اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

اسلام ہی اصل تہذیب ہے

اِسلام صرف دو قسم کے معاشروں کو جانتا ہے۔ ایک اسلامی معاشرہ اور دوسرا جاہلی معاشرہ۔ اسلامی معاشرہ وہ ہے جس میں انسانی زندگی کی زمامِ قیادت اسلام کے ہاتھ میں ہو۔ انسانوں کے عقائد و عبادات پر، ملکی قانون اور نظامِ ریاست پر، اخلاق و معاملات پر غرضیکہ زندگی کے ہر پہلو پر اسلام کی عملداری ہو۔ جاہلی معاشرہ وہ ہے جس میں اسلام عملی زندگی سے خارج ہو۔ نہ ا
اسلام ہی اصل تہذیب ہے

اِسلام صرف دو قسم کے معاشروں کو جانتا ہے۔ ایک اسلامی معاشرہ اور دوسرا جاہلی معاشرہ۔ اسلامی معاشرہ وہ ہے جس میں انسانی زندگی کی زمامِ قیادت اسلام کے ہاتھ میں ہو۔ انسانوں کے عقائد و عبادات پر، ملکی قانون اور نظامِ ریاست پر، اخلاق و معاملات پر غرضیکہ زندگی کے ہر پہلو پر اسلام کی عملداری ہو۔ جاہلی معاشرہ وہ ہے جس میں اسلام عملی زندگی سے خارج ہو۔ نہ اسلام کے عقائد و تصورات اُس پر حکمرانی کرتے ہوں، نہ اسلامی اقدار اور ردّو قبول کے اسلامی پیمانوں کو وہاں برتری حاصل ہو، نہ اسلامی قوانین و ضوابط کا سکہّ رواں ہو اور نہ اسلامی اخلاق و معاملات کسی درجہ فوقیت رکھتے ہوں
اِسلامی معاشرہ وہ نہیں ہے جو "مسلمان" نام کے انسانوں پر مشتمل ہو، مگر اسلامی شریعت کو وہاں کوئی قانونی پوزیشن حاصل نہ ہو۔ ایسے معاشرے میں اگر نماز روزے اور حج کا اہتمام موجودبھی ہو تو بھی وہ اسلامی معاشرہ نہیں ہوگا، بلکہ وہ ایک ایسا معاشرہ ہے جو خدا اور رسول کے احکام اور فیصلوں سے آزاد ہو کر اپنے مطالبہ نفس کے تحت اسلام کا ایک جدید ایڈیشن تیار کرلیتا ہے اور اُسے۔۔۔برسبیل ِمثال۔۔۔ "ترقی پسند اسلام" کےنام سے موسوم کرلیتا ہے!
جاہلی معاشرہ مختلف بھیس بدلتا رہتا ہے، جو تمام کے تمام جاہلیت ہی سے ماخوذ ہوتے ہیں۔ کبھی وہ ایک ایسے اجتماع کا لبادہ اوڑھ لیتا ہے، جس میں اللہ کے وجود کا سرے سے انکار کیا جاتا ہے اور انسانی تاریخ کی مادی اور جدلی تعبیر ( nterpretational Dialectual) کی جاتی ہے اور "سائنٹیفک سوشلزم" کو نظامِ زندگی کی حثیت سے عملی جامعہ پہنایا جاتا ہے۔ وہ کبھی ایک ایسی جمعیت کے رنگ میں نمودار ہوتا ہے جو خدا کے وجود کی تو منکر نہیں ہوتی، لیکن اُس کی فرماں روائی اور اقتدار کو صرف آسمانوں تک محدود رکھتی ہے۔ رہی زمین کی فرماروائی تعو اس سے خدا کو بے دخل رکھتی ہے۔ نہ خدا کی شریعت کو نظامِ زندگی میں نافذ کرتی ہے ، اور نہ خدا کی تجویز کردہ اقدارِحیات کو جسے خدا نےانسانی زندگی کے لیے ابدی اور غیر متغیر اقدار ٹھیرایا ہے فرماں روائی کا منصب دیتی ہے۔ وہ لوگوں کو یہ اجازت تو دیتی ہے کہ وہ مسجدوں، کلیساؤں اور عبادت گاہوں کی چاردیواری کے اندر خدا کی پوجا پاٹ کرلیں، لیکن یہ گوارہ نہیں کرتی کہ لوگ زندگی کے دوسرے پہلوؤں کے اندر بھی شریعتِ الہيٰ کو حاکم بنالیں۔ اس لحاظ سے وہ جمعیت تختہ زمین پر خدا کی الوہیت کی باغی ہوتی ہے کیونکہ وہ اُسے عملی زندگی میں معطل کرکے رکھ دیتی ہے، حالانکہ اللہ تعاليٰ کا صریح فرمان ہے: وھو الذی فی السمأٌ الہ و فی الارض الہ (وہی خدا ہے جو آسمان میں بھی الہٰ ہے اور زمین میں بھی)۔ اس طرز عمل کی وجہ سے یہ معاشرہ اللہ کے اس پاکیزہ نظام کی تعریف میں نہیں آتا جسے اللہ تعاليٰ نے آیت ذیل میں "دین قيّم" سےتعبیر فرمایا ہے:
حکم صرف اللہ کا ہے۔ اُسی کا فرمان ہے کہ اُس کے سوا کسی کی بندگی نہ کی جائے۔ یہی دین قيّم (ٹھیٹھ سیدھا طریقِ زندگی) ہے۔ (یوسف: 84)
یہی وہ اجتماعی طرزِعمل ہے جس کی وجہ سے یہ معاشرہ بھی جاہلی معاشروں صف میں شمار ہوتا ہے۔ چاہے وہ لاکھ اللہ کے وجود کا اقرار کرے اور لوگوں کو مسجدوں اور کلیساؤں اور صوامع کے اندر اللہ کے اگے مذہبی مراسم کی ادائیگی سے نہ روکے۔)

