اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

عبداللہ کے قاتلوںکی تنبیہ

عبداللہ کے قاتلوںکی تنبیہ

عبداللہ کے قتل سے جو وحشت اور رعب پیدا ھوا اس نے امام علیہ السلام کو آمادہ کیا کہ جہالت اور بدبختی کو جڑ سے ختم کردیں ، اسی وجہ سے آپ نے ارادہ کیا کہ حروراء یا نہروان جائیں  جب امام روانہ ھونے لگے تو اس وقت آپ کے دوستوں میں سے ایک شخص نے جو علم نجوم میں ماہر تھا ، علی علیہ السلام کو اس وقت سفر کرنے سے منع کیا اور کہا: اگر اس وقت آپ نے سفر کیا تو بہت سخت مشکل میں گرفتار ھوں گے امام علیہ السلام نے اس کی بات پر توجہ نھیں دی اور ان مسائل میں علم نجوم سے استفادہ کرنے کے سلسلہ میں تنقید کرتے ھوئے فرمایا: نجوم کو جنگل کی تاریکیوں اور دریاوٴں میں راہنمائی کے لئے استعمال کرو ،  قضاء الھی سے امام علیہ السلام کو عظیم کامیابی ملی۔ امام علیہ السلام کوفہ سے کچھ ھی دور ھوئے تھے کہ آپ کے ساتھیوں میں سے ایک شخص دوڑا دوڑا آیا اور کہااے امیرالمومنین !بشارت دیجئے کہ خوارج کا گروہ آپ کے سفر سے آگاہ ھوگیا اور بھاگ گیا اور نہر عبور کرچکا ھے ۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: کیا تم نے اپنی آنکھوں سے لوگوں کو نہر عبور کرتے دیکھا ھے ؟ اس نے کہا: ہاں ، امام نے اُسے تین مرتبہ قسم دی اور اس نے تینوں مرتبہ قسم کھا کر کہا: میں نے خوارج کو پانی اور پل پر سے گزرتے ھوئے دیکھا ھے ۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: ” واللّٰہ ما عبروہ ولن یعبروہ وانّ مصارِعَھم دون النّطفة والذی خلق الحبّة وبرءَ النسمة لن یبلغوا الا ثلاث ولا قصر بوازِن “[1]خدا کی قسم ان لوگوں نے دریا کو عبور نھیں کیا ھے اور عبور کربھی نھیں کرسکتے ، ان کا مقتل دریا کے کنارے ھے۔ اس خدا کی قسم جس نے دانوں کو چاک کیا اور انسانوں کو پیدا کیا وہ لوگ ” اثلاث “ اور” قصربوازن“ بھی نھیں پھونچ پائیں گے۔

اس شخص کی دو آدمیوں نے اور بھی تائید کی لیکن امام علیہ السلام نے ان کی باتوں کو قبول نھیں کیا اور امام کس طرح سے قبول کرتے کیونکہ پیغمبر معصوم (ص) نے آپ کو خبر دی تھی کہ تین گروہ سے تمہاری جنگ ھوگی ؟ دوگروھوں سے جنگ ھوچکی تھی اور تیسرا گروہ پیغمبر کے قول میں ذکر شدہ نشانیوں کے مطابق یھی گروہ تھا ۔ اس وقت ایک جوان شک وشبہ میں پڑ گیا اور سوچنے لگاکہ عینی شاہدوں کی بات مانے یا امام علیہ السلام کی غیبی باتوں کو صحیح مانے ، آخر اس نے فیصلہ کیا کہ اگر امام علیہ السلام کی بات کے برخلاف ثابت ھوا تو ان کے دشمن سے مل جائے گا۔

امام علیہ السلام گھوڑے پر سوار ھوئے اور آپ کی فوج بھی پیچھے پیچھے چلی، جب خوارج کی چھاوٴنی پر پھونچے تو پتہ چلا کہ ان لوگوں نے نیام کو توڑ ڈالا ھے اور گھوڑوں کو چھوڑدیا ھےاور جنگ کے لئے تیار ھیں اس وقت وہ سادہ لوح نوجوان امام علیہ السلام کی خدمت میں آیا اور اپنے برے خیال کے متعلق امام سے معافی مانگی۔

تاریخ بیان کرتی ھے کہ امام علیہ السلام مدائن سے گزر کر نہروان پھونچے اور انھیں پیغام دیا کہ عبداللہ اور اس کی بیوی بچے کے قاتل کو ھمارے حوالے کریں تاکہ ان کا قصاص لیں۔ خوارج نے جواب دیا ھم سب نے مل کر انھیں قتل کیا ھے اور ان کے خون کو حلال سمجھا ھے۔ امام علیہ السلام ان کے نزدیک پھونچے اور فرمایا:

 ” اے (سرکش)گروہ میں تم کو متنبّہ کررہا ھوں کہ ایسا نہ ھوکہ کل امت اسلامی تم کو لعنت کا

مستحق قراردے اور بغیر کسی واضح دلیل کے دریا کے کنارے قتل کردیئے جاوٴ۔

… میں نے تم لوگوں کو مسئلہ حکمیت قبول کرنے سے منع کیا اور میں نے کہا تھا کہ بنی امیہ کو نہ دین سے محبت ھے اور نہ قرآن ھی چاہتے ھیں۔ میں ان لوگوں کو بچپن سے لے کر اس وقت تک کہ وہ بڑے ھوئے ھیں خوب پہچانتاھوں ، وہ لوگ بد ترین بچے اور بدترین لوگ ھیں ۔لیکن تم لوگوں نے میری بات غور سے نھیں سنی اور میری مخالفت کی اور میں نے ایسے ھی دن کے لئے دونوں قاضیوں سے عہد وپیمان لیا کہ جو کچھ قرآن نے زندہ کیاھے اُسے زندہ کریں اور جس چیز کو ختم کیا ھے اسے ختم کر دیں اب جبکہ دونوں نے قرآن و سنت کے برخلاف حکم کر دیا ھے ھم اپنے پھلے ھی قول اور طریقے پر باقی ھیں [2]

” خوارج کے پاس امام علیہ السلام کی معقول اور محکم گفتگو کے جواب میں بے ھودہ باتوں کی تکرار کے علاوہ کچھ نھیں تھااور اصرار کررھے تھے کہ مسئلہ حکمیت قبول کرنے کی وجہ سے ھم سب کافر ھوگئے ھیں اور ھم نے توبہ کی ھے آپ بھی اپنے کفر کا اعتراف کیجیے اور توبہ کیجئے، اس صورت میں ھم آپ کے ھمراہ ھیں اور اگر ایسا نھیں کیا تو ھم کوچھوڑ دیجیے اور اگر جنگ کرنا چاہتے ھیں تو ھم جنگ کے لئے تیار ھیں “۔

 امام علیہ السلام نے فرمایا: کیا رسول اسلام پر ایمان اور ان کی رکاب میںجہاد کرنے کے بعد اپنے کفر پر گواھی دوں ؟ کیا مسئلہ حکمیت قبول کرنے کی وجہ سے تم لوگوں نے اپنی تلواروں کو کاندھوں پر رکھا ھے اور انھیں لوگوں کے سروں پر مارنا چاہتے ھو اور لوگوں کا خون بہانا چاہتے ھو ؟یہ تو کھلا ھوا گھاٹاھے۔

 آخری اتمام حجت

امام علیہ السلام ان کے ساتھ گفتگو کرنے سے مایوس ھوگئے اور اپنی فوج منظم کرنے لگے فوج کے میمنہ کا سردار  حجر بن عدی کواور میسرہ کا سردار شبث بن ربعی کو بنایا اور ابو ایوب انصاری کوسواروں کاسردار اور ابو قتادہ کو پیادہ چلنے والوں کا سردار بنایا ۔اس جنگ میں امام علیہ السلام کے ساتھ آٹھ سو صحابی شریک تھے  اسی وجہ سے آپ نے ان لوگوں کا سردار قیس بن سعد بن عبادہ کو بنایا اور خود میںتھے پھر سوار لوچگوں میں ایک پرچم بلند کیا اور ابو ایوب انصاری کو حکم دیا کہ بلند آواز سے کھیں کہ واپسی کا راستہ کھلا ھواھے اور جو لوگ اس پرچم کے سایہ میں آجائیں گے ان کی توبہ قبول ھوجائے گی اور جو شخص بھی کوفہ چلا جائے یا اس گروہ سے الگ ھوجائے وہ امن وامان میں رھے گا ، ھم تم لوگوں کا خون بہانا نھیں چاہتے اس وقت ایک گروہ پرچم کے نیچے آگیا اور امام علیہ السلام نے ان کی توبہ قبول کرلی ۔[3] بعض لوگوں کا کہنا ھے کہ خوارج میں سے ایک ہزار لوگوں نے واپسی کا راستہ اختیار کر لیا اور پرچم کے سایہ میں آگئے ۔خوارج کے بعض سردار جو امام علیہ السلام کی طرف آگئے ان کے نام یہ ھیں ، مسعر بن فدکی ، عبداللہ طائی ، ابومریم سعدی، اشرس بن عوف اور سالم بن ربیعہ۔ حقیقت میں صرف عبداللہ بن وہب راسبی کے علاوہ ان کے ساتھ کوئی بھی سردار نہ بچا۔[4]

