اردو
Thursday 28th of March 2024
0
نفر 0

امام حسین علیه السلام پر گریه و زاری

امام حسین علیه السلام پر گریه و زاری  [1]

رونے کی حقیقت

رونا ، اس حالت کو کھا جاتا ھے کہ جب انسان پر غم یا پریشانیاں آئیں اور اس کا دل ٹوٹا هوا هو یا بہت زیادہ خوشی کا موقع هو۔

رونا ایک ایسی حقیقت ھے کہ جس سے انبیائے الٰھی، ائمہ معصومین علیھم السلام اور اولیائے الٰھی مختلف حالات میں سرو کار رکھتے تھے مخصوصاً سحر کے وقت، مناجات اور راز و نیاز کے وقت۔

رونا، خدا کے خاص عابدوں کے مکتب میں بہت سی باطنی دردوں کی دوا ھے جیسے محبوب کا فراق اور اس کی دوری، اور اپنے غمزدہ دل کو آرام و سکون دیتا ھے۔

آج ”علاجی رونا“ مغربی ممالک میں ڈاکٹری کے ایک شعبہ کے عنوان سے جانا جاتا ھے اور بعض ڈاکٹر اپنے بیماروں کو تاکید کرتے ھیں اپنے علاج کے لئے جتنا ممکن هوسکے روئیں اور آنسوں بھائیں۔

جلال الدین محمد بلخی،ایک بے نظیر ایرانی عارف تھے جو حقیقی معارف کو اپنے دل سے قبول رکھتے تھے، رونے کے سلسلہ میں کہتے ھیں:

تا نگرید ابر کی روید چمن

تا نگرید طفل کی جوشد لبن[2]

”جب بادل نہ روئے چمن سر سبز کیسے هو، اور جب تک بچہ نہ روئے شیر مادر کیسے جوش میں آئے“۔

گر نگرید کودک حلوا فروش

بحر رحمت در نمی آید بہ جوش[3]

”جب تک حلوائی کا بچہ نہ روئے ، اس وقت تک بحر رحمت (مادر) کیسے جوش مارے“۔

ایک دوسرا شاعر کہتا ھے:

گریہ بر ھر درد بی درمان دواست

چشم گریان چشمہ فیض خدااست

”رونا ھرلا علاج بیماری کی دوا ھے، روتی هوئی آنکھ فیض الٰھی کا چشمہ ھے“۔

رونا، مومن کی علامت

قرآن مجید، سورہ مائدہ میں رونے کو حقیقی مومن کی نشانی کے عنوان سے یاد کرتا ھے، ارشاد هوتا ھے:

<وَإِذَا سَمِعُوا مَا اٴُنزِلَ إِلَی الرَّسُولِ تَرَی اٴَعْیُنَہُمْ تَفِیضُ مِنْ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنْ الْحَقِّ...>[4]

”اور جب اس کلام کو سنتے ھیں جو رسول پر نازل هوا ھے تو تم دیکھتے هو کہ ان کی آنکھوں سے بیساختہ آنسو جاری هوجاتے ھیں کہ انھوں نے حق کو پہچان لیا ھے“۔

اھل بیت علیھم السلام کے سلسلہ میں نصف شب اور سحر کے وقت خوف خدا سے رونے کے سلسلہ میں بہت سی روایات بیان هوئی ھیں کہ اگر ان سب کو ایک جگہ جمع کردیا جائے اور ان کی تفسیر و تشریح نہ (بھی) کی جائے توبھی ایک مستقل اھم کتاب بن جائے گی۔

حضرت امیر الموٴمنین علیہ السلام دعائے کمیل میں ارشاد فرماتے ھیں:

”خداوندا! آئندہ آنے والے کن کن مصائب پر گریہ کروں“؟

نیز اسی دعا کا ایک دوسرے فقرے میں ارشاد فرماتے ھیں:

”لِاٴَلِیمِ الْعَذابِ وَشِدَّتِہِ، اٴَمْ لِطُولِ الْبَلَاءِ وَمُدَّتِہِ“۔

”دردناک عذاب اور اس کی سختی پر، یا بلاؤں کے طولانی هونے اور اس کی مدت پر“؟

حضرت امام سجاد علیہ السلام دعائے ابوحمزہ ثمالی میں خداوندعالم کی بارگاہ میں عرض کرتے ھیں:

”فَمالِي لَاٰ اٴَبْکِي، اٴَبْکِي لِخُرُوجِ نَفْسِي، اٴَبْکِي لِظُلْمَةِ قَبْرِي، اٴَبْکِي لِضِیقِ لَحْدِي، اٴَبْکِي لِسُوٴالِ مُنْکَرٍ وَنَکِیرٍ اِٴیَّايَ، اٴَبْکِي لِخُرُوجِي مِنْ قَبْرِي عُرْیاناً ذَلِیلاً، حامِلاً ثِقْلِي عَلَیٰ ظَھْرِي“!!.

