اردو
Thursday 28th of March 2024
0
نفر 0

داعش سے مقابلہ کر کے ایران بشریت کی سب سے بڑی خدمت کر رہا ہے

روزنامہ صدائے حسینی کے مطابق امیر الحجاج ایرانی حضرت حجة الاسلام والمسلمین حاج آقائی سید قاضی عسکر حفظہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ مدیر اعلیٰ روزنامہ صدائے حسینی سید جعفر حسین نے ایک خصوصی انٹرویو لیا ہے جسے قارئین کے لیے پیش کیا جاتا ہے:
داعش سے مقابلہ کر کے ایران بشریت کی سب سے بڑی خدمت کر رہا ہے

 روزنامہ صدائے حسینی کے مطابق امیر الحجاج ایرانی حضرت حجة الاسلام والمسلمین حاج آقائی سید قاضی عسکر حفظہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ مدیر اعلیٰ روزنامہ صدائے حسینی سید جعفر حسین نے ایک خصوصی انٹرویو لیا ہے جسے قارئین کے لیے پیش کیا جاتا ہے:

 امام خمینی کی27 ویں برسی کے موقع پر امیر الحجاج ایرانی حضرت حجة الاسلام والمسلمین آقائی سید قاضی عسکر آج کل حیدرآباد تشریف لائے ہوئے ہیں۔ ان کی موجود گی کو غنیمت جان کر روزنامہ صدائے حسینی کے مدیر اعلیٰ سید جعفر حسین نے موصوف سے ایک تفصیلی انٹرویو لیا ۔ اس اٹنرویو سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس سال ایرانی حجاج کی حج سے محرومی کا اصل سبب خود سعودی حکومت ہے جو الٹا اس محرومی کا مورد الزام ایران کو ٹھہرا رہی ہے۔

 مدیر اعلیٰ صدائے حسینی:سلام علیکم ! آپ کی موجود گی ہمارے لئے باعث فخر ہے کہ رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای کے امور حج و عمرہ میں نمائندہ کے ساتھ بیٹھنے کاشرف حاصل ہو رہا ہے ۔

امیر الحجاج ایرانی : وعلیکم السلام ! بسم اللہ الرحمن الرحیم مجھے بھی بڑی خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ آپ حضرات کے درمیان موجود ہوں۔

 مدیر اعلیٰ صدائے حسینی: آج کل اخباروں کی سرخیوں میں جو خبر چھائی ہوئی ہے وہ یہ کہ سعودی کی طرف سے ایران پر یہ الزام لگایا جار ہا ہے کہ ایران حج کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کر رہا ہے، کیا یہ خبر صحیح ہے ؟

