اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

دسویں مجلس ـ مصائب سیدالشہداء امام حسین علیہ السلام

عصر عاشور، کربلا کی ظاہری صورت کل کی طرح نہیں ہے میدان اب ہر سمت لاشوں کے علاوہ ٹوٹے ہوئے نیزوں اور تلواروں سے اٹا پڑا ہے۔ حق و حقیقت کے چھوٹے سے لشکر کے سپاہی ایک ایک کرکے شہید ہوچکے ہیں۔ مگر جنود ابلیس میں ہزاروں بھوکے بھیڑئے حملے کے لئے تیاری کررہے ہیں۔
دسویں مجلس ـ مصائب سیدالشہداء امام حسین علیہ السلام

عصر عاشور، کربلا کی ظاہری صورت کل کی طرح نہیں ہے میدان اب ہر سمت لاشوں کے علاوہ ٹوٹے ہوئے نیزوں اور تلواروں سے اٹا پڑا ہے۔ حق و حقیقت کے چھوٹے سے لشکر کے سپاہی ایک ایک کرکے شہید ہوچکے ہیں۔ مگر جنود ابلیس میں ہزاروں بھوکے بھیڑئے حملے کے لئے تیاری کررہے ہیں۔

امام حسین علیہ السلام کے حامیوں میں کوئی بھی زندہ نہیں بچا، "حبیب"، "زہیر"؛ "بریر" اور  "حر" سمیت تمام اصحاب و انصار شہید ہوچکے ہیں اور "اکبر"، "قاسم"، "جعفر" اور دیگر جوانان بنی ہاشم – حتی کہ شش ماہہ علی اصغر (ع) اپنی جانیں اسلام پر نچھاور کر چکے ہیں، اور عباس، علمدار حسین، ساقی لب تشنگان، بے سر و بے دست ہو کر خیام اہل بیت (‌ع) سے دور گھوڑے سے اترے ہیں اور شہید ہوچکے ہیں۔

حسین علیہ السلام نے دائیں بائیں نظر دوڑائی، اس وسیع و عریض دشت میں، مگر آپ (ع) کو کوئی بھی نظر نہیں آیا۔ کوئی بھی نہ تھا جو امام (ع) کی حفاظت اور حرم رسول اللہ کے دفاع کے لئے جانبازی کرتا... جو تھے وہ اپنا فرض ادا کرچکے تھے... چنانچہ امام علیہ السلام خیام میں تشریف لائے، جانے کے لئے آئے تھے... بیبیوں سے وداع کا وقت آن پہنچا تھا... عجیب دلگداز منظر تھا، خواتین اور بچیوں نے مولا کے گرد حلقہ سا تشکیل دیا تھا... ہر کوئی کچھ کہنا چاہتا تھا مگر کیسے بولے... کیا بولے...؟ کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔

بیٹیاں زیادہ آسانی سے بول لیتی ہیں چنانچہ "سکینہ" آگے بڑھیں اور عرض کیا: "باباجان! کیا آپ نے موت کو قبول کیا اور دل رحیل کے سپرد کردیا؟" امام نے فرمایا: کیونکر موت قبول نہ کرے وہ آدمی جس کا نہ کوئی دوست ہے نہ کوئی حامی؟"۔ گریہ وبکاء کی صدا اٹھی... مگر امام رلانے کے لئے نہیں آئے تھے وقت کم تھا اور ایک بڑی امانت آپ کی پاس تھی جس كو اس کے اہل کے سپرد کرنا تھا... وصیت بھی کرنی تھی... چنانچہ امام نے سب کو وصیتیں کیں اور امامت کے ودائع و امانات اور انبیاء کی مواریث امام علی ابن الحسین علیہ السلام کے سپرد کردیں... ثانی زہراء سے کہا: نماز تہجد میں مجھے یاد رکھنا... یہ بھی امام کی ایک وصیت تھی... اور ہم جانتے ہیں کہ غل و زنجیر اور قید و بند کے با وجود ثانی زہراء نے کربلا سے شام تک "تہجد ترک نہ کیا"... یہ لوگ نماز کو زندہ رکھنے کے لئے ہی توآئے تھے کربلا میں اور نماز کی برپائی ہی کے لئے تو اسیری قبول کی تھی...

