اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

نہج البلاغہ کتاب حق و حقیقت

نہج البلاغہ کا اجمالی تعارف نہج البلاغہ وہ عظیم المرتبت کتاب ھے جس کو دونوں فریق کے علماء معتبر سمجھتے ھیں، یہ مقدس کتاب امام علی علیہ السلام کے پیغامات اور گفتار کا مجموعہ ھے جس کو علامہ بزرگوار شریف رضی علیہ الرحمہ نے تین حصوں میں ترتیب دیا ھے جن کا اجمالی تعارف کچھ یوں ھے:
نہج البلاغہ کتاب حق و حقیقت

نہج البلاغہ کا اجمالی تعارف

نہج البلاغہ وہ عظیم المرتبت کتاب ھے جس کو دونوں فریق کے علماء معتبر سمجھتے ھیں، یہ مقدس کتاب امام علی علیہ السلام کے پیغامات اور گفتار کا مجموعہ ھے جس کو علامہ بزرگوار شریف رضی علیہ الرحمہ نے تین حصوں میں ترتیب دیا ھے جن کا اجمالی تعارف کچھ یوں ھے:

۱۔ حصہ اول: خطبات

نہج البلاغہ کاسب سے پھلا اور مھم حصہ امام علی علیہ السلام کے خطبات پر مشتمل ھے جن کو امام علیہ السلام نے مختلف مقامات پر بیان فرمایا ھے، ان خطبوں کی کل تعداد (۲۴۱ ) خطبے ہیں جن میں سب سے طولانی خطبہ ۱۹۲ ہے جو خطبہٴ قاصعہ کے نام سے مشھور ہے اور سب سے چھوٹا خطبہ ۵۹ ہے۔

۲۔ حصہ دوم: خطوط

یہ حصہ امام علیہ السلام کے خطوط پر مشتمل ھے، جو آپ نے اپنے گورنروں اور دوستوں، دشمنوں، قاضیوں اور زکوٰة جمع کرنے والوں کے لئے لکھے ہیں، ان سبب میں طولانی خط ۵۳ ہے جو آپ نے اپنے مخلص صحابی مالک اشتر کو لکھا ہے اور سب سے چھوٹا ۷۹ ہے جو آپ نے فوج کے افسروں کو لکھا تھا۔

۳۔ حصہ سوم: کلمات قصار

نہج البلاغہ کا آخری حصہ ۴۸۰ چھوٹے بڑے حکمت آمیز کلمات پر مشتمل ہے جن کو کلمات قصار کھا جاتا ہے، یعنی مختصر کلمات، ان کو کلمات حکمت اور قصار الحِکم بھی کھا جاتا ہے، یہ حصہ اگرچہ مختصر بیان پر مشتمل ہے لیکن ان کے مضامین بہت بلند پایہ حیثیت رکھتے ہیں جو نہج البلاغہ کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔


نہج البلاغہ کی شرحیں

قرآن کریم کی طرح نہج البلاغہ بھی ایک زندہ وجاوید کتاب ہے اور یہ قرآن کے ساتھ قدم بہ قدم چلی آرہی ہے متفکراور عقیدت مند حضرات اس کتاب سے فائدہ اٹھار ہے ہیں، اس کتاب کے دنیا کی رائج زبانوں میں ترجمہ ہوچکے ہیں جیسے فارسی، ترکی، اردو، انگلش، فرانسوی، جرمنی،اٹالین اور اسپینش وغیرہ ۔

ہم یہاں پراب تک اردو میں ہوے ترجموں کا مختصر تعارف بیان کر تے ہیں :

۱۔نہج البلاغہ [الاشاعة[

مترجم: سید اولاد حسن بن محمد حسن سلیم ہندی امروہوی،معاصر سید علی نقی نقوی ۔ تذکرہ علمائے امامیہ پاکستان میں ان کاتذکرہ ہوا ہے ۱۔

۲۔ نہج البلاغہ (سلسبیل فصاحت)۔

مترجم : سید ظفرمہدی گوہر ابن سید وارث حسین جائسی، مدیر تحریر مجلہ”سہیل یمن“ ان کی ایک دوسری کتاب بھی ہے جو اللہ اللہ کے نام سے موسوم ہے یہ کتاب انہوں نے اہل سنت کے جواب میں لکھی ہے اور ہندوستان میں دو جلدوں میں شایع ہوئی ہے۲۔
۳۔ نہج البلاغہ

مترجم: سید علی اظہر کھجوی ہندی متوفی ۱۳۵۲ھ۔ اس کا ترجمہ سطروں کے درمیان لکھا اور چھپا ہے ۳۔
استاد سید عبدالعزیر طباطبایی الذریعہ کے تعلیقہ موسوم بہ اضواء علی الذریعہ میں کہتے ہیں : اس کتاب کے مترجم کے متعلق میں نے علامہ سعید اختررضوی سے پاکستان میں ایک خط لکھ کر معلوم کیا تو انہوں نے جواب میں لکھا کہ یہ ترجمہ سید علی اظہر کا نہیں ہے بلکہ ان کے بیٹے سید علی حیدر کا ہے (۱۳۰۳۔۱۳۸۰ھ) اور غلطی سے ان کے والد کی طرف نسبت دیدی گئی ۴۔ اور ان کی سوانح حیات ،مطلع الانوار کتاب(ص ۳۵۴۔۳۵۹) میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوئی ہے ۔

۴۔ نہج البلاغہ

۔ مترجم: سید یوسف حسین ہندی امروہوی، متوفی ۱۳۵۲ھ۔ ہندوستان میں یہ ترجمہ ۱۹۲۶ء میں بہترین پریسوں میں چھپ کر منظر عام پر آیا تھا۴۔
۵۔ نہج البلاغہ

۔ مترجم : یوسف حسین بن نادر حسین صدر الافاضل لکھنوی۔ اپنی عمر کے آخری زمانے میں یہ لاہور میں آکر مقیم ہوگئے تھے (۱۳۰۱۔۱۴۰۸ھ) آپ کی سوانح حیات تذکرہ علمائے امامیہ پاکستان (ص ۳۹۳۔ ۳۹۶)میں تفصیل سے بیان ہوئی ہے، وہاں آپ کی تالیفات کو ذکر کرتے ہوئے نہج البلاغہ کے ترجمہ کی طرف بھی اشارہ کیاگیا ہے۔۵
۶۔ نہج البلاغہ

۔ مترجم: سیدمحمد صادق ۔ خلیق احمد نظامی نے نہج البلاغہ سے متعلق ایک مقالہ لکھا ہے جس میں اس کے متعلق بیان کیاہے اور اس ترجمہ کو اپنے مجلہ ”المجمع العلمی الہندی“ کے پہلے شمارہ میں چھاپاہے۶۔
۷۔ نہج البلاغہ

۔ مترجم : حسن عسکری ہندی حیدرآبادی،یہ ترجمہ ۱۹۶۶ء میں حیدرآباد دکن میں شائع ہوا۷۔
۸۔ نہج البلاغہ

۔ مترجم: سید سبط حسن رضوی پاکستانی ہنسوی ۔ ان کی سوانح حیات کی تفصیل کتاب ”مطلع الانوار“ کے صفحہ ۲۵۰پر بیان ہوئی ہے۸۔

۹۔ نہج البلاغہ

۔ نیرنگ فصاحت: مترجم : سید ذاکر حسین اختر ابن سید فرزند علی ہندی دہلوی واسطی (۱۳۱۵۔۱۳۷۲ھ) آپ کی سوانح حیات تذکرہ علمائے امامیہ پاکستان میں تفصیل کے ساته بیان ہوئی ہے۹۔
۱۰۔ نہج البلاغہ

۔ مترجم : صدرالافاضل سید مرتضی حسین لکھنوی، موصوف لاہور کے مشہور عالم گذرے ہیں(۱۳۴۱۔۱۴۰۷ھ)۔
۱۱۔ نہج البلاغہ

۔ یہ ترجمہ دو لوگوں نے مل کر انجام دیا جیسے خطبوں کا ترجمہ : میرزا یوسف حسین، خطوط اور کلمات قصار کا ترجمہ : غلام محمد زکی سرود کوئی،یہ ترجمہ ”حمایت اہل بیت“ کی طرف سے ۱۳۹۴ھ میں شائع ہوا ۔ اس ترجمہ پر بہت سے علماء نے مقدمہ لکھے جیسے سید علی نقی نقوی، سید محمد صادق لکھنوی، محمد بشیر ،ظفر حسن،مرتضی حسین اور ظل حسنین ۔
۱۲۔ نہج البلاغہ

۔ اس ترجمہ کو چند حضرات نے مل کر تحریر کیا : سید رئیس احمد جعفری، نائب حسین نقوی، عبدالرزاق ملیح آبادی اور مرتضی حسین ان میں سے ہرایک نے ایک ایک حصہ کے ترجمہ کی ذمہ داری قبول کررکھی تھی اور یہ ترجمہ پاکستان میں شایع ہواہے۔۱۰
۱۳۔ نہج البلاغہ

۔ مترجم: مفتی جعفر حسین لاہوری ، آپ اس کتاب کے ترجمہ سے ۱۸ رجب المرجب ۱۳۷۵ھ مطابق ۱۹۵۶ء میں فارغ ہوئے یہ ترجمہ ہندوستان وپاکستان میں بہت زیادہ مشہور اور رائج ہوااور اس کے کئی اچھے ایڈیشن چھپ چکے ہیں ، لاہور میں یہ کتب خانہ مغل حویلی سے بڑے ایڈیشن میں اس طرح شایع ہوا کہ ایک صفحہ میں ایک طرف عربی متن اور دوسری طرف اردو ترجمہ ہے اور دوسرا ایڈیشن ”امامیہ پبلیکشنز“ پاکستان سے ۱۹۸۵ء میں چھپا اور اس کے شروع میں علامہ سید علی نقی نقوی نے ادباء کے نظریات کے متعلق ایک مفصل مقالہ لکھا جس میں انہوں نے ان کے اقوال وکلمات بھی ذکر کئے ہیں ۱۱۔
یہ تمام تراجم اس وقت موجود نہیں ہیں اس کی وجہ شاید یہ رہی ہو کہ ان میں سے کسی میں اغلاط بہت زیادہ تھے اور کسی میں عبارت آرائی نے ترجمہ کے حدود کو باقی نہیں رکھا ، نیز حواشی میں کبھی خالص مناظرانہ انداز کی بہتات ہوگئی اور کبھی اختصار کی شدت نے ضروری مطالب نظر انداز کردئے، جناب مولانا مفتی جعفر حسین صاحب جو ہندوستان وپاکستان میں کسی تعارف کے محتاج نہیں اور اپنے علمی کمالات کے ساتھ بلندی سیرت اور سادگی معاشرت میں جن کی ذات ہندوستان وپاکستان میں ایک مثالی حیثیت رکھتی تھی ، ان کی یہ کوشش نہایت قابل قدر ہے کہ انہوں نے اس کتاب کے مکمل ترجمہ اور شارحانہ حواشی کے تحریر کا بیڑا اٹھایا اور کافی محنت وعرق ریزی سے اس کام کی تکمیل فرمائی۔ بغیر کسی وشک وشبہ کے یہ کہا جاسکتاہے کہ اب تک ہماری زبان میں جتنے ترجمہ اس کتاب کے اور حواشی شائع ہوئے ہیں، ان سب میں اس ترجمہ کا مرتبہ اپنی صحت اور سلامت اور حسن اسلوب میں یقینا بلند ہے اور حواشی میں بھی ضروری مطالب کے بیان میں کمی نہیں کی گئی اور زوائد کے درج کرنے سے احتراز کیاہے ، بلاشبہ نہج البلاغہ کے ضروری مندرجات اور اہم نکات پر مطلع کرنے کے لئے اس تالیف نے ایک اہم ضرورت کوپورا کیا ہے جس پر مصنف ممدوح قابل مبارکباد ہیں۔

اقتباس از مقدمہ علامہ علی نقی نقوی

۱۴۔ نہج البلاغہ

۔ مترجم: علامہ سید ذیشان حیدر جوادی۔
علامہ موصوف اپنے اس ترجمہ کے متعلق فرماتے ہیں:زیرنظر ترجمہ اور شرح اس بنیاد پر نہیں ہے کہ اس سے پہلے اس موضوع پر کوئی کام نہیں ہوا ہے یا اس کی کوئی افادیت نہیں ہے۔

کام بہت ہوا ہے اور بہت خوب ہوا ہے متعدد تراجم بھی شائع ہوچکے ہیں اور مختلف شرحیں بھی منظر عام پر آچکی ہیں اور مجھے خود بھی ان خدمات سے بڑی حد تک استفادہ کرنے کا موقع ملاہے۔

لیکن ترجمہ وتفسیر قرآن مجید کے منظر عام پرآنے کے بعد اور مومنین کرام کی حوصلہ افزائی کے نتیجہ میں یہ احساس پیدا ہوا کہ ہرکام ناظرین کرام کی نگاہ میں قابل قدر ہوتاہے اگر اس میں کوئی بھی ندرت یا خوبی پیدا ہوجائے۔

میں نے اس ترجمہ اور تشریح میں تین باتوں کا خیال رکھا ہے جو نادر ونایاب تو نہیں ہیں لیکن اردو داں طبقہ کے لئے قابل استفادہ ضرور ہیں۔

پہلی کوشش یہ کی گئی ہے کہ زبان بالکل سادہ اورسلیس ہو جب کہ یہ کام انتہائی مشکل اور دشوار تھا کہ نہج البلاغہ کی زبان خود بھی اتنی سہل وسادہ نہیں ہے جتنی آسان زبان قرآن مجید میں نظرآتی ہے۔

ایسی صورت میں مترادف الفاظ کاتلاش کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا اور اسی بنیاد پر اکثرمقامات پر مجھے ناکامی کاسامنا کرنا پڑاہے لیکن اس کے باوجود میں نے سادگی کو فصاحت وبلاغت پر مقدم رکھاہے اوربعض دیگر مترجمین کرام کی طرح الفاظ تراشی یا محاورہ سازی کی زحمت نہیں کی ہے۔

۲۔ عام طور سے اردو زبان میںجو تراجم پائے جاتے ہیں ۔ان میں خطبات وکلمات کی تشریح توہے لیکن ان کا حوالہ درج نہیں ہے کہ یہ کلام نہج البلاغہ کے علاوہ اور کہاں کہاں پایاجاتاہے۔

یہ کام انتہائی دشوار گذار تھا اور میں نے اس سلسلہ میں محنت بھی شروع کردی تھی لیکن بعد میں عربی زبان کی ایسی کتابیں دستیاب ہوگئیں جن میں یہ سارا کام مکمل طور سے ہوچکا تھا اور مجھے اس سلسلہ میں کوئی زحمت نہیں کرنا پڑی اور برسوں کا کام مہینوں کے اندر مکمل ہوگیا۔

بہت ممکن ہے بعض حوالے نمبروں کے اعتبار سے صحیح نہ بھی ہوں لیکن اب مزید تلاش میری مصروف ترین زندگی کے حدود امکان سے باہر ہے۔ خدا کرے دیگر افاضل کرام اس کام کو انجام دیدیں اور ناظرین محترم بھی متوجہ کردیں تاکہ آئندہ اصلاح کی جاسکے۔

۳۔ اردو زبان میںعام طور سے تفسیر اور تشریح دونوں کا مفہوم واقعات کو قراردیا جاتاہے کہ تفسیر قرآن میں بہت سے دور قدیم کے واقعات نقل کردئے جائیں اور شرح نہج البلاغہ میں صفین وجمل وسقیفہ کے حوالہ بقدر کلام فہمی توضروری ہے لیکن اس کا تفسیراور کلام سے کوئی تعلق نہیں ہے تفسیر وتشریح کے لئے الفاظ کا مفہوم ۔ عبارات کا مقصد اور اس مطلوب و مقصود کا واضح کرنا ضروری ہے جس کے لئے یہ کلام منظر عام پر آیا ہے اور صاحب کلام نے عوام الناس یا خواص کو مخاطب بنایاہے۔

یہی وجہ ہے کہ اس کتاب میں ایک طرف الفاظ کا مفہوم درج کیا گیاہے اور دوسری طرف خطبات وکلمات کے مقاصد پر روشنی ڈالی گئی ہے تاکہ طلاب کرام کو کلام کے سمجھنے اور مومنین کرام کو کردار کے سنوارنے میں مدد ملے۔ خدا کرے میری یہ کوشش کامیاب ہو اور اس طرح تفسیر وتشریح کا ایک نیا سلسلہ منظر عام پر آسکے۔

اقتباس از گفتار مترجم علامہ سید ذیشان حیدر جوادی

حواشی

۱۔ الذریعہ ج۴،ص۱۴۴وج۱۴ص۱۱۶۔

۲۔ الذریعہ ج۴ص۱۴۴وج۱۴ص۱۳۰۔

۳۔ الذریعہ ج۴ص۱۴۴وج۱۴ص۱۴۱۔

۴۔مجلہ تراثنا ،ش۴،سال ۷،شوار۱۴۱۲ھ۔

۵۔ آثار الشیعہ ص۱۰۱ بہ نقل تراثنا۔

۶۔ مجلہ تراثنا،شمارہ ۴۷،سال ۷ص۷۳۔

۷۔ مجلہ تراثنا،شمارہ ۴۷،سال ۷ص۷۳۔

۸۔ مجلہ تراثنا،شمارہ ۴۷،سال ۷ص۷۳۔

۹۔الذریعہ ج۴ص۱۴۴وج۱۴ص۱۶۶و ج ۲۴،ص۴۳۵۔

۱۰۔وہی حوالہ۔

۔۔۔۔۔

نہج البلاغہ کی شرحیں

قرآن کریم کی طرح نہج البلاغہ بھی ایک زندہ وجاوید کتاب ہے اور یہ قرآن کے ساتھ قدم بہ قدم چلی آرہی ہے متفکراور عقیدت مند حضرات اس کتاب سے فائدہ اٹھار ہے ہیں، اس کتاب کے دنیا کی رائج زبانوں میں ترجمہ ہوچکے ہیں جیسے فارسی، ترکی، اردو، انگلش، فرانسوی، جرمنی،اٹالین اور اسپینش وغیرہ ۔

ہم یہاں پراب تک اردو میں ہوے ترجموں کا مختصر تعارف بیان کر تے ہیں :

۱۔نہج البلاغہ [الاشاعة[

مترجم: سید اولاد حسن بن محمد حسن سلیم ہندی امروہوی،معاصر سید علی نقی نقوی ۔ تذکرہ علمائے امامیہ پاکستان میں ان کاتذکرہ ہوا ہے ۱۔

۲۔ نہج البلاغہ (سلسبیل فصاحت)۔

مترجم : سید ظفرمہدی گوہر ابن سید وارث حسین جائسی، مدیر تحریر مجلہ”سہیل یمن“ ان کی ایک دوسری کتاب بھی ہے جو اللہ اللہ کے نام سے موسوم ہے یہ کتاب انہوں نے اہل سنت کے جواب میں لکھی ہے اور ہندوستان میں دو جلدوں میں شایع ہوئی ہے۲۔
۳۔ نہج البلاغہ

مترجم: سید علی اظہر کھجوی ہندی متوفی ۱۳۵۲ھ۔ اس کا ترجمہ سطروں کے درمیان لکھا اور چھپا ہے ۳۔
استاد سید عبدالعزیر طباطبایی الذریعہ کے تعلیقہ موسوم بہ اضواء علی الذریعہ میں کہتے ہیں : اس کتاب کے مترجم کے متعلق میں نے علامہ سعید اختررضوی سے پاکستان میں ایک خط لکھ کر معلوم کیا تو انہوں نے جواب میں لکھا کہ یہ ترجمہ سید علی اظہر کا نہیں ہے بلکہ ان کے بیٹے سید علی حیدر کا ہے (۱۳۰۳۔۱۳۸۰ھ) اور غلطی سے ان کے والد کی طرف نسبت دیدی گئی ۴۔ اور ان کی سوانح حیات ،مطلع الانوار کتاب(ص ۳۵۴۔۳۵۹) میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوئی ہے ۔

۴۔ نہج البلاغہ

۔ مترجم: سید یوسف حسین ہندی امروہوی، متوفی ۱۳۵۲ھ۔ ہندوستان میں یہ ترجمہ ۱۹۲۶ء میں بہترین پریسوں میں چھپ کر منظر عام پر آیا تھا۴۔
۵۔ نہج البلاغہ

۔ مترجم : یوسف حسین بن نادر حسین صدر الافاضل لکھنوی۔ اپنی عمر کے آخری زمانے میں یہ لاہور میں آکر مقیم ہوگئے تھے (۱۳۰۱۔۱۴۰۸ھ) آپ کی سوانح حیات تذکرہ علمائے امامیہ پاکستان (ص ۳۹۳۔ ۳۹۶)میں تفصیل سے بیان ہوئی ہے، وہاں آپ کی تالیفات کو ذکر کرتے ہوئے نہج البلاغہ کے ترجمہ کی طرف بھی اشارہ کیاگیا ہے۔۵
۶۔ نہج البلاغہ

۔ مترجم: سیدمحمد صادق ۔ خلیق احمد نظامی نے نہج البلاغہ سے متعلق ایک مقالہ لکھا ہے جس میں اس کے متعلق بیان کیاہے اور اس ترجمہ کو اپنے مجلہ ”المجمع العلمی الہندی“ کے پہلے شمارہ میں چھاپاہے۶۔
۷۔ نہج البلاغہ

۔ مترجم : حسن عسکری ہندی حیدرآبادی،یہ ترجمہ ۱۹۶۶ء میں حیدرآباد دکن میں شائع ہوا۷۔
۸۔ نہج البلاغہ

۔ مترجم: سید سبط حسن رضوی پاکستانی ہنسوی ۔ ان کی سوانح حیات کی تفصیل کتاب ”مطلع الانوار“ کے صفحہ ۲۵۰پر بیان ہوئی ہے۸۔

۹۔ نہج البلاغہ

۔ نیرنگ فصاحت: مترجم : سید ذاکر حسین اختر ابن سید فرزند علی ہندی دہلوی واسطی (۱۳۱۵۔۱۳۷۲ھ) آپ کی سوانح حیات تذکرہ علمائے امامیہ پاکستان میں تفصیل کے ساته بیان ہوئی ہے۹۔
۱۰۔ نہج البلاغہ

۔ مترجم : صدرالافاضل سید مرتضی حسین لکھنوی، موصوف لاہور کے مشہور عالم گذرے ہیں(۱۳۴۱۔۱۴۰۷ھ)۔
۱۱۔ نہج البلاغہ

۔ یہ ترجمہ دو لوگوں نے مل کر انجام دیا جیسے خطبوں کا ترجمہ : میرزا یوسف حسین، خطوط اور کلمات قصار کا ترجمہ : غلام محمد زکی سرود کوئی،یہ ترجمہ ”حمایت اہل بیت“ کی طرف سے ۱۳۹۴ھ میں شائع ہوا ۔ اس ترجمہ پر بہت سے علماء نے مقدمہ لکھے جیسے سید علی نقی نقوی، سید محمد صادق لکھنوی، محمد بشیر ،ظفر حسن،مرتضی حسین اور ظل حسنین ۔
۱۲۔ نہج البلاغہ

۔ اس ترجمہ کو چند حضرات نے مل کر تحریر کیا : سید رئیس احمد جعفری، نائب حسین نقوی، عبدالرزاق ملیح آبادی اور مرتضی حسین ان میں سے ہرایک نے ایک ایک حصہ کے ترجمہ کی ذمہ داری قبول کررکھی تھی اور یہ ترجمہ پاکستان میں شایع ہواہے۔۱۰
۱۳۔ نہج البلاغہ

۔ مترجم: مفتی جعفر حسین لاہوری ، آپ اس کتاب کے ترجمہ سے ۱۸ رجب المرجب ۱۳۷۵ھ مطابق ۱۹۵۶ء میں فارغ ہوئے یہ ترجمہ ہندوستان وپاکستان میں بہت زیادہ مشہور اور رائج ہوااور اس کے کئی اچھے ایڈیشن چھپ چکے ہیں ، لاہور میں یہ کتب خانہ مغل حویلی سے بڑے ایڈیشن میں اس طرح شایع ہوا کہ ایک صفحہ میں ایک طرف عربی متن اور دوسری طرف اردو ترجمہ ہے اور دوسرا ایڈیشن ”امامیہ پبلیکشنز“ پاکستان سے ۱۹۸۵ء میں چھپا اور اس کے شروع میں علامہ سید علی نقی نقوی نے ادباء کے نظریات کے متعلق ایک مفصل مقالہ لکھا جس میں انہوں نے ان کے اقوال وکلمات بھی ذکر کئے ہیں ۱۱۔
یہ تمام تراجم اس وقت موجود نہیں ہیں اس کی وجہ شاید یہ رہی ہو کہ ان میں سے کسی میں اغلاط بہت زیادہ تھے اور کسی میں عبارت آرائی نے ترجمہ کے حدود کو باقی نہیں رکھا ، نیز حواشی میں کبھی خالص مناظرانہ انداز کی بہتات ہوگئی اور کبھی اختصار کی شدت نے ضروری مطالب نظر انداز کردئے، جناب مولانا مفتی جعفر حسین صاحب جو ہندوستان وپاکستان میں کسی تعارف کے محتاج نہیں اور اپنے علمی کمالات کے ساتھ بلندی سیرت اور سادگی معاشرت میں جن کی ذات ہندوستان وپاکستان میں ایک مثالی حیثیت رکھتی تھی ، ان کی یہ کوشش نہایت قابل قدر ہے کہ انہوں نے اس کتاب کے مکمل ترجمہ اور شارحانہ حواشی کے تحریر کا بیڑا اٹھایا اور کافی محنت وعرق ریزی سے اس کام کی تکمیل فرمائی۔ بغیر کسی وشک وشبہ کے یہ کہا جاسکتاہے کہ اب تک ہماری زبان میں جتنے ترجمہ اس کتاب کے اور حواشی شائع ہوئے ہیں، ان سب میں اس ترجمہ کا مرتبہ اپنی صحت اور سلامت اور حسن اسلوب میں یقینا بلند ہے اور حواشی میں بھی ضروری مطالب کے بیان میں کمی نہیں کی گئی اور زوائد کے درج کرنے سے احتراز کیاہے ، بلاشبہ نہج البلاغہ کے ضروری مندرجات اور اہم نکات پر مطلع کرنے کے لئے اس تالیف نے ایک اہم ضرورت کوپورا کیا ہے جس پر مصنف ممدوح قابل مبارکباد ہیں۔

اقتباس از مقدمہ علامہ علی نقی نقوی

۱۴۔ نہج البلاغہ

۔ مترجم: علامہ سید ذیشان حیدر جوادی۔
علامہ موصوف اپنے اس ترجمہ کے متعلق فرماتے ہیں:زیرنظر ترجمہ اور شرح اس بنیاد پر نہیں ہے کہ اس سے پہلے اس موضوع پر کوئی کام نہیں ہوا ہے یا اس کی کوئی افادیت نہیں ہے۔

کام بہت ہوا ہے اور بہت خوب ہوا ہے متعدد تراجم بھی شائع ہوچکے ہیں اور مختلف شرحیں بھی منظر عام پر آچکی ہیں اور مجھے خود بھی ان خدمات سے بڑی حد تک استفادہ کرنے کا موقع ملاہے۔

لیکن ترجمہ وتفسیر قرآن مجید کے منظر عام پرآنے کے بعد اور مومنین کرام کی حوصلہ افزائی کے نتیجہ میں یہ احساس پیدا ہوا کہ ہرکام ناظرین کرام کی نگاہ میں قابل قدر ہوتاہے اگر اس میں کوئی بھی ندرت یا خوبی پیدا ہوجائے۔

میں نے اس ترجمہ اور تشریح میں تین باتوں کا خیال رکھا ہے جو نادر ونایاب تو نہیں ہیں لیکن اردو داں طبقہ کے لئے قابل استفادہ ضرور ہیں۔

پہلی کوشش یہ کی گئی ہے کہ زبان بالکل سادہ اورسلیس ہو جب کہ یہ کام انتہائی مشکل اور دشوار تھا کہ نہج البلاغہ کی زبان خود بھی اتنی سہل وسادہ نہیں ہے جتنی آسان زبان قرآن مجید میں نظرآتی ہے۔

ایسی صورت میں مترادف الفاظ کاتلاش کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا اور اسی بنیاد پر اکثرمقامات پر مجھے ناکامی کاسامنا کرنا پڑاہے لیکن اس کے باوجود میں نے سادگی کو فصاحت وبلاغت پر مقدم رکھاہے اوربعض دیگر مترجمین کرام کی طرح الفاظ تراشی یا محاورہ سازی کی زحمت نہیں کی ہے۔

۲۔ عام طور سے اردو زبان میںجو تراجم پائے جاتے ہیں ۔ان میں خطبات وکلمات کی تشریح توہے لیکن ان کا حوالہ درج نہیں ہے کہ یہ کلام نہج البلاغہ کے علاوہ اور کہاں کہاں پایاجاتاہے۔

یہ کام انتہائی دشوار گذار تھا اور میں نے اس سلسلہ میں محنت بھی شروع کردی تھی لیکن بعد میں عربی زبان کی ایسی کتابیں دستیاب ہوگئیں جن میں یہ سارا کام مکمل طور سے ہوچکا تھا اور مجھے اس سلسلہ میں کوئی زحمت نہیں کرنا پڑی اور برسوں کا کام مہینوں کے اندر مکمل ہوگیا۔

بہت ممکن ہے بعض حوالے نمبروں کے اعتبار سے صحیح نہ بھی ہوں لیکن اب مزید تلاش میری مصروف ترین زندگی کے حدود امکان سے باہر ہے۔ خدا کرے دیگر افاضل کرام اس کام کو انجام دیدیں اور ناظرین محترم بھی متوجہ کردیں تاکہ آئندہ اصلاح کی جاسکے۔

۳۔ اردو زبان میںعام طور سے تفسیر اور تشریح دونوں کا مفہوم واقعات کو قراردیا جاتاہے کہ تفسیر قرآن میں بہت سے دور قدیم کے واقعات نقل کردئے جائیں اور شرح نہج البلاغہ میں صفین وجمل وسقیفہ کے حوالہ بقدر کلام فہمی توضروری ہے لیکن اس کا تفسیراور کلام سے کوئی تعلق نہیں ہے تفسیر وتشریح کے لئے الفاظ کا مفہوم ۔ عبارات کا مقصد اور اس مطلوب و مقصود کا واضح کرنا ضروری ہے جس کے لئے یہ کلام منظر عام پر آیا ہے اور صاحب کلام نے عوام الناس یا خواص کو مخاطب بنایاہے۔

یہی وجہ ہے کہ اس کتاب میں ایک طرف الفاظ کا مفہوم درج کیا گیاہے اور دوسری طرف خطبات وکلمات کے مقاصد پر روشنی ڈالی گئی ہے تاکہ طلاب کرام کو کلام کے سمجھنے اور مومنین کرام کو کردار کے سنوارنے میں مدد ملے۔ خدا کرے میری یہ کوشش کامیاب ہو اور اس طرح تفسیر وتشریح کا ایک نیا سلسلہ منظر عام پر آسکے۔

اقتباس از گفتار مترجم علامہ سید ذیشان حیدر جوادی

حواشی

۱۔ الذریعہ ج۴،ص۱۴۴وج۱۴ص۱۱۶۔

۲۔ الذریعہ ج۴ص۱۴۴وج۱۴ص۱۳۰۔

۳۔ الذریعہ ج۴ص۱۴۴وج۱۴ص۱۴۱۔

۴۔مجلہ تراثنا ،ش۴،سال ۷،شوار۱۴۱۲ھ۔

۵۔ آثار الشیعہ ص۱۰۱ بہ نقل تراثنا۔

۶۔ مجلہ تراثنا،شمارہ ۴۷،سال ۷ص۷۳۔

۷۔ مجلہ تراثنا،شمارہ ۴۷،سال ۷ص۷۳۔

۸۔ مجلہ تراثنا،شمارہ ۴۷،سال ۷ص۷۳۔

۹۔الذریعہ ج۴ص۱۴۴وج۱۴ص۱۶۶و ج ۲۴،ص۴۳۵۔

۱۰۔وہی حوالہ۔

۱۱۔ مجلہ تراثنا،شمارہ ۴۷،سال ۷ص۷۳۔

۔۔۔۔۔

نہج البلاغہ کتاب حق و حقیقت

جس دن ہم نے نہج البلاغہ کا ادراک کر لیا اور تمام تعصبات و جانبداریوں سے مبرا ہوتے ہوئے اسکی کنہ حقیقت تک پہنچ گئے اس دن ہم تمام سماجی، اخلاقی، معاشی اور فلسفیانہ مکاتب فکر سے بے نیاز ہوجائیں گے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ ان چند جملو ں کے ذریعہ نہج البلاغہ کی شناخت حاصل نہیں کی جا سکتی کیو نکہ اگر ارباب علم و فلسفہ گز شتہ تا ریخی حقائق کے سلسلے میں نہج البلاغہ سے استفادہ کر لیں تب بہی ان کیلئے مستقبل تو مجہول ہی ہے جبکہ نہج البلاغہ فقط ماضی وحال ہی سے مربو ط نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسی کتاب ہے جو آئند ہ سے بہی مر بوط ہے کیو نکہ نہج البلاغہ میں انسان و کا ئنات کے بارے میں جا و دانہ طور پر مبسوط بحث کی گئی ہے۔ بشر وکا ئنات کے حوا لے سے جن اصو ل وقو انین کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ کسی ایک زبان ومکان کو پیش نظر رکہ کرو ضع نہیں کئے گئے ہیں کہ کسی ایک محدود زمانے میں مقید ہو کر رہ جا ئیں۔ زمانے تبدیل ہو تے رہتے ہیں اورہر زمانے کے افراد اپنے فہم و ادراک کے مطا بق اس آفاقی کتاب سے استفادہ وبہرہ بر داری کرتے رہتے ہیں ۔

ایسی کو نسی کتاب ہے جس میں نہج البلاغہ کی طرح حیات ور موز حیات کے متعلق اسقدر عمیق اور جامع بحث کی گئی ہو اور زندگی کے دونو ں پہلو ؤ ں اور اسکی حقیقت کو با لتفصیل وا ضح کیا گیا ہو ؟

آیا ممکن ہے کہ نہج البلاغہ کے علاوہ کسی اور کتاب میں مفہو م اورر موز موت وحیات تک دستر سی پیدا کی جا سکے ؟

کیا ممکن ہے کہ بشر کے محدو د ذہن کے ذریعہ سا ختہ شدہ ، نا قص مکا تب فکر سے اقتصادیات کے ان تمام نکا ت اور پہلو ؤ ں کا استخر اج کر لیا جا ئے جو نہج البلاغہ میں مو جو د ہیں ؟ ہر اقتصا دی مکتب فکر جہاں کچہ امتیازات و محا سن کا حا مل ہو تا ہے و ہیں اسمیں کچہ نقا ئص بہی پا ئے جا تے ہیں۔ ایک مکتب فکر انسا ن کو اقتصادیات پر قربان کر دیتا ہے جبکہ دوسر ے مکتب کی نگا ہ میں انسان کیلئے معا شیات کی کو ئی حیثیت نہیں ہے ، تیسرا مکتب ، بشر کو اس حدتک آزادی کا اختیار دے دیتا ہے کہ معاشرے کی تمام اہمیت وا رزش ہی ختم ہو کر رہ جاتی ہے ، چو تہا مکتب آتا ہے اور اسکی ساری تو جہات معاشرے پر مر کو زہو جاتی ہیںلیکن نہج البلاغہ نے اسلام کی معتد ل روش کا اتبا ع کرتے ہو ئے سماج کے ہر طبقے کے حقو ق کی محا فظت کی ہے اس طرح کہ فر د ومعا شرہ ،دونو ں کا یکسا ں خیال رکہا ہے یعنی فرد ی آزادی اور اختیار ات فقط اس حد تک قا بل قبو ل ہیں جہا ں تک سما جی زند گی میں خلل پیدا نہ ہو ورنہ معا شر تی زندگی مذکورہ صورت میں بہر حال بر تری کی حامل ہے یعنی سماجی زندگی ، فردی زندگی پر فو قیت رکہتی ہے ۔ نہج البلاغہ نے زندگی کے معاشی شعبے میں اسلام کے اصول وقوا نین اسقدر واضح طور پر بیان کئے ہیںکہ خو د بخو د ہر حقدا ر تک اسکا حق پہو نچ جا تا ہے ۔سما جی نظا م حیات کو اس طرح مر تب کیا ہے کہ معا شرے کے تمام افراد ایک انسانی بدن کے اعضا ء کی مانند نظر آتے ہیں ۔ اگر پیر میں تکلیف ہو تی ہے تو آنکہ بہی اس درد کا احسا س کرتی ہے لیکن جو کام آنکہ کر سکتی ہے ، ایک پیر نہیں کر سکتا اور پیر سے ایسی تو قع رکہی بہی نہیں جا سکتی لہذا اسی وجہ سے معا شرہ کو فردی زندگی پر مقدم رکہا گیاہے ۔

