اردو
Thursday 18th of April 2024
0
نفر 0

حضرت امام محمد مہدی علیہ السلام(حصہ ششم)

حضرت امام محمد مہدی علیہ السلام(حصہ ششم)

امام مہدی اورحج کعبہ

یہ مسلمات میں سے ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام ہرسال حج کعبہ کے لئے مکہ معظمہ اسی طرح تشریف لے جاتے ہیں جس طرح حضرت خضروالیاس جاتے ہیں (سراج القلوب ۷۷) علی احمد کوفی کابیان ہے کہ میں  طواف کعبہ میں  مصروف ومشغول تھا کہ میری نظرایک نہآیت خوبصورت نوجوان پرپڑی ،میں  نے پوچھا آپ کون ہیں ؟ اورکہاںسے تشریف لائے ہیں ؟ آپ نے فرمایا ”انا المھدی وانا القائم۔“ میں  مہدی آخرالزماں اورقائم آل محمد ہوں ۔ غانم ہندی کابیان ہے کہ میں  امام مہدی کی تلاش میں  ایک مرتبہ بغداد گیا،ایک پل سے گزرتے ہوئے مجھے ایک صاحب ملے اور وہ مجھے ایک باغ میں  لے گئے اورانھوں نے مجھ سے ہندی زبان میں  کلام کیا اورفرمایاکہ تم امسال حج کے لئے نہ جاؤ،ورنہ نقصان پہونچے گا محمد بن شاذان کاکہنا ہے کہ میں  ایک دفعہ مدینہ میں  داخل ہوا توحضرت امام مہدی علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ،انھوں نے میراپورانام لے کرمجھے پکارا ،چونکہ میرے پورے نام سے کوئی واقف نہ تھا اس لئے مجھے تعجب ہوا۔ میں  نے پوچھا آپ کون ہیں ؟فرمایا میں  امام زمانہ ہوں ۔ علامہ شیخ سلیمان قندوزی بلخی تحریرفرماتے ہیں کہ عبداللہ بن صالح نے کہا کہ میں  نے غیبت کبری کے بعد امام مہدی علیہ السلام کوحجراسود کے نزدیک اس حال میں  کھڑے ہوئے دیکھاکہ انھیں لوگ چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں ۔ (ینابع المودة )۔

زمانہ غیبت کبری میں  امام مہدی کی بیعت

حضرت شیخ عبداللطیف حلبی حنفی کاکہناہے کہ میرے والد شیخ ابراہیم حسین کاشمارحلب کے مشائخ عظام میں  تھا ۔وہ فرماتے ہیں کہ میرے مصری استاد نے بیان کیا ہے کہ میں  نے حضر ت امام مہدی علیہ السلام کے ہاتھ پربیعت کی ہے۔ (ینابع المودةباب ۸۵ ص ۳۹۲ )

امام مہدی کی مومنین سے ملاقات

رسالہ جزیرہ خضرا کے ص ۱۶ میں  بحوالہ احادیث آل محمد مرقوم ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام سے ہرمومن کی ملاقات ہوتی ہے۔ یہ اوربات ہے کہ مومنین انھیں مصلحت خداوندی کی بناء پراس طرح نہ پہچان سکیں جس طرح پہچاننا چاہیے مناسب معلوم ہوتاہے اس مقام پرمیں  اپناایک خواب لکھ دوں ۔
واقعہ یہ ہے کہ آج کل جبکہ میں  امام زمانہ کے حالات لکھ رہاہوں حدیث مذکورہ پرنظرڈالنے کے بعد فورا ذہن میں  یہ خیال پیداہواکہ مولا سب کودکھائی دیتے ہیں ،لیکن مجھے آج تک نظرنہیں آئے ،اس کے بعد میں  استراحت پرگیا اورسونے کے ارادے سے لیٹاابھی نیند نہ آئی تھی اورقطعی طورپرنیم بیداری کی حالت میں  تھا کہ ناگاہ میں  نے دیکھا کہ میرے کان سے جانب مشرق تابحد نظرایک قوسی خط پڑاہواہے یعنی شمال کی جانب کاسارا حصہ عالم پہاڑہے اوراس پرامام مہدی علیہ السلام برہنہ تلوارلئے کھڑے ہیں اوریہ کہتے ہوئے کہ ”نصف دنیاآج ہی فتح کرلوں گا ۔“ شمال کی جانب ایک پاؤں بڑھارہے ہیں آپ کاقد عام انسانوں کے قد سے ڈیوڑھا اورجسم دوہراہے ،بڑی بڑی سرمگین آنکھیں اورچہرہ انتہائی روشن ہے آپ کے پٹے کٹے ہوئے ہیں اورسارا لباس سفید ہے اوروقت عصرکاہے۔ یہ واقعہ ۳۰ نومبر ۱۹۵۸ شب یکشنبہ بوقت ساڑھے چاربجے شب کاہے۔
ملامحمد باقرداماد کاامام عصرسے استفادہ کرنا

