اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

عزاداری امام حسین علیہ السلام

دریچہ عزاداری سید الشہداء پر قرآن، سنت اہلبیتؑ و صحابہ کے علاوہ تاریخی شواہد و دلائل بھی موجود ہیں جنہیں یہاں پر نہایت ہی اختصار کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے ۔ قرآن کریم میں گریہ و زاری کا ذکر : ۱۔ ارشاد رب العزت ہے : ﴿فَمَا بَكَتْ عَلَيْهِمُ السَّمَاء وَالْأَرْضُ وَمَا كَانُوا مُنظَرِينَ﴾-(1) پھر تو ان پر نہ آسمان رویا اور نہ زمین اور نہ انہیں

دریچہ
عزاداری سید الشہداء پر قرآن، سنت اہلبیتؑ و صحابہ کے علاوہ  تاریخی شواہد و دلائل بھی موجود ہیں جنہیں یہاں پر نہایت ہی اختصار کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے ۔
قرآن کریم میں گریہ و زاری کا ذکر :
۱۔ ارشاد رب العزت ہے : ﴿فَمَا بَكَتْ عَلَيْهِمُ السَّمَاء وَالْأَرْضُ وَمَا كَانُوا مُنظَرِينَ﴾-(1)
پھر تو ان پر نہ آسمان رویا اور نہ زمین  اور نہ انہیں  مہلت ہی دی گیٔ ۔
تفصیل: یہ آیت کریمہ فرعونیوں اور فرعون کے غرق ہونے کی طرف اشارہ کر کے قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کو ایک حقیقت کی طرف متوجہ کر رہی ہے اور وہ یہ ہے کہ : ’’فرعونیوں کی بد بختی یہ تھی کہ جب ان کے عذاب کے دن آ گئے تو انہیں ایک لمحہ کی بھی مہلت نہیں ملی اور دریائے نیل میں غرق کر دیئے گئے اور ان کی ذلت و رسوائی کی علامت یہ ہے کہ ان کے مٹ جانے پر زمین و آسمان میں کوئی تأثر ظاہر نہیں ہوا  جبکہ ان کا خیال یہ تھا کہ ہم مرجائیں گے تو قیامت آ جائے گی اور بات بھی صحیح تھی کہ ’’خدا ‘‘ کے مر جانے کے بعد کائنات کے باقی رہ جانے کا کیا سوال پیدا ہوتا تھا لیکن قدرت نے واضح کر دیا کہ باطل خدا بھی بن جائے تو اس کے مرجانے پر زمین و آسمان میں کوئی تغیر نہیں پیدا ہوتا ہاں کوئی بندہ خدا راہ خدا میں کام آجائے تو اس کی شہادت پر زمین بھی رو سکتی ہے اور آسمان بھی گریہ کر سکتا ہے، جیسا کہ شہادت حضرت امام حسین  کے بارے میں نقل کیا گیا ہے کہ بیت المقدس کی زمین سے جو پتھر اٹھایا جاتا تھا اس کے نیچے سے خون تازہ جوش ما رہا تھا اور یہی حال آسمان کا بھی تھا کہ اس سے خون کی بارش ہو رہی تھی۔ تاریخ میں ایسے بہت سے مواقع نقل کئے گئے جہاں صاحبان اخلاص و ایمان کے مرنے پر زمین و آسمان میں تأثرات کا اظہار ہوا ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ امام حسین  کی قربانی سب سے بالا تھی تو اس کا اثر بھی سب سے زیادہ ہوا اور کربلا سے بیت المقدس تک ساری زمین متأثر ہو گئی اور شاید یہ بھی شہادت کی ایک معراج ہے کہ اس کے اثرات مسجد الاقصی تک پہنچ جائیں اور زمین و آسمان میں ایک زلزلہ پیدا ہو جائے۔(2)
نکات  
