اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

امامت قرأن و حدیث کی روشنی میں

امامت  قرأن و حدیث کی روشنی میں

مقدمہ

قارئین کرام !  ”امامت“ کے موضوع پر بہت زیادہ بحث وگفتگو هوئی ھے یھاں کہ اس سلسلہ میں ہزاروں کتابیں لکھیں جاچکی ھیں۔

اورمتعدد موٴلفین نے اس سلسلہ میں بہت سی فروعات پر تفصیلی گفتگو کی ھے چنانچہ بعض موٴلفین نے کچھ پھلووں پر گفتگو کی ھے تو بعض دیگر موٴلفین نے دوسرے پھلو پرروشنی ڈالی ھے، کیونکہ بعض موٴلفین نے بحث امامت کو قرآن کی روشنی میں بیان کیا او ربعض دیگر موٴلفین نے امامت کو حدیث کی روشنی میں، تو بعض موٴلفین نے امامت کو علم کلام کی روشنی میں بیان کیا تو کسی نے تاریخ کی روشنی میں اور کسی نے امامت کی بحث کو وقت وفات النبی  سقیفہ کے حدود میں بیان کیا ھے تو بعض لوگوں نے ائمہ  (ع) کی سوانح حیات اور ان کی تاریخ بیان کی ھے، چنانچہ آج تک یہ سلسلہ اسی طرح جاری وساری ھے۔

 چونکہ اس سلسلہ میں لکھی گئی کتابوں کی تعداد بہت زیادہ ھے لیکن پھر بھی بعض لوگوں نے تعصب اور خود غرضی کے تحت اس موضوع کی حقیقت ھی کو بیان نھیں کیا، لہٰذا بہت سی کتابیں اسی تعصب اور کج فکری سے بھری پڑی ھیں چنانچہ اسی تعصب کا نتیجہ ھے کہ ان کتابوں میں ایسے مسائل بیان کئے گئے ھیں جن کو عقل ومنطق قبول نھیں کرتی۔

یھی وجہ ھے کہ ان لوگوں نے بحث امامت کو اس طرح پیش کیا ھے جس میں هوا پرستی اور خیالی تصورات کے علاوہ کچھ نھیں پایا جاتا اور ان میں نہ تو امامت کی حقیقت کو بیان کیا گیا ھے اور نا ھی ایسے نکات کو بیان کیا گیا جو بین المسلمین متفق علیہ هوں،جبکہ ان نظریات کا سبب صرف یھی کتابیں ھیں جو اصل موضوع سے خارج ھیں۔

 لہٰذا اب ھم صاف طور پر بیان کرتے ھیں :

”ھم چونکہ آج امامت کی بحث کرنا چاہتے ھیں جبکہ ”سقیفہ“ کو چودہ صدیاں گذر گئیں ھیں پس یہ کیوں کھا جاتا ھے کہ ھم اختلاف کررھے ھیں اور جب اختلاف کرتے ھیں (جیسا کہ بحث کرنے والوں کا وطیرہ رھا ھے) تو ھم پر تعصب اور زیادہ روی کی تھمت کیوں لگائی جاتی ھے ؟! جبکہ اختلاف رائے سے کسی واقعہ کی حقیقت نھیں بدلتی۔“

تو کیا اس موضوع کے بارے میں ایسے امور ھیں جن کی وجہ سے معاصر انسان مطمئن هوجائے اور اپنے دل میں موجودہ شبھات کا حل تلاش کرلے؟۔

یا اس سلسلہ میں کچھ ایسے موارد ھیں جن کی وجہ سے انسان دھوکا کھاجاتا ھے یا جن کی وجہ سے نوع بشر کو مشکلات کا سامنا هوتا ھے؟