  امیر الحجاج ایرانی: ہم نے کبھی بھی سعودی عرب میں حج کے موقع سے سیاسی یا ذاتی فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی۔ ہم کو قریب سے جاننے والے بخوبی جانتے ہیں کہ ہماری تاریخ دنیا کے لئے بالکل واضح ہے ۔ ہم نے کبھی مسجد الحرام، مشاعر، مدینہ میں سیاسی نعرے نہیں لگائے ۔ ہماری ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ سعودی حکومت کے مقرر کردہ قوانین کی پابندی کی جائے۔ مثال کی طور پر گذشتہ سال وزیر حج نے مدینہ منورہ میں جنت البقیع میں دعائے کمیل پڑھنے سے منع کر دیا تھا تو خود ذاتی طور پر میں نے ایک خط محمد بن نائف کو لکھا دعائے کمیل کے حوالے سے تو محمد بن نائف نے نہ صرف یہ کہ دعائے کمیل کی اجازت دے دی بلکہ کچھ سال پہلے انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ دعائے کمیل جو سراسر توحید سے پُر ہے ہمارے لئے باعث افتخار ہے۔ جب یہ دعا ہوئی تو سعودی حکومت کے سکیورٹی فورسز نے سارے علاقے کو اپنے گھیرے میں لے لیا اور ایکس رے مشینیں وہاں نصب کر دی گئیں تھیں تاکہ دعا میں شرکت کرنے والوں کی مکمل تلاشی لی جائے۔ہم ہر سال حج کے موقع پر امت اسلامیہ سے قریب ہونا چاہتے ہیں۔ ہم نے ہمیشہ وحدت اسلامی کی بات کہی اور کر رہے ہیں ۔ حضرت امام خمینی نے فتویٰ دیا تھا کہ شیعہ حضرات حرم مکی اور مدینہ منورہ کی جماعت کی نماز میں وہاں موجود پیش نماز کے پیچھے نماز پڑھیں۔ ہوٹلوں میں اپنی نمازیں ادا نہ کریں۔ ائمہ جمعہ و جماعت جو وہاں نماز پڑھا رہے ہیں ان کے پیچھے نماز پڑھیں اور پھر دوبارہ اس نماز کا اعادہ نہ کریں۔ ہم شیعہ سجدہ گاہ پر خا ک پر یا زمین پر یا زمین سے نکلنے والی چیزوں پر سجدہ کرتے ہیںامام خمینی نے مکہ اور مدینہ کے لئے یہ فتویٰ دیا تھا کہ وہاں فرش پر بھی سجدہ صحیح ہے اور یہی فتویٰ آیت اللہ خامنہ ای کا ہے۔ ہم نے کبھی بھی وہاں سیاسی کام نہیں کیا۔ میں نے کئی بار مختلف انٹرویوز میں یہ کہا ہے کہ مکے کا پُر امن ہونا در اصل خود اپنے ملک کے پُر امن ہونے کے مترادف ہے۔ ہم نے صاف الفاظ میں یہ اعلان کر دیا کہ جو بھی مکے کا پُر امن ماحول بگاڑے گا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ اس کے باوجود سعودی ہم پر یہ الزام لگا رہے ہیں کہ ہم حج کو سیاسی رنگ دے رہے ہیںجبکہ خود سعودی حکومت اس کو سیاسی رنگ دے رہی ہے۔ اس ایسے شرائط سعودی حکومت نے ہم پر لگائیں ہیں کہ ہم اصلاً حج سے محروم ہو جائیں۔ حج کے بارے میں مذاکرات کو چار سے پانچ مہینوں تک ٹالتا رہا ۔ سیاسی کام وہ کر رہے ہیں اور الزام ہم پر لگا رہے ہیں۔ مکے میں مدینے میں وہاں کے جمعہ کے خطیب شیعوں پر حملہ کرتے ہیں نہ صرف شیعوں پر بلکہ اہل تصوف کو بھی اسلام سے خارج سمجھتے ہیں۔ قادریہ ، نقشبندیہ، چشتیہ سلسلوں کے افراد کو وہ بھی وہ غیر مسلمان سمجھتے ہیںجب کہ ہم شیعہ ، اہل تصوف کو مسلمان سمجھتے ہیں، انہیں محبت اہل بیت سمجھتے ہیں۔ سعودی عرب ہر سال حج کے موقع پر دنیا کی 20 زبانوں میں 11ملین کتاب وہابیت کے عقائد کے پرچار کے لئے شائع کرکے تقسیم کرتا ہے۔ یہ کام سیاسی ہے یا وہ جو ہم کر رہے ہیں ؟ہمارے حجاج کے پاس موجود قرآن مجید کے نسخوں کو لے کر سعودی کارندے شیعہ قرآن کہہ کر پھینک دیتے ہیں۔ مناسک حج کی کتابیں یا لیب ٹاپس کو پھینک دیتے ہیں۔ ہم نے کبھی سیاسی استفادہ کی کوشش نہیں کی۔ حج ایک ایسا مقدس فریضہ ہے جہاں ایک ملک کے مسلمان دوسرے ممالک کے مسلمانوں سے آشنا ہوتے ہیں۔ ہمارا ماننا یہ ہے کہ حج میں مل جل کر رہنا چاہیے۔ حج کے دوران فرقوں کی بحث نہیں ہونی چاہیے ۔ بدقسمتی سے سعودی حکومت کی جانب سے ایرانی حجاج کو غیر ایرانیوں سے میل ملاپ سے منع کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی ایرانی حاجی کسی غیر ایرانی حاجی سے خیریت بھی دریافت کرتا ہے تو پولیس والے آکر اس غیر ایرانی حاجی کی سرزنش کرتے ہیں کہ کیوں ایرانی سے بات کرر ہے ہو۔یہ سعودی حکومت کے کام سیاسی نہیں ہیں تو اور کیا ہیں؟ جو لوگ خود کو خامین حرمین شرفین کہہ رہے ہیں وہ تو کم از کم جھوٹ نہ بولیں کہ ایران کو حج کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرر ہا ہے۔ ہم نے اس سال اپنی پوری کوشش کر لی کہ کسی طرح ہماری عوام حج سے محروم نہ ہوں لیکن سعودی حکومت مانع ہوئی ۔ مذکرات کی آخری ملاقات میں بھی وہ ایرانی حجاج کو سکیورٹی کی ضمانت نہیں دے سکے۔ سعودی حکومت نے ایسی ناقابل قبول شرائط عائد کی ہیں جوایرانی حجاج کو حج سے محروم کرنے کی اصل وجہ ہے۔