صرف اِسلامی معاشرہ ہی مہذّب معاشرہ ہے۔

آغاز میں ہم اسلامی معاشرہ کی جو تعریف کر آئے ہیں اُس کی بنا پر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ صرف اِسلامی معاشرہ ہی درحقیقت "مہذب معاشرہ" ہے۔ جاہلی معاشرے خواہ جس رنگ اور رو پ میں ہوں بنیادی طور پر پسماندہ اور غیر مہذب معاشرے ہوتے ہیں۔ اس اجمال کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔
ایک مرتبہ میں نے اپنی زیر طبع کتاب کا اعلان کیا اوراُس کا نام رکھا:" نحو مجتمع اسلامی متحضر" ( مہذب اسلامی معاشرہ)۔ لیکن اگلے اعلان میں ميَں نے "مہذب" کا لفظ حذف کردیا اور اس کا نام صرف "اسلامی معاشرہ" رہنے دیا۔ اس ترمیم پر ایک الجزائری مصنف کی جو فرانسیسی زبان میں لکھتے ہیں نظر پڑی اور انہوں نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اِس تبدیلی کا محّرک وہ نفسیاتی عمل ہے جو اسلام کی مدافعت کے وقت ذہن پر اثرانداز ہوتا ہے۔ موصوف نے افسوس کا اظہار کیا کہ یہ عمل جو ناپختگی کی علامت ہے مجھے اصل مشکل کا حقیقت پسندانہ سامنا کرنے سے روک رہا ہے۔ میں اِس الجزائری مصّنف کو معذور سمجھتا ہوں۔ میں خود بھی پہلے اُنہی کا ہم خیال تھا۔ اور جب میں نے پہلی مرتبہ اس موضوع پر قلم اٹھایا تو اُس وقت میں بھی اُسی انداز پر سوچ رہا تھا جس انداز پر وہ آج سوچ رہے ہیں۔ اور جو مشکل آج اُنہیں درپیش ہے وہی مشکل اس وقت مجھے خود درپیش تھی۔ یعنی یہ کہ "تہذیب کسے کہتے ہیں" اُس وقت تک میں نے اپنی اُن علمی اور فکری کمزوریوں سے نجات نہیں پائی تھی جو میری ذہنی اور نفسیاتی تعمیر میں رچ بس چکی تھیں۔ ان کمزوریوں کا ماخذ مغربی لٹریچر اور مغربی افکاروتصّورات تھے جو بلاشبہ میرے اسلامی جذبہ و شعور کے لیے اجنبی تھے، اور اُس دور میں بھی وہ میرے واضح اسلامی رجحان اور ذوق کے خلاف تھے۔ تاہم ان بنیادی کمزوریوں نے میری فکرکو غبار الود اور اُس کے پاکیزہ نقوش کو مسخ کررکھا تھا۔ تہذیب کا وہ تصّور جو یورپی فکر میں پایا جاتا ہے میری آنکھوں میں سمایا رہتا تھا، اس نے میرے ذہن پر پردہ ڈال رکھا تھا اور مجھے نکھری ہوئی اور حقیقت رسا نظر سے محروم کررکھا تھا۔ مگر بعد میں اصل تصویر نکھر کر میرے سامنے اگئی اور مجھ پر یہ راز کھلا کہ اسلامی معاشرہ ہی دراصل مہذب معاشرہ ہوتا ہے۔ میں نے اپنی کتاب کےنام پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ اس میں لفظ "مہذب" زائد ہے۔ اور اس سے مفہوم میں کسی نئی چیز کا اضافہ نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ لفظ الٹا قاری کے احساسات پر اُس اجنبی فکر کی پرچھائیاں ڈال دے گا جو میرے ذہن پر بھی چھائی رہی ہیں اور جنھوں نے مجھے صحّت مندانہ نگاہ سے محروم کررکھا تھا۔
