اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

قریش کی خواہش

ایک روز عتبہ بن ربیعہ جو عرب کے سر برآوردہ افراد میں سے تھا،قریش کے مجمع میں بیٹھا ہوا تھا ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں تنھا تہے۔عتبہ نے روٴسائے قریش سے کھا: ”میں محمد(ص) کے پاس جا رھا ہوں ،ان سے گفتگو کروں گا اور ان مسائل کے سلسلے میں انکے سامنے کچہ چیزوںکی پیش کش کروں گا ، شاید کسی کو قبو ل کر لیں۔ وہ جس چیز کے خواھش مند ہوں گے ھم ان کے لئے مھیا کر دینگے۔شاید مال و منا ل اور قدرت و اختیار تک رسائی انکے بلند حوصلوں کو پست اور انکی ثابت قدمی کو متزلزل کر دے ۔“(یہ واقعہ اس وق
قریش کی خواہش

ایک روز عتبہ بن ربیعہ جو عرب کے سر برآوردہ افراد میں سے تھا،قریش کے مجمع میں بیٹھا ہوا تھا ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں تنھا تہے۔عتبہ نے روٴسائے قریش سے کھا: ”میں محمد(ص) کے پاس جا رھا ہوں ،ان سے گفتگو کروں گا اور ان مسائل کے سلسلے میں انکے سامنے کچہ چیزوںکی پیش کش کروں گا ، شاید کسی کو قبو ل کر لیں۔ وہ جس چیز کے خواھش مند ہوں گے ھم ان کے لئے مھیا کر دینگے۔شاید مال و منا ل اور قدرت و اختیار تک رسائی انکے بلند حوصلوں کو پست اور انکی ثابت قدمی کو متزلزل کر دے ۔“(یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب جناب حمزھ(ع) ایما ن لا چکے تہے اور آ پکے پیروکا روں کی تعداد روز افزوں تھی) قریش کے سرداروں نے اسکی تائید کی اور اسکو حضرت سے گفتگو کر نے کی اجازت دے دی ۔عتبہ مسجد میں آکر پیغمبر اسلام صلی الله علیہ و آلہ و سلم کے نزدیک بیٹہ گیا اور کھنے لگا :”اے میرے بہتیجے!جیسا کہ تم جانتے ہو کہ تمھارا مقام و منزلت تمھارے قبیلے کی عظمت و شرا فت کی وجہ سے ہے ۔تم نے اپنی قوم کے بہت ھی حساس مسئلے کو چھیڑا ہے، اس کے اتحاد کو درھم برھم کر دیا ہے، اسکی خواھشات اور آرزووٴں کو حماقت سے تعبیر کر تے ہو، اسکے خداؤں اور مذھب پر عیب لگاتے ہوئے اسکے آباء و اجداد کو کافر قرار دیتے ہو ۔میںتمھارے سامنے بعض چیزوں کی پیش کش کر تا ہو ںان پر غور کرو شاید ان میں سے کچہ یا تمام اس لائق ہوں کہ ان کو قبول کر لو۔“

 پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:”اے ابو الولید!کہو میں سن رھا ہوں۔“

