشتہ آیات کے اس طرح وسیع معنی کریں کہ درخواست اور دعا کو بھی شامل ھوجائے ، اس وقت انسان کی درخواست اور دعا، اس قسم سے ھوگی جبکہ حاجت مند مدّمقابل کو خدا مانتے ھوئے اس سے حاجت طلب کرے۔

شفاعت خدا وندعالم سے مخصوص ھے

وھابی حضرات کہتے ھیں: قرآن مجید کی بعض آیات سے پتہ چلتا ھے کہ حق شفاعت خداوندعالم سے مخصوص ھے اور اسی کی ذات میں منحصر ھے ، ارشاد ھوتا ھے :

”اَمِ اتَّخِذُوا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ شُفَعَاءُ قُلْ اَوَلَوْکَانُوا لَایَمْلِکُونَ شَیْئًا وَلَا یَعْقِلُونَ قُلْ لِلّٰہِ الشَّفََاعَةُ جَمِیْعاً“ [5]

”بلکہ ان لوگوں نے ”غیر خدا“ کو اپنا شفیع بنالیا ھے ،(اے میرے رسول(ص)) کھدو کہ وہ کسی چیز کے مالک نھیں ھیں اور نہ ھی سوچنے کی صلاحیت رکھتے ھیں (کس طرح شفاعت کرسکتے ھیں) کھدیجئے کہ شفاعت تمام کی تمام خدا سے مخصوص ھے“

وھابیوں کو ھمارا جواب

اگر اس آیت کے جملوں پر توجہ کریں اور غور وفکر سے کام لیا جائے تو واضح ھے کہ اس آیت کا مقصد لکڑی ، پتھر او رلوھے کے بتوں سے شفاعت کی نفی کی گئی ھے نہ یہ کہ ان حقیقی شافعین سے شفاعت کی نفی کی گئی ھو جن کی شفاعت کے سلسلہ میں دوسری آیات موجود ھیں کیونکہ:

اول: ”لَایَمْلِکُونَ“ اور ”لَا یَعْقِلُونَ“ جملے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ھیں کہ شفاعت کا حق ان کا ھے کہ جو ”حق شفاعت“ رکھتے ھوں، او راپنے کاموں سے بھی آگاہ ھوں،

اورگذشتہ آیات میں جن بتوں کا تذکرہ ھے ان میں دونوں شرطوں میں سے کوئی بھی شرط نھیں ھے ، (وہ شرطیں یہ ھے :نہ ھی اپنے کاموں سے آگاہ ھیں اور نہ ھی شفاعت کے مالک ھیں) لہٰذا آیت کے اس حصہ ”قُلْ لِلّٰہِ الشَّفَاعَةُ جَمِیْعاً“ کے معنی یہ ھونگے کہ:شفاعت خدا کے لئے ھے نہ کہ لکڑی اور پتھر وں کے بتوں کیلئے ،گویا اس طرح معنی کئے جائیں :”ِللّٰہِ الشَّفَاعَةُ جَمِیعاً لَا للِاوْثَانِ وَالاَصْنَامِ”(یعنی شفا عت کا ما لک خدا ھے ، نہ کہ بت)

اور شفاعت کا مالک صرف خدا ھے اولیاء الہٰی شفاعت کے مالک نھیں ھیں بلکہ شفاعت کے بارے میں خدا کی طرف سے ان حضرات کو اجازت دی گئی ھے ، لہٰذا کوئی مانع نھیں ھے کہ ”شفاعت کا مالک“ خداھو اور اولیاء الٰھی ”خدا کی اجازت سے“ شفاعت کریں۔

دوسرے : مذکورہ آیت کے جملہ کا مقصد یہ نھیں ھے کہ فقط اور فقط خدا شفیع ھے اور غیر خدا کوئی شفیع نھیں ھے، کیونکہ اس میں کوئی شک نھیں کہ خداوندکریم کسی کے بارے میں شفاعت نھیں کرے گا بلکہ آیت کا مقصد یہ ھے کہ خدا وندکریم اصل شفاعت کا مالک ھے اور دوسرے حضرات اس کی اجازت سے شفاعت کریں گے ، مطلب یہ ھے کہ خداوندعالم کا یہ حق ”اصالةً “ ھے اور دوسروں کو یہ حق ”نیابتاً “ دیا گیا ھے ، لہٰذا مذکورہ آیت وھابیوں کے اعتراض کو ثابت نھیں کرتی ۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عقیدہ ختم نبوت
ماہ رمضان کی آمد پر رسول خدا (ص) کا خطبہ
جن اور اجنہ کے بارےمیں معلومات (قسط-1)
حکومت خدا کا ظھور اور اسباب و حسب و نسب کا خاتمہ
شیعہ:لغت اور قرآن میں
خدا کی راہ میں خرچ کرنا
جبر و اختیار
"حی علیٰ خیر العمل " كے جزء اذان ھونے كے سلسلہ میں ...
کیا نذر کرنے سے تقدیر بدل سکتی ہے؟
آخرت میں اندھے پن کے کیا معنی هیں؟

 
user comment