اردو
Thursday 28th of March 2024
0
نفر 0

تفسیر "سورہ البقرة " (آیات 11 تا 15)

تفسیر "سورہ البقرة " (آیات 11 تا 15)

وَاِذَا قِیْلَ لْهمْ لاَ تُفْسِدُوا  فِیْ الْاَرْضِ° قَالُوْا اِنَمَا نَحْنُ مُصُلِحُوْنَ (11)
 اَلآَ اِنَهمْ همُ الْمُفْسِدُوْنَ وَلٰکِن لاَ یُشْعُرُوْنَ (12)
اور جب اُن سے کہا جاتا ھے کہ دُنیا میں خرابیاں نہ پھیلاؤ تو وہ کہتے ھیں کہ ارے ھم
تو صرف اصلاح کرنے والےهیں یاد رھے کہ درحقیقت وهی خرابیاں ڈالنے والے ھیں
لیکن وه اس کا احساس ھرگز نہیں رکھتے"


"فساد فی الارض" کے مفہوم میں وہ بد اعمالیاں آتی ھیں جو متعدی الی الغیر ھوں یعنی اس کا نقصان دوسروں تک پہنچے.(2)
گمراھی اگر کسی کی ذات تک محدود ھے تو وہ کفر یا شرک وغیرہ ھے مگر "فساد فی الارض" میں داخل نہیں ھوتی.لیکن جب وہ دوسروں کو راہ راست سے ھٹانے کی کوشش میں منتقل ھوجائے تو "فساد فی الارض" میں داخل ھے.
گناہ کچھ تو براہ راست اس عنوان کے تحت میں داخل ھیں جیسے چغل خوری یا کسی دوسری صورت سے لڑوانے کی کوشش اور کچھ ایسے ھیں کہ وہ جب تک صرف انفرادی حیثیت رکھیں "فسق" ، "ظلم" اور "معصیت" وغیرہ ھیں اور اپنی جگہ "فساد" بھی ھیں مگر " فساد فی الارض" اس وقت قرار پائیں گے جب انسان ان معاصی کی طرف دوسروں کو دعوت دینے لگے اور انہیں اپنا "مشن" قرار دے لے.
منافقین کے دل میں جو شک یا انکار ھے وہ اگر بس اسی دائرہ میں محدود رھتا تو اسے ایک انفرادی گمراھی کا درجہ حاصل ھوسکتا اور اجتماعی گناہ قرار نہ پاتا.مگر چونکہ اسے "منافقت" کے سایہ میں چھپانا خود ھی کچھ اغراض کی خاطر ھوتا ھے جن سے اس نظام کو نقصان نہ پہنچانا مدنظر ھوتا ھے جو اصلاح عالم کا کفیل ھے پھر اس "دورنگی" کو نباھنے کےلیے انہیں بہت کچھ ایسی باتیں کرنا پڑتی ھیں جن سے امن عامہ کو خلل پہنچنے کا قوی امکان ھوتا ھے، جیسے :لگائی بجھائی کرنا، ادھر آکر انہیں برا کہن اور اُدھر جاکر اِنہیں برا کہنا، مومنین کے ساتھ استہزا و تمسخر کرنا اور کافرین کی ان کے منصوبوں میں ھمت افزائی اور درپردہ امداد کرنا.یہ سب باتیں وہ ھیں جو انہیں فساد فی الارض کے جرم کا مرتکب بنادیتی ھیں.اب چاھے وہ کتنی ھی پردہ داری سے کام لیں مگر اصلیت کھل ھی جاتی ھے چنانچہ جب اُن کی دسیسہ کاریوں کی اطلاع اھلِ ایمان میں سے کسی کو ھوجاتی ھے تو وہ انہیں نصیحت کرنے کی کوشش کرتا ھے اور یہ کہتا ھے کہ یہ اپنی مفسدانہ روش ترک کرو تو وہ اپنی طرف اس جرم کی نسبت سے انکار کرنے لگتے ھیں اور کہتے ھیں "ھم تو بس اصلاح کرنے والے ھیں" یعنی فساد کی طرف ھم کبھی جاتے ھی نہیں.اس کے جواب میں خالق یہ اعلان فرماتا ھے کہ وہ تو فساد ھی فساد کرنے والے ھیں اصلاح کا نام و نشان تک ان کے کردار میں نہیں ھے. "اَلاَ " کلمہ تنبیہہ ھے.لہذا اس کا ترجمہ "آگاہ ھو" اور "خبردار ھوجاؤ" کیا جاتا رھا ھے.(3) ھم نے موجودہ محاورہ کے لحاظ سے "یادرھے" ترجمہ کیا ھے.عبدالماجد صاحب نے صحیح کہا ھے کہ "لفظ اجی" میں متانت کی کمی نہ ھوتی تو اردو میں اس مفہوم کےلیے بہترین لفظ ھوتا.
"انہیں احساس نہیں ھے" اس لیے کہ وہ اپنی منافقت کی رو یا اپنی حصول منفعت کی دھن میں ان نتائج پر غور نہیں کرتے جو اُن کے اس طرزِعمل پر مترتب ھوتے ھیں.جس کے نقصانات کی لپیٹ میں اکثر وہ خود بھی آجاتے ھیں اور اسی لیے اگر وہ اُن نتائج پر غور کرتے تو شاید خود ھی چاھے دینِ حق کو دل سے اختیار نہ بھی کرتے لیکن اس مفسدانہ روش کو ضرور ترک کردیتے.


