اردو
Tuesday 23rd of April 2024
0
نفر 0

روزہ اور رياضت

سوئم: تيسرا فرق اس محرک اور ہدف و غايت کے لحاظ سے ہے جس کے حصول کے لئے مرتاض تپسيا ميں مصروف ہوتا ہے- اگر مرتاض سے پوچھا جائے کہ اس عمل سے تمہارے اس عمل کا محرک اور اس کا ہدف کيا ہے، تو وہ کہہ سکتا ہے کہ: "ميں يہ سب روح کي تقويت يا ارادے کي تقويت کے لئے انجام دے رہا ہوں يا ايک خاص قسم کي صلاحيت حاصل کرنا چاہتا ہوں"- ليکن روزے کي
روزہ اور رياضت

سوئم: تيسرا فرق اس محرک اور ہدف و غايت کے لحاظ سے ہے جس کے حصول کے لئے مرتاض تپسيا ميں مصروف ہوتا ہے- اگر مرتاض سے پوچھا جائے کہ اس عمل سے تمہارے اس عمل کا محرک اور اس کا ہدف کيا ہے، تو وہ کہہ سکتا ہے کہ: "ميں يہ سب روح کي تقويت يا ارادے کي تقويت کے لئے انجام دے رہا ہوں يا ايک خاص قسم کي صلاحيت حاصل کرنا چاہتا ہوں"- ليکن روزے کي اولين شرط يہي ہے کہ روزہ دار شخص "قرب الہي" کي نيت کرے کيونکہ رسول اللہ (ص) کا ارشاد ہے کہ "إِِنَّمَا الْأََعْمالُ بِالنِّيِّاتِ"- (3) بے شک اعمال کا دارومدار نيتوں پر ہے-

البتہ روزہ دار کا محرک جنت اور جنت کي نعمتيں بھي ہوسکتي ہيں؛ تاہم "قربة الي الله" کي نيت کرنا ضروري ہے- وہ بندگي اور عبوديت کے دائرے ميں اللہ کي رضا کمانا چاہتا ہے اور اس کے بعد مادي اور معنوي نعمتوں سے بہرہ مند ہونا چاہتا ہے-

پس الٰہي رياضتوں ميں، نيت اور محرک، الہي ہے جبکہ تپسيا کرنے والوں کے عمل کي للٰہيت معلوم نہيں ہے-

چہارم- ديني اور غير ديني رياضتوں کے درميان ايک فرق رياضت کي حصوليابيوں اور نتائج کو بروئے کار لانے سے تعلق رکھتا ہے- ايک مۆمن انسان ـ جو احکام الہي پر عمل کرکے کمالات تک پہنچ جاتا ہے ـ کبھي بھي ان کمالات اور ثمرات سے ناجائز فائدہ نہيں اٹھاتا اور کسي صورت ميں بھي ان کمالات کو حرام راستے ميں خرچ کرتا- جبکہ ايک مرتاض جب رياضت اور تپسيا کے نتيجے ميں بعض صلاحيتيں حاصل کرتا ہے عين ممکن ہے کہ ان کو غير صحيح اور ناجائز راستوں ميں صرف کرے- اب سوال يہ ہے کہ کيا غيرديني تپسيا کے ذريعے بھي کوئي انسان کسي مقام و منزلت تک پہنچ سکتا ہے؟

جواب مثبت ہے؛ کيونکہ رياضت اور اس کے نتائج علت و معلول کے نظام آتے ہيں؛ يعني اگر علّت (يا سبب جو کہ اپنے آپ کو مشقت ميں ڈالنے سے عبارت ہے) معرض وجود ميں آتي ہے تو معلول (اور نتيجہ جو بعض پہلۆوں ميں روح کي تقويت کي صورت ميں نمودار ہوتا ہے) بھي حاصل ہوجاتا ہے؛ البتہ يہ علت معلول کا سلسلہ، ہوسکتا ہے کہ ايک اخلاقي اور الہي نظام کے دائرے ميں تشکيل پائے يا ممکن ہے کہ اس نظام سے باہر- بالکل ايک تيزدھار خنجر کي مانند جس کو صحيح يا غلط راستے ميں استعمال کيا جاسکتا ہے اور ممکن ہے کہ خنجر صحيح روش سے تيز کيا گيا ہو يا غصبي اور غلط روش سے- چنانچہ روح کو تقويت پہنچانا خنجر کو تيز کرنے کي طرح ہے- پس ديني رياضتوں کے سائے ميں، اگر ايک طرف سے انسان کا نفس طاقتور ہوجاتا اور وہ کمالات پر فائز ہوتا ہے؛ وہ حقيقي اور ابدي سعادت تک بھي پہنچ جاتا ہے- يہ وہ امر ہے جو غير ديني تپسيا کے ذريعے حاصل کرنا ممکن نہيں ہے-

 

حوالہ چات:

3- مستدرك الوسايل، ج 1، ص 90-


source : tebyan
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اہل سنت والجماعت کی اصطلاح کا موجد؟
فلسطین کی تاریخ
حضرات ائمہ علیھم السلام
والدین کی نافرمانی کےدنیامیں منفی اثرات
عزا داری کا اسلامی جواز
ایمانداری کا انعام
سنت محمدی کو زندہ کرنا
امام کا وجود ہر دور میں ضروری ہے
دينى حكومت كى تعريف
خطبه غدیر سے حضرت علی علیه السلام کی امامت پر ...

 
user comment