اردو
Saturday 20th of April 2024
0
نفر 0

عزاداری کربلا کے بعد

عزاداری کربلا کے بعد

تاریخ اور روایات کی کتابوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے عزاداری خود میدان کربلا اور روز عاشور ہی سے شروع ہو گئی تھی۔ سیدانیوں کا شہداء کی لاشوں پر گریہ کرنا مقاتل میں وسیع طور پر بیان ہوا ہے خاص طور پرجناب رباب کا گریہ علی اصغر(ع) پر، جناب زینب (ع) کا گریہ علمدار (ع)کربلا اور امام حسین(ع) پراور خود امام مظلوم(ع) کا گریہ شہداء پر۔ یہاں ہم تاریخ سے اس کے دو شاہد بیان کرتے ہیں :

۱)حضرت عبّاس(ع):امام حسین(ع) جناب عباس(ع) کے زخمی بدن پر تشریف لائے اور سرہانے جھک کر کھڑ ے ہو گئے پھر بیٹھ گئے اور شدید گریہ فرمایا یہاں تک کہ حضرت عبّاس(ع) کی روح بدن اطہر سے جدا ہو گئی۔(المجالس السنیہ، ص۱۰۶)

۲)حضرت علی اکبر(ع):امام حسین(ع) نے اپنے فرزند کا سر اپنی آغوش میں رکھا۔

ہرئہ مبارک سے خون کو صاف کیا۔ پیشانی کو بو سہ دیا اور پھر فرمایا:’’بیٹا خدا تیرے قاتلوں سے اپنی رحمت کو دور رکھے ۔یہ کتنے گستاخ ہیں کہ حرم خدا و رسول(ص) کا بھی پاس و خیال نہ رکھا۔‘‘ اس کے بعد امام (ع) کی آنکھوں سے اشک جاری ہو گئے ۔(موسو عۃ کلمات الامام الحسین(ع) ص۵۱۸)

کربلا کے بعد پہلی عام عزاداری:

حضرت زینب اور حضرت زین العابدین علیہما السلام کے فصیح و بلیغ اور پر درد خطبوں نے شام میں وہ قیامت برپا کی کہ دربار شام لرز اٹھا۔ یزید نے مجبور ہوکر اہل حرم کو تین دن عزاداری کی اجازت دی۔ صاحب مجالس السنیہ نے لکھا ہے کہ یہ پہلی عام عزاداری تھی جو امام حسین (ع)، آپ کے اعزاء و اقارب اور اصحاب باوفاکے لئے بر پا ہوئی۔(المجالس السنیہ، ص۵۱۸)

مدینہ میں عزاداری:

بشیر ابن جزلم جو کہ شاعر بھی تھا کہتا ہے : جب اسیروں کا قافلہ مدینے کے نزدیک پہونچا تو امام زین العابدین (ع)نے مجھے بلا کر فرمایا:’’بشیر مدینہ جا کر اہل مدینہ کو میرے پدر بزرگوار کی شہادت کی اطلاع کر دو۔‘‘میں مدینہ میں داخل ہوا اور بلند آواز سے روتے ہوئے یہ شعر پڑ ھا :


یا اھل یثرب لا مقام لکم

قتل الحسین ادمعی مدرارا

یہ خبر سنتے ہی مدینہ کے بچے ، بڑ ے شہر کے باہر آ گئے ...اس کے بعد مدینہ میں شب و روز مجالس عزا بر پا ہوئیں ۔(المجالس السنیہ، ص۱۴۴)

امام زین العابدین (ع) کی عزاداری:

یہ غمزدہ امام چونکہ کربلا میں موجود تھے اور ظلم و ستم کے عینی شاہد تھے اس لئے معتبر روایات کے مطابق دائمی عزادار تھے اور ہمیشہ شہدائے کربلا پر گریہ فرماتے رہتے تھے ۔ اگر کھانا پیش کیا جاتا تو چشمان مبارک سے اشک جاری ہوجاتے ۔ایک دن ایک غلام نے عرض کیا :مولا کب تک گریہ فرمائیں گے ؟! آپ (ع) نے فرمایا:وائے ہو تجھ پر ، یعقوب(ع) کے ۱۲ فرزند تھے صرف ایک جدا ہوا تھا تو یعقوب(ع) کی آنکھیں شدت گریہ سے سفید ہوگئیں تھیں حالانکہ یوسف(ع) زندہ تھے ۔ لیکن میں نے باپ، بھائی، عموں اور ۱۸! بنی ہاشم اور اصحاب پدرکو اپنی آنکھوں کے سامنے ذبح ہوتے خون میں غلطاں دیکھا ہے ۔ میرا حزن و اندوہ کیونکر تمام ہو سکتا ہے ؟!(تاریخ النیاحہ علی الامام الشہیدالحسین(ع) بن علی (ع) ص۱۵۵)

المجالس السنیہ میں نقل ہوا ہے کہ امام صادق (ع) نے فرمایا :میرے جدّبزرگوار امام سجّاد(ع) چالیس سال تک اپنے باپ پر گریہ کرتے رہے ۔(المجالس السنیہ، ج۱، ص۱۵۵)

امام باقر(ع)کی عزاداری:

نہضۃ الحسین، ص۱۵۲ پر نقل ہوا ہے : محرم شروع ہوتے ہی اہلبیت(ع) کا حزن و غم ظاہر ہوجاتا تھا امام شعراء کو دعوت دیتے اور انہیں اپنے جد امام حسین(ع) کے لئے مرثیہ گوئی کا حکم دیتے ۔(کامل الزیارات، ص۱۱۱۔۱۱۴)

امام باقر علیہ السلام روز عاشوراء عزاداری کا حکم دیتے اور اپنے گھر پر مجلس عزاء کا انعقاد فرماتے تھے ۔(تاریخ النیاحہ علی الامام الشھیدالحسین(ع) بن علی ص۱۲۰)

امام صادق(ع) کی عزاداری:

امام صادق(ع) کی عزاداری کے بارے میں متعدد روایات نقل ہوئی ہیں ، شاعروں کو امام حسین(ع) کے لئے مرثیہ گوئی کا حکم دیتے تھے ، ان کی تشویق فرماتے تھے اور مرثیہ خوانی کے وقت آپکے اہل بیت(ع) پشت پردہ گریہ و زاری فرماتے تھے ۔(تاریخ سید الشہداء ص۲۰۵)

امام کاظم (ع)کی عزاداری:

امام رضا(ع) فرماتے ہیں :جب محرم آتا تھا میرے بابا مسکرانا اور متبسم ہونا ترک کر دیتے تھے ...عاشور کے روز غم و اندوہ کی شدت سے بہت زیادہ گریہ کرتے اور فرماتے تھے یہ دن میرے جدّ کی شہادت کا دن ہے (تاریخ النیاحہ علی الامام الشہید، ص۱۳۲)

امام رضا(ع)کی عزاداری:

دعبلؔ خزاعی کہتے ہیں :محرم کے ابتدائی ایّام میں آقا امام رضا (ع)کی خدمت میں شرفیاب ہوا میں نے حضرت کو اصحاب کے حلقے میں اس صورت میں پایا کہ آپ بہت زیادہ غمگین تھے جیسے ہی حضرت کی نظر مجھ پر پڑ ی فرمایا:مرحبا اے دعبل ! مرحبا اس پر جو دست و زبان سے ہماری مدد کرتا ہے ۔ حضرت (ع)نے مجھے اپنے پاس بٹھایا اور فرمایا:دعبل شعر پڑ ھنا چاہتے ہو؟ یہ ایّام ہم اہلبیت رسول(ص) کے لئے غم و اندوہ اور ہمارے دشمنوں کے خوشی کے دن ہیں ۔ پھر حضرت (ع)نے ایک پردہ آویزاں کیا۔ اہل حرم کو پردے کے پیچھے بٹھایا تاکہ اپنے جدّ بزگوار پر گریہ کریں اور پھر میری طرف رخ انور کیا اور فرمایا:دعبل مرثیہ پڑ ھو تم ہمیشہ ہمارے مددگار اور مرثیہ گو ہو پھر دعبل نے مرثیہ پڑ ھا۔(بحارالانوار، ج۴۰، ص۲۵۷)


