اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

خاتم المرسلین حضرت محمد مصطفیٰ(ص) کی میراث

(ھو الذی بعث فی الامیین رسولاً منھم یتلوا علیہم آیاتہ و یزکّیھم و یعلّمھم الکتاب و الحکمۃ و ان کانوا من قبل لفی ضلال مبین )[1] خدا وہ ہے جس نے امّیوں میں خود انہیں میں سے ایک رسولؐ بھیجا جو ان کے سامنے اس کی آیتوں کی تلاوت کرتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگر چہ اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں تھے۔
خاتم المرسلین حضرت محمد مصطفیٰ(ص) کی میراث

(ھو الذی بعث فی الامیین رسولاً منھم یتلوا علیہم آیاتہ و یزکّیھم و یعلّمھم الکتاب و الحکمۃ و ان کانوا من قبل لفی ضلال مبین )[1]

خدا وہ ہے جس نے امّیوں میں خود انہیں میں سے ایک رسولؐ بھیجا جو ان کے سامنے اس کی آیتوں کی تلاوت کرتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگر چہ اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں تھے۔

یقیناًخاتم الانبیاء حضرت محمد ؐ کی بعثت کے عظیم فوائد تاریخ اسلام کے ذریعہ آشکار ہو چکے ہیں آپؐ کی نبوت سے یہ درج ذیل امور روشن ہوئے ہیں:

۱۔ آپؐ کی خدائی رسالت عام تھی آپؐ نے بشریت تک اسے پہنچایا۔

۲۔ امت مسلمہ تمام قوموں کے لئے مشعل رسالت اٹھائے ہوئے ہے۔

۳۔ اسلامی حکومت ایک منفرد الٰہی نظام اور خود مختار سیاست والا نظام ہے ۔

۴۔ معصوم قائد و رہبر رسولؐ کے خلیفہ ہیں اور بہترین طریقہ سے آپؐ کی نمائندگی کرتے ہیں۔

جب ہم بطورِ خاص رسولؐ کی اس میراث کو دیکھتے ہیں جوکہ سنی ہوئی، لکھی ہوئی اور تدوین شدہ ہے تو ہمارے لئے ضروری ہو جاتا ہے کہ اس کے دو حصے کریں کیونکہ ہم نے رسولؐ کی میراث کی تعریف اس طرح کی ہے : ہر وہ چیز جو رسولؐ نے امت اسلامیہ اور بشریت کے سامنے پیش کی ہے خواہ وہ پڑھی جانے والی ہو یا سنی جانے والی ہو، اسے میراث رسولؐ کہتے ہیں اس لحاظ سے اس کی دو قسمیں ہیں:

۱۔ قرآن مجید

۲۔ حدیث شریف-سنت

یہ دونوں نعمتیں آسمانی فیض ہیں جو رسولؐ کے واسطہ سے انسان تک پہنچی ہیں ، خدا نے وحی کے ذریعہ ان دونوں کو قلبِ محمدؐ پر اتارا جو کہ اپنی خواہش سے کچھ بولتے ہی نہیں ہیں۔

قرآن مجید اول تو اس لحاظ سے بھی ممتاز ہے کہ اس کا اصل کلام اور اس کا مضمون دونوں ہی خدا کی طرف سے ہے پس یہ الٰہی کلام معجزہ ہے اور اسی طرح اس کا مضمون بھی معجزہ ہے ، اس کی جمع آوری اور تدوین -جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہو چکا ہے-رسولؐ ہی کے زمانہ میں مکمل ہو چکی تھا اور یہ کلام تواتر کے ساتھ بغیر کسی تحریف کے ہم تک پہنچا ہے ۔

ایسے تاریخی ثبوت کی کمی نہیں ہے کہ جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ نصِ قرآنی کی تدوین عہد رسولؐ ہی میں ہو چکی تھی۔ ہم یہاں قرآنی اور غیر قرآنی ثبوت پیش کرتے ہیں۔

۱۔ خدا وند عالم کا ارشاد ہے :
(و قالوا اساطیر الاولین اکتتبھا فھی تملی علیہ بکرۃ و اصیلًا) [2]

وہ کہتے ہیں کہ یہ تو اگلے لوگوں کے افسانے ہیں جن کو لکھوا لیا ہے، صبح و شام یہی ان کے سامنے پڑھے جاتے ہیں۔

۲۔حضرت علی ؑ بن ابی طالب ؑ فرماتے ہیں:
’’ما نزلت علیٰ رسول اللّہ ؐ آیۃ من القرآن الا اقرانیھا واملاھا عليّ فکتبتھا بخطی و علّمنی تاویلھا و تفسیرھا ناسخھا و منسوخھا و محکمھا و متشابھھا و خاصھا و عامھا و دعا اللّہ ان یعطینی فھمھا و حفظھا، فما نسیت من کتاب اللّہ و علماً املا ہ عليّ و کتبتہ منذ دعا لی بمادعا۔‘‘[3]

رسولؐ پر قرآن کی جو آیت بھی نازل ہوتی تھی آپؐ اسے مجھے پڑھاتے اور اس کا املا کراتے تھے اور میں اپنے ہاتھ سے لکھتا تھا آپ مجھے اس کی تاویل ، تفسیر، ناسخ و منسوخ، محکم و متشابہ،خاص و عام کی تعلیم دیتے تھے اورآپ نے خدا سے یہ دعا کی کہ خدا مجھے اسے سمجھنے اور حفظ کرنے کی صلاحیت مرحمت کرے چنانچہ جب سے رسولؐ نے خدا سے میرے لئے دعا کی ہے اس وقت سے میں قرآن کی آیت اور ان کے لکھوائے ہوئے علم کو نہیں بھولا ہوں۔

مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رسولؐ نے پورے قرآن کی تبلیغ کی ہے- پورا قرآن پہنچایا ہے -آج مسلمانوں کے پاس جو قرآن ہے یہ وہی قرآن ہے جو رسولؐ کے عہد میں متداول تھا اس میں کسی قسم کی کمی بیشی نہیں ہوئی ہے ۔

