اردو
Thursday 28th of March 2024
0
نفر 0

یزیدی آمریت – جدید علمانیت بمقابلہ حسینی حقِ حاکمیت (1)

یزیدی آمریت – جدید علمانیت بمقابلہ حسینی حقِ حاکمیت (1)

يزیدی آمریتیں اور جدید علمانیتیں (سیکولر قوتیں) سیاسی مشروعیت (Political Legitimacy) کو حقانیت (Rightfulness) سے الگ سمجھتی ہیں۔

بسم الله الرحمن الرحیم
سید الشہداء علیہ السلام سے منقولہ بعض عبارات میں آپ (ع) نے نہ صرف اپنے زمانے کے انسانوں بلکہ ہر زمانے اور ہر مقام و جغرافیئے سے تعلق رکھنے والے انسانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ:
"ہم اور اموی حکمرانوں کے درمیان رونما ہونے والا تنازعہ اقتدار کا جھگڑا نہیں ہے"۔
آپ (ع) نے تمام زمانوں کے انسانوں کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ:
"بات یہ نہیں ہے کہ کون حاکم ہو اور کون محکوم ہو؛ یہ بنیادی بات نہیں ہے بلکہ جھگڑا دو مکاتب اور دو قسم کی سیرتوں کے درمیان ہے خواہ ان دونوں مکاتب کا رنگ مذہبی ہی کیوں نہ ہو اور دونوں مکاتب کا مدعا مذہبی ہی کیوں نہ ہو۔ لیبل اور نشان کی کوئی اہمیت نہیں ہے"۔
یعنی یہ کہ حکومت کے سلسلے میں دو قسم کی روشیں اور دو قسم کے مکاتب موجود ہیں۔
کسی نے سیدالشہداء (ع) سے دریافت کیا:
یابن رسول اللہ (ص)! اس تحریک سے آپ کا ہدف و مقصد کیا ہے؟
سیدالشہداء (ع) نے فرمایا:
"اریـد ان آمـر بالمعروف وانهی عن المنکر و اسیر بسیرة جدّی محمّد و سیرة ابی علی‌بن ابی طالب، میرا عزم اور میرا ہدف و مقصد وہی ہے جو میرے نانا رسول اللہ (ص) کا تھا اور جو میرے والد امیرالمؤمنین (ع) کا تھا کہ نیکیوں اور بھلائیوں کا حکم دوں اور برائیوں سے منع کروں؛ میں بھی اسی مقصد سے سیاسی، سماجی اور تربیتی میدان میں اترا ہوں جس مقصد کے لئے میرے نانا اور والد اترے تھے"۔
چنانچہ بحث اشخاص و افراد کے بارے میں نہیں ہے بلکہ بحث خاندان، معاشرے، سیاست، اقتصاد اور نظام عدل اور قضاوت (Judiciary) کے لئے دو سیرتوں اور دو روشوں کے درمیان ہے اور ان دو روشوں اور سیرتوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرکے پیش کرنے کے لئے ہم ایک روایت امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں:
امام صادق علیہ السلام سے پوچھا جاتا تھا کہ امویوں سے اہل بیت (ع) کا جھگڑا کس بات پر ہے؟ اور علوی، حسنی اور حسینی اسلام اور اموی اسلام کے درمیان کیا فرق ہے؟
امام صادق علیہ السلام نے عمار بن احوص سے مخاطب ہوکر ان دو مکاتب کی بہترین انداز میں توصیف کرکے انہیں بہترین انداز میں الگ الگ کرکے پیش کیا اور فرمایا: ہمارے اور معاویہ کے مکاتب میں اختلاف "تربیت اور انتظام" کی بنیاد پر ہے؛
فرماتے ہیں: " فلا تخرقوا بهم، أما علمت أن امارة بني امية كانت بالسيف والعسف والجور، وأن إمامتنا بالرفق والتألف والوقار والتقية وحسن الخلطة والورع والاجتهاد فرغبوا الناس في دينكم وفي ما أنتم فيه" (1)
لوگوں پر زیادہ دباؤ نہ ڈالو اور انہیں اکتاہٹ سے دوچار مت کرو بلکہ ان کے استعداد اور ان کے ظرف و قابلیت کا لحاظ رکھو، کیا تم نہیں جانتے کہ بنو امیہ کی حکمرانی اور ان کا طرز عمل تلوار، دباؤ، ناانصافی اور حق کشی پر مبنی تھا اور طاقت اور وہ تشدد و حق کشی کے ذریعے معاشرے پر مسلط ہونا اور مسلط رہنا چاہتے تھے اور ان کا اس کے سوا کوئی مقصد نہیں تھا۔ انھوں نے اپنے زمانے میں "طاقت اور تشدد" کو حکومت کے حصول کا وسیلہ قرار دیا تھا اور ان کے ہاں طاقت اور اقتدار کو عدل اور تربیت کے حصول کا ذریعہ نہیں سمجھا جاتا تھا۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ہمارا طرز عمل اور ہماری تربیتی روش و سیرت مہربانی، محبت، رواداری، تحمل اور الفت پر مبنی ہے، ہماری انتظامی اور تربیتی روش محبت، عشق، برادری و اخوت، نرمش اور مہربانی و متانت اور وقار و "تقیّہ" پر مبنی ہے؛ [ہاں] حتی اگر آپ حاکم بھی ہیں پھر بھی تقیّہ کرو، البتہ تقیّہ سے مراد منافقت و دھوکہ بازی، فریب کاری، چہرے اور بھیس تبدیل کرنا اور دین و حق و عدل کو اپنے مفادات پر قربان کرنا نہیں ہے؛ یہ تقیّہ نہیں ہے بلکہ تقیّہ وہ ہے جو اہل بیت (ع) نے متعارف کرایا ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ:
"ماحول کو صحیح انداز سے پہچان لو اور معاشرے کی قابلیتوں اور ظرفیتوں (Capabilities & Capacities) کو پرکھو اور اسی بنیاد پر عمل کرو؛ یعنی ہر شخص سے ہر مقام اور ہر زمانے میں جس طرح چاہو، سلوک نہیں کیا جاسکتا۔ یعنی رتبہ بندی اور طبقہ بندی (Classification) اور حساب و کتاب کے ساتھ اور انتظامِ بحران (Crisis Management) کے ساتھ؛ یعنی جب تم بات کرنا چاہتے ہو خواہ وہ بات حق ہی کیوں نہ ہو یہ مت کہو کہ "مجھے لوگوں سے کیا لینا دینا" بلکہ یہ بات مد نظر رکھو کہ بات "کس سے"، "کیونکر/ کیسے"، "کہاں"، (اور کیوں) کررہے ہو؟۔ اصول یہ ہے کہ بات صحیح ہونی چاہئے لیکن یہی کافی نہیں ہے۔ حق بات کرلینی چاہئے لیکن مذکورہ چار سوالات کا بھی جواب دینا چاہئے۔ کس سے؟ کیسے؟ کہاں؟ اور کیوں؟۔
بعض مواقع پر اگر آپ حق کی ایک بڑی ظرفیت کا مطالبہ کریں تو جن سے مطالبہ کررہے ہیں وہ پورا حق آپ کو دینے سے انکار کردیں گے؛ یعنی آپ کم از کم کو بھی نافذ نہیں کرسکیں گے۔ یہاں عقلانیت (Rationality) کی شرائط کو مد نظر رکھیں۔ تقیّہ سے مراد جدوجہد میں عقلانیت (Rationality in Struggle) اور جدوجہد کی طبقہ بندی یا زُُمرہ بندی (Rationality in Classification) ہے۔
امام صادق علیہ السلام اس روایت میں فرماتے ہیں کہ انتظام و تربیت اور حکمرانی ہماری رائے میں ـ حتی اگر آپ برسراقتدار بھی ہوں ـ ایک قسم کے تقیئے پر بھی مبنی ہے۔ یعنی یہ کہ حالات کا لحاظ رکھیں اور جس فرد یا معاشرے کو مورد خطاب قرار دیتے ہیں اس کی حالت کو بھی مد نظر رکھیں البتہ اس کا مطلب ساز باز، پسپائی اور حق و حقیقت پر مسامحت اور سمجھوتہ کرنا حقائق کو ظاہری صورت دے کر (Snow Job کرکے) راضی ہونا نہیں ہے۔
حدیث امام صادق (ع) میں دوسرا اہم اصول "حُسنُ الخلطۃ" ہے؛ یعنی ہماری حکومتی اور تربیتی روش لوگوں کے ساتھ حسن المخالطہ اور بہتر انداز سے میل جول رکھنا ہے۔ خلطہ سے مراد لوگوں کے ساتھ میل جول رکھنا اور ان کے ساتھ مخلوط رہنا، منکسر اور متواضع ہونا؛
امام (ع) فرمانا چاہتے ہیں کہ "حاکم اور عوام کے درمیان کوئی سرحد حائل نہیں ہے"۔ حاکم کو عوام سے ظاہری طور پر ممتاز نہیں ہونا چاہئے اور اسی عوام کے بیچ کسی خاص امتیازی نشان سے پہچانا نہیں جانا چاہئے۔ یعنی اگر آپ حاکم ہیں تو لوگوں کے بیچ رہیں لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ آپ لوگوں کے بیچ رہیں ان کے ساتھ حسن سلوک بھی روا رکھیں، نہ کہ آپ لوگوں کے بیچ رہیں اور ان کے ساتھ ہتک آمیز سلوک روا رکھیں! یہ بھی نہیں ہونا چاہئے۔
روایت میں اہل بیت (ع) کی روش میں "الورع" یعنی پاکدامنی اور گناہ سے بچ کر رہنے، کا بھی ذکر ہے یعنی یہ کہ آپ نہ صرف عوامی طاقت اور دولت کا غلط استعمال نہ کریں بلکہ اپنی ذاتی دولت سے بھی غلط فائدہ نہ اٹھائیں۔ اور اس کے بعد "الاجتہاد" یعنی کوشش کا ذکر ہے جس سے مراد یہ ہے کہ برسر اقتدار آکر پوری طاقت سے اسلامی اقدار اور حق و حقیقت کے احیاء اور مسلمانوں کے حقوق اور اسلامی احکام و فرائض کے قیام کے لئے قیام و اقدام کریں۔