امام علیہ السلام روز عاشور مشیت الہی سے بیمار تھے شدت سے علیل تھے...ایک دو روز کے لئے... اس لئے کہ جہاد بیماروں پر فرض نہیں ہے اور اس لئے کہ امامت کا سلسلہ جاری رہنا ہے... امام حسین علیہ السلام نے ودائع امامت اور مواریث انبیاء امام سجاد علیہ السلام کے سپرد کرکے اطمینان خاطر کے ساتھ حرم رسول اللہ (ص) سے وداع کیا...

[امام سجاد روز عاشور بیمار تھے لیکن بیمار نہ رہے لیکن اموی تشہیراتی مشینری نے آپ (ع) کو بیمار کے نام سے مشہور کیا اور آج حتی کہ بعض پیروان اہل بیت (ع) بھی آپ (ع) کو بڑے فخر سے "عابد بیمار" کا عنوان دیتے ہیں جو سراسر غلط اور اموی طاغوتوں کی تشہیراتی مہم کا حصہ بننے کے مترادف ہے]۔

سیدالشہداء علیہ السلام تنہا تھے، تشنہ لب تھے، بھائیوں، بیٹوں، بھتیجوں، بھانجوں، رشتہ داروں، اصحاب اور انصار کے لاشے اٹھاچکے تھے عباس و اکبر کی جدائی کا غم سہہ چکے تھے مگر یہاں ان ہزاروں دشمنوں کے خلاف علی وار وارد کارزار ہوئے میمنہ اور میسرہ کو نشانہ بنایا قلب لشکر یزید پر حملے کئے اور رجز پڑھتے رہے:

الموت اولی من رکوب العار

والعار اولی من دخول النار

موت عار و ننگ قبول کرنے سے بہتر ہے

اور عار و ننگ دوزخ کی آگ سے بہتر ہے

اور اس کے بعد میسرہ (بائیں جناح) پر حملہ کرکے رجز کو جاری رکھتے:

انا الحسین بن علیآلیت ان لا انثنیاحمی عیالات ابیامضی علی دین النبی

یعنی:

میں حسین ہوں علی کا بیٹا

کبھی بھی ساز باز نہ کروں گا

اپنے والد کی حریم (دین خداوندی) کا دفاع کرونگا

اور اپنے جد رسول اللہ (ص) کے دین پر استوار ہوں

ایک کوفی نے یوں روایت کی ہے:

"میں نے کبھی نہیں دیکھا کسی کو جس پر اتنا بڑا لشکر حملہ کرے اور اس کے انصار اور بیٹے بھی قتل ہوئے ہوں اور وہ پھر بھی اتنا جری اور شجاع ہو۔ سپاہ یزید کے دستے ان پر ٹوٹ پڑتے مگر آپ (ع) شمشیر کے ذریعے ان پر حملہ کرتے اور لشکر یزید کو بکریوں کے ریوڑ کی مانند – جس پر شیر حملہ آور ہوا – دائیں بائیں جانب بھگاتے اور تھتربھتر کرتے۔ اور پھر اپنی جگہ لوٹ آتے اور تلاوت فرماتے: "لاحول و لا قوة ال باللہ العلی العظیم" ... شهید مطهری فرماتی هین که "امام حسین علیہ السلام نے خیموں کے قریب ایک نقطہ معین کیا تھا اور حملہ کرکے وہیں واپس آجاتے تهے کیوں کہ وہ خیموں سے دور نہیں جانا چاہتے تھے... یہ آپ (ع) کی غیرت کا تقاضا تھا..."