آج دنیا بھر کے تمام مسلمان اس بات پر متفق ھیں کہ آج ھمارے سامنے کوئی امام حاضر نھیں ھے ، جو ان میں اختلاف کا باعث هو مثلاً بعض لوگ اس کی بیعت کریں او ربعض اس کی بیعت سے انکار کردیں، اور اسی وجہ سے ایسا کوئی جھگڑا نھیں ھے جس سے انسان ڈرے یا اس سلسلہ میں کچھ کہنے والا کسی سے خوف کھاجائے۔

 شاید کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا هو:

”جب باتیں کچھ اس طرح ھیں تو اس گفتگو ، بحث او رجد جہدکا کیا فائدہ“؟

جواب:

ھم  اس سلسلہ میں اسلام کا حقیقی نظریہ پیش کرنا چاہتے ھیں، کیونکہ اسلام ایک ایسا دین ھے جو نظام زندگی ھے اور ھم اس اھم اور خطرناک موضوع کے بارے میں پیدا هونے والے سوالات کا صاف اور واضح جواب پیش کریں، چنانچہ اس سلسلہ میں چند اھم سوال اس طرح ھیں:

۱۔اسلام کی نظر میں ”امامت“ کے کیا معنی ھیں؟

۲۔کیا”امامت“ ضروری ھے اگر ضروری ھے تو کیسے؟

۳۔کیا واضح طور پر کسی کو منصب ”امامت“ پر منصوب کیا گیا ھے یا انتخاب پر چھوڑ دیا گیا ھے؟

۴۔کیا ”امامت“ منصوص ھے؟ ٹیوقراطی ھے""،یاڈکٹاٹوری ""  یاڈیموکراٹک  "" ھے ؟

ان سوالات کے علاوہ اور دیگر پھلو بھی ھیں جن کے بارے میں حقیقت کو واضح کرنے کے لئے عمیق بحث کی ضرورت ھے تاکہ اس اھم مسئلہ میں اسلامی نظریہ واضح هوجائے۔

چنانچہ ھم اس باب میں ایسی روش اختیار کریں گے جس سے ھمارے قارئین کرام اسلامی فرقوں میں موجودہ نظریات میں سے صحیح نظریہ کا انتخاب کرلیں، اور ادھر اُدھر نہ بھٹکنے پائیں۔

اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بعد کے حالات سے بعض مسلمانوں کے احساسات کو ٹھیس پهونچ سکتی ھے لہٰذا ھم ان کو بیان نھیں کریں گے۔

ھماری ساری امید خداوندعالم کی ذات ھے کیونکہ وھی ھماری مدد کرنے والا ھے اور ھمارے لڑکھڑاتے هوئے قدم میں ثبات پیدا کرنے والا ھے اور وھی مذکورہ باتوں کے بیان کرنے میں نصرت ومدد کرنے والا ھے خداوند ! ھمارے قلم کو سهو وخطا سے محفوظ رکھ اور ھمیں اس راستہ پر چلا جس میں تیری مرضی هو، او رھمارا قول وفعل تیری مرضی کے مطابق هو، انہ خیر مسدد وموفق ومعین۔

وآخر دعواناان الحمد للہ رب العالمین۔

امامت کے عام معنی

امام کے معنی اپنی قوم کے آگے چلنے والے رھبر اور مقتدیٰ کے ھیں (جیسا کہ عربی لغت میں آیا ھے)۔[1]

لہٰذا امامت کے معنی قیادت اورریاست کے ھیں، اسی وجہ سے نماز پڑھانے والے کو بھی امام کھا جاتا ھے کیونکہ وہ دوسروں سے آگے هوتا ھے۔

چنانچہ قرآن مجید میں اسی لغوی معنی کو استعمال کیا گیا ھے؛ ارشاد هوتا ھے:

<قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامَا>[2]

”خدا نے فرمایا کہ میں تم کو (لوگوں کا) پیشوا (امام) بنانے والا هوں“

<وَمِنْ قَبْلِہِ کِتَابُ مُوْسٰی اِمَاماً وَرَحْمَةً>[3]

(اور اس سے قبل جناب موسیٰ کی کتاب (توریت) جو لوگوں کے لئے پیشوا اور رحمت تھی“

<وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَاماً>[4]

