اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

کائنات کردگارکا عظیم وجود قدسی

کائنات کردگارکا عظیم وجود قدسی

کائنات کردگارکا عظیم وجود قدسی مولودکعبہ افتخارقبلہ امیرالمومنین قائد الغر المحجلین(روشن چہرے والوں کے سردار)کل ایماں جلوہ رحمان دین خدا کی شان ∙∙∙
جس کے وجود نے اسلام کی لاج رکھ لی !
اگر ولایت کا تاج اس کے سر اقدس پر نہ رکھا جاتا تو آج آیہ”الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی “ سے کتاب خدا کا مقدر نہ سنورتا اور تاریخ کے صفحات پر غدیر کا تابناک چہرہ نہ ابھر تا !
غدیرمو من و منافق کے درمیان امتیازہے غدیر بے مثال اہمیت کی حامل ہے غدیر کو فراموش کرنا گویا رسول اعظم (ص) کی تمام محنتوں کو فراموش کردینا ہے ۔
غدیر نہ صرف ایک تاریخی یافقط جغرافیائی گزر گاہ ہے بلکہ اعتقادی مسائل کا امتیازی باب ہی غدیرخم سے شروع ہوتا ہے ۔غدیر، تمام اطاعتوں کا سرچشمہ ہے ۔ تمام پیمبروں کی رسالت کا مفہوم غدیر ہے ۔غدیر، تمام فکری بلند یوں کا مرکز ہے ۔تمام اعلیٰ بلندیاں یہیں سے شروع ہوتی ہیں۔ لہٰذا غدیر کوسمجھنا اور اس کے بارے میں معلومات رکھنا بہت ہی ضروری ہے کیوں کہ غدیر اہم ترین عقائد میںسے ہے۔غدیر کی شناخت کے بغیر عبادات اور اطاعات کی کو ئی اہمیت نہیں بلکہ ان کی ارزش مٹی کے برابر بھی نہیں ہے ۔

 
غدیر یعنی کیا ؟:

ان هذا یوم عظیم الشان،فیه وقع الفرج ورفعت الدرج ووضحت الحجج۔
ویوم الایضاح والافصاح عن المقام الصراح
و یوم کمال الدین
ویوم العهد المعهود
ویوم الشاهد والمشهود
ویوم تبیان العقود عن النفاق و الجحود
ویوم البیان عن حقائق الایمان
ویوم دحر الشیطان
ویوم البرهان ”هذٰا یَو مُ الفَصلِ الَّذِی کُنتُم  بِه تُکذِّبُونَ“
هذا یوم ”المَلَاُ الاعلیٰ اِذ یَختَصِمُونَ “
هذا یوم النباءالعظیم الذی” ا نتُم  عَنه مُعرِضُونَ“
هذا یوم الارشاد ویوم المنحنة العباد ویوم الدلیل علی الرواد
هذا یوم ابدیٰ خفایا الصدور ومضمرات الامور
هذا یوم النصوص علیٰ اهل الخصوص
هذا یوم شیث
هذا یوم ادریس
هذا یوم هود
هذا یوم یوشع
هذا یوم شمعون
هذا یوم الامن المامون
هذا یوم اظهار المصون من المکنون
هذا یوم ابلاءالسرائر
حقیقت یہ کہ غدیر جو تمام واقعیت کا خزانہ ہے اگراسے اچھی طرح سے سمجھ لیا جائے تو فرشتوں میں شمار کیا جائے گا۔
غدیر کا یہ واقعہ تاریخوں اور تفسیروں کی کتابوں میں تواتر اسناد کے ساتھ پیش کیا گیا ہے ۔یہ واقعہ جو حجۃ الوداع کے ایک لاکھ بیس ہزار حاجیوں کے مجمع میں انجام پایا اس پر کسی طرح سے بھی پردہ نہین ڈالا جا سکتا ہے۔
۱۸ذی الحجہ کو میدان خم میں پیغمبر اکرم (ص) نے تمام حاجیوں کو جمع کیا ۔ دوپہر کا وقت ،چلچلاتی دھوپ ،تپتا میدان ،شدت کی گرمی ،حکم رسول اسلام (ص) ہوتا ہے کہ پالان شتر کا منبر بنایا جائے ۔منبر تیار ہو گیا ،مرسل اعظم (ص) منبر پر تشریف لے گئے اور ایک فصیح و بلیغ خطبہ دینے کے بعد فرمایا: ایھا الناس ”الستم تعلمون انی اولی بکل مومن من نفسہ“؟ اے لوگو !کیا تم نہیں جانتے کہ میں ہر مومن کے نفس پر اس سے زیادہ اختیار رکھتا ہوں ؟ سارے مجمع نے جواب دیا : خدا اور اس کے رسول ۔
سارے مجمع سے اقرار لےنے کے بعد مر سل اعظم (ص) نے حضرت علی علیہ السلام کو اپنے نزدیک بلایا پھر ان کا ہاتھ بلند کرکے فرمایا:

”من کنت مولاه فهذا علی مولاه اللّٰهم وال من والاه و عاد من عاداه النصر من نصره واخذل من خذله“
جس کا میں مولا ہوں اسکے یہ علی مولا ہیں ،اے اللہ تو اسے دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے ۔اور اس سے عداوت و دشمنی رکھ جو علی سے دشمنی رکھے اور اس کی نصرت فرما جو علی کی نصرت کرے۔اورتو اسے چھوڑ دے جو علی کو چھوڑدے ۔
”جس کا میں مولا اس کے علی(ع) مولا“اہل سنت کے ما خذ اور حوالوں میں
” عن زید بن ارقم قال : لما رجع رسول اللّٰه (ص) عن حجة الوداع و نزل غدیر خم امر بدو حسات فقممن ثم قال کا نی قد دعیت فا جبت انی قد ترکت فیکم الثقلین احدهما اکبر من الآخر کتاب اللّٰه و عترتی اهل بیتی ،فانظر وا کیف تخلفونی فیهما فائهما لن یتفرقا حتی یردا علی الحوض ۔

ثم قال: ان اللّٰه مولای و انا ولی کل مو من ثم اخذ بید عَلِیٍّ فقال : من کنت ولیه فهذا ولیه اللّٰهم وال من والاه و عاد من عاداه “ (۱)
زید بن ارقم ناقل ہیں کہ : رسول اکرم (ص) جب حجۃ الوداع سے واپس ہوئے اور غدیر خم کے مقام پر پہنچے تو منبر بنانے کا حکم دیا ،منبر تیار کیا گیااس کے بعد فرمایا:اللہ کی طرف سے میرا بلاوا آگیا ہے اور میں نے قبول بھی کر لیا ہے میں تمھارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں جن میں سے ہر ایک دوسرے سے بڑا اور بلند مرتبہ ہے ۔ایک اللہ کی کتاب (قرآن)دوسرے میری عترت اور میرے اہلبیت۔ پس سوچ لو کہ میرے بعد ان دونوں سے کس طرح پیش آئو گے بیشک یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے جب تک کہ میرے پاس حوض کوثر پر نہ پہنچ جائیں ©
پھر فرمایا:بیشک اللہ میرا ولی اور حاکم ہے اور میں ہر مومن کا ولی و حاکم ہوں اس کے بعد آپ (ص) نے حضرت علی (ع) کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : جس جس کا میں ولی ہوں اس کے یہ علی (ع) بھی ولی ہیں پر ور دگارا تو اسے دوست رکھ جو ان کو دوست رکھے اور تو اسے دشمن رکھ جو ان کو دشمن رکھے راوی کہتا ہے کہ میں نے زید سے دریافت کیا : کہ کیا تم نے خود رسول اسلام (ص) سے یہ سنا ہے؟ زید نے جواب دیا کہ جو جو منبر کے سامنے تھا اس نے اپنی دونوں آنکھوں سے دیکھا ہے اور اپنے کانوں سے سنا ہے