اب موضوع زیر بحث یہ ہے کہ "تہذیب کسے کہتے ہیں؟"۔ اس حقیقت کی وضاحت ناگریز ہوتی ہے۔
جب کسی معاشرے میں حاکمّیت صرف اللہ کے لیے مخصوص ہو، اور اس کا عملی ثبوت یہ ہو کہ اللہ کی شریعت کو معاشرے میں برتری حاصل ہو تو صرف ایسے معاشرے میں انسان اپنے جیسے انسانوں کی غلامی سےکامل اور حقیقی آزادی حاصل کرسکتے ہیں۔ اسی کامل اور حقیقی آزادی کا نام "انسانی تہذیب " ہے۔ اس لیے کہ انسان کی تہذیب ایک ایسا بنیادی ادارہ چاہتی ہے جس کی حدود میں انسان مکمل اور حقیقی آزادی سے سرشار ہو اور معاشرے کا ہر فرد غیر مشروط طور پر انسانی شرف و فضیلت سے متمتع ہو۔ اور جس معاشرے کا ہر فرد کا یہ حال ہو کہ اُس میں کچھ لوگ رب اور شارع بنے ہوں اور باقی اُن کے اطاعت کیش غلام ہوں، تو ایسے معاشرے میں انسان کو بحثیت انسان کوئی آزادی نصیب نہیں ہوتی اور نہ وہ اُس شرف و فضیلت سے ہمکنار ہو سکتا ہے جو لازمہ انسانیت ہے۔
یہاں ضمناٌ یہ نکتہ بیان کردینا بھی ضروری ہے کہ قانون کا دائرہ صرف قانونی احکام تک محدود نہیں ہوتا، جیسا کہ آج کل لفظ شریعت کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں محدود اور تنگ مفہوم پایا جاتا ہے۔ بلکہ تصورات، طریقہ زندگی، اقدار حیات، ردوقبول کے پیمانے، عادات و روایات یہ سب بھی قانون کے دائرے میں آتے ہیں۔ اور افراد پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ اگر انسانوں کا ایک مخصوص گروہ یہ سب بیڑیاں یا دباؤ کے اسالیب ہدایت الہيٰ سے بے نیاز ہوکر تراش لے اور معاشرے کے دوسرے افراد کو ان میں مقید کرکے رکھ دے تو ایسے معاشرے کو کیوں کر آزاد معاشرہ کہا جاسکتا ہے۔ یہ تو ایسا معاشرہ ہے جس میں بعض افراد کو مقام ربوبیت حاصل ہے اور باقی لوگ ان ارباب کی عبودیت میں گرفتار ہیں۔ اس وجہ سے یہ معاشرہ پسماندہ معاشرہ شمار ہوگا یا اسلامی اصطلاحوں میں اُسے جاہلی معاشرہ کہیں گے۔
صرف اسلامی معاشرہ ہی وہ منفرد اور یکتا معاشرہ ہے جس میں اقتدارکی زمام صرف ایک الہٰ کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ اور انسان اپنے ہم جنسوں کی غلامی کی بیڑیاں کاٹ کر صرف اللہ کی غلامی میں داخل ہوجاتے ہیں۔ اور یوں وہ کامل اور حقیقی ازادی سے جو انسان کی تہذیب کا نقطہ ماسکہ ہے ، بہرہ ور ہوتے ہیں۔ اس معاشرے میں انسانی فضیلت و شرف اسی حقیقی صورت میں نورافگن ہوتی ہے جو اللہ تعالےٰ نے اس کےلیے تجویز فرمائی ہے۔ اس معاشرے میں انسان ایک طرف زمین پر اللہ کی نیابت کے منصب پر سرفراز ہوتا ہے، اور دوسری طرف ملاءاعليٰ میں اس کے لیے غیرمعمولی اعزاز اور مرتبہ بلند کا اعلان بھی ہوجاتاہے ۔