”میں کیسے نہ رووٴں ؟ میں جاکنی کا تصور کر کے رورھا هوں ۔میں قبر کی تاریکی اور لحد کی تنگی کے لئے رورھاهوں، میں منکر ونکیر کے سوال کے لئے رورھاهوں، میں اپنی قبر سے برھنہ، ذلیل اور گناهوں کا بوجھ لادھ کے نکلنے کے تصور سے رو رھاهوں “۔

اس بنا پر رونا، خداوندعالم، انبیائے الٰھی اور ائمہ معصومین علیھم السلام کا مطلوب ھے، لیکن اس کو ایسی جگہ خرچ کرنا چاہئے کہ خداوندعالم، انبیائے الٰھی اور ائمہ معصومین علیھم السلام نے انسان سے چاھا ھے۔

حضرت امام حسین علیہ السلام کے مصائب پر گریہ

جن مقامات پر رونے پر تاکید کی گئی وہ حضرت امام حسین علیہ السلام کے مصائب پر رونا ھے، جو ایک عظیم عبادت ھے جس کا ثواب بھی عظیم اور روحانی دردوں کی دوا ھے اور انسان کو توبہ و مغفرت کے لئے تیار کرتا ھے نیز خداوندعالم کی رحمت واسعہ تک پھنچنے کا وسیلہ ھے۔

اھل بیت علیھم السلام کے مصائب پر رونے کے سلسلہ میں اتنی زیادہ روایات ھیں کہ اب تک ”بکاء الحسین“ کے عنوان سے چند کتابیں چھپ چکی ھیں۔

اھل بیت علیھم السلام کے مصائب پر رونے کی مخالفت بعض جاھل و نادان گروہ اور بعض اوقات روشن فکرنما لوگوں کی طرف سے هوتی ھے جو حقیقت میں قرآن کریم، سنت پیامبر  (ص) اور اولیائے الٰھی کی روش کے برخلاف ھے، لیکن شیعوں کو اس جاھلانہ مخالفت پر توجہ نھیں کرنی چاہئے اور اھل بیت علیھم السلام پر رونے کو ھاتھ سے نھیں دینا چاہئے جو ایک طرح سے ظالموں اور ستمگروں کے خلاف مقابلہ ھے ، بلکہ نسل در نسل اس الٰھی عمل اور عظیم ثواب والے کام کی طرف رغبت کرنی چاہئے اور اس کو گرانقدر میراث کے عنوان سے اپنے وارثوں کے لئے چھوڑیں۔

حضرت امام رضا علیہ السلام ایک اھم روایت کے ضمن میں فرماتے ھیں:

”مَنْ تَذَکَّرَ مُصَابِنَا وَبَکیٰ لِمَااُرْتُکِبَ مِنَّا، کاَنَ مَعَنَا فِی دَرَجَاتِنَا یَوْمَ الْقِیَامَةِ. وَمَنْ ذُکِّرَ بِمُصَابِنَا فَبَکیٰ وَاَبْکٰی لَمْ تَبْکِ عَیْنُہُ یَوْمَ تَبْکِی الْعُیُونُ“۔[5]

”جو شخص ھم پر پڑنے والے مصائب کو یاد کرے اور دشمنوں کی طرف سے ھم پر هونے والے مظالم کو یاد کرکے روئے تو روز قیامت وہ ھمارے درجہ میں ھمارے ساتھ ھے اور جو شخص ھمارے مصائب پر روئے اور دوسروں کو رُلائے تو جس روز تمام آنکھیں روتی هوئی نظر آئیں گی اس کی آنکھ نھیں روئے گی“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام نے مسمع سے فرمایا: تم عراق کے رھنے والے هو کیا زیارت کے لئے نھیں جاتے؟ مسمع نے کھا: بصرہ میں ناصبی اور دشمن زیادہ ھیں، میں ڈرتا هوں کہ میری زیارت کی خبر حکومت تک نہ پہچادیں اور مجھے آزار و تکلیف پھنچائیں، امام علیہ السلام نے فرمایا:

”اٴَفَمَا تَذْکُرُ مَا صُنِعَ بِہِ؟“۔

”کیا حضرت امام حسین علیہ السلام پر پڑنے والے مصائب کو یاد کرتے هو“؟

میں نے کھا: جی ھاں، امام علیہ السلام نے سوال کیا: کیا آہ و نالہ اور بے تاب اور غمگین هوتے هو؟میں نے کھا: جی ھاں، خدا کی قسم اتنا روتا هوں کہ روتے روتے ہچکیاں لگ جاتی ھیں یھاں تک کہ میرے اھل خانہ بھی اس کے آثار کا مشاہدہ کرتے ھیں، اور اس موقع پر کوئی چیز کھا بھی نھیں سکتا هوں اور غم و اندوہ کے آثار میرے چھرے پر ظاھر هوتے ھیں، امام علیہ السلام نے فرمایا:

”رَحِمَ اللّٰہُ دَمْعَتَکَ“۔

”خداوندعالم تمھارے رونے پر رحمت نازل کرے“۔

واقعاً تمھارا شمار ان لوگوں میں سے هوتا ھے جو ھمارے مصائب پر آہ و نالہ کرتے ھیں اور ھماری خوشی میں خوش هوتے ھیں اور ھمارے غم میں غمگین هوتے هو، بے شک کہ تم مرتے وقت ھمارے آباء و اجداد (علیھم السلام) کو اپنے پاس حاضر دیکھو گے اور وہ تمھارے بارے میں ملک الموت سے سفارش کریں گے اور تمھیں ایسی بشارت دیں گے کہ مرنے سے پھلے تمھارے آنکھیں منور هوجائیں گی اور ملک الموت تم پر بچہ کی نسبت ماں سے بھی زیادہ مھربان هوجائے گا۔[6]

حضرت امیر الموٴمنین علی علیہ السلام نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی طرف دیکھا اور فرمایا:

”یَا عِبْرَةَ کُلِّ مُوٴمِنْ! فَقَالَ: اٴَنَا یَا اٴَبَتَاْہ؟ فَقَالَ: نَعَمْ یَابُنَیَّ“۔[7]

”اے مومنوں کے گریے! فرمایا: کیا میں هوں اے پدر؟ فرمایا: ھاں میرے بیٹے“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

”مَنْ ذَکَرَنَا اٴَوْ ذُکِرْنَا عِنْدَہُ فَخَرَجَ منْ عَیْنِہِ دَمْعٌ مِثْلُ جُنَاحِ بَعُوْضَةٍ، غَفَرَ اللّٰہُ لَہُ ذُنُوْبَہُ، وَلَوْ کَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ“۔[8]

”جو شخص ھمیں یاد کرے، یا اس کے سامنے ھمیں یاد کیا جائے اور اس کی آنکھوں سے مکھی کے پر کی برابر اشک آجائے خداوندعالم اس کے گناهوں کو بخش دیتا ھے چاھے کف دریا کے برابر ھی کیوں نہ هوں“!

نیز امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

نَفَسٌ الْمَھْمُوْمِ لِظُلْمِنَا تَسْبِیْحٌ، وَھَمُّہُ لَنَا عِبَادَةٌ، وَکِتْمَانُ سِرِّنَا جِھَادٌ فی سَبِیلِ اللّٰہِ. ثُمَّ قَالَ اٴَبُو عَبْدِ اللّٰہِ: یَجِبُ اٴَنْ یَکْتُبَ ھَذَا الْحَدِیْث بِالذَھَبِ“۔[9]

”ھمارے مصائب پر غمگین هونے والے شخص کا سانس تسبیح ھے، اور ھمارے مصائب پر غم و غصہ عبادت ھے، اور ھمارے اسرار کو مخفی کرنا جھاد فی سبیل الله ھے، اس کے بعد امام علیہ السلام نے فرمایا: اس حدیث کو سونے سے لکھنا چاہئے“۔

ابن خارجہ کہتے ھیںکہ: ھم حضرت امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھے اور حضرت امام حسین علیہ السلام کی یاد کی اور آپ کے قاتلوں پر لعنت بھیجی۔

”فَبَکَی اٴبُو عَبْدِ اللّٰہ علیہ السلام وَبَکِینَا قَالَ: ثُمَّ رَفَعَ رَاٴسَہُ فَقَالَ: قَالَ الحُسَیْنُ بنُ عَليٍ علیہ السلام:  اٴنَا قَتِیلُ العَبْرَةِ لاَ یَذْکُرُنِي مُوٴمِنٌ اِلاَّ بَکَي“۔[10]

”اس موقع پر حضرت امام صادق علیہ السلام نے رونا شروع کیا اور ھم بھی رونے لگے، اس کے بعد امام صادق علیہ السلام سے اپنا سر اٹھایا اور فرمایا: حسین بن علی (علیھم السلام) نے فرمایا: میں کشتہٴ اشک هوں، کوئی بھی مومن مجھے یاد نھیں کرے گا مگر یہ کہ آنسو بھائے“۔

حضرت امام حسین علیہ السلام سے روایت ھے کہ:

”مَامِنْ عَبْدٍ قَطَرَتْ عَیْنَاہُ فَیِْنَا قَطْرَةً، اٴوْدَمَعَتْ عَیْنَاہُ فِیْنَا دَمْعَةً، اِلاَّ بوّاٴہ اللّٰہُ بِھَا فِی الْجَنَّةِ حُقَباً“۔[11]

”جو شخص ھمارے مصائب پر اپنی آنکھوں سے ایک قطرہ آنسوں بھائے یا اپنی آنکھوں سے اشک جاری کرے تو خداوندعالم اس کے سبب ان کو بہشت جاویدانی میں جگہ عنایت فرمائے گا“۔

معاویہ بن وھب نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت کی ھے کہ امام علیہ السلام نے فرمایا:

”کُلُّ الجَزَعِ وَالبُکَاء مَکرُوہُ سِوَی الجَزَعِ وَالبُکاَءِ عَلَی الْحُسَیْنِ علیہ السلام“۔[12]

”ھر طرح کی آہ و نالہ ناپسند ھے مگر امام حسین علیہ السلام کے اوپر گریہ و زاری“۔

محمد بن مسلم کہتے ھیں: میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے سنا کہ آپ نے فرمایا:

بے شک حضرت امام حسین بن علی (علیھما السلام) اپنے پروردگار کی بارگاہ میں اپنے مقتل اور آپ کے ساتھ آنے والے اصحاب کی طرف نظر فرماتے ھیں اور اپنے زائر پر توجہ کرتے ھیں اور اپنے زائروں کے نام، ان کے والدین کے نام اور خدا کے نزدیک ان کے مرتبوں کو انسان کے اپنی اولاد کو جاننے سے زیادہ جانتے ھیں اور یقینا جب آپ ان پر گریہ کرنے والے کو دیکھتے ھیں تو اس کی بخشش کے لئے دعا کرتے ھیں اور اپنے آباء و اجداد سے بھی خواہش کرتے ھیں کہ اس کی مغفرت کے لئے دعا کریں۔[13]

سید ابن طاؤس، اھل بیت علیھم السلام پر گریہ کے سلسلہ میں اھل بیت علیھم السلام سے ایک عجیب روایت نقل کرتے ھیں کہ فرمایا:

جو شخص ھمارے مصائب پر گریہ کرے اور سو لوگوں کو رُلائے اس پر جنت واجب ھے، اور جو شخص خود روئے اور پچاس لوگوں کو رُلائے اس پر جنت واجب ھے، اور جو شخص خود روئے اور تیس لوگوں کو رُلائے اس پر جنت واجب ھے، اور جو شخص خود روئے اور بیس لوگوں کو رُلائے اس پر جنت واجب ھے، اور جو شخص خود روئے اور دس لوگوں کو رُلائے ، اس پر جنت واجب ھے، اور جو شخص خود روئے اور ایک شخص کو رلائے اس پر جنت واجب ھے، اور جو شخص رونے والے کی صورت بنائے تو اس پر جنت واجب ھے۔[14]

ھارون مکفوف، حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ھیں کہ امام علیہ السلام نے ایک طولانی حدیث کے ضمن میں فرمایا:

جس کے سامنے امام حسین علیہ السلام کی یاد کی جائے اور اس کی آنکھوں سے مکھی کے پر کے برابر اشک آجائے اس کا ثواب صرف خدا کے پاس ھے اور خداوندعالم اس کے لئے جنت سے کم پر راضی نھیں هوگا۔[15]

حضرت امام رضا علیہ السلام نے فرمایا:

”فَعَلَی مِثلِ الحُسَیْنِ فَلْیَبْکِ البَاکُونَ، فَاِنَّ الْبُکَاءَ عَلَیْہِ یَحُطُّ الذُّنُوبَ العِظاَمَ...“۔[16]

”(امام) حسین کے مثل پر رونے والوں کو رونا چاہئے کیونکہ ان پر رونے سے بڑے بڑے گناہ دھل جاتے ھیں...“۔

نیز امام (رضا) علیہ السلام نے ابن شبیب سے فرمایا:

”یَابْنَ شَبِیْبٍ! اِنْ کُنْتَ بَاکِیاً لِشَیءٍ ، فَابْکِ لِلْحُسَیْنِ بْنِ عَليِّ بْنِ اٴبِي طَالِب...“۔

”اے ابن شبیب! اگر تمھیں کسی چیز پر گریہ آئے تو حسین بن علی بن ابی طالب (علیھم السلام) پر گریہ کرو...“۔

نیز اسی روایت کے ایک حصہ میں فرمایا:

”بکت السَّمٰاواتُ السَبْعِ وَالْاٴَرَضُوْنَ لِقَتْلِہِ اِلیٰ اٴَنْ قٰالَ: یٰابْنَ شُبِیْبٍ! اِٴنْ بَکَیْتَ عَلیٰ الْحُسَیْنِ حَتّٰی تْصِیْرَ دُمُوْعُکَ عَلیٰ خَدَّیْکَ، غَفَر اللّٰہ لک کُلُّ ذَنْبٍ...“۔[17]

”زمین و آسمان نے امام حسین علیہ السلام کے قتل پر گریہ کیا، یھاں تک کہ امام علیہ السلام نے فرمایا: اے ابن شبیب! اگر امام حسین علیہ السلام پر اتنا روئے کہ تمھارے آنسو تمھارے رخسار تک آجائیں تو خداوندعالم تمھارے گناهوں کو بخش دے گ...“۔

یہ تھے چند روایات کے نمونے جو اھل بیت علیھم السلام مخصوصاً امام حسین علیہ السلام کے مصائب پر رونے کے سلسلہ میں بیان هوئی ھیں، تفصیل گرانقدر اسلامی کتب میں وارد هونے والی روایتوں کے پیش نظر درج ذیل نکات معلوم هوتے ھیں:

۱۔ گریہ صرف اسی کا قبول ھے اور خدا کے نزدیک اجر عظیم رکھتا ھے جو مومن هوگا۔

۲۔ اس مومن کا گریہ اھمیت رکھتا ھے جو اپنی وجودی وسعت کے ساتھ اھل بیت علیھم السلام کا پیرو هو۔

۳۔ اس انسان کے گریہ کی بہت قدر و قیمت ھے جو خلوص کے ساتھ گریہ کرے اور اپنے گریہ میں خدا و رسول اور اھل بیت علیھم السلام کی خوشنودی پیش رکھے۔

۴۔ اس انسان کا گریہ باقی رھنے والا ھے اور اس کے نامہ اعمال میں لکھا جاتا ھے جو اپنے دامن کو گناهوں سے آلودہ نہ کرے اور فسق و فجور اور عصیان میں غرق نہ هو اور اس کا وجود لوگوں کے لئے شرّ اور بد بختی کا سبب نہ هو۔

۵۔ قرآن کریم کی آیات اور روایات کے پیش نظر روز قیامت اس مومن کا گریہ، رحمت الٰھی اور مغفرت پروردگار نیز اھل بیت علیھم السلام کی شفاعت میں تبدیل هوگا جس میں لازمی شرائط پائے جاتے هوں گے۔

قارئین کرام! گز شتہ بات کو ثابت کرنے اور آسانی سے سمجھنے کے لئے درج ذیل مطلب پر توجہ فرمائیں:

قرآن میں تغییر و تبدیل کا مسئلہ[18]

۱۔ مادی پھلو میں

<وَإِنَّ لَکُمْ فِی الْاٴَنْعَامِ لَعِبْرَةً نُسْقِیکُمْ مِمَّا فِی بُطُونِہِ مِنْ بَیْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَبَنًا خَالِصًا سَائِغًا لِلشَّارِبِینَ>[19]