رہی سنت اور حدیث نبیؐ تووہ کلام بشری ہے اور اس کامضمون خدا کا ہے اپنی کامل فصاحت کے سبب یہ ممتاز ہے ۔ اس میں رسولؐ کی عظمت ، عصمت اور آپؐ کا کمال جلوہ گر ہے ۔

یہیں سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ قرآن مجید اس قانون کا پہلا مصدر اوراولین سر چشمہ ہے کہ بشر کو زندگی میں جس کی ضرورت پیش آسکتی ہے خدا وند عالم فرماتا ہے:
(قل ان ھدی اللّہ ھو الھدیٰ و لئن اتبعت اھواءھم بعد الّذی جائک من العلم مالکمن اللّہ من ولی ولا نصیر)[4]

کہہ دیجئے کہ ہدایت تو بس پروردگار ہی کی ہدایت ہے اور اگر آپؐ علم آنے کے بعد ان کی خواہشوں کی پیروی کریں گے تو پھر خدا کی طرف سے بچانے کے لئے نہ کوئی سرپرست ہوگا اور نہ مددگار۔

قرآن مجید ، حدیث و سنت نبیؐ کو خدائی قوانین کے لئے دوسرا سر چشمہ قرار دیتا ہے ، یعنی سنت نبی ؐ قرآن کے بعد اس اعتبار سے قانون خدا کا سر چشمہ ہے کہ رسولؐ قرآن کے مفسر ہیں، اسوۂ حسنہ ہیں جس کی اقتداء کی جاتی ہے لوگوں کو چاہئے کہ آپؐ کے احکام پر عمل کریں اور جس چیز سے روکیں اس سے باز رہیں۔[5]مگر افسوس عہد رسولؐ کے بعد اور اوائل کے خلفاء کے زمانہ میں سنت نبی بہت سخت حالات سے گذری ہے ابو بکر و عمر نے حدیث رسولؐ کی تدوین پر پابندی لگا دی تھی اور جو حدیثیں بعض صحابہ نے جمع کر لی تھیں انہیں ان دونوں نے یہ کہہ کر نذرِ آتش کر دیا تھا کہ تدوین حدیث اور اس کے اہتمام سے لوگ رفتہ رفتہ قرآن سے غافل ہو جائیں گے، یا حدیث و قرآن میں التباس کی وجہ سے قرآن ضائع ہو جائیگا۔

لیکن اہل بیت ؑ ، ان کے شیعوں اور بہت سے مسلمانوں نے قرآن مجید سے درس لیتے ہوئے حدیث کا ویسا ہی احترام کیا جیسا کہ اس کا حق تھاچنانچہ انہوں نے اسے حفظ کرنے زبانی بیان کرنے اور حکومت کی طرف سے تدوین پر پابندی کے باوجود اس کی تدوین کا اہتمام کیا، حدیث کی تدوین پر پابندی کا سبب جو بیان کیاجاتا ہے حقیقت میں وہ اصل سبب نہیں ہے کیونکہ بعد والے علماء اور خلفاء نے اس پر پابندی کی مخالفت کی اور تدوین حدیث کی ترغیب دلائی۔سب سے پہلے جس نے تدوینِ حدیث کا کام شروع کیا اور اسے اہمیت دی وہ رسولؐ کی آغوش کے پروردہ آپؐ کے وصی، علی ؑ بن ابی طالب ؑ ہیں جو خود فرماتے ہیں:
’’و قد کنت ادخل علیٰ رسول اللّہ کل یوم دخلۃ فیخلینی فیھا ادور معہ حیثما دار۔ وقد علم اصحاب رسول اللہؐ انہ لم یصنع ذلک باحد من النّاس غیری...و کنت اذا سألتہ اجابنی و اذا سکتّ وفنیت مسائلی ابدأنی، فما نزلت علیٰ رسول اللّہ آیۃ من القرآن الا اقرانیھا و املاھا علیّ فکتبتھا بخطی و علّمنی تاویلھا و تفسیرھا... و ما ترک شیئاً علّمہ اللّٰہ من حلال ولا حرام ولا امر ولا نھی کان او یکون منزلاً علیٰ احد قبلہ من طاعۃ او معصیۃ الا علمنیھا و حفظتہ فلم انس حرفاً واحداً...‘‘[6]

میں ہر روزایک مرتبہ رسولؐ کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا اس وقت آپؐ صرف مجھے اپنے پاس رکھتے تھے، چنانچہ جہاں وہ جاتے میں بھی وہیں جاتا تھا، رسولؐ کے اصحاب اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ رسولؐ نے میرے علاوہ کسی اور کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا...جب میں آپؐ سے سوال کرتا تھا تو آپؐ مجھے جواب دیتے تھے اور جب میرا سوال ختم ہو جاتا تھا اور میں خاموش ہو جاتا تھا تو آپؐ اپنی طرف سے سلسلہ کا آغاز کرتے تھے ، رسولؐ پر جو آیت نازل ہوتی تھی اس کی تعلیم آپؐ مجھے دیتے تھے اور مجھے اس کا املا کراتے تھے اور میں اسے اپنے ہاتھ سے لکھ لیتا تھا اور مجھے اس کی تاویل و تفسیر کی تعلیم دیتے تھے... حلال و حرام امر و نہی اور جو ہو چکاہے یا ہوگا یا آپؐ سے پہلے کسی پر اطاعت و معصیت کے بارے میں نازل ہونے والی چیز کا جو علم خدا نے آپ کوعطا کیا تھاوہ سب آپؐ نے مجھے سکھایا اور میں نے اسے یاد کر لیا اور اس میں سے میں ایک حرف بھی نہیں بھولا ہوں۔

حضرت علی ؑ نے رسولؐ کے املا کو ایک کتاب میں جمع کیا ہے جس کانام جامعہ یا صحیفہ ہے۔