اسلامی نقطئہ نظر سے کسی شخصیت کا معیار فقط وفقط تقویٰ ہے ۔ اسلامی معا شرے میں وہی شخص مقام و مرتبہ کا حامل ہے جو اپنی ذمہ داریوں اور وظائف کو خاطر خواہ طور پر انجام دیتا ہے ۔

اسی طرح نہج البلاغہ میں ذکر شدہ حکومت و سیاست سے متعلق امور و اصول معاشرے میں ممکنہ طور پر موجو د مسا ئل کا راہ حل بہی پیش کر تے ہیں ۔ نہج البلاغہ میں حضرت علی (ع) کے ذریعے ما لک اشتر کے لئے صا در شدہ فر مان میں ہر اس قا نو ن کامشا ہدہ کیا جاسکتا ہے جو حکو مت وعو ام کے را بطے کے متعلق ایک انسانی ذہن وضع کر سکتا ہے خواہ یہ قا نون کسی ایک ملک و مملکت سے متعلق ہو یا عالمی برادری کو مد نظر رکہتے ہو ئے بنا یا گیا ہو ۔ ساتہ ہی ساتہ حضرت علی (ع) کے اس فرمان کا خاصہ یہ بہی ہے کہ اس فرمان میں مو جو د ہ نکات اور پہلو ؤں تک ایک عام انسان کا ذہن پہو نچ بہی نہیں سکتا ۔

نہج البلاغہ کا طرئہ امتیا ز یہ ہے کہ اس نے مختلف النوع مضا مین ومطا لب کو اتنے جاذب اسلو ب میں بیان کیا ہے کہ گو یا یہ کتا ب ایک مسلسل مضمون پر مشتمل ہے۔ جہا ں ما وراء الطبیعت مسا ئل کا تذکرہ کیاگیا ہے ،قطعاً ایسا محسوس نہیں ہو تا کہ عقل وقلب ان مسا ئل کے ادراک میں ایک دوسرے کی مخا لف جہت میں جارہے ہوں جبکہ فلسفے کی کتابو ں میں جب ایک فلسفی کسی مسئلے کی تحلیل کرتا ہے تو فقط عقلی نقطہٴ نظر کو مد نظر رکہتے ہوئے ۔ ایک فلسفی کے لئے ممکن ہی نہیں ہے کہ ایک ہی مسئلے کی تحلیل عقل وقلب دونوںاعتبار سے کر سکے ۔ یہی وجہ ہے کہ عقل فطر ی اور عقل عملی (1صطلاحاً جسے ادراک قلبی و وجد انی بہی کہا جاتا ہے ) کو ایک دوسرے سے جدا رکہا جاتا ہے کیونکہ رو ح انسانی میںان دونوں حقیقتو ں کی روش مختلف ہے ۔

نہج البلاغہ کی ایک خا صیت یہ بہی بیان کی گئی ہے کہ جس حد تک انسان وکا ئنا ت کے متعلق حقائق و وا قعات اس کتاب میں ذکر کر دئے گئے ہیں، ان سے بالا تر حقا ئق کا تصو ر بہی نہیں کیا جا سکتا ۔ مثا ل کے طور پر جہا ں زہد وتقویٰ سے متعلق گفتگو کی گئی ہے وہا ں ایسا معلوم ہو تا ہے کہ یہ جملے اس شخص کی زبان سے جاری ہو رہے ہیں جسکی ساری زندگی صرف اور صرف زہد وپا ر سا ئی کے در میان ہی گزری ہے ۔

اسی طرح جن مقا مات پر جنگ اور مقد مات جنگ کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے وہا ں ایسا محسوس ہو تا ہے کہ یہ جملے اس شخص کی زبان سے جاری ہو رہے ہیں جسکی ولا دت میدان جنگ میں ہو ئی ہے اور نہ فقط ولا دت بلکہ اس نے جنگ کے دوران ہی اس دنیا سے کوچ کیا ہے ۔

جہا ں حضرت علی (ع) نے دنیا کی بے ثبا تی اور متضا د صفات کا تذکرہ کیا ہے وہا ں محسوس ہو تا ہے کہ گو یا علی (ع) نے دنیا کی خلقت کے او لین مر حلے ہی سے بشر یت کے ساتہ زندگی گزاری ہے اور دنیا کے خاتمے تک تمام حوادث کا بذات خو د مشا ہدہ کیا ہے

مالک اشتر کو حکو مت و سیاست کے اصول تعلیم فر ماتے ہیں تو ایک عام انسانی ذہن خیا ل کر تا ہے کہ روز اول ہی سے امام (ع)نے اپنی زندگی انہیں امور کو انجا م دینے میں گزاری ہے ۔ آج جب کہ چا رو ں طرف زمانہ میں تمدن وتہذیب کا دور دورا ہے ،نہج البلاغہ میں مذکورہ دستور ات کے تحت معا شرے کو مکمل طور پر مہذب و متمدن بنا یا جاسکتا ہے ۔

جہا ں لطیف تشبیہات وکنا یات کا ذکر فرمایا ہے وہا ں محسوس ہو تا ہے گو یا آپ کی تمام عمر ادب وفنون لطیفہ کے در میان گزری ہے ۔تو حید کے ارفع وا علی مبا حث کے متعلق خطبہ ارشاد فرماتے ہیں تو تمام فلسفی گنگ ہو کر رہ جاتے ہیں ۔

مختصراً یہ کہ جس طرح حضرت علی(ع) کی شخصیت ایسی مختلف اور متضا دصفا ت کی حا مل ہے کہ کسی ایک فرد میں اسکا اجتما ع ممکن نہیں ہے اسی طرح نہج البلاغہ بہی مختلف ومتضا د فردی واجتما عی مسا ئل وا مور کا سمندر اپنے اندر سمو ئے ہو ئے ہے ۔

نہج البلاغہ سے متعلق ایک غور طلب نکتہ یہ بہی ہے کہ بعض سا دہ لو ح حقیقت سے بے خبریا با خبر لیکن خود غرض افرا د یہ سمجہتے ہیں کہ نہج البلاغہ سید رضی (رح) کی تخلیق ہے۔ ہاں! اتنا ضرور ہے کہ حضرت علی (ع) کی زبان سے جاری شدہ بعض الفاظ یا جملے بہی اس میں شامل ہیں ۔اس طرح کے بے بنیا د دعوے ابن خلکان سے شروع ہو ئے اور دوسرے افراد نے اسکی پیر وی کی ہے۔

اولاًسید رضی (رح)کے ذریعے تخلیق کر دہ علم وحکمت ا ور ادب پا رے ہما ری دسترس میں ہیں۔ انکا شعر ی د یو ان بہی کافی مشہور ومعروف ہے ۔ اگر سید رضی(رح) کو درجہٴ اول کے شعراء اور ادباء میں فرض بہی کرلیا جائے تو سید رضی (رح)ماہر اقتصادیات و سماجیات یا حکیم وغیرہ نہیں ہیںیعنی حضرت علی(ع)کے سماجی زندگی اور حکمت سے متعلق عام خطبا ت تک بہی سید رضی (رح)کے ذہن کی رسائی نہیں ہے ۔

ثانیاً موجودہ نہج البلاغہ میں موجود آنحضرت(ع) کے خطب ومکتو بات ، سےد رضی(رح) کی ولا دت سے پہلے ہی سے دوسری کتا بو ں میں بیا ن کئے گئے ہیں ۔ ایسا قطعاًً نہیں ہے کہ نہج البلاغہ سید رضی (رح)کی تخلیق ہے بلکہ فقط تعصب ، خود غر ضی اور جہا لت اس بے بنیاد دعوے کا سبب ہیں۔

ثالثاًکون ہے جس نے حضرت علی(ع) کے زمانے سے لیکر سید رضی بلکہ آج تک اس بلند و بالا فصا حت و بلا غت اور مختلف حقا ئق ومسا ئل کو اس قدر سلیس انداز سے ایک ہی اسلوب میں بیان کیا ہو ؟ ما قبل و ما بعد اسلام عرب میں مو جو د اکثر خطب و مکتو بات تاریخ میں موجو د ہیں اور سینکڑ وں کتابیں اس مو ضو ع پر لکہی گئی ہیں لیکن ایسی ایک کتا ب بہی مشا ہدے میں نہیں آسکی ہے کہ جسکا اسلو ب اور انداز بیان نہج البلاغہ کے در جے تک پہونچ سکے ۔

کس قدر مضحکہ خیز ہے کہ نہج البلاغہ کے مشہور و معروف خطبے” ان الد نیا دار مجاز و الاخرة دار قرار “کو معا ویہ بن ابو سفیان سے منسوب کیا گیا ہے ۔ ”بیان اور تبیین “ میں جا حظ کے بقو ل معا ویہ کے پاس دنیا پر ستی اور حکو مت پرستی کی وجہ سے اتنی فر صت ہی کہا ں تہی کہ ان بلند و بالا مضامین و مطا لب میں اپنا سر کہپا سکتا ۔ اگر ” بیان اور تبیین “ کا مطا لعہ کیا جائے (سید رضی (رح)نے بہی عین عبارت کو نقل کیا ہے ) تو خود بخود وا ضح ہو جا ئیگا کہ معاویہ جیسے شخص کیلئے محال ہے کہ ان عالی مضا مین کے حا مل خطبے کو اپنی زبان سے جا ری کر سکے ۔

رابعاً سید رضی (رح) جیسی بلند شخصیت سے بعید ہے کہ کسی شخص کے کلام کو کسی دوسر ے شخص سے منسوب کرے ۔ بعض مخا لفین اپنے تقلید ی عقائد اور اعتقا دات کو ثابت کر نے کیلئے نہ فقط یہ کہ سید رضی (رح) جیسے عادل شخص کو فا سق اور دروغ گوٹہر اتے ہیں بلکہ حضرت علی (ع) کے وا لد بز ر گو ار جناب ابو طالب (ع) اور جناب ابوذر تک کو بہی کفار کی فہرست میں شامل کر دیتے ہیں ۔ ایسے افراد کیلئے سید رضی(رح) کو دروغ گو قرار دینا قطعاً اہمیت نہیں رکہتا کیونکہ تا ریخ میں بعض حضرات کے نزدیک کسی کو درو غ گو ثابت کر دینا بہی ایک فن ہے ۔

خامساً اگر نہج البلاغہ وا قعی سید رضی(رح) کی تخلیق اور ذہنی کا و شو ں کا نتیجہ ہے تو پہر کیو ں سید رضی (رح)نے اسقدر ان کلمات وجملا ت کو از حد اہمیت دی ہے۔ مثلاًایک خطبے کو نقل کر نے کے بعد سید رضی(رح) تحریر فر ماتے ہیں :” یہ خطبہ گز شتہ صفحات میں بہی نقل کیا جا چکا ہے لیکن روا یات کے اختلاف کی بنا پر یہاں اسکو دوبارہ نقل کیا گیا ہے ۔“ یا ” مذکورہ جملے ، گز شتہ خطبے میں دو سر ے انداز سے نقل کئے گئے تہے لیکن اختلاف کی وجہ سے یہاں دو بارہ نقل کیا جارہا ہے۔ “

نہج البلاغہ کو حضرت علی (ع) سے منسو ب نہ کر نے کی دوا ہم و جو ہات بیان کی گئی ہیں :

(1) ۔ طر فدا ران حضرت علی (ع) آپ کی بر تر ی ثابت کر نے کیلئے نہج البلاغہ کو بطور مثا ل پیش کر تے ہیں اورنتیجتاً کہتے ہیں :” اگر دوسرے افراد بہی حضرت علی (ع) ہی کی طرح بلند مقا مات و منا صب کے حامل تہے تو نہج البلاغہ کا کم از کم ایک تہائی یا چو تہا ئی حصہ ہی ان سے نقل کیا گیا ہو تا ۔ دوسرے الفاظ میں علی (ع) کے پا س نہج البلاغہ جیسا شا ہکا ر ہے، دوسرو ں کے پاس کیا ہے ؟“

(2) ۔ حضرت علی (ع) نے نہج البلاغہ میں اکثر مقا مات پر گز شتہ افرا د کے متعلق اپنی نا را ضگی اور عدم رضا یت وا ضح طور پر بیان کی ہے اور یہیں سے وا ضح ہو جا تا ہے کہ حضرت(ع) کے بارے میںرسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی فر ما ئشا ت کو ز مانے نے فرا موش کر دیا تہا ۔

نہج البلاغہ حضرت علی (ع) سے صا در ہو ئی ہے ، اس کے لئے عمدہ تر ین اور بہترین دلیل یہی ہے کہ تا حال نہیں سنا گیا ہے بلکہ غیر ممکن ہے کہ کو ئی دعو ی کر ے کہ نہج البلاغہ کا کوئی بہی خطبہ یا مکتو ب امیر المو منین (ع) سے صا در نہیں ہواہے کیو نکہ تمام شیعہ وسنی محدثین ومو رخین اس پر متفق ہیں کہ نہج البلاغہ کا کم از کم کچہ حصہ تو حتمی اور یقینی طور پر حضرت علی (ع) سے صا در ہو اہے اور اگر کو ئی شخص محد ثین و مور خین کے اس اتفاق کی تصدیق کردے ( اس بات سے انکار فقط اسی صورت میں کیا جاسکتا ہے جب اسلامی اصول وا حا دیث کو طا ق پر اٹہا کر رکہ دیاجا ئے ) تو اسکو لا محا لہ یہ اقرار کر نا پڑے گا کہ نہج البلاغہ از اول تا آخر حضرت علی (ع) سے صا در ہو ئی ہے کیو نکہ عربی ادبیا ت سے ذرہ برابر آشنا ئی اور واقفیت ر کہنے وا لا شخص بغیر کسی شک وتر دید کے کہہ دیگا کہ نہج البلاغہ فقط ایک اسلو ب اور سبک پر محیط ہے اور ایک ہی شخص سے صا در ہو ئی ہے۔

اگر خور شید کو بہی اپنی نور افشا نی کی تصدیق کیلئے دو سرے خود غرض افراد کی ضرورت ہو تی تو نہ جا نے کب کا اس کا ئنات کو الو داع کہہ چکا ہوتا اور کسی مجہو ل ومبہم گو شے میں پو شیدہ ہو کر رہ گیا ہو تا

نہج البلاغہ میں عبادت کی اقسام:

امام علی علیہ السلام نہج البلاغہ کے اندر عبادت کرنے والوں کی تین اقسام بیان فرماتے ہیں۔

”اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللہَ رَغْبَۃً فَتِلْکَ عِبَادَۃُ التُّجَّارِ وَ اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللہَ رَہْبَۃً فَتِلْکَ عِبَادَةُ الْعَبِیْدِ، وَ اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللہَ شُکْراً فَتِلْکَ عِبَادَةُ الاٴحْرَارِ“۔[1]

”کچہ لوگ خدا کی عبادت کے انعام کے لالچ میں کرتے ہیں یہ تاجروں کی عبادت ہے اور کچہ لوگ خدا کی عبادت خوف کی وجہ سے کرتے ہیں یہ غلاموں کی عبادت ہے اور کچہ لوگ خدا کی عبادت خدا کا شکر بجالانے کی کے لئے کرتے ہیں یہ آزاد اور زندہ دل لوگوں کی عبادت ہے“۔

اس فرمان میں امام علیہ السلام نے عبادت کو تین قسموں میں تقسیم کیا ہے۔

پہلی قسم :تاجروں کی عبادت

فرمایا: ”اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللہَ رَغْبَۃً فَتِلْکَ عِبَادَةُ التُّجَّارِ ۔۔۔“

یعنی کچہ لوگ رغبت اور انعام کے لالچ میں خُدا کی عبادت کرتے ہیں۔ امام فرماتے ہیں یہ حقیقی عبادت نہیں ہے بلکہ یہ تاجر لوگوں کی طرح خدا سے معاملہ کرنا چاہتا ہے۔ جیسے تاجر حضرات کا ہم و غم فقط نفع اور انعام ہوتا ہے۔ کسی کی اہمیت اُس کی نظر میں نہیں ہوتی۔ اسی طرح یہ عابد جو اس نیت سے خدا کے سامنے جہکتا ہے در اصل خدا کی عظمت کا اقرار نہیں کرتا بلکہ فقط اپنے انعام کے پیش نظر جہک رہا ہوتا ہے۔

دوسری قسم :غلاموں کی عبادت

”وَ اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللہَ رَہْبَۃً فَتِلْکَ عِبَادَةُ الْعَبِیْدِ“۔

امام فرماتے ہیں کچہ لوگ خدا کے خوف سے اس کی بندگی کرتے ہیں یہ بہی حقیقی عبادت نہیں ہے بلکہ غلاموں کی عبادت ہے جیسے ایک غلام مجبوراً اپنے مالک کی اطاعت کرتا ہے۔ اُس کی عظمت اس کی نظر میں نہیں ہوتی۔ یہ عابد بہی گویا خدا کی عظمت کا معترف نہیں ہے بلکہ مجبوراً خدا کے سامنے جہک رہا ہے۔

تیسری قسم :حقیقی عبادت :

”وَ اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللہَ شُکْراً فَتِلْکَ عِبَادَةُ الاٴحْرَارِ“۔

امام فرماتے ہیں کہ کچہ لوگ ایسے ہیں جو خدا کی عبادت اور بندگی اُس کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے کے لئے بجالاتے ہیں۔ فرمایا : یہ حقیقی عبادت ہے۔ چونکہ یہاں پر عبادت کرنے والا اپنے منعم حقیقی کو پہچان کر اور اُس کی عظمت کا معترف ہوکر اُس کے سامنے جہک جاتا ہے۔ جیسا کے کوئی عطیہ اور نعمت دینے والا واجب الاکرام سمجہا جاتا ہے۔ اور تمام دنیا کے عاقل انسان اُس کی عظمت کو تسلیم کرتے ہیں۔ اسی عقلی قانون کی بناپر امام علیہ السلام فرماتے ہیں جو شخص اُس منعم حقیقی کو پہچان کر اُس کے سامنے جہک جائے۔ اسی کو عابد حقیقی کہا جائے گا۔ اور یہ عبادت کی اٴعلیٰ قسم ہے۔

عبادة کے آثار میں سے ایک اہم اٴثریہ ہے کہ عبادت دل کو نورانیت اور صفا عطا کرتی ہے۔ اور دل کو تجلیات خدا کا محور بنا دیتی ہے۔ امام علی(ع) اس اثر کے بارے میں فرماتے ہیں :

”إنَ اللہَ تَعَالیٰ جَعَلَ الذِّکْرَ جَلَاءً لِلْقُلُوْبِ“۔(2)

امام علی(ع) فرماتے ہیں کہ ”خدا نے ذکر یعنی عبادت کو دلوں کی روشنی قرار دیا ہے۔ بہرے دل اسی روشنی سے قوة سماعت اور سننے کی قوة حاصل کرتے ہیں اور نابینا دل بینا ہوجاتے ہیں“

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] نہج البلاغہ، حکمت ۲۳۷۔

[2] نہج البلاغہ، خطبہ ۲۲۲۔

۔۔۔۔۔۔۔

دنیا نہج البلاغہ کے آئینہ میں

کوئی بھی شے بذات خود نہ اچھی ہے نہ بری ۔ مگر عواقب و نتائج کے ساتھ، نیک فرجام ہے تو محبوب، بد انجام ہے تو مذموم، نہج البلاغہ میں بھی دنیا کو اسی زاویہ نظر سے دیکھا گیا ہے اور اسی میزان پر تولا گیا ہے، کہیں مذمت تو کہیں مدحت کہیں منقبت تو کہیں منقصت کہیں ضلالت کا مرکز بتایا گیا تو کہیں ہدایت کا محور، کہیں شقاوت ابدی سے تفسیر کی گئی تو کہیں سعادت دائمی سے تعبیر کی گئی کہیں باد سموم کہا گیا تو کہیں باد صبا، یہ ظاہری تضاد عقواقب و نتائج کا ماحصل ہے ۔

اعتراض اور اس کا جواب
ممکن ہے کوئی اعتراض کرے کہ یہ صحیح ہے کہ نھج البلاغہ میں دنیا کی تعریف بھی ہے تذلیل بھی ہے توصیف بھی ہے تحقیر بھی ہے، مگر مذمت با کثرت ہے اور مدحت بقلت بلکہ بندرت، تو اس کا جواب یہی ہے کہ دنیا کی رعنائیوں، نعمتوں اور لذتوں کے طوفان میں پھنس کر ہلاک ہوجانے والے بہت ہیں مگر دنیا کی مادیات تک محدود نہ رہ کر دنیا کی عبرتوں کو صاف و شفاف آئینہ تمام نمابنا کر اپنے کردار کی صحیح تصویر دیکھنے والے اور تصویر دیکھ کے اس میں موجودنقائص و معائب کو برطرف کرکے یعنی انسان کا مل بن کے باکمال اشتیاق، لقاء رب کا انتظار کرنے والے بہت کم ہیں، بالفظ دیگر دنیا کی وسعتوں میں گم ہوجانے والے بہت ہیں مگر دنیا کو اس کی تمام تر پہنائیوں کے ساتھ اپنے وجود میں ضم کرلینے والے بہت کم ہیں ۔ \" قلیل من عبادی الشکور \" (سورہ سبا 13)
ہمارے شکر گذار بندے بہت کم ہیں ۔
سوال: آخر کیا سبب ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) اور دوسرے ائمہ (ع) کی بنسبت حضرت علی (ع) کے کلام میں دنیا کی مذمت زیادہ بیان کی گئی ہے ؟۔
جواب: حضرت علی (ع) کے زمانے میں یعنی خلفاء کے ادوار میں بالخصوص خلیفہ سوم کے دور میں فتوحات اور ان میں ملنے والے غنائم کی بناء پر دنیا پرستی کے حوالے سے امت مسلمہ کو بڑا عظیم خطرہ لاحق تھا، غرباء و فقراء پر ہونے والے مظالم، تقسیم غنائم اور حقوق کی ادائیگی میں عدم مساوات کے سبب اسلامی معاشرہ سخت حیران و پریشان تھا، گریاں و نالاں تھا، انگشت بدنداں تھا، چنانچہ آپ (ع) اس وحشت ناک ماحول کی منظر کشی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
تم ایسے زمانہ میں زندگی گزار رہے جس میں نیکی مسلسل منہ پھیرکر جارہی ہے اور برائی برابر سامنے آرہی ہے، شیطان کی سازشیں عام ہوچکی ہیں اور اس کا شکار اس کے قابومیں ہے، تم جدھر چاہو نظر اٹھاکے دیکھ لو سوائے اس فقیر کے جو فقرکی مصیبتیں جھیل رہا ہے اور اس امیر کے جس نے نعمت خدا کی ناشکری کی اور اس سرکش کے جس کے کان نصیحتوں کے لئے بہرہ ہوگئے ہیں اور کچھ نظر نہیں آئے گا ۔ (نھج البلاغہ خطبہ 129)
لہذا وقت کی نزاکت کو مدنظر رکھتے ہوئے حضرت علی (ع) نے نسبتاً دنیا کی زیادہ مذمت فرمائی تاکہ دنیا کی لذتوں کے جان لیوا سمندر میں ڈوبنے والوں کو بچا سکیں اور ساحل نجات تک پہونچا سکیں،
اور محرومیت کی بنا پر یاس و نا امیدی کےگھٹا ٹوپ اندھیروں میں مضطرب انسانوں کو نور امید میں لاسکیں ۔ مذکورہ تمہید کے پیش نظر اس مقالے میں اپنی جہالت و نادانی کی تاریکی میں نھج البلاغہ کی روشنی کو سہارا بنا کر دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں ۔
(1) دنیائے مذموم
(2) دنیائے ممدوح

دنیائے مذموم
اس دنیا میں اگر انسان کا ہدف ماکولات و مشروبات تک محدودرہ جائے تو لاریب یہ انسان جانوروں کے مانند ہے بلکہ \" بل ھم اضل \" کی پھٹکارا اس کے گلے کا طوق گرانبار ہے چوں کہ ایسا انسان درحقیقت اپنی فطرت و جبلت کے برخلاف برسر پیکار ہے ۔ حضرت علی (ع) فرماتے ہیں (میں اس لئے نہیں پیدا کیا گیا ہوں کہ مجھے لذیذ غذائیں اپنی طرف مائل کرلیں اور میں جانوروں کے مانند ہوجاؤں کہ وہ بندھے ہوتے ہیں تو ان کا کل مقصد چارہ ہوتا ہے اور آزاد ہوتے ہیں توکل مشغلہ ادھر ادھر چرنا ہوتا ہے) (نھج البلاغہ مکتوب 45)
یقیناً اگر انسان اس عالم رنگ وبو کے کیف و نشاط میں اپنا مقصد حیات بھول جائے تو یہ اس کی کرامت کےخلاف ہے اسی لئے ہمیں حکم دیا گیا ہے \" اکرم نفسک عن کل د نیئة \" اپنی نفس کو ہر طرح کی پستی سے محفوظ رکھو (مکتوب 31) ہر وہ شے جو انسان کو گم کردے اس میں جمود پیدا کردے راہ صعود میں حائل ہوجائے وہ مذموم ہے ۔

مذمت دنیا کے اسباب
فناء اور عدم بقاء نھج البلاغہ میں بلیغ تشبیہات، لطیف کنایات، ظریف اشارات، بے نظیر استعارات اور موثر امثال و حکایت کے قالب میں باربار دنیا کی بے ثباتی اور ناپائیداری کو بیان کیا گیا ہے اور اس سے دل بستگی سے روکا گیا ہے یہ دل بستگی دنیا میں موجب خستگی ہے اور آخرت میں ہاعث ندامت و شرمندگی ۔
یہ دنیا حائلة زائلة بدل جانے والی ہے، فنا ہوجانے والی ہے \" نافدة بائدة \" زوال پذیر ہے اور ہلاک سے قریب ہے ۔ \" لاتدوم جرتھا \" اس کی خوشی دائمی نہیں کوئی بھی شخص اس کی خوشی کو نہیں دیکھتا مگر یہ کہ مصبیت میں ڈال کر روگرداں ہوجاتی ہے ۔(خطبہ 111)
یہاں کی زندگی میں ایک دن کا اضافہ بھی نہیں ہوتا جب تک ایک دن کم نہ ہوجائے، غذامیں زیادتی پہلے رزق کے خاتمہ کے بعد ہوتی ہے ۔ (خطبہ 145) ہم بقاء کی امید بھلا کیسے کر سکتے ہیں جب کہ روز و شب کسی عمارت کو بلند نہیں کرتے مگر یہ کہ اسے منہدم کردیتے ہیں اور جیسے بھی یکجا کرتے ہیں اسے منتشر کردیتے ہیں ۔ (حکمت 191)
لہذا حضرت علی (ع) فرماتے: \" مالعلی ولنعیم ٍ یفنی ولذةٍ تبقی \" علی (ع) کو ان نعمتوں سےکیا سے سروکار جوفانی ہیں، ان لذتوں سے کیا واسطہ جو غیر باقی ہیں (خطبہ 224) بلاشبہ ایسی دنیا سے وابستگی حماقت و سفاہت ہے، ایسی دنیا سے فلاح ونجات کی امید کرنا احمقوں کی جنت بسانے کے مترادف ہے ۔

فکری انحرافات اور اس کا ازالہ
حب دنیا و دگذرہے اس کے روزو شب کا کوئی بھروسہ نہیں آتی ہے تو باکمال ناز برداری، جاتی ہے تو باکمال غمگساری لہذا راحت وعیش و عشرت کے سنہرے موقع کو ہاتھسے جانے نہ دیا جائے بلکہ بھر پور اور حتی المقدور ہوس انسانی کی تشنگی بجھاتی جائے ۔
واضح ہے کہ یہ خیال خام، یہ وہم و گماں انھیں افراد سے مخصوص ہے جو آخرت سے یکسرے غافل ہیں اور اس ہوس رانی کے انجام سے جاہل ہیں ۔ ورنہ اس نکتے کی طرف متوجہ ہوجاتے تو مار گذیدہ کی طرح تڑپنے کو حریرو دیباح کے نرم و نازک بستروں پر آرام کرنے سے زیادہ پسند کرتے اور مفلس پر آرام کرنے سے زیادہ پسند کرتے اور مفلس ترین زندگی گذارنے کو مرفہ حالی اور مال و دولت کی فراوانی پر ترجیح دیتے، یہ تھی دنیا کی ناپائیداری سے متعلق نھج البلاغہ میں بیان شدہ تعبیرات کی ایک ہلکی سی جھلک ۔

مذمت دنیا کا دوسرا سبب
دنیا کی محبت آخرت سے غفلت کا باعث ہے \" حب الشئی یعمی و یصم \" محبت انسان کو اندھا اور بہرا بتادیتی ہے جب انسان دنیا کا فریفتہ ہوجاتا ہے تو دنیا کے سارے عیوب و نقائص اس کی نگاہوں میں محاسن و محامد دکھائی دینے لگتے ہیں اور یہ وسیع النظر اور افضل مخلوق انسان دنیا کی چند روزہ لذتوں اور نعمتوں کا ایسا گرویدہ ہوجاتا ہے کہ آخرت اس کی نظر میں نسیاً منسیاً بلکہ \" کان لم یکن شیئاً مذکورا \" ہوجاتی ہے یعنی آخرت سے بالکل غفلت زدہ ہوجاتا ہے اور یہ غفلت اس حد تک پہونچ جاتی ہے کہ اسیر دنیا، آخرت کو دنیا طلبی کا ذریعہ بنالینا بھی معیوب نہیں سمجھتا \" عامل فی الدنیا للدنیا قد شغلتہ دنیاہ عن آخرتہ \" کچھ افراد ایسے بھی ہیں جو دنیا میں خود دنیا کے لئے کام کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں دنیا نے انھیں آخرت سے غافل بنادیا ہے، \" حکمت 269 نھج البلاغہ) ۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔\" ولبئس المتجران تری الدنیا النفسک ثمناً و ممالک عند اللہ عوضاً \" وہ تجارت کتنی زیان بار ہے جس کے نتیجہ میں انسان جسے اللہ نے آزاد پیدا کیا ہے دنیا کا غلام بن جائے اور حطام دنیا (سڑک ہرئے بھوسہ) کے عوض آخرت کا سودہ کربیٹھے (نھج البلاغہ 32)
خطبہ شقشقیہ کے آخر میں خلافت کے سلسلے میں آپ پر ظلم کرنے والے ظالموں کے ظلم کا سبب بیان کرتے ہوئے فرماتے: (بعد رسول وہ ایسے ہوگئے جیسے انہوں نے خدا کا یہ ارشاد سناہی نہیں (یہ دار آخرت تنہا ان لوگوں سے مخصوص ہے جو روئے زمین پر فساد اور بلندی کے خواہاں نہیں ہیں) ہاں ہاں ! خدا کی قسم ان لوگوں نے یہ ارشاد سنا بھی ہے اور سمجھے بھی ہیں لیکن دنیا ان کی نگاہوں میں آراستہ ہوگئی، اس کی چمک دمک نے انھیں لبھا لیا اور نتیجہ میں یہ آخرت سے غافل ہوگئے) ۔ (خطبہ 3)

انبیاء الہی اور دنیائے فانی
نھج البلاغہ میں مختلف مقامات پر دنیا سے متعلق انبیاء و مرسلین (ع) کی سیرے کا تذکرہ موجود ہے ۔

سیرت جناب داؤد علیہ السلام:
حکومت و سلطنت کے باوجود زہد کا عالم یہ تھا کہ اپنے دست مبارک سے کھجور کے پتے توڑتے اور انھیں ٹوکریاں بنایا کرتے تھے اور پھر انھیں فروخت کرکے جو کی روٹیاں کھا لیا کرتے تھے ۔ (خطبہ 160)

سیرت جناب موسی علیہ السلام:
\" کان یاکل بقلة الارض \" دنیا کی ساری مرغوب غذاؤں کو چھوڑ کر زمین سے اگنے والی سبزیاں نوش فرماتے تھے اور چونکہ انتہائی لاغر ہوگئے تھے لہذا ان کے شکم مبارک کی نازک کھال سے سبزی کا رنگ صاف نظر آیا کرتا تھا ۔

سیرت جناب عیسی علیہ السلام:
\" لقد کان یتوسد الحجر \" پتھر ان کا تکیہ تھا کھردرا ان کا کرتہ تھا، ان کی غذا میں سالن کی جگہ گرسنگی تھی، رات میں چراغ کے عوض چاند کی روشنی تھی، ان کے قدم ان کے راہوار تھے اور ان کے ہاتھ ان کے خدمت گذار تھے ۔ (خطبہ 160)

سیرت حبیب خدا حضرت محمد مصطفی (ص) :
وہ رسول جو دونوں جہاں کے سید و سردار تھے \" لولاک لماخلقت الافلاک \" کے مصداق تھے ۔ ان کے ترک دنیا کا عالم یہ تھا کہ \" یٲکل علی الارض \" کھانا زمین پر بیٹھ کے کھاتے تھے، نشست وبرخاست کا انداز غلامانہ تھا اپنے ہاتھوں سے جوتیوں کاٹا کنااور کپڑوں پر پیوند لگانا آپ کا شیوہ تھا، دنیا کی زیب و زینت سے اس درجہ متنفر تھے کہ درخانہ پر ایسا پردہ دیکھ کر جس پر تصویر بنی ہوئی تھی برافروختہ ہوگئے اور ایک زوجہ سے فرمایا: خبردار ! اسے ہٹاؤ میں اس کو دیکھوں گا تو دنیا اور اس کی آرائش یاد آئیگی ۔ (خطبہ 160)

دنیائے دنی اور حضرت علی علیہ اسلام
آپ کے فرمودات \" مثل الدنیا کمثل الحیة \" دنیا کی مثال سانپ جیسی ہے جو چھونے میں انتہائی نازک ہوتا ہے مگر اس کے منھ میں زہر ہلاہل ہوتا ہے ۔ \" (حکمت 119)
واللہ تمہاری دنیا میری نظر میں سور کی اس اوجھڑی سے بھی زیادہ پست ہے جو کسی مجذوم (کوڑھی) کے ہاتھوں میں ہو ۔ (حکمت 236)
قسم بخدا تمہاری یہ دنیا میری نظر میں بکری کی اس ناک سے نکلنے والی رطوبت سے بھی زیادہ حقیر ہے ۔ (خطبہ 3 شقشقیہ)

آپ کا کردار
آگاہ ہوجاؤ تمہارا امام وہ ہے جو اس دنیا میں صرف اور صرف دو بوسیدہ کپڑوں اور روٹیوں پر گذارا کرتا ہے ۔
(مکتوب 45) \" یا دنیا یا دنیا الیک عنی \" محراب عبادت میں شب کی تاریکی میں، ریش مبارک ہاتھ میں پکڑ کے، مار گذیدہ کی طرح پرپتے ہوئے زاروقطار گریہ وزاری کے عالم میں فرمایا: اے دنیا ! اے دنیا جامجھ سے دور ہوجا، تو میرے سامنے بن سنور کے آتی ہے یا واقعاً مشتاق بن کےآتی ہے ؟ جامیرے علاوہ کسی اور کو دھوکہ دے، ارے میں تو تجھے تین بار طلاق دے چکا ہوں جس کے بعد رجوع کا کوئی امکان نہیں اب یہاں کیا کررہی ہے ۔ (حکمت 77)