”اور تمھارے لئے حیوانات میں بھی عبرت کا سامان ھے ھم ان کے شکم سے گوبر اور خون کے درمیان سے خالص دودھ نکالتے ھیں جو پینے والوں کے لئے انتھائی خوشگوار معلوم هوتا ھے“۔

واقعاً تعجب کی بات ھے کہ خداوندعالم کے ارادہ نے گندے گوبر اور خون کہ درمیان سے کہ جس سے انسان نفرت کرتا ھے، کس طرح سفید اور گوارا دودھ (کہ جس سے دیگر بہت سی چیزیں بنتی ھیں) باھر نکالا! اس حقیقت پر توجہ کرنا انسان کو خدا سے جاھل رھنے کی وادی سے خدا پر علم کی بلندی تک پھنچا دیتا ھے۔

قرآن مجید نے شہد کی مکھی کے بارے میں فرمایا:

< ثُمَّ کُلِی مِنْ کُلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُکِی سُبُلَ رَبِّکِ ذُلُلاً یَخْرُجُ مِنْ بُطُونِہَا شَرَابٌ مُخْتَلِفٌ اٴَلْوَانُہُ فِیہِ شِفَاءٌ لِلنَّاسِ ...>[20]

”اس کے بعد مختلف پھلوں سے غذا حاصل کرنے اور نرمی کے ساتھ خدائی راستہ پر چلے جس کے بعد اس کے شکم سے مختلف قسم کے مشروب بر آمد هوں گے جس میں پورے عالم انسانیت کے لئے شفا کا سامان ھے“۔

واقعاً خداوندعالم کا ارادہ کیا کیا کرتا ھے! ایک چھوٹا اور کمزور سا حیوان اپنے چھتے سے باھر آتا ھے اور میلوں کا فاصلہ طے کرتا ھے اور بہت دقیق پہچان کے ساتھ پھولوں پر بیٹھتا ھے اور ان کا مٹھاس کھاتا ھے اور پھر راستے بھولے بغیر واپس هوتا ھے اور اپنے پیٹ سے ایسا مادہ نکالتا ھے جو بے نظیر اور غذا کے لحاظ سے دنیا بھر کی غذاؤں میں سر فھرست ھے!!

خدا وندعالم کا ارادہ پانی مٹی اور هوا و نور سے پھل، اناج، دانے، دالیں، سبزی جات، پھول اور میٹھی گھاس (کہ جو حیوانوں کے لئے بہترین غذا شمار هوتی  ھے) پیدا کرتا ھے، کہ جن کی تعداد کو کوئی نھیں جانتا اور نہ کیفیت اور تعداد کا کوئی اندازہ لگاسکتا ھے اور نا ھی اس بات کی خبر رکھتا ھے کہ پانی، مٹی، هوا اور نور کس طرح عقلیں پریشان کرنے والی اور مختلف نعمتوں میں تبدیل هوجاتے ھیں!!

قرآن مجید میں ارشاد هوتا ھے:

<الَّذِی جَعَلَ لَکُمْ الْاٴَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَاٴَنْزَلَ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً فَاٴَخْرَجَ بِہِ مِنْ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَکُمْ...>[21]

”اس پروردگار نے تمھارے لئے زمین کا فرش اور آسمان کا شامیانہ بنایا ھے اور پھر آسمان سے پانی برسا کر تمھاری روزی کے لئے زمین سے پھل نکالے ھیں...“۔

تغیر و تبدیل اور ایک چیز کا دوسری چیز میں بدل جانے کا مسئلہ مادی پھلو سے اس دنیا میں عظیم بیابانوں کی وسعت کے برابر قابل تحقیق و بحث ھے اور یہ کوئی ایسا مسئلہ نھیں ھے جس کو آسانی سے بیان کیا جاسکے اور اس کی تشریح و تفصیل کو چند صفحات میں لکھ دیا جائے۔

۲۔ معنوی پھلو میں

قرآن کریم کی آیات اور روایات میں غور و فکر سے یہ معلوم هوتا ھے کہ انسان جو بھی نیک عمل انجام دیتا ھے وھی عمل کمی و بیشی کے بغیر بہشت اور رضوان الٰھی میں تبدیل هوجاتا ھے اور انسان کا ھر بُرا عمل کم و بیشی کے بغیر ھمیشگی عذاب میں تبدیل هوجاتا ھے۔

واقعی توبہ اور خداوندعالم کی طرف حقیقی طور پر پلٹ جانا خشم و غضب کا رحمت میں تبدیل هوجانا ھے، اور حقیقی نماز برائیوں کا نیکیوں میں تبدیل هوجانا ھے، اور قیامت میں (روایات کے مطابق) ماہ رمضان المبارک کا روزہ آتش جھنم کے لئے مستحکم سپر میں تبدیل هوجائے گا۔

عبادتیں اور دیگر اعمال صالحہ بھی ذاتی طور پر اس طرح کی تبدیل کے تحت ھیں اور قیامت کے روز اپنی حقیقی اور روحانی صورت میں ظاھر هوں گے۔

عالم آخرت میں جو کچھ بھی نیک لوگوں کو جزا یا بُرے لوگوں کو سزا کے طور پر دیا جائے وہ خود ان کے اعمال کا تجسم (صورت) ھے جو جنت یا دوزخ کی شکل میں بدل جائیں گے۔

<یَوْمَ تَجِدُ کُلُّ نَفْسٍ مَا عَمِلَتْ مِنْ خَیْرٍ مُحْضَرًا وَمَا عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ تَوَدُّ لَوْ اٴَنَّ بَیْنَہَا وَبَیْنَہُ اٴَمَدًا بَعِیدً...>[22]

