اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

ائمہ اثنا عشر

ائمہ اثنا عشر

جو کچھ بیان هو ا وہ مسئلہ امامت کے سلسلے میں مذھب حقہ کے مختصر دلائل تھے۔ ائمہ معصوم کی تعداد کے بارے میں اثنا عشری شیعوں کا عقیدہ یہ ھے کہ امام بارہ ھیں۔  پھلے: علی ابن ابی طالب  ،دوسرے :حسن بن علی  ، تیسرے: حسین بن علی  ، چوتھے :علی بن الحسین  ، پانچویں :محمد بن علی  ،چھٹے :  جعفر بن محمد  ، ساتویں: موسی بن جعفر  ، آٹھویں: علی بن موسی  ، نویں: محمد بن علی  ، دسویں: علی بن محمد  ، گیارھویں:حسن بن علی  ، بارھویں:حضرت محمد مھدی علیھم السلام۔علم، اجابتِ دعوت اور نصّ معصوم کے اعتبار سے، ان میں سے ھر ایک کی امامت کے تفصیلی دلائل، علیحدہ فرصت کے طلبگار ھیں۔

البتہ اھل سنت کی معتبر و قابل اعتماد کتب میں موجود، بعض ان روایات کی طرف اشارہ ضروری ھے، جن میں خود حضرت رسول خد ا(ص) نے اپنے بارہ خلفاء اور بارہ سربراهوں کا ذکر کیا ھے۔

۱۔صحیح بخاری: ((عن جابر بن سمرة قال:سمعت النبی(ص) یقول:یکون اثنا عشراٴمیرا فقال کلمة لم اٴسمعھا، فقال اٴبی:إنہ قال:کلھم من قریش))[126]

۲۔صحیح مسلم :((عن جابر بن سمرة قال:دخلت مع اٴبی علی النبی(ص) فسمعتہ یقول:إن ھذا الاٴمر لا ینقضی حتی یمضی فیھم اثنا عشر خلیفة، قال:ثم تکلم بکلام خفی علی، قال:فقلت لاٴبی:ماقال؟ قال:کلھم من قریش))[127]

۳۔صحیح مسلم:((عن جابر بن سمرة قال:سمعت النبی(ص) یقول:لایزال اٴمرالناس ماضیا ما ولیھم اثنا عشر رجلا، ثم تکلم النبی(ص) بکلمة خفیت علی، فسئلت اٴبی:ماذا قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ و سلم؟

فقال:کلھم من قریش))[128]

۴۔صحیح ابن حبان :((سمعت رسول اللّٰہ(ص) یقول:یکون بعدی اثنا عشر خلیفة کلھم من قریش))[129]

۵۔جامع ترمذی:((یکون من بعدی إثنا عشر اٴمیرا، قال :تم تکلم بشیٴ لم اٴفھمہ، فساٴلت الذی یلینی، فقال: قال: کلھم من قریش))[130]

۶۔مسند احمد بن حنبل:((یکون بعدی إثنا عشر خلیفة،کلھم من قریش))[131]

۷۔مسند احمد بن حنبل:((یکون بعدی إثنا عشر اٴمیرا، ثم لا اٴدری ماقال بعد ذلک، فساٴلت القوم کلھم، فقالوا: قال:کلھم من قریش))[132]

۸۔مسند احمد بن حنبل :((یکون بعدی إثنا عشر اٴمیرا، فتکلم فخفی علیّ، فساٴلت الذی یلینی اٴو إلی جنبی، فقال:کلھم من قریش))[133]

۹۔مسند احمد بن حنبل :((یکون بعدی إثنا عشر اٴمیرا،قال:ثم تکلم فخفی علیّ ما قال، قال:فساٴلت بعض القوم اٴو الذی یلینی ماقال؟ قال:کلھم من قریش))[134]

۱۰۔مسند ابن الجعد:((یکون بعدی اثنا عشر امیرا، غیراٴن حصینًا قال فی حدیثہ:  ثم تکلم بشیٴ لم اٴفھمہ، وقال بعضھم: فساٴلت اٴبی، وقال بعضھم: فساٴلت القوم فقال:کلھم من قریش))[135]

۱۱۔مسند ابی یعلی:((یقول:لا یزال الدین قائما حتی تقوم الساعة ویکون علیکم إثنا عشر خلیفة کلھم من قریش))[136]

۱۲۔مسند احمد بن حنبل :((عن جابر بن سمرة  قال: خطبنا رسول اللّٰہ(ص) بعرفات فقال:لا یزال ھذا الاٴمر عزیزا منیعا ظاھرا علی من ناواہ حتی یملک اثنا عشر کلھم، قال:فلم اٴفھم ما بعد، قال:فقلت لاٴبی ما قال بعد ما قال:کلھم، قال:کلھم من قریش))[137]

۱۳۔مستدرک حاکم :((عن مسروق قال:کنا جلوسا لیلة عند عبد اللّٰہ یقرئنا القرآن فساٴلہ رجل فقال:یا اٴبا عبدالرحمن ھل ساٴلتم رسول اللّٰہ(ص) کم یملک ھذہ الاٴمة من خلیفة؟ فقال عبد اللّٰہ:ماسئلنی ھذا اٴحد منذ قدمت العراق قبلک، قال: سئلناہ، فقال:اثنا عشر عدة نقباء بنی اسرائیل))[138]