۱) : ممکن ہے کہ زمین و آسمان کا گریہ نہ کرنا فرعونیوں کی حقارت کی طرف اشارہ ہو اور یہ کہ ان کا کوئی یاور و مدد گار نہیں۔ کیونکہ عربوں کا معمول ہے مصیبت زدہ کی اہت ک کو بیان کرنے کے لئے کہتے ہیں : ’’اس پر زمین و آسمان روئے اور چاند سورج تاریک ہو گئے‘‘۔(3)
۲) : یہ بھی کہا گیا ہے کہ زمین و آسمان کا گریہ ایک حقیقی گریہ ہے اور وہ یہ ہے کہ ان کے ما بین مخصوص قسم کی سرخی (طلوع و غروب کے وقت پیدا ہونے والی سرخی سےجدا ) نمودار ہوتی ہے۔۔(4)
۳) : جب ارادہ الہی ہو تو تمام ہستی ہم آہنگ ہو جاتی ہے اس لئے کہا گیا ہے : السماء وَ الارض۔
۲۔ ﴿وَإِذَا سَمِعُواْ مَا أُنزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَى أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُواْ مِنَ الْحَقِّ ...﴾ ۔(5)
’’اور جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر نازل ہوا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ ان کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسو جاری ہو جاتے ہیں کہ انہوں نے  حق کو پہچان لیا ہے۔ ‘‘
تفصیل: اس آیت کریمہ میں خداوند متعال نے ان لوگوں کی عظمت کو بیان کیا ہے جن کے سامنے جب قرآن کریم کی آیات کی تلاوت کی جائے تو ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ حق کی حقیقت کو پہچان چکے ہیں :
نکات
۱۔  اللہ تعالی نے اس موقع پر ہر گز رونے کی مزمت نہیں فرمائی۔
۲۔  وہ اپنے بندوں کی حوصلہ افزائی فرما رہا ہے ۔
۳۔  ان کا رونا بے جا نہیں ہے بلکہ ان کے ایمان و اخلاص اور معرفت کے درجات کی بلندی کا مظہر ہے ۔
۴۔ اگر ہر موقع و محل پر رونا قبیح ہوتا تو خداوند متعال رونے والے مؤمنین کی مدح سرائی نہ فرماتا۔
۵۔  لہذا حق کی حقیقت کو پہچان کر رونا بندگان خدا کی سنت اور ایک خوبی ہے اس لئے خداوند عالم نے اس کو قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے۔
غم امام حسین   میں نبی کریمﷺ کا گریہ و عزاداری
ذخائر العقبی باب ۹ ذکر الحسن والحسین ص ۱۱۹ میں ہے کہ ( جب امام حسین  دنیا میں آئے تو ) آنحضرتﷺ نے  حسین کو گود میں لے کر گریہ کیا جب رونے کا سبب پوچھا فرمایا : میرے اس بچے کو باغی گروہ قتل کرے گا۔
معجم الکبیر ابو القاسم طبرانی ج۳ ، ص ۱۱۴پر لکھا ہے کہ حسین کھیل رہے تھےکہ جبرئیل نے نبی کو خبر دی کہ ’’آپ کا یہ نواسہ شہید کیا جائے گا تو نبی رونے لگے اور ام ّسلمی کو ایک مٹھی خاک کربلا دے کر فرمایا جب یہ رنگین ہو جائے تو سمجھ لینا میرا حسین قتل کر دیا گیا ہے۔‘‘
اگر مصیبت و مظلومیت پر رونا جائز  نہ ہوتا تو بانی شریعت سرورکائنات امام حسین  پر گریہ کر کے اپنے گھر میں عزاداری کی بنیاد نہ رکھتے ، امام حسین  کے مصائب پر رونے والے سب سے پہلے خود نبی کریم ہیں جو خود بھی روئے اپنی ازواج کو بھی رلایا اور اپنے اصحاب کو بھی رلایا۔
