اردو
Tuesday 16th of April 2024
0
نفر 0

خدیجہ(ع) کی دولت اور علی (ع) کی تلوار

خدیجہ(ع) کی دولت اور علی (ع) کی تلوار



معروف ہے کہ اسلام علی (ع) کی تلوار اور خدیجہ(ع) کی دولت سے پھیلا_ لیکن سوال یہ ہے کہ اس سے کیامراد ہے؟ کیا یہ کہ حضرت خدیجہ(ع) لوگوں کو مسلمان ہونے کیلئے رشوت دیتی تھیں؟ کیا تاریخ میں اس کی کوئی مثال ملتی ہے؟
آپ یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ رسول(ص) اللہ اسلام کیلئے لوگوں سے روابط استوار کرتے اور ان کی حوصلہ افزائی کیلئے مالی مدد بھی فرماتے تھے _اس کی بہترین دلیل جنگ حنین میں مال غنیمت کی تقسیم ہے_ (جس کا بعد میں تذکرہ ہوگا) اس کے علاوہ اسلامی قوانین کے اندر مؤلفة القلوب کے حصے سے کون بے خبرہے؟_
اس کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ طرز عمل کا مطلب یہ نہیں کہ (نعوذ باللہ ) یہ لوگ قبول اسلام کیلئے رشوت لیتے تھے_ بلکہ اسلام تو بس یہ چاہتا ہے کہ یہ لوگ اسلامی ما حول سے آشنا اور مربوط رہیں _نیز ہر قسم کے تعصب یا نفسیاتی، سیاسی اور معاشرتی رکاوٹوں سے بالاتر ہو کر اس کی طرف نگاہ کریں_
بنابریں ان کو دیا جانے والا مال مذکورہ موہوم رکاوٹوں کو اکثر موقعوں پر ہٹانے اور انہیں اسلامی ما حول سے آشنا اور مربوط رکھنے، نیز اسلام کے اہداف وخصوصیات سے آشنا کرنے میں مدد دیتا تھا تاکہ نتیجتاً وہ اسلام کی حفاظت اور اس کے عظیم اہداف کے سامنے قلبی اور فکری طور پر سر تسلیم خم کریں_
چنانچہ ان میں سے بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام نے ان کو مال ودولت اور ہر قسم کی ان مراعات سے محروم کردیا ہے ، جن کو وہ فطری طور پر چاہتے تھے _بنابریں طبیعی بات ہے کہ وہ پوشیدہ طور پراپنے مفادات کے لئے مضر، اس گھٹن کی فضا سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کریں گے _لیکن جب ان کی مالی اعانت کی جائے اور انہیں یہ سمجھایا جائے کہ اسلام مال ودولت کا دشمن نہیں، جیساکہ ارشاد ربانی ہے (قل من حرم زینة اللہ التی اخرج لعبادہ والطیبات من الرزق) یعنی اے رسول(ص) کہہ دیجئے، کس نے اللہ کی حلال کردہ زینتوں اور پاک روزیوں کو حرام قرار دیا ہے_ نتیجتاً وہ سمجھ جائیں گے کہ اسلام کا مقصد انسان کی انسانیت کو پروان چڑھانا، نیز مال، طاقت، حسن اور اقتدار وغیرہ کی بجائے انسانیت کو حقیقی معیار قرار دیناہے اور اسی پیمانے پر نظام زندگی کو استوار کرنا ہے تاکہ انسان دنیا و آخرت دونوں میں منزل سعادت تک پہنچ سکے_
حضرت خدیجہ کے اموال کے حوالے سے واضح ہے کہ یہ اموال لوگوں کو مسلمان بنانے کیلئے بطور رشوت نہیں دیئے جاتے تھے اور نہ ہی مؤلفة القلوب کیلئے تھے _حضرت خدیجہ(ع) کے مال سے تو بس ان مسلمانوں
کیلئے قوت لایموت کا بندوبست ہوتا تھا جو اپنے دین اور عقیدے کی راہ میں عظیم ترین مصائب ومشکلات جھیل رہے تھے_ اورجن کا مقابلہ کرنے کیلئے قریش ہر قسم کے غیر اخلاقی وغیر انسانی حربوں حتی کہ انہیں فقر وفاقے پر مجبور کرنے کے حربے سے کام لے رہے تھے _ یہ ہے وہ حقیقت جس کی بنا پر یہ مقولہ مشہور ہوگیا کہ اسلام حضرت خدیجہ(ع) کے مال اور حضرت علی(ع) کی تلوار سے کامیاب ہوا_
یہ واضح ہے کہ بنی ہاشم کے بائیکاٹ کے دوران حضرت خدیجہ کی دولت صرف بھوکوںکو زندہ رکھنے والے اناج اور برہنہ کو لباس فراہم کرنے میں خرچ ہوئی _دیگر امور میں ان اموال سے چندان، استفادہ نہیں ہوا کیونکہ وہ غالباً خرید وفروش سے معذور تھے_
آخر میں یہ بتا دینا ضروری ہے کہ مکہ میں اموال کی جس قدر بھی کثرت ہوتی لیکن پھر بھی اس کے وسائل محدود تھے کیونکہ مکہ کوئی غیرمعمولی یابہت بڑا شہر نہ تھا _ البتہ بستی یا گاؤں کے مقابلے میں بڑا تھا، اسی لئے قرآن نے اسے ام القری (بستیوں کی ماں یعنی مرکزی بستی) کا نام دیا ہے _بنابریں اس قسم کے چھوٹے شہروں کے مالی وسائل بھی محدود ہی ہوتے ہیں_
----------------------

1_ البدایة و النہایة ج 3ص 84 _
2_ شرح نہج البلاغہ معتزلی ج 13ص 256 _
3_ شرح نہج البلاغہ معتزلی ج 13ص 256و ج 14ص 65نیز الغدیر ج 7ص 357_358از کتاب الحجة ( ابن معد)، ابن کثیر نے اسے البدایة و النہایة ج 3ص 84میں نام کا ذکر کئے بغیر نقل کیا ہے نیز تیسیر المطالب ص 49 _

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

پیغمبر اکرم کے کلام کی فصاحت و بلاغت
فاطمہ زہرا(س) پر پڑنے والی مصیبتیں
امام سجاد (ع) کی عبادت
دسویں مجلس ـ مصائب سیدالشہداء امام حسین علیہ ...
جشن مولود کعبہ اور ہماری ذمہ داری
حضرت علی (ع) کی وصیت دوست کے انتخاب کے بارے میں
امام حسین کا وصیت نامہ
اکیس رمضان المبارک یوم شہادت امیرالمؤمنین علیہ ...
حضرت فاطمۃ الزہرا ؑ بطور نمونہ عمل
ولایت علی ع قرآن کریم میں

 
user comment