”عن سعد بن عبیده عن عبدالله بن بریده عن ابیه قال بعثنا رسول اللّٰه (ص) فی سریعة واستعمل علینا فلما رجعنا سا لن ۔کیف رایتم صحبة صاحبکم ؟ فاما شکوته انا و اما شکاه غیری ،فرفعت راسی وکنت رجلا مکبابا فاذا بوجه رسول اللّٰه قد احمرا فقال” من کنت ولیه فعلی ولیه “ (۲)
بریدہ کا بیان ہے کہ : رسول اکرم (ص) نے ہمیں حضرت علی (ع) کی سرداری میں ایک جنگ پر بھیجاجب ہم واپس آئے تو حضرت (ص) نے ہم سے سوال کیا کہ تم نے اپنے ساتھی (حضرت علی (ع))کو کیسا پایا؟“
میںنے اور دوسروں نے بھی حضرت علی (ع) کی شکایت کی شکایت کی ۔ جب میں نے سر اٹھایا توکیا دیکھا کہ آنحضرت (ص) کا چہرہ انور غصہ سے سرخ ہے ، پھرارشاد فرما یا: ”جس جس کا میں ولی و حاکم ہوں اس کے علی (ع)بھی ولی و حاکم ہیں“

” اخبرنی زکریا بن یحییٰ قال : حدثنا نصر بن علی قال : اخبرنا عبداللّٰه بن داود عن عبد الواحد بن ایمن عن ابیه : ان سعد ا قال : قال رسول الله (ص): ” من کنت مولا ه فعلی مولاه “ (۳)
سعد سے منقول ہے کہ رسول اکرم (ص) نے فرمایا: جس کا میں مولا ہو ں اس کے علی (ع)مولا ہیں
” اخبرنا قتیبة بن سعید :قال اخبرنا (محمد بن ابراهیم بن)ابی عدیّ،عن عوف (الاعرابی) عن میمون ابی عبداللّٰه قال:(قال)زید بن ارقم: قام رسول اللّٰه ”فحمد اللّٰہ واثنی علیه ثم قال :
”الستم تعلمون انی اولی بکل مومن من نفسه“؟
قالوا: بلی نشهد لانت اولی بکل مومن من نفسه۔
قال:”فانی من کنت مولاہ فهذاعلی مولاه“ (و)اخذ بید علی۔(۴)
زید بن ارقم کہتے ہیں کہ رسول اسلام (ص) کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمد و ثنا فرمائی پھر سوال فرمایا کہ کیا تم نہیں جانتے کہ میں ہر مومن کے نفس پر ان سے زیادہ حقدار و اولیٰ ہوں سب نے کہا بیشک ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ (ص) مومنین کے نفسوں پر حاکم اور اولیٰ باالتصرف ہیں ،تو آنحضرت (ص) نے علی (ع) کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر فرمایا :بلا شبہ جس کا میں مولا و حاکم ہوں اس کے یہ (علی ۔ع۔) مولا و حاکم ہیں
”عن زید بن یثیع قال: سمعت علی بن ابیطالب یقول علی منبر الکوفة:
انی منشد اللّٰه رجلاً  ولا انشد الا اصحاب محمد (من )سمع رسول اللّٰہ یقول یوم غدیر خم ”من کنت مولاه فعلی مولاه،اللّٰهم وال من والاه وعاد من عاداه“۔ فقام ستۃ من جانب المنبر وستة من الجانب الاخر فشهدوا انھم سمعوا رسول اللّٰه یقول ذالک۔ قال شریک: فقلت لابی اسحاق: هل سمعت البرا بن عازب یحدث بهذا عن رسول اللّٰه”قال :نعم ۔ذکر قول النبی ”علی ولی کل مومن بعدی ۔(۵)

زید بن یثیع نقل کرتے ہیں کہ میں نے امام علی (ع) کو مسجد کوفہ کے منبر پر یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اے اصحاب رسول (ص) تمھیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں بتائو تم میں سے کس کس نے غدیر خم کے میدان میں آنحضرت (ص) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس کا میں مولا ہوں اس کے علی (ع)بھی مولا ہیںخدا وند ا جو علی (ع)کو دوست رکھے اسے تو دوست رکھ اور جو علی (ع)کو دشمن رکھے اسے تو بھی دشمن رکھ یہ سن کر چھ آدمی منبر کے ایک جانب سے اور چھ آدمی دوسری جانب سے کھڑے ہوئے اور گواہی دی کہ ہم نے یہ قول آنحضرت (ص) سے سنا ہے اس پر شریک نے کہا کہ میں نے ابو اسحاق سے دریافت کیاکہ کیا تم نے آنحضرت (ص) کی حدیث براءبن عازب سے بھی سنی ہے تو ابو اسحا ق نے کہا :ہاں

