اردو
Wednesday 24th of April 2024
0
نفر 0

اسیرانِ اہلِبیت کی زندانِ شام سے رہائی جناب زینب کا شام سے لے کر مدینہ تک قیامت خیز بین کرنا

جب امام حسین علیہ السلام اور اُن کے عزیزوں اور ساتھیوں پر مشتمل قافلہٴ غربت مدینہ سے نکلا تو سارا شہر جمع تھا۔ محلہ بنی ہاشم اور رونے کی آوازیں آ سمان تک پہنچ رہی تھیں۔ بچے پوچھتے تھے ماں باپ سے کہ کیا عون و محمد بھی جارہے ہیں؟ تو وہ کہتے تھے کہ ہاں، جا رہے ہیں۔ کب تک آجائیں گے؟ تو وہ رو کر کہتے تھے کہ اب واپس نہ آئیں گے۔ جوان یہ سمجھ رہے تھے کہ علی اکبر واپس نہ آئیں گے۔ اصحابِ رسول کا ہجوم تھا۔ لکھا یہ ہے کتابوں میں کہ اس دن سے پہلے اتنا گریہ و شیون کبھی مدینے میں نہیں
اسیرانِ اہلِبیت کی زندانِ شام سے رہائی جناب زینب کا شام سے لے کر مدینہ تک قیامت خیز بین کرنا

جب امام حسین علیہ السلام اور اُن کے عزیزوں اور ساتھیوں پر مشتمل قافلہٴ غربت مدینہ سے نکلا تو سارا شہر جمع تھا۔ محلہ بنی ہاشم اور رونے کی آوازیں آ سمان تک پہنچ رہی تھیں۔ بچے پوچھتے تھے ماں باپ سے کہ کیا عون و محمد بھی جارہے ہیں؟ تو وہ کہتے تھے کہ ہاں، جا رہے ہیں۔ کب تک آجائیں گے؟ تو وہ رو کر کہتے تھے کہ اب واپس نہ آئیں گے۔ جوان یہ سمجھ رہے تھے کہ علی اکبر واپس نہ آئیں گے۔ اصحابِ رسول کا ہجوم تھا۔ لکھا یہ ہے کتابوں میں کہ اس دن سے پہلے اتنا گریہ و شیون کبھی مدینے میں نہیں ہوا جتنا حسین کی روانگی کے وقت ہوا۔

ہم یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ سب کچھ ہوتا رہا مگر گھر سے کتنے آدمی نکلے؟ باوجود اِن تمام چیزوں کے یہ دیکھتے ہوئے کہ اسلام کی کیا حالت ہوگئی ہے، مگر کوئی نہ نکلا۔ میں کبھی کبھی عرض کیا کرتا ہوں۔ میرے بھائیو! جس کے گھر میں آگ لگ جاتی ہے، اُس کے دل سے پوچھو۔ دوسرے لوگ محلے والے تماشہ دیکھنے کیلئے آجاتے ہیں لیکن اگر اُس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر دیکھو گے تو اس کے دل میں جو آگ لگی ہوئی ہے، اس کا اثر آپ تک بھی پہنچ جائے گا۔ ارے یہ کونسا گھر تھا جس میں آگ لگی ہوئی تھی اور حسین اُس کو بجھانے کیلئے روانہ ہورہے تھے؟
امام حسین یہ سمجھ رہے تھے کہ اسلام کی کشتی کو ساحلِ نجات پر پہنچانے کیلئے میرے بھائیوں کی طاقت کی ضرورت ہے، اس کیلئے میرے بیٹوں کی طاقت کی ضرورت ہے، یہاں تک کہ آپ سمجھتے تھے کہ میرا چودہ دن کا جو بچہ علی اصغر ہے، اُس کے بھی زور لگانے کی ضرورت ہے اور جب یہ کشتی کنارے تک پہنچ جائے گی تو اس میں اور بھی ضرورتیں ہیں، اس کا پرچم وغیرہ، وہ کہاں سے آئے گا؟ زینب نے کہا: میری چادر جو موجود ہے۔