 عتبہ نے کھا :”میرے بہتیجے !اگر تمھاری ان تمام حرکات کا مقصد مال و ثروت اکٹھا کر نا ہے تو ھم تم کو اتنی دولت دینے کے لئے آمادہ ھیں کہ تم سب سے زیادہ ثروت مند ہو جاؤ،اگر مقام و منزلت کے خواھشمند ہوتوھم تم کو اپنا سردار بنانے کے لئے تیار ھیں، اگر حکومت چاھتے ہو توھم تم کو اپنا بادشاہ تسلیم کر لےںگے اور اگر تم اپنی اس حالت کوجو تم پر طاری ہو تی ہے اپنے سے دور کرنے سے عا جز ہو تو تمھارے لئے طبیب کا انتظام کر سکتے ھیں، تمھیں اس مرض سے نجات دلانے کے لئے ھم اپنی دو لت خرچ کردینگے ۔ بعض اوقات انسان پر ایسی حالت طاری ہو سکتی ہے لیکن اسکے معالجے کا امکان ہے ۔ جب عتبہ اپنی بات مکمل کر چکا اور پیغمبر اسلام صلی الله علیہ و آلہ و سلم اسکی تمام گفتگو سن چکے تو فرمایا :”اے عتبہ !تمھاری بات ختم ہوگئی ۔ اس نے کھا :” ھاں “ پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا :”اب مجھ سے سنو۔“اسنے کھا:”میں ھمہ تن گوش ہوں۔“ پیغمبر اسلام (ص)نے فرمایا:”بسم اللهالرحمن الر حیم کتاب فصلت آیا تہ قر آنا عر بیا لقو م یعلمو ن بشیر اً ونذ یراً فا عر ض اکثر ھم فھم لا یسمعو ن وقا لو اقلو بنا فی ا کنة مما تد عو نا ا لیہ ( فصلت /3۔ 5 ) پھر اسکے بعد کی آیا ت عتبہ کے سا منے تلا وت فر ما ئیں ۔(جب پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آیا ت کی تلاوت فر ما رہے تہے، عتبہ بے خودی کے عا لم میں آیات کو سن رھا تھا ) یھا ں تک کہ جب آیۂ سجدہ پر پھنچے تو و ھیں سجدہ ادا کیا، پھر فر ما یا : ”اے ابو ا لو لید ! تم نے سنا ؟ اب تم خودھی فیصلہ کرو ۔“ عتبہ وا پس پلٹ گیا ۔ جیسے ھی قر یش نے عتبہ کو پلٹتے دیکھا ، ایک دوسر ے سے کھنے لگے کہ عتبہ ایک دو سری حا لت میں وا پس ہو رھا ہے ۔

 عتبہ آکر قر یش کے در میا ن بیٹہ گیا ۔ قر یش نے بے چینی سے سو ال کیا:” عتبہ تم نے کیا دیکھا؟“ ۔ عتبہ کھنے لگا ”خدا کی قسم! آج ایسا کلا م سنا ہے کہ اس سے پھلے کبھی نھیں سنا تھا ۔ بخدا وہ کلا م نہ شعرہے اورنہ سحر و جا دو ۔ اے سر دار ان قر یش ! اس مر د کے با ر ے میں میری بات مانو اور اسکا معا ملہ میر ے سپر د کر دو ۔ میرا نظر یہ ہے کہ اس شخص کو اسکے حال پر چہو ڑکر کنا رہ کش ہو جا ؤ ۔ خدا کی قسم !میں نے آج جو کلا م اس سے سنا ہے وہ مستقبل کے کسی بہت بڑے حا دثے کا پیش خیمہ ہے ۔ اگر عر ب نے اسکا کا م تمام کر دیا تو تم بغیر کسی اقدام کے اس مشکل سے نجات پا جا ؤ گے اور اگر یہ شخص عر ب پر مسلط ہو گیا تو اسکی منز لت اور قدرت وا قتد ار تمھاری عظمت اور اقتدار کا و سیلہ بن جائیگی۔ اسکی بنا پر تم تمام عر ب سے زیا دہ خو ش بخت ہو جا ؤ گے ۔“ قر یش نے اسکی گفتگو سن کر کھا :” خدا کی قسم !اسنے تم پر بھی جادو کر د یا ہے ۔“عتبہ نے کھا :”یہ میرا نظر یہ تھا ور نہ تم خو د صا حب اختیا ر ہو ۔“

