اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

دين کى نظر ميں جھوٹ

قرآن مجيد صريحى طور سے جھوٹ بولنے والے کو دين سے خارج سمجھتا ہے چنانچہ ارشاد ہے: ”انما يفترى الکذب الذين لا يومنون باٰ ياٰت اللہ “(۱) جھوٹ وبھتان تو بس وھى لوگ باندھا کرتے ھيں جو خدا کى آيتوں پر ايمان نھيں رکھتے۔ آيت کا مفھوم ي
دين کى نظر ميں جھوٹ

قرآن مجيد صريحى طور سے جھوٹ بولنے والے کو دين سے خارج سمجھتا ہے چنانچہ ارشاد ہے: ”انما يفترى الکذب الذين لا يومنون باٰ ياٰت اللہ “(۱) جھوٹ وبھتان تو بس وھى لوگ باندھا کرتے ھيں جو خدا کى آيتوں پر ايمان نھيں رکھتے۔

آيت کا مفھوم يہ ھوا کہ ايمان والے جھوٹ نھيں بولتے ۔

 

رسول اکرم صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے: تم پرسچ بولنا واجب ہے ۔ اس لئے کہ سچ اعمال خير کى طرف لے جاتا ہے ،اوراعمال خيرجنت ميں لے جاتے ھيں جو شخص سچ بولتا ہے اور اس کى کوشش کرتا ہے وہ خدا کے پاس صديق لکھا جاتا ہے ۔ خبردار جھوٹ نہ بولنا کيونکہ جھوٹ فسق ( و فجور ) کى طرف دعوت ديتا ہے اور فسق ( و فجور ) انسان کو جھنم ميں ڈھکيل ديتے ھيں ۔ جو انسان برابر جھوٹ بولتا ہے وہ خدا کے يھاں ( کذاب ) لکھا جاتا ہے ۔( ۲)

 

جھوٹوں کى ايک خصوصيت يہ بھى ہے کہ ان کو کسى بات پر بڑى مشکل سے يقين آتا ہے اور بڑى مشکل سے دوسروں کى بات پر يقين کرتے ھيں ۔ پيغمبر اسلام صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے: جو لوگ سب سے زيادہ لوگوں کى باتوں پر يقين کرتے ھيں يہ وھى لوگ ھيں جو سب سے زيادہ سچ بولتے ھيں ۔ اور جو لوگ ھر شخص کى بات کو جھٹلا ديتے ھيں ۔ يہ وھى اشخاص ھيں جو سب سے زيادہ جھوٹ بولتے ھيں ۔ ( ۳)

 

ساموئيل اسمايلز کھتا ہے: بعض لوگ اپنى پست طبيعتى کو دوسروں کے لئے معيار قرار ديتے ھيں ليکن يہ بات جان ليني چاھئے کہ در حقيقت دوسرے لوگ ھمارے خيالات کے آئينہ ھيں اور ھم جو اچھائى يا برائى ان کے اندر ديکھتے ھيں وہ ھمارى اچھائى يا برائى کا عکس ہے ۔

 

شجاع و بھادر آدمى کبھى جھوٹ نھيں بولتا ۔ جھوٹے کے باطن ميں ايسى روحى کمزورى ہے جو اس کو صراط مستقيم سے ھٹا ديتى ہے ۔ جو لوگ اپنے اندر برائي اور کمزورى کا احساس کرتے ھيں وھى جھوٹ بولا کرتے ھيں ۔ ڈرپوک بزدل ، کمزور کى پناہ جھوٹ ہے ۔

 

حضرت على عليہ السلام ارشاد فرماتے ھيں: اگر چيزوں ميں چھٹائى کى جائے تو سچائى بھادرى کے ساتھ ھو گى اور جھوٹ بزدلى کے ساتھ ھو گا ۔ (۴)

 