”اور ھم کو پرھیزگاروں کا پیشوا بنا“

<یَوْمَ نَدْعُوْ کُلَّ اُنَاسٍ بِاِمَامِہِمْ>[5]

”اس دن کو یاد کرو جب ھم تمام لوگوں کو ان کے پیشواوٴں کے ساتھ بلائیں گے۔“

اسی طرح قرآن مجید میں دوسری جگہ پر لفظ ”امام“ استعمال هوا ھے۔

 معنی خلیفہ:  جیسا کہ عربی لغت بیان کرتی ھے : امیر، سلطان اعظم او راپنے سے ماقبل کے جانشین کو خلیفہ کھا جاتا ھے۔[6]

لہٰذا خلافت کے معنی امارت، سلطنت اور کسی کے قائم مقام کے ھیں۔

اور اسی معنی میں قرآن مجید میں لفظ ”خلیفہ“ ، ”خلائف“ اور” خلفاء“ استعمال هوا ھے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ هوتا ھے:

<اِنِّیْ جَاعِلٌ فِیْ الْاَرْضِ خَلِیْفَةً>[7]

”میں (اپنا) ایک نائب زمین میں بنانے والا هوں“

<یَادَاوٴُدَ اِنَّا جَعَلْنَاکَ خَلِیْفَةً فِی الْاَرْضِ>[8]

”اے داؤد ھم نے تم کو زمین میں (اپنا) نائب قرار دیا“

<هوالَّذِیْ جَعَلَکُمْ خَلاٰئِفَ الْاَرْضِ>[9]

”اور وھی تو وہ (خدا) ھے جس نے زمین میں (اپنا) نائب بنایا“

<وَاذْکرُوْا اِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَاءَ مِنْ بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ>[10]

”اور (وہ وقت) یاد کرو جب اس نے تم کو قوم نوح کے بعد خلیفہ (وجانشین) بنایا“

قارئین کرام !     ان کے علاوہ بھی دوسرے مقامات پر ان الفاظ کو استعمال کیا گیا ھے۔

چنانچہ علماء اھل لغت لفظ ”امامت“ او ر”خلافت“ کے مذکورہ معانی پر متفق ھیں لیکن علماء کلام نے اس سلسلہ میں اختلاف کیا ھے کہ ان دونوں الفاظ کے ایک ھی معنی ھیں یا ان کے الگ الگ معنی ھیں۔

چنانچہ بعض لوگوں نے امامت کی اس طرح تعریف کی ھے:

”امامت، نبی کی اس خلافت کو کہتے ھیں جس میں دین اور نظام دنیا کی محافظت کی جاتی ھے۔“ [11]

خلافت کے بارے میں ابن خلدون صاحب کہتے ھیں:

”خلافت کو تمام مسلمان شرعی طور پر آپس میں طے کرتے ھیں تاکہ مسلمانوں کے دینی اور دنیاوی مشکلات کا حل تلاش کیا جاسکے۔“  [12]

اور اسی بات کی تاکید کرتے هوئے موصوف کہتے ھیں:

”خلافت وہ دینی منصب ھے جو امامتِ کبریٰ کے تحت هوتا ھے“[13]

ایک صاحب نے اس طرح ان دونوں (خلافت وامامت) میں رابطہ بیان کرتے هوئے کھا:

”خلافت امامت کبریٰ ھے او رامامت نماز ؛ امامت ِ صغریٰ ھے۔“ [14]

قارئین کرام !    جیسا کہ آپ حضرات نے ملاحظہ فرمایا کہ یہ دونوں لفظ ایک ھی مقصد کی طرف اشارہ کرتے ھیں، اور شاید ”ریاست“ و ”قیادت“ مذکورہ معنی میں سب سے جامع معنی هوں جن پر ان دونوں الفاظ کے معنی متفق ھیں۔