ہمارے اکثرعلماٴ علمی مسائل اورمذہبی ومعاشرتی مراحل حضرت امام مہدی ہی سے طے کرتے آئے ہیں ملامحمد باقرداماد جوہمارے عظیم القدرمجتہد تھے ان کے متعلق ہے کہ ایک شب آپ نے ضریح نجف اشرف میں  ایک مسئلہ لکھ کرڈالا اس کے جواب میں  ان سے تحریرا کہاگیاکہ تمھارا امام زمانہ اس وقت مسجدکوفہ میں  نمازگذارہے تم وہاں جاؤ،وہ وہاں جاپہونچے ،خود بخود دروازہ مسجد کھل گیا ۔ اورآپ اندرداخل ہوگئے آپ نے مسئلہ کاجواب حاصل کیا اواآپ مطمئن ہوکر برآمد ہوئے۔

جناب بحرالعلوم کا امام زمانہ سے ملاقات کرنا

 کتاب قصص العلماٴ مولفہ علامہ تنکابنی ص ۵۵ میں  مجتہد اعظم کربلائے معلی جناب آقا محمدمہدی بحرالعلوم کے تذکرہ میں  مرقوم ہے کہ ایک شب آپ نماز میں  اندرون حرم مشغول تھے کہ اتنے میں  امام عصراپنے اب وجدکی زیارت کے لئے تشریف لائے جس کی وجہ سے ان کی زبان میں  لکنت ہوئی اوربدن میں  ایک قسم کا رعشہ پیداہوگیا پھرجب وہ واپس تشریف لے گئے توان پرجوایک خاص قسم کی کیفیت طاری تھی وہ جاتی رہی ۔اس کے علاوہ آپ کے اسی قسم کے کئی واقعات کتاب مذکورہ میں  مندرج ہیں ۔