ريمانڈ پيچ کھتا ہے: ناتوان کمزور افراد کا دفاعى حربہ جھوٹ ہے اور خطرے کوٹالنے کے لئے سب سے سريع تر ذريعہ جھوٹ ہے اسى لئے آپ ديکھيں گے کہ  رنگين نژاد لوگوں ميں جھوٹ بھت رائج ہے ۔ کيونکہ يہ لوگ سفيد فام لوگوں کے جوتے کے نيچے رھتے ھيں اور يہ محسوس کرتے رہے ھيں کہ سفيد فام لوگ ھم پر نفوذ و سيطرہ رکھتے ھيں اور ھم کو اپنى مرضى کے خلاف استعمال کر سکتے ھيں ! بھت سے اوقات ميں جھوٹ صرف عاجزى و ناتوانى کا رد عمل ھوتا ہے يھى وجہ ہے کہ اگر آپ کسى بچہ سے پوچھيں کہ يہ مٹھائى تم نے کھائى ہے؟ يا يہ گلدان تم نے توڑا ہے ؟ تو اگر بچہ جانتا ہے کہ ”ھاں“ کھہ دينے ميں ميرى اچھى خاصى گوشمالى ھو گى تو اس کى غريزہ ٴ دفاع ( دفاعى فطرت ) فوراً اس کو نھيں ! کھنے پر آمادہ کر دے گى ۔ (۵)

 

اسلام سچائى کو فضيلت کا ملاک قرار ديتا ہے امام جعفر صادق عليہ السلام فرماتے ھيں: لوگوں کى کثرت نماز اور کثرت روزہ سے دھوکہ نہ کھاؤ کيونکہ ھو سکتا ہے کسى کى يہ عادت ھى ھو گئى ھو اور اس کو اپنى عادت چھوڑنى دشوار ھو بلکہ لوگوں کو سچائى اور امانت کے ساتھ پرکھو َ اور ان دونوں باتوں سے ان کي آزمائش کرو ۔ (۶)

 

حضرت على عليہ السلام سچائى کے فوائد و ثمرات بيان کرتے ھوئے فرماتے ھيں: سچ بولنے والا تين باتوں کو حاصل کر ليتا ہے ۔۱۔ لوگ اس پر بھروسہ کرتے ھيں ۔ ۲۔ اس سے محبت کرتے ھيں ۔ ۳۔ اس کى ھيبت چھا جاتى ہے ۔ (۷) حضرت على عليہ السلام فرماتے ھيں: آدمى کى بد ترين صفت جھوٹ بولنا ہے ۔ (۸)

 
رز سفید

 

ساموئيل امايلز کھتا ہے: تمام اخلاقى برائيوں اور ذليل ترين صفات ميں سب سے مذموم اور برى صفت جھوٹ ہے ۔ انسان کو چاھئے کہ اپنے تمام مراحل زندگى ميں صرف سچائى کو اصلي ھدف قرار دے ۔ کسى بھى مقصد کے حصول کے لئے سچائى سے دست بردار نھيں ھونا چاھئے ۔( اخلاق )

 

اسلام نے اپنے تمام اخلاقى و اصلاحى پروگراموں کو ايمان کي بنياد پر استوار کيا ہے اور اسى کو سعادت بشرى کي بنياد شمار کيا ہے۔ ڈيکارٹ کھتا ہے: ايمان کے بغير اخلاق اس قصر کے مانند ہے جو برف پر بنايا گيا ھو ۔ ايک دوسرا دانشمند کھتا ہے: دين کے بغير اخلاق کى مثال اس دانہ کى ہے جس کو پتھر يا خارستان ميں بوياگيا ھو جو خشک ھو کر ختم ھو جاتا ہے ۔ بھترين اخلاق بھى اگر زير سايہ دين و ايمان نہ ھو تو اس کى مثال اس خاموش مردے کى ہے جو ايک زندہ اور کاھل انسان کے برابر پڑا ھو ۔

 

دين قلب و عقل دونوں پر حکومت کرتا ہے ۔ اگر کسى کے پاس ديني جذبات ھيں تو وہ مادى احساسات کے غلبہ کو کم کر ديتے ھيں ، دين ھى انسان اور اس کى کثافتوں و نجاستوں کے درميان سد سکندر بن جاتا ہے ۔ جو شخص ايمان پر تکيہ کر تا ہے وہ ھميشہ با ھدف اور مطمئن ھوتا ہے ۔ اسلام نے انسان کي شخصيت کو اسکے ايمان اور صفات اعليٰ و ملکات فاضلہ کا مقياس ( پيمانہ ) و محو ر قرار ديا ہے  اور ان دونوں (ايمان و ملکات فاضلہ) جنبوں کى ترقى کے لئے کوشاں رھتا ہے ۔ اسى ايمان کى بدولت مسلمان کى بات ميں اسلام نے وزن پيدا کر ديا ہے اور يھى وجہ ہے کہ دين کے قانون قضائى ( عدليہ ) ميں قسم کھانے کو ۔ بشرطيکہ وہ قسم تمام شرائط کى جامع ھو ۔ دليل کا قائم مقام قرار ديا ہے ۔ اسى طرح مرد مسلمان کى گواھي معاشرے کے حقوق کے اثبات کى دليل قرار دى گئى ہے ۔