اِسلامی معاشرہ اور جاہلی معاشرہ کی جوہری خصوصیات

جب کسی معاشرے میں انسانی اجتماع اور مدنیت کے بنیادی رشتے عقیدہ ، تصور ، نظریہ اور طریق حیات سے عبارت ہوں اور اُن کا ماخذ و منبع صرف ایک الہٰ ہو اور انسان نیا بت کے درجہ پر سرفراز ہو۔ اور یہ صورت نہ ہو کہ فرمانروائی کا سرچشمہ زمینی ارباب ہوں اور انسان کے گلے میں انسان کی غلامی کا طوق پڑا ہو۔۔۔۔ بلکہ اس کے برعکس انسان صرف ایک خدا کے بندے ہوں تو تبھی ایک ایسا پاکیزہ انسانی اجتماع وجود میں آسکتا ہے، جو ان تمام اعليٰ خصائص کی جلوہ گاہ ہوتا ہے جو انسان کی روح اور فکر میں ودیعت ہیں۔ لیکن اس کے برعکس اگر معاشرے کے اندر انسانی تعلقات کی بنیاد رنگ و نسل، اور قوم و ملک اور اسی نوعیت کے دوسرے رشتوں پر رکھی گئی ہو تو ظاہر ہے کہ یہ رشتے زنجیر ثابت ہوتے ہیں اور انسان کے اعليٰ خصائص کو اُبھرنے کا موقع نہیں دیتے۔ انسان رنگ و نسل اور قوم و وطن کی حد بندیوں سے آزاد رہ کر بھی انسان ہی رہے گا مگر روح اور عقل کے بغیر وہ انسان نہیں رہ سکتا۔مزید براں یہ کہ وہ اپنے عقیدہ و تصور اور نظریہ حیات کو اپنے آزاد ارادے سے بدلنے کا اختیار بھی رکھتا ہے ، مگر اپنے رنگ اور اپنی نسل میں تبدیلی پر قادر نہیں ہے، اور نہ اس بات کی اُسے قدرت حاصل ہے کہ وہ کسی مخصوص قوم یا مخصوص وطن میں اپنی پیدائش کا فیصلہ کرے۔ لہذا یہ ثابت ہوئی کہ وہ معاشرہ جس میں انسانوں کا اجتماع ایک ایسی بات پر ہو جس کا تعلق اُن کی آزاد مرضی اور اُن کی پسند سے ہو وہی معاشرہ نور تہذیب سے منور ہے۔ اس کے برعکس وہ معاشرہ جس کے افراد اپنے انسانی ارادے سے ہٹ کر کسی اور بنیاد پر مجتمع ہوں، وہ پسماندہ معاشرہ ہے۔ یا اسلامی اصطلاح میں وہ جاہلی معاشرہ ہے۔


source : alhassanain
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عقل کا استعمال اور ادراکات کا سرچشمہ
عید مباہلہ
آیہٴ” ساٴل سائل۔۔۔“ کتب اھل سنت کی روشنی میں
انہدام جنت البقیع تاریخی عوامل اور اسباب
ماہ رمضان کے دنوں کی دعائیں
جمع بین الصلاتین
ہم اور قرآن
نہج البلاغہ کی شرح
شفاعت کا مفہوم
شب قدر کو کیوں مخفی رکھا گیا؟

 
user comment