ابوعباس نجاشی ، متوفی-۴۵۰ھ -کہتے ہیں: ہمیں محمد بن جعفر-نحوی تمیمی نے جو نجاشی کے شیخ تھے- عذافر صیرفی کے حوالے سے خبر دی ہے کہ انہوں نے کہا: میں حکم بن عتیبہ کے ساتھ ابو جعفر-امام محمد باقر ؑ -کی خدمت میں حاضر تھا اس نے ابو جعفر ؑ سے سوال کیا وہ ان کی بہت تعظیم و عزت کرتا تھا لیکن کسی چیز کے بارے میں دونوں میں اختلاف ہو گیا تو ابو جعفر ؑ نے فرمایا: بیٹا! ذرا میرے جد حضرت علی ؑ کی کتاب نکالو! انہوں نے کتاب نکالی وہ عظیم کتاب لپٹی ہوئی تھی، ابو جعفر ؑ اسے لیکر دیکھنے لگے یہاں تک کہ اس مسئلہ کو نکال لیا اور فرمایا: یہ حضرت علی ؑ کی تحریر اور رسولؐ کا املا ہے پھر حکم کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا؛ اے ابو محمد، سلمہ اور ابو المقدام تم ادھر ادھر جہاں چاہو چلے جاؤ خدا کی قسم تمہیں کسی قوم کے پاس اس سے بہتر علم نہیں ملے گا ان پر جبریل ؑ نازل ہوتے تھے۔[7]

ابراہیم بن ہاشم نے امام محمد باقر ؑ کی طرف نسبت دیتے ہوئے روایت کی ہے کہ آپؐ نے فرمایا:’’ فی کتاب علی کل شیء یحتاج الیہ حتی ارش الخدش‘‘۔[8]

حضرت علی ؑ کی کتاب میں ہر وہ چیز موجود ہے جس کی ضرورت پڑ سکتی ہے یہاں تک خراش کا جرمانہ بھی لکھا ہوا ہے ۔

اس کا مطلب یہ ہے علی ؑ کا جامعہ یا صحیفہ آپؑ کی دوسری تدوین ہے جو کھال پر لکھا ہوا ہے ، اس کا طول ستر ہاتھ ہے ۔

ابو بصیر سے روایت ہے کہ انہوں نے امام جعفر صادقؑ سے کچھ دریافت کیا تو آپؐ نے فرمایا:
’’ان عندنا الجامعۃ ، صحیفۃ طولھا سبعون ذراعاً بذراع رسول اللّہ و املاۂ فلق فیہ و خط علی، بیمینہ فیھا کل حلال و حرام و کل شیء یحتاج الیہ النّاس حتی الارش فی الخدش‘‘۔[9]

ہمارے پاس جامعہ ہے ، یہ ایک صحیفہ ہے جس کا طول ، رسولؐ کے ہاتھ کے لحاظ سے، ستّر ہاتھ ہے، یہ رسول نے املا لکھوایا ہے اورعلی ؑ نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہے ۔اس میں حلال و حرام کی تفصیل اور ہر اس چیز کاحکم و بیان ہے جس کی لوگوں کو ضرورت پڑ سکتی ہے یہاں تک کہ اس میں ایک معمولی خراش کی دیت بھی لکھی ہوئی ہے ۔ یہ ہے سنت کے سلسلہ میں اہل بیت ؑ کا موقف۔

لیکن شیخین کے عہدِ خلافت میں حکومت کے موقف سے بہت ہی منفی آثار مترتب ہوئے کیونکہ سو سال تک تدوین سنت سے متعلق کوئی کام نہیں ہو سکا اس موقف کی وجہ سے بہت سی حدیثیں ضائع ہو گئیں اور مسلمانوں کے ثقافتی اسناد و مصادر میں اسرائیلیات داخل ہو گئے اور قیاس و استحسان کا دروازہ پوری طرح کھل گیا اور وہ بھی تشریع و قانون کے مصدروں میں سے ایک مصدر شمار ہونے لگا بلکہ بعض لوگوں نے تو اسے سنت نبوی پر مقدم کیا ہے کیونکہ بہت سے نصوص علمی تنقید کی رو سے صحیح نہیں معلوم ہوتے تھے لیکن اس سے اہل سنت کے نزدیک رسولؐ کی صحیح حدیثیں بھی مخدوش ہو گئیں چنانچہ وہ حدیثیں زمانۂ مستقبل میں اس چیز کو بھی پورا نہیں کر سکیں جس کی امت کو احتیاج تھی۔

لیکن اہل بیتؑ نے اس تباہ کن رجحان کا مقابلہ پوری طاقت سے کیا اور سنت نبوی ؐ کو مومنین کے نزدیک ضائع نہیں ہونے دیا انہوں نے اپنی امامت و خلافت کے اقتضاء کے مطابق اس کی توجیہ کی کیونکہ زمام دار منصوص امام و خلیفہ ہی ہوتا ہے اور وہی شریعت اور اس کی نصوص کو ضائع ہونے سے بچا تا ہے۔سنت نبوی کی تحقیق کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ سنت کے ان مصادر کا مطالعہ کرے جو اہل بیتؑ اور ان کا اتباع کرنے والوں کے پاس ہیں کیونکہ گھر کی بات گھر والے ہی بہتر جانتے ہیں۔

اہل بیت ؑ کے پاس جو سنت ہے وہ عقیدے ، فقہ اور اخلاق و تربیت کے تمام ابواب پر حاوی ہے اس میں ہر وہ چیز موجود ہے جس کی ضرورت بشریت کو زندگی میں پڑ سکتی ہے۔

اس حقیقت کی تصریح رسولؐ کے نواسہ حضرت امام جعفر صادقؑ نے اس طرح کی ہے :
’’ما من شیء الا و فیہ کتاب او سنۃ‘‘۔[10]

کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے کہ جس کے بارے میں قرآن و حدیث میں حکم موجود نہ ہو۔
سید المرسلین ؐ کی علمی میراث کے چند نمونے
۱۔ عقل و علم