غم امام حسین   میں حضرت علی ، حضرت زہرا ، ازدواج نبی اور اصحاب کا گریہ
مسند احمد ابن حنبل ج۱، ص ۷۵ کے مطابق حضرت علی  نے امام حسین  پر گریہ کیا۔
نیز مختلف روایات سے ثابت ہے کہ حضرت زہراء نے بھی گریہ کیا۔
تو ابھی تو حسین زندہ تھے شہید بھی نہیں ہوئے تھے تو جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ حسین  توشہید ہیں اورشہید زندہ ہوتا ہے اور زندہ پر گریہ کرنا صحیح نہیں ہے تو آپ مرسل اعظم اور بانی شریعت کے بارے میں اور حضرت علی ، حضرت زهراء  اور دیگر ازواج النبی اصحاب کے بارے میں کیا کہیں گے جو سب کے سب شہادت کی خبر سن کر گریہ و زاری و عزاداری کر رہے تھے، لہذا حسین پر رونا سنت نبوی اور اہل بیت اور سیرت ازواج نبی اور صحابہ کرام ہے، جیسا کہ ذخائر العقبی، معجم الکبیر ، مسند احمد وغیرہ سے ثابت ہے ۔
امام سجاد  کے بارے میں حضرت امام جعفر صادق  فرماتے ہیں: امام زین العابدین  اپنے بابا کی مصیبت پر چالیس سال روتے رہے اور اس جملے کی تکرار کرتے رہتے میرے بابا بھوکے اور پیاسے شہید کر دئیے گئے اور اتنا روئے کہ کھانا آنسوؤں سے تر ہو جاتا۔
شیخ عباس قمی ؒ نے منتھی الآمال میں روایت نقل کی ہے کہ امام جعفر صادق  نے فرمایا :
’’مَنْ بَکیَ اَو اَبْکَی اَو تَبَاکی وجبت له الجنة ‘‘ جو کوئی امام حسین  کی مظلومیت پر رویا یا اس نے کسی دوسرے شخص کو رلایا یا رونے جیسی صورت بنائی تو اسے کے لئے جنت واجب ہے۔
گریہ تاریخ کی روشنی میں
حضرت یوسف  کے فراق میں حضرت یعقوب  اتنا روئے کہ آنکھیں سفید ہو گئیں-(6)
نبی کریمﷺ اپنے بیٹے ابراہیم کی وفات پر شدت سے روئے۔(7)
نبی کریم ﷺ حصرت حمزہ  کی شہادت پر شدت سے روئے کہ غش کھاگئے۔ (8)
نبی کریم ﷺ نے  حضرت حمزہ   کے جنازے پر رونے والی عورتوں کے حق میں دعا فرمائی۔ (9)
حضرت ابو طالب  کی وفات پر نبیﷺ نے گریہ کیا۔ (10)
تعلیمات قرآن ہی سے ثابت ہے کہ حضرت زکریا   کی قوم کا واقعہ گواہ ہے کہ رونے سے عذاب ٹل جاتا ہے، آتا نہیں ہے۔
حضرت آدم  جب اس زمین پر تشریف لائے تو روتے ہوئے آئے تھے تو جب انسان کی زندگی رونے سے شروع ہوئی اور منحوس نہیں ہوئی اسی طرح جب تم پیدا ہوئے تو دنیا میں روتے ہوئے آئے تو جب زندگی کے پہلے دن رو کر تمہاری زندگی منحوس نہ ہوئی تو آج حسین پر گریہ کرنے اور رونے سے ہمارا سال کیسے منحوس ہو سکتا ہے ۔ لہذا یاد رکھو جب  گریہ بے سبب اور بے جا ہو تو معیوب ہے وگرنہ قرآن،  احادیث، سیرت اور تاریخ سے واضح ہو جاتا ہے کہ رونا فطرت کے مطابق ہے نیز مظلوم کی مظلومیت پر رونا اس سے محبت، عقیدت، انسانی شعور کی بلندی کی علامت ہے۔
زندہ پر رونا