  مدیر اعلیٰ صدائے حسینی: آخر وہ ناقابل قبول شرائط کیاہیں جو سعودی حکومت ایرانیوں پر عائد کرنا چاہتی ہے؟

 امیر الحجاج ایرانی: سب سے اہم مسئلہ کا ویزا دینے کا تھا ۔ چونکہ سعودی کا کوئی سفارت خانہ یا قونصل خانہ ایران میں فعال نہیں ہے تو ہم نے ان سے کہا کہ مشہد میں سوئٹزرلینڈ کے پرچم تلے اپنے عملے کو لا کر ایرانی حجاج کو ویزا دے دیا جائے جن کی تعداد 64 ہزار ہے لیکن انہوں نے اس بات کو قبول نہیں کیا۔ پہلی ہی بیٹھک میں ویزااور جہاز کی بات ہوئی۔ وزیر حج نے الکٹرونک ویزا دینے کی بات کہی ۔ایک شرط انہوں نے یہ لگائی کہ کوئی ایرانی طیارہ ایرانی حجاج کو لے کر سعودی سرزمین پر نہیں اتر گا۔ دوسری بیٹھک میں انہوںنے یہ کہا کہ ایرانی طیارہ ایرانی حجاج کو لے کر نہیں آئے گا بلکہ آدھے حجاج کو ایرانی طیارے لائیں گے اور آدھے کو سعودی طیارے لائینگے۔ ہم نے ان سے کہا کہ ایران کے پاس اپنے ساری حجاج کو اپنے ہی طیاروں میں لے جانے کی گنجائش موجود ہے۔ حجاج کی سکیورٹی کے حوالے سعودی حکومت نے کوئی ذمہ داری لینے سے انکار کر دیا۔ ایک اور شرط انہوں نے یہ لگائی کہ ایران کے حجاج جن عمارتوں میں رہتے ہیں ان عمارتوں پر ایرانی پرچم نہیں لہرایا جائے گا جبکہ ہر ملک سے تعلق رکھنے والے جس عمارت میں رہتے ہیں وہ اپنے ملک کا پرچم اس عمارت پر لہراتے ہیں۔ ہندوستان، ترکی سبھی اپنا پرچم لہراتے ہیں۔ ایک اور شرط انہوں نے جو عائد کی وہ یہ کہ 45سال سے کم عمر خواتین صرف اپنے محرم کے ساتھ ہی حج پر آسکتی ہیںجبکہ فقہ جعفری میں جس خاتون پر حج واجب ہو جائے اس کا محرم کے ساتھ حج پر جانے کا لزوم نہیں ہے اور اس سے ہٹ کر دوسری بعض فقہوں میں بھی ایسا ہی ہے۔ ایک شرط یہ بھی لگائی گئی کہ ایرانی حج مشن کے لوگ کسی اور ملک کے حج مشن کے لوگوں سے ملاقات نہیں کریںگے جبکہ یہ ملاقاتیں اس نیت سے ہوتی ہیں کہ حج میں ایک دوسرے کے تجربے سے استفادہ کیا جاتا رہے۔ ہندوستان میں اتنے سیاح باہر سے سیاحت کے لئے یہاں آتے ہیں اور ہندوستان نے ان کی سکیورٹی کی ذمہ داری لی ہوئی ہے اور یہ شرائط عائد نہیں کرتی فلاں جگہ نہیں جا سکتے فلاں سے نہیں مل سکتے۔ حج مسلمانوں کو ایک دوسرے سے قریب کرنے اور ان کی مشکلات کو دور کرنے کے لئے ایک مرکز کا کام کرتا ہے ۔ گذشتہ سال بھگ ڈڑمچی اس میں 461ایرانی حجاج جاں بحق ہو گئے۔ ایسے میں سفارت خانہ ، قونصل خانہ کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ سفارت خانہ جو کام کرتا ہے وہ کون انجام دے گا؟ حجاج جب حج پر جاتے ہیں تو ان میں کوئی بیمار ہو جاتا ہے، کوئی حادثے کا شکار ہو جاتا ، کسی موت واقع ہو جاتی ہے ، کسی کا پاسپورٹ گم جاتا ہے ایسے میں سفارت کا اہم رول ہوتا ہے۔ جب سفارت خانہ موجود ہی نہیں ہے تو اگر کسی کا پاسپورٹ گم جائے تو دوسرا پاسپورٹ کون جاری کرے؟ وزیر حج یہ کہتے ہیں کہ میرے اختیار ات محدود ہیں ، یہ کام وزارت خارجہ کا ہے۔ البتہ جو کچھ ہو سعودی حکام سد فی سبیل اللہ کر کے ایرانی حجاج کو حج سے روک کر گناہ کبیرہ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