  عکس العمل

 جب قر یش اپنی آمد و رفت اور و عد ووعید سے ما یو س ہو گئے تو انکے پا س مسلمانوں پر ظلم ڈھا نے اور انکو نیست ونا بود کر نے کی کوششوں کے علا وہ کو ئی چا رئہ کار نہ بچا ۔چنا نچہ عر ب کے تما م قبیلے اپنے قبیلے کے ان افراد کو جو اسلام لے آئے تہے ، گر فتا ر کر کے قید و بند میں مبتلا کر دیتے تہے اور ان پر طرح طر ح کے مظا لم ڈھا تے تہے ۔ انکو   ما رتے پیٹتے ، بہوک اورپیا س کے ذر یعے تمام را ھیں ان پر مسدو د کر دیتے تہے ۔ جب مکہ کی سنگلا خ وادی پر آفتاب شعلہ افشانی کر رھا ہو تا تھا ان مسلمان پر انھیں سلگتے ہو ئے پتھر وں اور تپتی ہو ئی ریت میں عذا ب ڈھا یا جا تاتھا ۔

 جو ں جو ں مسلمانوں کی تعدا دمیں اضا فہ ہو تا جا تا تھا ان پر مصا ئب وآ لا م بھی کبھی فر دی اور کبھی اجتما عی طور پر بڑ ھتے چلے جا تے تہے ۔ آخر کا ر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مجبو ر ا ًبعض مسلما نو ں کو حبشہ ھجرت کر نے کا حکم دینا پڑا تا کہ انکو قر یش کے مظا لم سے نجا ت دلا ئی جاسکے ۔ان مسلمانوں کو حبشہ کے لئے رخصت کر تے و قت آپ نے فر مایا :” حبشہ میں ایک عا دل با د شا ہ کی حکو مت ہے ۔ وھا ں تم پر ستم نھیں ہو گا ۔“

 قر یش اس صورت حا ل پر سا کت نھیں بیٹہے بلکہ دو لو گو ں کو عر ب کے نمائند ے کی حیثیت سے حبشہ روا نہ کیا گیا کہ مسلمانوں کو واپس لیکر آئیں تا کہ قر یش انکو دین اسلام سے منحرف کر سکیں ۔ جب نمائند گان عرب حبشہ کے بادشاہ کے پاس پھنچے اور مسلمانوں کی بازیابی کی درخواست کی تو نجاشی نے کھا:”میرے لئے یہ جا ننا ضروری ہے کہ یہ لو گ میری سر زمین پر کیو ں وا رد ہو ئے ھیں ؟“ کچہ مسلمانوں کو حا ضر کیا گیا ۔ انہو ں نے پیغمبر اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپکے اس دین کے بارے میں جس نے انسانو ں کو سعا دت ابد ی سے ھمکنا رکر نے کا وعد ہ کیا تھا ، بیا ن کیا ۔ نجا شی نے کھا کہ میں ان لو گو ں کو پلٹنے کا حکم نھیں دو نگا بلکہ یہ اس سلسلے میں مختار ھیں ۔

 اسکے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے دین کو عر ب کے قبا ئل کے سا منے پیش کر نا شرو ع کیا ۔ خصو صاً حج کے مو سم میں منیٰ میں قیا م پذ یر حا جیو ں کی جا ئے قیام پر پہو نچ کر تو حیدکی تبلیغ فر ما تے اور ان لو گو ں کو شر ک اور بت پر ستی سے اجتناب کی جا نب دعو ت دیتے تہے ۔ وہ قبا ئل جن کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسلام کی دعو ت دی ، مند رجہ ذ یل ھیں :

 1)بنی کلب   2)بنی حنیفہ    3)بنی عامر   4)بنی خزرج


source : tebyan
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

الکافی
چھے لوگوں کی شوریٰ( اہل سنت کے مآخذ سے منطقی تحلیل ...
آسيہ
جنت البقیع کا تاریخی تعارف
عمار بن یاسر کے اشعار کیا تھے؟
مشرکینِ مکہ کی مکاریاں
واقعہ فدک
تاریخ اسلام کو دیگر تواریخ پر فضیلت
گروہ ناکثین (بیعت شکن)
ساتواں سبق

 
user comment