اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

توحید صفاتی

توحید صفاتی توحید صفاتی سے مراد ذات حق تعالیٰ کی صفات کے ساتھ عینی وحدانیت اور ان صفات کی ایک دوسرے سے یگانگت کی معرفت و ادراک ہے۔ توحید ذاتی‘ ثانی اور مثل و نظیر کی نفی کرنا ہے جبکہ توحید صفاتی خود ذات سے ہر قسم کی ترکیب کی نفی کرنا ہے اگرچہ ذات خداوند تعالیٰ اوصاف کمالیہ جمال و جلال سے متصف ہے لیکن مختلف عینی جہات کی حامل نہیں ہے ذات کا صفات کے ساتھ اختلاف اور صفات کا ایک دوسرے کے ساتھ اختلاف کسی وجود کے محدود ہونے کا لازمہ ہے‘ لیکن کسی اور لامتناہی وج
توحید صفاتی

 توحید صفاتی

توحید صفاتی سے مراد ذات حق تعالیٰ کی صفات کے ساتھ عینی وحدانیت اور ان صفات کی ایک دوسرے سے یگانگت کی معرفت و ادراک ہے۔ توحید ذاتی‘ ثانی اور مثل و نظیر کی نفی کرنا ہے جبکہ توحید صفاتی خود ذات سے ہر قسم کی ترکیب کی نفی کرنا ہے اگرچہ ذات خداوند تعالیٰ اوصاف کمالیہ جمال و جلال سے متصف ہے لیکن مختلف عینی جہات کی حامل نہیں ہے ذات کا صفات کے ساتھ اختلاف اور صفات کا ایک دوسرے کے ساتھ اختلاف کسی وجود کے محدود ہونے کا لازمہ ہے‘ لیکن کسی اور لامتناہی وجود کے لئے کوئی دوسرا قابل تصور نہیں ہے۔ اسی طرح ذات و صفات کے اختلاف اور کثرت و ترکیب کا بھی کوئی تصور نہیں‘ توحید ذاتی کی مانند توحید صفاتی بھی اسلامی معارف کے اصولوں اور انسان کے عالی ترین اور بالا ترین افکار میں سے ہے جو خاص کر مکتب تشیع میں جلوہ گر ہوئی ہے۔ یہاں پر ہم صرف نہج البلاغہ کے پہلے خطبے کو درج کرتے ہیں:

الحمدللّٰہ الذی لایبلغ مدحة القائلون ولا یحصی نعماء ہ العادون‘ ولا یودی حقہ المجتھدون‘ الذی لایدرک بعدالھمم ولا ینالہ غوص الفطن‘ الذی لیس لصفة حد محدود و لانعت موجود

تعریف اس خدا کی جس تک تعریف کرنے والوں کی تعریف نہیں پہنچ سکتی اور نہ شمار کرنے والے اس کی نعمتوں کو شمار کر سکتے ہیں اور نہ ہی کوشش کرنے والے اس کی بندگی کا حق ادا کر سکتے ہیں اور نہ ہی اس کی کہنہ ذات تک بلند پرواز ہمتیں پہنچ سکتی ہیں‘ نہ عقل و فہم کی گہرائیاں اس کی تہہ تک پہنچ سکتی ہیں۔ اس کی صفت کی کوئی حد انتہا نہیں نہ اس کے لئے توصیفی الفاظ ہیں۔

ان جملات میں اللہ کی لامحدود صفات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس کے بعد چند ہی جملوں کے بعد ارشاد ہوتا ہے:

کمال الاخلاص لہ نفی الصفات عنہ لشھادة کل موصوف انہ غیر الصفة و شھادة کل صفة انھا غیر الموصوف فمن وصف اللّٰہ سبحانہ فقد قرنہ و من قرنہ۔

کمال اخلاص یہ ہے کہ اس سے صفتوں کی نفی کی جائے کیوں کہ ہر صفت شاہد ہے کہ وہ اپنے موصوف کی غیر ہے اور ہر موصوف شاہد ہے کہ وہ صفت کے علاوہ کوئی چیز ہے لہٰذا جس نے ذات الٰہی کے علاوہ صفات مانیں اس نے ذات کا ایک دوسرا ساتھی مان لیا اور جس نے اس کی ذات کا کوئی اور ساتھی مانا‘ اس نے ان جملوں میں اللہ کے لئے صفت کو ثابت بھی کیا ہے:

الذی لیس لصفۃ حد محدود

وہ ہستی جس کی صفات کی کوئی محدود حد نہیں اور صفات کی نفی بھی کی گئی ہے (لشھادة کل صفة انھا) ان الفاظ سے یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ اللہ سے جو صفت منسوب کی گئی ہے وہ ذات کی طرح لامحدود ہے اور عین ذات ہے اور جس صفت سے اللہ کی ذات مبرا و منزہ ہے‘ وہ محدود ہے اور غیر ذات کے ساتھ ساتھ دوسری صفت کا بھی غیر ہے۔ پس توحید صفاتی سے مراد ذات اور صفات حق کی وحدت و یگانگت کی معرفت ہے۔


source : tebyan
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

متعہ
[دین اور سیاست] نظریہ ولا یت فقیہ
تشیع کی پیدائش اور اس کی نشو نما (۲)
خدا کی راہ میں خرچ کرنا
جاہل کی پہچان
جن اور اجنہ کےبارے میں معلومات (قسط -2)
عدل الہی قرآن کی روشنی میں
دستور اسلام ہے کہ ہم سب ''معتصم بہ حبل اللہ''
تشيع کا خصوصي مفہوم
عبادت اور خدا کا ادراک

 
user comment