اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

مدینہ میں تیاریاں

مدینہ میں تیاریاں شب جمعہ ۶ شوال سنہ ۳ہجری اوس و خزرج کے سربرآوردہ افراد سعد بن معاذ اسید بن حضیر اور سعد بن عبادة چند افراد کے ساتھ مسلح ہو کر مسجد میں اور پیغمبر خدا کے گھر کے دروازے پر نگہبانی کے لیے کھڑے ہوگئے۔ مشرکین کے شب خون مارنے کے خوف سے صبح تک شہر مدینہ کی نگرانی کی جاتی رہی۔ فوجی کمیٹی کی تشکیل
مدینہ میں تیاریاں

مدینہ میں تیاریاں

شب جمعہ ۶ شوال سنہ ۳ہجری اوس و خزرج کے سربرآوردہ افراد سعد بن معاذ اسید بن حضیر اور سعد بن عبادة چند افراد کے ساتھ مسلح ہو کر مسجد میں اور پیغمبر خدا کے گھر کے دروازے پر نگہبانی کے لیے کھڑے ہوگئے۔

مشرکین کے شب خون مارنے کے خوف سے صبح تک شہر مدینہ کی نگرانی کی جاتی رہی۔

فوجی کمیٹی کی تشکیل

رسول خدا اس فکر میں تھے کہ اگر مسلمان مدینہ میں رہ جائیں اور شہر میں رہ کر دفاع کریں تو مسلمانوں کی قدر و قیمت گر جائے گی اور دشمن گستاخ ہو جائیں گے اور کیا تعجب ہے کہ جب دشمن شہر کے نزدیک ہوں تو ایسی صورت میں ایک داخلی سازش کے ذریعہ منافقین اور یہود دشمن کی فتح یابی کے لیے زمین ہموار کر دیں۔ دوسری طرف شہر میں رہنے کا فائدہ یہ ہے کہ قریش اس بات پر مجبور ہوں گے کہ شہر پر حملہ کر دیں اور اس صورت میں شہر میں جنگی ٹیکنیک کو بروئے کار لانے سے دشمن پر میدان تنگ ہو جائے گا اور وہ شکست کھا جائیں گے اور شہر میں رہنا سپاہیوں میں دفاع کے لیے زیادہ سے زیادہ جوش پیدا کرے گا۔

قریش بھی اسی فکر میں تھے کہ اگر مسلمان مدینہ میں رہ گئے تو درختں کو کاٹ کر نخلستان میں آگ لگا کر ان کو ناقابل تلافی اقتصادی نقضان پہنچایا جائے گا۔

رسول خدا نے دفاعی حکمت عملی کی تعیین کے لیے اپنے اصحاب سے مشورہ کے لیے ایک میٹنگ طلب کی۔ اس میں حضور نے اعلان کیا کہ اگر آپ لوگ مصلحت سمجھیں تو ہم مدینہ میں رہیں اور دشمنوں کو اسی جگہ چھوڑ دیا جائے جہاں وہ اترے ہیں۔ تاکہ اگر وہ وہیں رہیں تو زحمت میں مبتلا رہیں اور اگر مدینہ پر حملہ کریں تو ہم ان کے ساتھ جنگ کریں۔

عبداللہ بن ابی نے اٹھ کر کہا کہ: یا رسول اللہ! ابھی تک دشمن اس شہر پر فتح یاب نہیں ہوئے ہیں اور کوئی دشمن اس پر کامیابی نہیں حاصل کرسکا ہے۔ ماضی میں ہم نے دشمن کے ساتھ جب بھی میدان میں لڑائی کی ہے شکست سے دوچار ہوئے ہیں۔ اور جب بھی دشمن نے یہ چاہا ہے کہ وہ ہمارے شہر میں آئے تو ہم نے ان کو شکست دی ہے۔ لہٰذا آپ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیجئے۔ اس لیے کہ اگر وہ وہیں رہے تو بدترین قید میں ہیں اور اگر انہوں نے ہم پر حملہ کر دیا تو ہمارے بہادر، ان سے لڑیں گے اور ہماری عورتیں اور بچے کوٹھوں سے ان پر پتھراؤ کریں گے اور اگر وہ پلٹیں گے تو شکست خوردہ، ناامید اور بغیرکسی فائدے کے واپس جائیں گے، مہاجر و انصار کے بزرگ افراد حسن نیت کے ساتھ اسی خیال سے متفق تھے۔ لیکن نوجوان جن کی تعداد زیادہ تھی شہادت کے مشتاق تھے خاص کر وہ لوگ جو بدر کی لڑائی میں شریک نہیں ہوئے تھے وہ دشمن سے روبرو لڑنے کے لیے بے قرار تھے اور رسول خدا سے یہ خواہش ظاہر کر رہے تھے کہ ہمیں دشمن سے مقابلہ کے لیے میدان کارزار میں لے چلیں۔

اس اکثریت میں لشکر اسلام کے دلیر سردار حضرت حمزہ تے انہوں نے فرمایا اس خدا کی قسم جس نے قرآن کو نازل فرمایا ہم اس وقت تک کھانا نہیں کھائیں گے جب تک شہر سے باہر دشمنوں سے نبرد آزمائی نہ کرلیں۔

جوان سال افراد کچھ اس طرح کا استدلال پیش کر رہے تھے کہ اے خدا کے پیغمبر ہم اس بات سے ڈر رہے ہیں کہ کہیں دشمن یہ نہ خیال کر بیٹھیں کہ ہم ان کے سامنے آنے سے ڈر گئے اور ہم شہر سے باہر نکلنا نہیں چاہتے ہم کو یہ اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ قریش اپنے وابستگان کی طرف واپس جائیں اور کہیں کہ ہم نے محمد کو یثرب میں مقید کر دیا اور اس طرح اعراب کو ہمارے سلسلے میں دلیر بنا دیں۔

(مغازی ج۱ ص ۲۱۹)

 


source : tebyan
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

خود شناسی(پہلی قسط)
قرآن کی حفاظت
جھاد قرآن و حدیث کی روشنی میں
سیاست علوی
قرآن مجید و ازدواج
عید سعید فطر
شب قدر ایک تقدیر ساز رات
آخرت میں ثواب اور عذاب
انیس رمضان / اللہ کے گھر میں پہلی دہشت گردی
حضرت امام علی علیہ السلام کے حالات کا مختصر جائزہ

 
user comment