ارشاد خداوندی ہے: ﴿وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاء عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ﴾(11) اور  خبردار راہ خدا میں قتل ہونے والوں کو مردہ  خیال نہ کرنا وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے یہاں رزق پارہے ہیں۔
امام حسین  پر گریہ و زاری اور عزاداری کے مخالفین نے قرآن کی یہ آیت پیش کرتے ہوئے کہنا شروع کیا کہ حسین  شہید ہیں اور شہید زندہ ہے اور اللہ تعالی یہاں سے رزق بھی پاتا ہے پس یہ رونے کا کیا سبب ہے، جبکہ و ہ زندہ ہیں لہذا یہ رونا قرآن کے بالکل مخالف اور خلاف عقل ہے۔
اس کے جواب میں ہم اتنا ہی کہیں گے کہ اگر زندہ پر رونا خلاف قرآن و عقل ہے تو آپ حضرت یعقوب  کے بارے میں کیا کہیں گے جو حضرت یوسف   جو کہ زندہ تھے ان کے فراق میں اتنا روئے کہ آنکھیں سفید ہو گئیں۔
اصل بات یہ ہے کہ جس طرح جناب یوسف  کے بھائی حضرت یعقوب   کے رونے سے ڈرتے تھے کہ ان کا راز فاش ہو جائے گا اس طرح جب دشمنان عزاء نے دیکھا کہ حسین پر رونے کے ذریعے دشمنان دین کے چہروں سے نقاب اتر جائے گا تو کہنے لگے کہ وہ زندہ ہیں اور زندہ پر رونا جائز نہیں ہے تاکہ ان کی سازشوں کا بھانڈا نہ پھوٹنے پائے ۔
فلسفہ گریہ و عزاداری امام حسین
ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہو یا کسی کی جانب سے یہ سوال و اعتراض یا شبہ پیش کیا جائے کہ  امام حسینؑ اپنے عظیم مقصد میں کامیاب ہو گئے اوروہ بلند ترین درجات پر فائز ہو گئے تو پھر ان کے لئے گریہ و عزاداری کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ آخر ان پر گریہ و عزاداری کا فلسفہ کیا ہے ؟
اس کے جواب میں ہم یہ کہنا چاہئیں گے کہ یقیناً امام حسین  اور ان کے اصحاب انصار اپنی شہادت عالیہ کے ذریعے بارگاہ خداوندی میں درجہ کمال اور عظیم ترین مقام مرتبہ پر پہنچے ہیں۔ لیکن ان پر گریہ زاری کی چند وجوہات ہیں جن میں سے ہم یہاں بطور اختصار چند پیش کر رہے ہیں :
۱)۔ امام حسین  پر گریہ و عزاداری ہمارے کردار و گفتار اور روح و جان کی تربیت  میں نہایت مؤثر ہے عزاداری میں شرکت اس خاندان کی نسبت ہماری معرفت میں اضافہ کا باعث ہے۔ یہ ہمارے کردار، گفتار اور رفتار کے لئے نمونہ عمل ہیں، اس میں شرکت ان سے محبت و مؤدت کا سبب ہے جو کہ ’’مودۃ فی القربی ‘‘ یعنی اہلبیت  سے محبت و مودت کا مصداق ہے۔ کیونکہ قرآن نے فرمایا ہے: ﴿...قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى...﴾ (12)کہہ دیجئے میں اپنی رسالت کا تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا سوائے اس کے کہ میرے اقربی سے محبت کرو ۔
حضرت امام جعفر صادق ، امام حسین  پر گریہ اور آنسو بہانے کی علت یوں بیان فرماتے ہیں: ’’امام حسین  پر اشک برسانا در حقیقت حضرت فاطمه  اور پیغمبر اسلام سے ہمدردی اور ادائے حق اہل بیت  کی علامت ہے۔(13)