امام (ع) نے فرمایا: ہماری سنت اور سیرت و روش یہ ہے۔
معلوم ہوا کہ حقِ حکمرانی اور سیاست کے بارے میں دو مختلف قسم کے نظریات ہیں۔ ایک روش سیف و جور یعنی تلوار اور ستم کی بنیاد پر ہے یعنی طاقت و تشدد و تذلیل و تحقیر، کچلنا، حقوق کی تضییع کرنا اور نا انصافی پیشہ کرنا؛ اور ایک قسم کی روش وہ ہے جو امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ رفق و تألف و وقار، مہربانی، نرمی، تقیّہ، عوام کے ساتھ حسن معاشرت، ورع اور عوام کی خدمت کے لئے پوری طاقت سے کوشش و اجتہاد کرنا۔
ہاں البتہ! اگر ضرورت پڑے تو اقدار کے تحفظ کے لئے تلوار اور طاقت کا استعمال بھی ضروری ہوسکتا ہے لیکن بنیاد تلوار اور طاقت نہیں ہے۔
تلوار اور طاقت سب سے پہلی راہ حل نہیں ہے بلکہ آخری راہ حل ہے۔
اس کے بعد امام صادق علیہ السلام نے عمار بن احوص سے مخاطب ہوکر فرمایا: "فرغبوا الناس في دينكم وفي ما أنتم فيه" اس طرح لوگ آپ کے دین کی طرف راغب ہوجائیں گے اور ان دینی رجحانات کی طرف جو آپ نے اپنائے ہیں یعنی یہ کہ آپ لوگوں کو اس طرح اپنے مکتب کی طرف رغبت دلائیں۔ ہمارے کام کا اصول ایمانی اصول ہے، عوامی گروہوں اور طبقوں کو مختلف قسم کے رجحانات سے اپنے دین کی طرف بلائیں اور جذب کریں۔
امام حسین علیہ السلام سفر کربلا میں مختلف مواقع پر اپنی تحریک اور شہادت کا فلسفہ بیان کرنے کے لئے مختلف قسم کی تعبیرات اور عبارات استعمال کرتے رہے ہیں۔ آپ (ع) نے مختلف مواقع پر حق اور حقوق کے مسئلے کی طرف اشارہ فرمایا؛ "خدا کا حق اور لوگوں کا حق (حق الله اور حق الناس)" فرمایا: حکومت اور جدوجہد کے لئے ہمارا محرک (Motive) "حق" ہے۔ کوئی اور چیز ہمارا مقصد و ہدف نہیں ہے۔
کسی نے امام حسین (ع) سے دریافت کیا: صورت حال آپ کے حق میں نہیں ہے اور ابھی سے معلوم ہے کہ اس تنازعے میں آخر کار آپ سب مارے جائیں گے یا قیدی بنائے جائیں گے؛ اس کے باوجود آپ نے قیام کیوں کیا؟ فرمایا:
"الا ترون ان الحق لا یُعمَلُ به" کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ "حق" پر عمل نہیں ہورہا " و ان الباطل یا یُتناهی عنه" (2) کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ باطل کی بات، باطل کے اخلاقیات، باطل کے معاشی و اقتصادی نظام اور باطل کی حکمرانی کا مسئلہ درپیش ہے اور اس باطل کی کسی جانب سے بھی مخالفت نہیں ہورہی؟ تم مجھ سے کیوں پوچھتے ہو کہ میں نے اس تحریک کا آغاز کیوں کیا؟ یہ تو تم سے پوچھا جانا چاہئے کہ تم کیوں نہیں اٹھتے؟ کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ باطل اعلانیہ انداز سے میدان میں آیا ہے؟ کیوں اس پر اعتراض و احتجاج نہیں کرتے ہو؟ جبکہ تم دیکھ رہے ہو کہ حق مظلوم ہے اور اس پر عمل نہیں ہورہا؛ یہی بات اٹھ کر اعتراض و احتجاج کرنے کے لئے کافی ہے۔
ایک دوسری روایت میں منقول ہے کہ یزید نے مدینہ کے والی "ولید بن عتبہ" کو خط لکھ کر حکم دیا کہ جا کر امام حسین (ع) سے بیعت لے۔ ولید نے کہا: آپ سرتسلیم خم کریں ورنہ ہمیں حکم ہوا ہے کہ آپ سے سختی سے نمٹ لیں۔
روایت میں ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے اپنے چالیس انصار و اعوان و افراد خاندان کو مسلح ہوکر تیار رہنے کی ہدایت فرمائی اور فرمایا: میں حاکم کے پاس جارہا ہوں تم مدینہ کی سڑکوں میں منتشر ہوجاؤ اور تیار رہو اور اگر میں صحیح سلامت واپس لوٹ کر آیا تو درست ورنہ حاکم کے حکومت خانے میں داخل ہوجاؤ اور دارالحکومہ میں موجود لوگوں سے لڑ پڑو۔ امام (ع) کے اس اقدام کا فلسفہ یہ تھا کہ یزید اپنے والی کے ذریعے کربلا کی تحریک کو شروع ہونے سے قبل ہی نیست و نابود کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔
ولید نے بیعت کا تقاضا کیا تو امام علیہ السلام نے فرمایا: "انا اهل بيت النبوة و معدن الرسالة و مختلف الملائكة و مهبط الرحمة بنا فتح الله و بنا ختم" (3) = ہم اہل بیت نبی (ع) ہیں اور ایسے خاندان میں پروان چڑھے اور پلے بڑھے ہیں جو خاندان نبوت ہے اور جہاں وحی نازل ہوتی رہی ہے اور جہاں ملائکہ کا آنا جانا رہتا ہے، پوری انسانیت پر نازل ہونے والی وحی ہمارے خاندان میں نازل ہوتی رہی ہے اور اللہ نے ہم سے آغاز کیا اور ہم پر ختم کرے گا۔ ہمارے پاس ہے آغاز و اختتام اور فراخی اور تمام امور کا انجام و عاقبت؛ تم کس طرح مجھ سے بیعت مانگتے ہو؟
اس گفتگو سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ مسئلہ سیاسی اقتدار کا نہیں بلکہ اس سے کہیں آگے بڑھ کر ہے۔ اس مسئلے کا تعلق نبوت و رسالت اور ہبوط ملائکہ اور نزول رحمت اور نزول فتح الہی جیسے مسائل سے ہے۔ یہاں در حقیقت امام (ع) اپنی تحریک کے لئے فلسفی ـ کائناتی اور الہیاتی بنیادیں بیان کررہے ہیں۔
فرماتے ہیں: بیعت کے بارے میں ہماری سوچ کا محور اقتدار اور طاقت نہیں ہے بلکہ اس کا مدار و محور حکمت ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سامنے کون ہے؟ مجھ سے بیعت کس کے لئے مانگ رہے ہو؟
فرماتے ہیں: "و يزيد رجل شارب الخمر و قاتل النفس المحَّرمة معلن بالفسق" (4) [اگر بیعت یزید کے لئے مانگ رہے ہو تو] یزید تو شرابخوار ہے اور ان لوگوں کا قاتل ہے جن کا خون اللہ نے حرام کررکھا ہے اور وہ اعلانیہ گناہ کرتا ہے۔
یعنی صرف ذاتی طور پر گنہگار اور فاسق نہیں ہے بلکہ گناہ کرتا ہے تو لوگوں کی موجودگی میں کرتا ہے؛ یعنی یہ کہ وہ معاشرے میں برائیوں کا رواج عام کرنا چاہتا ہے۔ یزیدی منطق یہ ہے کہ وہ معاشرے میں اعلانیہ نیکی اور برائی کے معیار تبدیل کرکے معاشرے پر ٹھونسنا چاہتا تھا۔ اقدار اور ناہنجاریوں کی جگہ تبدیل کرنا چاہتا تھا اور اسلامی اقدار کی توہین کررہا تھا۔ انسانی حقوق کے حوالے سے بھی وہ کسی انسان کے لئے قدر و قیمت کا قائل نہیں تھا۔ جبکہ "ایک انسان کی جان اللہ کا حریم ہے۔
ابوعبداللہ علیہ السلام اپنی بات جاری رکھتے ہوئے فرماتے ہیں: کیا تم مجھ سے اس کے لئے بیعت مانگتے ہو؟ نہ صرف میں بلکہ میری طرح کا کوئی شخص بھی اس جیسے کی بیعت نہیں کرے گا۔ حتی اگر میں حسین بھی نہ ہوتا اور ایسے خاندان کا چشم و چراغ بھی نہ ہوتا پھر بھی اس جیسے کی بیعت نہ کرتا؛ اور مجھ جیسے کو اس جیسے کی بیعت نہیں کرنی چاہئے۔ "مثلی لایبایع مثله"۔ (5)
یعنی یہ جو بحث ہوتی رہی ہے کہ "حسین اور یزید کا جھگڑا ذاتی جھگڑا تھا" یہ بحث اب ختم ہوئی۔ یعنی یہ کہ یہ مسئلہ کربلا اور عاشورا تک محدود نہیں ہے۔ یہ جو امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
"کل یوم عاشورا و کل ارض کربلا = ہر روز عاشورا ہے اور ہر زمیں کربلا ہے" یعنی ہر جگہ اور ہمیشہ "مثلی لایبایع مثله" (مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کرے گا) یعنی وہ لوگ جو اخلاقی طور پر فاسد اور برائی میں گھرے ہوئے ہیں اور برائی کو رائج کرکے اجتماعیت اور سماجیت دینا چاہتے ہیں اور اللہ کے حقوق اور حدود کے پابند نہیں ہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے (ناقابل قبول ہیں اور) ایسے لوگوں ایسی جماعتوں اور ایسی سوچ رکھنے والوں کی حکومت غیر قانونی اور نامشروع (Illegitimate) ہے اور انہیں حاکمیت کا حق حاصل نہیں ہے۔