امام مہدی علیہ السلام کاحمایت مذہب فرمانا

واقعہ ٴانار کتاب کشف الغمہ ۱۳۳ میں  ہے کہ سید باقی بن عطوہ امامیہ مذہب کے تھے اوران کے والدزیدیہ خیال رکھتے تھے ایک دن ان کے والدعطوہ نے کہا کہ میں  سخت علیل ہوگیاہوں اوراب بچنے کی کوئی امید نہیں ۔ہرقسم کے اطباٴ کاعلاج کراچکاہوں، اے نورنظر ! میں  تم سے وعدہ کرتاہوں کہ اگرمجھے تمہارے امام نے شفادیدی ،تومیں  مذہب امامیہ اختیارکرلوںگا یہ کہنے کے بعد جب یہ رات کوبسترپرگئے توامام زمانہ کاان پرظہورہوا،امام نے مقام مرض کواپناہاتھ سے مس کردیا اوروہ مرض جاتارہا عطوہ نے اسی وقت مذہب امامیہ اختیارکرلیا اور رات ہی میں  جاکر اپنے فرزند باقی علوی کوخوشخبری دیدی ۔
اسی طرح کتاب جواہرالبیان میں  ہے کہ بحرین کاوالی نصرانی اوراس کاوزیرخارجی تھا ،وزیرنے بادشاہ کے سامنے چند تازہ انار پیش کئے جن پرخلفاٴ کے نام علی الترتیب کندہ تھے اوربادشاہ کویقین  دلایاکہ ہمارامذہب حق ہے اورترتیب خلافت منشاٴقدرت کے مطابق درست ہے بادشاہ کے دل میں  یہ بات کچھ اس طرح بیٹھ گئی کہ وہ یہ سمجھنے پرمجبور ہوگیا کہ وزیرکامذہب حق ہے اورامامیہ راہ باطل پرگامزن ہیں ،چنانچہ اس نے اپنے خیال کی تکمیل کے لئے جملہ علماٴ امامیہ کو جواس کے عہد حکومت تھے بلابھیجا اورانھیں اناردکھاکر ان سے کہاکہ اس کی رد میں  کوئی معقول دلیل لاؤ ورنہ ہم تمہیں قتل کرکے تمام مذہب کوبیخ  وبن سے اکھاڑدیں گے ،اس واقعہ نے علماٴکرام میں ایک عجیب قسم کاہیجان پیداکردیا ، بالاخرسب علماء آپس میں  مشورہ کے بعد ایسے دس علماٴ پرمتفق ہوگئے جوان میں  نسبتا مقدس تھے اورپروگرام یہ بنایا کہ جنگل میں  ایک ایک عالم بوقت شب جاکرامام زمانہ سے استعانت کرے ،چونکہ ایک شب کی مہلت ومدت ملی تھی ،اس لئے پریشانی زیادہ تھی غرضکہ علماء نے جنگل میں  جاکرامام زمانہ سے فریاد کاسلسلہ شروع کیا۔دوعالم اپنی اپنی مدت ،فریادوفغاں ختم ہونے پرجب واپس آئے اورتیسرے عالم حضرت محمدبن علی کی باری آئی توآپ نے بدستورصحرامیں  جاکرمصلی بچھادیا ،اورنماز کے بعد امام زمانہ کواپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام ہوکر واپس آتے ہوئے انھیں ایک شخص راستے میں  ملا اس نے پوچھا ۔ کیابات ہے کیوں پریشان ہو،آپ نے عرض کی امام زمانہ کی تلاش ہے اوروہ تشریف لانہیں رہے ۔
اس شخص نے کہا :” اناصاحب العصرفاذکرحاجتک “ میں  ہی تمہارا امام زمانہ ہوں ،کہوکیاکہتے ہو محمدبن علی نے کہا کہ اگرآپ صاحب العصرہیں توآپ سے حاجت بیان کرنے کی ضرورت کیا،آپ کوخود ہی علم ہوگا ۔ اس کے جواب میں  انھوں نے فرمایا کہ سنو ! وزیرکے فلاں کمرہ میں  ایک لکڑی کا صندوق ہے اس مٹی کے چند سانچے رکھے ہوئے ہیں جب انارچھوٹاہوتاہے وزیراس پرسانچہ چڑھادیتاہے ۔ اورجب وہ بڑھتاہے تواس پروہ نام کندہ ہوجاتے ہیں جوسانچہ میں  کندہ ہیں محمد بن علی ! تم بادشاہ کواپنے ہمراہ لے جاکروزیرکے دجل وفریب کوواضح کردو،وہ اپنے ارادہ سے بازآجائے گا اوروزیرکوسزا دے گا چنانچہ ایساہی کیاگیا اوروزیربرخواست کردیا گیا ۔ (کتاب بدایع  الاخبارملا اسماعیل سبزواری ص ۱۵۰ وسفینة البحارجلد ۱ ص ۵۳۶ طبع نجف اشرف)۔

