اردو
Thursday 25th of April 2024
0
نفر 0

ایک ہوں مسلم، حرم کی پاسبانی کے لئے

بلا لحاظ مسلک و مشرب ہر فردِ مسلمان کا حرمین شریفین کے ساتھ ایسا والہانہ اورجزباتی تعلق ہے کہ جسے اس کی زندگی سے بالفرضِ محال الگ کیا جائے تو اس کی روحانی دنیا یکسر اجڑ جائے گی۔ وہ خالی خولی رہے گا۔ مکہ شریف اور مدینہ طیبہ
ایک ہوں مسلم، حرم کی پاسبانی کے لئے

لا لحاظ مسلک و مشرب ہر فردِ مسلمان کا حرمین شریفین کے ساتھ ایسا والہانہ اورجزباتی تعلق ہے کہ جسے اس کی زندگی سے بالفرضِ محال الگ کیا جائے تو اس کی روحانی دنیا یکسر اجڑ جائے گی۔ وہ خالی خولی رہے گا۔ مکہ شریف اور مدینہ طیبہ کی زیارت ہر مسلمان کی ایک ایسی خواہش ہے کہ جسے پورا کرنے کے لئے وہ ہزار جتن کرتا ہے۔ اور کبھی کبار زندگی بھر کی جمع پونجی مقدس تمنا کو پورا کرنے میں لگا دیتا ہے۔ حرمین شریفین کے تئیں مسلم دنیا کے دلی جذبات کی ترجمانی ان الفاظ میں کی جائے تو بے جا نہیں ہے کہ ایک اکیلے مدینہ پاک اورتنہاء مکہ معظمہ کی عظمت پر ہزاروں تہران، سینکڑوں صنعا،لاکھوں انقرہ، دسیوں اسلام آباد اور بیسیوں قاہرہ قربان! دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ تمام مسلمانوں کی اس مساوی اورمشترکہ مذہبی ومعنوی میراث پر کسی ایک فرقے اور ملک کی قطعاً کوئی اجارہ داری نہیں ہے ۔اس لئے اگر کوئی بھی فرقہ یا ملک اپنے تئیں کعبہ شریف اورروضہ رسول پر مالکانہ حقوق کے زعم میں ہے تو یہ اس کا محض گمان و وہم ہے۔لہٰذا اس بات میں چوں و چرا کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے کہ حرم کی پاسبانی تمام مسلمانوں پر فرض ہے خدا نخواستہ اگر کبھی بھی اس حفاظت میں کسی بھی قسم کی کوئی کوتاہی ہوگئی تو پورا کا پورا عالم اسلام قصور وار ہوگا۔ مسلم دنیا پہلے ہی قبلہ اول کے سامنے شرمسار ہے ۔خدا نہ کرے اسے قبلہ دوم بھی شاکی دکھائی دے۔ لیکن حرم کی پاسبانی اس قدر آسان مسئلہ نہیں جتنا کہ ہم سمجھ رہے ہیں۔خاص طور سے اس دجالی دور میں جب کہ عام اور سادہ لوح افراد کے مذہبی جذبات کی ہنڈیا میں زبردست ابھال ہے۔نیزاکثر و بیشتر مسلم حکمران اسی ہنڈیا میں اپنے ذاتی مفادات کی کچھڑی پکانے میں سرگرم عمل ہیں۔انہیں ملت کی زبوں حالی سے کوئی لینا دینا ہے نہ ملت کی سرفرازی سے کوئی واسطہ ۔ اس بات کے پیش نظر مسلم دشمن عناصر کو بھی اس امر کا بخوبی ادراک ہے کہ ملت مسلمہ کو تباہ و برباد کرنے اور اس کا شیرازہ بکھیرنے کے لئے لازمی ہے کہ مذہبی جذبات کا ہی سہارا لے کرمسلمانوں میں اپنااثر ونفوز پیدا کیا جائے۔اس عمل کو وہ بخوبی انجام بھی دے رہے ہیں۔مذکورہ حکمت عملی کے تحت عالم کفر و طاغوت نے اب براہ راست اور علی الاعلان دین اسلام کے خلاف محاذ کو ایک دوسرے بالواسطہ خفیہ محاز میں تبدیل کر رکھا ہے۔وہ اب اسلام کو ختم کرنے کا نعرہ لگا کر خوامخواہ مسلم دنیا کی دشمنی مول لینے کا متحّمل نہیں ہو سکتا۔ اور یوں اپنی افرادی قوت اور اسلحے کو مفت میں تلف نہیں کرنا چاہتا ہے ۔بلکہ مسلم دنیا کی افرادی قوت کو ہی اسلام کے خلاف استعمال کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔اورساتھ میں اسلحے کی فروخت کے ذریعے اپنی معیشیت کو مستحکم بھی کر رہا ہے ۔اسی کو کہتے ہیں سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔اس نے اسلام کے خلاف خود ساختہ اسلام کو جنم دیا۔اسے اب اسلام کے تصور ''جہاد ''سے کوئی تعرض ہے نہ ''مجاہدین اسلام'' سے کو ئی گلہ ، وہ بھی اسے اب کار آمد چیز سمجھنے لگاہے نیزاسی بہتی گنگا میں ڈبکی لگا کر اپنے تمام تر غلیظ عناصر اس میں انڈھیل دینا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف ''امریکی اسلام ''کے فیضِ عام سے عام مسلمان کو مستفید کرنے کا اہتمام عالمی سطح پر کیا جا رہا ہے بلکہ مسلم علماء اور دانشور طبقے کوسدھارنے کے لئے نظریہ ساز ادارے ہیں جنکا بظاہر کوئی ٹھوس وجود ہمیں نظر نہیں آرہا ہے لیکن علماء و دانشور حضرات کو ورغلا کر یا خرید کرمذکورہ غیر مرئی ادارے اپنے مقاصد پورا کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔ وہ'' سپاہ صحابہ ''کے ذریعے صحابہ کرام کے مشن کو مٹانے میں کوشاں ہے '' عاشقان رسولۖ''کے ہاتھوں ہی سنت رسولۖ کے قلعے کو مسمار کرنا چاہتے ہیں۔ اور ''اہلبیت ٹی وی''کے توسط سے ہی اہلبیت کے نعرہ وحدت کو سبو تاژ کرنے میں بہت ہی فعال نظر آرہے ہیں۔ اسلامی جہاد کے نظریہ کو زندہ درگور کرنے میں داعش و القاعدہ جیسے''مجاہدین'' کی خدمات انہیں حاصل ہے۔ کوئی بعید نہیں کہ'' روح حرمین شریفین ''کو داغدار کرنے کے سلسلے میں'' خادم الحرمین'' کو ہی کام پر لگا دیا جائے۔