امام علیہ السلام نے ایک مقام پر فرمایا: "اللهم‌ انک‌ تعلم‌ انه‌ لم‌ یکن‌ ما کان‌ منّا تنافساً فی‌ سلطان‌ و لا التماساً من‌ فضول‌الحطام‌ و لکن‌ لنری‌ المعالم‌ من‌ دینک‌ و نظهر الاصلاح‌ فی‌ بلادک‌ و یأمن‌ المظلومون‌ من‌عبادک‌ و یعمل‌ بفوائهنک‌ و سننک‌ و احکامک‌" (6)
خداوندا! تو جانتا ہے کہ جو کچھ ہم سے سرزد ہوا اور سرزد ہوگا اقتدار کے جھگڑے کی بنیاد پر نہ تھا اور نہ ہوگا۔ ہماری حرکت (یا تحریک) کی بنیاد حکومت نہیں تھی اور نہ ہوگی۔ خداوندا! تو جانتا ہے کہ ہم نے جو احتجاج کیا اور جو صدا اٹھائی اور جس جدوجہد اور جنگ کا ہم نے آغاز کیا جبکہ ہم اس کے انجام سے بھی واقف ہیں، اور جانتے ہیں کہ تو ہمیں مقتول اور ہمارے خاندان کو اسیر دیکھنا چاہتا ہے؛ چنانچہ جب ہم نے اس حرکت کا آغاز کیا تو ہم دنیا میں سے اضافی حصے کے خواہاں نہیں تھے؛ ہم اقتدار، دولت و ثروت اور شہرت کے خواہاں تھے اور نہ ہونگے۔ (7) ہم نے چاہا کہ "حق اور باطل کے پرچم پہچان لئے جائیں" تا کہ کل کلاں کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہم نہیں جانتے تھے کہ حق کیا اور باطل کیا ہے؟ اور کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ "ہم سمجھ رہے تھے کہ حق وہی ہے جو معاویہ اور یزید کہہ رہے تھے"۔
امام حسین علیہ السلام فرمارہے ہیں کہ: "میں قتل ہورہا ہوں تا کہ تم سمجھ سکو کہ اسلام وہ نہیں ہے جو یہ کہتے ہیں"۔ آپ (ع) در حقیقت فرمارہے تھی کہ:
ہم اخلاقی، انتظامی اور حکومتی برائیوں اور بے راہرویوں کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں اور اعلانیہ جدوجہد کررہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ تمام سرزمینوں میں تمام مظلومین کو ان کا حق ملے اور کمزور طبقات، طاقتوں کے پاؤں تلے نہ روندے جائیں۔ سب کو اپنے حقوق کو یقینی طور پر مل جائیں [اور انسانوں کو سماجی اور قانونی تحفظ حاصل ہو]۔
ایک موقع پر آپ (ع) سے منقول ہے کہ آپ (ع) نے اہل کوفہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: "فلَعمری ما الامام الا العامل بالكتاب، والاخذ بالقسط، والدائن بالحق، والحابس نفسه على ذات الله"۔ (8)
[میری جان کی قسم! امام برحق وہ ہے جو کتاب اللہ پر عمل کرے، قسط و عدل کی راہ پر گامزن ہو، حق کی پیروی کرے اور اپنی ہستی کو ذات الہی اور اللہ کے احکام کی تعمیل کرنے اور کرانے کے لئے وقف کردے]۔
[یعنی] میری جان کی قسم! کہ میں کتاب اللہ پر عمل کرنے والا ہوں؛ جانتے ہو کن لوگوں کو امامت اور حکومت کا حق حاصل ہے؟ صرف ان لوگوں کو بنی نوع انسان پر حکومت کرنے کا حق حاصل ہے جو خدا کے قوانین کے مطابق حکومت کریں، عدل الہی کو ملحوظ رکھیں، اور سماجی قسط و عدل کو نافذ کریں، کوشش کریں کہ معاشرے کے تمام طبقوں کو ان کے حقوق ملیں، اپنے فرائض پر عمل کریں اور حق کے بغیر کسی اور چیز کی دعوت نہ دیں۔ معیار صرف اور صرف حق ہو۔ صرف ان لوگوں کو حاکمیت کا حق حاصل ہے جو اپنے آپ کو خدا کے لئے وقف کریں اور خدا کے سوا کسی اور شخص یا چیز کے لئے نہ بولیں، اور کوئی کام سرانجام نہ دیں؛ ان لوگوں کو حاکمیت کا حق حاصل ہے ان کے سوا کسی کو بھی بنی نوع انسان پر حکمرانی کا حق حاصل نہیں ہے۔ کتاب خدا پر عمل اور سماجی عدل کا نفاذ ہو اور تعلیمی و ثقافتی اور تبلیغی و ابلاغی امور کی دعوت بھی حق کی جانب دعوت ہو؛ حکام ایسے افراد ہوں جو اپنے آپ کو راہ خدا کے لئے وقف کریں اور اپنی ذات کے لئے کوئی بھی کام نہ کریں؛ حسینی حکومت یہی ہے۔
کسی نے امام حسین (ع) سے کہا: یہ لوگ (اموی) آپ کو نیست و نابود کردیں گے!