باقی چار ائمہ(ع) کی عزاداری:

عزاداری باقی چار اماموں کے دور میں کبھی کسی حد تک آزادی کے ساتھ برپا ہوئی اور کبھی پابندیوں اور سختیوں کے ہمراہ امام محمد تقی(ع) کے دور میں معتصم کے دور تک عزاداری کسی حد تک بر پا ہوئی لیکن اس کے بعد عزاداری اور شعائر حسینی پر پابندیاں بڑ ھ گئیں ۔(بحار الانوار، ج۴۰، ص۱۳۶۔۱۳۷ )

سیرت ائمہ(ع) کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سال بھر خاص ایام میں عزاداری جاری رہتی تھی لیکن ایام محرم میں کثرت و شدت کے ساتھ برپا ہوتی تھی امام سجّاد (ع) محرم میں سیاہ لباس پہنتے تھے ۔(سیاہ پوش در سوگ ائمہ(ع) نور، ص۱۲۷)
مختصر کلام یہ کہ عزاداری سیدالشہداء امام حسین(ع) خلقت کی ابتدا سے تھی اور پہلے ذا کر جبرئیل امین(ع) تھے اور کربلا کے بعد کی پوری مدت میں ائمہ علیہم السلام نے عزاداری کی تاکید فرمائی ہے خاص طور پر ایام محرم کے لئے زیادہ تاکید ملتی ہے۔امام رضا(ع) نے ابن شبیب سے فرمایا:شبیب کے بیٹے اگر رونا ہے تو حسین(ع) بن علی (ع)پر رو کیونکہ انکا سر گوسفند کی طرح تن سے جدا کیا گیا اور ۱۸! بنی ہاشم ان کے ہمراہ شہید کئے گئے ۔ (نفس المہموم، ص۵۴)
امام زمانہ (عج)نے فرمایا: اے جدّ بزگوار میں صبح وشام آپ پر گریہ کرتا رہونگا اور اگر میری آنکھوں کے اشک ختم ہو گئے تو خون کے آنسو روؤنگا۔(زیارت ناحیہ)
عزاداری مختلف ادوار میں حالات کی مناسبت سے برپا ہوئی ہے اسلامی ممالک خصوصا ایران ، عراق ، شام حتیٰ ہندوستان میں بھی اماموں کے دور سے ہی شروع ہوگئی تھی عزاداری کے فروغ میں علماء ا کرام کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا بطور مثال سید مرتضیٰؒ عزاداروں کے درمیان برہنہ پا اور بغیر عمامہ کے تشریف لاتے تھے ۔(نشریہ عطش نمبر ۱۱)

اس کے علاوہ کثیر تعداد میں علماء کا عزاداروں کے حلقے میں سینہ زنی کرنا اور پابرہنہ کربلا کے سفر جیسے واقعات پائے جاتے ہیں لیکن اختصار کا لحاظ رکھتے ہوئے ان سے صرف نظر کرتے ہیں آخر میں خداوند عالم سے دعا ہے بار الٰہا ہمیں اپنے اماموں کے حقیقی شیعہ اور سچے محبوں میں قرار دے ۔(اللھم ارزقنا زیارۃ الحسین(ع) فی الدنیا وشفاعتہ فی الاخرۃ) آمین۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اعتدال اور میانہ روی
حدیث ثقلین پر ایک نظر
امام کي شخصيت اور جذبہ
25 شوال المکرم؛ رئیس مذہب حضرت امام جعفر صادق علیہ ...
حضرت علی علیہ السلام کا جمع کردہ قرآن
مسئلہ تحریف قرآن
اسلام نے زمانے کو عزت بخشي
علم آیات و احادیث کی روشنی میں
ماں باپ کے حقوق
ثوبان کی شخصیت کیسی تھی؟ ان کی شخصیت اور روایتوں ...

 
user comment