ہم بھی زاہد بنیں
یہ ہے انبیاء و مرسلین اور امیر المومنین علیہ السلام کا زہد، ہمیں بھی بار بار نھج البلاغہ میں زہد اور دنیا سے دوری کا حکم دیا گیا ہے (اپنے قلب کو حیات عطا کرو موعظہ کے ذریعہ اور نفس امارہ کو مات دے دو زہد و ریاضت کے ذریعہ) (مکتوب 31)
اے لوگو! دنیا میں زاہدانہ روش اختیار کرو ۔ (خطبہ 103) کہ زاہدانہ اصول زندگی اسی میں ہے روح کی تازگی، فکر کی بالیدگی، قلب کی آسودگی اور یہی ہے کمال بندگی ۔

حقیقت زہد
زہادت کی وادی میں قدم رکھنے سے پہلے زہد سے آشنائی بہت ضروری ہے ورنہ خطرہ ضلالت و گمراہی ہے ۔ نھج البلاغہ میں دو مقامات پر زہد کی تعریف بیان کی گئی ہے \" ایھا الناس الرھادة قصر الامل \" اے لوگو! زہد لمبی لمبی آرزوؤں کے کم کرنے، نعمتوں کا شکر یہ ادا کرنے اور محرمات سے پرہیز کرنے کا نام ہے ۔ (خطبہ 81)
تمام زہد قرآن حکیم کے دو فقروں کے اندر سمٹا ہوا ہے (جو چیز ہاتھ سے نکل جائے اس پر افسوس نہ کرو اور جو چیز مل جائے اس پر مغرور نہ ہوجاؤ لہذا جو شخص ہاتھا سے نکل جانے والی نعمتوں پر افسوس نہ کرے اور مل جانے والی نعمتوں پر فخر و مباہات نہ کرے وہ بامعنی حقیقی زاہد ہے) (حکمت 439)
مقصد یہ ہے کہ دنیا کی نعمتوں کے ملنے پر نہ اتنا مسرور ہوجائے کہ پھولے نہ سمائے جس کا لازمہ ہے غرور تکبر، اور نہ ہی دنیا کی نعمتوں کے زائل ہوجانے پر اتنا محزون ہوجائے کہ پورے بدن میں حیات بن کے دوڑنے والا خون منجمد ہوجائے کہ یہ یاس وناامیدی ہے یعنی ۔ ۔ ۔ ۔ دنیا کی نعمتوں کا وجود ہو یا عدم، نہ باعث فرحت و سرور نہ موجب ھم وغم، یہی ہے تقوی الہی کا شباب، یہی ہے زہد کا لب لباب ۔

زہد اور رہبانیت کا فرق
یہیں سے زہد اور رہبانیت کا فرق بھی واضح ہوجاتا ہے ۔ رہبانیت دنیا کی لذتوں اور نعمتوں کانہ ہونا زہد یعنی جائز اور پاکیزہ لذتوں اور نعمتوں کا ہونامگررہنے یا چلی جانے پر نہ ہنسنا، نہ رونا ۔ زاہد اور راہب دونوں دنیا پرستی سے پرہیز کرتے ہیں مگر فرق، زاہد یہ عظیم الشان معرکہ سماج میں رہ کے سر کرتا ہے اور راہب معاشرے سے گریزاں ہوکے پہاڑوں اور بیابانوں کے دامن میں پناہ لے کے اس میدان میں قدم رکھتا ہے ۔
زاہد صحت و سلامتی ۔ نظافت و پاکیزگی اور ایک عیال کے ساتھ زندگی گذارنے کو اپنے فرائض کا جزء لاینفک سمجھا ہے جب کہ راہب ان انسانی اقدار کو خیر باد کہہ دینا اپنی زندگی کا جز آعظم تصور کرتا ہے دونوں طالب آخرت ہیں مگر زاہد کے دل میں شوق آخرت کے ساتھ سماج کی محبت ہوتی ہے جب کہ راہب معاشرے سے متنفر نظر آتا ہے ۔

دنیائے ممدوح
کیا دنیا اور آخرت میں تضاد ہے ؟
زاہد اور راہب کے درمیان اختلاف کا بنیادی سبب دونوں کا طرز تفکر ہے، راہب کی نظر میں دنیا و آخرت دو متضاد عوالم ہیں لہذا اجتماع نا ممکن ہے لیکن زاہد کی نظر میں صرف یہی نہیں کہ دنیا اور آخرت کے درمیان تضاد نہیں بلکہ ان دونوں کے درمیان بہت گہرا ارتباط ہے جو ناقابل انفکاک ہے، دنیا آخرت تک پہونچنے کا وسیلہ دنیا و آخرت کی کھیتی ہے ۔ نھج البلاغہ حکمت 103 میں امام علی (ع) نے فرمایا: (دنیا آخرت مشرق و مغرب کے مانند ہیں کہ ایک سے نزدیکی دوسرے سے دوری کا سبب ہے) یہ صحیح اور بالکل صحیح ہے مگر جناب امیر المومنین (ع) اس میں بتانا یہ چاہتے ہیں کہ اگر دنیا اور آخرت دونوں مقصد قرار پا جائیں تو مشرق و مغرب کے مانند ہیں، اک دوسرے کی موت اور دشمن ہیں ورنہ دنیا وے بہرہ مندی آخرت سے محرومی کا سبب نہیں \" قل من حرم زینة اللہ التی اخرج لعبادہ \" اے رسول کہہ دیجیئے آخروہ کون ہے جس نے دنیا کی پاکیزگی اور طیب و طاہر لذتوں کو مومنین پر حرام قرار دیا ۔ (سورہ اعراف 32)
ممکن ہے ایک شخص کے پاس دنیا کی ساری نعمتیں موجود ہوں مگر وہ زاہد ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ اک شخص کے پاس کچھ بھی نہ ہو مگر وہ فاسق و فاجر ہو، دنیا برائے دنیا مذموم ہے مگر دنیابرائے آخرت ممدوح ہے و \" عامل فی الدنیا لما بعدھا \" کچھ ایسے بھی صاحبان عقل و خرد ہیں جو عمل دنیا میں کرتے ہیں مگر نتیجہ کی امید آخرت میں رکھتے ہیں ۔ (نھج البلاغہ حکمت 269)
ایسے افراد کے لئے دنیا باعث شقاوت نہیں بلکہ عین سعادت ہے ۔ اس دنیا میں زندگی گذارنے کا مقصد اگر بلند ہو تو اسی دنیا میں رہ کے یہ ذرہ ناچیز کمال خورشید ازلی سے متصل ہوسکتا ہے یہ قطرہ حقیر بحر بیکراں رحمت الہی سے منسلک ہوسکتا ہے ۔
کمتر از ذرہ ای پست مشومھر بورز
تابخلوت گہ خورشید رسی چرخ زنان (مولانا رومی)

بلندی کی جوخواہش کی قرین عرش جاپہونچا
ہوا جب مائل پستی تہہ تحت الثری آیا (ناطق آعظمی)

انسان میں برائی ہے یا دنیا میں
حضرت علی علیہ السلام نے ایک شخص کو دنیا کی مذمت کرتے ہوئے سنا تو فرمایا: (اے دنیا کی مذمت کرنے والے سچ بتا تجھے اس پر الزام لگانے کا حق ہے یا اسے تجھ پہ الزام لگانے کا حق ہے، آخر اس نے کب تجھ سے تیری عقل کو چھینا تھا اور تجھے دھوکہ دیا تھا کیا کہنگی کی بنا پر تیرے آباء اجداد کی ہلاکت سے دھوکہ دیا، یا تیری ماؤں کے زیر خاک سوجانے سے دھوکہ دیا، یاد رکھ دنیا صادق کی سچائی کا گھر ہے اور صاحب فہم کے لئے امن و امان رہ گذرہے، نصیحت حاصل کرنے والوں کے لئے واعظ ہے، اولیاء خدا کی قیام گاہ ہے، فرشتوں کی سجدہ گاہ ہے خدا کے دوستوں کی جائے تجارت ہے اور وحی الہی کی محبط ہے (حکمت 131)
خطبہ نمبر 223 میں فرماتے ہیں: اگر تونے اسے زمیں بوس مکانوں اور غیر آباد منزلوں میں پہچان لیا ہوتا تو دیکھتا کہ یہ اپنی بلیغ ترین نصیحت اور یاد دہانی میں تجھ پر کس قدر مہربان ہے ۔ \" و لنعم دار من لم یرض بھا داراً \" جو اسے آباد کرنے پر راضی نہ ہو اس کے واسطے بہترین گھر ہے جو ہر طرح کے فسادوں سے بے خوف وخطر ۔ (خطبہ 223)
مذکورہ ارشادات و فرمودات کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ دنیا بری نہیں ہے جو ہم اسے چھوڑدیں زہد کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ اس کی پاکیزہ لذتوں سے استعفادہ نہ کیا جائے البتہ پاک و پاکیزہ لذتوں اور نعمتوں سے استعفادہ کرنے سے پہلے اپنے نفس کو پاک و پاکیزہ بنالیا جائے ۔ قرآن مجید ،نھج البلاغہ اور دیگر آیات و احادیث کے منابع میں اجتماعی اقتصادی و سیاسی مسائل کا کثرت سے بیان ہونا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اسلام انسان کو دنیاوی زندگی سے بیزار نہیں کرنا چاہتا بلکہ حقیقی معنوں میں لذت زندگی سے آشنا کرانا چاہتا ہے لیکن اس مقام پر سوال پیداہوتا ہے کہ اگر زہد کا حقیقی مفہوم یہی ہے جو ابھی تک بیان کیا گیا ہے تو اولیاء خدا اور ائمہ طاہرین (ع) جن کے ذریعہ یہ مفاہیم ہم تک پہونچے خود انھوں نے ہی زہد کے اس مفہوم کو چھوڑ کر حتی الامکان دنیا کی جائز لذتوں اور نعمتوں سے کیوں پرہیز کیا ؟

انبیاء مرسلین و ائمہ طاہرین (ع) اور بہت سے علماء عاملین کے ترک لذات کا فلسفہ
عنوام الناس کی حیثیت الگ ہے اور ان کے امراء کی حیثیت الگ ہے ان کے زہد اور ہمارے زہد کی نوعیت مختلف ہے ہمیں بہت سختی سے ان کے جیسے زہد اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے چنانچہ حضرت علی (ع) نے عاصم ابن زیاد جو آپ کی پیروی کرنے کی غرض سے تارک دنیا ہوگئے تھے ان کی توبیخ کرتے ہوئے فرمایا \" یا عدونفسہ \" اے دشمن جان ! تو اپنے اہل وعیال پر کیوں نہیں رحم کرتا ؟ کیا تیرا خیال یہ ہے کہ خدا نے پاکیزہ چیزوں کو حلال تو کردیا مگر ان کے استعمال کو ناپسند کرتا ہے عاصم نے عرض کی: یا امیرا المومنین (ع) آپ بھی تو کھر درے لباس اور معمولی غذاپر گذارا کرتے ہیں ؟ فرمایا: تم پر حیف ہے کہ تم نے میر اقیاس اپنے اوپر کرلیا جب کہ حکم الہی ہےکہ ائمہ حق اپنی زندگی کا پیمانہ کمزور ترین افراد کو قرارکو قرار دیں تاکہ فقیر اپنے فقر کی بناء پر کسی پیچ وتاب کا شکار نہ ہو ۔ (خطبہ 209)
مکتوبہ نمبر 45 میں اپنے زہد کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرمایا: ممکن ہے حجاز یا یمامہ میں کچھ ایسے نادار افراد بھی ہوں جن کے پاس ایک روٹی کا بندوبست بھی نہ ہو کیا میں اس بات سے مطمئن ہوسکتا ہوں کہ مجھے امیرالمومنین کہا جائے اور زمانے کے ناخوش گوار حالات میں مومنین کا شریک حال نہ ہوں ۔
یہ ہے ہمارے ائمہ (ع) کی انتہائی سادہ زیستی ۔۔ ۔ ۔ ۔اور ترک لذت کا فلسفہ جس میں مومنین کی اقتصادی حالت کے بدلنے سے تبدیلی کا امکان موجود ہے ۔

اس کردار سے ملنے والا درس
اسلام حکومت وریاست کا مقصد سیر وسیاست اور عیش و عشرت نہیں ہے جیسا کہ آج ہورہا ہے ہرگز نہیں ۔ اسلام میں عہدہ و منصب کا ہدف اپنی اور دنیاوی امور میں عوام الناس کی خدمت و نصرت ہے ۔ اسلام اقتدار کا مطلب نام نہیں کام ہے ۔

خلاصہ
واضح رہے کہ حضرت علی (ع) نے جہاں کہیں بھی دنیا کی مذمت کی ہے تو اس مذمت کے ذریعہ دنیا کی منزلت گھٹائی نہیں ہے بلکہ انسانیت کی عظمت بڑھائی ہے دنیا اچھی سے اچھی شے اگر دنیا برائے آخرت ہو اور یہی دنیابری شے اگر دنیا برائے دنیا ہو ۔ ہمارے ائمہ (ع) نے عوام کے منافع اور مصالح کی خاطر ہمیشہ زاہدانہ زندگی گذاری مگر عین اپنے جیسا زہد اختیار کرنے کی اجازت نہیں دی کہ ہم اس پر قادر نہیں ہیں \" الا وانکم لا تقدروں علی ذالک ولکن اعینونی بورع و اجتہاد و عفة و سداد \" (مکتوب 45) کے ذریعہ ہمیں بھی جہاں تک ہوسکے ورع و زہد، اور سعی و کوشش کا حکم ضروردیا ہے اسلامی زہد کا مفہوم بس یہ ہے کہ انسان آزاد ہے دنیا اور ان کی لذتوں کا اسیر نہ ہوجائے کہ اسارت حقارت ہے، اور حریت کمال انسانیت ہے ۔

عقیدت کا نذرانہ اور خاتمہ
اے امیرالمومنین (ع)! اے میدان حریت کے شہسوار، اے جلال و جمال الہی کے بے مثال شاہکار، اے عابد شب زندہ دار، اے زاہدوں کے سید و سردار تم پر ہمارا لاکھوں درودو سلام، ہم کیا ؟ ہماری کیا حیثیت جو آپ کی خدمت میں کچھ پیش کرسکیں ۔ بس شکستہ الفاظ و کلمات و جملات کے قلب میں آپ کے درس سے ملی ہوئی خیرات ہے جسے نذرانہ عقیدت بناکے آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کررہے ہیں ۔ اے عزیز عصر وجود ! ہمارا یہ حقیر تحفہ قبول ہو۔ اور ہمیں بھی آپ کے سرچشمہ حکمت سے اپ کے بحر معرفت سےایک جزاء عطا ہو جس میں ہمارے بیماردلوں کی شفاء ہو، اور ایسی شفا جس کے بعد امراض و اسقام لاپتہ ہوں ۔ وسوسہ شیطانی ہم سے جداہو خاکی ہوتے ہوئے نوری افراد سے ہمارا واسطہ ہو مادی ہوتے ہوئے مجردات سے ہمارا رابطہ ہو عالم طبیعت میں رہتے ہوئے ہمارے افکار طبیعت سے ماوراء ہوں ۔ عالم ہستی میں بستے ہوئے ہم دنیا و ما فیھا سے علاحدہ ہوں ۔
المختصرتمام امور میں ہمارا مطمح نظر صرف اور صرف خداہو ۔ \" الھی ھب لی کمال الانقطاع الیک و انرقلوبنا بضیاء نظرھا الیک \" (مناجات شعبانیہ)

.....

نھج البلاغہ میں کلچر و ثقافت کی تعمیر

ثقافت کی تعریف میں بھت سی تعبیریں موجود ھیں ۔ کلاسیک، مستند اور اعلی درجے کے انسانی معرفت و انسانی شناخت رکھنے والوں نے ثقافت و کلچر کو ایک وسیع معنیٰ میں \\\\\\\" زندگی و حیات کے نھج \\\\\\\" کے برابر تعریف کی ھے ۔ لیکن سماج کی پرکھ رکھنے والے ثقافت کو افکار و اقدار کا ایک مجموعہ جانتے ھیں 1 ایک دوسری تعریف کے مطابق کلچر نام ھے کسی معاشرہ کے عقیدوں، مسلکوں اور افسانوں کی عکاسی کرنے والا، یعنی ایک سماج و ماحول کے صور ذھنی (جو کچھ ان کے اذھان میں ھو) کا مجموعہ ھے جو ایک تعبیر کے مطابق، اس سماج کے نفسیاتی و روحانی عوامل و اسباب ھیں یہ تعریف کی گئی ھے 2 دوسرے الفاظ میں یہ کہ کلچر و ثقافت، مختلف و متعدد سطحوں پر بھت سے عناصر کو منجملہ عقائد، عواطف، اھمیتیں، اھداف و مقاصد، کرداروں، رجحانات اور اندوختہ و جمع کی ھوئی چیزوں کو شامل ھوتا ھے ۔ 3

ایک دوسری جگہ پر اس طرح بیان کیا ھے کہ کلچر و ثقافت، فضائل، ھنر، آداب، علوم و معارف اور تمام اخلاقی و روحانی قوتوں کا مجموعہ ھے کہ جو انسانوں کو ابتدائی حالات سے نکال کر معنوی کمالات کی طرف لے جاتا ھے ۔ 4
\\\\\\\" ادوارد تایلور \\\\\\\" نامی ایک انگریز \\\\\\\" انسان شناس \\\\\\\" سنہ ۱۸۷۱ع میں ابتدائی ثقافت کی کتاب میں ثقافت و کلچر کو ایک ایسا مجموعہ جانتا ھے کہ جو علم، ھنر، اخلاق، قانون، آداب و رسوم اور ھر طرح کی قابلیت و عادت کہ جس کے وسیلہ سے انسان نے سماج کی ایک فرد کا عنوان حاصل کر لیا ھے ۔ 5
ان تمام تعریفوں کے مجموعہ سے یہ نتیجہ لیا جا سکتا ھے کہ : \\\\\\\" ثقافت، ایک قوم و ملت کے علوم، افکار، نظریات، عادات اور مثبت پھلوؤں و اھمیتوں کا ایک مجموعہ \\\\\\\" محسوب ھوتا ھے ۔
اس کلچر و ثقافت کے لئے بھت سی خصوصیتیں اور امتیازات بیان کرتے ھیں کہ جو
اول : شخصیت عطا کرتی ھے ۔
دوسرے : حفاظت عطا کرتی ھے ۔
تیسرے : رائج و ترقی یافتہ اور بنیادی بھی ھے ۔
چوتھے : تاثیر کو قبول کرتی ھے ۔
پانچویں : فطرت ثانوی ھے ۔ 6
لھٰذا جب یہ کلچر و ثقافت ایک قوم و ملت کے علوم، افکار، نظریات، عادات و اطوار مثبت و اھم پھلوؤں کا مجموعہ ھے تو یہ کھا جا سکتا ھے کہ ھر معاشرہ و سماج کا کلچر و ثقافت بھی ایک بےنظیر وجود کے عنوان سے آھستہ آھستہ معاشرہ و سماج میں رونما ھو کر پائداری و ثبات پاتا ھے ۔ پھلا، موثر منبع جو ھر سماج و معاشرہ کے کلچر و ثقافت کے رونما ھونے اور وجود دینے میں تاثیر رکھتا ھے وہ اس سماج کے برجستہ رھبروں، مدیروں اور بانیوں کا اثر ھے ۔ 7
سیاسی کلچر و ثقافت کی بھی (اپنے سیاسی نظام کی بہ نسبت لوگوں کے، معتقدات اقدار اور اھمیتوں و مثبت پھلوؤں کے مجموعہ کا نام ھے) کی تعریف کی گئی ھے ۔ 8
سیاسی ثقافت کے نتائج اور معیار کو دو مقولہ میں تحقیق کرنا چاھئے : اول تو یہ کہ سیاسی کلچر و ثقافت، نظام سیاسی کو مشروعیت دیتا ھے اور سیاست کی بنیاد ھوا کرتا ھے، دوسرے یہ کہ لوگوں کو اس میں شرکت کرنے پر ابھارتا ھے ۔ اس لحاظ سے کھا جاتا ھے کہ جو چیز سیاسی نظام کو وجود دیتی ھے وہ ایک سماج و معاشرہ کے معتقدات ھیں یا دوسرے الفاظ میں کھا جاتا ھے کہ سیاسی نظام ایک ایسے درخت کے مانند ھے جس کی جڑ و بنیاد، سماج کے آداب، سنن، رسوم اور اس کے طریقے ھیں ۔ یہ معتقدات ھیں کہ جو ایک خاص اجتماعی، سماجی اور سیاسی اعمال و کردار کو وجود دیتے ھیں اور یھی کردار و اعمال و آپسی لین دین ایک خاص سیاسی نظام و سیاسی زندگی کو وجود بخشتے ھیں ۔ بلکہ اس طرح بیان کروں کہ یھی رفتار و کردار جو معتقدات و خیالات سے وجود میں آتے ھیں اور یہ کردار طول تاریخ میں مستمر و باقی رھے ھیں، یہ مشترک، مجموعی و مستمر نمونوں کے ایجاد کا سبب بنا جس کے نتیجہ میں اس سے اجتماعی عادتیں و طبیعتیں وجود میں آتی ھیں ۔ 9

دور جاھلیت کی ثقافت کے خصوصیات
امام علی (ع) کے دور میں جن چیزوں کو جاھلیت کے کلچر و تھذیب کی خصوصیتوں اور امتیازات کے عنوان سے بیان کیا جا سکتا ھے وہ حسب ذیل ھیں :
۱ ۔ قبیلہ کی زندگی کہ جس میں ایک فرد کوئی ذمہ داری نھیں رکھتا ھے اور پورا قبیلہ لوگوں و اشخاص کے اعمال و کردار کے مقابل میں جواب دہ ھوتا ھے ۔
۲ ۔ فطری طور پر مسلسل مبارزہ و مقابلہ، زندگی کے منابع کی کمی کی وجہ سے جس کے نتیجہ میں مسلسل جنگ، خونریزی، قتل اور غارت ۔
۳ ۔ بت پرستی
۴ ۔ قوم پرستی و قومی تعصب اور اس کے نتیجہ میں عرب اور غیر عرب میں مساوات نہ ھونا، یھاں تک کہ قبیلوں اور مرد و عورت کے درمیان ۔
۵ ۔ فحشاء، فساد اور حرام خوری ۔
یہ خصوصیتیں پیغمبر اکرم (ص) کی بعثت کے مقابل میں خاص طور سے مدینہ میں اور رسول خدا (ص) کی حکومت کے دور میں انقلاب سے دوچار ھو گئیں اس طرح سے کہ اسلامی تمدن و تھذیب کی بنیاد، خالص توحیدی و الٰھی تھذیب و ثقافت پر رکھی گئی مگر رسول اکرم (ص) کی رحلت کے بعد ان میں سے بعض خصوصیتیں دوبارہ زندہ ھو گئیں اور ان کی حیات مجدّد امام علی علیہ السلام کے زمانۂ حکومت تک باقی رھی، ان کی اھم ترین خصوصیات، نسلی و قومی تعصب، عرب و قریش کی برتری اور لائق و شائستہ لوگوں کی سرداری کے بجائے عھدوں پر دوسروں کی تقرّری ھے اس کلچر و تھذیب کا عروج خلافت عثمان کا زمانہ ھے ۔ لھٰذا رسول اکرم (ص) کی رحلت کے بعد عربوں کی تھذیب و کلچر نے سن رسیدہ و پیری کے عنصر کی وجہ سے (قبیلہ کی ساختہ و پرداختہ رسوم کی بنیاد پر) ابوبکر کو حاکم و امیر بنا دیا اور قریش کے مرتبہ و اقتدار نے اس کو مشروعیت و قانونی حیثیت دے دی پھر یہ چیز تمام خلفاء میں چلتی رھی یھاں تک کہ امام علی (ع) کا دور آ گیا ۔
گزشتہ وضاحتوں کو نظر میں رکھتے ھوئے عرب کے سیاسی کلچر و ثقافت کو ایک محدود ضمنی کلچر کے ڈھانچہ میں بیان کیا جا سکتا ھے اس لئے کہ وہ لوگ صرف اپنے اور اپنے اقرباء کے منافع کے بارے میں فکر کیا کرتے تھے ملکی مفاد اور قومی منافع ان لوگوں کی نظر میں اجنبی دکھائی دیتا ھے ۔
اسی وجہ سے لوگ جنگ جمل صفین اور نھروان میں متوجہ نھیں تھے کہ ملک اور اسلامی نظام کی حفاظت واجب ھے اگرچہ مسلمانوں کے قتل کا باعث ھو، اسی لئے وہ لوگ اسلامی نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ھوئے اور اس سے علم و آگاھی نہ ھونے کی بناپر بڑی آسانی سے جنگ صفین میں معاویہ اور اس کے جیسوں کی تبلیغات کے زیر اثر آگئے ۔
دوسرے یہ کہ قبیلہ میں چار طرح کی طبقہ بندی کو ملحوظ رکھتے ھوئے (سردار اشراف، عام لوگ اور غلام) اس زمانہ کی سماجی و اجتماعی طبقہ بندی درج ذیل تھی:
۱ ۔ قبیلوں کے بزرگ و رؤساء ۔
۲ ۔ ثروتمند و مالدار جنھوں نے تجارت کے ذریعہ کافی مال اکھٹا کر رکھا تھا ۔
۳ ۔ متوسط طبقہ (جس میں چھوٹے موٹے سوداگر اور نفوذ رکھنے والے خاندان تھے) ۔
۴ ۔ غلاموں اور مظلوموں کا طبقہ ۔
اس بات کا لحاظ رکھتے ھوئے امام علی (ع) نے پیغمبر اکرم (ص) کے دامن میں تربیت پائی تھی آپ کی شخصیت و ذات گرامی اسلامی ثقافت و تھذیب کے سایہ میں رشد پائی تھی اور عرب کی جھالت کے کلچر سے کوسوں دور تھی اسلامی و مذھبی ثقافت و تھذیب سے مراد وہ ثقافت و تھذیب ھے کہ جس کے طور طریقہ، سنن و آداب اور رسوم و اعمال اور ان کی قدر و قیمت کو منبع وحی سے لیا گیا ھو یا جسے وحی الٰھی کے سر چشمہ سے تائید حاصل ھو ۔
اھم نکتہ یہ ھے کہ اسلام کی مذھبی تھذیب جو پیغمبر اکرم (ص) کی بعثت سے شروع ھوئی وہ دوران جاھلیت کی تھذیب کی مکمل طور پر جگہ نہ لے سکی لھٰذا پیغمبر اکرم (ص) کی شخصیت کے امتیازات و خصوصیات کو دیکھتے ھوئے جس قدر بھی دور جھالت کی تھذیب و ثقافت پر غلبہ کی صورت نظر آتی تھی مگر پیغمبر اسلام (ص) کی رحلت کے بعد کے دور سے پتہ چلا کہ مذھبی تھذیب نے عرب کے جھالتی کلچر پر مکمل طور پر غلبہ نھیں کیا تھا اگرچہ خلیفہ اول و دوم کے زمانہ میں ظاھری طور پر پابندی کی وجہ سے تھذیبوں اور ثقافتوں کا ٹکراؤ نھیں دکھائی دیا لیکن خلیفہ سوم کے زمانہ میں کہ جو دور جھالت کے کلچر کے اقدار کا مدافع تھا اور امام علی (ع) کے دور حکومت میں کہ جو شدت کے ساتھ اسلامی مذھبی کلچر و تھذیب کے اقدار کے مدافع رھے ھیں اور دور جھالت کے خرافات سے جنگ کر رھے تھے ایسے وقت میں حتمی و یقینی طور پر بحران ظاھر ھوا ۔

اسلام کی مذھبی تھذیب کے امتیازات

۱ ۔ الٰھی محور ھونا
ھم نے بتایا کہ عرب کے دور جھالت کی روش اور کلچر کی خصوصیتوں میں سے بت پرستی اور الوھیت میں کثرت (ان گنت خدا ماننا) ھے مگر اسلام کی مذھبی تھذیب میں جس چیز کو پھلی اھمیت کے عنوان سے قابل توجہ قرار دیا گیا ھے وہ یکتا پرستی اور الٰھی محور ھونا ھے کہ جو تھذیب و سیاست کے وجود و تشخص کا مظھر ھے ۔

۲ ۔ قانون اور عدالت سب کے لئے
عرب کے دور جھالت کے کلچر میں حق و حقوق اور قانون کا کوئی خاص مقام ھی نھیں تھا کہ جس کی عدالت سے موازنہ کی ضروت ھو ۔ قبیلہ کا سردار جو کچھ حاکم کے عنوان سے کھتا تھا وھی قانون اور حق ھوتا تھا باقی تمام لوگ فرمان برداری اور اطاعت پر مجبور تھے، مگر اسلام کے مذھبی کلچر میں الٰھی قانون نافذ ھوتا ھے اور سماج کے ھر فرد کے لئے کچھ حقوق ھوتے ھیں کہ اس قانون کو صحیح طور پر نافذ کرنے اور حقوق کو مکمل طور پر حاصل کرنے کے لئے عدل و انصاف کا مرحلہ آتا ھے اور اسی معیار و کسوٹی پر لوگوں اور حکّام کو عادل یا ظالم کھا جاتا ھے ۔ امام علی (ع) کی حکومت میں یہ تھذیب دوسری تمام چیزوں سے زیادہ ممتاز اور قابل توجہ رھی ھے اس میں کسی طرح کے شک و شبہ کی گنجائش نھیں ھے اور اس تحقیق کی مختلف بحثوں میں اس معنیٰ کی طرف اشارہ کیا گیا ھے ۔

۳ ۔ شائستہ قیادت و سرداری
عرب کے دور جھالت کی تھذیب و کلچر میں معزولی یا تقرّری میں مقام کی شائستگی اور لیاقت کو نھیں دیکھا جاتا تھا بلکہ نسل خون اور قبیلہ کی نسبت کو نظر میں رکھتے تھے جس کی اجتماعی اور سیاسی مواقع پر بھت اھمیت تھی مگر اسلام کی مذھبی تھذیب و کلچر میں تقویٰ 10 جھاد 11 اور علم 12 منجملہ ان اوصاف میں سے ھیں کہ جو افراد کو لیاقت و شائستگی کا حامل بناتے ھیں ۔ اور مقام انبیاء (ع) و ائمہ (ع) کے علاوہ کہ جو ایک خاص الٰھی منصب ھے دوسرے تمام اجتماعی منصب و مقام، خاص لیاقت و شائستگی کی بنیاد پر دئے جانے کے قابل ھیں ۔

۴ ۔ مصلحت کا رجحان
جو چیز دور جھالت کی تھذیب و کلچر میں رائج تھی وہ ایک قوم و نسل اور ایک قبیلہ کے افراد کی برتری اور یہ کہ صرف ان کے منافع کو مدنظر رکھا جائے، لیکن مذھبی تھذیب و کلچر میں کہ جس کے معلم اور مروج امام علی ع ھیں سماج کا ایک خاص مقام ھے اس طرح کہ پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد جو واقعات پیش آئے اس کے مقابل میں امام علی (ع) نے جب کہ امامت و جانشینی، حضرت علی کا حق تھا مگر جب امام علی (ع) نے دیکھا کہ مصلحت کا تقاضہ یہ ھے کہ کھیں تازہ اسلامی سماج انتشار و پراگندگی کا شکار نہ ھو جائے تو آپ (ع) نے اپنے ذاتی حق کو چھوڑ دیا اور سماج کی عمومی مصلحت کی فکر کی اور نہ فقط یہ کہ جو مخالفت وجود میں آئی تھی اسے ظاھر نھیں کیا بلکہ تاریخ گواہ ھے کہ خلفائے ثلاثہ کی امداد بھی کی تاکہ اسلامی سماج بحرانی حالات سے محطوظ رھے ۔

۵ ۔ فردی و اجتماعی ذمہ داری
دور جھالت کے کلچر کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ لوگ اجتماع کے مقابل بلکہ اپنے اعمال کے بنسبت بھی کسی طرح سے ذمہ دار نھیں تھے فقط قبیلہ ان کے اعمال کا جواب دہ ھوتا تھا لیکن اسلام کی مذھبی تھذیب میں خود شخص اپنے اعمال کا ذمہ دار ھے اسی لئے امام (ع) اپنے حکومتی فرمان میں مالک اشتر کو خبردار کرتے ھیں کہ تم اور تمھارا خاندان اور تمھارے اقرباء سب کا وظیفہ ھے کہ لوگوں کے ساتھ عدل و انصاف کا برتاؤ کریں : أنصف النّاس من نفسک و من خاصۃ أھلک… 13
اجمتاعی ذمہ داریوں کو بھی حضرت علی (ع) نے متعدد موقعوں پر یاد دلایا ھے ھم چند مواقع کے بیان پر ھی اکتفاء کرتے ھیں :
حضرت (ع) نے اپنے اکتسویں نامہ میں چار اھم ذمہ داریوں کو جو فی الواقع اجتماعی ذمہ داریاں بھی شمار ھوتی ھیں ان کی سفارش کرتے ھیں :
الف : امر بالمعروف اور نھی عن المنکر ۔
ب : راہ حق اور جھاد فی سبیل اللہ میں مشکلات اور سختیوں کو برداشت کرنا ۔
ج : محتاجوں اور غریبوں کی امداد (کلام کے اس حصّہ میں امام (ع) حقیقت انفاق کو آخرت کے لئے سرمایہ گزاری جانتے ھیں) ۔
د : قرض الحسنہ

۶ ۔ قومی رجحان
دور جاھلیت کے کلچر میں انتشار و پراگندگی اس کلچر و تھذیب کے خصوصیات میں سے رھی ھے کیونکہ سماج کی تشکیل ایک قبائلی تشکیل ھوا کرتی تھی ۔ لیکن ظھور اسلام کے ھمراہ اور اس کے پرچم کے نیچے ایک سماج کے تمام لوگ مختلف عقائد رکھنے کے باوجود پھلے تو یہ کہ قانون کے مقابل میں برابر ھیں، دوسرے یہ کہ ان کو عادی و فطری، سیاسی اور سماجی حقوق سے بھرہ مند ھونا اور حکومت کا وظیفہ ھے کہ تمام لوگوں کے حقوق کا دفاع کرے خواہ وہ غیر مسلمان ھوں ۔ لھٰذا اس اعتبار سے اسلام کی مذھبی ثقافت و تھذیب میں انتشار و بکھراؤ وجود نھیں پایا جائے گا اور قوم و ملت و مملکت کا مفھوم موجودہ صورت میں عالم وجود میں آئے گا ۔ مذھبی تھذیب و کلچر میں جب کہ امام علی (ع) حاکم تھے تو یھاں تک کہ اھل کتاب (یھودی، عیسائی اور زرتشتی) بھی قانون کے مقابل میں امن و امان کا احساس اور اپنے حقوق کے کامل طور پر پائے جانے کا امکان رکھتے تھے ۔ اسی لئے حضرت (ع) زرتشتیوں کی سفارش کے ضمن میں فارس کے حاکم کو تاکید کرتے ھیں کہ ان لوگوں کے ساتھ خوش رفتاری کرو اور اس علاقہ کے دھقانوں و کسانوں کی شکایت کے پیش نظر فارس کے والی کو خبر دار کرتے ھیں 14 اسی طرح امام علی (ع) شھر انبار پر حملہ کے واقعہ کے بارے میں ناراضگی کا اظھار کرتے ھیں کہ جس میں مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے اموال کو لوٹ لیا گیا تھا اور ایک یھودی عورت کے پیروں سے پازیب کو نکال لیا تھا 15 یہ اس بات کی دلیل ھے کہ امام (ع) پوری ملت و سماج پر اس بنیاد پر کہ وہ اسلامی نظام کے زیر سایہ زندگی بسر کر رھے ھیں ایک خاص توجہ رکھتے ھیں۔

