اردو
Thursday 28th of March 2024
0
نفر 0

الله تعالی نے انسان کو کس مقصد کے لئے خلق فرمایا هے؟

الله تعالی نے انسان کو کس مقصد کے لئے خلق فرمایا هے؟

ایک مختصر

الف: کیونکه الله تعالی خالق هے اس وجه سے الله کی خالقیت کا تقاضا یهی هے که وه خلق اور پیدا کرے.

ب: خلقت کا نظام ایک حکیمانه اور با مقصد نظام هے.

ج: پوری کائنات اور دوسے موجودات کی خلقت کا مقصد صرف انسان کی خلقت هے؛ کیونکه سب کچھ انسان کے لئے خلق کیا گیا هے اور وه احسن المخلوقین هے. جیسا که اس کا خدا بھی، احسن الخالقین هے.

ھ: انسان کی خلقت کا مقصد جو کچھ بھی هو، اس کا نتیجه اور فائده خود انسان سے متعلق هے، نه که الله تعالی سے کیونکه وه تو غنی مطلق هے.

د: انسان کو خلق کرنے کا اصلی اور نهائی مقصد یه تھا که وه واقعی کمال اور سعادت حاصل کرے اور انسانیت کے عظیم مقام کو پا لے اور عالم ملکوت میں قدم رکھے البته یه سب کچھ صرف اور صرف حضرت حق تعالی کی شناخت اور معرفت حاصل کرنے کے بعد اس کی آگاهانه عبودیت اور بندگی کے سائے میں هی ممکن هو سکے گا.

تفصیلی جوابات

یه بات ثابت هو چکی هے که الله تعالی کے تمام اسماء اور صفات، چاهے وه صفات الله تعالی کی ذات سے متعلق هوں [جن کو صفات ذات کها جاتا هے] اور کیونکه الله تعالی واجب الوجود هے اور واجب الوجود بسیط هے اس وجه سے یه صفات، الله کی ذات سے الگ نهیں هیں اور صفات بعینه وهی اس کی ذات هیں جیسے علم، قدرت، قیومیت، مالکیت اور حاکمیت اور چاهے وه صفات جو الله کے فعل سے متعلق هیں اور اصطلاح میں انھیں «صفات فعل» کها جاتا هے جیسا که ربوبیت، رازقیت، خالقیت، اراده اور رحمت. یه تمام صفات، صفات ثبوتیه هیں جن کی وجه سے الله تعالی مسلسل بغیر کسی وقفه کے فیض پهونچا رها هے، انهی میں سے خالقیت کی صفت کا تقاضا یهی هے که الله تعالی مسلسل، اور غیر منقطع طور پر خلق کرتا رهے اور کوئی نئی چیز کو وجود میں لاتا رهے کیونکه «کل یوم ھو فی شأن» (هر روز الله تعالی کی ایک نئی شان هوتی هے) [1].

ایک اور بات جس کی طرف دھیان رکھنا ضروری هے وه یه هے که کیونکه الله تعالی حکیم هے، اور حکیم سے کوئی بھی عبث اور بیهوده کام سرزد نهیں هوتا، لهذا یه خلقت کا نظام با مقصد نظام هے جو الله تعالی نے اپنے عظیم مقاصد کے لئے خلق فرمایا هے جس میں کهیں بھی کوئی چیز غیر ضروری یا بلاوجه نهیں هے اور پوری کائنات کا هر ذره اپنی زبان میں پکار رها هے که:

 

نیست در دایره یک نقطه خلاف از کم و بیش  که من این مسئله بی چون و چرا می بینم

 

(اس کائنات میں ایک نقطه بھی کم یا زیاده نهیں اور یه بات میں بغیر کسی چون و چرا کے دیکھ رها هوں)

 

قرآن کریم کی صریح آیات کی روشنی میں خالق کائنات نے اپنی مخلوقات اور دوسری چیزوں کو بلاوجه اور بازیچه بنا کر خلق نهیں فرمایا بلکه خلقت کی وجه اور بنیاد، حق و حقیقت پر استوار کی گئی هے جو اس نظام احسن اور اکمل میں، حتی که سب سے کمترین حصه بھی بهت عظیم اور بلند مقاصد کے لئے خلق کیا گیا هے اور وه ذره ان مقاصد کا تعاقب کر رها هے اور ان میں سے کوئی بھی بلاوجه اور بے مقصد نهیں هے:

 

در این پرده یک رشته بی کار نیست                        سر رشته بر ما پدیدار نیست

 

(اس پردے کا کوئی ایک دھاگه بھی بے مقصد اور بلاوجه نهیں هے لیکن اس دھاگے کا سرا هم پر آشکار نهیں اور پوشیده هے)

 

البته اس نکته کو ذهن نشیں کر لینا چاهئے که پوری کائنات کو خلق کرنے اور موجودات کو ایجاد کرنے کا اصلی اور نهائی مقصد، انسان تھا. واضح الفاظ میں یوں کهنا چاهئے که الله تعالی نے پوری دنیا کو خلق فرمایا هے تا که انسان کو خلق فرمائے؛ کیونکه انسان «احسن المخلوقین» هے، جیسا که اس کو خلق کرنے والا احسن الخالقین هے اور اس کی خلقت کے کارخانے میں سے انسان جیسی کوئی دوسری چیز صادر نهیں هوئی هے. حدیث قدسی میں ملتا هے که: «اے اولاد آدم! میں نے هر چیز کو تیرے لیے اور تجھ کو اپنے لیے خلق کیا هے.» [2]

ان باتوں کو جان لینے کے بعد اب اپنی اصلی بحث کی طرف آتے هیں: انسان کی خلقت کا مقصد جو کچھ بھی هو اس کا نتیجه اور فائده خود انسان کی طرف پلٹتا هے، نه که الله تعالی کی طرف کیونکه وه تو غنی مطلق هے اور دوسرے تمام ممکنات، من جمله انسان اس کے محتاج هیں.

«اے انسانوں! تم الله تعالی کے محتاج هو، صرف الله کی ذات هی هے جو بے نیاز هے اور هر قسم کی حمد و ثنا صرف اس کے لئے مخصوص هے»[3]

«حضرت موسی نے بنی اسرائیل سے فرمایا: اگر تم بلکه پوری زمین کے لوگ بھی کافر هو جائیں تو اس میں الله تعالی کا کوئی نقصان نهیں هے کیونکه وه تو غنی اور تعریف کے لائق هے»[4]

امیرالمٶمنین حضرت علی (علیه السلام)، اپنے ایک مشهور خطبه میں جو خطبه ھمام کے نام سے مشهور هے فرماتے هیں: «الله تعالی مخلوقات کو خلق کرتے وقت ان کی طاعت اور بندگی سے بے نیاز اور ان کے گناهوں اور ان کی نافرمانیوں سے محفوظ تھا؛ کیونکه گناهگاروں کے گناه اس کو کوئی نقصان نهیں پهونچا سکتے اور نه هی اس کے فرمانبردار بندوں کی اطاعت اس کو کوئی نفع اور سود پهونچا سکتی هے. [5] (بلکه طاعت کرنے کے حکم اور معصیت کرنے سے نهی کرنے کا مقصد یه تھا که انهیں بندوں کو فائده پهونچایا جائے)

