اردو
Saturday 20th of April 2024
0
نفر 0

توحيد قرآن حکيم کے بنيادي اور اساسي موضوعات ميں سے ہے

مسئلہ توحيد قرآن حکيم کے بنيادي اور اساسي موضوعات ميں سے ہے- اِس مسئلے کو ثابت کرنے کے لئے اگرچہ قرآن حکيم کي متعدد آياتِ بينات ميں دلائل و براہينِ قاطعہ موجود ہيں ليکن سورۃ الاخلاص ميں اللہ رب العزت نے اپني توحيد کا جو جامع تصور عطا فرمايا ہے وہ کسي اور مقام پر نہيں- يہي وجہ ہے کہ اس سورۂ مبارکہ کو سورۂ توحيد بھي کہتے ہيں- اس سورہ ميں تو
توحيد قرآن حکيم کے بنيادي اور اساسي موضوعات ميں سے ہے

مسئلہ توحيد قرآن حکيم کے بنيادي اور اساسي موضوعات ميں سے ہے- اِس مسئلے کو ثابت کرنے کے لئے اگرچہ قرآن حکيم کي متعدد آياتِ بينات ميں دلائل و براہينِ قاطعہ موجود ہيں ليکن سورۃ الاخلاص ميں اللہ رب العزت نے اپني توحيد کا جو جامع تصور عطا فرمايا ہے وہ کسي اور مقام پر نہيں- يہي وجہ ہے کہ اس سورۂ مبارکہ کو سورۂ توحيد بھي کہتے ہيں- اس سورہ ميں توحيد کے سات بنيادي ارکان بيان کئے گئے ہيں- اگر ان ارکانِ سبعہ کو ملا ليا جائے تو عقيدۂ توحيد مکمل ہو جاتا ہے اور اگر ان ميں سے کسي ايک رکن کي بھي عقيدتاً خلاف ورزي ہو جائے تو توحيد باقي نہيں رہتي-

ارشادِ باري تعاليٰ ہے :

قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ اللَّهُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ

’’(اے نبي مکرّم!) آپ فرما ديجئے : وہ اللہ ہے جو يکتا ہے اللہ سب سے بے نياز، سب کي پناہ اور سب پر فائق ہے نہ اس سے کوئي پيدا ہوا ہے اور نہ ہي وہ پيدا کيا گيا ہے اور نہ ہي اس کا کوئي ہمسر ہے‘‘

الاخلاص، 112 : 1 - 4

اس سورت ميں بيان شدہ توحيد کے ارکانِ سبعہ کي تفصيل درج ذيل ہے :

واسطۂ رسالت

ذاتِ حق کا فوق الادراک ہونا

احديّت

صمديّت

لا وَلَديّت

لا والديّت

لاکفويّت

پہلا رکنِ توحيد : واسطۂ رسالت

سورۂ اخلاص کا آغاز لفظِ ’’قُل‘‘ سے کيا گيا جس کا معني ہے : ’’(اے نبيِّ مکرّم!) آپ فرما ديجئے-‘‘ کيا فرما ديجئے؟

هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ

’’وہ اللہ ہے جو يکتا ہے‘‘

يہ مختصر مضمون جو اللہ تعاليٰ کي وحدانيت يعني اس کے ايک ہونے کو بيان کر رہا ہے، اس کي وحدتِ مطلقہ کا بيان ہے- چونکہ حضور نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اللہ تعاليٰ کي وحدانيت پر برہانِ ناطق ہيں اس لئے اللہ تعاليٰ نے فرمايا ميرے پيارے! ہم چاہتے ہيں کہ توحيد کا مضمون بيان کرنے کے لئے تيري زبان اِستعمال ہو- جو کچھ اس سے نکلے، ميري ہستي پر دلالت کرے- ميرے ايک ہونے کا مضمون اتنا بلند ہے کہ اس کي ادائيگي کا حق تيري زبان سے ہي ادا ہو سکتا ہے- اس لئے کہ اے محبوب! مجھے تيري اُمت کو ايمان سے بہرہ ور کرنا ہے مگر اِن کا ميري نسبت عقيدۂ ايمان تب متحقق ہوگا جب يہ آپ سے سن کر آپ کي بات کو سچا مان کر مجھے ايک مانيں گے-

*  ’’قُل‘‘ عنوانِ رسالت ہے اور ’’هُوَ الله عنوانِ توحيد

الله رب العزت نے سورۂ اخلاص کي ابتداء لفظ قُلْ سے فرمائي- لفظِ ’’قُلْ‘‘ عنوانِ رسالت ہے جبکہ عنوانِ توحيد ’’هُوَ الله  ہے- اس کا مطلب يہ ہے کہ اگر کسي کو اللہ کے ہونے کا براہِ راست علم (Direct knwledge) حاصل ہو گيا تو وہ علم ’’وحدانيت‘‘ ہے، عقيدۂ توحيد نہيں- کيونکہ وہ علم بغير واسطۂ رسالت کے ہے اور اس ميں رسول صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کا حوالہ ہي نہيں تھا لہٰذا وحدانيت کا تصور ايمان تب بنتا ہے جب رسول صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ايمان لانے ميں واسطہ و وسيلہ بنيں-


source : tebyan
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

بھشت سے آدم کے ھبوط ( سقوط) کا کیا معنی ھے؟
متعہ
[دین اور سیاست] نظریہ ولا یت فقیہ
تشیع کی پیدائش اور اس کی نشو نما (۲)
خدا کی راہ میں خرچ کرنا
جاہل کی پہچان
جن اور اجنہ کےبارے میں معلومات (قسط -2)
عدل الہی قرآن کی روشنی میں
دستور اسلام ہے کہ ہم سب ''معتصم بہ حبل اللہ''
تشيع کا خصوصي مفہوم

 
user comment