اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

شبیہ پیغمبر، علی اکبر(ع) کی شہادت کا واقعہ

یقینا زمین اور زمان نے اصحاب حسین(ع) سے زیادہ باوفا اصحاب نہیں دیکھے؛ وہ اصحاب جب تک زندہ تھے اہل بیت پیغمبر(ص) کی کسی ایک فرد کو بھی میدان کارزار میں قدم نہیں رکھنے دیا۔۔۔ لیکن ان میں کی آخری فرد اپنی جان کا نذرانہ پیش کر چکی تو بنی ہاشم کے جوانوں کی باری آئی کہ وہ میدان عشق میں اپنے خ

یقینا زمین اور زمان نے اصحاب حسین(ع) سے زیادہ باوفا اصحاب نہیں دیکھے؛ وہ اصحاب جب تک زندہ تھے اہل بیت پیغمبر(ص) کی کسی ایک فرد کو بھی میدان کارزار میں قدم نہیں رکھنے دیا۔۔۔ لیکن ان میں کی آخری فرد اپنی جان کا نذرانہ پیش کر چکی تو بنی ہاشم کے جوانوں کی باری آئی کہ وہ میدان عشق میں اپنے خون کی ہولی کھلیں۔
علي بن الحسين(ع)" جن کی والدہ کا نام «ليلا بنت ابي مرہ بن عروہ بن مسعود» تھا، اور علي اكبر، کے نام سے مشہور ہیں، خاندان رسول (ص) کے پہلے فرد تھے جنہوں نے امام علیہ السلام سے اذن جہاد مانگا اور میدان کارزار میں قدم رکھا۔
علي اكبر(ع) والد اور والدہ دونوں کی طرف سے شریف ترین سلسلہ نسب کے مالک تھے۔ والد کی طرف سے آباء و اجداد تعارف کے محتاج نہیں ہیں جبکہ آپ کے نانا «عروہ بن مسعود ثقفي» وہ بزرگ صحابی رسول (ص) ہیں جو تبلیغ دین کی راہ میں شہید ہوئے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا: «میں نے عيسي بن مريم (ع) کو دیکھا ہے اور عروة بن مسعود  ان سے بہت زیادہ شباہت رکھتے ہیں۔ آپ (ص) نے انہیں چار بزرگ عرب مردوں میں سے ایک قرار دیا۔
علی اکبر نیک خصال اور نیک سیرت ہونے کے علاوہ انتہائی خوبصورت اور خوش سیمان جوان تھے اور چونکہ آپ پیغمبر اکرم(ع) کی شبیہ تھے اس وجہ سے جب بھی اصحاب پیغمبر(ص) کا اپنے نبی(ص) کی زیارت کو دل چاہتا تھا تو آپ کی زیارت کرتے۔
علم و کمال کے لحاظ سے بھی درج ذیل واقعہ ان کی امام کی نسبت معرفت کے بالاترین درجہ کی عکاسی کرتا ہے:
یہ ان دنوں کی بات ہے جب کاروان حسینی مکہ سے کربلا کی طرف جا رہا تھا تو سفر کے دوران ایک دن بوقت ظہر ایک مقام پر پڑاؤ ڈالا گیا اور امام حسین علیہ السلام استراحت فرما رہے تھے کہ آپ پر معمولی سی نیند کی کیفیت طاری ہوئی اور چند لمحوں بعد چونک کر سر اٹھایا اور فرمایا: انا للہ و انا الیہ راجعون، میں ابھی ایک ہاتف کی ندا سن رہا تھا جو یہ آواز دے رہا تھا: آپ آگے آگے جا رہے ہیں موت آپ کے پیچھے پیچھے آ رہی ہے۔ علی اکبر نے بابا سے عرض کیا: بابا جان! کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ امام نے جواب دیا: کیوں نہیں بیٹا! خدا کی قسم ہم حق پر ہیں۔ علی اکبر نے پوری دلیری سے کہا: پس موت سے کوئی خوف نہیں۔ امام علیہ السلام کو علی اکبر کے اس معرفت بھرے جملے سے عجیب مسرت ہوئی اور فرمایا: بیٹا! خدا وہ بہترین جزا تمہیں عطا کرے جو ایک باپ کی طرف سے بیٹے کو عطا کرتا۔
لیکن یوم عاشور۔۔۔۔۔
شفقت اور ترحم کی بنا پر امام حسین علیہ السلام کی روش اس طرح کی تھی کہ آپ میدان میں جانے والے افراد کو پہلی فرصت میں اذن جھاد نہیں دیتے تھے جب ان کا اصرار بڑھتا تھا تو اذن جھاد ملتا تھا۔ لیکن اس بار امام علیہ السلام کی روش کچھ مختلف تھی جونہی علی اکبر نے اجازت مانگی امام نے انہیں اجازت دے دی۔۔۔ اور یہ رسول خدا کی سنت تھی کہ آپ اپنے قرابتداروں کو دوسروں سے پہلے میدان جنگ میں بھیجا کرتے تھے، برخلاف دوسرے حکمرانوں کے جو اپنوں کو ہمیشہ محفوظ رکھتے ہیں اور دوسروں کو میدان جنگ میں بھیجتے ہیں۔
امام علیہ السلام نے اذن جھاد دینے کے بعد اپنے کڑیل جوان کے سر سے پیر تک ایک مایوسانہ نظر ڈالی اور اس کے بعد آنکھوں کو نیچے کر لیا اور رونا شروع کر دیا۔۔۔
