اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

فضائل علی (ع):

۱۴۔فضائل علی (ع):

یہ وہ خصوصیات و فضائل ھیں جن کی وجہ سے حضرت علی علیہ السلام تمام لوگوں سے ممتاز دکھائی دیتے ھیں۔ اللہ تعالی نے واضح طور پر حضرت علی علیہ السلام کے فضائل بیان کرنے کا ارادہ فرمایا ھے۔

 ابوسعید خدری کھتے ھیں کہ ھم حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے لیکن راستہ میںحضرت علی علیہ السلام کا جوتا ٹوٹ گیا۔

 آپ ھم سے پیچھے رہ گئے اور جوتا سلنے لگ گئے۔ (ھم نے )تھوڑا فاصلہ ھی طے کیا تھا کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے کون ھے جو قرآن کی تفسیر کرے‘اس کی تنزیل باریکیوں کے ساتھ بیان کر سکے ۔کچھ لوگ آپ (ص)کے قریب آئے ان میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر بھی تھے۔

حضرت ابو بکر نے کھاوہ میں ھوں۔

حضرت نے فرمایا نھیں۔

حضرت عمر نے کھاوہ میں ھوں۔

حضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )نے فرمایا نھیں۔ لیکن وہ شخص جوجوتا سل رہاھے (یعنی حضرت علی علیہ السلام) وہ کھتے ھیں کہ ھم حضرت علی کے پاس  گئے اور آپ (ع) کو اس بات کی بشارت دی (لیکن )حضرت علی علیہ السلام نے اپنا سر تک نہ اٹھایا گویا حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو کچھ فرمایا تھا وہ آپ(ع) نے سن لیا تھا۔[33]

صاحب کشف الغمہ کھتے ھیں کہ تاویل کا انکار تنزیل کے انکار کی طرح ھے کیونکہ تنزیل کا منکر اس کو قبول کرنے سے انکار کرتا ھے۔ اور تاویل کا منکر اس پر عمل کرنے سے انکار کرتا ھے اپنے انکار میں دونوں برابر ھیں اور ان کے لئے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آ پ کے جانشین کے سوا کوئی پناھگاہ نھیں ھے۔چنا نچہ اس سے معلوم ھوتا ھے کہ فقط ان خصوصیات کا مالک ھی خلافت وامامت کا حقدار ھو سکتا ھے ۔[34]

۱۵۔امیر المومنین:

انس بن مالک کھتے ھیں کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے انس وضو کرنے کے لئے میرے پاس پانی لاؤ۔ جب میں پانی لے آیا تو  حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے وضو فرمایا اور نماز پڑھی اس کے بعد میری طرف متوجہ ھو کر فرمایا:

اے انس آج جو شخص سب سے پھلے میرے پاس آئے گا وھی اٴمیر المومنین، وسیدالمسلمین، وخاتم الوصیین، اِمام الغرالمحجلین و گا اچانک کسی نے دق الباب کیا میں نے دیکھا کہ حضرت علی علیہ السلام تشریف لائے ھیں۔ حضرت نے پوچھا انس دروازے پر کون ھے ؟

میں نے عرض کی حضرت علی علیہ السلام ھیں ۔

فرمایا اس کے لئے دروازہ کھول دو چنانچہ حضرت علی علیہ السلام اندر تشریف لے آئے۔[35]

علماء کے درمیان برےدہ بن حصےب اسلمی کی یہ روایت مشھو ر و معروف ھے کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ساتوں میں ساتویں سے متعلق مجھے حکم دیا۔ ان لوگوں میں حضرت ابو بکر حضرت عمر حضرت طلحہ اور حضرت زبیر بھی تھے حضرت نے فرمایا:

سلموا علیٰ علي باِمرة الموٴمنین۔

 مومنوں کے امیر حضرت علی علیہ السلام کو سلام کرو۔

 ھم نے انھیں سلام کیا اور حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ھمارے آنے کے بعد تشریف لائے ۔[36]

حضرت علی علیہ السلام کا غلام سالم کھتا ھے کہ میں حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ آپ کے کھیت میں کام کر رھاتھا وہاں حضرت ابو بکر اور حضرت عمر آئے اور ان دونوں نے کھا:

 السلام علیک یا امیر المومنین و رحمة اللہ وبرکاتہ

اے امیر المومنین آپ(ع) پراللہ کی سلامتی، رحمت اور اس کی برکتےں نازل ھوں۔لیکن ایک وقت اےسا آیا کہ ان سے سوال کیا گیا کہ آپ (ع)تو امیر المومنین کہہ کر سلام کیا کرتے تھے اب کیا ھوا۔ وہ کھنے لگے اس وقت حکم دیا گیا تھا اس لئے امیر المومنین کہہ کر سلام کرتے تھے۔[37]

جابر بن یزید حضرت امام محمد باقر علیہ السلام بن امام علی زےن العابدین (ع) سے روایت بیان کرتے ھیں کہ حضرت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت ام سلمہ سے حضرت علی (ع)ابن ابی طالب (ع)سے متعلق سوال کیا گیا تو انھوں نے کھاکہ میں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ھوئے سناھے :

اِن علیا و شیعتہ۔ ھمْ الفائزون۔۔

 بے شک حضرت علی علیہ السلام اور ان کے شیعہ(قیامت کے دن)کامیاب ھونگے۔[38]

۱۶۔ غدیر خم :

پوری کائنات میں اللہ تبارک و تعالی نے یہ خصوصیت  صرف حضرت علی علیہ السلام کو عناےت فرمائی ھے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرحجة الوداع سے واپس لو ٹتے ھوئے غدیر خم کے میدان میں وحی نازل ھوئی کہ جس میں اللہ تعالی نے ارشاد فر ما یا:

< یَااٴَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ >

اے رسول(ص)جو کچھ آپ(ص) کے رب کی طرف سے نازل ھوا ھے اسے لوگوں تک پھنچا دو۔

یعنی امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی خلافت اور امامت کے لئے آپ (ص)پر وحی بھیجی گئی ھے کہ اس کا اعلان کر دیں لہٰذا یہاں امامت پر نص بیان ھوئی ھے اور اللہ تعالی نے فرمایا: 

 <وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنْ النَّاس>[39]

اگر آپ(ص) نے یہ کام نہ کیا تو (گویا ) آپ(ص) نے تبلیغ رسالت نھیں کی اور اللہ لوگوں کے (شر)سے آپ(ص) کی حفاظت کرنے والا ھے۔

(جب یہ حکم ملا تو)حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوںکو خطبہ دینے کے لئے کھڑے ھوئے ۔آپ نے امیر المومنین کو بلایا اور اپنے پاس دائےں جانب کھڑا کردیا (اور خطبہ دینا شروع کیا )۔

سب سے پھلے آپ(ص) نے اللہ کی حمد و ثنا کی اور پھر آپ(ص) نے فرمایا:

اٴني قد دعیت  ویوشک اٴُن اُجیب  و قد حان منی خفوق من بین اٴظہُرِکُم واِنی مخلِّفٌ فیکمُ ما اِن تمسکتم بہ لن تِضلوا اٴبداً کتابُ اللہ وعترتي اٴھل بیتي وانھمالن یفترقا حتّیٰ یردا عليَّ الحوض۔

 میں نے آپ کو اس لئے بلایا ھے کہ آپ میری بات کا صحیح صحیح جواب دیں۔ مجھے ایسے معلوم ھوتا ھے کہ میرا وقت قریب آچکا ھے اور میں شاید زیادہ دیر آپ لوگوں کے درمیان نہ رھوں ۔میں دو چیزیں تمہارے درمیان چھوڑ کر جا رھاھوں ان کا دامن اگر مضبوطی سے تھامے رھو گے تو کبھی بھی گمراہ نھیں ھو گے۔ ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری عترت و اھل بیت۔ یہ دونوں حوض کوثر پر میرے پاس آنے تک ایک دوسرے سے جدا نھیں ھونگے۔ پھر آپ نے بلند آواز سے فرمایا :

الست اولی بکم منکم باٴ نفسکم ۔

کیا میں تمہارے نفسوں پر تم سے زیادہ تصرف کرنے کا حق دار نھیں ھوں۔ سب نے یک زبان ھوکر کھابے شک آپ (ص)ھم سب سے بھتر ھمارے نفسوں پر تصرف کا حق رکھتے ھیں اس کے بعدآپ(ص) نے امیر المومنین علیہ السلام کو دونوں کندھوں سے پکڑ کر اس قدر بلند کیا کہ بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی اور فرمایا :

فمن کنت ُمولاہ فھذا عليُّ مولاہ اللھمّ وال من والاہ و عاد من عاداہ وانصر من نصرہ و آخذُل مَن خذلہ۔