 

اب ذرا تصور کيجئے اگر ان دونوں جگھوں ۔ قسم و گواھى ۔ پر جھوٹ بولا جائے تو اس سے کتنا عظيم نقصان ھو گا ۔ اور يہ اتنى بڑى لغزش ھو گى جو قابل عفو و بخشش نھيں ہے ۔ پس اس سے ثابت ھو ا کہ جھوٹ کے گناہ کى شدت و کمى اس سے پيدا ھونے والے نقصانات سے وابستہ ہے مثلا جھوٹى قسم جھوٹى گواھى کا ضرر بھت زيادہ ہے اس لئے اس جھوٹ کا بھى گناہ بھت زيادہ ہے ۔

 

تمام برائيوں تک پھونچنے کا سب سے پھلا ذريعہ جھوٹ ھوا کرتا ہے ۔ امام حسن عسکرى عليہ السلام فرماتے ھيں: تمام خبائث و برائيوں کو ايک مکان ميں بند کر ديا گيا ہے اور اس کى کنجى جھوٹ کو قرار ديا گيا ہے ۔ ( ۹)

 

ميں آپ کى توجہ مبذول کرانے کے لئے اس سلسلہ ميں پيشوائے اسلام کا دستور ذکر کرتا ھوں: ايک شخص سرکار رسالتمآب صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم کے پاس آکر گويا ھوا : ميرى سعادت و نيکبختى کے لئے آپ مجہے کوئى موعظہ فرمائيں! آنحضرت صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم نے فرمايا : جھوٹ چھوڑ دو اور ھميشہ  سچ بولا کرو ! وہ شخص جواب پا کر چلا گيا ۔ اس کے بعد اس نے کھا : ميں بھت ھى گنھگار تھا ليکن ميں ان گناھوں کے چھوڑنے پر مجبور ھو گيا ۔ کيونکہ گناہ کرنے کے بعد اگر مجھ سے پوچھا جاتا اور ميں سچ بول ديتا تو سب کے سامنے رسوا ھو جاتا اور لوگوں کى نظروں سے گر جاتا ۔ اور اگر جھوٹ بولتا تو دستور رسول اکرم صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم کى مخالفت کرتا ۔ اس لئے ميں نے سارے گناہ چھوڑ دئے ۔

 

 جي ھاں! جو شخص راست گفتار ھوتا ہے اور راہ راست پر چلتا ہے وہ رنج و افسوس سے دور رھتا ہے ۔ اور اس کے ايمان کى شمع ھمشيہ فروزاں رھتى ہے وہ شخص قلق و اضطراب سے امان ميں رھتا ہے ۔ اور افکار پريشاں سے بھت دور رھتا ہے ۔

 

پس جھوٹ کے برے انجام کو ديکھنا اور اس کے بارے ميں غور و فکر کرنا اور دين و دنيا ميں اس کے برے نتائج کو سوچنا ھر شرافت مند اور متفکر انسان کے لئے ايک بزرگترين درس عبرت ہے۔ حقيقت کمال کا حصول ايمان کے زير سايہ ھى ھوا کرتا ہے اور جھاں پر کمال حقيقى نھيں ھوتا وھاں سعادت و آسائش بھي نھيں ھوتى ۔

 

حوالے

۱۔ سورہ نحل/ ۱۰۵

۲۔نھج الفصاحة ص/۴۱۸

۳۔نھج الفصاحة ص /۱۱۸

۴۔غر ر الحکم ص/ ۶۰۵

۵۔ کتاب ” ماوفرزندان ما “

۶۔اصول کافى ص/ ۸۵

۷۔غرر الحکم ص/ ۸۷۶

۸۔ غرر الحکم ص/ ۱۷۵

۹۔جامع السعادات ج/۲ ص/ ۳۱۸


source : tebyan
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عقل کا استعمال اور ادراکات کا سرچشمہ
عید مباہلہ
آیہٴ” ساٴل سائل۔۔۔“ کتب اھل سنت کی روشنی میں
انہدام جنت البقیع تاریخی عوامل اور اسباب
ماہ رمضان کے دنوں کی دعائیں
جمع بین الصلاتین
ہم اور قرآن
نہج البلاغہ کی شرح
شفاعت کا مفہوم
شب قدر کو کیوں مخفی رکھا گیا؟

 
user comment