امام حسین علیہ السلام نے علی اکبر کو میدان جھاد میں بھیج کر اپنی انگشت شہادت آسمان کی طرف بلند کی اور دوسرے ہاتھ سے اپنے محاسن مبارک کو پکڑا اور بارگاہ رب العزت میں یوں فرمایا: ’’خدایا! گواہ رہنا اس جوان کو اس قوم کے ساتھ جنگ کے لیے بھیج رہا ہوں جو سیرت میں، صورت میں، رفتار میں گفتار میں تیرے رسول کی شبیہ ہے جب بھی میں تیرے رسول کی زیارت کا مشتاق ہوتا تھا تو اس کو دیکھ لیتا تھا‘‘
اس کے بعد اس آیت کو تلاوت کیا: إِنَّ اللّهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ * ذُرِّيَّةً بَعْضُهَا مِن بَعْضٍ وَاللّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ۔(آل عمران آیات 33 و 34)خداوند متعال نے آدم اور نوح اور آل ابراہیم اور آل عمران کو عالمین پر برتری اور فضیلت عطاکی یہ ایک ہی نسل ہے ان میں سے بعض بعض کی اولاد ہیں، اور ﷲ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔
علی اکبر سپاہ یزید پر حملہ آور ہوئے اور بہت سارے یزیدی سپاہیوں کو واصل نار کیا۔ رفتہ رفتہ زخموں کی تعداد جسم مبارک پر بڑھتی گئی اور ساتھ ساتھ پیاس میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ علی اکبر بے تاب ہورہے تھے۔ اسی حال میں ایک شقی نے سراقدس پر وار کیا جس کی وجہ سے علی اکبر کی آنکھوں کے سامنے خون کا پردہ حائل ہوا، علی اکبر گھوڑے کی پیٹھ پر نہ سنبھل سکے۔ گھوڑے کی گردن پر باہیں ڈالی تاکہ زمین پر نہ گریں مگر گھوڑا خیام کی علی اکبر کو لے جانے کے بجائے دشمنوں کے ازدحام اور خنجر وشمشیروں کے واروں کے بیچ علی اکبر کو لے گیا؛ چنانچہ یزیدی لشکریوں نے گھوڑے کے گرد گھیرا ڈالا اور ہر کوئی دستیاب ہتھیاروں سے شبیہ رسول اللہ (ص) کے جسم مطہر پر وار کرنے لگا۔ بقول راوی «فقطعوہ اربا اربا» ظالموں نے ان کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کردئے۔۔۔
اکبر کی صدائے الوداع امام کے کانوں میں گونجی: ’’يا ابتاہ عليك مني السلام ھذا جدی رسول اللہ ــ بابا جان، خدا حافظ میرا آخری سلام قبول کیجیے، یہ ہیں میرے جد رسول اللہ (ص) جو میرے سرہانے بیٹھے ہیں اور پانی کا بھرا جام مجھے پلارہے ہیں‘‘۔۔۔
 امام (ع) سرعت کے ساتھ اپنے نوجوان بیٹے کی لاش پر پہنچے۔ ’’ووضع خدہ علی خدہ‘‘ آپنے چہرہ کو بیٹے کے چہرے پر رکھا اور فرمایا: "علی الدنيا بعدك العفا ــ  تیرے جانے کے بعد اس دنیا پر اف اور افسوس ہے!!"...
 اس کے بعد ــ حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقولہ زیارت نامے کے مطابق ... امام (ع) نے بیٹے کے خون میں سے ایک چلو خون بھرا اور اسے آسمان کی طرف اچھالا اور عجب یہ کہ خون کا ایک قطرہ بھی زمین پر واپس نہ آیا...
حضرت زينب (س) نے جب یہ منظر دیکھا تو تیزی سے خیام سے باہر آئیں اور فریاد کرکے فرمایا: "يا اخیاہ و يابن اخاہ ـ اے بیٹے اور اے میرے بھتیجے" اور اکبر کے جسم بےجان پر گرگئیں۔
امام نے زینب کو سنبھالا اور خیموں کی طرف واپس لوٹایا اور جوانوں کو آواز دی: ’’اپنے بھائے کی لاش اٹھاؤ اور خیموں میں پھنچا دو" ۔۔۔
 ہاں! امام (ع) تمام شہداء کو خود اٹھا کر خیموں میں لاتے رہے تھے مگر دو شہیدوں کو نہ لاسکے جن کی شہادت نے آپ (ع) کی کمر توڑدی تھی؛ بیٹا علي اكبر(س) ؛ اور بھائی ابوالفضل العباس (س)۔۔۔
الا لعنة الله علی القوم الظالمین – وسیعلم الذین ظلموا ایّ منقلب ینقلبون۔


source : abna24
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عقل کا استعمال اور ادراکات کا سرچشمہ
عید مباہلہ
آیہٴ” ساٴل سائل۔۔۔“ کتب اھل سنت کی روشنی میں
انہدام جنت البقیع تاریخی عوامل اور اسباب
ماہ رمضان کے دنوں کی دعائیں
جمع بین الصلاتین
ہم اور قرآن
نہج البلاغہ کی شرح
شفاعت کا مفہوم
شب قدر کو کیوں مخفی رکھا گیا؟

 
user comment