اس موضوع سے متعلق روایات صرف ان مذکورہ کتب میں ذکر نھیں هوئیں بلکہ ان کتب میں بھی ذکر شدہ روایات سے کھیں زیادہ روایات ذکر هوئی ھیں،لیکن اختصار کی وجہ سے اس تعداد  پر اکتفا کیا گیاھے۔[139]

بارہ اماموں کے بارے میں رسول خدا(ص) سے منقول نصوص جنھیں عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن مسعود، سلمان فارسی،ابی سعید خدری، ابی ذر غفاری، جابر بن سمرة،جابر بن عبداللہ،انس بن مالک،زید بن ثابت، زید بن ارقم،ابی عمامہ، واصلة بن اسقع،ابی ایوب انصاری، عمار بن یاسر، حذیفہ بن اسید، عمران بن حصین، سعد بن مالک، حذیفہ بن یمان اور ابی قتادہ انصاری جیسے بزرگ وجلیل القدر اصحاب  کے علاوہ  دوسرے بزرگان نے بھی روایت کیا ھے، کہ اختصار کے پیش نظر جن کے ذکر سے صرف نظر کیا جاتا ھے۔

اس روایت  میں بعض خصوصیات کا تذکرہ ھے ،جیسے :

۱۔خلفاء کا فقط بارہ افراد پر مشتمل هونا۔

۲۔ان بارہ افراد کی خلافت کا قیامت تک باقی رھنا۔

۳۔دین کی عزت واستقامت کا ان سے وابستہ هونا۔

۴۔علمی وعملی اعتبار سے ان کے ذریعے دین کا قائم هونا،کیونکہ قیامِ دین ان خلفاء کے ذریعے ھی ممکن ھے جو علمی اعتبارسے معارف وحقائقِ دین کو بیان کریں اور عملی اعتبار سے حق و قوانینِ عادلہ کو جاری کرنے والے هوں اور ان دو اھم اجزاء کا میسر هونا  ان شرائط کے بغیر نا ممکن ھے، جس کے شیعہ، بارہ اماموں کے بارے میں قائل ھیں۔

۵۔نقباء بنی اسرائیل کی نظیر قرار دینے سے کشف هوتا ھے کہ منصوب من اللہ ھیں، جیسا کہ اس آیتِ کریمہ میں بیان کیا گیا ھے<وَبَعَثْنَا مِنْھُمْ إِثْنیٰ عَشَرَ نَقِیْبًا>[140]

۶۔ا ن سب کا قریش سے هونا۔

آیا یہ خصوصیات رکھنے والے خلفاء طریقہٴ حقہ اثنا عشری اور بارہ اماموں کے علاوہ کھیں اور قابل انطباق ھیں؟!

کیا یزید اور یزید جیسوں کی خلافت میں، نقباء بنی اسرائیل جیسی اسلام کی عزت، امت کی نگھداشت اور ویسی حکومت میسر آسکتی ھے ؟!

اور اھل سنت کے بعض محققین نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ھے کہ یہ حدیث نہ تو پیغمبر کے بعد کے خلفاء پر قابل انطباق ھے،اس لئے کہ ان کی تعداد بارہ سے کم  ھے، نہ سلاطین نبی امیہ پر حمل کی جاسکتی ھے، ان کے مظالم اور تعداد میں بارہ سے زیادہ هونے کی وجہ سے،اور نہ ھی ملوک بنی عباس پر قابلِ تطبیق ھے، کیونکہ ان کی تعداد بھی بارہ سے زیادہ ھے اور انهوں نے بھی آیت<قُلْ لاَّ اٴَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اٴَجْرًا إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبیٰ> [141]کا حق ادا نھیںکیا۔ یہ احادیث آنحضرت(ص) کی آل وعترت کے علاوہ کسی اورمقام پر منطبق نھیں هو سکتیں کیونکہ وہ اپنے اپنے زمانے میں باقی تمام بنی نوع انسان سے اعلم، اجل، اورع اور اتقی هونے کے ساتھ ساتھ حسب ونسب کے اعتبار سے بھی افضل واعلی اور دوسروں کی نسبت خدا کے نزدیک زیادہ صاحب اکرام تھے۔ اھل علم وتحقیق اور اھل کشف وتوفیق نے ان ھستیوں کو اسی مقام ومنزلت پر فائز پایا ھے۔[142]

اور سدی نے اپنی تفسیر میں نقل کیا ھے :”چونکہ سارہ کو ھاجرہ کے ساتھ رھنا ناپسند تھا خداوند کریم نے حضرت ابراھیم(ع) پر  وحی نازل کی اور فرمایا: اسماعیل او ران کی والدہ کو یھاں سے سے ”نبی تھامی کے گھر“ یعنی مکہ لے جاؤ، میں تمھاری نسل کو پھیلاؤں گا  اور میرے بارے میں کفر کرنے والوں پر انھیں قدرت عطا کروں گا اور اس کی نسل سے بارہ کو عظیم قرار دوں گا۔“[143]