۷ ۔ تقویٰ کا رجحان
منجملہ حضرت (ع) کی تاکیدوں میں سے وہ اوصاف و خوبیاں ھیں کہ جو انسان کو متقین اور پرھیزگاروں کے زمرہ میں قرار دیتی ھیں روایت ھے کہ امام (ع) کے پرھیزگار دوستوں میں سے ایک دوست نے جس کا نام ھمّام بن شریح تھا اس نے کھا : اے امیر الومنین (ع) ! میرے لئے پرھیزگاروں و متقین کے اوصاف اس طرح بیان کریں کہ گویا میں ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رھا ھوں ۔ امام (ع) نے اس کے جواب میں تھوڑا توقف کیا اور فرمایا : اے ھمّام اللہ کا تقوی اختیار کرو اور نیکو کار بن جاؤ اس لئے کہ خداوند عالم پرھیزگاروں اور نیک کام کرنے والوں کے ساتھ ھے 16 لیکن ھمّام قانع نہ ھوئے اور اصرار کیا، یھاں تک کہ امام (ع) نے ارادہ کیا کہ متقین کے صفات کو بیان فرمائیں ۔ اس کے بعد اللہ کی حمد و ثنا بجا لائے پیغمبر (ص) پر درود بھیجا اور متقین کے صفات کو شمار کیا ۔ 17

۸ ۔ انسانی کرامت کا تحفظ
جنگ صفین کے موقع پر شام کی جانب جاتے وقت راستے میں شھر انبار کے دھقانوں سے امام (ع) کی ملاقات ھوئی وہ لوگ اپنے گھوڑوں اور سواریوں سے اتر پڑے اور حضرت (ع) کے آگے دوڑنے لگے امام (ع) نے فرمایا : تم لوگ یہ کیا کر رھے ھو ؟ ان لوگوں نے کھا : ھماری تھذیب و کلچر اور عادت میں ھے کہ ھم بزرگوں اور حکّام کا احترام اس انداز سے کرتے ھیں حضرت نے فرمایا : و اللہ ما ینتفع بھذا أمراءکم و انکم لتَتَشُقَون علی أنفسکم فی دنیاکم و تشقون بہ فی آخرتکم، و ما أخسر المشقّۃ وراءھا العقاب و رابح الدّعۃ معھا الأمان من النار 18
خدا کی قسم اس کام سے تمھارے امیروں کو کوئی فائدہ نھیں ھوتا ھے اور تم اپنے نفس کو اسی دنیا میں زحمت میں ڈالتے ھو اور آخرت میں رنج و مشقت سے دوچار ھوگے اور کس قدر خسارہ کا باعث ھے وہ رنج و مشقت کہ جس کے پیچھے عذاب ھو اور کس قدر فائدہ مند ھے وہ آسائش و آرام کہ جس کے ساتھ جھنم سے امان ھو ۔
اسی جیسے موقع پر حضرت (ع) نے ارشاد فرمایا : اِرجع فانّ مشیی مثلک مع مثلی فتنۃ للوالی و مذلّۃ للمؤمن 19 واپس جاؤ کیونکہ اس طرح تم جیسے لوگوں (سردار قبیلہ) کا میرے جیسے (حاکم) کے ساتھ چلنا حاکم کے حق میں فتنہ ھے اور مومن کے حق میں باعث ذلّت ھے ۔

حکومت علوی کی سیاسی تھذیب
نھج البلاغہ اس ذات گرامی کے کلام کا مجموعہ ھے کہ جو قوم و ملت کے امام رھبر اور ھادی ھیں نھج البلاغہ کہ جس کی پھلی تحریر و مسودہ تھذیب و ثقافت سازی کا ھے اس میں عمومی اور خصوصی سماج کی تھذیب کے مطالب ھیں درحقیقت نھج البلاغہ کامل طور پر راھوں، محنتوں، سعادتوں اور شقاوتوں کو دکھاتا ھے، نھج البلاغہ تربیت و راہ کمال تک پھونچنے کی ایک کتاب ھے جو فردی و اجتماعی ابعاد میں تمام زمانوں اور مکانوں کا دستور العمل ھے گویا آج، کل اور مستقبل کے لئے لکھی گئی ھے کہ جو زمانے کے گذرنے سے کھنہ نھیں ھوگی بلکہ اس میں زیادہ تازگی پیدا ھوتی ھے ۔ نھج البلاغہ، قرآن کریم کے بعد دینی معارف کی شناخت کا عظیم ترین منبع و خزانہ ھے جس میں اھم اور مثبت و منفی پھلوؤں کو بیان کیا گیا ھے
اسی لئے خود حضرت (ع) فرماتے ھیں: ینحدر عنّی السیل و لا یرقی الیّ الطّیر 20 علوم و معرفت کا سیلاب میری ذات (دامن کوھسار) سے جاری ھے اور میری بلندی افکار تک کسی کا طائر فکر بھی پرواز نھیں کر سکتا ھے ۔ نھج البلاغہ کے شارح ابن ابی الحدید اس سلسلہ میں فرماتے ھیں: و جریٰ الوادی فتمّ علی القریٰ 21 جاری ھوا لیکن انتھا کو نھیں پھنچا اور بیابان میں اندر چلا گیا ۔
چونکہ دینی معتقدات، سماج اور اس کے اصول کو ایک خاص شکل و صورت عطا کرتے ھیں اور سیاسی معتقدات بھی سیاسی نظام کو ایک خاص شکل دیتے ھیں اسی لئے ھر سماج و ملت کے لوگ اپنے معتقدات کی بنیاد پر سیاسی نظام سے رابطہ برقرار کرتے ھیں ۔
جس طرح اسلامی نظام کے شرعی و قانونی ھونے کا معیار قرآن کریم اور سنت کی پیروی ھے، اسی طرح (سیاسی مشروعیت و قانونیت) کی مقبولیت کا معیار بھی لوگوں کے حمایتی و نظارتی ارتباط سے وابستہ ھے، اس بنیاد پر دینی ثقافت و تھذیب میں سیاسی کلچر کی شمولیت معیار و بنیاد ھو گی ۔

۱ ۔ سیاسی کلچر کی شمولیت
سیاسی کلچر و تھذیب کی شمولیت کی بحث ایک وسیع بحث ھے کہ جو ایک مکمل فرصت کی خواھاں ھے، ھم اس جگہ صرف ان عناوین کی طرف کہ جو نھج البلاغہ میں مورد استناد قرار پائے ھیں اشارہ کرتے ھیں :

۱۔ لوگوں میں مقبولیت (یعنی سیاسی مشروعیت و قانونیت لوگوں میں مقبولیت پر موقوف ھے) ۔
۲۔ وسائل کے ذریعہ لوگوں کی نظارت کی تقویت جیسے امر بالمعروف و نھی عن المنکر اور مسلمانوں کے راھنماؤں کو نصیحت ۔
۳۔ لوگوں کی رائے اور تدبیر سے بھرہ برداری ۔
۴۔ متکبروں کی راہ و رسم سے اجتناب و دوری، حضرت علی (ع) بادشاھوں اور سلاطین کی تاریخ کے مطالعہ میں گزشتہ لوگوں کی عاقبت و انجام کی توجہ اور ان کے متکبرانہ کیفیات اور روز روز کے پیرایہ میں زندگی بسر کرنے کے احوال و وضعیت سے درس عبرت لینے کو تقوائے الٰھی کا مظھر بتاتے ھیں اور اس طور طریقہ سے پرھیز کی سفارش کرتے ھیں 22 کتنے عمدہ و بھترین انداز سے خطبۂ قاصعہ میں بارگاہ خداوندی سے ابلیس کی دوری کا سبب تکبّر و غرور بتایا ھے امام (ع) فرماتے ھیں : فلو رخّص اللہ فی الکبر لأحدٍ من عبادہ لرخّص فیہ لخاصّۃ أنبیائہ و أولیائہ و لکنہ سبحانہ کرّہ الیھم التّکابر و رضی لھم التّواضع 23 اگر اللہ تعالیٰ کسی بندے کو تکبّر کی اجازت دے سکتا تو سب سے پھلے اپنے مخصوص انبیاء اور اولیاء کو اجازت دیتا، مگر ھم دیکھتے ھیں کہ خداوند سبحان نے ان کے لئے بھی تکبّر کو ناپسند قرار دیا ھے اور ان کے تواضع سے خوش ھوا ھے جیسا کہ انھوں نے اپنے رخساروں کو زمین پر چپکا دیا تھا اور اپنے چھروں کو خاک پر رکھ دیا تھا اور اپنے شانوں کو مومنین کے لئے جھکا دیا تھا اور خود سماج کے کمزور لوگوں میں تھے کہ جن کا خداوند عالم نے بھوک سے امتحان لیا مصائب سے آزمایا، خوفناک حوادث و مراحل کے ذریعہ ان کا امتحان لیا اور ناخوش گوار حالات میں انھیں تہ و بالا کرکے دیکھ لیا ۔

۵ ۔ ریا کاری و مکّاری سے مبارزہ ۔ اس سے پھلے بیان کیا گیا ھے کہ حضرت علی (ع) کے اصول اور کلی طور پر سیاسی خطوط پر گامزن رھنے میں تھذیب و ثقافت (یعنی چاپلوسی سے اجتناب کرنا اور نصیحت قبول کرنا ھے) کی ترویج رھی ھے لھٰذا آپ (ع) خود بھی اس پر ثابت قدم رھے ھیں 24 اور دوسروں کو بھی اس کی سفارش کرتے تھے کہ وہ حق گوئی اور سچی بات کھنے والے افراد جن کی باتیں تلخ و کڑوی ھوتی ھیں وہ تمھارے نزدیک مقربین و برگزیدہ لوگوں میں ھوں اور چاپلوسی کرنے والے شیرین کلام و چرپ زبان کہ جو انجام نہ دئے گئے کاموں کو بھی بھت بڑا شمار کرتے ھیں اور ان کی تعریف و مدح خود خواھی کا باعث ھوتی ھے ایسے لوگوں سے پرھیز کرو ۔ 25
امام علی (ع) نے ۵۳ ویں نامہ کے ایک دوسرے حصّہ میں مالک اشتر کو خبردار کرتے ھوئے لکھتے ھیں : ایّاک و الاعجاب بنفسک و الثقۃ بما یُعجبک منھا و حبّ الاطراءِ فانّ ذلک من أوثق فُرَصِِ الشیطان فی نفسہ لیمحق ما یکون من احسانِ المحسنین 26 اور دیکھو کھیں ایسا نہ ھو کہ تم خود پسندی کا شکار ھو جاؤ اور تمھیں اپنی خوبیوں پر اطمینان ھو جائے اور اپنی تعریف بھلی لگنے لگے کہ یہ سبب باتیں شیطان کو تم پر حملہ کرنے کے مواقع فراھم کرتی ھیں ۔
امام (ع) کے علم غیب کی نشانیوں میں سے یہ ھے کہ ایک دن ایک آدمی امام (ع) کی بہ نسبت باطن میں بد بین تھا مگر ظاھری طور پر امام (ع) کی مدح و ثنا میں افراط سے کام لے رھا تھا، اس نے درج ذیل جملوں کو امام (ع) سے سنا : انا دون ما تقول و فوق ما فی نفسک ۔ 27 میں اس سے کم ھوں کہ جو تم زبان پر جاری کر رھے ھو اور اس سے بلند و بالا ھوں کہ جو تمھارے دل میں ھے ۔

۶ ۔ رسمی روابط کی نفی (سادگی و صمیمیت کی ترویج) ۔ حضرت امام علی (ع) ایک جگہ پر اپنے دوستوں، اطرافیوں اور لوگوں سے کھتے ھیں : مجھ سے اس طرح بات نہ کرو جس طرح تاریخ میں سرکش و جبّار لوگوں سے بات کرنے کی راہ و رسم رھی ھے اور مجھ سے اس طرح دور نہ ھو جس طرح لوگ غضبناک طاقتوروں سے خوف زدہ ھوکر دوری اختیار کرتے ھیں، مجھ سے ظاھری بناوٹ کے ساتھ برتاؤ نہ کرو اور اس بات کا گمان نہ کرو کہ اگر کسی حق بات کی تجویز مجھ سے کرو گے تو میرے اوپر گراں گزارے گا ۔ یا میں اپنے کو بڑا دکھانا چاھتا ھوں، اس لئے کہ جس شخص کو حق سننے یا عدالت کی بات کے پیش ھونے میں مشکل و پریشانی ھو اس شخص کے لئے عدالت پر عمل کرنا اور مشکل ھو جاتا ھے ۔ 28
یہ ساری باتیں حکومت میں لوگوں کی شرکت اور مشارکت کے رجحان کے بارے میں ان کو تقویت و قوت عطا کرتی ھے، وہ نظام کہ جو بلند مقاصد کی بنیاد پر، عدالت و مساوات کو نافذ کرنے، الٰھی اور معنوی اقدار و مقاصد کو رائج کرنے، لوگوں کے تعاون کے محور اور ظالمین سے مبارزہ کی بنیادوں پر قائم ھوتا ھے تو واضح ھے کہ لوگ اپنے وظیفہ کو جانتے ھیں کہ درج بالا اغراض و مقاصد کو پانے کے لئے حکومت کا ساتھ دیں اور حکومت بھی لوگوں کی اس مشارک کو غنیمت شمار کرتے ھوئے نظام کو بڑی تیزی سے منزل کمال و مقصود تک پھونچائے ۔

۲ ۔ حاکمیت الٰھی کے واجب الاتباع ھونے کی ترویج
اس سلسلہ میں کہ اسلام کی سایسی تھذیب و ثقافت قابل اتفاق ھے یا قابل نزاع، درج ذیل امتیازات و خصوصیات کو دیکھتے ھوئے بڑے اطمینان و آسانی سے کھا جا سکتا ھے کہ یہ سیاسی تھذیب قابل اتفاق ھے نہ کہ قابل نزاع ۔
۱ ۔ اسلامی مصادر میں وحدت کی تاکید خاص طور سے قرآن کریم اور نھج البلاغہ میں ۔
۲ ۔ سیاسی اور حکومتی معاملات میں نرمی و انعطاف کی تاکید ۔
۳ ۔ اسلام کے سیاسی کلچر میں عقد اخوت و بھائی چارگی کے عھد و پیمان کی اھمیت ۔
۴ ۔ غیر مسلمانوں کی تالیف قلوب و دل جوئی اور تالیف قلوب کی راہ میں اسلام کے اموال کے صرف کرنے پر تاکید ۔

۳ ۔ دینی، الٰھی اور معنوی اقدار کو زندہ رکھنا
جیسا کہ ھم نے ذکر کیا اسلامی حکومت کے بلند مقاصد میں سے ایک تربیت ھے اور یہ تربیت ضروری ھے کہ اس سے آگاہ کریں اور سماج قبول کرے نیز اس کے مثبت و منفی، اھم و غیر اھم پھلوؤں کو بیان کیا جائے ۔

۱ ۔ خود آگاھی
اسلام کے نکتۂ نظر سے علم کی اھمیت کی گفتگو نھیں ھے، بلکہ گفتگو اس کے اضافہ اور کوشش و تلاش میں ھے کہ جو قرآن کریم 29 اور سنت میں 30 ایک اصل کے عنوان سے مورد تاکید واقع ھوا ھے اور اس کا انکار یعنی بےنیازی و استغناء کا احساس کرنا طغیانی و سرکشی کا سبب بتایا گیا ھے ۔ 31 اسی بنا پر امام (ع) نے سیاست کے کلی اصول میں سے اس کو ایک اصل قرار دیا ھے اور اسے مدیروں و حکّام کی تعلیم کے لئے خصوصی طور پر اور تمام لوگوں کی تعلیم کے لئے عمومی طور سے ھر فرصت سے فائدہ اٹھاتے ھیں حضرت (ع) کے خطبے اور خاص طور پر آپ (ع) کے خطوط اس مدّعیٰ پر شاھد ھیں ۔
امام (ع) نے اپنے اھم ترین خط کہ جس میں آپ نے مالک اشتر نخعی سے خطاب کیا ھے اس میں مدیریت کے دو رکن، ذمہ داری اور کام میں مھارت کا ھونا ھے اسے بیان کرتے ھیں، امور میں مھارت کے سلسلہ میں، مالک کو علماء و حکماء کے پاس زیادہ آمد و رفت اور دوستی کی ترغیب دلاتے ھیں : و اکثر مدارسَۃَ العلماء و مناقشۃ الحُکماء فی تثبیت ما صَلُح علیہ أمر بلادک و اقامۃ ما استقام بہ الناسُ قبلک 32 ان مسائل کے بارے میں جن سے علاقہ و سماج کے امور کی اصلاح ھوتی ھے اور وہ امور قائم رھتے ھیں جن سے گزشتہ افراد کے حالات کی (ان کی زندگی میں صحیح) اصلاح ھوتی ھے علماء اور حکماء سے برابر رفت و آمد رکھنا ۔

۲ ۔ تربیت کا محور (خانوادہ کے ذریعہ سماج کو قبول کرنا)
بزرگ انسانوں کا طریقہ رھا ھے کہ اپنی عمر کے آخری لمحات میں، اپنے آراء و نظریات کا خلاصہ وصیتوں اور سفارش کے ضمن میں حوالی موالی و اطرافیوں کے لئے ذکر کرتے ھیں ۔ امام علی (ع) نے بھی ایک جامع و کامل وصیت نامہ نہ فقط یہ کہ اپنے فرزندوں اور آس پاس اٹھنے بیٹھنے والوں کے لئے بیان کیا ھے بلکہ اس لحاظ سے کہ آپ (ع) امام المتقین من الاولین و الآخرین ھیں وصیتوں کو طول تاریخ میں تمام بشریت کے لئے بیان کیا ھے کہ جس کا ایک حصّہ ایک باپ کی وصیت اپنے فرزند کے لئے نھج البلاغہ کے نامہ نمبر اکتیس میں موجود ھے یہ وصیت نامہ ایک بھترین تعبیر و توصیف کے ساتھ انسان کی زندگی میں حوادث روزگار کے نشیب و فراز سے شروع ھوا ھے : من الوالد الفان… الی المولود المؤمّل ما لا یدرک ۔ بعض لوگوں نے حضرت (ع) کے تربیتی اور تھذیبی وصیت نامہ کو درج ذیل محور میں تقسیم کیا ھے ۔ 33
جو ان کے دل کا بیان اور خالی زمین سے اس کی تشبیہ کہ جو ھر طرح کی زراعت و کھیتی کے لئے آمادہ ھو اسے تربیت کے عنوان سے بھترین موضوع قرار دیا ھے کہ جس میں والدین کا وظیفہ ھے کہ اس پاک و صاف زراعت کی تعلیم و تربیت کریں قبل اس کے کہ وہ سخت ھوجائے ۔ 34
تربیت میں اعتماد حاصل کرنے کی تاثیر کا بیان، امام (ع) درج بالا عبارت کے ساتھ وصیت کو مھربانی و عطافت کی تحریک، خیر خواھی کا اظھار اور محبت سے شروع کرتے ھیں 35 وصیت کو جاری رکھتے ھوئے تیرہ مرتبہ لفظ \\\\\\\" بُنَّی \\\\\\\" سے استفادہ کرتے ھیں کہ جس میں ایک قسم کی عاطفت و محبت پائی جاتی ھے ۔ 36 دوسرے حصّہ میں گزشتہ لوگوں کے تجربہ کا بھترین خلاصہ بیان کرتے ھیں حضرت (ع) اس وصیت میں بخوبی فرماتے ھیں کہ والدین کا وظیفہ صرف خوراک و پوشاک کی ضرورتوں کو پورا کرنا نھیں ھے بلکہ ان تمام چیزوں کی ضرورتوں کو بھی پورا کرنا ھے جو فرزندوں کی روح و رواں سے متعلق ھیں وہ بھی والدین کے وظائف میں شمار ھوتے ھیں ۔ 37
اس اقدار کا بیان کہ گزشتگان آئندہ نسلوں کے لئے مشعل راہ بن سکتے ھیں اور دوسروں کے تجربوں سے تربیتی امور میں استفادہ کرنا چاھئے ۔ 38
تربیت میں ذات خداوند عالم کی طرف توجہ کی تاثیر کو بیان کرنا 39 امام (ع) اس حصّہ میں خدائے تعالیٰ کی شناخت پر تاکید اور تربیت میں اس شناخت کے ابعاد کی تاثیر کو بیان کرتے ھیں کہ جس میں عمدہ ترین چیز خداوند عالم سے دعا کرنا ھے، جب انسان خدائے خالق و قادر کی قدرت و توانائی کو دیکھے گا تو سعی کرے گا کہ خداوند عالم کی امداد کے حسن ظن کی قوت کے ضمن میں اپنے رشد و کمال کے سلسلہ میں اس خالق یکتا و توانا سے بھی امداد مانگے ۔
تربیت میں قیامت کی طرف توجہ کی تاثیر کا بیان 40 حضرت (ع) اس حصّہ میں موت کی طرف توجہ کو دنیوی لذّتوں کو منقطع کرنے کے عنوان سے، دنیا کے فانی ھونے کی اھم ترین نشانی اور انسان کا عالم بقاء کی طرف منتقل ھونا، مواقف کی طرف متوجہ رھنا اور موت کے بعد کی دنیا کی فکر کرنا انسان کی تربیت کے اھم ترین عوامل و اسباب میں سے بتاتے ھیں اور ان آٓثار کی طرف متوجہ رھنے کے فوائد میں یہ ھے کہ اول یہ کہ انسان موت کے لئے تیار رھتا ھے، دوسرے یہ کہ وہ فانی دنیا سے وابستہ و دل بستہ نھیں رھتا ھے ۔
تیسرے یہ کہ موت کے بعد کی دنیا کے لئے زاد راہ و توشہ کو تیار رکھتا ھے خود سازی اور اس کے مراحل کا بیان 41 اس حصّہ میں حضرت (ع) نے تقویٰ دل کی بیداری، معرفت کے کسب کی اھمیت، دین کی آگاھی، صبر و استقامت و تلاش کا مقام، احتیاط و اعتدال کا محل، وقت کی شناخت کی ضرورت اور ناپسندیدہ صفات (ھوا پرستی، عجب، خود بینی، زبان کی آفتوں اور حرام غذا سے اجتناب کو بیان کیا ھے اور ان عوامل و اسباب کے اثر انداز ھونے کو خود سازی کے سلسلہ میں بیان کیا ھے ۔
اجتماعی ذمہ داریوں کا بیان جیسے امر بالمعروف اور نھی عن المنکر

۳ ۔ اعتدال و مساوات
حضرت (ع) نے نھج البلاغہ میں ھر چیز سے زیادہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ھے کہ اگر اس دنیا کے فانی و موقت ھونے اور دار آخرت کی باقی و جاودان ھونے کی طرف توجہ ھو جائے تو انسان کی فردی و اجتماعی زندگی میں انقلاب پیدا ھو جائے گا، لھٰذا ایک جگہ اس قسم کی صحیح دنیوی رغبت اور دنیا کو آخرت کا وسیلہ اور آخرت کو اپنا مقصد قرار دینے خود سازی کے مرحلہ میں ایک اھم قدم بیان کرتے ھیں 42 اور دوسری جگہ پر اس نظریہ و غور و فکر کو فتنہ سے نجات کا راز شمار کرتے ھیں 43 دوسرے موقع پر نظام کی سلامتی و حفاظت کو اس تفکر و نظریہ پر موقوف جانتے ھیں 44 کبھی لوگوں اور اشراف یا دنیا پرستوں اور زاھدوں کے فرق کو اس تھذیبی ذائقہ میں (دنیا کو آخرت کے وسیلہ کی نظر سے) بیان کرتے ھیں 45 ایک جملہ میں اس طرح کھوں کہ اس طرح کی نظر کو زھد، آزادی اور دنیا سے وابستگی نہ ھونے کو بیان کرتے ھیں اور دوسری ھر چیز سے زیادہ دنیا پرستی کی طرف رغبت و رجحان رکھنے والوں کی ملامت کی ھے اور دنیاداری و مادی وابستگی کے نتائج کو گوش گزار فرمایا ھے کہ جو حسب ذیل ھیں : اجنبیّت و اسیری 46 خود نمائی 47 دین فروشی 48 خیانت 49 پریشانی و افسردگی 50 سیاسی و اجتماعی فساد 51 جنگ و خونریزی 52 تھذیبی و ثقافتی انحطاط 53 فکری محدودیت 54 جھاد سے فرار کرنا 55 معنوی و روحانی جمود 56 وغیرہ
اس تھذیبی و ثقاتی ذائقہ کے بھت سے مظھر و نشانیاں ھیں منجملہ ان میں سے برابری، اعتدال اور مساوات ھے ۔
جس چیز نے انسانوں کو دنیا سے صحیح طریقہ سے فائدہ اٹھانے سے منحرف کیا ھے وہ افراط یا تفریط کا راستہ رھا ھے ۔ افراط کے راستہ پر چلنے والوں و راھیوں نے اس قدر دنیا سے میل و رغبت پیدا کر لیا ھے کہ انھیں دنیا پرست کھنا چاھئے اور دنیا داری کے علاوہ وہ کچھ سوچتے بھی نھیں ھیں، دوسری طرف تفریط کے راستہ پر چلنے والے اس طرح دنیا سے الگ ھو گئے ھیں کہ جیسے آخرت کے لئے دنیا کے علاوہ اور کوئی راستہ موجود ھے ۔ مگر جو چیز روح و حقیقت اسلام سے سمجھ میں آتی ھے وہ یہ کہ دنیا اور جو کچھ دنیا سے متعلق ھے اس سے بھترین طریقہ سے فائدہ اٹھانا نہ صرف یہ کہ فقط مذموم نھیں ھے بلکہ ممدوح بھی ھے 57 جو کہ راہ اعتدال و درمیانی راستہ ھے اس طرح کہ نہ دنیا میں بالکل ڈوب جائیں اور نہ دنیا سے کامل طور پر جدا ھوجائیں ۔ اس سلسلہ میں امام علی (ع) کے جامع و بھترین کلمات ھیں جو حضرت (ع) نے ایک خارجی کے مقابل میں کہ جو دنیا کی ملامت و سرزنش کر رھا تھا، بیان فرماتے ھیں : انّ الدنیا دارصدقٍ لمن صدقھا، و دار عاقبۃٍ لمن فھم عنھا و دار غنی لمن تزوّد منھا، و دار موعظۃ لمن اتعظّ بھا، مسجد احبّاء اللہ و مصلّی ملائکۃ اللہ و مھبط وحی اللہ، و متجر اولیاء اللہ اکتسبوا فیھا الرحمۃ و ربحوا فیھا الجنۃ ۔ 58
بیشک دنیا سچائی کا گھر ھے سچوں کے لئے اور سمجھ دار کے لئے امن و عافیت کی منزل ھے اور بے نیازی کا گھر ھے توشہ لینے والوں کے لئے اور نصیحت حاصل کرنے والوں کے نصیحت کا مقام ھے ۔ یہ خدا پرستوں کے لئے سجود کی منزل اور ملائکہ الٰھی کا مصلّی ھے یھیں اللہ کی وحی کے نازل ھونے کی جگہ ھے، یھیں اولیائے خدا آخرت کا سودا کرتے ھیں کہ جس کے ذریعہ وہ رحمت خدا تک دست رسائی اور جنت کو فائدہ میں حاصل کر لیتے ھیں ۔

۴ ۔ ان عھد و پیمان کی وفاداری جو انسان، اللہ اور اس کی مخلوق سے رکھتا ھے

جب انسان نے اس دنیا کو دار عمل اور کھیتی جان لے اور دار آخرت کو اس کے عکس العمل اور محصول کی منزل تسلیم کرلے تو وہ سعی و کوشش کرے گا کہ جو عھد و پیمان خداوند عالم سے کیا ھے اسے انجام دے جیسے واجبات کو انجام دینا اور حرام کاموں کو ترک کرنا ۔ 59 اور جو عھد و پیمان اللہ کے بندوں سے باندھتا ھے ان کا بھی پابند ھوگا اگرچہ وہ مسلمان نہ ھوں 60 ۔

۵ ۔ تکبّر سے مقابلہ اور ظلم و زر کو محور قرار دینے سے اجتناب 61

۶ ۔ صلابت و صراحت 62

۷ ۔ رھن سھن و معاشرت کے آداب کا بیان
اس سلسلہ میں امام علی (ع) کی سفارشوں میں سے یہ ھے کہ انسان جو کچھ اپنے لئے پسند کرتا ھے وھی دوسروں کے لئے بھی پسند کرنا چاھئے اور جو اپنے لئے ناپسند کرتا ھے وھی دوسروں کے لئے بھی ناپسند کرنا چاھئے، دوسروں پر ظلم نہ کرے بلکہ نیکی کرے، جس طرح وہ چاھتا ھے کہ اس پر ظلم نہ کیا جائے بلکہ اس کے ساتھ نیکی کی جائے، دوسرے کے مقابل میں غصّہ کو پی جائے، نرمی اور حسن ظن کے ساتھ دوسروں سے سلوک کرے ۔
امام (ع) دوسری جگہ پر ایک اچھے دوست کی واقعی قدر و قیمت کے ضمن میں اپنے دوستوں میں سے ایک دوست کے صفات 63 کو اچھے دوست کے عنوان سے اس طرح بیان کرتے ھیں : کان لی فیما مضی اخ فی اللہ، و ما یعظمہ فی عینی صغر الدنیا فی عینہ و کان خارجاً من سلطان بطنہ، فلا یشتھی ما لا یجد و لا یکثر اذا وجد، و کان اکثر دھرہ صامتاً، فان قال بذَّ القائلین و نقع غلیل السائلین و کان ضعیفاً مستضعفاً 64 ۔
گزشتہ زمانہ میں خدا کے لئے میرا ایک بھائی تھا، جس کی عظمت میری نگاھوں میں اس لئے تھی کہ دنیا اس کی نگاھوں میں حقیر تھی اور اس پر پیٹ کی حکومت نھیں تھی جو چیز نھیں ملتی تھی اس کی خواھش نھیں کرتا تھا اور جو مل جاتی تھی اسے زیادہ استعمال نھیں کرتا تھا اکثر اوقات خاموش رھا کرتا تھا اور اگر بولتا تھا تو تمام بولنے والوں کو چپ کر دیتا تھا سائلوں کی پیاس کو بھجا دیتا تھا اور بظاھر عاجز و کمزور تھا مگر… ۔
امام (ع) اپنے اس فصیح و بلیغ کلام میں ان عظیم صفات کو کہ جو ان صفات کے حامل شخص کو دوستی و رابطہ برقرار کرنے کے قابل بنا دیتے ھیں شمار فرمایا ھے : فعلیکم بھذہ الخلائق فالزموھا و تنافسوا فیھا فان تستطیعوھا فاعلموا أنّ اخذ القلیل خیر من ترک الکثیر 65 لھٰذا تمھارے لئے ضروری ھے کہ ایسے اخلاق کو اختیار کرو اور ان کے حاصل کرنے میں ایک دوسرے کی رقابت و مقابلہ کرو اور اگر ایسا نھیں کر سکتے تو جان لو کہ ان میں سے بعض اور قلیل کو اختیار کر لینا، کثیر کے ترک کر دینے سے ھر حال میں بھتر ھے ۔

۸ ۔ ان صفات کا بیان جو انسان کو اس کی خلقت کے مقصد سے ھم آھنگ کرتی ھیں
حضرت امام علی (ع) اپنے ایک معروف خطبہ میں بنام خطبۂ غرّاء جو امام (ع) کے حیرت انگیز خطبوں میں شمار ھوتا ھے 66 صفات خداوند عالم، تقویٰ و پرھیزگاری کی وصیت اور دنیا و آخرت کی حقیقت کو بیان کرنے کے بعد خدا کے بندوں کے احوال و اوصاف کو بیان کرتے ھیں اور درج ذیل چیزوں کو انسان کی اس کے غرض خلقت کے موافق بتاتے ھیں ۔
۱ ۔ صحیح راستے اور صراط مستقیم پر گام زن رھنا
۲ ۔ اللہ کی مرضی و خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش میں رھنا ۔
۳ ۔ نیک و صالح کاموں میں سبقت و پھل ۔
۴ ۔ اللہ کا تقویٰ حاصل کرنے کی تلاش و کوشش اور اس سے ڈرنا ۔
۵ ۔ عذر خواھی اور خطاؤں کے اعتراف کی کیفیت کی تقویت ۔
۶ ۔ اللہ کی طرف سے معین کئے گئے راھنماؤں کے بتائے ھوئے راستے پر چلنے کی کوشش کرنا ۔
۷ ۔ باطنی طھارت و پاکیزگی کی کوشش کرنا ۔
۸ ۔ آخرت کی دنیا کو آباد کرنے کا علم حاصل کرنا 67 ۔