۱۔رسولؐ نے عقل کو بہت زیادہ اہمت دی ہے ، آپؐ نے اس کو پہچنوایا اور زندگی میں اس کے اثر و کردار کو بھی بیان کیا ہے یعنی ذمہ داری وفرائض، کام اور اس کی جزاء کی وضاحت کی ہے اسی طرح ان اسباب کو بھی بیان کیا ہے جن سے عقل میں رشد و تکامل پیدا ہوتا ہے ۔ فرماتے ہیں:
’’ان العقل عقال من الجھل،و النفس مثل اخبث الدواب، فان لم یعقل حارت، فالعقل عقال من الجھل، و ان اللّہ خلق العقل، فقال لہ: اقبل فاقبل، و قال لہ: ادبر فادبر، فقال لہ اللہ تبارک و تعالیٰ: و عزتی و جلالی ما خلقت خلقاً اعظم منک ولا اطوع منک، بک ابدی و اعید، لک الثواب و علیک العقاب‘‘
فتشعب من العقل الحلم و من الحلم العلم، و من العلم الرشد، و من الرشد العفاف، و من العفاف الصیانۃ، و من الصیانۃ الحیاء، ومن الحیاء الرزانۃ و من الرزانۃ المداومۃ علیٰ الخیر، و کراھیۃ الشر، و من کراھیۃ الشر طاعۃ الناصح۔
فھذہ عشرۃ اصناف من انواع الخیر، و لکل واحد من ھذہ العشرۃ الاصناف عشرۃ انواع...‘‘۔[11]

عقل جہالت و نادانی کے لئے زنجیر ہے اور نفس پلید ترین جانور کے مانند ہے اگر اسے باندھا نہیں جائے گا تووہ بے قابو ہو جائے گا، لہذا عقل نادانی کے لئے زنجیر ہے ۔ بیشک خدا نے عقل کو پیدا کیا اور اس سے فرمایا: آگے بڑھ تووہ آگے بڑھی، کہا: پیچھے ہٹ وہ پیچھے ہٹ گئی تو خدا وند عالم نے فرمایا: میں اپنی عزت وجلال کی قسم کھاتا ہوں کہ میں نے تجھ سے عظیم اور تجھ سے زیادہ اطاعت گذار کوئی مخلوق پیدا نہیں کی ہے ۔ تجھ سے ابتداکی ہے اور تیرے ہی ذریعہ لوٹاؤں گا۔ تیرے لئے ثواب دیا ہے او رتیری مخالفت کی وجہ سے عذاب کیا جائے گا۔

پھر عقل سے بردباری و جود میں آئی اور برد باری سے علم پیدا ہوا اور علم سے رشدو ہدایت و حق جوئی نے جنم لیا اور رشد سے پاک دامنی پیدا ہوئی اور عفت و پاکدامنی سے صیانت -بچاؤ اور تحفظ کا جذبہ ابھرا، صیانت سے حیا پیدا ہوئی اور حیاء سے سنجیدگی اور وقار نے وجود پایا، سنجیدگی سے نیک کام پر مداومت کرنے اور شر سے نفرت کرنے کا حوصلہ پیدا ہوا اور شر سے کراہت کرنے سے ناصح کی ا طاعت کا شوق پیدا ہوا۔

چنانچہ خیر و نیکی کی یہ دس قسمیں ہیں اور ان میں سے ہر ایک کی دس قسمیں اور دس صنفیں ہیں...

۲۔رسولؐ نے زندگی میں علم کی ضرورت کو بیان کرتے ہوئے اس کی اہمیت بتائی ہے اور تمام کمالات کے مقابلہ میں اس کی قدر و قیمت پر زور دیا ہے:

’’طلب العلم فریضہ علیٰ کل مسلم، فاطلبوا العلم من مظانہ، و اقتبسوہ من اھلہ ، فان تعلیمہ للّہ حسنۃ، و طلبہ عبادۃ، و المذاکرۃ بہ تسبیح، و العمل بہ جہاد، و تعلیمہ من لا یعلمہ صدقۃ، و بذلہ لاھلہ قربۃ الیٰ اللّٰہ تعالیٰ؛ لانہ معالم الحلال و الحرام، و منار سبل الجنۃ، و المؤنس فی الوحشۃ، و الصاحب فی الغربۃ و الوحدۃ، و المحدث فی الخلوۃ، و الدلیل علی السراء و الضراء، و السلاح علیٰ الاعداء ، و الزین عند الاخلاء۔ یرفع اللّہ بہ اقواماً، فیجعلھم فی الخیر قادۃ، تقتبس آثار ھم، و یھتدی بفعالھم، و ینتھی الیٰ رایھم، و ترغب الملائکۃ فی خلتھم۔ باجنحتھا تمسحھم، و فی صلاتھا تبارک علیہم۔ یستغفر لھم کل رطب و یابس، حتی حیتان البحر و ھوامہ، و سباع البر و انعامہ۔ ان العلم حیاۃ القلوب من الجھل، و ضیاء الابصار من الظلمۃ، و قوۃ الابدان من الضعف۔ یبلغ بالعبد منازل الاخیار، و مجالس الابرار، والدرجات العلی فی الدنیا والآخرۃ۔ الذکر فیہ یعدل بالصیام، و مدارستہ بالقیام۔ بہ یطاع الرب ، و بہ توصل الارحام، و بہ یعرف الحلال و الحرام۔ العلم امام العمل و العمل تابعہ۔ یلھمہ السعداء ، و یحرمہ الاشقیاء، فطوبی لمن لم یحرمہ اللّٰہ منہ حظہ

 و صفۃ العاقل ان یحلم عمّن جھل علیہ، و یتجاوز عمّن ظلمہ، و یتواضع لمن ھو دونہ، و یسابق من فوقہ في طلب البر۔ و اذا اراد ان یتکلم تدبّر، فان کان خیراً تکلم فغنم، و ان کان شرّاً سکت فسلم، و اذا عرضت لہ فتنۃ استعصم باللہ، و امسک یدہ و لسانہ، و اذا رأی فضیلۃ انتھز بھا۔ لا یفارقہ الحیاء، و لا یبدو منہ الحرص، فتلک عشر خصال یعرف بھا العاقل۔

و صفۃ الجاہل ان یظلم من خالطہ و یتعدی علیٰ من ھو دونہ، و یتطاول علیٰ من ھو فوقہ۔ کلامہ بغیر تدبر، ان تکلم اثم، و ان سکت سھا، و ان عرضت لہ فتنۃ سارع الیھا فاردتہ، و ان رايء فضیلۃ اعرض عنھا و ابطأ عنھا۔ لا یخاف ذنوبہ القدیمۃ، ولا یرتدع فیما بقي من عمرہ من الذنوب۔ یتوانی عن البرّ و یبطئ عنہ، غیر مکترث لما فاتہ من ذلک او ضیّعہ ، فتلک عشر خصال من صفۃ الجاہل الذي حُرِم العقل۔‘‘[12]

علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے پس علم کو اس کی جگہ سے حاصل کرو اور صاحب علم ہی سے علم حاصل کرو، کیونکہ خدا کے لئے تعلیم دینا نیکی ہے اور اس کا طلب کرنا عبادت ہے ۔ علمی بحث و مباحثہ تسبیح ہے اور اس پر عمل کرنا جہاد ہے اور نہ جاننے والے کو علم سکھانا صدقہ ہے اور اہل کے لئے اس سے خرچ کرنا تقرب خدا کاباعث ہے ، کیونکہ اس سے حلال و حرام کی پہچان ہوتی ہے ۔ یہ جنت کے راستہ کا منارہ ہے ، وحشت میں مونس ومددگار ہے ، غربت و سفر میں رفیق و ساتھی ہے اور تنہائی میں دل بہلانے والا ہے ،خوشحالی و مصیبت میں رہنماہے ، دشمن کے خلاف ہتھیار ہے ،دوستوں کی نظر میں زینت ہے ، اس کے ذریعہ خدا نے قوموں کو بلند کیا ہے انہیں نیکی کا راہنما قرار دیا ہے ان کے آثار کو جمع کیا جاتا ہے اور افعال سے ہدایت حاصل کی جاتی ہے ان کی رایوں سے آگے نہیں بڑھا جاتا، ملائکہ ان سے دوستی کا اشتیاق رکھتے ہیں اور اپنے پروں سے انہیں مس کرتے ہیں اور اپنی نماز میں ان کے لئے برکت کی دعا کرتے ہیں، ہر خشک و تر ان کے لئے استغفار کرتا ہے یہاں تک کہ دریا کی مچھلیاں اور اس کے جانور اورخشکی کے درندے اور چوپائے بھی ان کے لئے مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ علم دلوں کی زندگی، آنکھوں کا نور اور بدن کی قوت ہے علم بندے کو اخیار کی منزلوں، ابرار کی مجالس اور دنیا وآخرت کے بلند درجات پر پہنچا دیتا ہے ۔ اس میں ذکر، روزہ کے برابر ہے اور ایک دوسرے کو پڑھکر سنانا قیام کے مانند ہے ، اس کے ذریعہ خدا کی اطاعت کی جاتی ہے صلۂ رحمی کی جاتی ہے ، اس کے وسیلہ سے حلال و حرام کی معرفت ہوتی ہے ، علم عمل کا امام ہے اور وہ اس کا تابع ہے ، اس سے نیک بخت لوگوں کو نوازا جاتا ہے ، بدبختوں کو اس سے محروم کیا جاتا ہے ، پس خوش نصیب ہے وہ شخص کہ جس کو خدا نے اس سے محروم نہیں کیا۔

عاقل کی صفت یہ ہے کہ وہ جہالت سے پیش آنے والے کے ساتھ بردباری سے پیش آتا ہے اور جو اس پر ظلم کرتا ہے وہ اس سے در گزر کرتا ہے ، اپنے سے چھوٹے کے ساتھ انکساری سے پیش آتا ہے اور نیکی کرنے میں اپنے سے بڑے پر سبقت لے جاتا ہے ۔ جب لب کشائی کرنا چاہتا ہے تو سوچ لیتا ہے اگر اس میں بھلائی ہوتی ہے تو بولتا ہے اور فائدہ اٹھاتا ہے اور اگر بولنے میں کوئی برائی محسوس کرتا ہے تو خاموش رہتاہے اورغلطیوں سے محفوظ رہتا ہے جب اس کے سامنے کوئی امتحانی منزل آتی ہے تو وہ خدا سے لو لگاتا ہے اپنی زبان اور اپنے ہاتھوں پر قابو رکھتا ہے، کوئی فضیلت دیکھتا ہے تو اسے سمیٹ لیتا ہے ، حیا سے دست کش نہیں ہوتا، حرص اس میں دیکھنے میں نہیں آتی پس یہ دس خصلتیں ہیں جن کے ذریعہ عاقل پہچانا جاتا ہے ۔

جاہل کی صفت یہ ہے کہ جو اس سے گھل مل جاتا ہے یہ اس پر ظلم کرتا ہے ، اپنے سے چھوٹے پر زیادتی کرتا ہے ، اپنے بڑے کی نافرمانی کرتا ہے ، اس کے ساتھ گستاخی سے پیش آتا ہے، اسکی بات بے تکی ہوتی ہے، بولتا ہے تو گناہ کرتا ہے اور چپ رہتا ہے تو غافل ہو جاتا ہے ۔ اگر فتنہ کے روبرو ہوتا ہے تو اس کی طرف دوڑ پڑتاہے اور اسی وجہ سے ہلاک ہو جاتا ہے ، اگر کہیں کوئی فضیلت نظر آتی ہے تو اس سے روگردانی کرتا ہے۔ اس کی طرف بڑھنے میں سستی کرتا ہے ، وہ اپنے پہلے گناہوں سے نہیں ڈرتا ہے اور باقی ماندہ عمر میں گناہ ترک نہیں کرتا نیک کام کی انجام دہی میں سستی کرتا ہے اور جو نیکی اس سے چھوٹ گئی یا ضائع ہو گئی ہے اس کی پروا نہیں کرتا ۔ یہ صفت اس جاہل کی ہے جو عقل سے محروم ہے ۔
۲۔ تشریع کے مصادر

۳۔یقیناًاللہ کے رسولؐ نے تمام لوگوں کے لئے حقیقی سعادت و کامیابی کے راستہ کی نشاندہی کی ہے سعادت کے حصول کی ضمانت لی ہے بشرطیکہ وہ ان تعلیمات پر عمل کریں جو آپؐ نے ان کے سامنے بیان کی ہیں۔ رسولؐ کی نظر میں سعادت و کامیابی کا راستہ یہ ہے کہ انسان دو بنیادی اصولوں سے تمسک کرے اوریہ اصول ایک دوسرے کے بغیر کسی کو بے نیاز نہیں کریں گے یہ ثقلین ہیں۔ رسولؐ کا ارشاد ہے:

ایھا النّاس ! انی فرطکم، و انتم واردون علیّ الحوض، الا و انّی سائلکم عن الثقلین، فانظروا: کیف تخلفونی فیھما؟ فان اللطیف الخبیر نبأنی: انھما لن یفترقا حتی یلقیانی، و سالت ربی ذلک فاعطانیہ، الا و انی قد ترکتھما فیکم: کتاب اللہ و عترتی اھل بیتی، لا تسبقوھم فتفرقوا ولا تقصروا عنھم فتھلکوا، ولا تعلموھم، فانھم اعلم منکم۔

ایھالناس! لا الفینکم بعدی کفاراً!، یضرب بعضکم رقاب بعض، فتلقونی فی کتیبۃ عمجریٰ السیل الجرار۔

الا و ان علی بن ابی طالب اخی و وصیی، یقاتل بعدی علی تاویل القرآن ، کما قاتلت علی تنزیلہ‘‘۔

اے لوگو!میں تم سے پہلے جانے والا ہوں اور تم میرے پاس حوض(کوثر) پر پہنچو گے اور میں تم سے ثقلین کے بارے میں سوال کرونگا کہ میرے بعد تم نے ان دونوں کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے ؟ مجھے لطیف و خبیر نے خبر دی ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونگے یہاں تک کہ مجھ سے ملاقات کریں گے، میں نے اپنے رب سے اس کا سوال کیا تو اس نے مجھے عطا کر دیا، دیکھو: ان دونوں کو میں تمہارے درمیان چھوڑ ے جا رہا ہوں ( وہ ہیں) کتاب خدا اور میرے اہل بیتؑ سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرنا تم میں تفرقہ پڑ جائیگا اور ان سے پیچھے نہ رہ جانا ورنہ ہلاک ہو جاوگے اور انہیں سکھانے کی کوشش نہ کرنا کیونکہ وہ تم سے زیادہ جانتے ہیں۔

اے لوگو! دیکھو! میرے بعدکافر نہ ہو جانااس طرح سے کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو تم مجھے ایک بڑے لشکر میں پاؤگے ۔

آگاہ ہو جاؤ! علی ؑ بن ابی طالب ؑ میرے بھائی اور میرے وصی ہیں، وہ میرے بعد تاویل قرآن کے لئے ویسے ہی جنگ کریں گے جیسے میں نے اس کے نازل ہونے کے سلسلہ میں جنگ کی تھی۔
قرآن اور اس کا ممتا زکردار

۴۔ رسولؐ نے زندگی میں قرآن کے کردار اور اس سے مکمل تمسک کرنے کی قیمت کو واضح کرتے ہوئے اس کی عظمت کو بیان کیا ہے اور پوری بشریت کو مخاطب کرکے فرمایا ہے:

’’ایھا النّاس : انکم فی دار ھدنۃ و انتم علیٰ ظھر سفر، و السیر بکم سریع، فقد رأیتم اللیل و النہار، و الشمس و القمر، یبلیان کل جدید، و یقربان کل بعید، و یاتیان بکل وعد و وعید ، فاعدوا الجہاز لبعد المجاز۔ انھا دار بلاء و ابتلاء، و انقطاع و فناء ، فاذا التبست علیکم الامور کقطع اللیل المظلم، فعلیکم بالقرآن، فانہ شافع مشفع، و ماحل مصدق۔ من جعلہ امامہ قادہ الیٰ الجنۃ، و من جعلہ خلفہ ساقہ الیٰ النار، و من جعلہ الدلیل یدلہ علیٰ السبیل۔ و ھو کتاب فیہ تفصیل، وبیان و تحصیل۔ ھو الفصل لیس بالھزل، و لہ ظھر و بطن، فظاھرہ حکم اللہ، و باطنہ علم اللہ تعالیٰ، فظاہرہ انیق، و باطنہ عمیق،لہ تخوم، و علیٰ تخومہ تخوم، لا تحصی عجائبہ ، ولا تبلی غرائبہ ، مصابیح الھدی، و منار الحکمۃ، و دلیل علیٰ المعرفۃ لمن عرف الصفۃ، فلیجل جالٍ بصرہ، و لیبلغ الصفۃ نظرہ، ینج من عطب، و یتخلص من نشب؛ فان التفکر حیاۃ قلب البصیر، کما یمشی المستنیر فی الظلمات بالنور، فعلیکم بحسن التخلص، و قلۃ التربص۔‘‘[13]

اے لوگو! تم ابھی راحت کے گھر میں ہو، ابھی تم سفر میں ہو، تم کو تیزی سے لے جایا جا رہا ہے، تم نے رات ، دن اور چاند ، سورج کو دیکھا ہے یہ ہر نئے کو پرانا کر رہے ہیں اور ہر دور کو نزدیک کر رہے ہیں اور جس چیز کا وعدہ کیا جا چکا تھا اسے سامنے لا رہے ہیں ، تم اپنا اسباب تیار رکھو یہ منزل فنا ہے ، اس کا سلسلہ منقطع ہو جائیگا جب تم پر کالی رات کے ٹکڑوں کی طرح امور مشتبہ ہو جائیں گے اس وقت تم قرآن سے تمسک کرنا کیونکہ وہ شفاعت کرنے والا ہے اور اس کی شفاعت قبول کی جائیگی اوراس کی شکایت بھی قبول کی جائے گی جو اسے اپنے آگے رکھتا ہے وہ اسے جنت کی طرف لے جاتا ہے اور جو اسے پسِ پشت قرار دیتا ہے وہ اسے جہنم میں پہنچا دیتا ہے اور جو اسے راہنما بناتا ہے تو وہ اسے سیدھے راستہ کی ہدایت کرتا ہے ۔ یہ ایسی کتاب ہے کہ جس میں تفصیل ہے واضح بیان اور علوم و معارف کا حصول ہے یہ قول فیصل ہے کوئی مذاق نہیں ہے۔ اس کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے ، اس کا ظاہر تو حکمِ خدا ہے اور اس کا باطن علم خدا ہے ، اس کا ظاہر عمدہ و خوبصورت ہے اور اس کا باطن عمیق ہے، اس میں رموز ہیں بلکہ رموز در رموز ہیں اس کے عجائب کو شمار نہیں کیا جا سکتا ہے اور اس کے غرائب کہنہ و فرسودہ نہیں ہو سکتے ہیں اس کی ہدایت کے چراغ اور حکمت کے منارے ہیں اور جو اس کے صفات کی معرفت رکھتا ہے اس کے لئے دلیلِ معرفت ہے، راہرو کو چاہئے کہ اپنی آنکھ کو اس سے منورکرے اور اس کے اوصاف تک اپنی نظر پہنچائے تاکہ ہلاکت سے نجات اور جہالت سے رہائی پائے،بیشک فکر و نظر دل کی بصارت ہے جیسا کہ روشنی کاطالب تاریکی میں روشنی لیکر چلتا ہے ، تمہارے لئے ضروری ہے کہ ہر پستی سے نجات حاصل کرو اور توقعات کو کم رکھو۔
اہل بیت ؑ دین کے ارکان ہیں