”اس دن کو یاد کرو جب ھر نفس اپنے نیک اعمال کو بھی حاضر پائے گا اور اعمال بدکو بھی جن کو دیکھ کر تمنا کرے گا کہ کاش ھمارے اور ان بُرے اعمال کے درمیان طویل فاصلہ هوجات...“۔

<وَاتَّقُوا یَوْمًا تُرْجَعُونَ فِیہِ إِلَی اللهِ ثُمَّ تُوَفَّی کُلُّ نَفْسٍ مَا کَسَبَتْ وَہُمْ لاَیُظْلَمُونَ>[23]

”اس دن سے ڈرو جب تم سب پلٹا کر الله کی بارگاہ میں لے جائے جاوٴ گے ۔اس کے بعد ھر نفس کو اس کے کئے کا پورا پورا بدلہ ملے گا اور کسی پر کوئی ظلم نھیں کیا جائے گا، (کیونکہ ان کو ملنے والی جزا یا سزا خود ان کے اعمال کی حقیقی تصویر هوگی“۔

ان سب سے زیادہ روشن آیت یتیم کا ناحق مال کھانے کے سلسلہ میں ھے کہ جس میں یہ بات یاد دھانی کرائی گئی ھے کہ یہ (یتیم کا) مال کھانے والوں کے پیٹ میں آگ ھے:

<إِنَّ الَّذِینَ یَاٴْکُلُونَ اٴَمْوَالَ الْیَتَامَی ظُلْمًا إِنَّمَا یَاٴْکُلُونَ فِی بُطُونِہِمْ نَارًا وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیرًا>[24]

”جو لو گ ظالمانہ انداز سے یتیموں کا مال کھا جاتے ھیں وہ در حقیقت اپنے پیٹ میں آگ بھرر ھے ھیں اور عنقریب واصل جھنم هوں گے“۔

یعنی ناحق یتیم کے مال کا کھانا آگ کھانا ھے لیکن چونکہ کھانے والے دنیا میں ھیں نھیں سمجھتے، جب بدن کا حجاب ہٹ جائے گا اور اس دنیا سے رخصت هوجائیں گے تو یھی کھایا هوا مال بھڑکتی  هوئی آگ کی صورت میں ظاھر هوگی اور یہ لوگ اسی آگ میں جلیں گے۔

آخرت کی سزائیں عمل کی صورت ھے، وھاں کی جزا یا سزا یھی نیک و بد اعمال ھیں کہ جب آنکھوں سے پردے ہٹ جائےں گے تو جسم اور صورت پیدا کرلیں گے۔

قرآن مجید کی تلاوت خوبصورت شکل میں ظاھر هوگی اور انسان کے پاس قرار پائے گی، غیبت اور دوسروں کے دلوں کو دُکھانا دوزخی کتوں کی کی غذا کے شکل میں ظاھر هوگا۔

دوسرے الفاظ میں یوں کھیں کہ ھمارے اعمال ایک مُلکی (ظاھری) صورت رکھتے ھیں جو وقتی اور فانی هوتی ھے اور وہ یھی ھے جو اس دنیا میں عمل یا گفتگو کی شکل میں ظاھر هوتی ھے، اور ایک صورت ملکوتی (معنوی) هو تی ھے کہ جو ھم سے هونے کے بعد کبھی بھی ختم نھیں هوتی اور ھمارے ساتھ ساتھ ھماری اولاد کی طرح جدا نہ هونے والی ھیں۔

ھمارے اعمال ملکوتی شکل اور غیبی صورت میں باقی ھیں اور ایک روز یھی ھمارے اعمال ھمارے سامنے ظاھر هوں گے اور ھم ان کو انھیں شکل و صورت میں مشاہدہ کریں گے، اگر ھمارے اعمال نیک، زیبا ا ور لذت بخش ھیں تو وہ ھمارے لئے جنت اور اگر بُرے اور ناپسند ھیں تو آتش جھنم بن جائیں گے۔

ایک حدیث میں منقول ھے کہ ایک عورت پیغمبر اکرم  (ص) کی خدمت میں ایک مسئلہ دریافت کرنے کے لئے مشرف هوئی، وہ پستہ قد تھی، اس کے جانے کے بعد عائشہ نے اس کے پستہ قد هونے کو ھاتھوں کے ذریعہ اشارہ کیا، رسول اکرم  (ص) نے عائشہ سے فرمایا: تم جاؤ اور خلال کرو! عائشہ نے کھا: یا رسول الله! میں نے کوئی چیز نھیں کھائی ھے ؟! آنحضرت  (ص) نے فرمایا: خلال کرو، چنانچہ عائشہ نے جب خلال کیا تو اس کے منھ سے گوشت کے ٹکڑے نکلے!