۱ ۔ بر گرفتہ از: مسعود چلبی، جامعہ شناسی نظام، ص ۵۴ ۔
۲ ۔ موریس دو ورژہ، جامعہ شناسی سیاسی، ترجمہ دکتر ابوالفضل قاضی،(تھران، ۱۳۶۷، ص ۱۶۰ ۔
۳ ۔ محمد تقی جعفری، فرھنگ پیرو و فرھنگ پیشرو، ص ۲۲ ۔
۴ ۔ رضا ثقفی، مفاھیم فرھنگ در ادبیات فارسی، مجلہ فرھنگ و زندگی شمارہ ۱، سال ۱۳۴۸، ص ۲۵ ۔
5. Milton Singer”Culture internasional Encyclopedia Of Sosial Scienesvol” 3. 1996. P. 527
۶ ۔ علی باقی نصر آبادی، مبانی جامعہ شناسی (جزوہ درس دانشگاہ آزاد کاشان) ص۲۲۔ ۲۵ ۔
۷ ۔ لذا گفتہ می شود: \\\\\\\" النّاس علی دین ملوکھم \\\\\\\"
۸ ۔ عبدالرحمن عالم، بنیاد ھای علم سیاست، چاپ چھارم، (تھران: نشرنی، ۱۳۷۷) ص ۱۳۔
۹ ۔ برگرفتہ از : مبانی جامعہ شناسی، ترجمہ غلام عباس توسلی، (تھران سمت، ۱۳۷۲) نگرشی جدید بہ علم سیاست، ترجمہ شجاعی، (تھران: دفتر مطالعات، ۱۳۶۷)
۱۰ ۔ ان اکرکم عنداللہ اتقیکم ۔ (حجرات/۱۳)
۱۱ ۔ فضل اللہ المجاھدین علی القاعدین اجرا عظیماً (نساء/۹۵)
۱۲ ۔ ھل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون (زمر/۹)
۱۳ ۔ نھج البلاغہ، نامہ ۵۳ ۔
۱۴ ۔ نھج البلاغہ، نامہ ۱۹۔
۱۵ ۔نھج البلاغہ، خطبہ ۲۷۔
۱۶ ۔ چنانچہ غور فرمائیں، امام (ع) اپنے اس مختصر سے کلام سے یہ نکتہ بیان کرنا چاھتے ھیں کہ تمام خوبیاں دو اھم باب میں جمع کی جا سکتی ھیں:
الف ۔ تقوائے الٰھی، ب ۔ نیک اعمال ۔
۱۷ ۔ نھج البلاغہ، خطبہ ۱۸۴، میں بعض لوگوں نے صفات کو اس طرح شمار کیا ھے کہ اس اعداد ۱۱۰ بنتے ھیں ۔
۱۸ ۔ نھج البلاغہ، حکمت ۳۶۔
۱۹ ۔نھج البلاغہ، حکمت ۳۲۳۔
۲۰ ۔ نھج البلاغہ، خطبہ۳ ۔
۲۱ ۔ ابن ابی الحدید، شرح نھج البلاغہ، ج۱، ص ۵ ۔
۲۲ ۔ نھج البلاغہ، خطبہ ۱۸۱۔
۲۳ ۔ نھج البلاغہ، خطبہ ۱۹۱۔
۲۴ ۔ جنگ صفین کے موقعہ پر جس وقت حضرت (ع) نے تقریر فرمائی تو درمیان کلام میں آپ کے اصحاب میں سے ایک آدمی نے حضرت (ع) کی مدح و ثنا کی، امام (ع) نے اپنی تقریر کے درمیان، چاپلوسی کو حکام و حکمرانوں کے پست ترین حالات میں شمار کیا اور خود کو اس حالت سے دور جانا ھے ۔ نھج البلاغہ خطبہ ۲۰۷۔
۲۵ ۔ ثم لیکن اثرھم عندک اقوالھم بمرّ الحقّ لک…۔ (نھج البلاغہ، خطبہ، نامہ(۵۳)
۲۶ ۔ نھج البلاغہ، نامہ ۵۳ ۔
۲۷ ۔ نھج البلاغہ، حکمت ۸۰ ۔
۲۸ ۔\\\\\\\"فلا تکلّمونی بما تکلّم بہ الجبابرۃ و لا تتحفّظو منّی بما یتحفّظ بہ عند البادرۃ ...(نھج البلاغہ، خطبہ ۲۰۷)
۲۹ ۔ حضرت موسیٰ (ع) جناب خضر (ع) کے ملاقات کے بعد ان سے درخواست کرتے ھیں کہ اپنی شاگردی کرنے دیں اور ان کے علم لدنّی سے اپنے رشد و کمال کے سلسلہ میں استفادہ کریں ۔ قال لہ موسی ھل اتبعک علیٰ عن أن تعلّمن ممّا علّمت رشدا (کھف/ ۶۶) یا حضرت پیغمبر اکرم (ص) کو حکم ھوتا ھے کہ ھمیشہ خداوند عالم سے علم کا مطالبہ کرتے رھیں ۔ و قل ربّ زدنی علماً (طہٰ/۱۱۴)
۳۰ ۔ اسلامی احادیث میں کسی بھی طرح کی زمانی، مکانی اور صنفی محدودیت علم حاصل کرنے کی وجود نھیں رکھتی ھے، اسلامی مصادر و احادیث میں فقط علم نافع و علم غیر نافع کی سرحد قائم کی گئی ھے ۔
۳۱ ۔ کلاّ انّ الانسان لیطغی ان رآہ استغنی (علق/ ۷) اور ایک حدیث میں آیا ھے کہ ۔ من استوی یوماہ فھو مغبون ۔ جس کے دو دن برابر ھوں وہ گھاٹے میں ھے ۔ (مجلسی، بحار الانوار، ج ۱، ص ۱۷۷)
۳۲ ۔ نھج البلاغہ، نامہ، ۵۳ ۔
۳۳ ۔ عبد الحمید زھادت، علیم و تربیت در نھج البلاغہ قم مرکز انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی ۱۳۸۷، ص ۱۳۵۔ ۲۳۸ ۔
۳۴ ۔ و انما قلب الحدث کالأرض الخالیۃ… ۔
۳۵ ۔ من الوالد الفان المقرّ المدبر العمر المستسلم للدّھر الذامّ للدّنیا الساکن مساکن الموتی و الظّاعن عنھا، الی المولود المؤمّل… ۔
۳۶ ۔ فانی أوصیک بتقوی اللہ ای بُنیّ و لزوم امرہ… ۔
۳۷ ۔ فاسخلصت لک من کل امرٍ تخیلۃٍ و… ۔
۳۸ ۔ و اعرض علیہ اخبار الماضین و… ۔
۳۹ ۔ و اعلم یا بنی انّ احداً لم ینبی عن اللہ سبحانہ… ۔
۴۰ ۔ و اذکر بذکر الموت و قدّرہ بالقتاہ… ۔
۴۱ ۔ فانی أوصیک بتقوی اللہ یا بنی و لزوم امرہ و عمارۃ قلبک بذکرہ… ۔
۴۲ ۔ نھج البلاغہ، خطبہ ھای ۴۲، ۱۹۴و نامہ ھای ۳۱، ۵۳ و حکمت ۲۴۳۔
۴۳ ۔ نھج البلاغہ، خطبہ ھای ۳۸ و ۲۳۴ (قاصعہ)
۴۴ ۔ نھج البلاغہ، نامہ ۵۳ ۔
۴۵ ۔ نھج البلاغہ، نامہ ھای ۳۱ و ۵۳ ۔
۴۶ ۔ نھج البلاغہ، خطبہ ۱۵۹ و نامہ ۳۲ و حکمت ھای ۱۲۸۔ ۳۶۰ و ۴۳۱۔
۴۷ ۔ نھج البلاغہ، نامہ ھای ۳۹ و ۷۰۔
۴۸ ۔ نھج البلاغہ، نامہ ۵۳ و حکمت ۴۰۶۔
۴۹ ۔ نھج البلاغہ، نامہ ھای ۴۱، ۴۳ و ۷۱ ۔
۵۰ ۔ نھج البلاغہ، نامہ ۵۰و حکمت ھای ۱۲۸ و ۳۶۰ و ۳۷۲۔
۵۱ ۔ نھج البلاغہ، خطبہ ھای ۳، ۳۳، ۱۰۵ و نامہ ۷۸۔
۵۲ ۔ نھج البلاغہ، خطبہ ھای ۱۵ و ۱۶۸۔
۵۳ ۔ نھج البلاغہ، خطبہ ھای ۳۲، ۱۳۱و ۱۴۴۔
۵۴ ۔ نھج البلاغہ، خطبہ ھای ۳، ۱۸۱ و نامہ ۳۔
۵۵ ۔ نھج البلاغہ، خطبہ ھای ۳۴، ۳۹، ۱۹۹و نامہ ۶۲۔
۵۶ ۔ نھج البلاغہ، خطبہ ھای ۲۱، ۱۶۶۔
۵۷ ۔ نھج البلاغہ، خطبہ ھای ۱۶، ۱۴۲، ۱۸۱ و ۲۰۰ و نامہ ھای ۲۷ و ۳۱ و حکمت ھای ۴۷۰ و ۳۹۶۔
۵۸ ۔ نھج البلاغہ، حکمت ۱۲۴۔
۵۹ ۔ نھج البلاغہ، خطبہ ۱۶۶۔
۶۰ ۔ نھج البلاغہ، نامہ ھای ۱۹، ۵۳، ۶۵ و ۷۴۔
۶۱ ۔نھج البلاغہ، خطبہ ۲۳۴۔
۶۲ ۔ نھج البلاغہ، خطبہ ۱۱ و حکمت ھای ۷۹ و ۱۰۷۔
۶۳ ۔ بعض نے کھا ھے کہ وہ ابوذر غفاری بن مظعون تھے ۔
۶۴ ۔ نھج البلاغہ، حکمت ۲۹۰۔
۶۵ ۔ نھج البلاغہ، حکمت ۲۹۰۔
۶۶ ۔ محمد دشتی، ترجمہ نھج البلاغہ، ص ۱۳۱(اس ترجمہ میں شمارہ خطبہ، ۸۳ ھے)
۶۷ ۔ نھج البلاغہ، خطبہ ۸۲ ۔

.....

حقیقت ِتقوی نہج البلاغہ میں

آج تک کسی نے یہ دعوی نہیں کیا کہ تقوی کا ڈر اور خوف سے پرہیز اور اجتناب ہے لیکن چونکہ کسی چیزسے خوف کا نتیجہ اس چیز کا ترک اور اس سے اپنا بچائو لازم ملزوم ہیں ۔
راغب اصفہانی نے اپنی کتاب مفردات القرآن میں لکھتے ہیں:
وقایة کے معنی ہیں کسی چیز کو نقصان دینے والی باتوں سے محفوظ رکھنا اور تقوی کا مطلب ہے ان باتوں سے بچنا جن کا خوف ہو لھذا شریعت کی اصطلاح میں تقوی کے معنی ہیں نفس کو گناہ سے محفوظ رکھنا (مفردات راغب مادہ وقی)

متن:

لغت میں تقوی کے معانی
تقوی کا لفظ مادہ وقی سے ہے جس کے معنی ہیں کسی چیز کی حفاظت کرنا ،اس کا بچائو اور دیکھ بھال ۔اتقا کے معنی ہیں محفوظ رکھنا ،لیکن آج تک اردو میں اس کے معنی حفاظت ،بچائواور دیکھ بھال نہیں کیا گیا بلکہ جب یہ اسم کے طور پر استعمال ہوتاہے تو تقوی کا ترجمہ پرہیز کار ی اور متقی کا ترجمہ پرہیزکار کیاجاتاہے جیسے ھدی للمتقین یہ ہدایت ہے پرہیزکاروں کے لئے ۔
البتہ آج تک کسی نے یہ دعوی نہیں کیا کہ تقوی کا ڈر اور خوف سے پرہیز اور اجتناب ہے لیکن چونکہ کسی چیزسے خوف کا نتیجہ اس چیز کا ترک اور اس سے اپنا بچائو لازم ملزوم ہیں ۔
راغب اصفہانی نے اپنی کتاب مفردات القرآن میں لکھتے ہیں:
وقایة کے معنی ہیں کسی چیز کو نقصان دینے والی باتوں سے محفوظ رکھنا اور تقوی کا مطلب ہے ان باتوں سے بچنا جن کا خوف ہو لھذا شریعت کی اصطلاح میں تقوی کے معنی ہیں نفس کو گناہ سے محفوظ رکھنا (مفردات راغب مادہ وقی)
قرآن میں تقوی میں تقوی کا تذکرہ بہت زیادہ ہواہے اور اسی طرح نہج البلاغہ میں جن الفاظ کا زیادہ تکرار ہواہے ان میں سے ایک تقوی ہے بلکہ ایک پورا خطبہ جس کانام خطبہ متقین ہے جس میں متقین کی ایک سو صفات کاذکر ہے ۔
جب ہمام بن شریح نے امام المتقین حضرت علی سے باربار درخواست کی کہ متقین کے اوصاف بیان فرمائے اور اس کی سو سے زائد خصوصیات کا نقشہ کھینچا اور اس کے فکری ،اخلاقی اور عملی اوصاف پر جب بیان ختم ہوا تو مورخین نے لکھا ہے ہمام بن شریح نے ایک چیخ ماری اور وہی جاں بحق ہوگیا ۔
تقوی کے جو لغوی معانی ذکر کیے گئے ان سے کسی حد تک یہ نتیجہ نکلتاہے کہ اسلامی نقطہ نظر سے تقوی کی حیثیت ایک روحانی طاقت کی مانند ہے کیونکہ تقوی کا ملکہ بڑی مشق کے بعدپیداہوتاہے لیکن پھر بھی تقوی از خو د ان باتوں سے مختلف چیز ہے ۔دراصل تقوی وہ بلند اور پاک روحانی طاقت ہے اس لیے اس بات کی کوشش کی جائے کہ تقوی کی حقیقی روح پیدا ہوجائے۔
عِبَادَ اللّٰہِ! أُوصِیْکُمْ بِتَقْوَیٰ اللّٰہِ فَاِنَّھَا حَقُّ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ، وَالْمُوجِبَةُ عَلَیٰ اللّٰہِ حَقَّکُمْ، وَأَنْ تَسْتَعِیْنُوا عَلَیْھَا بِاللّٰہِ، وَتَسْتَعِیْنُوا بِھَا عَلَیٰ اللّٰہِ: فَاِنَّ التَّقْوَیٰ فِی الْیَوْمِ الْحِرْزُ وَالْجَنَّةُ، وَفِی غَدٍ الطَّرِیْقُ اِلَیٰ الْجَنَّةِ۔ مَسْلَکُھَا وَاضِح، وَسَالِکُھَا رَابِح، وَمُسْتَوْدَعُھَا حَافِظ۔ لَمْ تَبْرَحْ عَارِضَةً نَفْسَھَا عَلَیٰ الْأُمَمِ الْمَاضِیْنَ مِنْکُمْ وَالْغَابِرِیْنَ لِحَاجَتِھِمْ اِلَیْھَا غَدًا، اِذاَ أَعَادَ اللّٰہُ مَا اَبْدَیٰ، وَأَخَذَ مَا أَعْطَیٰ وَسَالَ عَمَّا اَسْدَیٰ، فَمَا اَقَلَّ مَنْ قَبِلَھَا وَحَمَلَھَا حَقَّ حَمْلِھَا! أُوْلٰئِکَ الْأَقَّلُونَ عَدَدًا، وَھُمْ اَھْلُ صِفَةِ اللّٰہِ سُبْحَانَہُ اِذْ یَقُولُ: (وَقَلِیْل مِنْ عِبَادِیَ الشَّکُورُ)(خطبہ ١٠)
بندگان خدا! میںتمہیں تقویٰ الٰہی کی نصیحت کرتا ہوں کہ یہ تمہارے اوپر اللہ کا حق ہے اور اس سے تمہارا ١حق پروردگار پیدا ہوتا ہے۔اس کے لئے الہ سے مدد مانگو اور اس کے ذریعہ اسی سے مدد طلب کرو کہ یہ تقویٰ آج دنیا میں سپر اورحفاظت کاذریعہ اور کل جنت تک پہنچنے کا راستہ ہے۔اس کا مسلک واضح اور اس کا راہر و فائدہ حاصل کرنے والا ہے۔
اس کا امانت دار حفاظت کرنے والا ہے۔یہ تقویٰ اپنے کو ان پر بھی پیش کرتا رہا ے جو گزرگئے اور ان پر بھی پیش کر رہا ہے جو باقی رہ گئے ہیں کہ سب کو کل اس کی ضرورت پڑنے والی ہے۔ جب پروردگار اپنی مخلوقات کو دوبارہ پلٹائے گا اور جو کچھ عطا کیا ہے اسے واپس لیلے گا اور جن نعمتوں سے نوازا ہے ان کا سوال کرے گا۔کس قدر کم ہیں وہ افراد جنہوں نے اس کو قبول کیا ہے اور اس کا واقعی حق اداکیا ہے۔یہ لوگ عدد میں بہت کم ہیں لیکن پروردگار کی اس توصیف کے حقدار ہیں کہ'' میرے شکر گزر بندے بہت کم ہیں ''۔
مَنْ رَفَعَتْہُ التَّقْوَیٰ ، وَلاَ تَرْفَعُوا۔جسے تقویٰ بلند کردے اسے پست مت بنائو اور جسے دنیا اونچا بنادے اسے بلند مت سمجھو۔
فَاِنَّ تَقْوَیٰ اللّٰہِ مِفْتَاحُ سَدَادٍ، وَذَخِیْرَةُ مَعَادٍ، وَعِتْق مِنْ کُلَّ مَلَکَةٍ، وَنَجَاة مِنْ کُلَّ ھَلَکَةٍ بِھَا یَنْجَحَ الطَّالِبُ، وَیَنْجُو الْھَارِبُ،وَتُنَالُ الرَّغَائِبُ۔یقینا تقویٰ الٰہی ہدایت کی کلید اور آخرت کا ذخیرہ ہے۔ہر گرفتاری سے آزادی اور ہر تباہی سے نجات کا ذریعہ ہے۔اس کے وسیلہ سے طلب گار کامیاب ہوتے ہیں۔عذاب سے فرار کرنے والے نجات پاتے ہیں اوربہترین مطالب حاصل ہوتے ہیں۔(خطبہ ٢٣٠)
نہج البلاغہ میں تقوی کی حقیقت
مذہبی روایات خصوصا نہج البلاغہ میں تقوی پر بہت زور دیاگیاہے ۔ہر جگہ تقوی اس مقدس ملکہ کے معنی میں استعمال ہواہے جوایسی روحانی طاقت پیداکرتاہے جس سے نفس امارہ اور سرکش نفسانی خواہشات خود بخود مغلوب ہوجاتی ہیں ۔
خطبہ نمبر ١٢ میں امام المتقین حضرت علی فرماتے ہیں:
توقی اللہ کے دوستوں کو برائیوں سے بچاتاہے اور ان کے دل میں خوف خدا پیداکرتاہے یہاںتک کہ وہ صائم النہار اور قائم اللیل بن جاتاہے ۔اس جملہ کی وضاحت میں تقوی کو ایک روحانی طاقت کہاگیاہے جو گناہوں سے محفوظ رکھتاہے اور خوف خدا کو تقوی کا ثمرہ کہاگیاہے اس سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ خود تقوی کے معنی خوف نہیں بلکہ تقوی کا ایک اثر یہ ہے کہ وہ دل میں خوف ِخدا پیداکرتاہے اور نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر ١٦ میں امام فرماتے ہیں
میں جو کچھ کہتاہوں پوری ذمہ داری سے کہتاہوں اور اس کی صحت کاضامن ہوں ۔اگر گذشتہ واقعات سے عبرت کسی آدمی کے لیے واقعات کاآئینہ بن سکے تو تقوی اسے مشتبہ کاموں کے ارتکاب سے روکے گا۔
اسی خطبہ میں ایک جگہ یہ فرماتے ہیں:
یاد رکھو !غلط روی کی مثال سر کش گھوڑوں کی سی ہے جو لگام کو توڑ کر سوار کو بے بس کردیں اور بالآخر اسے آتش ِجہنم میں گرادیں اور تقوی کی مثال ایسے گھوڑوں کی ہے جو رام ہوں اور سوار کے اشارہ پر چلیں اور اسے باغ جنت تک پہنچادیں۔
ہاں جوشخص ہواوہوس ،شہرت طلبی ،حرس ولالچ اور جاہ پسندی کے سر گھوڑے پر سوار ہو اور ان ہی باتوں کے درپے ہو،زمام اختیار اس کے ہاتھ سے چھوٹ جاتی ہے وہ ان ہی باتوں کا ہوکر رہ جاتاہے اور دیوانہ اس کے پیچھے دوڑتاہے ،مصلحت بینی اور مآل اندیشی سے اسے کوئی واسطہ نہیں رہتا لیکن جو توقی پر بھروسہ کرتاہے اور اپنے نفس کو قابو میں رکھتا ہے اسے اپنے آپ پر پورا اختیار رہتاہے اور وہ اپنے نفس کو جدھر چاہے موڑسکتاہے ۔
نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر ١٩ میں امام نے فرمایا:
فان التقوی فی الیوم الحرز والجنة فی غد الطریق الی الجنة۔
انسان کے لیے آج تقوی بمنزلہ ایک حصا ر اور ایک ڈھال کے ہے اور کل جنت کا راستہ ہوگا اور خطبہ نمبر ٥٥ میں تقوی کو بلند ومستحکم پناہ سے تعبیر کیاگیاہے ۔
پس متقی واقعی وہی کہلائے گا جوتقوی کے ہتیار سے اپنے نفس پر قابو پاسکتاہو اور اسے رام کرسکتاہو نفس اسکے تابع نہ یہ کہ وہ نفس کا اسیر ہو۔
تقوی کا اثر
تقوی کا اثر جو انسان کی اخروی زندگی پر مترتب ہوتاہے اس سے قطع نظر انسان کی دنیوی زندگی میں تقوی بڑی قدر ومنزلت ہے حضرت علی نے تقوی کے آثار اور اس کی طرف ترغیب دلائی اور فرمایا:
عتق من کل ملکة نجاة من کل ھلکة۔ یعنی یہ آزادی ہے ہر قسم کی غلامی سے اور ہر قسم کی ہلاکت سے نجات ہے اور پھر فرمایا:
دواء داء قلوبکم ...وشفاء مرض اجسادکم وصلاح فساد صدورکم وطھور دنس انفسکم ۔خطبہ ١٩٨)
تقوی تمہارے دلوں کی بیماری کے لیے دواہے اور تمہارے جسمانی امراض کے لیے شفاہے ،تمہارے سنیوں کی خرابی کی اصلاھ کرتاہے اور تمہارے نفسوں کی پاکیزگی کا ذریعہ ہے ۔تقوی انسان کو براہ راست روحانی اور اخلاقی آزادی عطاکرتاہے اور ہواوہوس کی غلامی سے نجات دیتاہے ،حرص ،حسد اور غنم وغصہ کی زنجیروں سے اس کی گردن کو چھڑاتاہے اور معاشرتی غلامی سے روحانی غلامی کی طرف منتقل کرتاہے جو آدمی دولت وعذت کا غلام ہے معاشرتی اعتبار سے بھی آزادانہ زندگی نہیں گزار سکتاہے اس لیئے امام المتقین حضرت علی نے فرمایا: عقت من کل ملکة،تقوی نہ صرف یہ کہ کسی قسم کی پابندی نہیں بلکہ عین حریت اور آزادی ہے کہ جو اسلام کے دائرے میں اسے لاکر کھڑا کرتی ہے ۔
تقوی کی حفاظت
امام المتقین امیر المومنین فرماتے ہیں:
اوصیکم عباد اللہ بتقوی اللہ فانھا حق اللہ علیکم والموجبة علی اللہ حقکم وان تستعینوا علیھا با اللہ وتستعینوا بھا علی اللہ۔خطبہ نمبر ١٩١ )
اے اللہ کے بندو! میں تمہیں تقوی اختیار کرنے کی نصیحت کرتاہوں کیونکہ تقوی تمہارے اوپر اللہ کا حق ہے اور اس کی وجہ سے تمہارا بھی اللہ پر حق ہے تم اللہ سے مدد طلب کرو کہ وہ تمہیں تقوی کی توفیق دے اور تقوی کے ذریعہ اللہ تک پہنچنے میں مدد حاصل کرو ۔
دین کی بنیاد تقوی پر ہے
حقیقتا تقوی کی بنیاد محض دین پر ہے اور دین کی بنیاد پر مستحکم اور اصولی تقوی وجود میں آتاہے ۔ایمان بااللہ کی مضبوط بنیاد کے علاوہ تقوی کے لئے اور کوئی مستحکم اور قابل اعتماد بنیاد موجود ہی نہیں ۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
کیا وہ شخص بہتر ہے کہ جس نے اپنی زندگی کی بنیاد تقوی اور رضائے الہی پر رکھی ہو یا وہ جس نے اپنی بنیاد کھوکھلی اور غیر مستحکم کگر پر اٹھائی اور وہ اسے لے کر سیدھی جہنم میں جاگری ۔ایسے ظالم لوگوں کو اللہ تعالی کبھی سیدھی راہ نہیں دکھاتا (سورہ توبہ آیت ١٠٩)
اہلبیت علیھم السلام نے تقوی کو حصار ،قلعہ اور اسی طرح کی چیزوں سے تشبیہ دی ہے اور تقوی بھی روح کے لئے ایساہی ہے جیسے زندگی بسر کرنے کے لئے گھر اور بدن کے لئے کپڑے کی ضرورت ہے قرآن مجید میں چند کپڑوں کا نام لے کر اللہ تعالی فرماتاہے: ولباس التقوی ذلک خیر ۔(سورہ اعراف آیت ٢٦)
یعنی توقی جو روح کا لباس ہے سب سے بہتر ہے ۔حضرت امیر المومنین فرماتے ہیں: الا فصونوا ھا وتصونواَ۔(خطبہ ١٩١)یعنی تقوی کی حفاظت کرو او ر اس کے زریعہ سے خود اپنا تحفظ کرو ۔حضرت امام المتقین علی اس سے بڑھ کر تقوی کی تعبیر یوں فرماتے ہیں: تقوی راہ راست کی کنجی اور آخرت کی پونجی ہے ۔اس سے ہرقسم کی غلامی سے آزادی اور ہر مصیبت سے نجات ملتی ہے ۔تقوی کے ذریعہ آدمی اپنا مقصد حاصل کرتاہے اور دشمن سے چھٹکارا پاتاہے اور اس کے ذریعہ اس کی خواہشیں پوری ہوتی ہیں(خطبہ ٢٢٨)
شہید مطہری اپنی کتاب دہ گفتار میں فرماتے ہیں:
موجودہ دور میں ہم بے شمار معاشرتی مسائل میں گھرے ہوئے ہیں جن کے متعلق لوگوں میں واویلا مچاہواہے ۔لوگ پوچھتے ہیں کہ طلاق کے واقعات کیوں روز بروز بڑھ رہے ہیں ؟قتل وچوری کے جرائم میں اضافہ کیوں ہورہاہے؟
ملاوٹ،سود اور دھوکہ بازی کیوں عام ہے؟ بے حجابی وفحاشی کیوں بڑھ رہی ہے ؟ بلاخوف وتردید یہ کہا جاسکتاہے کہ ان خرابیوں کا ایک ہی بڑا سبب ہے وہ ہے ایمان وتقوی کی کمزوری اس سے بھی عجیب تر بات یہ ہے کہ لوگ خود ہمیشہ یہ سوال اٹھاتے ہیں ،ا ن مسائل پر لکھتے ہیں لیکن چونکہ ایمان وتقوی کے عناصر سے محروم ہیں اس لئے کوشش کرتے ہیں کہ ان مسائل کے اصل اسباب کی طرف لوگوں کو متوجہ نہ ہونے دیں اور ان میں اخلاقی انتشار پیدا کرتے رہیں ۔نعوذ باللہ اگر ایمان وتقوی کی حقیقت چھپی رہے تو یہ ممکن ہے کل کچھ لوگ یہ بھی پوچھنے لگیں گے کہ ہم چوری کیوں نہ کریں ،دھوکہ کیوں نہ دیں ملاوٹ کیوں نہ کریں....؟(دہ گفتار ص ٥٤)
متقین کی صفات
خطبہ ہمام سے کچھ فرازیہاں پر ذکر کرنا ضروری سمجھتی ہوںکہ جس میں ایک سو صفات ِمتقی کو امام المتقین حضرت علی نے ہمام سے بیان فرمایا:
کہاجاتاہے امیر المومنین کے ایک عابد و زاہد صحابی جس کانام ہمام تھا ایک دن حضرت سے عرض کرنے لگے کہ حضور مجھ سے متقین کے صفات کچھ اس طرح بیان فرمائیں کہ گویا میں ان کو دیکھ رہاہوں ۔ آپ نے جواب سے گریز کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمام اللہ سے ڈرد اور نیک عمل کرد کہ اللہ تقوی اور حسن عمل والوں کو دوست رکھتا ہے ۔
ہمام اس مختصر بیان سے مطمئن نہ ہوئے تو حضرت نے حمد و ثنائے پروردگارا اور صلوات وسلام کے بعد ارشاد فرمایا : پروردگا ر نے تمام مخلوقات کو اس عالم میں پیدا کیاہے کہ وہ ان کی اطاعت سے مستغنی اور ان کی نافرمانی سے محفوظ تھا ۔
لانہ لا تضرہ معصیة من عصاہ ، ولا تنفعہ طاعة من اطاعہ . فقسم بینھم معایشھم ، ووضھم من الدنیا مواضعھم
نہ اسے کسی نافرن کی معصیت نقصان پہونچا سکتی تھی اور نہ کسی اطاعت گذار کی اطاعت فائدہ دے سکتی تھی ۔ اس نے زندگی کا سرو سامان اوردنیا میں ایک منزل قراردے دی ۔
فالمتقون فیھا ھم اھل الفضائل:منطقھم الصواب،وملبسھم الاقتصاد،ومشیھم التواضع .غضوا ابصارھم
اس دنیا میں متقی افراد وہ ہیں جوصاحبان فضائل وکمالات ہوتے ہیں کہ ان کی گفتگو حق و صواب ، ان کا لباس معتدل ، ان کی رفتار متواضع ہوتی ہے ۔
عما حرم اللہ علیھم ، ووقفوا اسماعھم علی العلم النافع لھم . نزلت انفسھم منھم فی البلاء کالتی نزلت فی الرخاء .
جن چیزوں کو پروردگا نے حرام قراردے دیا ہے ان سے نظروں کو نیچار کھتے ہیں اور اپنے کانوں کو ان کے نفوس بلاء و آزمائش میں ایسے ہی رہتے ہیں جیسے راحت وآرام میں ۔
ولو لا الاجل الذی کتب اللہ علیھم لم تستقر ارواحھم فی اجسادھم طرفة عین شوقا الی الثواب ، وخوفا من العقاب ۔
اگرپروردگار نے ہر شخص کی حیات کی مدت مقررنہ کردی ہوتی تو ان کی روحیں ان کے جسم میں پلک جھپکنے کے برابر بھی ٹھہر نہیں سکتی تھیں کہ انھیں ثواب کا شوق ہے اور عذاب کا خوف ۔
عظم الخالق فی انفسھم فصغر مادونہ فی اعینھم فھم والجنة کمن قد رآھا . فھم فیھا منعمّون، وھم والنار کمن قد رآھا ، فھم فیھا معذبون .
خالق ان کی نگاہ میں اسقدر عظیم ہے کہ ساری دنیا نگاہوں سے گرگئی ہے ۔ جنت ان کی نگاہ کے سامنے اس طرح ہے کہ نعمتوں سے لطف اندوز ہورہے ، ہوں اور جہنم کو اس طرح دیکھ رہے جیسے اس کے عذاب کو محسوس کررہے ہوں ۔
قلوبھم محزونة ، وشرورھم مامونة ، واجسادھم نحیفة ، وحاجاتھم خفیفة ، وانفسھم عفیفة۔
ان کے دل نیکیوں کے خزانے ہیں اور ان سے شرکا کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ ان کے جسم نحیف اور لاغر اور ان کی ضروریات نہایت درجہ مختصر اور ان کے نفوس بھی طیب و طاہر ہیں ۔
صبروا ایاما قصیرة اعقبتھم راحة طوایلة . تجارة مربحة یسرھالھم ربھم۔
انھوں نے دنیا میں چنددن تکلیف اٹھا کرابدی راحت کا انتظام کرلیااور ایسی فائدہ بخش تجارت کی ہے جس کا انتطام پروردگار نے کردیاتھا۔
ارادتھم الدنیا فلم یریدوھا ، واسرتھم ففدوا انفسھم منھا .
دنیا نے انھیں بہت چاہا لیکن انھوں نے اسے نہیں چاہا اور اس نے انھیں بہت گرفتار کرنا چاہا لیکن انھوں نے فدیہ دے کراپنے کو چھڑالیا۔
اما الیل فصافون اقدامھم ، تالین لاجزاء القرآن یرتلونھا ترتیلا ؛یحزنون بہ انفھم ، ویستثیرون بہ دواء دائھم ؛
راتوں کے وقت مصلی پر کھڑے رہتے ہیں ۔ خوش الحانی کے ساتھ تلاوت قرآن کرتے رہتے ہیں ۔ اپنے نفس کو محزون رکھتے ہیں اور اسی طرح اپنی بیماری دل کا علاج کرتے ہیں ۔
فاذا مروا بآیة فیھا تشویق رکنوا الیھا طمعا ، وتطلعت نفوسھم الیھا شوقا ، وظنوا انھا نصب اعینھم .
واذا مروا بآیة فیھا تخویف اصغوا الیھا مسامع قلوبھم ، وظنوا ان زفیر جھنم و شھیقھا فی اصول آذانھم
جب کسی آیت ترغیب سے گذرتے ہیں تو اس کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں اور جب کسی آیت ترہیب تخویف سے گذرتے ہیں تو دل کے کانون کو اس کی طرف یوں مصروف کردیتے ہیں جیسے جہنم کے شعلوں کی آواز اور وہاں کی چیخ پکار مسلسل ان کے کانوں تک پہونچ رہی ہو ۔
فھم حانون علی اوساطھم ، مفترشون لجباھھم واکفھم ورکبھم ، واطراف اقدامھم ، یطلبون الی اللہ تعالی فی فکاک رقابھم ۔
یہ رکوع میںکمر خمیدہ اور سجدہ میں پیشانی ۔ ہتھیلی ۔ انگلیوں اور گھٹنوں کو فر ش خاک کئے رہتے ہیں پروردگار سے ایک ہی سوال کرتے ہیں کہ ان کی گردنوں کو آتش جہنم سے آزاد کردے ۔
واما النھار فحلماء علماء ابرار اتقیاء قد براھم الخوف بری القداح ۔
اس کے بعد دن کے وقت یہ علما ء ادر دانشمند نیک کردار اور پرھیزگار ہوتے جیسے انھیں تیر انداز کے تیر کی طرح خوف خدا نے تراشاہو۔
ینظر الیھم الناظر فیحسبھم مرضی ، وما بالقوم من مرض ؛ ویقول لقد خولطوا !
دیکھنے والاانھیں دیکھ کربیمار تصور کرتاہے حالانکہ یہ بیمار نہیں میں اور ان کی باتوں کوسنتا ہے کہ ان کی عقلوں میں فتور ہے حالانکہ ایسا بھی نہیں ہے۔
ولقد خالطھم امر عظیم !لا یرضون من اعمالھم القلیل ، ولا یستکبرون الکثیر۔
بات صرف یہ ہے کہ انھیں ایک بہت بڑی بات نے مدہوش بنارکھا ہے کہ یہ نہ قلیل عمل سے راضی ہوتے ہیں اور نہ کثیر عمل کو کثیر سمجھتے ہیں ۔
فھم لانفسھم متھمون ، ومن اعمالھم مشفقون ؛ اذا زکی احد منھم خاف مما یقال لہ ۔
اور کہتا ہے کہ میں خود اپنے نفس کو دوسروں سے بہتر پہچانتاہوں اور میرا پرورودگار تومجھ سے بھی بہتر جانتاہے ۔
فیقول : انا اعلم بنفسی من غیری ، وربی اعلم بی منی بنفسی۔
ہمیشہ اپنے نفس پرکوتاہیوںکاالزام رکھتے ہیں اور اپنے اعمال ہی سے خوفزدہ رہتے ہیں جب ان کی تعریف کی جاتی ہے تو اس سے خوفزادہ ہوجاتے ہیں۔
!اللّھم لا تو اخذنی بما یقولون ، واجعلنی افضل مما یظنون ، واغفر لی ما لا یعلمون.
خدایا ۔ مجھ سے ان کے اقوال کا محاسبہ کرنا اور مجھے ان کے حسن ظن سے بھی بہتر قرار دینا اور پھران گناہوں کو معاف بھی کردینا جنھیں یہ سب نہیں جانتے ہیں ۔
فمن علامة احدھم انک تری لہ قوة فی دین، وحزما فی لین ، وایمانا فی یقین ، وحرصا فی علم ، وعلما فی حلم وہٰذا فی غنی وخشوعًا فی عبادةٍ وتجملًا فی فاقة و صبرا فی شدة ، وطلبا فی حلال ، ونشاطا فی ھدی ، وتحرجا عن طمع ۔
ان کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ تم اس کے دین میں قوت نرمی اورخوش خلقی کے ساتھ دور اندیشی، یقین میں ایمان ، و استواری ،بردباری کے ساتھ دانائی ، حلم کی منزل میں علم ، مالداری میں میانہ روی ، عبادت میں خشوع قلب ، فاقہ میں خودداری ، سختیوں میں صبر ، طلب رزق میں حلال پر نظر، ہدایت میں نشاط ، لالچ سے پرہیز جیسی تمام باتیں پائی جاتی ہیں ۔
یعمل الاعمال الصالحة وھو علی وجل یمسی وھمہ الشکر ، ویصبح وھمہ الذکر۔
وہ نیک اعمال بھی انجام دیتے ہیں ۔ شام کے وقت ان کی فکر شکر پروردگار ہوتی ہے اورصبح کے وقت ذکر الہٰی ۔
یبیت حذرا، ویصبح فرحا ؛ حذرا لما حذر من الغفلة ، وفرحا بما اصاب بما اصاب من الفضل والرحمة .
خوفزدہ عالم میں رات کرتے ہیں اور فرح و سرورمیں صبح ۔ جس غفلت سے ڈرایا گیا ہے اس سے محتاط رہتے ہیں اور جس فضل و رحمت کا وعدہ کیا گیا ہے اس سے خوش رہتے ہیں ۔
ان استصعب علیہ نفسہ فیھا تکرہ لم یعطھا سؤلھا فیھا تحب ۔
اگر نفس ناگوار امر کے لئے سختی بھی کرے تو اس کے مطالبہ کو پورا نہیں کرتے ہیں ۔
قرة عینہ فیما لا یزول ، وزھادتہ فیھا لا یبقی ، یمزج الحلم بالعلم ، والقول بالعمل ۔
ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک لازوال نعمتوں میں ہے اور ان کا پرہیز فانی اشیاء کے بارے میں ہے ۔ یہ حلم کو علم سے اور قول کو عمل سے ملائے ہوئے ہیں ۔
تراہ قریبا املہ قلیلا زللہ ، خاشعا قلبہ ، قانعة نفسہ ، منزورا اکلہ ، سھلا امرہ ، حریزا دینہ ، میتة شھوتہ ، مکظوما غیظہ .
تم ہمیشہ ان کی امیدوں کو مختصر دل کو خاشع ۔ نفس کو قانع ، کھانے کو معمولی ، معاملات کو آسان ، دین کو محفوظ ، خواہشات کو مردہ اور غصہ کو پیاہوا دیکھو گے ۔
الخیرمنہ مامول ، والشر منہ مامون ان کان فی الغافلین کتب فی الذاکرین وان کان فی الذاکرین لم یکتب من لغافلین ۔
ان سے ہمیشہ نیکیوں کی ایسے امید رہتی ہے اور انسان ان کی طرف سے محفوظ رہتا ہے ۔ یہ غافلوں میں نظر آئیں تو بھی یاد خدا کرنے والوں میں کہے جاتے ہیں اور یاد کرنے والوں میں نظر آئیں تو بھی غافلوں میں شمار نہیں ہوتے ہیں ۔
یعفو عمن ظلمہ و یعطی من قطعہ بعیدًا فحشہ لینا قولہ ، غائبا منکرہ ، حاضرا معروفہ ، مقبلا خیرہ ، مدبرا شرہ . فی الزلازل وقور ، وفی المکارہ صبور، وفی الرخاء شکور .
ظلم کرنے والے کو معاف کردیتے ہیں ۔ محروم رکھتے والے کو عطا کردیتے ہیں ۔ قطع رحم کرنے والوں سے تعلقات رکھتے ہیں ۔ لغویات سے دور ۔ نرم کلام ۔ منکرات غائب ۔نیکیاں حاضر۔ خیر اناہوا ۔ شرجاتاہوا ۔ زلزلوں میں باوقار ۔ دشوریوں میں صابر۔ آسانیوں میں شکر گذار ۔
لا یحیف علی من یبغض ، ولا یاثم فیمن یحب . یعترف بالحق قبل ان یشھد علیہ۔
دشمن پرظلم نہیں کرتے ہیں چاہنے والوں کی خاطر گناہ نہیں کرتے ہیں ۔ گواہی طلب کئے جانے سے پہلے حق کا اعتراف کرتے ہیں ۔
لا یضیع ما اسحفظ ولا ینسی ما ذکر ، ولا ینابز بالالقاب ، ولا یضار بالجار۔
امانتوں کو ضائع نہیں کرتے ہیں ۔ جوبات یاددلادی جائے اسے بھولتے نہیں ہیں اور القاب کے ذریعہ ایک دوسرے کو چڑھاتے نہیںہیں اور ہمسایہ کو نقصان نہیں پہونچاتے ہیں ۔
ولا یثمت بالمصائب ولا یدخل فی الباطل ، ولا یخرج من الحق۔
مصائب میں کسی کو طعنے نہیں دیتے ہیں ۔ حرف باطل میں داخل نہیں ہوتے ہیں اور کلمہ حق سے باہر نہیں آتے ہیں ۔
ان صمت لم یغمہ صمتہ ، وان ضحک لم یعل صوتہ ، وان بغی علیہ صبر حتی یکون اللہ ھوالذی ینتقم لہ .
یہ چپ رہیں توان کی خموشی ہم و غم کی بنا پر نہیں ہے اور یہ سنتے ہیں تو ّواز بلند نہیں کرتے ہیں۔ ان پر ظلم کیا جائے تو صبر کرلیتے ہیں تا کہ خدا اس کا انتقام لے ۔
نفسہ منہ فی عناء ، والناس منہ فی راحة اتعب نفسہ لآخرتہ ، واراح الناس من نفسہ .
ان کا اپنا نفس ہمیشہ رنج میں رہتا ہے اور لوگ ان کی طرف سے ہمیشہ مطمئن رہتے ہیں ۔
بعدہ عمن تباعدہ عنہ زھد ونزاھة ، ودنوہ ممن دنا منہ لین ورحمة ، لیس تباعدہ بکبر و عطمة ، ولا دنوہ بمکر وخدیعة .
انھوں نے اپنے نفس کو آخرت کے لئے تھکاڈ الاہے اور لوگ ان کے نفس کی طرف اور مرحمت کی بنا ر ہے ۔ نہ دوری تکبر و برتری کا نتیجہ اور نہ قربت مکر و فریب کا نتیجہ ہے۔
قال : فصعق ھمام صعقة کانت نفسہ فیھا ۔
راوی کہ تا ہے کہ یہ سُن کہ ہمام نے ایک چیخ ماری اور دنیا سے رخصت ہوگئے ۔
تو امیر المومنین نے فرمایا کہ میں اسی وقت سے ڈر رہا تھا کہ میں جانتا تھا کہ صاحبان تقوی کے دلوں پر نصیحت کا اثراسی طرح ہوا کرتا ہے ۔
یہ سننا تھا کہ ایک شخص بول پڑا کہ پھر آپ پر ایسا اثر کیوں نہیں ہوا ؟
تو آپ نے فرمایا کہ خدا تیرا بُرا کرے ۔ ہر اجل کے لئے ایک وقت معین ہے جس سے آگے بڑھنانا ممکن ہے اور ہر شے کے لئے ایک سبب ہے جس سے تجاوز کرنا ناممکن ہے ۔
خبر دار اب ایسی گفتگو نہ کرنا ۔ یہ شیطان نے تیری زبان پر اپنا جادو پھونک دیاہے ۔(خطبہ نمبر١٩٣معروف بہ خطبہ ہمام)
آخر میں دعا کرتا ہوں کہ خدا وند متعال ہمیں تقوی کی صفت سے آراستہ فرمائے ۔امین

.....