تاریخی منابع میں ہے کہ فرزند حیدر و صفدر حضرت امام حسین علیہ السلام نے کربلا میں دوہزار یزیدی فوجیوں کو واصل جہنم کیا۔ عمر سعد نے خطرے کا احساس کرلیا کہنے لگا اپنے لشکریوں سے: وائے ہو تم پر! کیا تم جانتے ہو کہ کس کے خلاف لڑرہے ہو؟ یہ عرب کے بہادر پہلوانوں کو ہلاک کردینے والے علی ابن ابیطالب کا بیٹا ہے۔ یکبارگی کے ساتھ چاروں جانب سے حملہ کرو"۔ عمر نے چارہزار تیراندازوں کو حکم دیا کہ امام علیہ السلام پر چاروں جانب سے تیر پھینکیں اور بعض اشقیاء نے پتھروں سے آپ (ع) پر حملہ کیا۔

بعض روایات میں ہے کہ اتنے تیر جسم امام علیہ السلام کو لگے تھے کہ امام کا بدن سیہ کی طرح ہوچکا تھا۔ (جس کی کھال کانٹوں سے پر ہوتی ہے) اور شہادت کے بعد بدن مبارک پر زخموں کی گنتی ہوئی تو ہزار زخم اس جسم نازنین پر موجود تھے جن میں سے 32 زخم تیروں کے سوا دیگر ہتھیاروں کے تھے۔ امام علیہ السلام تھکے ماندے،مجروح اور پیاسے تھے۔ سستانے کے لئے لمحہ بھر رک گئے مگر دشمن بہت ہی نامرد دشمن تھا ... ایک دشمن نے پتھر اٹھا کر جبین مبارک کو مارا، جبین امام (ع) سے خون جاری ہوا تو امام نے کرتے کے دامن سے خون پونچھا ہاتھ جبین پر ہی تھا کہ ایک سہ شعبہ تیر زیر بغل لگا (کہا جاتا ہے کہ یہ تیر بھی حرملہ نے پھینکا تھا) تیر زہرآلود تھا اور اس کا نشانہ امام علیہ السلام کا قلب و سینہ تھا... امام علیہ السلام نے فرمایا: "بسم اللہ و باللہ وعلی ملة رسول اللہ" اور سر آسمان کی جانب اٹھایا اور بارگاہ خداوندی میں مناجات کی: "خدایا تو جانتا ہے کہ یہ قوم ایک ایسے انسان کو قتل کررہی ہے جس کے سوا کوئی اور فرزند نبی (ص) نہیں ہے"۔ امام نے تیر اپنی پشت کی جانب سی سے نکال لیا۔ پرنالے کی طرح خون جاری ہوا امام نے اپنے ہاتھوں میں خون اٹھایا اور آسمان کی جانب اچھالا اور کوردل حاضرین نے دیکھا کہ وہ خون زمین پر واپس نہیں آیا اور اسی لمحے کربلا کا آسمان سرخ ہوگیا۔ اس کے بعد دوسری مرتبہ اسی خون سے ہاتھ بھر دیئے اور چہرہ مبارک پر مل دیئے اور فرمایا: "میں خضاب خون سے رنگی ہوئی داڑھی کے ساتھ اپنے جد رسول اللہ صلی اللہ (ص) کی ملاقات کو جاؤں گا اور رسول اللہ کی عدالت میں ان لوگوں کی شکایت کروں گا"۔

دشمن کے بعض پیدل دستوں نے امام علیہ السلام کے گرد گھیرا ڈالا۔ ایک یزیدی نے رسول اللہ کے فرزند کے سر کو شمشیر کا نشانہ بنایا تو امام کا خود ٹوٹ


source : abna24
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت فا طمہ زھرا (س) بحیثیت آئیڈیل شخصیت
حضرت علی اور حضرت فاطمہ (س) کی شادی
محشر اور فاطمہ کی شفاعت
اقوال حضرت امام جواد علیہ السلام
کتاب’’جنت البقیع کی تخریب‘‘ اردو زبان میں شائع
حادثات زندگی میں ائمہ (ع) کا بنیادی موقف
پیغام شہادت امام حسین علیہ السلام
سنت رسول ۔ اہل سنت او راہل تشیع کی نظر میں
انبیاءکرام اور غم حسین علیہ السلام
حضرت فاطمہ زہراء

 
user comment