 
روز غدیر کی فضیلت :

رسول خدا (ص) نے حضرت علی علیہ السلام سے وصیت کی آج کے دن کو عید قرار دو ۔پیغمبر (ص) اپنے وصی اور جانشین کو اس دن عید قرار دینے کی وصیت کیا کرتے تھے ۔ابن ابی نصر بزنطی نے امام علی رضاعلیہ السلام سے ورایت نقل کرتے ہیں :آپ علیہ السلام نے فرمایا :اے نصر کے بیٹے تم جہاں بھی رہو کوشش کرو کے غدیر کے دن حضرت امیر المو منین علی علیہ السلام کی قبر مطہر کے پاس پہنچو ،کیوں کہ خدا وند عالم آج کے دن ہرمو من اور مو منہ کے ساٹھ سال کے گناہ بخشتا ہے ،اور انھیں جہنم کی آگ سے نجات دیتا ہے ۔ آج کے دن ایک در ہم مو من بھائی کو دینا ،وہ دوسرے دنوں کے ہزار درہم سے افضل وبہتر ہے ۔آج کے دن اپنے مو من بھائی اور بہنوں کے ساتھ احسان کرو ۔خدا کی قسم اگر لوگ آج کے دن کی فضیلت جیسا کہ بیان ہوئی ہے بجا لائیں تواس سے ملائکہ دس مرتبہ مصافحہ کریں گے۔
آج کے دن ان امور کو انجام دینا بہت زیادہ ثواب ہے :۔نماز ظہر سے پہلے دورکعت نماز پڑھنا ۔آج کے دن روزہ رکھنا ،ساٹھ سال کے روزے کا کفارہ ہے،اور سوحج وعمرہ کے برابر ثواب رکھتا ہے ۔آج کے دن غسل کرنا ۔حضرت امیر المو منین علیہ السلام کی زیارت کاپڑھنا ۔آج کے باشرف دن میں اچھا کپڑا پہننا ۔خشبو لگانا ۔شیعیان علی علیہ السلام کو خوشحال کرنا ۔مومنین کی خطائوں کو در گزر کرنا۔مومنین کے ساتھ صلہ رحمی کرنا ۔اپنے اہل وعیال کے درمیان رزق کو توسعہ دینا۔ مو منین کو کھانا کھلانا۔روزہ داروں کو افطار دینا ۔مو منین سے مصافحہ کرنا ۔مو منین کی زیارت کو جانا ۔مو نین کو ہدیہ بھیجنا ۔مو منین کو عیدی دینا۔آج کے دن بہت بڑی نعمت ،جوولایت حضرت علی علیہ السلام ہے اس کا شکرادا کرنا ۔محمدوآل محمد علیہم السلام پر کثرت سے درود اور صلوات بھیجنا ۔خداوندعالم کی عبادت میں مصروف رہنا ۔اپنے مو منین بھائیوں کے درمیان صیغہ اخوت کاپڑھنا۔
آج کے دن حضرت موسی علیہ السلام کو فرعون کے جادوگروں پر غلبہ حاصل کیا تھا ۔
آج ہی کے دن خداوند عالم نے آگ کو حضرت ا براہیم علیہ السلام کے لئے ٹھنڈا کیا تھا ۔
آج ہی کے دن حضرت موسی علیہ اسلام نے جناب شمعون الصفاعلیہ السلام کو اپنا جانشین و خلیفہ معین کیا تھا ۔