توبہ؛ نہج البلاغہ کي روشني ميں

واقعاً گناہ اور نافرماني انسان کے دامن عصمت پر ایک بد نما داغ ہے کہ اگر رہ جاے توانسان کي دنیا و آخرت کو بد نما بنا دے ليکن اس سے بھي کہیں زیادہ برا گناہ کے بعد توبہ اور اس کي بھرپائي میں غفلت وکوتاہي کرنا یا سرزد ہونے والے گناہ و خطا کو چھوٹا سمجھ کر نظر انداز کرنا ہے کیونکہ انسان کي یہ غفلت اس کو ایک بڑے خسارے کي طرف دعوت دیتي ہے کہ جس کا تدارک ناممکن ہوتا ہے ۔ گناہ سے کہیں زیادہ گناہ گار وہ جو اپنے نفس کو دھوکا دے اور توبہ و استغفار میں سبقت کے بجائے سستي سے کام لے جیسا کہ امیرالمومنین ٴ بیان فرماتے ہیں:خدا کے نزدیک مطیع ترین شخص وہ ہے جو اپنے نفس کو نصیحت کرے اور گناہ گار ترین وہ ہے جو اپنے نفس کو دھوکا دے۔ واقعاً نفس کو فریب دینے والا خسارہ میں ہوگا

متن:

1. توبہ کا لغوي اور اصطلاحي معني:

''توبہ ‘‘ کلمہ توب سے لیاگیا ہے جس کے اصل معني پلٹنے اور واپس آنے کے ہیں۔ چونکہ خالق کاینات،مالک انس وجن نے انساني سعادت و بلندي کي خاطر آئين حیات کے عنوان سے کچھ اصول وقوانین عاید کر کے انسان کو ان کي اتباع کا پابند بنایا جنہیں شریعت کي زبان میں احکام خمسہ اور دنیائے اخلاق و ادب میں اعمال فضایل ورزایل کے نام سے جانا جاتاہے، اس طرح انساني اعمال و افکار الٰہي حدود ونگراني میں حفظِ مراتب کا سرمايہ بن کرصفحہ وجود انساني پرابھرتے ہيں۔پس اس حدودونگراني ميں رہ کر مقاصدِ حیات کي تکمیل کو اطاعت و بندگي اور اس سے تجاوزو کو گناہ ومعصیت سے تعبیر کیا جاتا ہے اور دوبارہ ندامت وپشیماني کے احساس کے ساتھ حدود میں پلٹ آنے کے عمل کو توبہ اور پلٹنے والے کو توّاب يا تائب کہا جاتا ہے جو نگاہ پروردگار میں ایک بلند مقام حاصل کرتا ہے اور ''ان اللہ یحبّ التوابین‘‘کامصداق بنتاہے لہٰذا اگر عمداً یا سہواً گناہ و معصیت کے ذریعہ حدود ِالٰہي سے تجاوز کر جائے تو عقل ودانائي کا تقاضيٰ یہي ہے کہ اعمال ِخلاف ِالٰہي کو صدق قلب اور احساس پشیماني کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ترک کرتا ہوا عفوو بخشش کي امید کے ساتھ بارگاہ رب العزّت میں پلٹ آے ۔اس حقیقت کو راغب اصفھاني اس طرح قلم بند کرتے ہيں۔ ''التوبہ ترک الذنب علي اجمل الوجوہ و ھوا بلغ وجوہ الاعتذار‘‘(مفردات راغب٧٦).

2. توبہ دایرہ شریعت میں :

یوں تو توبہ کے لیے ہر علم ومجال میں مختلف شرایط بیان کیے گے ہیں جن میں سے بعض کمال توبہ تو بعض صحت توبہ پر منطبق ہوتے ہیں لہٰذا دایرہ شریعت میں بیان ہونے والے شرایط و ضوابط کا تعلق توبہ کي قبولیت اور صحت پر ہے نہ کہ اس کے کمال و مراتب پر اور یہ شرایط صحت و قبول توبہ ،کے مرحلہ اول سے تعلق رکھتے ہیں۔نگاہ شریعت میں توبہ کي قبولیت کے لیے چار بنیادي شرئط ہیں :

١۔ گناہ کو برا جانتے ہوے ترک کرنا۔ ''ترک الزنب لقبحہ‘‘

٢۔ گناہ کي انجام دہي پر پشیمان ہونا۔ ''والندم علي مافرط منہ‘‘

٣۔ دوبارہ گناہ کي طرف نہ پلٹنا۔ ''والفرمۃ علي ترک المعاورۃ‘‘

٤۔ ترک شدہ وظیفہ کي قضا کرنا۔ ''وتدارک ما امکنہ ان تبدارک من الاعمال بالاعادہ‘‘ (مفردات راغب ٧٢).

3. بدتر گناہ وبدترين گناہگار:

واقعاً گناہ اور نافرماني انسان کے دامن عصمت پر ایک بد نما داغ ہے کہ اگر رہ جاے توانسان کي دنیا و آخرت کو بد نما بنا دے ليکن اس سے بھي کہیں زیادہ برا گناہ کے بعد توبہ اور اس کي بھرپائي میں غفلت وکوتاہي کرنا یا سرزد ہونے والے گناہ و خطا کو چھوٹا سمجھ کر نظر انداز کرنا ہے کیونکہ انسان کي یہ غفلت اس کو ایک بڑے خسارے کي طرف دعوت دیتي ہے کہ جس کا تدارک ناممکن ہوتا ہے ۔ گناہ سے کہیں زیادہ گناہ گار وہ جو اپنے نفس کو دھوکا دے اور توبہ و استغفار میں سبقت کے بجائے سستي سے کام لے جیسا کہ امیرالمومنین ٴ بیان فرماتے ہیں:''خدا کے نزدیک مطیع ترین شخص وہ ہے جو اپنے نفس کو نصیحت کرے اور گناہ گار ترین وہ ہے جو اپنے نفس کو دھوکا دے۔ واقعاً نفس کو فریب دینے والا خسارہ میں ہوگا۔‘‘(خطبہ ٨٦۔٣).

چونکہ گناہ کرنے والا ضمیر کي آواز کو نظرانداز کرکے نفس کي ہمراہي اختیار کرتا ہوا گناہ اور نافرماني سے ہمکنار ہوتا ہے، ندامت و پشیماني کے بجائے غفلت و کوتاہي اس کے وجود ناقص پر خیمہ زن نظر آتي ہے اور علي الظاہر وہ اپني خود مختار زندگي پر مطمئن و شاد نظر آتا ہے ليکن حقیقت امر یہ ہے کہ وہ اپنے اور اپنے نفس کے ساتھ دھوکہ کر رہا ہے۔ یقیناً نگاہ پروردگار میں بد ترین گناہ،گناہ کو سبک جاننا اور توبہ و استغفار سے اس کي بھرپائي کے بجائے اس کو نظرانداز کرکے مطمئن ہو جانا ہے۔ جیسا کہ امیرالمومنین ٴ فرماتے ہیں :''بد ترین گناہ وہ گناہ ہے جسکو گناہ گار چھوٹا جانے۔‘‘ (حکمت ٤٧٧ ).

4. توبہ انساني کے مرا حل: توبہ انسان کے چار اہم مرحلے ہیں :

١۔ تہ دل سے ،سرزد ہونے والے اعمال پر نادم و پشیمان ہونا۔''التوبہ ندم بالقلب‘‘

٢۔ دل کي پشیماني کو استغفار کي شکل میں زبان پر لانا اور خدا سے طلب استغفار کرنا۔''واستغفار با للسان‘‘

٣۔ اس برائي اور گناہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ترک کر دینا۔ ''و ترک بالجوارح‘‘

٤۔ گناہ کي طرف کبھي نہ پلٹنے کا تہ دل سے ارادہ کرنا ۔''واضمار الايعود‘‘

١۔ گناہ گار وںپرخدا کي عنایت : خدا اپنے بندوں پر اس قدر مہربان و شفیق ہے کہ بندوں کي نافرماني اور گناہ کے باوجود بھي بندوں پر اپني مہرباني اور لطف کو کم نہیں کرتا بلکہ فیض و کرم کا دریا جاري رکھتا ہے اور زندگي کے آخري حصہ تک بندے کے توبہ کرنے اور پلٹنے کا منتظر رہتا ہے۔ یہاں پر گناہ کے باوجود گناہ گار بندوں پر خدا کي بعض عنایت خاص کا ذکر قابل توجہ ہے:

أ‌. توبہ کا دروازہ بند نہیں کرتا:

خدا وند عالم گناہ کے باوجود اپنے بندے کي امید کو منقطع نہیں کرتا بلکہ توبہ و استغفار کے راستے اسکي تطہیر کا دروازہ کھول رکھا ہے تاکہ بندہ اپنے نامہ اعمال کو دوبارہ گناہوں سے پاک کر سکے۔ خدا کے لا يحصي احسانات ميںسے اس کا ایک احسان یہ ہے کہ توبہ کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بندوں پر کھول رکھا ہے۔ ( حکمت ٦٣٥ )

ب‌. گناہ کے بعد بھي توبہ کا دروازہ بند نہیں کرتا:

نہ جانے کتنے گناہ ایسے ہیں جو نزول رحمت و نعمت کا سلسلہ روک دیتے ہیں، انسان پر نعمت و رحمت کے دروازے بند ہو جاتے ہیں، انسان خوشگوار خوشبختي کي حالت سے نکل کر مصیبتوں اور بدبختي کي منزل میں آ جاتا ہے، انسان کے گناہ بڑھتے جاتے ہیں یہاں تک کہ خدا کي جانب سے نازل ہونے والي ساري نعمتوں کا سلسلہ رک جاتا ہے جہاں دور دور تک امید کي کوئي کرن نظر نہیں آتي، سارے راستوں اور تدبیروں کا سدباب ہو جاتا ہے۔ ایسي ناگوار کیفیت و حالت میں بھي باب توبہ کھلا رہتا ہے اور بندے کو امید کي روشني دیتا رہتا ہے۔ یہ تو خدا کي ایک خاص عنایت ہے کہ تمام دروازوں کے بند ہونے کے باوجود بھي توبہ کا دروازہ کھلا رہتا ہے۔جیسا کہ حضرت عليٴ فرماتے ہیں: ''خدا کے احسانوں میں ایک احسان یہ ہے کہ ارتکاب گناہ کے باوجود بھي اس نے توبہ و استغفار کا دروازہ بند نہیں کیا۔‘‘ (نامہ٣١۔١٠)

ت‌. گناہ کے فوراً بعد عذاب نہیں کرتا:

خدا کے احسانات میں سے ایک یہ بھي ہے کہ گناہ کے فوراً بعد بندے کا نہ تو محاکمہ کرتا ہے اور نہ ہي عذاب میں مبتلا کرتا ہے بلکہ زندگي کے آخري حصہ تک توبہ و استغفار کي مہلت دیتا ہے اور بندے کے پلٹنے کا منتظر رہتا ہے ورنہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بندہ ادھر گناہ کا ارتکاب کرے ادھر فوراً اس کو اس کے گناہ کي سزا مل جائے مگر اپنے نفس پر رحمت کو مقدم کرنے والے خدا نے اپنے بندوں پر ایک اور احسان کرتے ہوئے عذاب میں تعجیل سے کام نہیں لیا :''اس کا ایک احسان یہ بھي ہے کہ عذاب و سزا میں تعجیل سے کام نہیں لیتا۔‘‘ ( نامہ٣١۔١٠)

ث‌. توبہ کو عیب نہیں جانا:

خدا کا ایک یہ بھي خاص لطف رہا ہے کہ توبہ کو نہ صرف يہ کہ قبیح عمل نہیں جانا بلکہ ایک احسن عمل کا درجہ دیا ۔ جیسا کہ حضرت عليٴ فرماتے ہیں:''توبہ کر کے لوٹ آنے کو عیب نہیں جانا۔‘ ‘( نامہ ٣١-١٠)

٥۔ بندوں کو رسوا نہیں کرتا:

ذرہ کو آفتاب اور عدم کو وجود میں بدلنے والا پروردگار اپنے بندوں کو کس قدر چاہتا ہے کہ نہ تو خود بندوں کو رسوا کرتا ہے اور نہ ہي کسي کو اجازت دیتا ہے کہ کوئي اس کے بندوں کو ذلیل اور رسوا کرے ۔اس کا یہ لطف صرف پاک دامن اور محسن صفت انسان ہي کے ساتھ نہیں بلکہ گناہ گار بندوں کے ساتھ بھي اس کا یہي شیوہ رہاہے لہٰذا اس نے بھي بندوں کو حکم نہیں دیا کہ اپنے گناہ لوگوںکو بتائے تاکہ اس کي آبرو لوگوں کے درمیان سے چلي جائے، سماج سے اپنا مقام و منزلت کھو دے اورنگاہ انسانیت میں اس کي حیثیت گرجائے۔ اگر وہ چاہتا تو گناہ کرنے والے کو دنیا میں رسوا وذلیل اور آخرت میں عذاب سے ہمکنار کرتا ليکن بندوں سے بے پناہ محبت کرنے والا کس قدر ستار العیوب ہے کہ اپني نافرماني کرنے والے کے عیوب کو بھي لوگوں پر فاش نہیں کرتا اور اگر بندہ گناہوں کي توبہ کر لے تو بندے کو یوں طاھر و پاک کر دیتا ہے جیسے اس نے کوئي گناہ کیا ہي نہ ہو۔

''خدا کا ایک احسان یہ بھي رہا ہے کہ گناہ کے باوجود اس نے تم کو رسوا نہیں کیا‘‘۔(نامہ٣١۔١٠).

٦۔ توبہ کومشکل نہیں بنایا:

اپنے بندوں پر بے پناہ شفقت کرنے والے خدا نے جہاں توبہ کو بخشش گناہ کا ذریعہ قرار دیا وہیں توبہ کے لیے کوئي سنگین اور بھاري شرایط بھي بیان نہیں کیے کہ جن کي ادایگي بندوں پر سخت ہوتي اور بندہ گناہ کي معافي سے عاجز رہتا۔ خدا کي اس عنایت کو حضرت عليٴ ان جملوں میں بیان فرماتے ہیں:''خدا کي ایک عنایت یہ بھي ہے کہ توبہ و استغفار کے لیے دشوار و سنگین شرایط نہیں رکھے‘‘۔(نامہ ٣١۔١٠)

٧۔ نا امید نہیں کرتا:

جہاں گناہوں کے سبب نزول نعمت و برکت کا سلسلہ رک جاتا ہے اور انسان نا امیدي کے اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ جہاں سے کسي طرح کي کوئي امید نظر نہیں آتي اور زندگي کا مقدر ناکامي اور شکست بن جاتي ہے وہاں پر بھي خدا اپني رحمت سے بندے کو نا امید نہیں کرتابلکہ توبہ کا دروازہ کھول کر اس کي امید کو عروج بخشاہے۔ جیسا کہ حضرت عليٴ فرماتے ہیں:''گناہ کے باوجود بھي اس نے تم کو نا امید نہیں کیا۔‘‘ (نامہ ٣١۔١٠).

٨۔ گناہ سے زیادہ سزا نہیں دیتا:

خدا کا بندوں پر ایک یہ بھي بڑا لطف رہا ہے کہ جہاں ایک نیکي اور ثواب کو دس نیکي کے برابر حساب کرتا ہے وہیں ایک گناہ کو ایک ہي جانتا ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے کہ جسکا تذکرہ قرآن میں بھي بیان ہوا ہے گویا اس کي تفسیر حضرتٴ اس طرح فرماتے ہيں: ''خدا ہر گناہ کو ایک اور نیکي کو دس برابر حساب کرتا ہے۔‘‘(نامہ٣١۔١٠).

٩۔ پکارنے والوں کي دعا سنتا ہے:

کہتے ہیں روئے زمین پر سب سے زیادہ محبت کرنے والے وجودکوروایت و تجربہ کي نگاہ میں ماں کہتے ہیں۔ ساري دنیا کي ناراضگي کے باوجود ماں اپنے بچے سے ناراض نہیں ہوتي اور اگر ناراض بھي ہوتي ہے تو سب سے آخر میں ناراض ہوتي ہے اور سب سے پہلے راضي ہوجاتي ہے۔ اس کي شفقت کي مثال کاینات میں نہیں ملتي لیکن خدا کي شفقت ماں کي شفقتوں سے بھي زیادہ ہے۔ روایت میں آیا ہے کہ شفقتوں کا ٩٩ در صدخدا کي شفقت کو شامل کرتا ہے یہي سبب ہے کہ گناہ گار سے گناہ گار شخص اگر خداکوایک بار پکار لیتا ہے تو اس کي آواز پر لبیک کہتا ہے اور اس کي دعاوں کو اجابت کے زیور سے آراستہ کرتا ہوا ناامیدي میں امید کي کرن چمکاتا ہے۔ اس حقیقت کي طرف حضرتٴ اس طرح اشارہ کرتے ہیں: ''خدا پکارنے والوں کي آواز پر لبیک کہتا ہے۔‘‘ (نامہ ٣١۔١٠).

١٠۔ توبہ کا وقت محدود نہیں کیا:

خدا کا ایک لطف یہ بھي رہا ہے کہ اس نے توبہ کے لیے کسي خاص زمان و مکان کي کوئي قید نہیں لگائي اور نہ ہي کسي محدود وقت میں توبہ کا حکم دیا بلکہ زندگي کے آخري حصہ تک توبہ کي مھلت دي ہے۔ اگر انسان مرنے سے پہلے کسي وقت بھي توبہ کر لے تو وہ اس کي توبہ کو قبول کرتا ہے اور دوبارہ رحمتیں اس پر سایہ فگن ہو جاتي ہیں یعني توبہ کي قبوليت کے لیے یہ لازم نہیں ہے کہ گناہ کے فوراً بعد توبہ کي جائے تب ہي قبول ہے ورنہ نہیں بلکہ گناہ سرزد ہونے سے ليکرزندگي کے آ خري حصہ تک موت سے قبل کسي وقت بھي توبہ کي جا سکتي ہے ۔اس حقیقت کو حضرت ٴاس طرح بیان فرماتے ہیں:''توبہ کا دروازہ خدا نے ہمیشہ کے لیے کھول رکھا ہے۔‘‘(نامہ٣١۔١٠)

مذکورہ بالا گفتگو کا مقصد اصلاً یہ نہیں ہے کہ گناہ کے فوراً بعد توبہ نہیں کرني چاہیے بلکہ مقصد یہ ہے کہ اگر غفلت و کوتاہي کے سبب توبہ سے قاصر رہا ہے تو مرنے سے قبل زندگي کے کسي بھي حصہ میں کبھي بھي توبہ کیاجا سکتا ہے ورنہ اس سے بہتر کیا ہے کہ کسي سبب انسان سے گناہ سرزد ہو جاے تو فوراً توبہ کر کے خود کو طاہر کر لے۔ دوسرے یہ کہ توبہ میں کسي خاص زمان و مکان کي قید نہیں ہوتي لیکن قبوليت کي تاثير میں زمان و مکان کا اپنا خاص نقش ہے - زمان کي مثال-ماہ رمضان،عرفہ کے روز-مکان کے اعتبارسے -مکہ، حرم ائمہٴ میں حضور پیدا کر کے دعا کرنے کي اپني خاص تا ثيرہے۔

٢ ۔ توبہ کرنے والے پر خدا کي عنایت:

نگاہ پروردگار میں توبہ کرنے والے کا ایک بلند مقام ہے۔ اگر توبہ اس کے شرایط و ضرابط کے ساتھ ہو تونہ صرف یہ کہ اس کے نامہ اعمال سے گناہ و معصیت کي سیاہي دور ہو جاتي ہے بلکہ یہي توبہ قرب ِالٰہي اور محبوبیت پروردگار کا باعث بن جاتي ہے اور دیگر بندوں کے مقابل تو اب بندوں پر خدا کي کچھ خاص عنایت شریک حال ہوتي ہے :

١۔ توبہ کرنے والے پر خدا کي خاص رحمت :

''خدا کي رحمت اس شخص پر ہے جو توبہ کرے اور موت سے پہلے اپنے گناہوں کي معافي طلب کرے اور اپنے امور کي اصلاح کرے۔‘‘(خطبہ ١٤٣۔٥)

٢۔ توبہ کے بعد گناہوں کا محاکمہ نہیں کرتا:

بندہ کتنا ہي گناہگار ہو لیکن اگر بارگاہ خداوندي میں ایک بار بھي تہ دل سے توبہ کر لیتا ہے تو خدا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کے گناہ کو اس کے نامہ اعمال سے پاک کر دیتا ہے اور اس گناہ پر بندے کا محاسبہ بھي نہیںکرتا۔ اس حقیقت کو حضرت ٴکے کلام سے اس طرح دیکھا جا سکتا ہے:''توبہ کے بعد گناہوں کا محاکمہ نہیں کرتا۔‘‘(نامہ ٣١۔١٠)

٣۔ توبہ ، نگاہ خدا میں عیب نہیں:

خدا وند عالم اپنے بندوں پر اس قدر مہربان و شفیق ہے کہ توبہ کو جہاں گناہوں سے طہارت کا ذریعہ جانا وہیں اس عمل میں کسي قسم کي کوئي قباحت بھي نہ رکھي بلکہ ایک احسن اور اچھے عمل کا درجہ قرار دیا لہٰذا توبہ کرنے والے کا صرف گناہ ہي معاف نہیں ہوتا بلکہ پروردگار کي نگاہ میں محبوب بھي ہو جاتا ہے جس کا روشن نمونہ قرآن میں موجود ہے۔''ان اللہ يحب التوابین‘‘خدا توبہ کرنے والے کو محبوب رکھتا ہے اس حقیقت کوامیرلمومنینٴ اس طرح ارشاد فرماتے ہیں:''اور توبہ کو اس نے تمہارے لئے عیب نہیں جانا۔‘‘( نامہ ٣١۔١٠)

٤۔ توبہ کو نیکي کا درجہ ديا:

توبہ ایک ایسا احسن عمل ہے کہ جس کو پروردگار عالم نے نیکي کا درجہ دیا ہے، یہیں سے اس کي اہمیت اور بلندي کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔اس حقیقت کو حضرت عليٴ اس طرح بیان کرتے نظر آتے ہیں:''توبہ نگاہ خدا میں ایک پسندیدہ عمل ہے‘‘ ۔(نامہ ٣٠۔١٠)

٥۔ توبہ کے بعد عذاب نہیں کرتا:

خدا وند عالم کا اپنے بندوں پر ایک یہ بھي بڑا لطف ہے کہ گناہگار بندوں کے لیے توبہ استغفار کا دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کھول رکھا ہے اور توبہ کرنے والے کي توبہ کو قبول کرنے کي ضمانت بھي لي ہے اور توبہ کے بعدنہ اس گناہ کا محاکمہ کرتا ہے اور نہ ہي اس پر عذاب کرتا ہے۔ ''توبہ کے بعد بندوں کو گناہوں کي سزا نہیں دیتا‘‘ ۔(نامہ ٣١۔١٠)

٣۔ایک گناہ گار کاوظیفہ:

اگر انسان سے کسي سبب گناہ ہو جائے تو اس گناہ گار شخص کي کیا ذمہ داریاں بنتي ہیں، اس کي خوبصورت تصویر حضرت عليٴ کے کلام میں دیکھي جا سکتي ہے۔ البتہ ان ذمہ داریوں کو حضرت کے کلام کے مختلف حصوں سے اقتباس کر کے نمبر وایز پيش کرنے کي کوشش کي گي ہے۔

١۔ اعتراف گناہ:

اگر انسان سے کوئي خطا یا گناہ سرزد ہوجائے تو بزرگي نفس کا تقاضا ہے کہ اپنے پروردگار کي بارگاہ میں اس کا اعتراف کرے اور اس کي توبہ بارگاہ کردگار سے طلب کرے۔ البتہ اعترافِ گناہ و معصیت اپنے پروردگار کي بارگاہ میں ہوني چاہیے نہ کہ لوگوں کے سامنے چوںکہ بارگاہ خدا میں معصیت ایک قسم کي جسارت ہے۔ ہاں اگر گناہ کا تعلق صرف حقوق الناس سے ہے جیسے کسي نے کسي کي غیبت کي تو اس صورت میں خدا کے حکم کي نافرماني کے ساتھ ساتھ بندے کي دل آزاري ہے لہٰذا خدا سے معافي طلب کرے اور جس کي غیبت کي ہے اس سے بھي معافي طلب کرے۔ گویا اس کا بھي حق ضایع ہوا ہے لہٰذا گر اس تک رسائي ممکن ہو تو خود اس شخص سے اعتراف کے ساتھ معافي طلب کرے مثلاً اگر اس سے بنفس نفیس معذت کرے اور اگر اس سے معافي مانگنا ممکن نہ ہو جيسے وہ دنیا سے گزر گیا ہو تو اس کے حق میں دعائے خیر کرے انشائ اللہ خدا اس کي خطاوں کو معاف کر دیگا لہٰذا اگر انسان سے کبھي بھي کسي طرح کاکوئي بھي گناہ ہو جائے تو بغیر کسي تاخیر و شرم کے بارگاہ خدا میں توبہ کے ساتھ اعتراف کرے۔ حضرت عليٴ گناہ پر اعتراف کو بندگان خدا کي ایک صفت سے تعبیر کرتے ہيں:''اگر ان سے گناہ ہو جاتا ہے تو وہ اس کا (بارگاہ خدا میں) اعتراف کرتے ہیں۔‘ ‘( خطبہ ٨٣۔٢١)

٢۔ دل کا راز خدا سے کہیں:

خدا وند عالم بہترین محسن و شفیق ہے لہٰذا انسان کو چاہیے کہ اپنے دل کے راز کو ادھر ادھرکہنے کے بجائے اپنے پروردگار سے بیان کرے ۔یقیناً وہ خالق کے ساتھ ساتھ رب اور مسبب الاسباب بھي ہے اگر اس کي عنایت ہو تو مسدود راہ کھل جاتي ہیں،بھٹکا ہوا راہ پاتا ہے اورنا امیدي میں امید کي کرن پھوٹتي نظر آتي ہے ۔وہ ان باتوں سے بھي واقف ہے جو انسان کي زبان پر جاري ہوتي ہیں اور ان رازوں سے بھي آشنا ہے جو انسان کے نہاں خانوں میں پوشیدہ ہیں ممکن ہے انسان اس سے غافل ہو جائے لیکن وہ اپنے بندوں سے غافل نہیں ہوتا نہ ہي اپنے فیض کا دریا کسي کے اوپر بند کرتا ہے۔ خدا انسان کے اس گناہ سے بھي واقف ہے جو غفلت و تنہائي میں انجام پاتے ہیں جس کا علم کسي کو نہیں لہٰذا ایک عاقل اور دانا انسان کي ذمہ داري بنتي ہے کہ اپنے پروردگار کي جانب رجوع کرے اور اپنے دل کے راز اس سے بيان کرے۔ یقینا وہ دلوں کامداواکرنے والا،مشکلات سے نجات دلانے والا غفورور رحیم پروردگار ہے ۔ جیسا کہ حضرت عليٴ فرماتے ہیں:' 'اس نے تم پر توبہ اور واپسي کے راستے کھول رکھے ہیں جب بھي تم اس کو پکارتے ہو وہ تمہاري آواز سنتا ہے تم اس سے دل کا راز کہتے ہو وہ اس کو جانتا ہے پس اپني حاجت اور ضرورت کو اس سے بیان کرو اور جو کچھ بھي دل میں ہے اس کے سامنے رکھ دو اپني پریشانیاں خدا سے بیان کرو تاکہ وہ تمہاري پریشانیوں کو دور کرے اور مشکلات میں تمہاري مدد کر سکے۔‘‘(نامہ٣١۔٦٨)

٣۔ لذتِ معصیت سے دسبردار ہونا:

ایک خطا کار انسان پر یہ بھي لازم ہے کہ بارگاہ پروردگار میں اعتراف اور دعائے استغفار کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو گناہ و معصیت سے دور بھي کرے ورنہ اس کا یہ عمل استغفار اس کو کوئي فایدہ پہنچانے والا نہیں ہے اوریہ توبہ ایک قسم کا نفس کے ساتھ دھوکا ہوگا جیسا کہ حضرت عليٴ فرماتے ہیں: ''اگر گناہ گار توبہ کرے اور گناہ سے دستبردار ہو جاے تو خدا سلب شدہ نعمتوں کو پلٹا دینے والا ہے۔‘‘(خطبہ١٤٣۔٢١)

٤۔ ہمیشہ کے لیے نافرماني کا سدباب کرے:

ایک گناہ گار کا وظیفہ یہ بھي ہے کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نافرماني اور گناہ کا سدباب کرے اور دوبارہ برگشت کے ارادہ اور امکان کو ختم کر دے ۔یہ اسي صورت میں ممکن ہے جب توبہ کے بعد نفس کي تربیت کا برابر خیال رکھا جاے۔ بقول ائمہ طاہرینٴ انسان کو اپنے نفس کا ہر روز محاسبہ کرنا چاہیے۔لہٰذا بہتر ندامت یہ ہے کہ نافرماني کا تکرار نہ ہو جیسا کہ حضرت عليٴ فرماتے ہیں:''نافرماني کا ہمیشہ کے لیے سدباب کرے۔‘‘(خطبہ١٤٣۔٢)

٥۔ کمال اخلاص کے ساتھ خدا سے دعا کرے:

گناہ گار کي ذمہ داریوں میں ایک یہ بھي ہے کہ اگر گناہ سرزد ہو جائے تو خلوص نیت اور صدق قلبي سے بارگاہ پروردگار میں باکمال تضرع و گریہ، طلب مغفرت کرے۔ جیسا کہ حضرت ٴفرماتے ہیں:''اگر بلا نازل ہونے لگے اور نعمتیں سلب ہونے لگیں توپاک نیت اور خلوص کے ساتھ بارگاہ خدا میں گریہ و زاري کے ساتھ دعا کرے‘‘۔(خطبہ ١٧٨۔٧)

٦۔ خدا کي محبت پر تکیہ کرے:

یقینا یہ نکتہ ہمیشہ ہمارے ذہن میں ہونا چاہیے کہ خدا وند عالم دنیا کي ہر شے سے زیادہ اپنے بندوں سے محبت کرنے والا ہے اور اس کي محبت کا فیض ہمیشہ بندو ں پر جاري ہے ۔اب اگر کسي سبب نافرماني د امن گیر ہو جائے تو اس کي محبت پر تکیہ کرتے ہوے فوراً بارگاہ خدامیں طلب مغفرت کرے اسي کو کمال بندگي کہتے ہیں۔ اس حقیقت کو اميرالمومنین ٴ اس طرح فرماتے ہیں:''(اگر گناہ و معصیت کے سبب)بلائيں نازل ہونے لگیں اور نعمتیں سلب ہو نے لگيں تو فوراً بارگاہ خدا میں ''صدق نیت‘‘ اور خدا کي محبت پر تکیہ کرتے ہوئے بارگاہ کردگار سے طلب مغفرت کرے ۔جو کچھ بھي گناہوں کے سبب چھن چکا ہے تم کو حاصل ہو جاے گا۔‘‘(خطبہ١٧٨۔٨)

٤۔ توبہ کرنے والے کا وظیفہ:

کمال انساني کے لیے گناہ کے بعد صرف توبہ کر لینا کافي نہیں ہے بلکہ چند نکات کي نگراني بہر کیف اس پر لازم ہے جن میں سے بعض کا تعلق توبہ کي بھرپائي سے ہے تو بعض کا تعلق تہذیب نفس سے ہے تاکہ نفس دوبارہ کسي قسم کے گناہوں کے دلدل میں نہ اتر جاے۔

١۔ امور کي اصلاح:توبہ کے بعد انسان کي سب سے پہلي ذمہ داري اپنے امور کي اصلاح کرناہے کہ جس کے بعد توبہ انسان کے لیے سرمایہ نجات اور دوسروں کے لیے مشعل حیات بن کر سامنے آتي ہے۔ اس حقیقت کو امیرالمومنینٴ کے کلام میں مختلف تعبیروں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ آپٴ فرماتے ہیں:''اپنے مسایل کي اصلاح کرو کیونکہ توبہ تمہارے ہمراہ ہے‘‘ ۔(خطبہ ١٦۔١٠)

یا اس طرح فرماتے ہیں :''خدا اس شخص پر رحمت نازل کرتا ہے جو توبہ کا استقبال کرے،خطا کي معافي چاہے اوراپنے امور کي اصلاح کرے‘‘۔(خطبہ ١٤٣۔٥)

٢۔ بچي ہوي زندگي کا صحیح مصرف: توبہ کے بعد ضروري ہے کہ باقي ماندہ حیات کو غنیمت جانے اور ان ایام کا صحيح اور بروقت استعمال کرے ۔جیسا کہ حضرتٴ فرماتے نظر آتے ہیں:''باقي ماندہ ایام زندگي کاصحيح مصرف کرو... کیونکہ باقي ماندہ زندگي غفلت اور خدا سے دوري والے ایام سے کم ہے‘‘۔( خطبہ ٨٦۔٩ )

٣۔ معصیت کے مقابلہ صبر :گناہ کرنے کے بعد نفس کو گناہ و معصیت کا ذایقہ مل جاتا ہے اور زندگي میں بارہا انسان کو مختلف وسیلے سے اس کو اپني طرف کھینچتا ہے کہ جس کے نتیجہ میں انسان بعض اوقات دوبارہ لغزشوں کا شکار ہو جاتا ہے لہذاانسان کو چاہئے کہ اس گناہ و معصيت کے مقابلہ صبر سے کام لے اور نفس پرکنٹرول بنائے رکھے۔ جیسا کہ حضرتٴ فرماتے ہیں:''گناہ ومعصيت کے برابر صبرسے کا م لو ۔‘‘(خطبہ ٨٦۔٩)

٤۔ اپنے آپ کو زیادہ آزادي نہ دے:توبہ کرنے والے کي ایک ذمہ داري یہ بھي ہے کہ وہ خود کو حد سے زیادہ آزادي نہ دے۔ یہاں پر خود سے مراد نفس انساني ہے کیونکہ اگر نفس کو آزاد چھوڑ دیا جاے تو وہ انسان کو پست ترین مقام تک کھینچ لے جاتا ہے جہاں سے واپسي دوبارہ مشکل نظر آتي ہے۔ البتہ یہ و ظیفہ صرف توبہ کرنے والے کا نہیں ہے بلکہ ہر انسان کے لئے ضروري ہے کہ زندگي کے کسي بھي حصہ میں نفس کو مطلق العنان نہ ہونے دے۔ جیسا کہ حضرتٴ فرماتے ہیں : ''خود کو حد سے زیادہ آزادي نہ دو ورنہ یہ آزادي تم کو ظلم و تجاوز کي جانب لے جائے گي۔‘‘ (خطبہ ٨٦۔٩)

٥۔ نفس کے ساتھ سستي نہ کرو:نفس کي لگام کو ہمیشہ تھامے رکھنا چاہئے کیونکہ تھوڑي سي غفلت بھي انسان کو بد تر نتیجہ تک پہنچا سکتي ہے۔ علمائ اخلاق نفس کي شباہت وحشي جانور سے دیتے ہیں۔ وحشي جانور کي چاہے کتني بھي تربیت کي جائے پر وہ انسانوں کے درمیان خوشگواري محسوس نہیں کرتے لہٰذا چند منٹ کي بھي غفلت ہو جاے تو نفس اپنا کام کر جاتا ہے۔ جیسا کہ حضرتٴ فرماتے ہیں:''نفس کے ساتھ سستي سے کام نہ لو ورنہ ناگہاں گناہوں کے مرتکب ہو سکتے ہو‘‘۔(خطبہ٨٦۔٩)

٦۔ نفس کو وعظ و نصیحت کرتا رہے: توبہ کے بعد نفس کو گناہ سے دور رکھنے کے لئے ضروري ہے کہ وعظ و نصیحت کے آب سے غفلت و کوتاہي کي گرد صاف کرتا رہے ورنہ کبھي کبھي چھوٹي سي غفلت ایک بڑے جرم کا مقدمہ بن کر صفحہ وجود پر نمایاں ہوسکتي ہے۔جیسا کہ حضرتٴ فرماتے ہیں:''اور وہ نصیحت ووعظ کو قبول کرتے ہیں‘‘۔(خطبہ ١٤٣۔٢)

٥۔ توابین کے اوصاف

١۔ ہدایت کي نشانیاں ہیں:

توابین کو حضرت ٴہدایت کا منارہ و نشاني بیان کرتے ہیں ۔شاید اس کا راز یہ ہے کہ جب دوسرے گناہگار ان کي زندگي کو دیکھتے ہیں تو ان پر رشک کرتے ہو ئے خود میں عفو و بخشش کي امید پیدا کر لیتے ہیں اور ان کي تاسي میں راہ توبہ پر گامزن ہو جاتے ہیں ۔ جیسا کہ حضرتٴ فرماتے ہیں:''وہ ہدایت کي نشانیاں ہیں‘‘ ۔(خطبہ ٢٢٢۔١٢)

٢۔ اندھیروں کے چراغ ہیں:

توابین کو کبھي اندھیرے اور تاریکي کا چراغ بتایا ہے۔ شاید اس کي وجہ یہ ہو کہ جیسے جیسے انسان گناہ کا مرتکب ہوتا جاتا ہے نا امیدي اس پر اندھیرااور تاریکي بن کر چھاتي چلي جاتي ہے اور انسان راہ اور منزل دونوں کو ہي گم کر بیٹھتا ہے پس یہ گناہوں کي سیاہي اس کے مقدر کي تاریکي بن کر سامنے آتي ہے لہٰذا ایسے میں توابین کي زندگي اور ان کا شیو ہ عمل ایک عام اور گناہ گار انسان کے لیے چراغ کا درجہ رکھتا ہے جو انتخاب راہ و منزل میں معاون بنتا ہے جیسا کہ حضرتٴ فرماتے ہیں:''توابین تاریکي اور اندھیرے کا چراغ ہيں۔‘‘( خطبہ ٢٢٢۔١٣)

٣۔ فرشتوں کے حلقے میں رہتے ہیں:

توبہ کرکے واپسي کرنے والے کا درجہ نگاہ رب العزت میں بہت بلند ہے لہٰذا توابین پر خدا کا ایک احسان یہ بھي ہے کہ فرشتوں کي ایک جماعت ہمیشہ ان کو اپنے حلقے ميں رکھتي ہے۔ جیسا کہ حضرتٴ فرماتے ہیں:''فرشتے ان پر نازل ہوتے ہیں‘‘۔(خطبہ٢٢٢۔١٣)

٤۔ توابین پر خدا کي جانب سے سکون و اطمنان کي بارش ہوتي ہے:

جیسا کہ حضرت عليٴ فرماتے ہیں: 'ان پر سکون و اطمینان خیمہ زن رہتا ہے‘‘۔(خطبہ٢٢٢۔١٣)

٥۔ توبہ کرنے والے پر رحمت کا دروازہ کھلا ہوتا ہے:

توابین پر خدا کا ايک یہ بھي لطف رہا ہے کہ ان پر رحمت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں ۔جیسا کہ حضرت عليٴ فرماتے ہیں:''اور ان پر آسمان کے دروازے کھلتے ہیں۔‘‘ (خطبہ ٢٢٢۔١٣)

٦۔ تو ابین کا خدا کے نزدیک بلند مقام ہے:

نگاہِ پروردگار میں توابین کا ایک خاص مقام ہے کہ جہاں پر وہ رحمت خدا وندي سے بہرہ مند ہوں گے:''ان کے لیے ایک بلند مقام ہے جہاں وہ رحمت پروردگار کا مشاہدہ کریں گے۔‘ ‘(خطبہ ٢٢٢۔١٤)

٧۔ توابین کي کوشش مشکور ہے:

توبہ کرنے والا گویا توبہ کے ذریعہ قرب الٰہي حاصل کرنا چاہتا ہے لہٰذا اس راہ پرپیش آنے والے مشکلات کا سامنا کرتے ہو ئے خدا تک پہنچتاہے یا گناہ کے ذریعہ خدا اور اس کے درمیان ہو جانے والے فاصلے کو کم کرنے کي کوشش کرتا ہے تو اپنے بندوں پر شفیق پروردگار بندے کي سعي کو ضایع نہیں کرتا بلکہ مقبولیت کا درجہ دیتا ہے۔''خدا ان کي کوششوں کو قبول کرتا ہے۔‘‘(خطبہ ٢٢٢۔١٤)

٨۔ توابین کے حق میں فرشتے دعا کرتے ہيں:

توبہ کرنے والا کرامت کي اس بلندي پر پہنچ جاتا ہے کہ معصوم فرشتے بھي اس کے حق میں دعا کرتے ہیں اور بارگاہ خدا وندي میں اس کي مغفرت طلب کرتے ہیں۔‘‘(خطبہ٢٢٢۔١٤)

٩۔ اپني ضرورتيں خدا سے چاہتے ہيں:

توابین کي ایک یہ بھي برجستہ صفت ہے کہ نہ تو وہ کسي سے دل کا راز کہتے ہیں اور نہ ہي اپني جبین ِنیاز کو کسي کے در پر خم کرتے ہیں۔ اپنے راز و نیاز خدا سے کرتے ہیں اور اپني ضرورتیں بھي خدا سے چاہتے ہیں اور''الفقر فخري‘‘ کا روشن مصداق بن جاتے ہیں۔ اس حقیقت کو حضرت عليٴ اس طرح ترسیم کرتے ہیں:''اپني امید کو خدا کے دروازئہ امید سے منسلک کرتے ہیں اور اس کے سامنے دست سوال دراز کرتے ہیں جو مانگنے والوں کو نا امید نہیں کرتا۔‘‘ (خطبہ ٢٢٢۔١٥)

١۔ توبہ کے شرایط:

توبہ کے یہ وہ شرایط ہیں کہ جن کو خود حضرت عليٴ نے حسب مراتب ایک ہي مقام پر بیان فرمایا ہے ۔کسي نے آپٴ کے حضور ميں کہا''استغفراللہ‘‘جس پر حضرت ٴنے فرمایاکہ تیري ماں تیرے ماتم میں بیٹھے۔ آیا جانتا ہے کہ استغفار کیا ہے ؟استغفار کا ایک بلند درجہ ہے جسکے چھ شرایط ہیں:

١۔ندامت

توبہ کي پہلي شرط ہے گزشتہ اعمال پرتہ دل سے پشیماني کي جا ئے ۔''اولھا الندم علي مامضي‘‘ پہلي شرط گزشتہ پر پشیمان ہوناہے۔‘‘ (حکمت٤١٧)

٢۔ گناہ کي جانب بازگشت نہ کرنا

توبہ کي دوسري اساسي شرط یہ ہے کہ توبہ کے بعد دوبارہ گناہ کا رخ نہ کرے:''والثاني العزم علي ترک العود الیہ ابداً‘‘ ''وسري شرط گناہ کي طرف دوبارہ کبھي بھي نہ پلٹے۔‘‘(حکمت ٤١٧)

٣۔ ادائیگي حقوق

توبہ کي تیسري اساسي شرط لوگوں کے حقوق کي ادایگي کرناہے ۔''لوگوں کے حقوق کو ادا کر دو تاکہ جب خدا سے ملاقات کرو تو تمہاري گردن پر کوئي قرض نہ رہے۔‘‘ (حکمت٤١٧)

٤۔ واجبات کي ادائیگي

قضا ہونے والے واجبات کي ادایگي کي جا ئے۔''قضا ہو جانے والے فرایض کو ادا کرو۔‘‘ (حکمت ٤١٧)

٥۔ حرام کا ازالہ کرے

حرام کے ذریعہ جو گوشت اضافہ ہو گیا ہے اس کو کم کیا جائے ۔''وہ گوشت جو حرام طریقے سے بدن پر اضافہ ہو گیا ہے یاد خدا میں گریہ کے ذریعہ اس کو پگھلا دیا جائے یہاں تک کہ چمڑا ہڈي سے مل جاے اور نیا گوشت چڑھ جائے۔‘‘ (حکمت ٤١٧)

٦۔ جسم کو اطاعت و بندگي کا ذایقہ عطا کریں

جسم کو اطاعت خدا میں مشغول کریں کہ جسم اطاعت کي راہ میں ہونے والي مصیبت کو تحمل کرے، جس طرح توبہ سے قبل معصیت کا ذایقہ چکھ رہاتھااورجب یہ شرایط ممکن ہو جائيں تب انسان کو چاہیے کہ بارگاہ خداوندي میں کہے ''استغفراللہ‘‘۔ (حکمت٤١٧)

٢۔ موانع توبہ

توبہ کے بہ شمار فوائد ہونے اور درِ توبہ ہمیشہ کے لئے کھلا ہونے کے باوجود بھي نہ جانے کتنے ایسے لوگ ہيںجو خدا کے فیض سے بہرمند نہیں ہوتے اور گناہ کے مرتکب ہونے کے باوجود بھي توبہ کي ضرورت محسوس نہیں کرتے ۔کلام امیرالمومنینٴ میں اس لاپرواہي کے چند علل بیان ہوئے ہیں:

١۔ بڑي بڑي آرزوں کو دل میں جگہ دینا:

دنیا میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو آرزوں کے گرد اب میں پھنس کر رہ جاتے ہیں اور توبہ کي فرصت ان کے ہاتھوں سے چلي جاتي ہے۔ جیسا کہ حضرت عليٴ فرماتے ہیں:''و یر جيّ التوبتہ بطولِ الامل ‘‘''ان لوگوں میں نہ ہو جاو جو بڑي بڑي آرزوں کي وجہ سے توبہ کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔‘‘(حکمت١٥٠)

یقینا طول امل یعني بڑي اور طولاني آرزو نگاہ خدا وندي میں ایک نا پسند دیدہ عمل ہے جس کي معارف اسلامي میں شدت سے مذمت کي گئي ہے حضرت عليٴ نہج البلاغہ میں طول امل کو آخرت فراموشي کاذریعہ جانتے ہیں۔ پس اگر کوئي آخرت کو بھلا دے تو گناہ سے پرہیز اور اس پر توبہ کا تصور ہي نہیں پایا جاتا۔

٢۔ لذت گناہ:

توبہ نہ کرنے کا دوسرا راز گناہ کي لذت ہے جو قلب انسان میں سر اٹھائے ہوتي ہے جیسا کہ حضرت عليٴ فرماتے ہیں:''دو عمل کے درمیان کتنا فاصلہ ہے : ایک وہ کام جس کي لذت ختم ہو گئي پر اس کا بد اثر باقي ہے اور دوسرا وہ کام جسکي مشقت ختم ہو گئي پر جزا باقي ہے۔‘‘ (حکمت١٢١ )

پھر فرماتے ہیں:''اطاعت الٰہي اور انجام واجبات انسان کے لئے سخت ہیںلیکن گناہ انسان کے لئے آسان اور مرغوب ہے ۔خدا وند اس شخص پر مہربان ہے جو نفس کي پیروي سے گریز کرے اورہوائے نفساني کو خود میں جگہ نہ دے‘‘۔(خطبہ١٧٦)

٣۔ گناہوں کي بدي سے لا علمي

نہ جانے کتنے ہي لوگ ایسے ہیں جو گناہ کي بدي اور اس کي عاقبت سے نا واقف ہونے کي وجہ سے گناہ کے مرتکب ہو جاتے ہیں لیکن اگر ان کو اس کي عاقبت اور بدحالي کا علم ہوتا تو شاید کبھي بھي وہ انجام نہ ديتے ۔کبھي کبھي عاقبت اور بدحالي کے علم کے باوجود بھي گناہ انجام دیتے ہیں اور اس کي وجہ بھي یہي ہے کہ عاقبت اور اس کي بدحالي کو صحيح معني میں احساس اور درک نہیں کر پاتے ہیں۔یہي چیز عصمت کے بعد معصومین سے گناہ سرزد نہ ہونے کي دلیل ہے چونکہ معصوم کو گناہ کي عاقبت اور بدحالي کا مکمل علم ہوتا ہے لہٰذا گناہ کیا اس کا تصور بھي نہیں پایا جاتا۔

٤۔ گناہ کو معمولي اور چھوٹا جاننا

جو بھي عمل خدا کي نافرماني میں انجام پائے اس میں چھوٹا بڑا نہیں ہے بلکہ ذرہ برابر نافرماني بھي بہت بڑا جرم ہے ليکن اس سے بھي بڑا گناہ،گناہ کو چھوٹا جاننا ہے اور نظرانداز کرنا ہے۔''شدید ترین گناہ یہ ہے کہ گناہ کرنے والا اس کو چھوٹا جانے‘‘ ۔(حکمت٣٤٨)

٥۔ رحمت خدا سے نا امیدي

توبہ نہ کرنے کي ایک وجہ یہ بھي ہے کہ انسان کبھي کبھي یہ تصور کر لیتا ہے کہ اب واپسي اور بازگشت کا راستہ باقي نہیں ہے اور نہ ہي اصلاح ممکن ہے جبکہ بھول جاتا ہے کہ خدا کي رحمت سب سے بڑي ہے اور اس سے نا امیدي خود ایک گناہ ہے ،خدا ہر آن اپنے بندوں پر مہربان ہے۔ وہ تو بندے کو معاف کرنے کا ایک بہانہ تلاشتا ہے ادھر بندے نے ارادہ کیا ادھر رحمت پروردگار جوش میں آئي اور پھر انسان کتنا ہي گناہگار کیوں نہ ہو یوں پاک ہو جاتا ہے جیسے اس سے کبھي گناہ ہوئے ہي نہ ہوں۔''جس کو دعا عطا کي گئي ہے وہ اجابت سے محروم نہیں ہو سکتا ،جس کو توبہ کي توفیق دي گئي ہے وہ قبولي توبہ سے محروم نہیں ہو سکتا اورجس کو استغفار کي فرصت دي گئي ہے وہ مغفرت سے محروم نہیں ہو سکتا۔‘‘(حکمت١٣٥)

آیا ممکن ہے کہ خدا توبہ کي قبولي کا وعدہ کرے اور لوگوں کي توبہ قبول نہ کرے؟!!...

کبھي اس طرح فرماتے ہیں:''ایسا نہیں ہے کہ خدا توبہ کا دروازہ بندے پر کھولے اور مغفرت کا دروازہ اس پر بند کر دے۔‘‘(حکمت٣٣٥)

کبھي ایسے لوگوں پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے یوں فرماتے ہیں:''عجبت لمن يقنط و معہ الاستغفار‘‘''تعجب ہے اس شخص پر جو استغفار کے باوجود نا امید ہو۔‘‘(حکمت٧٨)

٦۔غرور و تکبر

ارتکابِ گناہ کا ایک سبب یہ بھي ہے کہ انسان زندگي کي آسائش اور دنیاوي نعمتوں میں اس قدر غرق ہو جاتا ہے کہ اس کو کسي برے بھلے کي تمیز باقي نہیں رہتي۔وہ زندگي کي رو میں بہتا چلا جاتا ہے لیکن اگر نگاہوں سے غفلت کي گرد چھٹ جائے اور عاقبت پر نظر ڈالے تو نہ صرف ارتکاب گناہ سے پرہیز کریگا بلکہ ما سبق پر تہ دل سے توبہ بھي کریگا۔جیسا کہ مولاٴ فرماتے ہیں:''اے انسان! کس چیز نے تجھ کو گناہ کرنے کي جرآت دي ہے؟ کس چیز نے تجھ کو خدا کے مقابل مغرور بنا دیا ہے؟کس چیز نے تجھ کو تیري بربادي پر آمادہ کر دیا؟‘‘(٢٢٣۔١)

٧۔ گناہ کي توجیہ کرنا

بعض لوگ گناہ کے بعد اس پر نادم اور پشیمان ہونے کے بجائے اس کي توجیہ کر کے خود کو اپنے اور لوگوں کے نزدیک بَري اور منزہ ثابت کرنے کي کوشش کرتے ہیں۔در حقیقت ان کا یہ کام ایک طرح کي خیانت ہے جو نفس کے ساتھ کي جا رہي ہے۔ جیسا کہ حضرتٴ فرماتے ہیں: ''گناہ گار کا گناہ کي صفائي اور اس کي توجیہ پیش کرنا نا درست ہے کیونکہ اس کي توجیہ بے اساس اور اس کي خوش حالي جہالت کي دلیل ہے۔‘‘ (خطبہ٢٢٣۔١ )

١۔ توبہ کي مھلت :

آیا توبہ کي قبولي کے لیے کسي محدود وقت یا زمان کي شرط ہے ؟یعني اگر گناہ کے فوراً بعد توبہ کي جائے تو قابل قبول ہے ورنہ نہیں ؟یا گناہ کے چند روز کے درمیان اگر توبہ کي جائے تو قابل قبول ہے ؟یا زندگي کے کسي بھي حصہ میں توبہ کي جائے تو قابل قبول ہے؟

اس میں کوئي شک نہیںکہ اگر انسان سے کسي طرح کي کوئي بھي خطا سرزد ہو جاے تو کمال اخلاص کے ساتھ بارگاہ خداوندي میں توبہ کي جائے تو اس سے اچھا کچھ نہیں لیکن اگر کسي سبب توبہ میں کوتاہي ہو گئي ہوتو جب بھي غفلت کے ابر آفاق ِاحساس سے چھٹے توبہ کر لے یہاں تک کہ زندگي کے آخري حصہ میں بھي اگر احساس جاگ جائے تو توبہ کے ذریعہ گناہوں کا ازالہ کرے اور دنیا سے مرحوم ومغفور اٹھے ۔اس حقیقت کو حضرت ٴکے کلام میںمختلف تعبیروں میں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے:

١۔ ساٹھ سال تک توبہ قبول ہو سکتي ہے :''العمرالذي اعذراللہ فيہ الٰي ابن آدم ستون سنتہ‘‘ ''خدا فرزند آدم کي توبہ ساٹھ سال کي عمر تک قبول کرتا ہے۔‘‘(حکمت ٣٢٦)

مذکورہ بالا روایت میں ستون سنتہ سے مراد عمر کا آخري حصہ ہے یعني اگر فرزند آدم عمر کے آخري حصہ میں بھي توبہ کرے تو خدا اس کي توبہ قبول کرتا ہے کیونکہ دوسري روایتیں اس تفسیر پر دلالت کرتي ہیں۔

٢۔ توبہ موت سے قبل

اس سے پہلے کہ موت انسان کو اپنے پنجے میں جکڑ لے اور انسان اپنے ارادہ و اختیار کو کھو بیٹھے اور اپنے سیاہ اعمال کے ساتھ بارگاہ خدا میں حاضر ہوتو بہ کرکے خود کو پاک کر لے۔ جیسا کہ حضرت ٴفرماتے ہیں:''قیامت تمہارے سامنے اور موت تمہارے پیچھے چلي آ رہي ہے ۔اس سے قبل کہ اس سے ملاقات کرو خود کو پاک کرو۔‘‘(خطبہ ٢١)

٣۔ توبہ میں سبقت

انسان کے لیے بہتریہي ہے کہ توبہ میں جلدي کرے اگر چہ قبولي توبہ کي مھلت زندگي کے آخري حصہ تک ہے لیکن یہ کس کو معلوم ہے کہ کون ساحصہ زندگي کا آخري حصہ ہے لہٰذا گناہ کے فوراًبعد توبہ کر لے ۔ممکن ہے یہي حصہ زندگي کا آخري حصہ ہو کہ اگر اس ميں غفلت ہو گئي تو شاید بعد میں توفیق نہ مل سکے۔ اس حقیقت کو آپٴ اس طرح فرماتے ہیں:''ممکن ہے ناگہاني موت تم کو اپنے پنجے میں جکڑ لے، تمہاري آواز کو خاموش کر دے ، تم عدم کي وادي میں بکھر جاو،تمہاري نشانیاں نابود ہو جائيں اور گھر و يران ہو جائيں...۔‘‘(توبہ کر لو) (خطبہ ٢٣٠۔٢)

٤۔ توبہ کبھي بھي کي جا سکتي ہے

توبہ زندگي کے کسي بھي حصہ میں کي جا سکتي ہے کیونکہ توبہ کا دروازہ کھولنے والے کا ایک یہ بھي لطف رہا ہے کہ اس نے توبہ کا دروازہ کبھي بھي اپنے بندوں پر بند نہیں کیا کیونکہ وہ یہ کبھي نہیں چاہیگا کہ اس کا بندہ دنیا سے معصیت کار اٹھے:''ولا یفتح لعبد باب التوبہ و تعلق عنہ باب المغفرہ‘‘آیا اس نے توبہ کا دروازہ کھول نہیں رکھا ہے کہ اجابت کا دروازہ بند کر دے گایعني اگر توبہ کا دروازہ کھولا ہے تو اجابت کي ضمانت بھي اس قادر مطلق پروردگار نے لي ہے ۔وہ تو منتظر ہے کہ کب میرا بندہ مجھ کو پکارے اور میں اس کي آواز پر لبیک کہوں۔

٥۔ توبہ، اختتام حیات سے پہلے

اس سے پہلے کہ آثار موت و مرگ انسان پر نمایاں ہوں بہتر ہے کہ انسان اپني خطاوں پر توبہ کرلے جیسا کہ حضرت عليٴ فرماتے ہیں:''افلاتایب من خصیتہ قبل منیتہ‘‘آیا کوئي ہے جو موت کے پہنچنے سے پہلے اپنے گناہوں کي توبہ کرے؟‘‘ (خطبہ ٢٨۔٢)

٢۔ مغفرت طلبي اور بخشش گناہ کي راہیں

مذکورہ تمام شرائط کے ساتھ زبان پر استغفار یعني استغفر اللہ کا کلمہ جاري کرے۔ بارگاہ خداوندي میں گناہوں کي توبہ کرنے کے علاوہ اور دوسري راہ و روش بھي حضرت عليٴ کے کلام میں دیکھي جا سکتي ہے:

الف۔مغفرت طلبي کي راہیں:

گناہوں کي مغفرت طلبي کے سلسلہ میںنہج البلاغہ میں چند روش بیان ہوئي ہیں کہ جن کے ذریعہ انسان اپنے گناہوں کي توبہ کر سکتا ہے:

١۔ استغفار کا ورد کرکے گناہوں کي سیاہي کو محو کرے ۔ حضرت عليٴ عثمان بن حنیف کي جانب لکھے نامہ میں فرماتے ہیں:''خوشاقسمت وہ لوگ ہیں جو راتوں کو بستروں سے فاصلہ اختیار کرتے ہیں اور ان کے لب ذکر پروردگار میں مصروف ہوتے ہیں اور گناہ کثرت و شدتِ استغفار سے معاف ہو جاتے ہیں ۔(نامہ٤٥)یعني تمام شرائط کے ساتھ استغفرا للہ کہنے سے خدا وند عالم بندے کا گناہ معاف کر دیتا ہے۔

٢۔ نماز کے ذریعہ مغفرت طلب کرنا۔ یعني اگر انسان سے کوئي خطا یا گناہ سرزد ہو جاے تو فوراً دو رکعت نماز پڑھے اور اس کے بعد پروردگار سے توبہ کي درخواست کرے انشا ئ اللہ خدا اس کي توبہ کو قبول کریگا ۔یہ وہي روش ہے جسکا ذکر قرآن میں بھي آيا ہے : ''واستعینوا با الصبر و الصلاۃ‘‘ نماز اور صبر کے ذریعہ خدا سے مدد مانگو۔‘‘ توبہ بھي ایک قسم کي مدد ہے جس کو بندہ بارگاہ خدا وندي سے طلب کرتا ہے۔ اس روش کو حضرت عليٴ اس طرح بیان فرماتے ہیں:''مجھے وہ گناہ غمگین نہیں کرتا جس کے بعد دو رکعت نماز پڑھنے کي مہلت ملے اور اپنے پروردگار سے آفیت طلب کرو‘‘ ۔(حکمت٢٩٩)

مذکورہ بالا جملہ میں حضرت عليٴ کا نصب العین لوگوں کیلئے روش توبہ کوبيان کرنا ہے نہ کہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ میں گناہ کے بعد نماز کے ذریعہ اپنے پروردگار سے طلب مغفرت کرتا ہوں کیونکہ آپ کے حضور میں گناہ کیا، تصور گناہ بھي امکان نہیں رکھتا۔ یہ تو آپ کي بزرگي ہے کہ روش کو اپنے آپ پر منطبق کر کے بیان فرماتے ہيں۔

ب۔ بخشش گناہ کي راہیں :کچھ اعمال و سکنات ایسے ہیں کہ ا گر انسان ان کو انجام دے تو ثواب و حسنات میں اضافہ کے ساتھ ساتھ گناہوں کي بخشش کاذریعہ بھي ہیں:

١۔ نماز کي پابندي: نماز ایک ایسا احسن عمل ہے جس کي قبولیت پر تمام اعمال کي قبولیت موقوف ہے۔يہ ثواب میں اضافہ کے ساتھ ساتھ گناہوں سے روکتي بھي ہے اور گناہوں کو صفحہ نامہ اعمال سے پاک بھي کرتي ہے۔ اس حقیقت کا ذکر قرآن میں بھي آیا ہے''انّ الصلاۃ تنھي عن الفحشائ۔۔.‘ ‘ نماز بدکاري اور گناہ سے روکتي ہے۔‘‘

حضرت عليٴ اس حقیقت کو یوں بیان کرتے ہیں:''نماز کا خیال رکھو اور اس کي پابندي کرو، کثرت سے پڑھو اور اس کے ذریعہ خدا کا تقرب حاصل کرو۔ بیشک نماز گناہوں کو انسان سے یوں دور کر دیتي ہے جیسے پت جھڑ کي فصل درخت سے پتوں کو جدا کر دیتي ہے اور انسان کو گناہوں کي زنجیر سے آزاد کرا دیتي ہے ۔‘‘(خطبہ ٩)

خدا وند عالم ترک گناہ اور اس سے دستبرداري کونيکي و حسنہ سے تعبیر کرتا ہے اور ہر حسنہ کا ثواب دس برابر ہے۔ جیسا کہ حضرت عليٴ فرماتے ہیں:''خدا نے گناہ سے دوري اختیار کرنے کو حسنات میں جانا ہے۔‘‘(نامہ ٣١)

٣۔ نیکیاں گناہوں کو کھا جاتیں ہیں:نیکیاں انسان کے گناہوں کو یوں کھا جاتي ہیں جیسے آگ لکڑي کو کھا جاتي ہے۔ یقینا کتني نیکیاں ایسي ہیں جو انسان کے گناہوں کي بخشش کا سامان بن جاتیں ہیں۔ جیسا کہ حضرت عليٴ فرماتے ہیں:''پریشان حال کي مدد کرنا اور نیاز مندوں کي حاجت روائي کتنے ہي گناہ کبیرہ کا کفارہ ہے ۔‘‘(حکمت٢٤)

٤۔ صدقہ، گناہوں کا کفارہ ہے: صدقہ جہاں رد بلا کرتا ہے وہیں نہ جانے کتنے گناہوں کا کفارہ بھي بنتاہے البتہ وہ صدقہ جو صدق نیت اورتقرب الٰہي کے حصول کے لئے دیا جائے نہ کہ شہرت اور اسٹیٹس کو بنانے کے لئے ۔لہٰذا حضرتٴ صدقہ میں پوشیدگي کي شرط بیان کرتے ہیںکیونکہ جس کي نیت رضائے الٰہي اور خوشنودي پروردگار پر ہوتي ہے وہ اپنے ہر عمل پر خدا کو ناظر جانتا ہے اور اسي سے عمل کي جزاچاہتا ہے ۔جیسا کہ حضرتٴ فرماتے ہیں :''صدقہ السرفانھا تکفر الخطےئۃ‘‘''مخفیانہ صدقہ گناہ کا کفارہ ہے‘‘۔(خطبہ ١١٠)

٥۔ بیماري، گناہوں کا کفارہ ہے: چونکہ بیماري کے ہمراہ درد و مشکلات ہوتیں ہیں کہ جن کا تحمل واقعاً بہت سخت ہوتا ہے اور اس کے لئے ایک خاص صبر و حوصلے کي ضرورت ہوتي ہے لہٰذا خدا اس صبر و تحمل کو ریزش گناہ کا ذریعہ قرار دیتا ہے۔ حضرتٴ اس شخص کے جواب میں فرماتے ہیں جو اپني بیماري کي شکایت آپ سے کرتا ہے : ''تم جو نالہ و فریاد کرتے ہو اس کو گناہ کي ریزش کا ذریعہ قرار دیا گياہے ۔بیماري میں کوئي اجر نہیں ہے بس گناہوں کو محو کر دیتي ہے جیسے پت جھڑ کي فصل درخت سے پتوں کو جدا کر دیتي ہے ۔‘‘(حکمت ٤٢)

٣۔ توبہ میں تاخیر

الف۔ توبہ میں تاخیر جائز ہے؟

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا گناہ کي مغفرت کے لئے ضروري ہے کہ فوراً توبہ کي جائے؟اور اگر توبہ میںتاخیر کي جائے تو باب توبہ بند کر دیا جایگا؟یقینا قبولي توبہ میں فوریت کي شرط نہیں ہے بلکہ زندگي کے کسي بھي حصہ میں توبہ کي جا ئے حتي زندگي کے آخري حصہ میں بھي توبہ کي جائے تو قابل قبول ہے کیونکہ باب توبہ موت کے پہنچنے سے پہلے تک کھلا ہے جیسا کہ حضرت ٴفرماتے ہیں : ''افلا تائب من خطیتہ قبل منیتہ‘‘''آیا کوئي ہے جو موت سے قبل توبہ کرلے۔‘‘(خطبہ ٢٨)

لیکن باب توبہ کا ہمیشہ کھلا رہنا اس بات کي دلیل نہیں ہے کہ توبہ میں تاخیر کرنا جائز ہے کیونکہ کس کوپتہ ہے کہ کون سي گھڑي اس کي زندگي کي آخري گھڑي ہے ۔ممکن ہے آج کل کرتا رہے اور اچانک موت گلے سے لگ جائے لہٰذا عقل و فہم کا سمجھوتا یہي ہے کہ اگر کسي بھي سبب نافرماني پروردگار ہو جائے تو فوراً بلا فاصلہ توبہ کر کے خود کو پاک کرے اور عذاب و بلائے الٰہي سے خود کو محفوظ کرے۔کیونکہ اگر معارف اسلامي میں آخري وقت تک کي فرصت دي گئي ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تاخیر ضروري ہے بلکہ ممکن ہے عمداً توبہ میں تاخیر اور غفلت کرنے والے کا عذاب اور زیادہ ہو جائے اور آخري وقت توبہ کي فرصت و توفیق سے محروم رہ جائے تاخیر کا عذر اس صورت میں قابل قبول ہے جب انسان اس وظیفہ سے غافل تھا لہٰذا ایسے شخص پر ضروري ہے کہ جیسے ہي غفلت کي گرد ذہن سے چھٹے فرصت کو غنیمت جانتے ہوئے بارگاہ خدا وندي میں توبہ کرے۔ جیسا کہ حضرت عليٴ فرماتے ہیں:''عمل کرو! خدا تم پر رحم کرے۔ نیک عمل انجام دو کیونکہ ابھي بھي راہ کھلي ہے جو تم کو دار امن و امان کي جانب دعوت دے رہي ہے ۔ابھي بھي تم جس دنیا میں رہ رہے ہو خدا کي خوشنودي حاصل کر سکتے ہو۔ فرصت کو غنیمت جانو کہ ابھي بھي نامہ اعمال کھلا ہے اور فرشتوں کے قلم جاري ہیں ۔بدن ميں توان ،زبان میں یاراے سخن باقي ہے ،توبہ پر سماعت جاري اور اعمال صالح کي پذیرش ہے۔‘‘(خطبہ٩٤۔٨ )