   مدیر اعلیٰ صدائے حسینی: میڈیا کے ذریعے سعودی حکام یہ افواہ پھیلا رہے ہیں کہ ایران کے شیعہ حج کو اہمیت نہیں دیتے اس لئے اس سال حج پر وہ نہیں آرہے ہیںتو اس سلسلہ میں ایران کیا اقدامات کر رہا ہے؟

 امیر الحجاج ایرانی: ہمارے عہدیدار انٹرویوز دے رہے ہیں اور ذرائع ابلاغ تک اپنی بات پہنچا رہے ہیں ۔آج کل پیڈ میڈیا(paid-media) دور دورہ ہے ۔ سعودی حکام ان کو پیسہ دیتے ہیں۔ جو لوگ حق کو پہنچا سکتے ہیںان لوگوں کو حق پہنچانے نہیں دیا جاتا۔ ذرائع ابلاغ پر صہیونی طاقتوں کا غلبہ ہے۔وہ نہیں چاہتے کہ حقائق لوگوں تک پہنچیں۔

 مدیر اعلیٰ صدائے حسینی: ایران اس مسئلہ کو لے کر اقوام متحدہ کیوں نہیں جاتا؟

امیر الحجاج ایرانی: اقوام متحدہ کے اپنے قوانین و ضوابط مقرر ہیں ۔ وہ ان تمام امور کو جانتا تو ہے لیکن قانونی طور پر ان میں مداخلت نہیں کر سکتا۔ میرا ذاتی طور پر یہ ماننا ہے کہ ایران اور سعودی اس خطے کے دو اہم اور بڑے ملک ہیں۔ ان کو قریب آناچاہیے اور اپنے تعلقات کو بحال رکھنا چاہیے۔ سعودی حکام سب کے سب ایسے نہیں ہیں جو تعلقات نہیں چاہتے بلکہ بعض سعودی حکام ایران سے اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں لیکن بعض کو ان دونوں ملکوں کا قریب آنا ہضم نہیں ہوتا وہ مسلسل ایران کے خلاف پروپگنڈہ کرتے رہتے ہیں۔ہم نہیں چاہتے کہ ان دو ملکوں کے درمیان فاصلے بڑھیں۔