آج ہی کے دن حضرت سلیمان علیہ اسلام نے اپنی امّت کے لئے جناب آصف بن بر خیا کو اپنا خلیفہ وجانشین ہونے کا اعلان کیا تھا ۔
آج ہی کے دن جناب رسول خدا (ص) نے اپنے اصحاب کوایک دوسرے کا بھائی قرار دیاتھا۔
ایک روایت کے مطابق آج ہی کے دن رسول خدا (ص) نے نجران نصاریٰ کے ساتھ مباہلہ کیا تھا۔
ویسے مشہورروایت کے مطابق اسی مہینہ کی ۲۴ تاریخ کو حضرت رسول مقبول (ص) اس سے قبل کہ مباہلہ کے لئے روانہ ہوں اپنی عباءکو اپنے دوش مبارک پر ڈال کر حضرت میرالمو منین علیہ السلام ، حضرت زہراءسلام اللہ علیہا اور امام حسن وامام حسین علیہما السلام کواپنی عبا کے نیچے جمع کیا،اور خداوند عالم کی بارگاہ میں فرمایا:میرے پالنے والے ہر پیغمبر کے اہل بیت ہوتے ہیں ،اورمیرے اہل بیت یہ ہیں ۔ان کو ہر گناہ سے دور رکھ ،جیسا کہ دور رکھنے کا حق ہے ۔
ا س کے بعد آنحضرت (ص) ان چار بزرگوار کو لے کر اپنے ساتھ مباہلہ کرنے کے لئے روانہ ہوئے ۔جب نجران کے نصاریٰ کی نگاہ ان چار بزرگواروں پر پڑی تو آنحضرت (ص) کی حقانیت اور عذاب خدا کے آثارجو ان کے چہرے سے نمایاں تھے یہ دیکھ کران کے اندر مباہلہ کرنے کی جرا ت نہ رہی ۔ لہٰذا انھوں نے اپنے ارادہ کوبدل دیا ۔آپ سے مصالحت اور جزیہ دینے کو قبول کرلیا ۔
آج ہی کے دن جناب امیر المو منین علیہ السلام نے حالت رکوع میں اپنی انگوٹھی سائل کو عنایت کی تھی ۔جس کی وجہ سے آپ علیہ السلام کی شا ن میں آیت نازل ہوئی تھی۔
لہٰذا آج کا دن، باشرف دن ہے ۔
----------------------------------
(۱)۔ مسند احمد:ج ۴،ص ۲۶۶ و ۳۶۸ و ۳۷۰۔فضائل احمد: ص ۵۴، ح ۸۲ اور ص ۷۷ ، ح ۱۱۶ و ص ۱۱۵، ح۱۷۰۔صحیح مسلم :ج ۴ ،ص ۱۸۷۳، ح ۲۴۰۸۔ المعرفۃ والتاریخ فوی: ج۱ ، ص ۵۳۶۔کتاب السنۃ: ص ۵۹۱و۵۹۳، ح ۱۳۶۴و ۱۳۶۵، ۱۳۶۹و ۱۳۷۲و ۱۳۷۵۔ انساب الاشراف : ص ۲۴ ، ج۴۸۔ سنن ترمذی : ج۵ ، ص ۶۶۳ ، ح ۳۷۱۳ و ۳۷۸۸۔ کشف الاستار: ج۳ ، ص ۱۸۹ و ۱۹۰، ح ۲۵۳۸ و ۲۵۳۹۔ مناقب کوفی: ص ۱۱۲ ، ح ۶۱۶، و ص ۱۱۶، ح ۶۱۸، و ص۱۳۵ ح ۶۳۳۔ معجم کبیر طبرانی: ج۵ ، ص ۱۶۶ ، ح ۴۹۶۹ و ۴۹۷۰ و ۴۹۷۱ و ص ۱۶۹ و ۱۷۰ ، ح ۴۹۸۰ و ۴۸۹۴ و ۴۹۸۶ و ص ۱۷۵ ، ح ۴۹۹۶ و ص ۱۸۲ ، ح ۵۰۲۷ و ۵۰۲۸ ۔ معجم اوسط طبرانی : ج ۲ ،ص ۵۷۶ ، ح ۱۹۸۷۔ مستدرک حاکم: ج ۳ ، ص ۱۰۹ و ۱۱۰