امام عصرکا واقعہٴ کربلابیان کرنا

حضرت امام مہدی علیہ السلام سے پوچھاگیا کہ ” کھیعص “ کاکیامطلب ہے توفرمایا کہ اس میں  (ک)سے کربلا (ہ) سے ہلاکت عترت (ی ) سے یزیدملعون (ع) سے عطش حسینی (ص ) سے صبرآل محمدمراد ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ آیت میں  جناب زکریاکاذکر کیاگیا ہے ۔جب زکریاکوواقعہٴ کربلاکی اطلاع ہوئی تووہ تین روزتک مسلسل روتے رہے ۔(تفسیرصافی ص ۲۷۹) ۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام کے طول عمرکی بحث

 بعض مستشرقین وماہرین اعمارکاکہناہے کہ ”جن کے اعمال وکرداراچھے ہوتے ہیں اورجن کا صفائے باطن کامل ہوتاہے ان کی عمریں طویل ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ علماٴ فقہاء اورصلحاٴکی عمریں اکثرطویل دیکھی گئی ہیں اورہوسکتاہے کہ طول عمرمہدی علیہ السلام کی یہ بھی ایک وجہ ہو ،ان سے قبل جوآئمہ علہیم السلام گزرے وہ شہیدکردئیے گئے ،اوران پردشمنوں کادسترس نہ ہوا ،تویہ زندہ رہ گئے اوراب تک باقی ہیں لیکن میرے نزدیک عمرکاتقرر وتعین دست ایزد میں  ہے اسے اختیارہے کہ کسی کی عمرکم رکھے کسی کی زیادہ اس کی معین کردہ مدت عمر میں ایک پل کابھی تفرقہ نہیں ہوسکتا ۔

تواریخ واحادیث سے معلوم ہوتاہے کہ خداوندعالم نے بعض لوگوں کوکافی طویل عمریں عطاکی ہیں ۔ عمرکی طوالت مصلحت خداوندی پرمبنی ہے اس سے اس نے اپنے دوست اوردشمن دونوں کونوازاہے ۔دوستوں میں  حضرت عیسی ،حضرت ادریس  ،حضرت خضروحضرت الیاس ، اوردشمنوں میں  سے ابلیس لعین ،دجال بطال ،یاجوج ماجوج وغیرہ ہیں اورہوسکتاہے کہ چونکہ قیامت اصول دین اسلام سے ہے اور اس کی آمد میں  امام مہدی کاظہورخاص حیثیت رکھتاہے لہذا ان کازندہ وباقی رکھنامقصودہاہو ،اوران کے طول عمرکے اعتراض کورداوررفع ودفع کرنے کے لئے اس نے بہت سے افراد کی عمریں طویل کردی ہوں مذکورہ ا فراد کوجانے دیجئے ۔ عام انسانوں کی عمروں کودیکھئے بہت سے ایسے لوگ ملیں گے جن کی عمریں کافی طویل رہی ہیں ،مثال کے لئے ملاحظہ ہو :