مدیر اعلیٰ صدائے حسینی: سعودی نے دہشت گردی کے خلاف جو 34ملکوں کا اتحاد بنایا ہے ان میں عراق، شام، لبنان کو شامل نہیں کیا گیا ہے ؟ اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟

 امیر الحجاج ایرانی: سعودی نے دہشت گردی کے خلاف جو 34ملکوں کا اتحاد بنایا ہے وہ در اصل عوام کو دھوکہ دینے کے لئے ہے اور ایک نعرے سے زیادہ اس میں کوئی دم نہیںہے۔عراق میں داعش نام کا ایک گروہ آتا ہے اور عراق کے بیشتر علاقوں پر قبضہ کر لیتا ہے بے گناہ لوگوں کے گلے کاٹتا ہے، ان کی عورتوں کو اپنے تصرف میں لے لیتا ہے ، چار سو سے زیادہ سنی علماء کا قتل کرتا ہے، عیسائیوں کے گرجا گھر ڈھا دیتا ہے، ایزدی عورتوں کو انٹرنٹ کے ذریعہ اور بازاروں میں لے جاکر فروخت کرتا ہے۔ایسے میںعراقی حکومت ایران سے مدد کی درخواست کر تی ہے ایران اپنے پڑوسی ملک کی مدد کے لئے جاتا ہے اور داعش کا قلع قمع کرنے میں اس ملک کی مدد کرتا ہے تو ہم سے کہا جاتا ہے کہ ہم دہشت گردی کے حمایت کر رہے ہیںجبکہ آج تک ایک بھی ایرانی نے کوئی خود کش حملہ نہیں کیا۔ کسی کو حق نہیں کہ بے گناہ لوگوں پر حملے کرے یا کروائے ۔ ہم بے گناہ لوگوں پر حملہ کرنے کو حرام سمجھتے ہیں۔ اسی وجہ سے رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای کا صریح فتویٰ موجود ہے کہ عام تباہی کے ہتھیار بنانا ، بیچنا ، خریدنا ، استعمال کرنا سب حرام ہے۔ اس کے بر عکس سعودی حکام کی داعش کو مدد کرنے انہیں مالی تعاون فراہم کرنے کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔خود امریکہ یہ کہہ رہا ہے کہ 9/11 کا حملہ سعودی باشندوں نے کیا ہے اور امریکی پارلیمنٹ سعودی کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا رہی ہے۔ یمن میں سعودی فورسز بے گناہوں کو قتل کر رہے ہیں۔ شام میں موجود ایک قانونی حکومت کو ہٹانا چاہتے ہیں اور اس کی جگہ دہشت گردوں کو حکومت دلوانا چاہتے ہیں۔ سب سے زیادہ دہشت گردی کا شکار اگر کوئی ملک ہو اہے تو وہ ایران ہے۔ منافقین خلق جنہوںنے ایران کے کئی ہزار لوگوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا آج مغربی دنیا میں پناہ لئے ہوئے ہیں اور مغربی دنیا ان کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ اسرائیل نے ہمارے ملک کے نیوکلئیر سائنٹسٹوں کو قتل کروایا ۔ اس کے باوجودہم پردہشت گردوں کی حمایت کا الزام لگا یا جارہا ہے۔

 مدیر اعلیٰ صدائے حسینی: ایران سعودی مخاصمت کا سلسلہ کب تک چلتا رہے گا؟ کیا کوئی ملک مصالحت کے لئے آگے نہیں آیا؟