اور یہ بات تورات میں سفر تکوین کے سترهویں باب میں موجو داس عبارت کے موافق ھے کہ خدا نے حضرت ابراھیم سے فرمایا:”میں نے تمھاری دعا کو اسماعیل کے بارے  میں بطور خاص قبول کیا، اب اپنی برکت سے اسے صاحب اولاد  بنا ؤں گا اور اس کو بہت کثرت عطا کروں گا،اس سے بارہ سردار بنیں گے اور اس سے عظیم امت پیدا کروں گا۔“

اور بارہ ائمہ کی امامت، صحیح روایات اور معصوم سے مروی متواتر نصوص جو سند کی بحث سے بے نیاز هوتی ھیں، کے ذریعہ ثابت ھے۔ ھم اس مقدمے میں ”حدیثِ لوح“ پر اکتفا کرتے ھیں، جسے متعدد اسناد کے ساتھ، جن میں سے بعض معتبر ھیں، بزرگ محدثین نے نقل کیا ھے۔  ھم ان میں سے دو روایات کو یھاں ذکر کرتے ھیں :

پھلی روایت:

 یہ وہ روایت ھے جسے شیخ صدوق  ۺنے پانچویں امام(ع) اور انهوںنے جابر بن عبد اللہ انصاری سے نقل کیا کہ جابر بن عبد اللہ انصاری نے کھا: میں حضرت فاطمہ زھرا علیھا السلام کی خدمت میں حاضر هوا، ان کے سامنے ایک لوح رکھی تھی جس پر اوصیا ء کے نام تھے۔میں نے انھیں گنا تو بارہ تھے جن میں سے آخری قائم تھے، تین محمد اور چار علی تھے۔[144]

دوسری روایت:

یہ حدیث اخبار غیبی پر مشتمل ھے اور خود اس کا متن اس کے مقام عصمت سے صادر هونے پر گواہ ھے۔ اسے شیعہ اکابر محدثین جیسے شیخ مفید، شیخ کلینی،شیخ صدوق اور شیخ طوسی اعلی اللہ مقامھم نے عبد الرحمن بن سالم، انھوںنے ابی بصیر اور انھوں نے چھٹے امام (ع)سے نقل کیا ھے اور مضمون روایت تقریباً یہ ھے کہ:

”میرے والد گرامی نے جابر بن عبدا للہ انصاری سے فرمایا: ”مجھے تم سے ایک کام ھے، تمھارے لئے کس وقت آسانی ھے کہ تم سے اکیلے میں ملوں او راس بارے میں سوال کروں ؟“

جابر نے کھا: ”جس وقت آپ پسند فرمائیں ۔“

پھر ایک دن جابر سے تنھائی میں ملاقات کی اور فرمایا:”اے جابر! جو لوح تم نے میری والد ہ گرامی حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ(ص) کے ھاتھ دیکھی تھی اور لوح پر لکھے هوئے کے بارے میں جو میری مادر گرامی نے بتایا تھا، مجھے اس کے بارے میں بتاؤ۔“

جابر نے کھا:”خدا کو گواہ کر کے کہتا هوں کہ رسول خدا(ص) کی زندگی میں آپ کی والدہ گرامی فاطمہ زھر ا سلام اللہ علیھا کی خدمت میں حاضر هو کر میں نے نھیں ولادتِ امامِ حسین(ع) کی مبارک باد دی۔ان کے ھاتھوں میں سبز رنگ کی ایسی لوح دیکھی کہ جس کی بارے میں مجھے گمان هوا کہ زمرد کی ھے اور اس میں سورج کے رنگ کی مانند سفید لکھائی دیکھی، ان سے کھا: ” میرے ماں باپ آپ پر فدا هوں، اے دختر رسول خدا(ص) ! یہ لوح کیا ھے ؟“

تو آپ نے فرمایا: ”یہ لوح خدا نے اپنے رسول کو تحفہ دی ھے، اس میں میرے بابا، میرے شوھر،میرے دوبیٹوں اور میری اولاد میں سے اوصیاء کے نام ھیں اور بابانے یہ لوح مجھے عطا فرمائی ھے تاکہ اس کے ذریعے مجھے بشارت دیں۔“

جابر نے کھا:” آپ کی والدہ گرامی حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیھا) نے وہ لوح مجھے دی، میں نے اسے پڑھا اور اس سے ایک نسخہ اتارا۔“

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عقل کا استعمال اور ادراکات کا سرچشمہ
عید مباہلہ
آیہٴ” ساٴل سائل۔۔۔“ کتب اھل سنت کی روشنی میں
انہدام جنت البقیع تاریخی عوامل اور اسباب
ماہ رمضان کے دنوں کی دعائیں
جمع بین الصلاتین
ہم اور قرآن
نہج البلاغہ کی شرح
شفاعت کا مفہوم
شب قدر کو کیوں مخفی رکھا گیا؟

 
user comment