حقیقت میں آنحضرت  (ص) نے ملکوتی تصرف اور ملکوتی واقعیت اور اخروی غیبت کو اسی دنیا میں عائشہ کو دیکھا دیا۔[25]

قرآن کریم غیبت کے سلسلہ میں فرماتا ھے:

<... وَلاَیَغْتَبْ بَعْضُکُمْ بَعْضًا اٴَیُحِبُّ اٴَحَدُکُمْ اٴَنْ یَاٴْکُلَ لَحْمَ اٴَخِیہِ مَیْتًا فَکَرِہْتُمُوہُ ...>[26]

”اور ایک دوسرے کی غیبت بھی نہ کیا کرو کیاتم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے یقینا تم اسے بُرا سمجھو گے“۔

ایک حدیث میں منقول ھے:

”اِنَّمَا ھِیَ اٴَعْمَالُکُمْ تَرَدُّ اِلَیْکُمْ“۔

”یہ عذاب وھی تمھارے اعمال ھیں جو تمھاری طرف پلٹائے گئے ھیں“۔[27]

جلال الدین محمد بلخی اسی طرح کی آیات و روایات کے پیش نظر اس بات کی وضاحت کرتے ھیں کہ مومن انسان کی تمام نیکیاں ھمیشگی جنت و نعیم میں بدل جاتی ھیں اور بدکاروں کی برائیاں ھمیشگی عذاب میں تبدیل هوجاتی ھیں.

قارئین کرام! ایک چیز کا دوسری چیز میں بدل جانے سے متعلق متعدد آیات اور روایات کے پیش نظر یہ فیصلہ کرنا آسان ھے کہ ایسا هونا اھل بیت علیھم السلام کے کلام میں جائے تعجب نھیں کہ حضرت امام حسین علیہ السلام اور دیگر معصومین مظلومین علیھم السلام پر گریہ قیامت کے روز ملکوتی صورت میں رحمت و مغفرت اور شفاعت میں تبدیل هوجائے گا؟

 
حواله جات:


[1] قرآن مجید میں مختلف آیات اشک و گریہ اور عزاداری کے جواز بلکہ ان کے رجحان پر اشارہ کرتی ھیں، جیسے:

<لاَیُحِبُّ اللهُ الْجَہْرَ بِالسُّوءِ مِنْ الْقَوْلِ إِلاَّ مَنْ ظُلِمَ ...> (سورہ نساء (۴)، آیت ۱۴۸)

”الله مظلوم کے علاوہ کسی کی طرف سے بھی علی الاعلان بُرا کھنے کو پسند نھیں کرت...“۔

عزاداری بھی مظلوموں کی ستمگروں کے خلاف فریاد بلند کرنا ھے۔

ایک دوسری آیت میں خداوندعالم فرماتا ھے:

<... قُلْ لاَاٴَسْاٴَلُکُمْ عَلَیْہِ اٴَجْرًا إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی...> (سورہٴ شوریٰ (۴۲)، آیت۲۳)

”... آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نھیں چاہتا علاوہ اس کے کہ میرے اقربا سے محبت کرو“۔

دوستی اور ھمدردی کی اھم نشانیوں میں سے مصائب پر سوگ منانا اور عزاداری کرنا ھے۔

جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام ایک روایت میں فرماتے ھیں:

”ان الله تبارک و تعالی اطلع الی الارض فاختارنا و اختار لنا شیعة ینصروننا و یفرحون لفرحنا و یحزنون لحزننا و یبذلون اموالھم و انفسھم فینا اولئک منا و الینا“۔(بحار الانوار، ج۴۳، ص ۲۸۷)

”خداوندعالم نے ھمیں اپنے بندوں کے درمیان سے منتخب کیا، اور ھمارے لئے ھمارے شیعوں کو منتخب کیا کہ ھمیشہ ھماری خوشی و غم میں شریک رھیں اور جان و مال سے ھماری مدد کرتے رھیں، وہ ھم سے ھیں اور وہ ھماری طرف آئیں گے“۔

<وَمَنْ یُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللهِ فَإِنَّہَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوبِ> (سورہ حج، (۲۲) آیت۳۲)

”اور جو بھی الله کی نشانیوں کی تعظیم کرے گا یہ تعظیم اس کے دل کے تقویٰ کا نتیجہ هوگی“۔

اھل بیت علیھم السلام پر اشک و گریہ اور عزاداری کرنا دینی نشانیوں کی تعظیم ھے۔

حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے فرزند جناب یوسف علیہ السلام کے فراق میں ۷۰ سال تک گریہ کیا یھاں تک کہ آپ کی بینائی بھی جاتی رھی۔

<وَقَالَ یَااٴَسَفَی عَلَی یُوسُفَ وَابْیَضَّتْ عَیْنَاہُ مِنَ الْحُزْنِ فَهو کَظِیمٌ.> (سورہ یوسف (۱۲)، آیت ۸۴)

”اور کھا کہ افسوس ھے یوسف کے حال پر اور اتنا روئے کہ آنکھیں سفید هوگئیں اورغم کے گھونٹ پیتے رھے“۔

اور نبی الٰھی (جناب یعقوب علیہ السلام) کے اس عمل کی خداوندعالم نے تائید کی، تو اس صورت میں کیا اھل بیت عصمت و طھارت علیھم السلام کہ جو تمام انسانوں سے افضل و اعلیٰ اور تمام مخلوقات کا خلاصہ ھیں ان کے فراق میں عزاداری اور اشک و گریہ کرنا اشکال رکھتا ھے؟!

[2] مولوی ، مثنوی معنوی، دفتر پنجم.

[3] مولوی ، مثنوی معنوی، دفتر پنجم.

[4] سورہٴ مائدہ (۵)، آیت۸۳.

[5] امالی، صدوق، ص۷۳، مجلس۱۷، حدیث۴؛ نفس المھموم، ص۴۰؛ بحار الانوار، ج۴۴، ص۲۷۸، باب۳۴، حدیث۱.