امام علیہ السلام نے فرمایا: ، "ليس شأني شأن من يخاف الموت ما اهون الموت علی سبیل نیل العزّ و احیاء الحقّ" (9) میری شان اس شخص کی مانند نہیں ہے جو موت سے خوفزدہ ہوتا ہے۔ موت ہماری نظر میں اس موت جیسی نہیں ہے جو تمہاری نظر میں ہے۔ انسانی عزت و شرف اور حق و حقیقت کے احیاء کی راہ میں موت کتنی شیریں ہے۔ یہ ہے انتظام، حکمرانی، تربیت اور حکومت کے بارے میں اہل بیت (ع) کا نظریہ۔
سیاسیات میں کبھی کبھار پبش آتا ہے کہ جب آپ سیاسی قانونیت (Political Legitimacy) کی بات کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ "دینی اور اخلاقی قانونی جواز کی بات نہ کریں! یعنی یہ کہ یہاں عمرانیاتی اور سیاسی مشروعیت (قانونی جواز) (Sociological & Political Legitimacy) کی بات ہورہی ہے"۔ یعنی یہ کہ یہاں صرف قوتِ حاکمیت (Might of Governance) کے بارے میں بات ہونی چاہئے حق حاکمیت (Right of Governance) کے بارے میں بات نہیں ہونی چاہئے۔ یہاں دو نگاہیں اور دو نظریات ہیں۔
یہ صرف امام حسین علیہ السلام کے زمانے تک محدود نہیں تھا جب اموی مشینری کا نظریہ یہ تھا کہ حق حاکمیت اور الہی مشروعیت کی بات نہیں ہونی چاہئے اور حکمرانی کے لئے اخلاقی اور فلسفی یعنی دینی دلیل نہیں لائی جانی چاہئے۔ [آج بھی ولایت اہل بیت (ع) کے مخالفین کا یہی نظریہ ہے]۔
اہل بیت (ع) سے کہا گیا: یہ درست نہیں ہے کہ نبوت اور خلافت دونوں آپ کے خاندان تک ہی محدود ہو؛ نبوت آپ کے پاس تھی خلافت اور امارت بھی ہمارے لئے ہے۔ ایک حصہ آپ کا اور ایک حصہ ہمارا۔ بعض لوگوں نے اس مسئلے کو اس نگاہ سے دیکھا۔ [وہ اس مسئلے کو الہی سطح سے گرا کر ‌زمینی سطح پر لانا چاہتے تھے]۔
جبکہ اہل بیت (ع) کا کہنا تھا کہ "تم حکومت اور خلافت کا مسئلہ نبوت کے مسئلے سے الگ نہیں کرسکتی"۔ تم سیاسی مشروعیت (قانونیت) کو دینی مشروعیت یعنی حقانیت سے جدا نہیں کرسکتے اور تمہیں ایسا کرنا بھی نہیں چاہئے۔ کیونکہ یہ ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہیں۔
ابتداء میں ہمیں مشروعیت اور قانونیت کی تکوینی اور کیہانی بنیادوں (Cosmic Basis) کو اخلاقی، فلسفی اور دینی حوالے سے حل کرنا چاہئے اور اس کے بعد ہی اعتباری (*) مسائل [(*)، اور قراردادی مسائل، کنونشنز، پروٹوکولز، شہریوں کے حق اطاعت، کی باری آئے گی۔ یہ سب اعتباری (*) (اور غیر ذاتی) حقوق ہیں جنہیں ایک حقیقی اور ذاتی حق کے اوپر استوار ہونا چاہئے۔
اسی وقت بھی اس مسئلے کے اوپر تنازعہ جاری ہے۔ دنیا کی سب سے گاڑھی اور سنگین ترین آمریتوں سے لے کر نازک ترین اور رقیق ترین جمہوریتوں تک کی طرف سے اس سوال کا منفی جواب دیا جارہا ہے اور اس اصول کو قابل قبول نہیں سمجھا جاتا۔ یا اس سوال کا منفی جواب دیتے ہیں؛ یا اس کا جواب دیتے ہی نہیں یا پھر اسے گول کردیتے ہیں؛ "سکوت کی سازش"۔
سوال یہ ہے کہ کیا سیاسی مشروعیت کو بنیادی، فلسفی اور اخلاقی مشروعیت سے علیحدہ کیا جاسکتا ہے؟
یعنی کیا حق حاکمیت کو مسئلہ حقانیت کے اصول سے الگ کیا جاسکتا ہے؟
ہم کہتے ہیں کہ الگ نہیں کیا جاسکتا۔
تمام یزیدی آمریتوں کا کہنا تھا کہ ایسا ہوسکتا ہے اور تمام جدید سیکولر مکاتب اور علمانی حکومتیں بھی کہتی ہیں کہ ایسا ہوسکتا ہے۔