۵۔ رسولؐ نے ثقل کبیر، اہل بیتؑ رسول ؐ-علی ؑ اور ان کے بارہ فرزندوں کو- مختلف طریقوں سے پہچنوایا ، اپنے آخری خطبہ میں فرمایا:

’’یا معشر المھاجرین و الانصار! و من حضرنی فی یومی ھذا ، و فی ساعتی ھذہ، من الجن و الانس فلیبلغ شاھدکم الغائب: الا قد خلفت فیکم کتاب اللہ ۔ فیہ النور، وا لھدی، و البیان، ما فرّط اللہ فیہ من شیء ، حجۃ اللّہ لی علیکم۔ و خلفت فیکم العلم الاکبر، علم الدین ، و نور الھدی، وصیی: علی بن ابی طالب، الا و ھو حبل اللّہ، فاعتصموا بہ جمیعاً ، ولا تفرقوا عنہ، ( و اذکروا نعمت اللّہ علیکم اذ کنتم اعداءً فالّف بین قلوبکم فاصبحتم بنعمتہ اخواناً)[14]

ایھا النّاس ! ھذا علی بن ابی طالبؑ ، کنز اللّہ، الیوم وما بعد الیوم، من احبہ و تولاہ الیوم و ما بعد الیوم ، فقد اوفی بما عاہد علیہ، و ادی ما وجب علیہ، و من عاداہ الیوم وما بعد الیوم ، جاء یوم القیامۃ اعمی و اصم، لا حجۃ لہ عند اللّہ۔

ایھا الناس! لا تاتونی غداً بالدنیا، تزفونھا زفاً، و یأ تی اھل بیتی شعثاء غبراء، مقھورین مظلومین ، تسیل دماؤھم امامکم، و بیعات الضلالۃ و الشوری للجہالۃ فی رقابکم۔

الا و ان ھذا الامر لہ اصحاب و آیات، قد سمّا ھم اللّہ فی کتابہ، و عرفتکم ، و بلغتکم ما ارسلت بہ الیکم، ولکنی اراکم قوماً تجھلون۔ لا ترجعن بعدی کفاراً مرتدین،

متاولین للکتاب علیٰ غیر معرفۃ، و تبتدعون السنۃ بالھوی؛ لان کل سنّۃ وحدیث و کلام خالف القرآن فھو ردّ و باطل۔

القرآن امام ھدی، و لہ قائد یھدی الیہ، و یدعو الیہ بالحکمۃ و الموعظۃ الحسنۃ۔ و ھو ولیّ الامر بعدی، ووارث علمی و حکمتی ، و سری و علانیتی، و ما ورثہ النبیون من قبلی، وانا وارث و مورث، فلا یکذّبنّکم انفسکم۔

ایّھا النّاس! اللّہ اللّہ فی اھل بیتی؛ فانھم ارکان الدین ، و مصابیح الظلم ، و معدن العلم؛ علی اخی، و وارثی، و وزیری، و امینی، و القائم بامری، و الموفی بعھدی علیٰ سنتی۔ اول النّاس بی ایماناً، و آخرھم عھداً عند الموت، و اوسطھم لی لقاء اً یوم القیامۃ، فلیبلّغ شاھدکم غائبکم الا و من امّ قوماً و من ام قوماً امامۃ عمیاء ، و فی الامۃ من ھو اعلم فقد کفر۔

ایّھا النّاس! و من کانت لہ قبلی تبعۃ فیما انا، و من کانت لہ عدۃ، فلیات فیھا علی بن ابی طالب، فانہ ضامن لذلک کلّہٗ، حتی لا یبقی لاحد علیّ تباعۃ‘‘۔[15]

اے گروہِ مہاجرین و انصار جوبھی آج اس وقت میرے سامنے موجود ہے ، مجھے دیکھ رہا ہے اسے چاہئے غائب لوگوں تک یہ پیغام پہنچا دے۔ آگاہ ہو جاؤ میں نے تمہارے درمیان خدا کی کتاب چھوڑی ہے، جس میں نور ، ہدایت اور بیان ہے ، اس میں خدا نے کسی چیز کو بیان کئے بغیر نہیں چھوڑا ہے ۔ یہ تمہارے اوپر خدا کی حجّت ہے اور میں نے تمہارے درمیان علمِ اکبر، علم دین ، نورِ ہدایت اور اپنا وصی، علی بن ابی طالبؑ کو چھوڑا ہے ، اچھی طرح سمجھ لو کہ وہ حبل اللہ یعنی خدا تک پہنچنے کا وسیلہ ہیں سب مل کر ان کا دامن تھام لو انہیں چھوڑکر پراگندہ نہ ہو جانا۔ تم اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ جس سے اس نے تمہیں نوازا ہے تم ایک دوسرے کے دشمن تھے اس نے تمہارے دلوں میں ایک دوسرے کی محبت ڈال دی تو اس کی نعمت کے سبب تم ایک دوسرے کےبھائی بن گئے۔