[6] کامل الزیارات، ص۱۰۱، باب۳۲، حدیث۶؛ بحار الانوار، ج۴۴، ص۲۸۹، باب۳۴، حدیث۳۱.

[7] کامل الزیارات، ص۱۰۸، باب۳۶، حدیث۱؛ بحار الانوار، ج۴۴، ص۲۸۰، باب۳۴، حدیث۱۰.

[8] تفسیر قمی، ۲، ص۲۹۲؛ بحار الانوار، ج۴۴، ص۲۷۸، باب۳۴، حدیث۳.

[9] امالی، طوسی، ص۱۱۵، مجلس ۴، حدیث۱۷۸؛ بشارة المصطفیٰ، ص۱۰۵؛ امالی، مفید، ص۳۳۸، مجلس ۴۰ حدیث۳؛ بحار الانوار، ج۴۴، ص۲۷۸، باب۳۴، حدیث۴.

[10] کامل الزیارات، ص۱۰۸، باب۳۶، حدیث۶؛ بحار الانوار، ج۴۴، ص۲۷۹، باب۳۴، حدیث۵؛ مستدرک الوسائل، ج۱۰، ص۳۱۱، باب۴۹، حدیث۱۲۰۷۲.

[11] امالی، طوسی، ص۱۱۶، مجلس ۴، حدیث۱۸۱؛ امالی، مفید، ص۳۴۰، مجلس ۴۰،حدیث۶؛ بشارة المصطفیٰ، ص۶۲؛ بحار الانوار، ج۴۴، ص۲۷۹، باب۳۴، حدیث۸.

[12] امالی، طوسی، ص۱۶۱، مجلس ۶، حدیث۲۶۸؛ وسائل الشیعة، ج۳، ص۲۸۲، باب۸۷، حدیث ۳۶۵۷؛ بحار الانوار، ج۴۴، ص۲۸۰، باب۳۴، حدیث۹.

[13] امالی، طوسی، ص۵۴، مجلس ۲، حدیث۷۴؛ بشارة المصطفیٰ، ص۷۷؛ وسائل الشیعة، ج۱۴، ص۴۲۲، باب۳۷، حدیث ۱۹۵۰۸؛ بحار الانوار، ج۴۴، ص۲۸۱، باب۳۴، حدیث۱۳.

[14] بحار الانوار، ج۴۴، ص۲۸۸، باب۳۴، حدیث۲۷.

[15] کامل الزیارات،ص۱۰۰، باب۳۲، حدیث۳.

[16] امالی، صدوق، ص۱۲۸، مجلس ۲۷، حدیث۲؛ روضة الواعظین، ج۱، ص۱۶۹؛ وسائل الشیعة، ج۱۴، ص۵۰۴، باب۶۶، حدیث ۱۹۶۹۷؛ بحار الانوار، ج۴۴، ص۲۸۳، باب۳۴، حدیث۱۷.

[17] عیون اخبار الرضا، ج۱، ص۲۹۹، باب۲۸، حدیث۵۸؛ امالی، صدوق، ص۱۲۹، مجلس ۲۷، حدیث۵؛ وسائل الشیعة، ج۱۴، ص۵۰۲، باب۶۶، حدیث ۱۹۶۹۴؛ بحار الانوار، ج۴۴، ص۲۸۵، باب۳۴، حدیث۲۳.

[18] ممکن ھے جو لوگ اھل بیت علیھم السلام کی تعلیمات سے آشنائی نہ رکھتے هوں یا جاھل لوگوں یا علم اور روشن فکری کا جھوٹا دعویٰ کرنے والوں سے رابطہ کی وجہ سے ائمہ معصومین علیھم السلام سے گریہ کے سلسلہ میں منقول بعض روایات کو ذھن سے دور قرار دیں اور ان کا یقین نہ کریں، یہ بحث ایک پیش خیمہ کے عنوان سے ھے کہ اھل بیت عصمت و طھارت علیھم السلام مخصوصاً حضرت سید الشہداء امام حسین علیہ السلام پر گریہ کس طرح مغفرت اور شفاعت میں تبدیل هوسکتا ھے؟

[19] سورہٴ نحل (۱۶)، آیت ۶۶.

[20] سورہٴ نحل (۱۶)، آیت ۶۹.

[21] سورہٴ بقرہ (۲)، آیت۲۲.

[22] سورہٴ آل عمران (۳)، آیت۳۰.

[23] سورہٴ بقرہ (۲)، آیت۲۸۱.

[24] سورہٴ نساء (۴)، آیت۱۰.

[25] المحاسن، ج۲، ص۴۶۰، باب۵۴، حدیث۴۱۰؛ بحار الانوار، ج۷۲، ص۲۵۶، باب۶۶، حدیث۴۵.

[26] سورہٴ حجرات (۴۹)، آیت۱۲.

[27] الحکایات، ص۸۵؛ عدل الٰھی، ص۲۴۳.

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اہم شیعہ تفاسیر کا تعارف
اردو زبان میں مجلہ ’’نوائے علم‘‘ کا نیا شمارہ ...
آٹھ شوال اہل بیت(ع) کی مصیبت اور تاریخ اسلام کا ...
انسان، صحیفہ سجادیہ کی روشنی میں
نجف اشرف
اذان میں أشھد أن علیًّا ولی اللّہ
انقلاب حسینی کے اثرات وبرکات
اذان ومؤذن کی فضیلت
ہماری زندگی میں صبر اور شکر کی اہمیت
نیکی اور بدی کی تعریف

 
user comment