اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

غدیر عدالت علوی کی ابتدا

غدیر عدالت علوی کی ابتدا

حجۃ الاسلام والمسلمین سید حسین حیدر زیدی

لقد ارسلنا رسلنا بالبینات و انزلنا معہم الکتاب و المیزان لیقوم الناس بالقسط و انزلنا الحدید فیہ باس شدید و منافع للناس و لیعلم اللہ من ینصرہ و رسلہ بالغیب ان اللہ قوی عزیز(سورہ حدید آیہ ۲۵)
بیشک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں اور ہم نے لوہے کو بھی نازل کیا ہے جس میں شدید جنگ کاسامان اور بہت سے دوسرے منافع بھی ہیں اور اس لئے کہ خدا یہ دیکھے کہ کون ہے جو بغیر دیکھے اس کی اور اس کے رسول کی مدد کرتا ہے اور یقینا اللہ بڑ ا صاحب قوت اور صاحب عزت ہے ۔
خدا وندعالم نے اس آیت میں انبیاء کی رسالت کا مقصد معاشرہ میں عدالت کو قایم کرنا قرار دیا ہے لہذا جتنے بھی انبیاء اس دنیا میں تشریف لائے سب نے عدالت کو قائم کرتے ہوئے لوگوں کو عدالت کی طرف راغب کیا ۔ ہمارے آخری نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اپنی پوری زندگی میں عدل و انصاف پر بہت زور دیا یہاں تک کہ آپ اپنی زندگی کے بعد بھی ایسے شخص کو اپنا جانشین مقرر فرما کر گئے جس نے کبھی بھی عدالت کو اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔پیغمبر ا کرم (صلی الله علیه و آله وسلم) نے غدیر خم کے میدان میں حضرت علی علیہ السلام کومسلمانوں کی حکومت و ولایت کے لئے منصوب کر کے درحقیقت عدل کی اہمیت کو بیان کیا ہے ۔ پیغمبر ا کرم (صلی الله علیه و آله وسلم) جان رہے تھے کہ علی کیا سوچتے ہیں اور آئندہ کیا کریں گے ۔ آپ ، پیغمبر ا کرم (ص) کے تربیت یافتہ ہیں ، پیغمبر ا کرم (صلی الله علیه و آله وسلم) کے شاگرد ہیں ، آپ(ص) کے مطیع و فرمانبردار اور آپ کے حکم پر عمل کرنے والے ہیں ، آپ نے حضرت علی علیہ السلام کو منصوب کر کے اسلامی معاشرہ میں عدل وانصاف کو اہمیت دی ہے ۔ امیرالمومنین علی علیہ السلام نے اپنی حکومت ظاہری کے چار سال اور نومہینوں میں سب سے زیادہ اہمیت اس بات کو دی کہ معاشرہ میں عدل کو قائم کریں ۔ آپ عدالت کو اسلام کی حیات اور درحقیقت اسلامی معاشرہ کی روح سمجھتے تھے اور یہ وہ چیز ہے جس کی قوموں اور ملتوں کو ضرورت ہے ۔

عبداللہ بن عباس کا بیان ہے کہ میں مقام ذی قار میں امیرالمومنین ۔ کی خدمت میں حاضر ہوا، جب آپ اپنی نعلین کی مرمت کر رہے تھے ۔ آپ نے فرمایا ابن عباس! ان جوتیوں کی کیا قیمت ہے ؟ میں نے عر ض کی کچھ نہیں ! فرمایا کہ خدا کی قسم یہ مجھے تمہاری حکومت سے زیادہ عزیز ہیں (یعنی میری نگاہ میں حکومت کی قیمت جوتیوں کے برابر بھی نہیں ہے کہ جوتیاں تو کم سے کم میرے قدموں میں رہتی ہیں اور تخت حکومت تو ظالموں اور بے ایمانوں کو بھی حاصل ہوجاتا ہے ۔)(خطبہ ۳۳)

