اردو
Saturday 20th of April 2024
0
نفر 0

علامہ مفتی جعفر کی برسی پر علامہ جواد نقوی کا خطاب

مرحوم قائد علامہ مفتی جعفر حسین رحمۃ اللہ علیہ کی برسی کے حوالے سے منعقدہ پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے عروۃ الوثقیٰ یونورسٹی کے سربراہ علامہ سید جواد نقوی نے کہا کہ علمائے ربانی ہمارے
علامہ مفتی جعفر کی برسی پر علامہ جواد نقوی کا خطاب

مرحوم قائد علامہ مفتی جعفر حسین رحمۃ اللہ علیہ کی برسی کے حوالے سے منعقدہ پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے عروۃ الوثقیٰ یونورسٹی کے سربراہ علامہ سید جواد نقوی نے کہا کہ علمائے ربانی ہمارے لئے اسوہ ہیں اوراسوہ اس رول ماڈل کو کہتے ہیں جس کی ذات کے اندر خوبیاں، اچھائیاں اور اقدار جمع ہوگئی ہیں اور وہ اُن کے اندر کردار و سیرت بن گئی ہوں ۔ایسے علماء کی زندگی دوسروں کیلئے نمونۂ عمل ہے اور عوام کو اُن کے اسوے کو اپنانا ہے ، البتہ پروانہ نہیں بننا ہے کہ پروانہ شمع کے گرد گھومتا رہتا ہے اور شمع کی آگ میں جل جاتا ہے لیکن اس شمع سے کچھ بھی حاصل نہیں کرتا ہے۔
علامہ سید جواد نقوی نے مزید کہا کہ علامہ مفتی جعفر حسین رحمۃ اللہ علیہ جیسی ہستیاں اور شخصیات کے پہلو دوسرے اپنا سکتے ہیں اور اُس ادا و طور طریقے کے ساتھ اپنے آپ کو سنوار سکتے ہیں ۔ اس لئے طلباء و علماء کیلئے ایسے اسوؤں کا احیاء بہت ضروری ہے، جو کہ انسان کی ہدایت کیلئے ایک بہت بڑا ذریعہ ہے ۔ ہدایت کیلئے سب سے اہم ذریعہ یہ ہے کہ انسان کسی کو اپنے لئے رول ماڈل بنائے ۔ اسوہ ہر انسان کی زندگی میں موجود ہے ۔یعنی انسان کسی کو دیکھ کر اپنی زندگی کیلئے کچھ اختیار کرتا ہے اور یہ ہر انسان کرتا ہے ۔
انہوں نے مزید کہا کہ جو انسان جس ماحول میں جاتے ہیں اُس کا حصہ بن جاتا ہیں، اگر جاہلیت کے ماحول میں جائے تو جاہل بنتے ہیں ، مادیت کے ماحول میں جائیں تو مادی بن جاتے ہیں ، سیاست کی دنیا میں جائیں تو سیاسی بن جاتے ہیں، اسی طرح مال و دولت کی دنیا میں جاتے ہیں مال کے پجاری بن جاتے ہیں لیکن کچھ ایسے ہوتے ہیں جو متاثر نہیں ہوتے اور وہ معاشرہ اُسے اگل دیتا ہے ،اسی مفتی جعفر حسین رحمۃ اللہ علیہ کوپاکستان کی تہذیب نے اگل دیا کیوں کہ مرحوم مفتی رحمۃ اللہ علیہ صاحب کی چند خصوصیات تھیں جو ان کی زندگی اور شخصیت کا حصہ و پہچان تھیں ، ایک تو زہد و تقویٰ مرحوم صاحب کی زندگی کا شعار اور وتیرہ تھا۔
عروۃ الوثقیٰ کے سربراہ نے کہا کہ مرحوم مفتی رحمۃ اللہ علیہ نے پاکستان کے سیاہ ترین دنوں میں ملت کی قیادت سنبھالی تھی ، اُس وقت پاکستانی تاریخ کا سفاک ترین حکمران اقتدار پر قابض تھا اور پاکستان میں مارشل لا لگاہوا تھا، یعنی ضیاء الحق اُس دور کا حاکم تھا جو پلید ترین اور نجس ترین حکمران گزرا ہے ۔ جس نے پاکستان اور پاکستانی اداروں کو تباہ کیا اور پاکستان کو اس حالت میں پہنچانے والا یہ مکار شخص تھا ، اس نے اپنے ساتھ نام نہاد مذہبیوں کو ملایا اور ملک و مذہب دونوں کو تباہ کیا، اس نے مذہب کے نام پر نفرت پھیلائی اور اس وقت تمام شیعیان پاکستان جمع ہوئے اور اپنے لئے سربراہ انتخاب کرنا چاہا، اُس وقت سب کی نگاہیں مرحوم مفتی رحمۃ اللہ علیہ پر پڑیں ، اگر اُس وقت ضیاء الحق کی حکومت نہ ہوتی اور بننے والے قائد کیلئے پوسٹیں اور بجٹ ملنا ہوتا تو ممکن ہے کہ یہ قرعہ کسی اور کے نام پر نکلتا لیکن سب کو معلوم تھا کہ سامنے ایک سفاک طاغوت ہے ، اس کا مقابلہ کوئی اور ریاکار نہیں کر سکتا بلکہ اس کا مقابلہ کوئی خود دار کرسکتا ہے، جو بکتا نہ ہو، لہٰذا سب کو معلوم تھا کہ یہ تنہا شخصیت نہیں بکے گی ، اس لئے مرحوم مفتی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سب کی نظریں اٹھیں اور قائد انتخاب کئے گئے ۔
انہوں نے کہا کہ اس زمانے میں کھرے اور کھوٹے کو پرکھنے کی کسوٹی امام خمینی رضوان اللہ علیہ کی ذات ہے ، تمام شخصیات محترم و قابلِ احترام ہیں لیکن وہ جو آج ملتِ اسلامیہ کی دردوں کی دوا کر سکتے ہیں ، جو آج ملتِ اسلام کی مشکلات کو حل کر سکتے ہیں ، وہ امام خمینی رضوان اللہ علیہ کی ذات ہے ۔ وہ جو امت کی مشکل حل کر سکے اور امتوں کو راہ دکھا سکے یعنی وہ جو آج کی امتوں کیلئے اسوہ ہیں وہ امام خمینیؒ کی ذات ہے اور امام خمینی رضوان اللہ علیہ کے زہد و تقویٰ کی جھلک مرحوم مفتی ؒ میں موجود ہے ۔
حجۃ الاسلام و المسلمین سید جواد نقوی نے کہا کہ مفتی جعفر حسین رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کی ایک خصوصیت طاغوت سے انکار تھا، چونکہ خود دار تھے لہٰذا مفتی ؒ نے طاغوت کو ناکام کر دیا ، نہ صرف اسلام آباد کے اجتماع میں ناکام کیا بلکہ ہر لحظے طاغوت کو ناکام کیا، آپؒ کو خریدنے کیلئے حکومت صبح و شام اپنے کارندے اور واسطے دوڑا رہی تھی لیکن آپؒ ہر ایک منع کر کے واپس کر دیتے تھے ۔اور یہ طاغوت کی روزانہ شکست تھی ۔ کبھی بھی مفتیؒ صاحب نے طاغوت کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کیا، اور نہ سمجھوتہ کر کے اس پر فخر کیا۔ ضیاء الحق چاپلوس پسند بھی تھا لیکن آپؒ نے کبھی بھی طاغوت کی چاپلوسی نہیں کی بلکہ ہر دن اُس کی ناک رگڑی۔ یعنی یہ شخصیت طاغوت پرست نہیں بلکہ طاغوت ستیز تھی ، کوئی بہانہ نہیں ڈھونڈا، نہ مصلحت ملت اور نہ مصلحتِ دین اور نہ مصلحتِ ذات ، بلکہ طاغوت کے سامنے قیام کیا۔
انہوں نے کہا کہ ایک حقیقی رہبر خود درویشی کی زندگی بسر کرتا ہے ، خود ممکن ہے زندانوں میں رہے لیکن قوم، ملت اور مملکت فروخت نہیں کرتا بلکہ وہ ہر چیز کا پاسبان ہوتا ہے ، اللہ کی راہ میں ملامتیں اس کیلئے کاذب اورجھوٹی خوشامدوں سے اچھی لگتی ہیں ، یہ شخص جو تہمتیں جھیل لیتا ہے اور ملامتیں سن لیتا ہے اور انھیں خوشامدوں اور چاپلوسیوں سے بہتر سمجھتا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ اگر سرورِ نفس کی خاطر اُس نے ذرہ برابر بھی نفس کی پیروی کی تو اُس صورت میں اُسے ایسا عذاب ملے گا جو نہ ختم ہونے والاہے ۔