جس کا میںمولا ھوں اس کے یہ علی (ع)مولا ھیں ۔پروردگار ا اس سے محبت رکھ جو اس سے محبت رکھے ۔اس سے دشمنی رکھ جو اس سے دشمنی رکھے اور اس کی مدد کر جو اس کی مدد کرے اور اس کو رسوا کر جو اس کو رسوا کرے ۔

پھر تمام مسلمانوں کو حکم دیا کہ گروہ در گروہ حضرت علی علیہ السلام کے پاس جائیں اور انھیں اس بلند اور عظیم مقام کی مبارک باد دیں اورانھیں امیر المومنین کہہ کرسلام کریں۔

 جس طرح انھیں حکم دیا گیاسب لوگوں نے ویسے ھی کیا پھر آپ (ص)نے اپنی ازواج اور تمام مومنین کی خواتین سے کھاکہ وہ بھی علی کو امیر المو منین کہہ کر سلام کریں اورمبارک باد دیں ان سب نے اسی طرح کیا،لیکن حضرت عمر کا تو تبریک کھنے کا انداز ھی نرالا تھا۔ وہ خوشی میں ڈوبے ھوئے تھے اور کہہ رھے تھے۔

بخ بخ یا علی اٴصبحت مولا ي ومولیٰ  کلِّ موٴمنٍ و موٴمنة۔

اے علی( علیہ السلام) مبارک ھو مبارک ھو آپ(ع) میرے اور ھر مومن و مومنہ کے مولا و آقاھیں ۔

 قارئین کرام!اس مبا رک موقع پر جناب حسان نے بھترین اشعار کھے :

ینا دیھم یوم الغدیر  نبیھم

بخم واٴسمع بالرسول منادیا

وقال فمن مولاکم و ولیکُم

                فقالوا ولم یبدوا ھناک  التعامیا

اِلٰھک مولانا و انت ولینا

               و لن تجدن منّالک الیوم عاصیا

فقال لہ قم یاعلي فاِنني   

               رضیتُک من بعدي اِماماً و ھادیا 

فمن کنت مولاہُ فھذا ولیّہ

                 فکونوا لہ اٴنصار صدقٍ موالیا

ھناک دعا اللھم وال ولّیہُ

                وکن للذي عادیٰ علیاً معادیا۔[40]

غدیر کے دن ان کے نبی(ص) نے انھیں پکارا اور خم کے میدان میں حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس ندا کو سنا حضرت (ص)نے فرمایا:

 آپ کا مولا اور ولی کون ھے؟

 کھنے لگے آپ(ص) کے سوا کوئی بھی نھیں ھے۔ آپ (ص)کا پروردگار ھمارا مولا ھے اور آپ(ص)ھمارے ولی ھیں۔ آج کے دن آپ(ص) ھم میں سے کسی کو بھی نافرمان نھیں پائیں گے۔ پھر حضرت نے ارشاد فرمایا :یاعلی (ع) کھڑے ھو جائیے ۔میں چاھتا ھوں کہ آپ(ع) میرے بعد امام اور ہادی ھوں۔ پس جسکا میں مولا ھوں اس کے یہ ولی ھیں، لہٰذا ان کے سچے مددگار اور حامی بنو ۔

حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس موقع پر دعا مانگی کہ اے اللہ جو علی (ع)سے محبت رکھے تو بھی اس سے محبت رکھ اور جو علی( علیہ السلام) سے دشمنی رکھے تو بھی اس سے دشمنی رکھ ۔

۱۷۔بت شکن :

جیسا کہ حضرت ابراھیم خلیل اللہ علیہ السلام نے (اپنی قوم کے) بتوں کو توڑا تھا۔ لیکن بت شکنی کے اعتبار سے بھی حضرت علی کو جو امتیاز حاصل ھے وہ کسی دوسرے کو نصیب نھیں ھوا ھے۔ آپ نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوش پر سوار ھو کر کعبہ میں رکھے ھوئے بتوں کو توڑا۔ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کھتے ھیں کہ مجھ سے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ان کے تانبے یالوھے سے بنے ھوئے بڑے بت یعنی صنم قریش کو اکھاڑ کر زمین پر پھینک دو ۔حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام فرماتے ھیں کہ میں ابتدا ھی سے اس کا علاج کرنے والا تھا اور اس موقع پر حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رھے تھے:

جَاءَ الحَقُّ وَزَھَقَ البَاطِلُ اٴنَّ البَاطِلَ کَانَ زَھُوْقاً ۔

”حق آگیا ھے اور باطل چلا گیا ھے اور یقینا باطل کو تو جانا ھی ھے۔“

میں نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے مطابق بڑے بت کو زمین پر پھینک دیا اور وہ ٹوٹ گیا۔[41]

۱۸۔ قربت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔

حضرت علی علیہ السلام کے امتیازات میں سے ایک امتیاز یہ بھی ھے کہ آپ(ع) حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دوسروں کی نسبت زیادہ قربت رکھتے ھیں ۔

جس وقت حضور(ص) کی طبیعت بھت زیادہ خراب ھوئی آپ(ع) نے فرمایا میرے بھائی اور دوست کو میرے پاس بلاؤ۔

 حضرت عائشہ نے سمجھا کہ آپ(ص) حضرت ابوبکر کو بلا رھے ھیں۔

انھوں نے حضرت ابوبکر کو بلابھےجا،حضرت ابوبکر اس کمرے میں تشریف لائے جہاں آپ(ص) آرام فرما رھے تھے، حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی آنکھیں کھولیں اور حضرت ابوبکر کو دےکھ کر اپنا چھرہ دوسری طرف کر لیا اس وقت حضرت ابوبکر وہاں سے اٹھ کھڑے ھوئے۔

کچھ دیر بعد جب آپ(ص) کی طبیعت سنبھلی تو آپ نے دوبارہ اپنے کلمات دھرائے تو حضرت حفصہ نے سمجھا کہ شاید آپ(ص) حضرت عمر کو بلا رھے ھیں۔

جب حضرت عمر حاضر ھوئے توحضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا چھرہ دوسری طرف پھیر لیا،اس کے بعد حضرت نے ایک مرتبہ پھر فرمایا :

ادعوا لي اٴخي وصاحبي ۔ میرے بھائی اوردوست کو میرے پاس بلا لاوٴ۔

 حضرت ام سلمہ کھتی ھیں کہ میں نے اندازہ کر لیا کہ آپ حضرت علی علیہ السلام کو بلانا چاھتے ھیں میں نے آپ(ع) کو بلایا جب حضرت علی علیہ السلام تشریف لائے تو حضرت(ص) نے آپ(ع) کی طرف اشارہ کیا کہ میرے قریب آجاؤ، آپ(ع) حضرت کے قریب ھوئے۔

اس کے بعد حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ (ع)سے کافی دیر تک آھستہ آھستہ گفتگو کرتے رھے۔ جب نفس پر وازکا وقت آیا تو آپ (ص)نے حضرت علی علیہ السلام کومخاطب کر کے فرمایا:ضع راٴسی یا علی فی حجرک فقد جاء اٴمرُاللہ عزوجل فاذا فاضت نفسي فتناولھا بےدک واٴمسح بھا وجھک ثم وجھنی اِلیٰ القبلہ وتول اٴمري   و صلي عليَّ اٴوّل الناس ولاتفا رقني حتیٰ توارینيفي رمسي۔

 یا علی (ع)میرے سر کو اپنی گود میں رکھو الله جل جلالہ کا حکم ھے کہ میری روح قبض ھونے لگے تو تمہارے چھرے کے سامنے ھو۔ تم میرا چھرہ قبلہ کی طرف کرنا ‘ میرے امر کی حفاظت کرنا‘ لوگوں میں سب سے پھلے مجھ پر نماز پڑھنا‘ میری وفات کے مراسم جب تک ختم نہ ھو جائیں مجھ سے دور نہ ھونا۔

چنا نچہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھاآپ(ص) کے چھرہ اقدس کو دیکھ کر رونے لگیں اور روتے ھوئے فرمایا :

               واٴبیض یستسقیٰ  الغمام بوجھہ              

ثُمال الیتامیٰ عصمةٌللاراملِ۔

سفید بادل یتیموں کے مدد گار اور بیواوں کے محافظ کے چھرے مر چھا گئے۔

 اس وقت آنحضرت (ص)نے اپنی آنکھیں کھولیں اور نحیف آواز میں فرمایا : اے میری بےٹی فاطمہ یہ جملہ نہ کھو کیونکہ یہ تہارے چچا ابو طالب فرمایا کرتے تھے البتہ یہ کلمات کھو:

<وَمَا مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اٴَفَإِیْن مَاتَ اٴَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَی اٴَعْقَابِکُمْ >[42]

محمد(ص)  تو فقط رسول ھیں اور ان سے پھلے بھی بھت سے پیغمبر گزر چکے ھیں۔ پھر اگر محمد (ص)اپنی موت سے اس دنیا سے کوچ کر جائیں یا قتل کر ڈالے جائیں تو کیا تم الٹے پاؤں کفر کی طرف پلٹ جاؤ گے۔[43]

۱۹۔دعوی سلونی:

آپ(ع) کے امتیازات میں سے ایک امتیاز یہ ھے کہ آپ نے کئی مرتبہ فرمایا :

 سلوني قبل اٴن تفقدوني سلوني فاِن عندي علم الاولےن والاّخرین۔  

 مجھ سے جو کچھ پوچھنا چاھتے ھو پوچھ لو مجھ سے سوال کرو قبل اس کے کہ تم مجھے کھو دو کیونکہ میرے پاس اولین و آخرین کا علم ھے ۔

آپ(ع) مزید ارشاد فرماتے ھیں: 

اما واللہ لو ثنیت لی الوسادة لحکمت بین اٴھل التوراة بتوراتھم و بین اٴھل الانجیل بانجیلھم واٴھل الزبور بزبورھم و اٴ ھل القرآن بقرآنھم  حتیٰ یزھر کل کتاب من ھذہ الکتب وےقول یا رب اِنَّ علیا قضیٰ بقضائِک واللہ اِني اٴعلم بالقرآن وتاٴویلہِ من کلِّ مدع علمہ ولولا آیة في کتاب اللہ لاٴخبرتکم بما یکون اِلیٰ یوم القیامہ۔[44]

خدا کی قسم اگر میرے لئے ایک مسند بچھائی جائے اس پر بیٹھ کر میں توریت والوں کو (ان کی) توریت سے‘ انجیل والوں کو( ان کی )انجیل سے ‘ اھل زبور کو (ان کی) زبور سے اور

قرآن والوں کو( ان کے) قرآن سے فیصلے سناؤں۔ اس طرح کہ ان کتابوں میں سے ھر ایک کتاب بول اٹھے گی کہ پروردگارا علی (ع) کا فیصلہ تیرا فیصلہ ھے۔ خدا کی قسم میں قرآن اور اس کی تاویل کو ھر مدعی علم سے زیادہ جانتا ھوں ۔قرآن مجید کی آیت کے متعلق میں تمھیں یوم قیامت تک خبر دے سکتا ھوں۔ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے امتیازات کے حوالے سے آپ(ع) کے بھت سے ایسے کامل کلمات ھیں جو آپ (ع)کی عظمت ،طہارة ، شرافت و فضیلت پر دلالت کرتے ھیں۔آپ (ع)کی ذات کے علاوہ کوئی بھی اس کا حقدار نھیں ھے۔ آپ(ع) نے ارشاد فرمایا:

واللہ لو کُشف الغطاء ما ازدت  یقینا [45]

خدا کی قسم اگر پردے ہٹا دیئے جائیں تو بھی میرے یقین میں اضافہ نھیںھوگا۔اور اسی طرح حضرت کا یہ ارشاد کہ:

 والله لو اُعطیتُ الاقالیم السبعة بما تحت اٴفلا کِھا علیٰ اٴن اٴُعصي الله في نملہٍّ اٴسلبھا جلبَ شعیرہ لما فعلتُ۔

خدا کی قسم اگر مجھے سات اقلیم اس لئے دیئے جائیں کہ میں الله کی نافرمانی کرتے ھوئے چیونٹی کے منہ سے جو کا چھلکا چھین لوں تو میں ایسا نھیں کروں گا۔[46]

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت عباس (ع) کی صفات کمالیہ
جدیدسائنس اور خدا کا وجود
عریضہ دل، ایک غلام کا آقا کے نام
دوسروں کو نصیحت کرنے کے آداب
تربيت ميں محبت کي اہميت و ضرورت
ادب و سنت
اہم شیعہ تفاسیر کا تعارف
اردو زبان میں مجلہ ’’نوائے علم‘‘ کا نیا شمارہ ...
آٹھ شوال اہل بیت(ع) کی مصیبت اور تاریخ اسلام کا ...
انسان، صحیفہ سجادیہ کی روشنی میں

 
user comment