"وَاِذَا قِیْلَ لَهمْ اٰمِنُوْاکَمَاکَمَا  اَمَنَ النَاسُ قَالوْا اَنُؤْمِنُ کَمَا اٰمَنَ السُفَهآءُ ^ اَلآَ اِنَهم همُ  السُفَهآءُوَلَکِنْ لاَ یَعْلَمُوْنَ (13)
اور جب ان سے کہا جاتا ھے کہ اس طرح ایمان لاؤ جیسے سب آدمی ایمان لائے ھیں تو وہ کہتے ھیں کہ کیاھم بیوقوفوں کی طرح سے ایمان قبول کریں یاد رھےکہ درحقیقت یہ خودبیوقوف ھیں مگر انہیں خبر نہیں ھے"


ایمان کا اظہار تو وہ جماعت خود ھی کرتی تھی مگر اس کے ساتھ اُن کے افعال و اعمال سے اکثر دورنگی نمایاں ھوجاتی تھی تو بعض مسلمان جو اُن سے اتفاقًا ذاتی تعلقات رکھتے تھے انکو نصیحت کرنا چاھتے تھے اور کہتے تھے کہ اگر ایمان لائے ھو تو اس دورنگی سے کیا فائدہ! صدق دل سے اس طرح ایمان لاؤ جیسے اور سچے مسلمان ایمان لائے ھیں.یعنی وہ جن کے خلوص و یقین کا علم اُن منافقین کو بھی تھا اور اُنہی کو الناس سے تعبیر کیا گیا ھے.(1) جس سے اشارہ اس طرف بھی ھے کہ تمہارا عمل جو منافقین اور فتنہ پردازی کا ھے وہ حقیقۃً انسانیت کے بھی بالکل خلاف ھے.وہ اس کے جواب میں کہتے تھے کہ اصل عقل مندی کا طرز عمل تو وھی ھے جسے ھم اختیار کیے ھوئے ھیں کہ اگر بعد میں مشرکین کو فتح حاصل ھو تو ھم اُن کے بھی اچھے بنے رھیں اور اگر مسلمانوں کو مختتم فتح نصیب ھو تو ان کے ساتھ بھی ھم لگے رھیں اور جو فوائد حاصل ھوسکتے ھوں وہ حاصل کرتے رھیں. "سیاست" اسی کا نام ھوتا ھے.ری گئے یہ لوگ جنہیں تم پیش کرتے ھو کہ بس جدھر ھوگئے اُدھر ھوگئے.یہ تو احمق یعنی ناعاقبت اندیش ھیں کیونکہ اپنے مستقبل کو خطرہ میں ڈال رھے ھیں.
یہی ھے وہ رائے جو سیاستِ دنیا کے ماھرین کی طرف سے ھر اس شخص کے متعلق قائم کی جاتی ھیں جو سچائی کا پابند ھو.اور یہی عقل کا معیار ھے جس کے پیشِ نظر حضرت علی بن ابی طالب علیہما السلام فرماتے تھے
"لولاالدین لکنت ادهی العرب" اگردینی پابندیاں پیشِ نظر نہ  ھوتیں تو میں عرب میں سب  سے بڑا سیاستداں مدبر نظر
آتا"
مگر حقیقت امر یہ ھے کہ یہ ملمع کار سیاست جو دنیا جو بنائے اور آخرت کو برباد کرے عقل کا مقتضا نہیں ھے.
اصل عقل تو وہ ھے جو ابدی زندگی کے مفاد کو پیشِ نظر رکھے.
اس وقت انہیں معلوم ھوگا کہ ان کا یہ طرزِ عمل ھلاکت خیز ھے جب عذابِ ابدی کا منظر ان کے سامنے آئے گا اور وہ دیکھیں گے کہ وہ کافروں سے بھی بدتر عقوبت کے سزاوار قرار پائے ھیں.اس لیے کہا گیا ھے کہ حقیقت میں بیوقوف یہی ھیں مگر ابھی ان کی آنکھوں پر پردے پڑے ھوئے ھیں لہذا انہیں اس کی خبر نہیں ھے.
**


"وَاِذَالَقُواالَذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْا  اٰمَنَاوَاِذَا خَلَوْااِلٰی شَیٰطِنِهمْ  قَالُوْا اِنَا مَعَکُمْ اِنَمَا نَحْنُ  مُسْتَهزِءُوْنَ (14)
اور جب وہ اُن لوگوں سے ملتے ھیں کہ جو ایمان لائے ھیں تو  کہتے ھیں.کہ ھم نےایمان اختیار  کیااورجب اپنےشیطانوں کےساتھ  تخلیہ میں ھوتے ھیں توکہتےھیں  کہ یقین جانو ھم تمہارے ساتھ  ھیں ھم تو فقط بنا رھے تھے" (5)
؛؛؛
اس میں منافقین کے کردار کی مکمل تصویر کشی ھے جو ھر دور میں اس جنس کی مخلوق میں ھر باخبر کو محسوس ھوسکتی ھے.
وہ ایسے صاحبانِ ایمان سے مل کر جو کسی حد تک اثر و رسوخ رکھتے ھیں ان کو اپنی یگانگی کا یقین دلانا چاھتے ھیں اور جب اپنے شیطانوں یعنی اپنی جماعت کفار کے سرگروہ لوگوں کے پاس جاتے ھیں تو وھاں اپنی پوزیشن صاف رکھنے کی کوشش میں یہ کہتے ھیں کہ ھم تو مسلمانوں کے ساتھ استہزاء (مذاق) کررھے تھے.
استہزاء کے معنی ھیں ایسا مذاق جس میں دوسروں کی تحقیر مدِنظر ھو اور اسی لیے انکا یہ جملہ کہ ھم مسلمانوں کے ساتھ تمسخر کرتے انکا مذاق اڑاتے ھیں، خالق کو اتنا ناگوار ھوا کہ فورًا اس کا جواب دیاگیا جو اس کے بعد کی آیت میں مذکور ھے.
**


"اَلله یَسْتَهزِیءُبِهمْ وَ یَمُدُهمْ  فِی طُغْیَانِهمْ یَعْمَهوْنَ (15
اللہ خود انہیں بناتا ھے(6) اور ان کی سرکشی میں ڈھیل دیتا ھے کہ یہ اندھے پن میں مبتلا رھیں"