طبری لکھتے ھیں کہ امام علیہ السلام کی فوج میں اس گروہ کے شامل ھونے کے بعد خوارج کی فوج میں کل دو ہزار آٹھ سو (۲۸۰۰) سپاھی بچے،[5] اور ابن اثیر نے ان کی تعداد ایک ہزار  آٹھ سو (۱۸۰۰)لکھی ھے ۔

    امام علیہ السلام نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ جب تک دشمن جنگ شروع نہ کرے تم لوگ جنگ شروع نہ کرنا۔ اسی وقت خوارج میں سے ایک شخص بڑھا اور امام علیہ السلام کے ساتھیوں پر حملہ کیا اور تین آدمیوں کو قتل کردیا ، اب امام علیہ السلام نے اپنے حملہ سے جنگ شروع کی اور اپنے پھلے ھی حملے میں اس شخص کو قتل کردیا اور پھر اپنے فوجیوں کو حملہ کرنے کا حکم دیا اور فرمایا: خدا کی قسم تم لوگوں میں دس آدمی کے علاوہ کوئی قتل نھیں ھوگا اور ان میں سے صرف دس آدمی کے علاوہ کوئی زندہ نھیں رھے گا۔[6]

اس وقت عبداللہ بن وہب راسبی میدان میں آیا اور کہا : اے ابوطالب کے بیٹے !تم سے اس وقت تک جنگ کروں گا جب تک تمھیں قتل نھیں کردو یا تم مجھے قتل کر دو ۔ امام علیہ السلام نے اس کا جواب دیا: خدا اسے قتل کرے کتنا بے حیا شخص ھے وہ جانتاھے کہ میں تلوار اور نیزہ کا دوست ھوں۔ اور فرمایا کہ وہ اپنی زندگی سے مایوس ھوگیا ھے اور جھوٹی امید میرے خلاف باندھے ھے۔ پھر ایک ھی حملہ میں اسے قتل کرکے اس کے دوستوں سے ملحق کردیا۔[7]

اس جنگ میں بہت کم وقت میں امام علیہ السلام کو کامیابی مل گئی، امام علیہ السلام کے بہادر سپاھیوں نے داہنے بائیں سے اور خود امام علیہ السلام نے قلب لشکر سے اپنے بدترین وذلیل دشمن پر حملہ کیااورکچھ ھی دیر میں خوارج کے بے جان جسم زمین پر پڑئے ھوئے نظر آئے ۔اس جنگ میں تمام خوارج قتل ھوگئے ، صرف نو آدمی باقی بچے تھے جن میں دو شخص خراسان میں، دو شخص عمّان میں، دو شخص یمن میں، دو شخص جزیرہ عراق میںاورایک شخص نے ” تلّ موزن “ میں پناہ لی ، اور وھیں زندگی بسر کرنے لگے اور خوارج کی نسل کو باقی رکھا[8]۔

    امام علیہ السلام جنگ کے بعد ان کے مردہ جسموں کے درمیان کھڑے ھوئے اور بہت ھی افسوس کرتے ھوئے  فرمایا:”بؤساً لکم ، لقد ضرَّ کم من غرَّکم ، فقیل لہ‘  من غرّھم یا امیرالمومنین ؟ فقال: الشیطانُ المضلُّ والا نفسُ الامّارة بالسُّوءِ غرّتھم بالامانیّ وفسحت لھم بالمعاصی ووعدتھم الا ظھار فاٴ فتحمت بھم النّار“[9] تمہارے لئے بدبختی ھو ، جس نے تم لوگوں کو دھوکہ دیا اس نے تمھیں بہت بڑا نقصان پھونچایا۔ لوگوں نے پوچھا :کس نے انھیں دھوکہ دیاھے ؟ آپ نے فرمایا:گمراہ کن شیطان اور سر کش نفسوں نے ان لوگوں کو لالچ دے کر دھوکہ دیا اور نافرمانی کی راھوں کو ان کے لئے کھول فیا اور انھیں کامیابی کا وعدہ دیا اور بالآخر ان لوگوں کو جہنم کی آگ میں جھونک دیا۔

امام علیہ السلام کے دوستوں نے سمجھا کہ خوارج کی نسل ختم ھوگئی ھے لیکن امام علیہ السلام نے ان کے جواب میں فرمایا:”کلّا ، واللّٰہ انّھم نطفٌفی اصلاب الرجال وقرارات النساء ، کلّما نَجَمَ منھم قرن قُطِعَ حتٰی یکون آخرھم لصوصاً سلّابین “ [10]نھیں ایسا ہرگزنھیں ھے ، خدا واہ ھے کہ وہ لوگ بصورت نطفہ مردوں کے صلب میں اور عورتوں کے رحم میں موجود ھیں اور جب بھی ان میں سے کوئی سرنکالے گا (حکومتوں کی طرف سے اسے) کاٹ دےا جائے گا ( اور دوسرا سروھیں پر نکل آئے گا) یہاں تک کہ آخر میں صرف چور اور لٹیرے ھو کر رہ جائیں گے۔