آخر میں چند فقرے عرض کروں گا۔ کربلا میں پہنچے اور ساتویں سے پانی بند ہوگیا۔ جو کچھ کوزوں میں یا مشکیزوں میں پانی رکھا تھا، وہ سب ختم ہوگیا، یہاں تک کہ بچوں کیلئے بھی پانی نہ رہا۔ آٹھویں گزری، نویں گزری، آٹھویں کو اصحابِ حسین نے کہا: مولا ! اجازت دیجئے، ابھی ہمارے بازوؤں میں دم ہے، ابھی ہمارے ہاتھوں میں قوتیں ہیں، اُن سے ہم لڑ سکتے ہیں۔ امام حسین یہی فرمارہے تھے کہ بھائیو! میں لڑنے کیلئے نہیں آیا۔ اُنہیں وہ شکست دینے آیا ہوں جس کا جواب قیامت تک نہ ہوسکے گا اور وہ لڑنے سے حاصل نہ ہوگی۔ جانتے تھے کہ اگر لڑائی ہوگئی تو شاید جنگ کا رنگ ہی بدل جائے۔ جب دسویں تاریخ آگئی تو آپ نے یہ دیکھا کہ اِن بہادروں کی ٹانگوں میں لغزش پیدا ہونے لگی۔ آنکھوں میں حلقے پڑگئے۔ تلوار اُٹھانے میں تکلیف ہونے لگی تو اب آپ نے فرمایا کہ اچھا تم لڑ سکتے ہو۔ جنگ ہوئی، عزیزوں کی لاشیں اُٹھائیں، دوستوں کی لاشیں اُٹھا کر لائے، یہاں تک کہ چھ مہینے کے بچے کی قبر اپنے ہاتھ سے کھودی اور اس کے بعد دو رکعت نمازِ شکر ادا کی قبر پر یہ نمازِ شکر تھی ، نمازِ میّت نہ تھی۔ اگر نمازِ میّت ہوتی تو علی اکبر کی لاش پر پڑھتے، نمازِ میّت ہوتی تو دریا کے کنارے عباس کی لاش پر پڑھتے، نمازِ میّت ہوتی تو قاسم کی لاش پر پڑھتے۔ اپنے بچے کو قبر میں چھپا کر کھڑے ہوگئے۔ دورکعت نمازِ شکر ادا کی۔ خدایا! تیرا شکر کہ تو نے مجھے اِن تمام چیزوں میں ثابت قدم رکھا۔

مختصر کر رہا ہوں ، پھر وہ وقت بھی آیا جب امام زین العابدین علیہ السلام نے لیٹے لیٹے خیمے کا پردہ اُٹھایا تو کیا قیامت دیکھی۔ باپ کا سر نیزے پر بلند ہے، حسین قتل کردئیے گئے میدانِ کربلا میں۔ کئی آوازوں سے گونج رہا ہے۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ کیسے کہوں؟ ہوا یہ کہ خیموں میں آگ لگی جس کے بعد گھوڑے اِدھر اُدھر چلے گئے۔ بیچ میں حسین کی لاش۔یہ بارہویں امام کی زیارت میں موجود ہے، اس لئے عرض کر رہا ہوں۔

اس کے بعد گیارہویں تاریخ ہوئی۔ بیبیاں قید ہوکر کوفے کی طرف چلیں۔ جتنے شہید تھے، اُن کے سر کاٹ کر صندوقوں میں بند کئے گئے۔یہ قافلہ چلا۔ دومیل جب کوفہ رہ گیا تو ابن زیاد کا حکم آیا کہ ابھی قیدیوں کو ٹھہراؤ کیونکہ بازار آراستہ نہیں ہوا۔ قیدی ٹھہرے رہے۔اِن بیبیوں کی گودوں میں بچے بھی موجود تھے۔ دھوپ میں کھڑے تھے یہ قیدی۔ جب باجوں کے بجنے کی آواز آئی، حکم ہوا کہ قیدیوں کو بڑھاؤ۔ مگر کس طرح سے کہ یہ جو صندوقوں میں کٹے ہوئے سر ہیں، اُن کو نیزوں پر چڑھا دو اور جس جس بی بی کا کوئی عزیز ہے، اس کے اونٹ کے ساتھ وہ نیزہ ہو۔ ہائے علی اکبر کا سر اُمّ لیلیٰ کے اونٹ کے ساتھ، امام حسین کا سرجنابِ زینب کے اونٹ کے ساتھ۔ اب جو زینب کی نگاہ پڑی، بھائی کے سر کو دیکھا توایک مرتبہ ھودج کی لکڑی پراپنی پیشانی دے ماری، خون بہنے لگا اور کہتی ہیں:میری ماں کے چاند ! کیا میری ماں نے چکیاں پیس پیس کر تجھے اسی دن کیلئے پالا تھا؟