لیکن جب ھم دیکھتے ھیں کہ یہ قیادت وریاست میدان عمل میں کس طرح وقوع پذیر هوئی تو ھم اس سلسلہ میں واضح فرق دیکھتے ھیں او رایک متکلم دوسرے متکلم سے الگ نظریہ پیش کرتا ھے اور اس طرح سے ان دونوں الفاظ کے معنی کرتا ھے کہ ان دونوں میں بہت زیادہ فرق دکھائی دیتا ھے۔

لہٰذا طے یہ هوا کہ امامت کے معنی دینی ریاست کے ھیں جیسا کہ دینی نصوص بھی اس معنی کی طرف اشارہ کرتی ھیں اور خلافت کے معنی حکومت کی ریاست کے ھیں جیسا کہ اس بات پر بھی نصوصِ دینی اشارہ کرتی ھیں۔

چنانچہ شیعہ وسنی محققین کے نزدیک ”امام“ صاحب حقِّ شرعی کو کھا جاتا ھے جبکہ خلیفہ ؛ صاحبِ سلطنت کو کھا جاتا ھے۔ [15] چنانچہ اس لحاظ سے حضرت ابوبکر کی خلافت، سلطنتِ حکومت تھی ، دینی سلطنت نھیں۔ [16]

اسی وجہ سے ان دونوں الفاظ کے لئے ایک خاص میدان اور معین دائرہ ھے۔

 اس اختلاف کے باوجود ھمارا یہ عقیدہ ھے کہ یہ دونوں منصب ایک شخص میں جمع هونے چاہئےں جیسا کہ مذکورہ نصوص سے بھی یھی نتیجہ نکلتا ھے کیونکہ اسلامی نظریہ کے مطابق دین وسیاست (حکومت) میں جدائی نھیں ھے۔

اور جیسا کہ یورپی ممالک سے یہ نظریہ (  دین کا سیاست جدا هونا) ھم تک پهونچا ھے اور بعض حکومتوں میں ”چرچ “ (گرجا گھر) لوگوں کے عام امور میں دخالت کرتا ھے کیونکہ عیسائی نظام ؛حکومت اور روش حکم کو قبول نھیں کرتی، لیکن ھم مسلمانوں کے لئے شعار کو قبول کرنے میں کوئی بھی عذر نھیں ھے کیونکہ ھمارا دین در حقیقت، رسالت دین اور نظام حکومت ھے۔[17]

لہٰذا ضروری ھے کہ دین وحکومت کی ریاست ایک ھی شخص میں جمع هوں کیونکہ اگر دونوں جداجدا هوں تو پھر نہ ھی نظام دین چل سکتا ھے او رنہ ھی نظام حکومت۔

لیکن مسلمانوں کے درمیان بعض لوگ ایسے بھی ھیں جن کا ماننا یہ ھے کہ امامت جدا ھے ، اور خلافت جدا، اور اس نظریہ کے لئے مسلمانوں کی تاریخ عملی کو دلیل کے طور پر پیش کیا ھے جبکہ مسلمانوں میں امامت ،خلافت سے جدا رھی ھے اور مرجع دینی رئیسِ حکومت کے علاوہ رھا ھے کیونکہ یزید بن معاویہ جو خلیفہ تھا لیکن مسلمانوں کا امام نھیں تھا او رنہ ھی مسلمان، دینی مسائل اور عقائد میں اس کی طرف رجوع کرتے تھے۔

قارئین کرام !   شیعوں کی نظر میں” امامت“ رسالت کا ایسا جز ھے جس کے ذریعہ رسالت کامل هوتی ھے او راس کا وجود جاری وساری رہتا ھے، چنانچہ عقل بھی اس بات کا حکم کرتی ھے کیونکہ امامت لطف ھے او رھر لطف خداپر واجب ھے جیسا کہ علم کلام میں واضح طور پر بیان کیا گیا ھے۔

