اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

مولوی اسحاق مدنی: اس وقت جو کچھ اسلام ہمارے پاس ہے حضرت علی(ع) کی دین ہے

’’علوی حکومت‘‘ کے عنوان سے بین الاقوامی کانفرنس پہلی مرتبہ قم میں ملکی اور غیر ملکی علماء کی موجودگی میں منعقد ہوئی۔
مولوی اسحاق مدنی: اس وقت جو کچھ اسلام ہمارے پاس ہے حضرت علی(ع) کی دین ہے

’علوی حکومت‘‘ کے عنوان سے بین الاقوامی کانفرنس پہلی مرتبہ قم میں ملکی اور غیر ملکی علماء کی موجودگی میں منعقد ہوئی۔
قم کے یونیورسٹی ’’مفید‘‘ میں منعقد ہوئی ’’علوی حکومت اور انتہا پسندی‘‘ کے عنوان سے بین الاقوامی کانفرنس میں ایرانی علماء کے علاوہ روس، تیونس اور عراق کے علماء اور فضلا نے شرکت کی۔
اس کانفرنس کی آج تیسری نشست میں اہل سنت کے عالم دین مولوی اسحاق مدنی نے تقریر کرتے ہوئے کہا: اسلام میں انتہا پسندی مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کے زمانے سے خوارج کے ذریعے شروع ہوئی اور شیعہ و سنی بزرگوں کا اس میں کوئی کردار نہیں رہا ہے۔
انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ انتہا پسندی در حقیقت اسلام کو درست نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے کہا: انتہا پسند لوگ اپنے طور پر اسلامی تعلیمات کی تفسیر کرتے ہیں اور بالکل واضح اور سادہ مسائل کو الجھا کر اپنے مقاصد کے تحت بیان کرتے ہیں۔
مولوی اسحاق مدنی نے کہا: حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت اہل تشیع اور اہل تسنن کے درمیان مورد اتفاق ہے۔ اہل سنت کا اتفاق ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) کے بعد حضرت علی (ع) ہی روئے زمین کے تمام افراد سے افضل تھے۔ ہمیں خلافت کے مسئلے میں خود کو نہیں الجھانا چاہیے بلکہ اہم بات یہ ہے کہ ہم ان کی زندگی کو اپنی زندگیوں کے لیے نمونہ عمل بنا لیں۔
اہل سنت کے ان عالم دین نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ آج شیعہ سنی سمیت تمام مسلمانوں کا کردار امیر المومنین(ع) کی سیرت کے خلاف ہے کہا: اگر حضرت علی(ع) کی کوششیں اور کاوشیں نہ ہوتیں تو اسلام اس حد تک بھی ترقی نہ کرتا۔ آج کوئی بھی اسلام کی فکر میں نہیں ہے بلک سب صرف اپنی ٹولیوں اور جماعتوں کی فکر میں ہیں۔
انہوں نے کہا: مسلمانوں کی امیر المومنین (ع) کی حقیقی سیرت سے دوری اس بات کا باعث بنی ہے کہ مسلمانوں میں سے دیگر ادیان کی طرف مائل ہونے والوں کی تعداد ان لوگوں سے کہیں زیادہ ہے جو دوسرے ادیان سے اسلام کا رخ کرتے ہیں۔
مولوی اسحاق مدنی نے آخر میں کہا: میں شیعہ سنی بحث و مباحثہ کا مخالف نہیں ہوں لیکن میرا یہ نظریہ ہے کہ بزرگ علما کی موجودگی میں پوری ہمدردی کے ساتھ گفتگو ہونا چاہیے۔ اس دور میں ہمیں شیعہ سنی جھگڑے سے بالکل پرہیز کرنا چاہیے اور تکفیری ٹولیوں کی چالوں کا جواب دینا چاہیے جب یہ مشکل حل ہو گی تب دوسرے مسائل بھی حل ہو جائیں گے۔


source : abna
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

تھائی لينڈ میں "اہل بيت(ع) كے پيروكارجوانوں" كے ...
پردے كے بارے میں "حجاب" نامی دستاويزی فلم متحدہ ...
دینی مدارس کو در پیش مشکلات اور اُن کا حل
بلجیئم میں قبول اسلام کا بڑھتا ہوا رجحان
شیخ زکزاکی کو ان کی اہلیہ سمیت جیل سے نامعلوم جگہ ...
داعش نے اسلام کے نام پر مسلمانوں کا قتل عام کیا: ...
انصار اللہ کی جانب سے بحران یمن کے حل کے لیے ...
مكہ مكرمہ میں قرائت قرآن كے مقابلے كا انعقاد
ظلم و جارحیت سے جھٹکارے کا واحد راستہ، پیغمبر ...
نجران علاقے کو بچانے کے لیے آل سعود کی بڑھتی ...

 
user comment