دوسری جگہ کلمات قصا ر میں آپ فرماتے ہیں : آپ سے دریافت کیا گیا کہ انصاف اور سخاوت میں زیادہ بہتر کونسا کمال ہے ؟ تو فرمایا کہ انصاف ہر شے کو اس کی منزل پر رکھتا ہے اور سخاوت اسے اس کی منزل سے باہر نکال دیتی ہے ۔ انصاف سب کا انتظام کرتا ہے اور سخاوت صرف اس کے کام آتی ہے جس کے شامل حال ہوجاتی ہے ۔ لہذا انصاف بہرحال دونوں میں افضل اور اشرف ہے ۔(حکمت۴۳۷)

انسانی معاشرہ مختلف ادوار میں اس سے محروم رہا، اس زمانے میں بھی محروم تھا، اس سے پہلے والے زمانے میں بھی محروم تھا اور آج بھی اگراس دنیا کی طرف دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ سوپر پاورحکومتیں کیا کر رہی ہیں ، اس دنیا میں حکومت مادی کے طور وطریقہ کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ مشکل آج بھی وہی ہے ۔ آج بشریت کی سب سے بڑ ی مشکل فقدان عدالت، فقدان اسلام، فقدان حکومت علوی اور فقدان راہ وروش امیرالمومنین حضرت علی ۔ہے ۔

میں اپنی بات کو امیرالمومنین علیہ السلام کے اس خطبہ پر ختم کرتا ہوں ۔ آپ فرماتے ہیں :

کیا تم مجھے اس بات پر آمادہ کرنا چاہتے ہو کہ میں جن رعایا کا ذمہ دار بنایا گیا ہوں ان پر ظلم کر کے چند افراد کی کمک حاصل کر لوں ۔ خدا کی قسم جب تک یہ دنیا چلتی رہے گی اور ایک ستارہ دوسرے ستارہ کی طرف جھکتا رہے گا ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا ہے ۔ یہ مال اگر میراذاتی مال ہوتا جب بھی میں برابر سے تقسیم کرتا چہ جائیکہ یہ مال مال خدا ہے اور یاد رکھو کہ مال کا ناحق عطا کر دینا۔بھی اسراف اور فضول خرچی میں شمار ہوتا ہے اور یہ کام انسان کو دنیا میں بلند بھی کر دیتا ہے تو آخرت میں ذلیل ورسوا کر دیتا ہے ۔لوگوں میں محترم بھی بنادیتا ہے تو خدا کی نگاہ میں پست تر بنادیتا ہے اور جب بھی کوئی شخص مال کو ناحق یا نا اہل پر صرف کرتا ہے تو پروردگار اس کو شکریہ سے بھی محروم کر دیتا ہے اوراس کی محبت کارخ بھی دوسروں کی طرف مڑ جاتا ہے ۔ پھر اگر کسی دن پیر پھسل گئے اور ان کی امداد کا بھی محتاج ہو گیا تو وہ بدترین دوست اورذلیل ترین ساتھی ہی ثابت ہوتے ہیں ۔

یہ حضرت علی۔ کی عدالت کا ایک نمونہ ہے اورآپ کی نظر میں عدالت کی یہ اہمیت ہے ۔

ہمیں اپنے پروردگار سے دعا کرنی چاہئے کہ ہمیں حضرت علی علیہ السلام کی راہ پر گامزن رکھے اور عدل وانصاف کو قائم کرنے کا موقع عطا فرمائے ۔ آمین

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

امام زمانہ(عج) سے قرب پیدا کرنے کے اعمال
حضرت فا طمہ زھرا (س) بحیثیت آئیڈیل شخصیت
حضرت علی اور حضرت فاطمہ (س) کی شادی
محشر اور فاطمہ کی شفاعت
اقوال حضرت امام جواد علیہ السلام
کتاب’’جنت البقیع کی تخریب‘‘ اردو زبان میں شائع
حادثات زندگی میں ائمہ (ع) کا بنیادی موقف
پیغام شہادت امام حسین علیہ السلام
سنت رسول ۔ اہل سنت او راہل تشیع کی نظر میں
انبیاءکرام اور غم حسین علیہ السلام

 
user comment