انسان کی خلقت کے بارے میں قرآن کریم میں مختلف آیات موجود هیں جن میں سے هر ایک آیت انسان کی خلقت کے هدف کے ایک زاویے کو نمایاں کرتی هے. من جمله: «هم نے جن و انس کو خلق نهیں فرمایا مگر اس لیے که هماری عبادت کریں»[6] دوسری جگه ملتا هے: «جس نے موت و حیات کو خلق فرمایا هے، وه تمهیں آزمانا چاهتا هے که تم میں سے کون زیاده نیک اعمال بجا لاتا هے»[7] (یهاں پر آزمائش کو مقصد تخلیق بتایا گیا هے جس میں تربیت شامل هوتی هے اور اس کا نتیجه تکامل حاصل کرنا هے) ایک دوسری جگه یوں ملتا هے: «لوگوں میں همیشه اختلاف رها هے مگر وهاں پر جهاں الله تعالی کی رحمت کا نزول هو اور اسی وجه کے لئے (یعنی رحمت کو قبول کرنے اور اس کے نتیجه میں تکامل پانے کے لئے) انهیں خلق فرمایا هے»[8] جیسا که ملاحظه فرما رهے هیں یه تمام خطوط ایک مشترک نقطه میں جا کر مل جاتے هیں اور وه انسان کی پرورش، هدایت اور تکامل هے. یهاں سے معلوم هوتا هے که انسان کی تخلیق کا اصلی اور آخری مقصد، کمال اور سعادت حاصل کرنا اور کرامت اور انسانی اقدار کی بلندترین چوٹیوں پر پهونچنا هے، اور یه سب صرف شناخت اور معرفت اور آگاهانه عبودیت اور بندگی کے ذریعه هی ممکن اور میسّر هو سکے گا کیونکه: «الله تعالی کی عبودیت ایسا گرانقدر گوهر هے جس کے باطن میں ربوبیت کارفرما هے»[9] جس کو یه مقام حاصل هو گیا هو وه ما سوی الله پر سلطنت کرے گا.

حضرت امام جعفر صادق (علیه السلام) سے منقول ایک روایت میں یوں ملتا هے که: «حضرت امام حسین (علیه السلام) نے اپنے صحابیوں کے سامنے آ کر یوں فرمایا: «الله تعالی نے اپنے بندوں کو صرف اس کی شناخت حاصل کرنے کے لئے خلق فرمایا هے، جب وه الله تعالی کی شناخت حاصل کر لیں گے، تو اس کی عبادت کریں گے، اور جب الله تعالی کی بندگی کریں گے تو غیر کی بندگی سے بے نیاز اور رهائی حاصل کر لیں گے»[10].

 

[1] . الرحمن/ 29

[2] . «یابن آدم خلقت الاشیاء لاجلک و خلقتک لاجلی»، المنھج القوی، ج 5، ص 516؛ علم الیقین، ج 1، ص 318

[3] . «یا ایھا الناس انتم الفقراء الی الله و الله ھو الغنی الحمید» فاطر/15.

[4] . «و قال موسی ان تکفروا انتم و من فی الارض جمیعاً، فان الله لغنی حمید» ابراھیم/8.

[5] . «اما بعد، فان الله سبحانه و تعالی خلق الخلق حین خلقھم غنیاً عن طاعتھم، آمنا من معصیتھم، لانه لاتضره معصیۃ من عصاه، و لاتنفعه طاعۃ من اطاعه» نهج البلاغه فیض الاسلام، ص 11، خطبه ھمام

[6] . «و ما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون» ذاریات/56

[7] . «الذی خلق الموت و الحیاۃ لیبلوکم ایکم احسن عملاً» ملک/2

[8] . «و لا یزالون مختلفین الا من رحم ربک و لذالک خلقھم»، ھود/118و119

[9] . «العبودیۃ جوھرۃ کنھھا الربوبیۃ»، مصباح الشریعه فی حقیقۃ العبودیۃ.

[10] . «ان الله عزوجل ما خلق العباد لا لیعرفوه، فاذا عرفوه عبدوه، فاذا عبدوه استغنوا بعبادتھ عن عبادۃ من سواه» علل الشرائع، صدوق، المیزان کے مطابقج ۱۸، ص

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عقیدہ ختم نبوت
ماہ رمضان کی آمد پر رسول خدا (ص) کا خطبہ
جن اور اجنہ کے بارےمیں معلومات (قسط-1)
حکومت خدا کا ظھور اور اسباب و حسب و نسب کا خاتمہ
شیعہ:لغت اور قرآن میں
خدا کی راہ میں خرچ کرنا
جبر و اختیار
"حی علیٰ خیر العمل " كے جزء اذان ھونے كے سلسلہ میں ...
کیا نذر کرنے سے تقدیر بدل سکتی ہے؟
آخرت میں اندھے پن کے کیا معنی هیں؟

 
user comment