پھر آپ نے فرمایا: میرے بعد تم لوگ خوارج سے جنگ نہ کرنا کیونکہ تمہارا اصلی دشمن معاویہ ھے اور میں نے امن وامان کی حفاظت کے لئے ان لوگوں سے جنگ کی ھے ان میں سے بہت کم لوگ بچے ھیں اوروہ جنگ کرنے کے لائق نھیں ھیں ۔

    امام علیہ السلام نے جنگی غنائم میں سے اسلحہ اور چوپایوں کو اپنے فوجیوں کے درمیان تقسیم کردیا اور ان کے سامان زندگی، کنیزوں اور غلاموں کو ان کے وارثوں کو واپس کردیا ۔ پھر اپنی ھماری تلواریں ٹوٹ گئی ھیں اور تیر ختم ھوگئے ھیں ، لہٰذا بہتر یہ ھے کہ کوفہ واپس چلیں اپنی قوت میں اضافہ کریں پھر آگے بڑھیںفو ج میں آئے اور فوجیوں کی جواں مردی کی تعریفیں کیں اور فرمایا اسی وقت صفین کی طرف بڑھنا ھے تاکہ فتنہ کو جڑ سے ختم کر دیا جائے مگر فوجیوں نے کہا ھم تھک گئے ھیں ان لوگوں نے واپس جانے پر اتنا زیادہ اصرار کیاکہ امام علیہ السلام کو افسوس ھوا اور مجبوراً آپ ان لوگوں کے ساتھ نخیلہ کوفہ کی چھاوٴنی پر واپس آگئے ۔ وہ لوگ دھیرے دھیرے کوفہ چلے جاتے تھے اور اپنی بیوی بچوں سے ملتے تھے اور زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ چھاوٴنی پر کچھ ھی لوگ باقی بچے ۔ اتنے کم سپاھیوں کے ساتھ شامیوں سے جنگ کرنا ممکن نہ تھا۔

فتنہٴ خوارج کے خاتمہ کی تاریخ

سرزمین صفین پر امام علیہ السلام کے اوپر خروج کرنے کی فکر ماہ صفر   ۳۸ ہجری میں پیدا ھوئی اور زمانے کے ساتھ ساتھ کتاب خدا کے حکم کی مخالفت شدید ھوتی گئی ، کوفہ کے خوارج ماہ شوال   ۳۸  کو عبداللہ بن وہب راسبی کے گھر جمع ھوئے اور اس کے ہاتھ پر بیعت کی اورکوفہ چھوڑنے کا ارادہ کیا اوروہاں سے” حروراء “اور پھر ” نہروان “ چلے گئے ۔ امام علیہ السلام نے اپنے شام کے پروگرام کو مجبوراً بدل کر خوارج سے جنگ کرنے کا ارادہ کیا اور مؤرخین کے نقل کرنے کے مطابق ۹ صفر   ۳۸  ہجری کو فساد کو جڑ سے اکھاڑ دیا۔[11]

 

 

 

 

 



[1] شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۲، ص۲۷۲”مضارعھم دون النطفةواللّٰہ لایفلت منھم عشرةولا یھلک منکم عشرة“خطبہ ،۵۸

[2] شرح نہج البلاغہ خطبہ نمر ۳۶ کی طرف رجوع کریں

[3] الاخبار الطوال ص۲۱۰۔

[4] مقالات اسلامیین ج۱، ص ۲۱۰۔

[5] کامل ابن اثیر ج۳،ص ۳۴۶۔ تاریخ طبری ج۴،ص ۶۴ ۔

[6] شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۲، ص۲۷۳،۲۸۲

[7] الامامة والسیاسة ص۱۳۸

[8] کلمات قصار نمبر ۳۱۵۔

[9] کشف الغمہ ج۱، ص ۲۶۷۔

[10] نہج البلاغہ خطبہ نمبر ۵۹۔

[11] تاریخ طبری ج۳، س۹۸ ۔والخوارج

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت آدم ﴿ع﴾ پر سب سے پہلے سجدہ کرنے والے فرشتہ ...
خود شناسی(پہلی قسط)
قرآن کی حفاظت
جھاد قرآن و حدیث کی روشنی میں
سیاست علوی
قرآن مجید و ازدواج
عید سعید فطر
شب قدر ایک تقدیر ساز رات
آخرت میں ثواب اور عذاب
انیس رمضان / اللہ کے گھر میں پہلی دہشت گردی

 
user comment