۲)۔ گریہ امام حسین  در اصل پیغمبر اسلام کی تأسی و پیروی ہے کیونکہ رسول اللہﷺ نے امام حسین  کی ولادت کے موقع پر ان کے مصائب پر گریہ فرمایا ہے۔(14) اور قرآن نے آنحضرتﷺ کی پیروی کا حکم دیا ے ارشاد ہوتا ہے : ’’لقد کان لکم فی رسول الله اسوة حسنة ‘‘-(15) بیشک تمہارے لیے رسول کی سیرت ہی میں بہترین نمونہ عمل ہے۔
۳) قرآن کریم نے ہمیں اہل بیت کی اطاعت کا حکم دیا ہے ارشاد ہوتا ہے : ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ...﴾- (16)اے صاحبان ایمان اللہ اس کے رسول اور اولی الامر کی اطاعت کرو ۔ لہذا عزاداری در واقع اولی الامر یعنی آئمہ معصومین کی اطاعت و پیروی ہے کیونکہ یہ حضرات خود بھی امام حسین   پر گریہ کرتے تھے اور امام حسین  پر گریہ کی تاکید فرماتے تھے ۔ مثلاً:
۱) امام رضا  اپنے والد کے بارے میں فرماتے ہیں : جب محرم آتا تھا تو کوئی میرے بابا کے چہرے پر خوشی و مسکراہٹ کے آثار نہ دیکھتا تھا اور غم و اندوہ اور حزن و ملال آپ کے پورے وجود سے نمایاں ہوتا تھا ۔(17)
۲) : امام حسین  کے لئے گریہ کرنے والوں پر رسول اکرمﷺ نے صلوات بھیجی ہے : ’’اَلاَ وَصَلّی الله عَلی البَاکِینَ علی الحسَین‘‘(18)
۳) : محبوب کی مصیبت پر گریہ کرنا فطری اور عقلی ہے۔ لہذا جسے امام حسین  سے محبت ہے اس کی آنکھیں خود بخود اشک بار ہو جاتی ہیں جس طرح حضرت یعقوب  نے اپنے محبوب دل حضرت یوسف  پر اتنا گریہ کیا کہ آنکھیں سفید ہو گئیں۔(19)
۵) : گریہ در حقیقت امام  حسین  سے محبت اور ان کے دشمنوں سے بیزاری کا اعلان ہے شہید پر گریہ کا مقصد ان کی فدا کاری کو زندہ رکھنا ہے۔
مظلوم پر گریہ در حقیقت ظالم کے خلاف قیام کی یاد آوری ہے اسی لئے ہر دور کا ظالم، مظلوم اور اس کے حامیوں کے گریہ سے ڈرتا ہے حضرت یوسف  کی بھائی حضرت یعقوب  کے گریہ سے ڈر رہے تھے ، اسی طرح حضرت زہراء   کے گریہ سے لوگ خائف تھے کہ ان کے گرئیے سے ظالم کی سازشوں کا بھانڈا پھوٹ جائے گا اس لئے وہاں یوسف کے بھائی، جناب یعقوب کو سمجھا رہے تھے کہ صبر کیجئے، مدینہ میں دنیا کہہ رہی تھی کہ اے علی ؑ زہرا ء سے کہئے کہ یا رات میں گریہ کریں یا دن میں گریہ کریں ۔
لیکن حضرت یعقوب نے بھی گریہ کر کے یوسف کی یاد کو زندہ رکھا، اسی طرح امام سجاد  نے بھی ۴۰ سال گریہ کر کے مظلوم بابا کی یاد کو زندہ رکھا اور آج اہل عزاء امام حسین  سے محبت رکھنے والے بھی گریہ کر کےمظلوم کی یاد کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں ۔
نوحہ خوانی
