اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

امّ البنین مادر ابوالفضل (ع)

امّ البنین مادر ابوالفضل (ع)

نام فاطمہ، حزام بن خالد کی بیٹی اور علی (ع) کی زوجہ ہیں- علی (ع) نے اپنے بہائی عقیل- جو تمام عرب کے خاندانوں سے واقف تہے- سے کہا : میرے لیے عرب کے دلاور اور شریف خاندان کی لڑکی تلاش کیجیے کہ جس سے شجاع و رشید بیٹا پیدا ہو-
عقیل نے کہا: فاطمہ بنت حزام کیسی ہیں؟ عرب میں ان کے آباء و اجداد سے زیادہ شجاع نہیں ہیں- عرب کے عظیم شاعر لبید نے انہیں کے بارے میں حیرہ کے بادشاہ نعمان بن منذر سے کہا تہا:
ہم اس ماں کے چادر بہادر بیٹوں کی اولاد ہیں جو کہ جنگ کے میدانوں میں اپنے مد مقابل کو موت کے گہاٹ اتار دیتے تہے- اور مہمانوں کا بہت احترام کرتے تہے ہم عابر بن صعصعہ کے قبیلہ سے بلند وتر ہیں-
مختصر یہ کہ جناب ام البنین، والد کی طرف سے بہی اور والدہ- ثمانہ بنت سہیل بن عامر- کی طرف سے بہی نجیب و اصیل تہیں- فاطمہ زہراء (ع) کی وفات کے بعد، حضرت علی (ع) کے حبالہ نکاح میں آئیں- ام البنین نے حضرت علی (ع) کے علاوہ کسی دوسرے سے شادی نہیں کی-
علم و فضل والی عورت تہی- اہل بیت کی عظمت کا عرفان رکہتی تہیں، انہیں دل سے چاہتی تہیں- حضرت علی (ع) کے گہر آئیں تو اس وقت امام حسن (ع) و امام حسین (ع) بیمار تہے- آپ نے ایک شفیق ماں کی مانند ان کی تیمار داری کی اور راتوں کو ان کے پاس بیدار رہکر گذار دیا-
آپ سے چار بیٹے عباس، جنہیں قمر بنی ہاشم کہا جاتا تہا، عبداللہ، جعفر اور عثمان ہیں- رسول (ص) کے فداکار صحابی عثمان بن مظعون کے ہمنام تہے- ان چاروں بیٹوں کی وجہ سے آپ کو ام البنین کہا جاتا تہا-
ان کی استقامت کے بارے میں اتنا ہی کافی ہے کہ جب انہیں یہ بتایا گیا کہ چاروں بیٹے کربلا میں شہید ہو گئے، تو انہوں نے کہا : پہلے مجہے حسین (ع) کے بارے میں خبر دو- ناقل نے انہیں ان کے بیٹوں کی شہادت کی خبر ترتیب وار سنائی، یہاں تک کہ نام عباس لیا تو خبر سنانے والے سے کہا: میرے دل کے ٹکڑے کردئے – میرے چار بیٹے تہے، میں نے سب کو حسین (ع) بچے جاتے – حسین (ع) سے ان کی یہ محبت، ان کے خلوص، ایمان اور راسخ عقیدہ کا ثبوت ہے-
اس دردناک حادثہ کے بعد مجلس عزا بر پا کی، جس میں بنی ہاشم کی تمام عورتوں، نے شرکت کی اور شہداء کربلا کا غم منایا گیا- ام سلمہ نے روتے ہوئے کہا : خدا ان – بنی امیہ- کی قبروں کو آگ سے بہر دے، انہوں نے کتنا بڑا ظلم کیا ہے؟
ام البنین نے اپنے شہید ہونے والے بیٹوں کا دلسوز مرثیہ کہا ہے- حضرت عباس کے بچہ عبیداللہ کو گود میں لے کر ہر روز بقیع جاتی تہیں اور وہاں گریہ و زاری کرتی تہیں- اہل مدینہ بہی ان کے پاس جمع ہو جاتے اور نالہ و شیون میں جصہ لیتے تہے، ایک دفعہ مروان بن حکم بہی وہاں موجود تہا- ام البنین نے کہا: " جس نے عباس کو دشمن کی فوج پر حملہ کرتے ہوئے دیکہا ہے اور حیدر کے بیٹے شیر دلوں کی طرح ان کے پیچہے تہے- میں نے سنا ہے کہ میرے بیٹے کے سر پر ضربت لگی اور ان کے بازو قلم کر دئے گئے- ہائے افسوس! میرا بیٹا اس ضربت کی وجہ سے گرا! عباس! اگر تمہارے ہاتہ میں تلوار ہوتی تو کسی میں تمہارے نزدیک آنے کی ہمت نہ ہوتی-"
نیز کہا: " اب مجہے ام البنین نہ کہو! کیونکہ اس سے میرے شیر سے بچے یاد آتے ہیں- مجہے ان بیٹوں کی وجہ سے ام البنین کہا جاتا تہا، لیکن آج میں انہیں کہو چکی ہوں-
میرے چار بیٹے شکاری شاہین کی مانند تہے جو تیغ ستم سے جاں بحق ہوئے- دشمن کے اسلحوں سے ان کا بدن پارہ پارہ ہوا اور وہ اپنے خون میں نہائے- کاش میں جانتی تہی! کیا لوگوں کے کہنے کے مطابق میرا عباس شہ رگ کٹنے سے شہید ہوا ہے؟
با اخلاص، فداکار اور فضیلتوں والی عورتوں کے درمیان نمونہ ہیں-

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

کیوں تشہد میں علی ولی اللہ پڑھنے کی اجازت نہیں؟
عفو اہلبيت (ع)
عہد امیرالمومنین میں امام حسن کی اسلامی خدمات
حضرت امام رضا (ع) کا کلام
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام(حصہ دوم)
حضرت امیر المؤمنین علیہ الصلوٰة والسلام کی والدہ ...
کربلا کے روضوں کے منتظمین کے لیے مشہد میں ہوٹل کی ...
ارشادات نبوی
قرآن کریم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ...
امام محمد تقی علیہ السلام کی سیاسی سیرت

 
user comment