(۲)۔ مصنف عبد الرزاق: ج ۱۱ ، ص ۲۲۵ ، ح ۲۰۳۸۸ ۔ مصنف ابن ابی شیبۃ: ج ۶، ص ۳۷۱ ، ح ۳۲۰۸۲ ۔ مسند احمد: ج ۵ ، ص ۳۵۰ و ۳۵۸ و ۳۵۹ و ۳۶۱۔فضائل احمد: ص ۸۷ ، ح ۱۲۹ و ص ۲۲۲ ، ح ۳۰۱ ۔ کتاب السنۃ: ص ۵۹۰، ح ۱۳۵۸۔ مسند بزار : ح ۲۵۳۵ ۔مناقب کوفی: ج ۱،ص ۴۵۱ ، ح ۳۵۲ و ج۲ ،ص ۴۱۲، ح ۹۰۳و ص ۴۴۳ ، ح ۹۲۹ ۔سنن کبری نسائی : ج ۵، ص ۴۵،ح ۸۱۴۴۔ مسند رویانی: ص ۳۶، ح ۶۲۔ مشکل الآثار: ج۴ ،ص۱۱ ،ح ۳۳۱۶ ۔ صحیح ابن حبان: ج ۱۵، ص ۳۷۴،ح ۶۹۳۰۔ معجم اوسط طبرانی :ج ۵،ص ۴۲۵،ح ۵۷۵۲ و ج۷، ص ۴۹، ح ۶۰۸۱ ۔طبقات المحدثین: ج ۳ ، ص ۳۸۸ ۔مستدرک حاکم: ج ۲،ص ۱۲۹،ح ۱۳۰۔ سنن بیھقی: ج ۶ ، ص ۳۴۲ ۔اخبار اصبہان: ج ۱ ، ص ۱۶۱ ۔ مناقب ابن مغازلی: ص ۲۴ ، ح ۳۵
(۳)۔ کتاب السنۃ: ص ۵۸۷ ، ح ۱۳۴۱ و ص ۵۹۱، ح ۱۳۵۹
( ۴)۔ مسند احمد: ج ۴، ص ۳۷۲ ، ح ۶۵ ۔فضائل احمد: ص ۹۳، ح ۹۳۱ ۔ کتاب السنۃ: ص ۵۹۱ و ۱۳۶۲ ۔ سنن ترمذی : ج ۶، ص ۶۳۳، ح ۳۷۱۳۔کشف الاستار: ج ۳، ص ۱۸۹، ح ۲۵۳۷۔ مناقب کوفی: ج۲، ص ۸۹۳، ح ۸۸۳ و ص ۴۰۴، ح ۸۹۳و ص۴۲۳، ح ۹۱۵۔الکنی والاسمائ: ج۲، ص۶۱ ۔کامل ابن عدی: ج۶، ص ۴۱۳، ح ۱۸۹۵ ۔ معجم کبیر طبرانی: ج۵، ص۲۰۲ ، ح ۵۰۹۲ ۔ کنزالعمال: ج۱۳، ص۱۰۴ ، ح۳۶۳۴۲
(۵)۔ مصنف ابن ابی شیبہ: ج۶، ص۳۷۱، ح ۳۲۰۸۲۔ مسند احمد: ج۴، ص ۲۸۱، ح ۹۵۰۔ فضائل احمد: ص ۱۱۱، ح ۱۶۴۔فرائد السمطین: ج ۱، ص۶۵، ح ۴۱۔ سنن ابن ماجہ: ج ۱، ص ۴۳، ح ۱۱۶۔ کتاب السنۃ: ص ۵۹۲ و ۵۹۳ ، ح ۱۳۶۳ ، ۱۳۷۰و ۱۳۷۴ ۔ مناقب کوفی : ج ۲،ص ۳۵۸ و ۳۷۰، ح ۸۴۴و ۸۴۵ و ص۴۴۱، ح ۹۲۶و ۹۲۷۔ الکنی والالقاب : ج ۱، ص ۱۶۰۔ امالی خمیسیہ: ج ۱،ص ۱۴۵، ح ۵۰۔ مناقب خوارزمی : ص ۱۵۵ ، ح ۱۸۳۔ترجمۃ الامام علی من تاریخ دمشق : ج ۲، ص ۴۷، ح ۵۴۸ و ص ۵۱و۵۲ ، ح ۵۵۲ و

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عقل کا استعمال اور ادراکات کا سرچشمہ
عید مباہلہ
آیہٴ” ساٴل سائل۔۔۔“ کتب اھل سنت کی روشنی میں
انہدام جنت البقیع تاریخی عوامل اور اسباب
ماہ رمضان کے دنوں کی دعائیں
جمع بین الصلاتین
ہم اور قرآن
نہج البلاغہ کی شرح
شفاعت کا مفہوم
شب قدر کو کیوں مخفی رکھا گیا؟

 
user comment