نوحہ مرنے یا شہید ہونے والے کے محاسن بیان کرنے کا نام ہے تاکہ اس کے ذریعے گریہ و بکا کیا جا سکے، گویا نوحہ گریہ و بکاء کی کثرت کا سبب بنتا ہے جیسا کہ انبیاء  کی سیرت سےمصیبت کے وقت نوحہ خوانی کتب فریقین سے ثابت ہے۔ نوحہ خواہ نثر کی صورت میں یا نظم کی صورت میں اگر اس میں غلط بیانی سے کام نہ لیا جائے تو اس کے جائز ہونے میں کسی شک وشبہہ کی گنجائش نہیں ہے۔
نوحہ خوانی کی چند یاد گار مثالیں
ہم یہاں کتب فریقین سے استفادہ کے ذریعے چند تاریخی مثالیں پیش کر رہے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ  یہ بدعت نہیں بلکہ عین سیرت انبیاء و آئمہ ہدی اور صحابہ کرام ہے ۔
حضرت آدم  و حضرت حوّا  کا نوحہ
جب جناب ہابیل شہید ہوئے تو حضرت آدم  و حوا نےان پر نوحہ کیا تاریخ یعقوبی ج۱ ، ص۳۰ میں ہے :  ’’جب قابیل نے جناب ہابیل کو شہید کیا تو ان کی شہادت پر حضرت آدم  و حوا   طویل عرصے تک نوحہ پڑھتے رہے ۔
حضرت نوح   کا نوحہ
حضرت نوح   کا نام عبدالغفار تھا لیکن کثرت نوحہ کی وجہ نے خداوند عالم نے آپ کو اس نام سے پکارا ہے۔
حضرت ابوبکر کی وفات پر حضرت عائشہ کا نوحہ
تاریخ طبری میں ج۴ ، ص۴۹ ، حوادث ۱۳ ھ میں ہے کہ جب حضرت ابوبکر نے وفات پائی تو حضرت عائشہ نے نوحہ پڑھنے والی عورتوں کو جمع کیا اور اپنے بابا کی وفات پر  نوحہ کے ذریعے خوب گریہ کیا ۔
نبی کریم ﷺ کی وفات پر حضرت زہراء   کا نوحہ
حضرت زہرا  نے اس انداز سے نوحہ کیا : ’’اے بابا آپ کے بعد مجھ پر ایسی مصیبتیں پڑیں کہ اگر روشن دنوں پر پڑتیں تو سیاہ راتوں میں تبدیل ہو جاتے ‘‘۔

----------

حوالہ جات:

 

(1)- سورہ دخان (۴۴) ، آیہ ۲۹ .
(2)- ترجمہ و تفسیر علامہ ذیشان حیدر جوادی ، ذیل آیت کریمہ
(3)- اشارات قرآن و سالار شہیدان، مجید جعفرپور،ص۱۹۹۔
(4)- تفسیر نمونہ، ج۲۱، ص۱۷۹۔
(5)- سورہ مائدہ (۵)، آیت ۸۳ .
(6)- سورہ یوسف ، آیہ ۸۴ .
(7)- صحیح بخاری کتاب الجنائز ، ج۱ ، ص ۱۱۶ طبع مصر .
(8)- سیرۃ الحلبیہ ، ج۲ ، ص۲۶۰ ، طبع مصر .
(9)- مدارج النبوۃ ، ج۲ ، ص۱۳۲ محدث عبدالحق دہلوی .
(10)- تذکرۃ الخواص ، سبط ابن جوزی .
(11)- سورہ آل عمران، آیہ ۱۶۹ .
(12)- سورہ شورای ، آیہ ۲۳ .
(13)- کامل الزیارات ، ص ۱۶۸ ، بحارالانوار، ج۴۵ ، ص۲۰۷
(14)۔ مقتل خوارزمی ، ج۱ ، ص۸۸ ؛ ذخائر العقبی، طبری ، ص۱۱۹ ، باب ۹
(15) ۔ سورہ احزاب ، آیت ۲۱
(16) ۔ سورہ نساء، آیہ ۵۹ .
(17)۔ امالی شیخ صدوق، ص ۱۲۸    
(18)۔ بحارالانوار، ج۴۴، ص۳۰۴ ، عوالم العلوم ، ج۱۷ ، الحسین ؑ ، ص۵۹۸
(19)۔: سورہ یوسف ، آیت ۸۴


source : alhassanain
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عقل کا استعمال اور ادراکات کا سرچشمہ
عید مباہلہ
آیہٴ” ساٴل سائل۔۔۔“ کتب اھل سنت کی روشنی میں
انہدام جنت البقیع تاریخی عوامل اور اسباب
ماہ رمضان کے دنوں کی دعائیں
جمع بین الصلاتین
ہم اور قرآن
نہج البلاغہ کی شرح
شفاعت کا مفہوم
شب قدر کو کیوں مخفی رکھا گیا؟

 
user comment