۱ ) ۔ لقمان کی عمر ۳۵۰۰ سال ۔(۲) عوج بن عنق کی عمر ۳۳۰۰ سال اوربقولے ۳۶۰۰ سال ۔ (۳) ذوالقرنین کی عمر۳۰۰۰ سال۔ (۴) حضرت نوح و(۵) ضحاک و(۶) طمہورث کی عمریں ۱۰۰۰ سال۔(۷) قینان کی عمر۹۰۰ سال ۔ (۸) مہلائیل کی عمر۸۰۰سال (۹) نفیل بن عبداللہ کی عمر۷۰۰ سال۔ (۱۰) ربیعہ بن عمرعرف سطیع کاہن کی عمر۶۰۰ سال ۔ (۱۱) حاکم عرب عامربن ضرب کی عمر۵۰۰ سال ۔ (۱۲) سام بن نوح کی عمر۵۰۰ سال۔ (۱۳) حرث بن مضاض جرہمی کی عمر۴۰۰ سال ۔ (۱۴) ارفخشد کی عمر۴۰۰ سال ۔ (۱۵) دریدبن زیدکی عمر۴۵۶ سال۔ (۱۶) سلمان فارسی کی عمر۴۰۰ سال۔ (۱۷) عمروبن روسی کی عمر۴۰۰ سال۔ (۱۸) زہیربن جناب بن عبداللہ کی عمر۴۳۰سال۔ (۱۹) حرث بن ضیاص کی عمر۴۰۰ سال۔ (۲۰) کعب بن جمجہ کی عمر۳۹۰ سال ۔ (۲۱) نصربن دھمان بن سلیمان کی عمر۳۹۰ سال۔ (۲۲) قیس بن ساعدہ کی عمر۳۸۰سال ۔ (۲۳) عمربن رببعہ کی عمر۳۳۳سال۔ (۲۴) اکثم بن ضبفی کی عمر۳۳۶ سال ۔ (۲۵) عمربن طفبل عدوانی کی عمر۲۰۰ سال تھی (غایۃ المقصود ص۱۰۳ اعلام الوری ص۲۷۰ ) ان لوگوں کی طویل عمروں کودیکھنے کے بعدہرگزنہیں کہاجاسکتا کہ ”چونکہ اتنی عمرکاانسان نہیں ہوتا ،اس لئے امام مہدی کاوجود ہم تسلیم نہیں کرتے ۔ کیونکہ امام مہدی علیہ السلام کی عمراس وقت ۱۳۹۳ہجری میں  صرف گیارہ سواڑتالیس سال کی ہوتی ہے جومذکورہ عمروں میں  سے لقمان حکیم اورذوالقرنین جیسے مقدس لوگوں کی عمروں سے بہت کم ہے ۔

الغرض قرآن مجید ،اقوال علماٴاسلام اوراحادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امام مہدی پیداہوکر غائب ہوگئے ہیں اورقیامت کے قریب ظہورکریں گے ،اورآپ اسی طرح زمانہٴ غیبت میں  بھی حجت خداہیں جس طرح بعض انبیاء اپنے عہدنبوت میں  غائب ہونے کے دوران میں  بھی حجت تھے (عجائب القصص ص ۱۹۱ ) اورعقل بھی یہی کہتی ہے کہ آپ زندہ اورباقی موجودہیں کیونکہ جس کے پیداہونے پرعلماٴکااتفاق ہواوروفات کاکوئی ایک بھی غیرمتعصب عالم قائل نہ ہو اور

طویل العمرانسانوں کے ہونے کی مثالیں بھی موجود ہوں تولامحالہ اس کاموجود اورباقی ہونا ماننا پڑے گا ۔ دلیل منطقی سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے لہذا امام مہدی زندہ اورباقی ہیں ۔

ان تماشواہد اوردلائل کی موجودگی میں  جن کا ہم نے اس کتاب میں  ذکرکیاہے ،مولوی محمد امین مصری کا رسالہ ”طلوع اسلام “ کراچی جلد ۱۴ ص ۵۴# و ۹۴# میں  یہ کہناکہ :” شیعوں کو ابتداء روی زمین پر کوئی ظاہری مملکت قائم کرنے میں  کامیابی نہ ہوسکی ،ان کوتکلیفیں دی گئیں اورپراکندہ اورمنتشر کردیا گیا توانھوں نے ہمارے خیال کے مطابق امام منتظراورمہدی وغیرہ کے پرامید عقائد ایجاد کرلئے تاکہ عوام کی ڈھارس بندھی رہے۔ “

