اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

بد گمانى سے اسلام کا مقابلہ

قرآن مجيد نے بد گمانى کو بھت بڑا شمار کيا ھے اور مسلمانوں کو اس بات سے روکا ھے کہ ايک دوسرے کے بارے ميں بدگمانى کريں - چنانچہ ارشاد ھے : ”‌ ياا يّھا الذين اٰمنوا اجتنبوا کثيرا من الظن ان بعض الظن اثم “ اے ايماندار و! بھت سے گمان (بد ) سے بچے رھو کيونکہ بعض بد گمانى گناہ ھے دين اسلام نے لوگوں کو
بد گمانى سے اسلام کا مقابلہ

قرآن مجيد نے بد گمانى کو بھت بڑا شمار کيا ھے اور مسلمانوں کو اس بات سے روکا ھے کہ ايک دوسرے کے بارے ميں بدگمانى کريں - چنانچہ ارشاد ھے : ”‌ ياا يّھا الذين اٰمنوا اجتنبوا کثيرا من الظن ان بعض الظن اثم “ اے ايماندار و! بھت سے گمان (بد ) سے بچے رھو کيونکہ بعض بد گمانى گناہ ھے

دين اسلام نے لوگوں کو بغير کسى قطعى دليل کے بد گماني کرنے سے روکا ھے - رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم کا ارشاد ھے : مسلمانوں کى تين چيزيں تم پر حرام ھيں 1-خون 2- مال 3- بد گماني- جس طرح کسى مدرک و دليل کے بغير کسى کے مال کو دوسرے کى طرف منتقل کرنا غير شرعى ھے اسى طرح لوگوں کے بارے ميں بد گمانى کرنا بھى حرام اور غير شرعى فعل ھے اور اصل قضيہ کے ثابت ھونے سے پھلے کسي کو متھم کرنا جائز نھيں ھے - حضرت على عليہ السلام کا ارشاد ھے :

صرف بد گمانى کى بنا پر کسى کے خلاف حکم لگا دينا نا انصافى ھے  حضرت على عليہ السلام نے بد گماني کے نقصانات ، نفسياتى بيمارياں روحانى مفاسد کو بھت جامع و بديع انداز ميں بيان فرمايا ھے :

خبر دار کسى سے بد گمانى نہ کرو کيونکہ بد گمانى عبادت کو فاسد اور گناہ کے بوجہ کو زيادہ کرتى ھے نيک لوگوں سے بد گمانى ان کے حق ميں ظلم و بے انصافى ھے چنانچہ ارشاد مولائے کائنات ھے :

نيک شخص کے بارے ميں بد گمانى بد ترين گناہ اور قبيح ترين ظلم ھے  دوستوں سے بد گمانى قطع روابط اور دوستي و الفت کے ختم ھونے کا سبب ھے چنانچہ ارشاد ھے : جس کے دل پر بد گمانى کا غلبہ ھو جاتا ھے اس کے اور اس کے دوستوں کے درميان صفائى کي گنجائش باقى نھيں رھتى -

بد گماني جس طرح انسان کے اخلاق و زندگى کو بر باد کرتى ھے اسى طرح دوسروں کے اخلاقيات و روح کو خراب کر ديتى ھے - اور يہ بھى ممکن ھے کہ جن لوگوں کے بارے ميں بد گماني کى جائے ان کے اخلاقيات صراط مستقيم سے منحرف ھو جائيں اور وہ لوگ فساد و رذائل ميں مبتلا ھو جائيں جيسا کہ حضرت على عليہ السلام نے فرمايا : بد گمانى بھت سے امور کو فاسد کر ديتى ھے اور برائيوں پر آمادہ کرتى ھے -

ڈاکٹر ماردن کھتا ھے : بھت سے ايسے نوکر ھيں جن کے مالک ان سے ھميشہ بد گمان رھتے ھيں اور خيال کرتے ھيں کہ يہ ملازمين چور ھيں ايسے نوکر آخر کار چورى کرنے لگتے ھيں اور اس قسم کى بد گمانى کا چاھے ھاتہ و زبان سے اظھار بھى نہ کيا جائے پھر بھى وہ اپنى برى تاثير چھوڑتي ھيں اور اس کى روح مسموم ھو جاتى ھے اور اس کو چورى پر ورغلانے لگتى ھے -

حضرت على عليہ السلام اسى سلسلہ ميں فرماتے ھيں :کھيں تم ( اپنى بيوى سے بد گمانى کى بنا پر ) اپنى غيرت کا اظھار نہ کر بيٹھو کيونکہ يہ بات صحيح آدمى کو برائى پر اور بے گناہ کو گناہ پر آمادہ کرتى ھے -

بد گمانى کرنے والا شخص کبھى اپنے جسم و روح کى سلامتى سے بھى ھاتہ دھو بيٹھتا ھے - جيسا کہ حضرت علي عليہ السلام نے فرمايا : بد گمان شخص کو تندرستى و آرام نصيب نھيں ھوتا -


source : tebyan
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

علم کی فضیلت ۔قرآن وحدیث کی روشنی میں
تفسیر "سورہ البقرة " (آیات 61 تا 65)
ختم سورہ واقعہ
قرآن مجید میں مسلمان کن معنی میں آیا هے؟
قرآن و اھل بیت علیھم السلام
قرآن کے اسماء کیا کیا هیں؟
اسلام پر موت کی دعا
تاویل قرآن
قرآن مجید کاتعارف
قرآن مجيد کي رو سے اسلامي اتحاد

 
user comment