اردو
Tuesday 23rd of April 2024
0
نفر 0

طلاق خلع

طلاق خلع

عورت شوہر کو پسند نہیں کرتی اس سے شدید نفرت کرتی ہے اس کے ساتھ رہنے کو کسی صورت قبول نہیں کرتی تو طلاق کی مانگ عورت کی طرف سے ہوگی حق مہر کی واپسی یا کسی او ر چیز کے دینے پر مرد طلاق دے گا اس طلاق میں مردکو رجوع کا حق نہیں طلاق کی باقی عام شرئط موجود ہونی چاہئیں ۔ اس طلاق کا نام خلع ہے۔ ہاں البتہ عورت نے جوکچھ دیا ہے اگر اس میں رجوع کرتی ہے اور اپنی چیزیں واپس طلب کرتی ہے تومردکواس طلاق میں بھی رجوع کاحق حاصل ہوگا۔

عورت کی گواہی

حقوق الٰہی و حقوق انسانی کے اثبات کے لیے بعض اوقات شہادت گواہی کی ضرورت ہوتی ہے کئی معاملات میں عورت کی گواہی مقبول ہے ۔ ارشاد ِرب العزت ہے: فَإِنْ لَّمْ یَکُوْنَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلٌ وَّامْرَأَتَانِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّہَدَاءِ أَنْ تَضِلَّ إِحْدَاہُمَا فَتُذَکِّرَ إِحْدَاہُمَا الْأُخْرٰی ۔ "اگر دو مرد نہ ہوں تو اپنی پسند کے مطابق ایک مرد اور دو عورتوں کوگواہ بناوٴ تاکہ اگر ان میں ایک بھول جائے تو دوسری اسے یا د دلائے "۔ حقوق انسان میں حق غیر مالی طلاق وغیرہ کے معاملات میں دو مرد گواہ ہونا چاہئیں۔ حقوق مالی،شادی کے معاملات وغیرہ میں دو مردوں کی گواہی یا ایک مرد ور دو عورتوں کی گواہی کفایت کرتی ہے۔ جو مسائل عورتوں سے مربوط ہیں مردوں کے لیے ان پر اطلاع پانامشکل ہے اس میں صرف عورتوں کی گواہی کافی ہے اسی طرح میراث اورو صیت کے مسائل میں عورتوں کی گواہی کافی ہے غرضیکہ گواہی کے سلسلہ میں اللہ نے عورت کوبہت اہمیت دی ہے ۔ ارشاد رب العزت ہے: وَلَایَحِلُّ لَہُنَّ أَنْ یَّکْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللہ فِیْ أَرْحَامِہِنَّ إِنْ کُنَّ یُؤْمِنَّ بِاللہ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ ۔ "اگر وہ اللہ اور روزآخرت پر ایمان رکھتی ہیں تو ان کے لیے جائز نہیں کہ اللہ نے ان کے رحموں میں جو کچھ خلق کیا ہے اسے چھپائیں گویا بتانا ضروری ہے اور یہی عورتون کی گواہی ہے"۔ ( سورہ بقرہ :۲۲۸)

عورت و میراث

بیٹی کی وراثت اگر مرنے والے کی اولاد صرف ایک بیٹی ہو تو نصف مال اس کاحق ہے اور دیگر عزیزوں کے نہ ہونے کی صورت میں باقی نصف بھی اسے مل جائے گا۔
ارشاد رب العزت : وَإِنْ کَانَتْ وَاحِدَةً فَلَہَا النِّصْفُ ۔ اور اگر صرف اس کی صرف ایک ہی لڑکی ہے تو نصف ترکہ اسکا حق ہے۔ ( سورہ نساء : ۱۱)

ماں

مرنے والے کی اولاد ہونے کی صورت میں ماں کا چھٹا حصہ ہے نہ ہونے کی صورت میں تیسرا حصہ ہے۔ ارشاد رب العزت ہے: وَلِأَبَوَیْہِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ إِنْ کَانَ لَہ وَلَدٌ فَإِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّہُ وَلَدٌ وَّوَرِثَہ أَبَوَاہُ فَلِأُمِّہِ الثُّلُثُ ۔ "اور میت کی اولاد ہونے کی صورت میں والدین میں سے ہر ایک کو ترکہ کا چھٹا حصہ ملے گا اور اگر میت کی اولاد نہ ہو بلکہ صرف ماں باپ وارث ہوں تو اسکی ماں کو تیسرا حصہ ملے گا ۔"( سورہ نسا ء :۱۱)