ایک دوسرے مقام پر یوں فرماتے ہیں:''اے بندگان خدا! ابھي بھي اعمال صالحہ کا موقع ہے ابھي موت کا پھندہ تنگ نہیں ہوا ہے،ابھي بھي روح کسب کمال کے لئے آزاد اور بدن آمادہ ہے، ابھي بھي جس حالت میں ہو ایک دوسرے کي مشکل کو حل کر سکتے ہو ،ابھي بھي فیصلے کا موقع اور اختیار ہے ،ابھي بھي توبہ کا دروازہ کھلا ہے اورابھي بھي گناہ سے پلٹنا ممکن ہے ۔توبہ کرو اس سے قبل کہ راہ نفس تنگ ہو جاے، موت تم تک پہنچ جائے اور تم خدا کي پکڑ میں آ جاؤ۔‘‘(خطبہ٨٣۔٦٠)

ب۔ توبہ میں تاخیر کے علل:

کلام امیرالمومنین ٴمیں توبہ میں تاخیر کے سلسلہ میں چند وجوہات بیان ہوئي ہیں:

١۔ طويل آرزوں کا دل میں ہونا: جب انسان بڑي بڑي آرزوں کو دل میں جگہ دیتا ہے تو ان آرزوں کا طوفان اس کے ذہن سے آخرت کا خیال اور خوف خدا جیسي نعمت کو دور کرديتا ہے نتیجہ میں انسان آخرت کو بھلا کر چند روزہ زندگي کے ایام میں مست ہو جاتا ہے اور توبہ کو آج کل پر موقوف کرتا جاتا ہے یہاں تک کہ موت سے گلے لگ جاتا ہے۔ جیسا کہ حضرت عليٴ فرماتے ہیں:''ان لوگوں میں مت ہو جاؤ جو بغیر عمل کے آخرت کي امید رکھتے ہیں اور طولاني اور بڑي آرزوں کے سبب توبہ میں تاخیر کرتے ہیں ۔‘‘(حکمت١٥٠)

٢۔ شیطان کا فریب تاخیر کا باعث بنتا ہے: شیطان جو انسان کا کھلا ہوا دشمن ہے اور جس نے بني آدم کو گمراہ کرنے کي قسم کھائي ہے ،مختلف روش و راستوں سے انسان کو حق سے دور کرنے کي کوشش کرتا رہتا ہے۔ کبھي ارتکاب گناہ پر آمادہ کرنے کے لئے معصیت کو خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے اورکبھي اپنے حربوں کے ذریعہ انسان کو توبہ سے دور کر دیتا ہے۔ جیسا کہ حضرت عليٴ فرماتے ہیں:''شیطان جو انسان کي گمراہي کے در پے ہے، گناہ کو خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے تاکہ انسان گناہ کا مرتکب ہو اور بے جاامید کے ذریعہ توبہ میں تاخیر کرواتا ہے‘‘ ۔(خطبہ ٦٤)

٣۔ گناہ کو معمولي جاننا: کوئي بھي گناہ نہ تو چھوٹا ہوتا ہے اور نہ ہي بڑا بلکہ ہر وہ عمل جو نافرماني پروردگار کا باعث بنے انسان کے لئے بڑا جرم ہے ، چاہے دیکھنے میں عمل کتنا ہي چھوٹا ہو لہٰذا کبھي بھي کسي گناہ کو معمولي نہ جانے۔ اگر کبھي بھي کسي بھي سبب گناہ سرزد ہو جائے تو توبہ کے ذریعہ اس کا ازالہ کر لیا جائے، خدا غفور رحیم ہے یقینا معاف کر دیگا لیکن اگر گناہ کو معمولي جانتے ہوئے توبہ کي ضرورت محسوس نہ کي جائے تو انسان کا یہ جرم اس گناہ سے کہیں شدید اور پر عذاب ہے جیسا کہ حضرتٴ فرماتے ہیں:''بدترین گناہ يہ ہے کہ گناہ کرنے والا اس کو معمولي جانے۔‘‘ (حکمت٣٤٨)

٤۔ کچھ گناہ بغیر توبہ کے قابل بخشش نہیں :گناہ چاہے چھوٹا ہو یا بڑا ، چاہے حقوق اللہ کي منزل میں ہو یا حقوق الناس کي منزل میں ؛ہر صورت میں گناہوں کا ارتکاب،واجبات کا ترک کرنا نافرماني پروردگار ہے اور خدا اور اس کي رحمت سے دوري کا باعث ہے لہٰذا پہلي ہي فرصت میں ہر چھوٹے بڑے گناہ سے توبہ کرکے نامہ اعمال کو پاک و پاکیزہ کر لینا چاہئے لیکن کچھ ایسے گناہ بھي ہیں جن کي توبہ واجب اور ضروري ہے یعني کچھ ایسے گناہ ہیں جنکا کفارہ اعمال صالح بن جاتے ہیں کہ اگر توبہ بھي نہ کي جائے تو اس کي نیکي اس گناہ کي تطہیر کر دیتي ہے لیکن کچھ گناہ ایسے ہیں جن پر توبہ لازم ہے لہٰذا اگر بغیر توبہ کے انسان خدا کي بارگاہ میںحاضر ہو اب چاہے جتنے ہي اعمال انجام ديئے ہو ںاس کو فائدہ پہنچانے والے نہیں ہیں جیسا کہ حضرتٴ فرماتے ہیں:''خداوند عالم نے کچھ واجبات کو قرآن میں بيان کياہے کہ بندہ کي جزا اور سزا اسي کے مطابق ہو گي اورخدا کي خشنودي اور نارضایتي اسي پر منحصر ہے وہ یہ ہے کہ اگر انسان دنیا سے اس حالت میں اٹھے اور اپنے پروردگار سے ملاقات کرے کہ کوئي ایک ناپسند صفت اس میں ہو اور اس نے اس پر توبہ نہ کي ہو اب چاہے عمل میں جتني ہي زحمتیں برداشت کي ہوں،عمل کو خالص بنایا ہو پر کوئي فائدہ نہ ہوگا۔وہ ناپسند دیدہ صفات یہ ہیں:

١۔ خدا کا شریک قرار دینا : ''ان عبادت میں خدا کا شریک قرار دینا جسکو خدا نے بندوں پر واجب کیا ہے۔‘‘

٢۔ قتل :''او يشفي غیظہ بھلاک نفس‘‘ ''یا کسي کو قتل کرکے اپنا غصہ ٹھنڈا کرے۔‘‘

٣۔عیب جوئي کرنا: ''او لعر با مر فعلہ غیرہ‘‘ ''لوگوں کي عیب جوئي کرنا۔‘‘

٤۔ دین میں بدعت ایجاد کرنا: ''لوگوں کے ذریعہ اپني ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے دین میں بدعت قائم کرنا۔‘‘

٥۔ منافقت کرنا:''او یلقي الناس بوجھین‘‘''لوگوں سے دورخي کے ساتھ ملنا۔‘‘

٦۔ سخن چیني کرنا: ''او یمشي فیھم بلسانین‘‘''لوگوں کے درمیان چغل خوري کرنا۔‘‘ (خطبہ ٥٣۔٩)

١۔ گناہ کے اثرات :

جس طرح انسان کي نیکیاں آخرت میں ثواب اور دنیا میں خیر و برکت اور دیگر اوصاف کي شکل میں ظاہر ہوتي ہیں اسي طرح انسان کا گناہ جہاں ایک طرف انسان کے نامہ اعمال کو داغدار بنانا ہے وہیں دوسري طرف دنیا میں بھي چند شکلوں میں رونماں ہوتا ہے اور انسان کو اس کے کيے کا احساس دلاتا ہے ۔کبھي انسان احساس کي اس آواز کو سن کر لبیک کہتا ہے تو کبھي خواب غفلت میں ہونے کي وجہ سے ہدایت ضمیر اور احساس کي آواز کو نظر انداز کرکے اپني بدحالي اور ناکامي کي مختلف توجیہ میں مصروف ہوتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے حالات اس کے گناہوں کا نتیجہ بن کر صفحہ وجود پر نمودار ہو تے ہیں ۔گناہوں کے ان آثار کو امیرالمومنینٴ کے کلام میں یوں دیکھا جا سکتا ہے:

١۔ گناہ، سلب آسایش اور زوال قوم کا باعث ہے: گناہ انساني کا ایک دنیاوي اثر یہ بھي ہے کہ انسان اور نعمت پروردگار کے درمیان میں رکاوٹ بن جاتا ہے نتیجہ میں انسان اپنے پروردگار کي نعمت سے محروم ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ آپٴ فرماتے ہیں:''کسي بھي قوم سے نعمت نہیں چھیني جاتي مگر اس کے گناہ کي وجہ سے‘ ‘۔(خطبہ ١٧٨۔٦)

٢۔ گناہ ،خیر و برکات کو روک دیتا ہے:گناہ کا ایک نقصان یہ بھي ہے کہ وہ خیر و برکات کو انسان سے دور کر دیتا ہے نتیجہ میں زندگي بے رونقي اور نا امیدي کا محور بن کر رہ جاتي ہے مگر یہ کہ صدق دل سے بارگاہ خداوندي میں توبہ کرے اور اس کے امور کي اصلاح ہو جائے۔ جیسا کہ آپٴ فرماتے ہیں:''خدا گناہ گاروں کي رزق کي کمي اور خیر و برکات کا دروازہ بند کرکے آزمائش کرتا ہے تاکہ بندہ توبہ کرے اور وہ سب دوبارہ جاصل کرے۔‘‘(خطبہ ١٤٣۔٣)

٣۔ گناہ، اموال میں کمي کا باعث ہے: گناہ انسان کے مال میں کمي کے ساتھ ساتھ اس سے خیر و برکات کو اٹھا لیتا ہے:''خداگناہ کرنے والے بندوں کے مال میں کمي کر دیتا ہے۔‘‘(خطبہ ١٤٣۔٣)

٤۔ گناہ، انسان کي بربادي کا پیش خیمہ ہے:گناہ کا ایک اثر یہ بھي ہے کہ وہ انسان کو صفحہ ہستي سے نیست و نابود کر دیتا ہے۔ تاریخ کے دامن میں نہ جانے ایسي کتني قوموں کے واقعات ہیں جو پہلے نعمت و آسائش میں غرق تھیں لیکن ان کے گناہوں نے صرف نعمتوں کے چھیننے پر ہي اکتفا نہیں کي بلکہ ان کے وجود کو صفحہ ہستي سے مٹا کر رکھ دیا ۔ قرآن مجید میں بھي ایسي بہت سي قوموں کا تذکرہ ہے جن میں قوم عادو ثمود کا نام سر فہرست ہے جو اپنے گناہوں کے نتیجہ میں فنا ہو کر رہ گئیں لہٰذا گناہ گاروں کو متوجہ کرتے ہوے حضرتٴ فرماتے ہیں:''خود کو حد سے زیادہ آزادي نہ دو کہ نفس تم کو بربریت کي طرف کھینچ لے جائے اور نفس کے ساتھ سستي سے کام نہ لو کہ ناگہاں گناہ تم کو برباد کر دے۔‘‘(خطبہ ٨٦۔٩)

٥۔ گناہوں سے نعمتیں سلب ہوتي ہیں:نہ جانے کتني نعمتیں ہیں جو ایک زمانے تک انسان میں پائي جاتي ہیں اور پھر گناہوں کے سبب وہ نعمت اس سے چھن جاتي ہے لیکن اگر صدق و صفا ے دل سے بارگاہ خدا میں توبہ کرے تو نہ صرف یہ کہ وہ نعمت اس کو دوبارہ حاصل ہو جاتي ہے بلکہ اس میں اضافہ بھي ہو جاتا ہے اوروہ مزید خیر و برکات سے روبرو ہوتا ہے۔ اس حقیقت کو حضرت ٴ یوں بیان فرماتے ہیں:''اگر نزول بلا کي گھڑي اور سلب ِنعمت کے وقت انسان بارگاہ پروردگار میں صدق نیت کے ساتھ توبہ کر لے تو بلائيں رد ہو جاتیں ہیں اور نعمتیں پلٹ آتیں ہیں ۔‘‘(خطبہ ١٧٨۔٧)

اس حقیقت کو حضرتٴ اس طرح بیان فرماتے ہیں:''خدايا!ا میرے ان گناہوں کو معاف کر جو نعمت کے دروازے کو مجھ پر بند کر دیتے ہیں۔‘‘( دعاے کميل)

٦۔ گناہوں سے بلائیں نازل ہوتي ہیں:گناہ کا ایک بدترین نقصان یہ ہے کہ بلاؤں کو دعوت دیتا ہے۔ کبھي یہ بلا زمیني بلا کي مشکل میں ظاہر ہوتي ہے جیسے زلزلہ ،سیلاب ،زمین کا شق ہو جانا اور کبھي آسماني بلا کي شکل میں ظاہر ہوتي ہے جیسے اڑا لے جانے والي تیز آندھي،آگ کي بارش،پتھروں کي بارش جیسا کہ بعض گزشتہ قوموں کے ساتھ عذاب الٰہي کي يہ شکل ظاہر ہوئي اور قوم کو گناہ کے نتیجہ میں صفحہ وجود سے نابود کر دیا جس کا تذکرہ قرآن مجید میں تفصیل سے پایا جاتا ہے۔ قوم عادو و ثمود کي بربادي کا باعث بھي عذابي شکل میں نازل ہونے والي بلا تھي لیکن اگر انسان توبہ کر لے تو بلاؤں کو رد کر دیا جاتا ہے۔ اس حقیقت کو حضرتٴ اس طرح بیان فرماتے ہیں: ''بلا کے نزول کے وقت اگر انسان صدق نیت کے ساتھ بارگاہ خدا میں توبہ کر لے تو بلائيں رد ہو جاتیں ہیں۔‘‘(خطبہ ١٧٨۔٧ )

اس حقیقت کا ذکر دعاے کمیل میں بھي اس تعبیر کے ساتھ آیا ہے:''خدا میرے گناہوں کو بخش دے جو نزول بلا کا باعث بنتے ہیں۔‘‘

٧۔ گناہ باعث عذاب الھي ہے: اگر گناہ کے ہمراہ توبہ نہ ہو تو انسان کا عمل انسان کے لئے عذاب بن کر سامنے آ جائے یا دوسري تعبیر میں توبہ انساني ہے جو انسان اور عذاب الٰہي کے درمیان امن وامان کي دیوار بن کر انسان کو اپنے دامنِ امان میں سمیٹ لیتي ہے۔ جیسا کہ حضرت عليٴ فرماتے ہیں:''زمین پر دو چیز عذاب الٰہي سے امان کا باعث ہے جس میں سے ایک اٹھا لي گي ہے پس دوسري نعمت کا دامن تھام لو ...،زمین پر باقي نعمت استغفار ہے‘‘۔(حکمت٨٨)

اس حقیقت کو دعاے کمیل میں حضرتٴ یوں بیان فرماتے ہیں:''اللھم اغفرلي الذنوب التي تنزل النقم۔‘‘''خدا يا! میرے ان گناہوں کو معاف فرما جو نزول عذاب کا باعث ہیں۔‘‘

٨۔ گناہ ،اخلاق رزیلہ کو جنم دیتا ہے: اگر انسان گناہ و نافرماني کا سدباب نہ کرے تو اس کا یہ گناہ نہ جانے کتني خباثتوں کو جنم دیتا ہے اور اخلاقي اعتبار سے انسان کو پست تر بنا دیتا ہے نتیجہ میں برائي انسان کے وجود میں سر اٹھانے لگتي ہے ۔جیسا کہ حضرتٴ فرماتے ہیں:''لالچ،تکبر،حسد و بغض،اور غفلت و لاپرواہي گناہوں کا ثمرہ ہے۔‘‘(حکمت ٣٧١)

٩۔ گناہ دامن عفت کو داغدار بنا دیتا ہے: گناہ انسان کے صاف و شفاف دامن عصمت کو گندہ اور داغدار بنا دیتا ہے کہ جس کي سیاہي اس کے تقدیر کا اندھیرا بن جاتي ہے '' خدايا! میرے ان گناہوں کو بخش دے جو میرے دامن عصمت کو داغدار بناتے ہیں۔‘ ‘(دعائے کمیل )

١٠۔ گناہ قبولي دعا میں مانع بنتا ہے: گناہ دعا اور اس کي قبولي کے درمیان پردہ بن کر حائل ہو جاتا ہے مگر یہ کہ انسان توبہ کے ذریعہ اس رکاوٹ کو بر طرف کرے:''خدايا! میرے ان گناہوں کو بخش دے جو قبولي دعا میں مانع بنتے ہیں۔‘‘(دعائے کمیل )
٢۔ توبہ کے اثرات:

فوائد توبہ کے باب میں حضرت امیرالمومنین ٴ کے کلام میں متعدد تعبیریں بیان ہوئیں ہیں جنکو مرتب کرکے آثار توبہ کے عنوان سے پیش کیا جا رہا ہے:

١۔ توبہ، عذاب الٰہي سے امان کي باعث ہے:اگر توبہ نہ ہوتي تو انسان کے گناہ عذاب الٰہي بن کر انسان کو تباہ و برباد کر چکے ہوتے لیکن توبہ کے بعد گناہ نامہ اعمال سے یوں صاف کر دیا جاتا ہے گویا اس سے کوئي گناہ ہوا ہي نہ ہو ۔''دنیا میں صرف دو لوگوں کے لئے بھلائي ہے :ایک اس گناہ گار کے لئے جو توبہ سے اپنے گناہ کا جبران کرے، دوسرے اس شخص کے لیے جو خیر میں سبقت لے جائے۔‘‘(حکمت ٩٤)

اس حقیقت کو ایک دوسري تعبیر میں اس طرح دیکھا جا سکتا ہے:''زمین پر دو چیزيں عذاب الٰہي سے امان کا ذریعہ تھیں جن میں سے ایک کو اٹھا لیا گیا پس بچي ہوي دوسري سے متمسک ہو جاؤ۔ اٹھائي جانے والي نعمت ذات پیغمبراسلام۰ ہے اور ابھي بھي جو نعمت زمین پر باقي ہے وہ ہے توبہ و استغفار ۔‘‘(حکمت ٨٨)

٢۔ توبہ، بہترین شفیع ہے: حضرت عليٴ توبہ کو انسان کے لئے بہترین شفیع جانتے ہیںجو انسان کي عاقبت کو خیر میں تبدیل کرتي ہے :''توبہ انسان کے لئے بہترین شفيع ہے۔‘‘(حکمت٣٧١)

٣۔ توبہ نفع بخش ہے:توبہ انسان کا ایک ایسا سرمایہ ہے کہ جس کے ذریعہ انسان دنیا میںعزت و نعمت سے مالا مال ہوتا ہے تو آخرت میں نجات و کامراني سے روبرو ہوتا ہے۔''اے لوگو! عمل کرو کیونکہ عمل انسان کو بلندي دیتا ہے،توبہ فائدہ پہنچاتي ہے اوردعائیں مستجاب ہوتي ہیں۔‘‘(خطبہ٢٣٠۔٢ )

اعمال صالح کسي ایک خاص عمل کا نام نہیں ہے بلکہ اعمال حسنہ سے لے کر توبہ اور دعا بھي اس میں شامل ہوتے ہیں۔

٤۔ توبہ ذریعہ اصلاح: انسان اپنے آپ میں تبدیلي اور اپنے امور کي اصلاح توبہ کے ہي ذریعہ کر سکتا ہے یعني توبہ ہي ہے جو انسان کونيک بختي عطاکرتي ہے۔ جیسا کہ حضرتٴ اس طرح فرماتے نظر آتے ہیں:''اپنے امور و مسائل کي اصلاح کرو کیونکہ توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔‘‘ (خطبہ١٦۔١٠)

٥۔ توبہ وسعت رزق کا باعث ہے: توبہ گناہ کي بخشش کے ساتھ ساتھ روزي میں وسعت اور برکت کا ذریعہ بھي بن جاتي ہے اور انسان کي زندگي کو پہلے سے بھي بہتر بنا دیتي ہے۔ جیسا کہ حضرتٴ فرماتے ہیں:''خدا وند کریم نے توبہ کو نزول رزق کا ذریعہ قرار دیا ہے۔‘‘ (خطبہ١٤٣۔٤)

٦۔ توبہ نزول رحمت کا ذریعہ :توبہ کے باب ِفوائد میں ایک فائدہ یہ بھي ملتا ہے کہ توبہ کے ذریعہ رحمت پروردگار کا دروازہ بندے پر کھل جاتا ہے:''توبہ کو خدا وند عالم نے افزائش رزق اور نزول رحمت کا ذریعہ بنایا ہے۔‘‘(خطبہ ١٤٣۔٤)

٧۔ توبہ سلب شدہ نعمت کو پلٹا دیتي ہے:گناہ جہاں ایک طرف دامن عصمت انساني کو داغدار بنا دیتا ہے وہیں دوسري جانب نعمتوں کو بھي سلب کر دیتا ہے لہٰذا اگر انسان صدق نیت سے بارگاہ پروردگار میں اپنے کيئے کي توبہ چاہے تو خدا وند معافي کے ساتھ ساتھ کھوئي ہوئي نعمت بھي پلٹا دیتا ہے۔اگر انسان صدق نیت اور خدا کي محبت پر تکیہ کرتا ہوا بارگاہ خدا میں توبہ کرے تو کھوئي ہوئي نعمت واپس مل جاتي ہے۔

٨۔ توبہ بگڑے کام بناتي ہے:توبہ ایک ایسا عمل ہے کہ جس کے ذریعہ خود بخود انسان کے عمل کي اصلاح ہو جاتي ہے اور بگڑے کام بن جاتے ہیں۔ اگر صدق دل سے بارگاہ خدا وندي میں توبہ کي جائے تو خدا وند اس کے امور کي اصلاح کر دیتا ہے۔(خطبہ١٧٨۔٨)

٩۔ توبہ کرنے والے پر خدا کا خاص لطف: خدا کے نزدیک توابین بندوں کي عظمت کو مولا کے اس جملے سے با آساني سمجھا جا سکتا ہے۔''خدا وند اس بندہ پر بہت زیادہ مہربان ہے جو توبہ و استغفار کرتا ہے خطاؤں کي معافي چاہتا ہے اور اپنے امور کي اصلاح کرتا ہے۔‘‘ (خطبہ١٤٣۔٥)
نتيجہ

١۔ گناہ کرکے توبہ کرنے سے کہيں آسان اوربہتر، تربيتِ نفس کے ذريعہ گناہ سے پرہيز کرناہے۔

٢۔ اگرانسان سے کسي سبب گناہ سرزد ہوجاے تو سمجھداري کا تقاضاہے کہ فوراً توبہ کر کے گناہوں کي تطہير کرلے۔

٣۔ توبہ کي قبوليت ميں فوريت کي شرط تو نہيں ہے لیکن جان بوجھ کر تاخیر کرنا جائز بھي نہیں ہے بلکہ جان بوجھ کر تاخیر کرنا سزامیں اضافہ کا باعث بھي ہو سکتا ہے۔

٤۔ توبہ کرنے والے کا مقام نگاہِ پروردگار میں بہت بلند ہے لہٰذا اگر توبہ اپنے تمام شرايط و ضوابط کے ساتھ انجام پائے تو نہ صرف یہ کہ انسان کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں بلکہ پہلے سے بھي زیادہ خدا کے نزدیک محبوب بن جاتا ہے۔

.....

اهميت نهج البلاغه

                              بسم اللہ الرحمن الرحيم
الحمد للہ رب العالمين والصلا والسلام علي سيد الانبيائ والمرسلين و علي آلہ الطاھرين المعصومين
بغداد کے ايک شريف اور نجيب سادات کے گھرانے ميں ۳۵۹ھ کو ايک بچے نے آنکھ کھولي
آنے والے کا نام سيد محمد رضي رکھا گيااور جب يہ بچہ کچھ سيکھنے کي عمر کو پہنچا تو اُس وقت کے فخرِ تشيع علّامہ شيخ مفيد عليہِ الرحمه نے خواب ديکھا کہ جناب فاطمہ زھرا اپنے دونوں بيٹوں امام حسن و حسين عليہما السلام کے ہمراہ مسجد ميں تشريف لائيں اور فرمايا:
اے شيخ، ميرے اِن بچوں کو علمِ دين پڑھائيں
جناب شيخ مفيد اِس خواب کي تعبير کے بارے سوچ رہے تھے صبح ہوئي تو فاطمہ بنتِ حسين کنيزوں کے جھرمٹ ميں اپنے دو بچوں سيد مرتضي و سيدرضي کے ساتھ مسجد ميں تشريف لائيں شيخ مفيد کو اِس سيدزادي نے وہي خواب والے جملے کہے اور يوں شيخ مفيد کو اپنے خواب کي مجسم تعبير سامنے نظر آئي۔ شيخ کي آنکھوں ميں آنسو بھر آئے اور اپنا خواب اُس سيد زادي کو بھي سُنا ديا
شيخ مفيد عليہ الرحمہ کے يہ دونوں شاگرد علمي مراحل طے کرتے رہے سيد رضي نے جواني کي عمر ميں ہی عزت و وقار کي بلنديوں کو پا ليا اور اسي جواني ميں حقائق التاويل ، تلخيص البيان عن مجاز القرآن ، مجازات الآ ثار النبويہ اور خصائص الآئمہ جيسي کتب تصنيف فرمائيں جنہيں بہت شہرت حاصل ہوئي
سيد رضي عليہ الرحمہ خود تحرير فرماتے ہيں کہ ميں نے اوائل عمرانہ جواني کے ايام ميں آئمہ عليہم السلام کے حالات و فضائل ميں ايک کتاب کي تا ليف شروع کي تھي جو آئمہ عليہم السلام کے نفيس واقعات اور ان کے کلام کے جواہر ريزوں پر مشتمل تھي اس کتاب کا وہ حصہ جو اميرالمومنين علي عليہِ السلام کے فضائِلوں سے متعلق تھا وہ مکمل ہوا ليکن حالات نے بقيہ کتاب مکمل نہ ہونے دي جناب امير المومنين کے حالات کي آخري فصل ميں امام سے منقول پند ونصائح ، حکم و امثلہ اور اخلاقيات کے مختصر جملے درج تھےجب احباب و برادرانِ ديني نے ان کلمات کو ديکھا انہوں نے ان پر تعجب و حيرت کا اظہار کيا اور مجھ سے خواہش کي کہ ميں ايک ايسي کتاب ترتيب دوں ، جو امير المومنين عليہِ السلام کے خطبات و خطوط اور نصائح وغيرہ پر مشتمل ہوںچنانچہ ميں نے اس فرمائش کو قبول کيا اور خطبات و خطوط اور مختصر فرامين کو جمع کيا اور اِس کتاب کا نام نہج البلاغہ دیا
جناب امير المومنين عليہِ السلام کے کلمات کو امام کي زندگي ميں آپ کے صحابہ جمع کرتے رہے اور لوگوں کو سناتے رہے امام زين العابدين علیہ السلام کے بيٹے جناب زيد شہيدحضرتِ امير عليہ السلام کے خطبات کو اکثر دہراتے رہے 90 ھ ميں وفات پانے والے زيد بن وھب نے امام کے خطبات کو جمع کيا شاہ عبد العظيم حسني جن کا تہران ميں مزار ہے اور امام علي نقي عليہ السلام کے اصحاب ميں سے تھے انہوں نے جناب امير المومنين علیہ السلام کے خطبات کو ايک کتاب ميں جمع کيا
فرامِينِ امامعلیہ السلام، سيد رضي سے صديوں پہلے جمع ہوتے رہے اور کتابوں کي زينت بنتے رہےمگر نہ معلوم وہ کونسي قبوليت کي گھڑي تھي اور سيد رضي کے خلوص کا کونسا مرتبہ تھا کہ سيد رضي کي ترتيب دي ہوئي کتاب نہج البلاغہ کو وہ شہرت ملي جو کسي اور مجموعہ کو نہ مل سکي اس کتاب کي شہرت کا اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اب تک اس کي مکمل يا بعض حصوں کي تين سو سے زيادہ شرحيں لکھي جا چکي ہيں
جامع نہج البلاغہ اس دنيا ميں فقط سينتاليس سال رہے اور 406 ھ کو اس جہان فاني سے کوچ کر گئے مگر نہج البلاغہ جو جنابِ امير المومنين عليہ السلام کي پہچان کا ايک ذريعہ بن گيا وہ ياد ميں چھوڑ گئے جس کي وجہ سے ان کا نام ہميشہ زندہ ہے
آپ کے بڑے بھائي سيد مرتضي علم الہدي نے آپ کے مرثيہ ميں کہا تھا
’’تمہاري چھوٹي عمر مگر پاک و پاکيزہ عمر کي خوبيوں کا کيا کہنا‘‘
نہج البلاغہ ميں کيا کيا درج ہے اور اس ميں کون کون سے موضوعات بيان ہوئے ہيں اسے صاحبانِ ايمان مطالعہ کر کے جان سکتے ہيں ہمارے ليئے اس کا احاطہ کرنا مشکل ہے کيونکہ سيد رضي کے بقول يہ کلمات علمِ الہي کا عکس و شعاع اور کلامِ نبوي کي خوشبو کے حامل ہيںان کلمات کے کہنے والے نے زہد و تقوي اور جرآت وشجاعت جيسي متضاد صفات کو سميٹ ليا اور بکھرے ہوئے کمالات کو پيوند لگا کر جوڑ ديا
ايک عرب شاعر جناب صفي الدين حلي نے جناب امير المومنين عليہ السلام کے بارے ميں کيا خوب لکھا کہ
’’آپ کي صفات ميں متضاد جمع ہيں آپ کي مثال لانا مشکل ہے؟
آپ زاہد بھي ہيں اور حاکم بھي،حليم بھي ہيں اور شجاع بھي آپ دلير و بہادر بھي ہيں اور عابد و زاہد بھي،آپ فقير بھي ہيں اور سخي بھي۔
آپ ميں ايسي خصلتيں جمع ہيں جو ہر گز کسي بشر ميں اکٹھي نہيں ہوسکتيں اور نہ ان جيسي فضيلتوں کو بندوں ميں تلاش کيا جا سکتا ہے۔
آپ خلق ومروت ميں ايسے نرم ہيں کہ نسيمِ صبح بھي شرما جائے اور شدت و قوت ميں ايسے ہيں کہ پتھر بھي پگھل جائے؟
آپ کي صفاتِ حميدہ اس سے بلند ہيں کہ اشعار ميں ان کا احاطہ کيا جاسکے يا انہيں کوئي نقاد شمار کر سکے‘‘
نہج البلاغہ کے کلمات اس شخصيت کے رُخِ انور کي جھلک ہے لہذا يہ تمام موضوعات اس کتاب ميں چھلکتے ہوئے نظر آتے ہيں اس کتاب سے عالم و متعلم اپني ضرورتيں پوري کرتا ہے اور صاحبِ بلاغت و تارکِ دنيا بھي اپنے مقاصد حاصل کرتا ہےنہج البلاغہ علم کے بہت سے بند دروازے کھولتا ہے اور راہِ حق کي تلاش کرنے والوں کو منزل کے قريب کرتا ہے
يہ کيوں نہ ہو اس ليئے کہ يہ اس کا کلام ہے جو فرماتے ہيں
’’ہم اہل بيت سلطنتِ کلام و سخن کے امير و حاکم ہيں‘‘(خطبہ ۲۳۰)
کبھي فرماتے ہيں’’ ہم ہي سے ہدايت کي طلب کي جا سکتي ہے اور ہم سے ہي گمراہي کي تاريکيوں کو دور کرنے کي خواہش کي جا سکتي ہے‘‘(خطبہ۱۴۲)
ان کلمات کا متکلم فرماتا ہے
’’آلِ َ محمد علم کي زندگي اور جہالت کي موت کا سبب ہيں‘‘(خطبہ ۲۳۶)
پھر فرماتے ہيں’’ميں ہي وہ حق پرست ہوں جس کي پيروي کي جانا چاہيئے‘‘(خطبہ ۱۲۰)
ان کلمات سے ہم نے کيا سيکھا ہے اور کيا سيکھنا چاہيئے امام خود فرماتے ہيں
’’ہر ماموم کا ايک امام ہوتا ہے جس کي وہ پيروي کرتا ہے اور جس کے علم کے نور سے روشني حاصل کرتا ہے ديکھو تمہارے امام کي حالت‘‘(خط۴۵)

کيا ہم امام کي پيروي کرتے ہيں؟
ہمارے امام تو وہ ہيں جو فرماتے ہيں
’’جو چاہو مجھ سے پوچھ لو اس سے پہلے کہ مجھے نہ پاؤ‘‘(خطبہ۹۱)
کيا ہم امام کے علمي سرمائے سے کچھ لے رہے ہيں اور امام سے کچھ پوچھ رہے ہيں؟
امام تو توحيد کے اس بلند مقام کو بيان فرماتے ہيں جسے عام آدمي سوچ بھي نہيں سکتا فرمايا
’’کيا ميں اس اللہ کي عبادت کرتا ہوں جسے ميں نے ديکھا نہيں‘‘(خطبہ۱۷۷)
کيا ہم توحيد کي ان باريک ابحاث کو اپنے امام سے سيکھتے ہيں يا امام کے مخالفوں سے؟
امام فرماتے ہيں’’بلاشبہ آئمہ اللہ کے ٹھہرائے ہوئے حاکم ہيں اور اللہ کو بندوں سے پہچنوانے والے ہيں‘‘(خطبہ ۱۵۰)
کيا ہم بھي اللہ کو ان اماموں کے ذريعہ سے پہچانتے ہيں يا غيروں سے؟
رسالت پر ايمان کي بات آتي ہے تو امام فرماتے ہيں
’’ميں نے کبھي ايک لحظہ کے لئے بھي اللہ اور اس کے رسول کے احکام سے سرتابي نہيں کي‘‘(خطبہ ۱۹۵)
امام فرماتے ہيں ’’يہ دنيا دھوکے باز،نقصان رساں اور بھاگ جانے والي ہے‘‘(کلماتِ قصار ۴۱۵)
کيا ہم امام کے کلمات کو بھلا کر اس دھوکہ باز دنيا کے پيچھے تو نہيں بھاگ رہے؟

آئيے نہج البلاغہ کو پڑھيں
جورج جرداق عيسائي لکھتا ہے ميں نے نہج البلاغہ کو دو سو با ر پڑھا
ابن حديد اہل سنت کا عالم کہتا ہے ميں نے ايک خطبہ ۲۱۸ کو ايک ہزار بار پڑھا
کيا ہم اپنے آپ سے پوچھ سکتے ہيں کہ ہم نے اسے کتني بار پڑھا؟
آئيے نہج البلاغہ کے ذريعے اپنے امام کي صداوں کو غور سے سنيں،امام مدد کے ليئے پکار رہے ہيں جلدي سے لبيک کہيں،امام اتباع کا حکم دے رہے ہيں ہم اتباع ميں تيزي سے قدم بڑھائيںان فرامين کو سمجھيں،اپني زندگيوں ميں اپنائيں اور پھر زمانے بھر کو اپنے امام علي عليہ السلام کا غلام بن کردکھائيں؟


source : abna
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

خیر و فضیلت کی طرف میلان
قرآن دہشت گردی کی تعلیم نہیں دیتا
اذان میں أشھد أن علیًّا ولی اللّہ
کلمہ ٴ ”مو لیٰ“ کے معنی کے متعلق بحث
نھج البلاغہ خطبہ ۱(خلقت انسان)
ہماری زندگی میں صبر اور شکر کی اہمیت
۹ ربیع الاول امام زمانہ(ع) کی امامت کا یوم آغاز
امام جعفر صادق علیہ السلام کی فرمائشات
ماہ رمضان کی فضیلت
انقلاب حسینی کے اثرات وبرکات

 
user comment