اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

تکفیری وہابی بوکو حرام کی قید میں مسلمان خواتین نے کیا دیکھا؟

کی رپورٹ کے مطابق نائجیریا میں سرگرم تکفیری وہابی دہشتگرد تنظیم بوکو حرام کی قید سے فوجی کارروائی کے دوران آزاد ہونے والی ایک خاتون کا کہنا ہے کہوہابی دہشتگردوں نے فوج کے پہنچتے ہی بہت سے مغویوں کو پتھر مار کر ہلاک کر دیا تھا وہ بتاتی ہیں کہ جب حکومتی فوجی قریب آ
تکفیری وہابی بوکو حرام کی قید میں مسلمان خواتین نے کیا دیکھا؟

کی رپورٹ کے مطابق نائجیریا میں سرگرم تکفیری وہابی دہشتگرد تنظیم بوکو حرام کی قید سے فوجی کارروائی کے دوران آزاد ہونے والی ایک خاتون کا کہنا ہے کہوہابی دہشتگردوں نے فوج کے پہنچتے ہی بہت سے مغویوں کو پتھر مار کر ہلاک کر دیا تھا وہ بتاتی ہیں کہ جب حکومتی فوجی قریب آرہے تھے اور مغویوں نے بھاگنے سے انکار کر دیا تو بوکو حرام کے جنگجوؤوں نے ان پر پتھروں کی بوچھاڑ کر دی۔

خیال رہے کہ گذشتہ جمعرات کو فوج نے کارروائی کے دوران 300بچوں اور خواتین کو سمبیسا کے جنگلوں میں بوکو حرام کی قید سے رہا کروا لیا تھا۔
فوجی حکام کا کہنا ہے کہ انھوں نے گذشتہ ہفتے کے دوران دو الگ الگ کارروائیوں میں کل 700 مغویوں کو رہا کروایا ہے۔
آزاد ہونے والی خاتون کا کہنا ہے کہ ان کی متعدد ساتھی خواتین ہلاک ہوئیں تاہم وہ نہیں جانتی کہ ہلاک ہونے والوں کی اصل تعداد کیا تھی۔

مردوں اور نوجوانوں کا قتل

زندہ بچ جانے والی خواتین بتاتی ہیں کہ بوکو حرام کے جنگجوؤوں نے انھیں جنگل میں لے جانے سے پہلے ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے خاندان کے مردوں اور نوجوانوں کو قتل کیا۔
ان میں سے کچھ ایسی بھی ہیں جن سے ان جنگجوؤوں نے زبردستی شادی کی۔
وہ بتاتی ہیں کہ شدت پسند انھیں نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتے تھے یہاں تک کہ انھیں بیت الخلا جانے کی اجازت بھی نہیں تھی۔
اسابے عمارہ نامی ایک خاتون نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ’ہمیں ایک جگہ پر رکھا گیا تھا، ہم غلامی میں تھے۔‘
ہر روز ایک ہلاکت
رہائی پانے والی سسیلہ ابل نے روئٹرز کو بتایا کہ انھیں ہر روز صرف دوپہر کے وقت کھانے کو خشک مکئی ملتی تھی جو انسانی صحت کے لیے موزوں نہیں تھی۔
24 سالہ عمارہ نے بتایا کہ قید کے دوران ہر روز ان کی ایک نہ ایک ساتھی انتقال کر جاتی تھی اور زندہ بچ جانے والی اپنی باری کا انتظار کر رہی تھیں۔
سمبیسا کے جنگلات میں بوکو حرام کی قید سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بعد ان خواتین اور بچوں کو یولا شہر تک پہنچنے کے لیے تین دن تک جنگل میں سفر کرنا پڑا۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق اپنے انٹرویوز میں حکام کہتے ہیں کہ رہا ہونے والی خواتین اور بچوں کا تعلق گمشوری نامی گاؤں سے ہے جو چیبوک کے قریب واقع ہے۔ تاہم یہ اب بھی واضح نہیں ہو سکا کہ آیا رہا ہونے والوں میں چیبوک سکول کی وہ لڑکیاں بھی شامل ہیں جنھیں گذشتہ سال اغوا کیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ 2009 سے اب تک بوکو حرام کے ہاتھوں ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔


source : abna
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

پردے كے بارے میں "حجاب" نامی دستاويزی فلم متحدہ ...
دینی مدارس کو در پیش مشکلات اور اُن کا حل
بلجیئم میں قبول اسلام کا بڑھتا ہوا رجحان
شیخ زکزاکی کو ان کی اہلیہ سمیت جیل سے نامعلوم جگہ ...
داعش نے اسلام کے نام پر مسلمانوں کا قتل عام کیا: ...
انصار اللہ کی جانب سے بحران یمن کے حل کے لیے ...
مكہ مكرمہ میں قرائت قرآن كے مقابلے كا انعقاد
ظلم و جارحیت سے جھٹکارے کا واحد راستہ، پیغمبر ...
نجران علاقے کو بچانے کے لیے آل سعود کی بڑھتی ...
گلگت بلتستان اسمبلی انتخابات کے نتائج کا اعلان

 
user comment