اردو
Thursday 28th of March 2024
0
نفر 0

اللہ کي صفات سلبيہ

ہم اپني عقل کے مطابق اللہ کے اوصاف کو سمجھتے ہيں ليکن صرف اس لئے کہ اللہ کي نسبت يہ مفاہيم، حقيقي اور ہماري فہم سے برتر، معاني کے حامل ہوں، صفات سلبيہ سے استفادہ کرتے ہيں اور يوں اوصاف الٰہيہ کي نسبت اپني قلّت فہم کا ازالہ کرتے ہيں؛ ہم بيک وقت کہتے ہيں کہ "خداوند عالم، قادر اور حىّ --- ہے"، يہ بھي کہتے ہيں کہ "خداوند وصف ميں نہيں آتا اور اس سے کہيں زيادہ عظيم ہے کہ اوصاف کي چار ديواريوں ميں محصور ہوجائے، اور يہ ہميں حقيقت امر سے قري
اللہ کي صفات سلبيہ

ہم اپني عقل کے مطابق اللہ کے اوصاف کو سمجھتے ہيں ليکن صرف اس لئے کہ اللہ کي نسبت يہ مفاہيم، حقيقي اور ہماري فہم سے برتر، معاني کے حامل ہوں، صفات سلبيہ سے استفادہ کرتے ہيں اور يوں اوصاف الٰہيہ کي نسبت اپني قلّت فہم کا ازالہ کرتے ہيں؛ ہم بيک وقت کہتے ہيں کہ "خداوند عالم، قادر اور حىّ --- ہے"، يہ بھي کہتے ہيں کہ "خداوند وصف ميں نہيں آتا اور اس سے کہيں زيادہ عظيم ہے کہ اوصاف کي چار ديواريوں ميں محصور ہوجائے، اور يہ ہميں حقيقت امر سے قريب تر کرديتا ہے- (1)

چنانچہ ہمارا عقيدہ ہے کہ: يہ مفاہيم ان ہي مفاہيم ميں سے ہيں جن کو ہم سمجھتے ہيں--- جب کہا جاتا ہے کہ "زيد جان گيا" اور "خدا جان گيا"، ہم دونوں سے ايک ہي چيز سمجھتے ہيں اور وہ يہ کہ عالم معلوم کو جانتا ہے- حقيقت يہ ہے کہ ہم جانتے ہيں کہ "زيد" کا علم صرف اس صورت (يا تصوير) کے توسط سے حاصل ہوتا ہے جو اس کے ذہن ميں ہے اور يہ صورت اللہ کےلئے ممتنع ہے؛ کيونکہ وہاں کوئي ذہن نہيں ہے؛ تا ہم يہ خصوصيت علم کے مصداق سے تعلق رکھتي ہے اور مفہوم ميں کسي تبديلي کا سبب نہيں بنتي- پس مفہوم ايک ہي مفہوم ہے اور مصداقي خصوصيات مفہوم ميں عمل دخل نہيں رکھتيں- چنانچہ صفات خداوندي بيان کرنے کا عمومي ضابطہ يہ ہے کہ ان کے مفاہيم کو مصداقي خصوصيات سے خالي کريں؛ بالفاظ ديگر صفات سلبيہ کو بروئے کار لاکر ان مفاہيم کو ديگر عدمي پہلۆوں اور نقائص سے خالي کريں- (2)

چنانچہ ہم خدا کي صفات سے ان ہي معاني کو سمجھتے ہيں جو ہم انسان کي صفات سے سمجھتے ہيں- اور جس طرح کہ عقل، انسان کے بارے ميں ان صفات کا ادراک کرسکتي ہے خداوند متعال کي صفات کے بارے ميں اسي قسم کے ادراک پر قدرت رکھتي ہے تاہم انسان اور خدا کے درميان مصداق کا اختلاف ہے اسي وجہ سے صفات الہيہ ميں نقص کا شائبہ وجود ميں آتا ہے چنانچہ صفات سلبيہ سے کام لےکر يہ شائبہ ختم ہوجاتا ہے- يوں ہم ايجابي اور سلبي صفات کي مدد سے نہ صرف مفہوم ميں کوئي تبديلي نہيں لاتے بلکہ اس (مفہوم) کو حقيقي مصداق کي طرف لے جاتے ہيں اور کہتے ہيں: "اللہ موجود ہے ليکن اس کا وجود مخلوقات جيسا نہيں ہے؛ اللہ صاحب علم ہے ليکن علمِ موجودات کي طرح نہيں؛ اللہ صاحب قدرت ہے ليکن مخلوقات کي قدرت کي مانند نہيں ہے؛ اللہ صاحب حيات ہے ليکن اس کي حيات مخلوقات کي حيات کي مانند نہيں ہے- (3)

 

حوالے جات:

1- الميزان، ج 8، ص 57 و ج 6، ص 102- 100 مجموعه رسائل، صص 224- 226 ؛و اصول فلسفه و روش رئاليسم، ج 5، ص 125 و.... .

2- علامہ طباطبايى ، رسائل توحيدى، ترجمه و تحقيق على شيروانى، ص 54 و 55.

3- اصول فلسفه و روش رئاليسم، ج 5، صص 105- 110.


source : tebyan
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عقیدہ ختم نبوت
ماہ رمضان کی آمد پر رسول خدا (ص) کا خطبہ
جن اور اجنہ کے بارےمیں معلومات (قسط-1)
حکومت خدا کا ظھور اور اسباب و حسب و نسب کا خاتمہ
شیعہ:لغت اور قرآن میں
خدا کی راہ میں خرچ کرنا
جبر و اختیار
"حی علیٰ خیر العمل " كے جزء اذان ھونے كے سلسلہ میں ...
کیا نذر کرنے سے تقدیر بدل سکتی ہے؟
آخرت میں اندھے پن کے کیا معنی هیں؟

 
user comment