اے لوگو! یہ علی بن ابی طالبؑ آج اور بعد کے لئے خدا کا ذخیرہ ہیں جو شخص آج اور بعد میں ان سے محبت کرے گا اور ان کی پیروی کرے گا تو وہ اپنے کئے ہوئے عہد کو پورا کرے گا اور اپنے فرض کو انجام دے گا اور جس شخص نے آج اور آج کے بعد ان سے عداوت رکھی وہ قیامت کے دن اندھا اور بہرہ اٹھے گا اور خدا پر اس کی کوئی حجّت نہیں ہوگی اور وہ خدا کے سامنے کوئی عذر نہیں پیش کر سکے گا۔

اے لوگو! تم کل-روز قیامت- میرے پاس اس طرح نہ آنا کہ تم مال دنیا سے لدئے ہوئے ہو اور میرے اہل بیت ؑ کی غربت کی وجہ سے یہ حالت ہو کہ ان کے بال گرد سے اٹے ہوئے ہوں، مظلوم و ستم دیدہ ہوں اور تمہارے ہاتھوں سے ان کا خون ٹپک رہا ہو۔ یاد رکھو کہ گمراہی و ضلالت کی بیعت اور جاہلوں کی شوریٰ کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔

میں تمہیں بتائے دیتا ہوں کہ اس خلافت کے اہل موجود ہیں وہی خدا کی نشانیاں ہیں خدا نے اپنی کتاب میں ان کی پہچان بتا دی ہے اور میں نے ان کا تعارف کرا دیا ہے میں نے تم تک وہ پیغام پہنچا دیا ہے جس کے ساتھ مجھے مبعوث کیا گیا تھا، اس کے باوجود میں تمہیں جاہل و نادان ہی دیکھ رہا ہوں۔ خبردار میرے بعد تم کافر و مرتد نہ ہوجانا اور علم و معرفت کے بغیر قرآن کی تاویل نہ کرنا اور میری سنت کو اپنی خواہش کے مطابق نہ ڈھال لینا کیونکہ ہر بدعت اور ہر وہ کام جو قرآن کے خلاف ہوتا ہے وہ باطل ہے۔

اس میں شک نہیں کہ قرآن ہدایت کا امام ہے لیکن اس کے لئے ایک قائد ناطق کی ضرورت ہے جو اس کی طرف ہدایت کرے اور حکمت و بہترین نصیحت کے ساتھ اس کی طرف بلائے اور وہ ہے میرے بعد ولیِ امر، وہی میرے علم و حکمت کا حقدار اورمیرے اسرار کا وارث اور انبیاء کی میراث کا حامل ہے دیکھو! میں بھی وارث ہوں اور میرے بھی وارث ہیں، تمہارے نفس کہیں تمہیں دھوکا نہ دیں۔

اے لوگو! میرے اہل بیتؑ کے بارے میں خدا سے ڈرو! خدا سے ڈرو! دیکھو یہ دین کے ارکان و ستون ، تاریکی کے چراغ اور علم کا سر چشمہ ہیں ، علی میرے بھائی، میرے وارث، میرے وزیر، میرے امین اور میرے امور کو انجام دینے والے اور میری سنت کے مطابق میرے وعدہ کو پورا کرنے والے ہیں سب سے پہلے اپنے اسلام و ایمان کا اظہار کرنے والے ہیں،یہ دمِ آخر تک میرے ساتھ رہیں گے اور روز قیامت مجھ سے ملاقات کرنے والوں میں اوسط ہیں۔

تم میں سے جو لوگ یہاں موجود ہیں انہیں چاہئے کہ میرا یہ پیغام ان لوگوں تک پہنچا دیں جواس وقت یہاں موجود نہیں ہیں یاد رکھو کہ اگر کسی نے اندھے پن میں کسی کو اپنا امام بنا لیا اور وہ جانتا تھا کہ قوم میں اس سے بہتر آدمی موجود ہے تو وہ کافر ہو گیا۔

اے لوگو! اگر کسی کے پاس میری دستاویز ہے کہ جس میں، میں ضامن ہوں یا کسی سے میرا وعدہ ہے تو وہ علی بن ابی طالب کے پاس جائے وہ میرے تمام امور کے ضامن ہیں وہ میرے ذمہ کسی کاکچھ باقی نہیں رہنے دیں گے۔

حوالہ جات

[1] سورۂ جمعہ :۲۔

[2] فرقان: ۵۔

[3] کافی ج۱ ص ۶۲ و ۶۳، کتاب فضل العلم باب اختلاف الحدیث۔

[4] بقرہ: ۱۲۰ ۔

[5] نحل:۴۴، احزاب:۲۱ ، حشر:۷۔

[6] بصائر الدرجات: ۱۹۸، کافی ج۱ ص ۶۲و ۶۳۔

[7] تاریخ التشریع الاسلامی ص ۳۱۔

[8] ایضاً ص ۳۲۔

[9] ایضاًص۳۳۔

[10] الکافی ج۱ ص۴۸۔

[11] تحف العقول باب مواعظ النبی و حکمہ۔

[12] بحار الانوار ج۱ص۱۷۱ طبع موسسۃ الوفاء، تحف العقول: ۲۸ طبع موسسہ النشر الاسلامی۔

[13] تفسیر العیاشی ج۱ ص ۲۔۳، کنز العمال ج۲ ص ۲۸۸، الحدیث ۴۰۲۷۔

[14] آل عمران:۱۰۳۔

[15] بحار الانوار ج۲۲ ص ۴۸۴ ، ۴۸۷۔


source : abna24
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

ادب و سنت
زیارت حضرت فاطمہ معصومہ قم (ع)
کیوں تشہد میں علی ولی اللہ پڑھنے کی اجازت نہیں؟
عفو اہلبيت (ع)
عہد امیرالمومنین میں امام حسن کی اسلامی خدمات
حضرت امام رضا (ع) کا کلام
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام(حصہ دوم)
حضرت امیر المؤمنین علیہ الصلوٰة والسلام کی والدہ ...
کربلا کے روضوں کے منتظمین کے لیے مشہد میں ہوٹل کی ...
ارشادات نبوی

 
user comment