بیوی

ارشاد رب العزت ہے : وَلَہُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْتُمْ إِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّکُمْ وَلَدٌ فَإِنْ کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَہُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکْتُمْ مِنْ م بَعْدِ وَصِیَّةٍ تُوْصُوْنَ بِہَا أَوْ دَیْنٍ ۔ "اگر تمہاری اولاد نہ ہوتو انہیں( بیویوں کو) تمہارے ترکے میں سے چوتھائی ملے گی اور اگر تمہاری اولاد ہو تو انہیں تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ملے گا یہ تقسیم تمہاری وصیت پر عمل کرنے اور قرض اد اکرنے کے بعد ہوگی "۔( سورہ نساء:۱۲)

بہن

ارشاد رب العزت ہے : وَإِنْ کَانَ رَجُلٌ یُّورَثُ کَلَالَۃً أَوِ امْرَأَةٌ وَّلَہ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا السُّدُسُ فَإِنْ کَانُوْا أَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ فَہُمْ شُرَکَاءُ فِی الثُّلُثِ مِنْم بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصٰی بِہَا أَوْ دَیْنٍ غَیْرَ مُضَارٍّ وَصِیَّةً مِّنَ اللہ وَاللہ عَلِیْمٌ حَلِیْمٌ "اور اگر کوئی مرد یا عورت بے اولاد ہو اور والدین بھی زندہ نہ ہوں اور اسکا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو بھائی اور بہن میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا ۔ اگر اس کے بہن بھائی زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی حصہ میں شریک ہوں گے ۔یہ تقسیم وصیت پر عمل کرنے اور قرض ادا کرنے بعد ہوگی بشرطیکہ ضرررساں نہ ہو ۔ یہ نصیحت اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ بڑا دانا اور بردبارہے "۔ ( سورہ نساء :۱۲) ارشاد رب العزت ہے : یَسْتَفْتُوْنَکَ قُلِ اللہ یُفْتِیْکُمْ فِیْ الْکَلَا لَةِ إِنِ امْرُؤٌ ہَلَکَ لَیْسَ لَہ وَلَدٌ وَّلَہ أُخْتٌ فَلَہَا نِصْفُ مَا تَرَکَ وَہُوَ یَرِثُہَا إِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّہَا وَلَدٌ فَإِنْ کَانَتَا اثْنَتَیْنِ فَلَہُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَکَ وَإِنْ کَانُوْا إِخْوَةً رِّجَالًا وَّنِسَاءً فَلِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَیَیْنِ یُبَیِّنُ اللہُ لَکُمْ أَنْ تَضِلُّوْا وَاللہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ ۔ "لوگ آپ سے کلالہ کے بارے میں دریافت کرتے ہیں ان سے کہہ دیجے اللہ کلالہ کے بار ے میں تمہیں یہ حکم دیتا ہے کہ اگرکوئی مرد مرجائے اور اسکی اولاد نہ ہو اور ایک بہن ہو تو اسے بھائی کے ترکے سے نصف ملے گا اگر بہن مر جائے اور اسکی کوئی اولاد نہ ہو تو بھائی کو بہن کا پورا ترکہ ملے گا اگر بہنیں دو ہو ں تو دونوں کو بھائی کے ترکے سے دو تہائی ملے گااگر بہن بھائی دونوں ہوں تو مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصے کے برابر ہو گا۔ اللہ تمہارے لیے احکام بیاں فرماتا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہو جاؤ اور اللہ ہر چیز کا پورا پوراعلم رکھتاہے "۔(سورہ نساء :۱۷۶)

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اہل سنت والجماعت کی اصطلاح کا موجد؟
فلسطین کی تاریخ
حضرات ائمہ علیھم السلام
والدین کی نافرمانی کےدنیامیں منفی اثرات
عزا داری کا اسلامی جواز
ایمانداری کا انعام
سنت محمدی کو زندہ کرنا
امام کا وجود ہر دور میں ضروری ہے
دينى حكومت كى تعريف
خطبه غدیر سے حضرت علی علیه السلام کی امامت پر ...

 
user comment