 امیر الحجاج ایرانی: ہم کسی ملک سے بھی اپنے تعلقات خراب کرنا نہیں چاہتے ۔ ہم تو بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں۔ سعودی عرب کے سفارت خانے کے ساتھ جو کچھ ہوا ۔ رہبر معظم ، ایرانی صدر نے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ جن لوگوں نے حملہ کیا تھا ان میں کے اکثر افراد کو گرفتار کر کے ان پر مقدمہ چلایا جارہا ہے اور عنقریب ان کو سزا ملے گی۔ اس کے بر عکس سعودی نے لبنان میں ایرانی سفارت خانے پر بم برسایا تھا لیکن ہم نے سعودی سے تعلقات نہیں توڑے۔

   مدیر اعلیٰ صدائے حسینی: ایران کی بڑھتی ہوئی طاقت یا مکتب کے پھیلنے سے روکنے کے لئے یہ اقدامات کئے جارہے ہیں؟

  امیر الحجاج ایرانی : ایران نے نیوکلیر مذاکرات میں جو دنیا کی بڑی طاقتوں پر کامیابی حاصل کی اس سے بعض لوگوں کو الجھن ہو رہی ہے وہ پریشان ہے کہ کہیں ایران اس اپنا اثر رسوخ ان ممالک پر استعمال کر کے اپنی طاقت کو بڑھا نہ لے۔ آج مختلف ممالک کے بڑے بڑے عہدیدار ایران کا دورہ کر رہے ہیں یہ بات ایران کے مخالفین کو کھل رہی ہے۔ ان کو یہ وہم ہو گیا ہے کہ ایران طاقت ور بن رہا ہے جب کہ ہم نے کبھی کسی پر حملہ نہیں کیا۔ صدام کی جانب سے مسلط کردہ آٹھ سالہ جنگ میں کویت نے صدام کی حمایت کی تھی لیکن جب صدام نے کویت پر حملہ کیا تو ایران نے کویت کا ساتھ دیا۔ 37سال سے ہم دٹے ہوئے ہیں اور آٹھ سالہ جنگ میں 30سے زیادہ ممالک نے صدام کا ساتھ دیا لیکن ہم کامیاب اس جنگ سے پلٹے۔ ایران اس طرح کی حرکتوں سے کمزور پڑنے والا نہیں ہے۔ ہم اعلان کرتے ہیں کہ اسرائیل کے علاوہ دنیا کے تمام ملکوں سے ہم اچھے تعلقات چاہتے ہیں بشرطیکہ طرف مقابل کی عزت کا لحاظ کیا جائے۔

 مدیر اعلیٰ صدائے حسینی: ایران پر میڈیا کی جانب سے یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ایران اس خطے میں یمن، لبنان، سعودی، بحرین ، کویت ، فلسطین کو لے کر ایک شیعہ پٹی بنانا چاہتا ہے؟

   امیر الحجاج ایرانی: ایران ہر مظلوم اور محروم کی مدد کرتا ہے ۔ بوسنیا اور فلسطین میں ہم نے جو مدد کی ہے کیا وہ شیعہ ہیں ؟ بشریت کی سب سے بڑی خدمت ایران، داعش سے لڑ کر رہا ہے کیونکہ داعش شام اور عراق کے بعد سعودی عرب پر حملہ کرنا چاہتے ہیں اور حملہ کر کے کعبة اللہ اور مدینہ منورہ میں روضۂ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو توڑنے کا ناپاک ارادہ رکھتے ہیں۔ ایران تنہا ملک ہے جو داعش کے خلاف کھڑا ہوا ہے۔ سعودی حکام دہشت گردی کے خلاف زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں کرتے کیونکہ عملاً روس ہے جو داعش سے لڑ رہا ہے۔

 مدیر اعلیٰ صدائے حسینی:وزیر اعظم ہند نریندر مودی نے حالیہ عرصہ میں ایران کا سفر کیا ہے ان کے اس سفر کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟

   امیر الحجاج ایرانی: وزیر اعظم ہند کا سفر بہت اچھا رہا۔ چابہار بندرگاہ کے پروجیکٹ کی قرارداد کے علاوہ کئی ثقافتی قراردادوں پر دستخط ہوئے۔ ہندوستان دنیا کے مسلمانوں کی تعداد کے حساب سے اگر پہلے مقام پر نہیں تو دوسرے مقام پر تو ضرور ہے۔ ہندوستان میں تمام ادیان کے لوگ صلح و صفائی اور بھائی چارہ کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ ہمارے روابط اور زیادہ بڑھنا چاہیے ۔ ہندو، مسلم ، سکھ، عیسائی سب ان قراردادوں سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ ہندوستان کا تجارتی مال اس بندرگاہ سے ایران آ سکتا ہے۔ ہمارے صدر حسن روحانی بھی امکان ہے کہ عنقریب ہندوستان کا دورہ کریں ۔  

 مدیر اعلیٰ صدائے حسینی: گذشتہ سال حج کے موقع پر منیٰ میں جو حادثہ پیش آیا اس کی اصل روداد بیان کیجیے ، ایسی خبریں بھی سامنے آئیں تھیں کہ یہ حادثہ ہوا نہیں بلکہ سعودی حکام نے کروا کر ایرانی اہم شخصیتوں کو اس کی بھینٹ چڑھا دی ہے، اس بات میں کس حد تک سچائی ہے؟

 امیر الحجاج ایرانی: گذشتہ سال حج کے موقع پر منیٰ میں جو حادثہ پیش آیا خود سعودی حکومت کی وزارت صحت عامہ کی سائٹ پر جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 8030بتلائی گئی ہے جن میں ایران سے تعلق رکھنے والے جاں بحق حجاج کی تعداد 461ہے ۔واقعہ یہ ہوا کہ ہمیشہ ایرانی حجاج کو جس شاہراہ سے گذارا جاتا تھا گذشتہ سال اس شاہراہ سے نہیں گذار کر شاہراہ نمبر 250سے جانے کے لئے کہا گیا جس کا میں خود عینی شاہد ہوں۔ جب وہ اس روٹ پرچل پڑے تو سعودی پولیس نے انہیں وہاں روک لیا پیچھے سے آنے والے حجاج کا ریلہ جب وہاں پہنچا تو بھیڑ کافی بڑھ گئی اور اس وقت درجہ حرات 50 ڈگری تھا شدت کی گرمی اور بھیڑ کی وجہ سے حجاج کو سانس لینے میں تکلیف ہونے لگی جس کی وجہ سے لوگ وہاں موجود سیڑھیوں سے اوپر چڑھنے لگے تاکہ دھکم پیل سے بچ جائیں۔ وہ بوڑھے لوگ جو دم گھٹنے کی وجہ سے نیم بے ہوشی کی حالت میںتھے وہ وہیں گرنے لگے اور ان پرسراسیمی کے عالم میں لوگ دوڑنے لگے۔ یہ حادثہ عمداً کروایا نہیں گیا ہے بلکہ سعودی حکام کی لاپرواہی اور عدم صلاحیت (Mismanagement)کا نتیجہ ہے۔ اگر وہ حجاج کو روکتے نہیں تو یہ دلخراش واقعہ بھی شاید پیش نہ آتا جس میں خود سعودی عرب کے تقریباً ایک ہزار حجاج مارے گئے ۔ ہم نے اس سلسلہ میں تحقیقات کیں ، ایک ہزار سے زائد لوگوں کے انٹرویو رکارڈ کئے جس سے یہ نتیجہ نکلا کہ اگر حجاج کو روکا نہیں جاتا تو حادثہ پیش نہیں آتا۔ اگر بروقت ہیلی کاپٹر سے ہوا چھوڑی جاتی یا پانی کا چھڑکاؤ بھی کردیا جاتا تو جو حجاج ابھی زندہ تھے وہ بچ جاتے اور مرنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ نہ ہوتی۔ صبح کے 8.30 بجے یہ واقعہ پیش آیا اور رات کے ایک بجے تک بچاؤ کا کام جیسا شروع ہونا چاہیے تھا شروع نہیں ہو سکا ۔ حجاج کے جنازے سڑک پر پڑے ہوئے تھے۔ ہسپتالوں میں سہولیات کی عدم فراہمی کی وجہ سے بہت سے حجاج جو زندہ ہسپتال لے جائے گئے تھے ہسپتالوں میں ہی دم توڑ دئیے۔ گوشت لے جانے والے کنٹینروں (Containers)میں بھر کر حجاج کی لاشوں کو کولڈ اسٹوریج(Cold Storage) لے جایا گیا جہاں گنجائش کی کمی کی وجہ سے وہ لاشیں اسی کنٹینروں میں رکھی رکھی سڑ گئیں۔ بہت سے لوگ زندہ تھے اگر بروقت امداد ان تک پہنچ جاتی تو وہ بچ سکتے تھے۔ ایران کے 42حجاج کو بغیر اجازت کے مکے ہی میںسعودی حکام نے دفن کر دیا۔ اگر ایران احتجاج نہ کرتا تو باقی حجاج کو بھی بغیر اطلاع کے وہیں دفن کر دیتے لیکن ایران کے احتجاج کے نتیجے میں باقی حجاج کی لاشوں کو ایران لا کر ان کے ورثاء کے حوالے کیا گیا۔ سعودی عرب نے اب تک ان حجاج کی دیت نہیں دی جو کرین کے حادثے میں اور بھگ دھڑ میں مارے گئے جبکہ سعودی ہر روز 10 ملین بیریل تیل بیچتا ہے۔ ہم نے اس حادثے پر تین جلدیں کتاب مرتب کر کے چھپوائی ہے۔ مختلف ممالک کے لوگوں کے انٹرویوز لیے ہیں۔ اتنے بڑے حادثے کے بعد اب بھی سعودی حکومت حجاج کی جانوں کی حفاظت کے حوالے سے کوئی ٹھوس قدم اٹھانے کو تیار نہیں ہے۔