امامت لطف کیوں ھے؟ تو اس کے جواب میں یہ عرض کیا جائے گاکہ چونکہ لطف اس شیٴ کا نام ھے جس کے ذریعہ سے انسان خدا کی اطاعت سے قریب، اس کی نافرمانی سے دوراور راہ حق پر گامزن رہتا ھے او رحقیقت بھی یھی ھے کہ امامت کے ذریعہ مذکورہ معنی متحقق هوتے ھیں (یعنی انسان امامت کے ذریعہ خدا کی اطاعت سے قریب اور اس کی نافرمانی سے دور هوتا ھے)جیسا کہ ھر شخص جانتا ھے کہ اگر مبسوط الید (صاحب طاقت وقدرت) قائد جس کی لوگ اطاعت کریں تو وہ ظالم کو نابود کرنے والا، مظلوم کے ساتھ انصاف کرنے والا اور لوگوں کے امور کو اخلاص وایمان کے ذریعہ منظم کرنے والا نیز لوگوں کو هوا وهوس او رانانیت سے باھر نکالنے والا هوتا ھے جن کے ذریعہ سے انسان خدا کی اطاعت سے قریب، معصیت وبرائی سے دور اور اس راہ پر گامزن هوجاتا ھے جس کو خداوندعالم نے پسندکیا ھے، اور یھی معنی ھیں ”لطف“ کے جس کو ھم نے ابھی بیان کیا ھے۔

چنانچہ اس سلسلہ میں مزید گفتگو کی ضرورت نھیں ھے کیونکہ قدیم زمانے سے آج تک تمام قوم وقبیلہ کا ایک رئیس اور سردار رھا ھے جس کے ذریعہ اس قوم کے مسائل حل هوتے ھیں اور اپنے لئے دستور وقوانین معین کئے جاتے ھیں چنانچہ آج کا سماج بھی رئیس اور حکومت کی ضرورت کو محسوس کرتا ھے کہ کوئی ایسی حکومت هو جو انسانی زندگی کے تمام امور مثلاً:  سیاست، اقتصاد، عدالت، تربیت اور لشکری امور کو بہترین طریقہ سے انجام دے۔

چنانچہ اسلام کی نظر میں حکومت کی ریاست کے لئے وسیع نظر ھے اس لحاظ سے کہ دین او ردنیا دونوں امور میں اسی کا حکم نافذ هونا چاہئے وہ امور جن کو شریعت اسلام نے پیش کیا ھے جن میں اسلامی مناطق میں تمام طور وطریقہ کو بیان کیا گیا ھے،چاھے وہ انسان کا خدا سے رابطہ هو یا انسان کی اجتماعی زندگی میں ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ هو۔

او رچونکہ انسانی سماج کے قوانین انسان کے بنائے هوئے هوتے ھیں اور زمان ومکان کے لحاظ سے قابل تبدیل هوتے ھیں لیکن اسلام کا قانون ایسا نھیں ھے کیونکہ آسمانی دین میں تغییر وتبدیلی نھیں هوتی، لیکن دین اسلام کے مکمل اور کامل هونے کے ساتھ ساتھ بعض بنیادی اصول میں نصوص بہت زیادہ واضح نھیں ھیں لہٰذا ضروری ھے کہ مکمل طریقہ سے ان مسائل کی تشریح اور وضاحت کی جائے۔۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

کلمہ ٴ ”مو لیٰ“ کے معنی کے متعلق بحث
نھج البلاغہ خطبہ ۱(خلقت انسان)
ہماری زندگی میں صبر اور شکر کی اہمیت
۹ ربیع الاول امام زمانہ(ع) کی امامت کا یوم آغاز
امام جعفر صادق علیہ السلام کی فرمائشات
ماہ رمضان کی فضیلت
انقلاب حسینی کے اثرات وبرکات
قرآنِ کریم میں "حجاب" سے متعلق آیات
ماہ رمضان ، عظیم ترین مہینہ
کيا ہم بھي عيد غدير کي اہميت کو اجاگر کرنے ميں ...

 
user comment