رسول اعظم (ص) کي امانتداري کا ايسا شہرہ تھا کہ اسلام سے قبل کا لقب ہي ''امين'' پڑ گيا- لوگ اپني گران قيمت اشياء انتہائي آسودہ خاطر کے ساتھ حضور (ص) کے سپرد کرديتے تھے اور مکمل يقين رکھتے تھے کہ وہ امانت ہر صورت ميں انہيں صحيح و سالم واپس ہوجائے گي- يہاں تک کہ جب آپ (ص) نے لوگوں کو اسلام کي طرف دعوت دينا شروع کي اور آپ (ص) کي نسبت قريش کي دشمني اپنے اوج پر پہنچ گئي تب بھي وہي دشمن جب اپني کوئي قيمتي چيز محفوظ رکھنا چاہتے تھے تو درِ ر
رسول اعظم (ص) کي امانتداري کا ايسا شہرہ تھا کہ اسلام سے قبل کا لقب ہي ''امين'' پڑ گيا- لوگ اپني گران قيمت اشياء انتہائي آسودہ خاطر کے ساتھ حضور (ص) کے سپرد کرديتے تھے اور مکمل يقين رکھتے تھے کہ وہ امانت ہر صورت ميں انہيں صحيح و سالم واپس ہوجائے گي- يہاں تک کہ جب آپ (ص) نے لوگوں کو اسلام کي طرف دعوت دينا شروع کي اور آپ (ص) کي نسبت قريش کي دشمني اپنے اوج پر پہنچ گئي تب بھي وہي دشمن جب اپني کوئي قيمتي چيز محفوظ رکھنا چاہتے تھے تو درِ رسول اکرم (ص) پر ہي دستک ديتے تھے- يہي وجہ ہے کہ جب حضور (ص) نے مدينہ کي طرف ہجرت کرنا چاہي تو حضرت امير المؤمنين علي بن ابي طالب عليہما السلام کو اس بات پر مامور کيا کہ وہ مکہ ميں رہ کر تمام امانتوں کو ان کے مالکوں کے سپرد کرديں- اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس وقت بھي آپ کفار قريش کي امانتوں کے امين تھے
source : tebyan