  مدیر اعلیٰ صدائے حسینی: ایک سوال خود اپنے شہر حیدرآباد سے متعلق یہ ہے کہ یہاں کے لوگ حیدرآباد سے راست مشہد کی فلائٹ کے منتظر ہیں ، آپ اس حوالے سے کچھ اقدام کریں؟

  امیر الحجاج ایرانی: مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہاں سے فلائٹ کے متعلق لوگوں کا تقاضہ ہے۔ ابھی معلوم ہوا ہے۔ حیدرآباد ایک ایسا شہر ہے جہاں اہل بیت کے چاہنے والے رہتے ہیں۔ یہاں کے اہل تصوف بھی جو محب اہل بیت ہیں ایران آنا چاہتے ہیں۔ ان کو سہولت فراہم کرنے کے سلسلے میں ایرانی عہدیداروں تک میں یہ بات پہنچاؤنگا۔ انشاء اللہ


source : abna24
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حقوق بشر علوي سے حقوق بشر غربي تک
انوکھا احتجاج
غرب اردن میں فلسطینیوں کے حملے میں 6 صہیونی فوجی ...
پاکستان میں یوم آزادی روایتی جوش و جذبے سے منایا ...
آئی ایس او پاکستان کی اجلاس مجلس عاملہ
پاکستان؛ کرم ایجنسی میں امام علی(ع) کے یوم شہادت ...
مغربی ممالک افغانستان میں طالبان اور داعش کی مدد ...
داعش سے مقابلہ کر کے ایران بشریت کی سب سے بڑی خدمت ...
حدیث نجوم پر عقلی اور نقلی نقد
علامہ سید ہاشم موسوی: شہید علامہ عارف حسین ...

 
user comment