ابن زیاد کے دربار میں پیشی کے بعد یزید کا حکم آیا کہ قیدیوں کو شام بھیج دیا جائے۔ اس کے بعد یہ بیبیاں کوفے سے شام کی جانب روانہ کی گئیں۔ دربارِ یزید میں اسی طرح پیش ہوئیں کہ اُن کے سروں پر چادریں نہ تھیں اور پھر یزید کے حکم سے ایک تنگ و تاریک قید خانے میں ڈال دی گئیں۔ وہاں قید خانے میں دوسرے سال صفر کی بیسویں تاریخ کو رہا ہوکر اہلِ بیت کربلامیں پہنچے ہیں۔ اور چیزوں کو عرض نہیں کروں گا، بس اتنا سن لیں کہ یزید نے ارادہ کرلیا تھا کہ ان کو قید خانے ہی میں مار دیا جائے مگر ہوا یہ کہ آہستہ آہستہ یہ خبریں اِدھر اُدھر پھیلنے لگیں کہ قید خانے میں تو فاطمہ کی بیٹیاں ہیں۔ اس سے پہلے بازار میں امام زین العابدین علیہ السلام کی آوازبلند ہوئی کہ میں تمہارے نبی کا نواسہ ہوں۔ جنابِ زینب کا خطبہ ہوگیا تھا دربارمیں جس کو آپ (مومنین) سنتے رہتے ہیں۔ جب یہ خطبہ ہوا تو دربارمیں یہ حالت ہوگئی کہ پہلے آہستہ آہستہ آنسو نکلے۔ اس کے بعد لوگوں کی چیخیں بلند ہوگئیں۔ وہ خطبہ یہ تھا کہ آپ نے فرمایا:
تم تماشہ دیکھنے کیلئے آئے ہو، تمہیں پتہ بھی ہے کس کا تماشہ دیکھ رہے ہو؟ میں تمہارے نبی کی نواسی ہوں۔ یہ خبریں آہستہ آہستہ شام کے گھروں میں پہنچیں۔ شام کی عورتوں کو معلوم ہوا کہ بازاروں میں جو پھری تھیں، وہ نبی کی نواسیاں تھیں۔

تو اَب حالت یہ ہوگئی کہ شام کے لوگ جب اپنے گھروں میں داخل ہوتے تھے تو وہ کہتی تھیں کہ بے غیرتو! تم نے اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو پردے میں بٹھایا ہوا ہے اور فاطمہ زہرا ء کی بیٹیاں بازاروں میں پھرائی گئی ہیں اور اب ہاں قید میں ہیں۔ یہ چیز تھی کہ جس کی وجہ سے یزید ڈر گیا تھا۔ آخر اُس نے رہا کردیا۔ جب رہائی ملی تو جنابِ زینب نے یہ کہا کہ سجاد بیٹا!جاکر یزید سے کہو کہ ہمارا لوٹا ہوا سامان ہم کو واپس مل جائے۔ یزید نے کہا: اے سید ِسجاد !وہ مال میں آپ کو کہاں سے دلواؤں، نہ معلوم کون کون لے گیا؟ اس کی قیمت لے لو۔ امام زین العابدین علیہ السلام کی ایک چیخ نکل گئی، فرماتے ہیں: یزید اِس مال کی قیمت کون دے سکتا ہے؟ سارا جہاں بھی اس کی قیمت نہیں ہوسکتا۔ اُس نے کہا کہ کونسی ایسی چیز تھی کہ اس کی قیمت سارا جہاں بھی نہیں ہوسکتا؟ آپ نے فرمایا کہ میری دادی فاطمہ زہراء کی چادر تھی۔ ارے میرے نانا کا عمامہ بھی اسی میں تھا۔

بہرحال اُس نے اعلان کیا اور کچھ سامان واپس ہونے لگا۔ ایک صندوق آیا ، دربار میں کھولا گیا، ایک کرتہ اس میں سے نکلا خون میں ڈوبا ہوا۔ جابجا اس میں سوراخ۔ یزید نے کہا کہ یہ کس کا کرتہ ہے۔ امام زین العابدین چیخ مارکر رونے لگے: ارے یہ میرے مظلوم باپ حسین کا کرتہ ہے جو اُن کی شہادت کے بعد اُتار لیا گیا تھا۔ یہ صندوق اہلِ بیت کے پاس پہنچا۔ جنابِ زینب نے یہ کرتہ اپنے پاس رکھ لیا احتیاط سے۔ جس وقت یہ رہا ہوکر مدینہ پہنچے تو راستے میں بنی ہاشم کی عورتوں نے کہا: آقا زادی !چلئے اپنے گھر کی طرف تو جنابِ زینب نے کہا: اپنے گھر نہیں جاؤں گی، ابھی نانا کے پاس جانا ہے۔ ارے ناناکے روضے پر گئیں اور چوکھٹ کو ہاتھ سے پکڑ کر کہا: نانا! زینب آگئی اور اَب آپ کا دین قیامت تک برباد نہ ہوگا۔ نانا! ایک تحفہ لائی ہوں اور وہ کرتہ نکال کر نبی کی قبر پر رکھ دیا۔

نام کتاب:  روایات عزا

 مصنف:  علامہ حافظ کفایت حسین نور اللہ مرقدہ


source : tebyan
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

امام بخاری کی مختصر سوانح حیات بیان کیجئے؟
استشراق اور مستشرقین کا تعارف
رمضان المبارک کے آٹھویں دن کی دعا
امیر المومنین علی علیہ السّلام کی حیات طیبہ
روزہ‏ داروں کو خوشخبری، مستحب روزہ کی فضیلت پر ...
جنت کے وعدے کی وجہ سے سابقون اوّلون کی نجات پر ...
محسوس فطریات
قرآن کریم پیغمبر اسلام کا سب سے بڑا معجزہ ہے
راہ خدا میں انفاق کے سبق آموز قصے(حصہ دوم)
وحی کی حقیقت اور اہمیت

 
user comment