پوری تاریخ کے دوران اقتدار کے سلسلے میں منفعت طلبانہ سوچ اور مصلحت پسندانہ (Pragmatic) سوچ دینی سوچ پر غالب چلی آرہی ہے اور اس وقت بھی یہی حال ہے۔ ان کی اکثریت ہے۔ دنیا میں بھی ان کی اکثریت ہے اور آکادمیک و جامعاتی مسائل میں بھی یہی سوچ غالب ہے اور اس سوچ کے حامیوں کی اکثریت ہے۔ قدیم زمانے میں بھی یہ مسئلہ تھا اور جدید زمانے میں بھی ہے۔
میں صرف اس لئے کہ کسی کو مورد الزام نہ ٹہراؤں بعض تعبیرات آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں جو بعینہ مغربی سیاسیات کے متون و مآخذ میں موجود ہیں حتی کہ ہمارے اپنے ملک [اور دیگر اسلامی ممالک] میں بھی پڑھائے جاتے ہیں۔ جب وہ حکومت (گورنمنٹ) کی بات کرتے ہیں تو گورنمنٹ کا مساوی لفظ یا ہم معنی (Equal) کلمہ جو وہ لاتے وہ ہے "دوسروں کو کنٹرول کرنا" یعنی وہ ادارہ جو دوسروں کو کنٹرول کرتا اور قابو میں رکھتا ہے۔
حکومت اور حاکمیت ہے کیا؟ سیاسیات (P.Sciences) میں حکومت کی تعریف یہ ہے کہ حکمران اقلیت کیونکر محکوم اکثریت کو کنٹرول کرے گی؟ پوری دنیا میں یہی صورت حال ہے۔ کیونکہ پوری دنیا میں حکام کی تعداد بہت کم ہے مثلاً کئی ہزار ایسے افراد ہیں جو ممالک پر حکومت کررہے ہیں۔ دنیا میں مرسوم سیاسیات کی کتابوں میں کہا گیا ہے کہ "جدید علم سیاست سیاسی اقلیت کے ذریعے اکثریت کو کنٹرول کرنی کا فن ہی"۔ یہ ان کا پورا مسئلہ ہے۔ بات کنٹرول کرنی کی ہے۔ یہ علم سیاست اقتدار کی تحفظ اور اس کی توسیع و فروغ کے لئے مختلف قسم کی وسائل اور مشینریوں سے بحث کرتا ہے۔
مادی نگاہ میں "سیاست" کا مطلب حصول اقتدار کا فن اقتدار کی تحفظ کا فن اور طاقت برہانی کا فن۔
امام حسین علیہ السلام اور اسلام کی نگاہ میں سیاست کنٹرول سے شروع نہیں ہوا کرتی۔ مسئلہ تکوینی حقیقت اور حق و باطل سے شروع ہوتا ہے؛ حقانیت کے مسئلے کے بعد بات یہاں تک پہنچتی ہے کہ "کن لوگوں کو حاکمیت کا حق پہنچتا ہے اور کیوں؟ اس سوال کا جواب دینا پڑے گا اور اس کے بعد ہی آپ تیسرے زینے تک پہنچتے ہیں جہاں حاکمیت کے کے طرز عمل (Mechanism) اور سماج کو کنٹرول کرنے کی باری آتی ہے۔ جب ابتدائی مرحلوں سے گذر کر اور سوالات کا جواب دے کر تیسرے مرحلے میں پہنچتے ہیں تو آپ دیکھتے ہیں کہ یہ میکینزم اور یہ کنٹرول مقید اور مشروط ہونا چاہئے ان دو جوابات پر جو آپ پہلے دو سوالوں کو فراہم کرتے ہیں۔ یعنی یہ کہ میکینزم اور کنٹرول فلسفی، قانونی اور اخلاقی اور شرعی و دینی جواب سے مشروط ہونا چاہئے۔
یاد رکھیں کہ اسلامی منطق اور اسلام کے سیاسی فلسفے میں "اقتدار کو کنٹرول کرنے کے لئے ہر قسم کے میکینزم سے استفادہ کرنے کی اجازت نہیں ہے"۔
امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا: یہی امور جو معاویہ انجام دیتا رہتا ہے میں اس سے دس گنا زیادہ جانتا اور انجام دے سکتا ہوں؛ میں خوب جانتا ہوں کہ اس کو کس طرح گرادوں لیکن کیا کروں کہ میرے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں! ہمارا ہدف "ہر قیمت پر اقتدار کا حصول نہیں ہے"۔
اس زمانے میں مسلمانوں کے درمیان افواہ اڑی تھی اور زبانزد خاص و عام ہوئی تھی کہ "علی علیہ السلام اچھے ہیں لیکن معاویہ زیادہ سیاسی ہے!"۔
امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا: میں معاویہ سے کئی گنا زیادہ سیاسی ہوں؛ (10) مگر ہم سیاست کو شریعت اور اخلاق سے مشروط سمجھتے ہیں مطلق اور غیر مشروط سیاست ہمارا ہدف نہیں ہے۔ ہمارے ہاں معیشت و اقتصاد اخلاق و شریعت سے مشروط ہو تو قابل قبول ہے۔