اورملا اخوند درویزہ کاکتاب ارشادالطالبین ص ۳۹۶ میں  یہ فرمانا کہ :
” ہندوستان میں  ایک شخص عبداللہ نامی پیداہوگا جس کی بیوی کاایمنہ (آمنہ) ہوگی ، اس کے ایک لڑکاپیداہوگاجس کانان محمد ہوگاوہی کوفہ جاکرحکومت کرے گا …
لوگوں کایہ کہنا درست نہیں کہ امام مہدی وہی ہیں جوامام حسن عسکری کے فرزندہیں ۔ ا لخ    حددرجہ مضحکہ خیز،افسوس ناک اورحیرت انگیز ہے ،کیونکہ علماٴ فریقین کااتفاق ہے کہ ”المھدی من ولدالامام الحسن العسکری ۔“ امام مہدی حضرت امام حسن عسکری کے بیٹے ہیں اور ۱۵ شعبان ۲۵۵ کوپیداہوچکے ہیں ،ملاحظہ ہو ،اسعاف الراغبین ،وفیات الاعیان ،روضة الاحباب ،تاریخ ابن ا لوردی ،ینابع المودة ، تاریخ کامل ،تاریخ طبری ،نورالابصار،اصول کافی ،کشف الغمہ ،جلاٴالعیون ،ارشادمفید ،اعلام الوری ،جامع عباسی ،صواعق محرقہ ،مطالب السول ،شواہدالنبوت ،ارجح المطالب ،بحارالانوار ومناقب وغیرہ۔

حدیث نعثل اورامام عصر

 نعثل ایک یہودی تھا جس سے حضرت عائشہ ،حضرت عثمان کوتشبیہ دیاکرتی تھیں ،اوررسول اسلام علیہ السلام کب بعد فرمایا کرتی تھیں : اس نعثل اسلامی کو عثمان کوقتل کردو ۔ (ملاحظہ ہو،نہایةاللغة علامہ ابن اثیرجزری ص ۳۲۱) یہی نعثل ایک دن حضوررسول کریم کی خدمت میں  حاضرہوکر عرض پردازہوا مجھے اپنے خدا ،اپنے دین ،اپنے خلفاٴ کاتعارف کرائیے اگر میں  آپ کے جواب سے مطمئن ہوگیا تومسلمان ہوجاؤں گا ۔ حضرت نے نہآیت بلیغ اوربہترین انداز میں  خلاق عالم کاتعارف کرایا،اس کے بعد دین اسلام کی وضاحت کی ۔ ”قال صدقت ۔“ نعثل نے کہا آپ نے بالکل درست فرمایا پھراس نے عرض کی مجھے اپنے وصی سے آگاہ کیجئے اوربتائیے کہ وہ کون ہے یعنی جس طرح ہمارے نبی حضرت موسی کے وصی یوشع بن نون ہیں اس طرح آپ کے وصی کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا میرے وصی علی بن ابی طالب اور ان کے فرزند حسن وحسین پھرحسین کے صلب سے نوبیٹے قیامت تک ہوں گے ۔
اس نے کہا سب کے نام بتائیے آپ نے بارہ اماموں کے نام بتائے ناموں کوسننے کے بعد وہ مسلمان ہوگیا اورکہنے لگا کہ میں  نے کتب آسمانی میں  ان بارہ ناموں کو اسی زبان کے الفاظ میں  دیکھا ہے ،پھراس نے ہروصی کے حالات بیان کئے ،کربلا کاہونے والا واقعہ بتایا ،امام مہدی کی غیبت کی خبردی اورکہا کہ ہمارے بارہ اسباط میں سے لادی بن برخیاغائب ہوگئے تھے پھرمدتوں کے بعد ظاہر ہوئے اورازسرنودین کی بنیادیں استوارکیں  ۔حضرت نے فرمایا اسی طرح ہمارابارہواں جانشین امام مہدی محمدبن حسن طویل مدت تک غائب رہ کر ظہورکرے گا ۔ اوردنیا کو عدل وانصاف سے بھردے گا ۔ (غایۃ المقصود ص ۱۳۴ بحوالہ فرائدالسمطین حموینی )۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

سکیولریزم قرآن کی نظر میں
اسلام کے عقا ئد قرآن کریم کی رو شنی میں
صحیفہ سجادیہ یا زبور آل محمد (ص)
امام حسين (ع) کا دورانِ جواني
دین از نظر تشیع
علم کی فضیلت ۔قرآن وحدیث کی روشنی میں
حضرت علی علیہ السلام کا علم
قرن وسنت کی روشنی میں رمضان المبارک کی خصوصیات و ...
کفرانِ نعمت کے معنی
اما م رضا علیہ السلام اور ذبح عظیم کی تفسیر

 
user comment