امام ساجدین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یہ بے نظیراور بے مثل ہے اور اس کے بارے میں امام ساجدین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ایسا انسان جس کے اندر سرورِ نفس کی حب موجود نہ ہوتو یہی قیادت کیلئے بہترین ہے ،پس اس سے تمسک کرلواور اس کا دامن تھام لو، اس کی سیرت کی اقتداء کرو اور مفتی صاحب اور شہید حسینی ؒ میں یہ ساری صفات موجود تھیں۔
موصوف نے موجودہ حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت حکومت نے ایک کام مصلحت سمجھ کر کیا ہوا ہے اور وہ بیلنس پالیسی ہے کہ ہم پر یہ تہمت نہ لگے کہ یک طرفہ کسی مسلک و فرقے کے خلاف کاروائی ہو رہی ہے اور اس تہمت کو دھونے کیلئے ہم سب کے خلاف کاروائیاں کر رہے ہیں اور ہر مدرسے کے اندر چھاپہ ما ررہے ہیں ، ہر شخصیت کو پکڑ کر اُس کی تفتیش کر رہے ہیں ، گرفتاریاں کر رہے ہیں تاکہ کوئی یکطرفہ کاروائی نہ کہے ، یکطرفہ ہی ہونا چاہئے، کیوں کہ دہشت گرد یکطرفہ گروہ کا ہی نام ہے ۔ آپ دہشت پر بھی حملہ کرے اور شیعہ کو پکڑے تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ صرف دہشت گردوں کے خلاف یکطرفہ کاروائی ہے ، تاکہ ہم یہ بھی کہہ سکے کہ شیعہ بھی ہم نے پکڑے ہیں ، اس سے ملک کے اندر مزید مایوسی پھیلے گی اور عدمِ تحفظ کا احساس پھیلے گا، یہ درست کام نہیں ہے ، یہ پالیسی نہ ملک کے مفاد میں ہے ، نہ قوم کے مفاد میں ہے اور نہ تشیع کے مفاد ہے اور نہ حکومت کے مفاد ہے ، جب کسی نے کوئی جرم کیا ہی نہیں ہے ، شامل ہی نہیں ہے تو اس کو کیوں اس طرح بیلنس پالیسی کے تحت پکڑ رہے ہو؟ بیلنس کی پالیسی انصاف کی پالیسی نہیں ہے کہ گناہکار کے ساتھ بے گناہ بھی پکڑا جائے ۔
انہوں نے آخر میں کہا کہ امتوں کے راستے رہبرکھولتے ہیں لیکن اُن کی تکمیل امتوں نے کرنی ہے ، مفتی صاحب نے ایک راہ کا آغاز کیا ہے اور اس کو شہید حسینیؒ نے جاری رکھا ہے ، اُس کی تکمیل اب امت و ملت نے کرنی ہے ، ملتِ تشیع نے کرنی ہے ، ہمارا کام ہرمناسبت میں ان شخصیات کے کاموں کو احیاء کرنا ہے اوریہ عہد کرنا ہے کہ ہم نے ان راہوں کو تکمیل کرنا ہے ۔


source : abna
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

" ڈھاكہ ۲۰۱۲ میں جہان اسلام كا ثقافتی دار الحكومت ...
روسی صدر مصر کا دورہ کریں گے
مسجد الاقصی پر صہیونیوں کا حملہ، فلسطینیوں کا ...
وہابی دعوت؛ حضرت زینب (س) کا حرم منہدم کیا جائے
صومالیہ کے دار الحکومت میں بم دھماکہ، درجنوں ...
موغادیشو میں وہابی دہشت گردوں کےخودکش حملہ میں 20 ...
عالم اسلام کو درپیش چیلنجز اور انکا راہ حل
قرآن كريم كا جديد پنجابی ترجمہ
دریائے اردن کے مغربی ساحل میں یہودیوں نے ایک مسجد ...
فلسطینی قوم کی حمایت عالم اسلام کی ترجیح

 
user comment