قرآن کریم میں خالق کی طرف محلِ وقوع اور سیاقِ کلام کی مناسبت سے کچھ ایسے الفاظ صرف ھوئے ھیں جنہیں اس نظم و ترتیب کلام سے علیحدہ کرکے اگر اس کی طرف منسوب کیا جائے تو اس کی شان کے خلاف ھے.استہزاء اسی طرح کا ایک لفظ ھے.اگر بلا کسی تمہید کے اللہ کو "مستھزیء" یعنی "تمسخر کرنیوالا" کہا جائے تو یہ کوئی مناسب امر نہ ھوگا.لیکن جس صورت سے قرآن میں ان الفاظ کو صرف کیاگیا ھے اس صورت سے استعمال کرنے میں "مکر اور استھزاء" وغیرہ کا مفہوم ھی دوسرا ھوجاتا ھے.اس کا مطلب ھوتا ھے کہ "مکر کرنے والوں کے مکر کو توڑنا" اور ان کے "استھزاء" کا جواب دینا.جسے دوسرے لفظوں میں "مجازاةِ استھزاء" سے تعبیر کیا جاسکتاھے.
چونکہ اُنہوں نے مومنین کے متعلق اس لفظ کا استعمال کیا تھا جو حقارت کا پتہ دیتا ھے،ظاھر ھے کہ مومنین یہ تحقیر صرف دینِ الہی کے اختیار کرنے کی وجہ سے درپیش ھوئی ھے لہذا اُنہوں نے جو لفظ مومنین کے لیے استعمال کیا تھا اُسے اللہ نے اپنی طرف سے اُنکی طرف پلٹا دیا ھے اور اس سے ظاھر ھوتا ھے کہ اھل اللہ کے ساتھ جو برا سلوک کیا جائے اس کا جواب دینے کی اُن کو ضرورت نہیں ھوتی بلکہ اُنکی طرف سے اللہ خود جواب دینے کے لیے آگے آجاتا ھے اور ظاھر ھے کہ اللہ کے سامنے کسی بندہ کی کہاں پیش جاسکتی ھے.امام علی الرضا علیہ السلام نے فرمایا ھے کہ :
"ان الله لایستهزیءبهم ولٰکن یجاز بهم جزآء الاستهزآء" اللہ انکاازخودمذاق نہیں اڑاتابلکہ
ان کے مذاق اڑانے کی سزا دیتا ھے" (روایت صدوق"رض") اسی کو جناب تاج العلماء نے ان الفاظ میں کہا ھے کہ"
خدا کا چہل کرنا یہ ھے کہ مسخرے کو مسخرے پن کی سزا دے"
پھر یہ اُن کے عمل کی سزا بظاھر مشابہت بھی رکھتی ھے ان کے اسی عمل سے جسے وہ استھزاء کہتے ھیں یعنی مسلمانوں کے پاس آکر ظاھر کرتے ھیں کہ ھم مسلمان ھیں اور باطن میں کافر کے کافر رھتے ھیں.اسی قسم کا سلوک انکے ساتھ اللہ نے بھی کیا ھے کہ ظاھر میں اُن پر احکامِ اسلام جاری کردیئے مثلاً ذبیحہ انکا حلال، جسم انکا پاک اور توریث و نکاح وغیرہ میں مسلمانوں کا سا برتاؤ مگر باطن میں وہ کافر کے کافر ھی رھے.اسی لیے آخرت میں وہ کافر کیسے بلکہ کافروں سے بدتر قرار دیئے گئے تو اگر اس طرح کا عمل بنانا اور تمسخر کرنا ھے تو نتیجہ میں دیکھیئے کہ بنا کون اور تمسخر کس کا ھوا؟ (7)
مولوی عبدالماجد صاحب لکھتے ھیں کہ
"ھنسی اور تمسخر کا انتساب ذاتِ باری  تعالٰی کی جانب قدیم صحیفوں میں موجود ھے"
-تو اے خداوند ان پر ھنسے گا تو ساری قوموں کو مسخرہ بنائے گا. (زبور 81:7:9)
-میں تمہاری پریشانی پر ھنسوں گا اور جب تم پر دھشت غالب ھوگی تو میں ٹھٹھے ماروں گا. (امثال 26:1)
"یمدوھم" کے لفظی معنی 'اُن کے لیے زیادتی کرنا ھے' مگر اللہ اپنی برف سے کفر یا سرکشی میں اضافہ پسند نہیں کرتا.یہ کفر اور سرکشی تو خود اُنکی طرف سے ھے مگر اللہ اُنکی عمر کی رسی دراز کرتا ھے.اسباب عیش میں اُن کے لیے اضافہ کرتا ھے اس کے ساتھ اُنکی بداعمالیوں کے باعث اپنی توفیق کا دامن اُن سے سیٹے رکھتا ھے.نتیجۃً ان کے سوء اختیار کے ھاتھوں اللہ کی نعمتیں جو خود اس کی اطاعت و عبادت کی محرک ھونا چاھیئں ان کے لیے مزید سرکشی کا باعث ھوتی ھیں اور یہ خدا کی جانب سے ڈھیل بھی اسی سلوک کا ایک جزو ھے جسے پہلے کہاگیا تھا کہ اللہ خود اُنہیں بناتا ھے.(8)
آخری لفظ "یعمھون" کا ھے. عمه دل کے اندھے کو کہتے ھیں.مطلب یہ ھے کہ وہ بےبصیرتی کے ساتھ اپنی زندگی حقیقی اچھائی اور برائی کی تمیز کے بغیر گزارتے ھیں جس طرح اندھا راستوں میں ٹھوکریں کھاتا ھے اسی طرح یہ زندگی کے پرپیچ راستوں میں بغیر کسی امتیاز اور بلا کسی رھنما کے سہارے کے بھٹکتے پھرتے ھیں.

_____________________________________
(1). التنکیرالدلالة علٰی کونه نوعامبهماغیرمایتعارفه الناس من الامراض. (ابوالسعود)
(2). الاظهران یرادبه الفسادالذی یتعدی دون مایقف علیهم. (رازی)
(3). آگاہ ھو (تاج العلماء)خبردار ھو (فرمان علی صاحب)
(4). فان اسم الجنس کمایستعمل فی مسماہ یستعمل فی مایکون جامعاللمعانی الخاصةالقصودة عنه. (ابوالسعود)
(5). ھم تو فقط ٹھٹھے بازی کرتے ھیں. (تاج العلماء)
(6). خدا بھی چہل کرتا ھے ان سے. (تاج العلماء)
(7). فاستعیرلذلك لفظ الاستهزاء طشابهةله فی ایتهاجهم بظاهرالامهال والتخویل مع انه مقرون بالاستهاته بهم واعدادالعذاب الاليم. (بلاغی)
(8). هذا بمنزلة التفسير لما استعيرله لفظ استهزاء. (بلاغی)

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article


 
user comment