وہ [علمانی جمہوریتیں اور آمریتوں کے حامی] اس شرط کو قابل قبول نہیں سمجھتے ہیں؛ وہ سیاست کو دین سے الگ کردیتے ہیں، معاشیات کو بھی اخلاق سے الگ قرار دیتے ہیں؛ وہ غیر مشروط اور مطلق سیاست کے حامی ہیں؛ انہیں غیر مشروط آزادی حاصل ہے لیکن ہمیں ایسی آزادی حاصل نہیں ہے۔ ہمارے لئے انسانیت اقتدار اور دولت و ثروت پر مقدم ہے۔ لہذا وہ کہتے ہیں کہ طاقت، دولت، سیاست، اقتصاد اور انسانی حقوق دین اور اخلاق سے جدا ہیں۔
ہمیں لڑنا ہے لیکن بندھے ہاتھوں سے لڑنا پڑے گا کیونکہ ہمارے اہداف الہی اور انسانی ہیں وہ کھلے ہاتھوں سے لڑتے ہیں کیونکہ ان کا پورا ہدف اسی دنیا تک محدود ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کسی نقطے پر ہم شکست کھائیں تو وہ کہیں گے کہ "ان لوگوں نے شکست کھائی ہے چنانچہ وہی لوگ درست ہیں جو کامیاب ہوگئے ہیں! بعض لوگوں کا خیال ہے کہ "جب بھی ہم حق و حقیقت کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ہمیں شکست ہوتی ہے اور ہم ناکام ہوجاتے ہیں" لیکن ایسا نہیں ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ شکست اور فتح بھی جدوجہد کا فلسفہ مدنظر رکھ کر ہی با معنی ہوجاتی ہے، اگر آپ کے ہاں جدوجہد کا فلسفہ یہی ہے کہ کسی بھی قیمت پر اقتدار اور دولت پر قبضہ کیا جائے تو اس فلسفے کے مطابق شکست سے مراد اقتدار اور دولت کو کھودینا اور فتح یعنی طاقت و اقتدار اور دولت و سرمایہ حاصل کرنا ہے۔
چنانچہ اگر جدوجہد کا فلسفہ اللہ کی رضا و خوشنودی اور الہی و انسانی نشو و نما اور ارتقاء اور فرائض پر عمل اور احیائے حق کے لئے کوشش ہے تو اس پر محض مادی شکست یا مادی فتح اثرانداز نہیں ہوسکتی۔ بلکہ ـ خواہ فتح ہو خواہ شکست ہو ـ جتنی بھی کوشش آپ نے کی ہے اتنی ہی آپ صاحب حریت ہوگئے ہیں اور آپ نے دوسروں کو بھی پہلے سے زیادہ حریت عطا کی ہے یعنی آپ نے فتح حاصل کی ہے؛ چاہے آپ سیدالشہداء علیہ السلام کی مانندقتل کئے جائیں یا علی (ع) کی طرح حکومت تشکیل دیں، آپ فاتح ہیں۔ کیونکہ شہادت اور حکومت کا قیام دونوں احیائے حق کے لئے ہیں ورنہ نہ تو حکومت کا قیام ہدف و مقصد ہے اور نہ ہی شہادت بلکہ یہ دونوں وسیلے ہیں احیائے حق کے لئے۔
حکومت اور حکومت و حاکمیت کی روش کی محض مادی تعریف کے مطابق Government اس رسمی اور تدریجی عمل کا نام ہے جس کے ذریعے اقتدار اور طاقت کو نظم و باقاعدگی دی جاتی ہیں اور اسے آرگنائز اور ریگولرائز کیا جاتا ہے؛ گورنمنٹ حکمرانی کرنے کا ادارہ اور اقتدار کے نظام کے لئے سلسلہ مراتب اور ڈسپلن (یا Control Hierarchy) ہے؛ اس نظام کے حامیوں کے نزدیک مشروعیت (legitimacy) کے معنی بھی یہی ہیں۔
سیاسی علوم (Political Sciences) میں مشروعیت یا قانونی جواز کی تعریف کیا ہے؟
جاری ہے

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

کیوں تشہد میں علی ولی اللہ پڑھنے کی اجازت نہیں؟
عفو اہلبيت (ع)
عہد امیرالمومنین میں امام حسن کی اسلامی خدمات
حضرت امام رضا (ع) کا کلام
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام(حصہ دوم)
حضرت امیر المؤمنین علیہ الصلوٰة والسلام کی والدہ ...
کربلا کے روضوں کے منتظمین کے لیے مشہد میں ہوٹل کی ...
ارشادات نبوی
قرآن کریم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ...
امام محمد تقی علیہ السلام کی سیاسی سیرت

 
user comment