یہاں پر ایک نکتے کی وضاحت نہایت ضروری ہے کہ اگر حرمین شریفین فقط ٹھوس سٹریکچر ہی کا نام ہے۔اور اس کی تزئین و آرائش اور تعمیراتی وسعت ہی اصل خدمت گزاری ہے تو اس کی حفاظت کامسئلہ بہت زیادہ حساسیت کا حامل نہیں ہے۔اور اگر ٹھوس پیکرمیں ایک زندہ و جاوید روح بھی سانس لے رہی ہے ۔اور اس کے سینے میں ایک دل ہے کہ جو پوری امت کے لئے دھڑک رہا ہے تو معاملہ بڑا پیچیدہ اور حساس ہے۔پیکر کو تو ہر آنکھ دیکھتی بھالتی ہے مگر اس کے قلب و روح کو دیکھنے کے لئے دیدہ ور کی نظر چاہئے۔پیکر کی دیکھ ریکھ کوئی بھی کر سکتا ہے۔ لیکن جوہر کی قدردانی اور حفاظت جوہر شناس ہی جانے۔پیکر کو کوئی خطرہ لاحق ہو تا تو فکرمندی کا باعث تو ہے ہی۔مگرجوہر کو کوئی گزند پہنچے اس سے بڑھ کر باعثِ تشویش اور کیا ہو سکتا ہے۔ یقینا دشمنِ حرمین بھی اسی فراق میں ہے کہ اس پیکر سے وہ روح نکال باہر کرے کہ جس پر عالم اسلام کی زندگی موقوف ہے۔ یہ روح بدنِ حرم سے الگ ہو جائے توجان لو مسلمان اپنی موت آپ مر گئے۔ در اصل شعائراللہ ایک الٰہی پیغام ،الٰہی فکرو فلسفہ اور ایک الٰہی نظام کے حامل ہوا کرتے ہیں۔ اور ان شعاراللہ کی قدردانی کا تصور ہی اس وقت تک عبث اور بے سود ہے کہ جب تک نہ اس کی اسپرٹ کی تفہیم و تعظیم ایک مسلمان کا شعار نہ بن جائے۔کعبۃ اللہ کے ظاہر نے مسلمانانِ جہاں کو اگردگرگونی اور بے جہتی سے نجات دیا ہے ۔ان کی پیشانیوں کو ایک ہی رخ کی طرف جھکایا ہے وہاں اس کا باطن ان سے آپسی فکری ہم آہنگی اور دلی مواسات کاتقاضا کر رہا ہے۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تقاضائے ظاہر کے تو ہم پرستا ر ہیں لیکن پیغام باطن کی طرف ہم متوجہ ہی نہیں ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ایک ہی جانب اپنی جبینوں کو جھکانے والے ایک دوسرے کی جانب نظر بھر دیکھنے کوحرام تصور کرتے ہیں۔ اور اس صورت حال کو پروان چڑھانے میں استعمار کی اسلام دشمن جدید ابلیسی حکمت عملی موثر ثابت ہو رہی ہے کہ جس کا ذکر تمہیدی متن میں ہوا ہے۔

بدقسمتی سے جب بھی کبھی مسلمانوں کو حرمین شریفین کی محافظت کا خیال آتا ہے تو زیادہ سے زیادہ یہی'' پیکر محسوس ''پیش نظر رہتا ہے۔ یعنی یہ پیکر محسوس سلامت ہے تو سب کچھ سلامت۔اور باطن کی کوئی خبر ہی نہیں۔ ہماری نظر تو زیادہ سے زیادہ سنگِ مرمر کے سلوں تک جا کے ٹھہرتی ہے ۔جن کی خوشنمائی ہماری آنکھوں کو ٹھنڈک اور ہمارے دلوں کو راحت پہنچاتی ہے۔ جو صد فی صد بجا ہے۔لیکن کیا وہ نالہ و شیون کی صدائیں بھی کبھی ہمارے گوش گزار ہوئی ہیں ۔جو امت مسلمہ کی ذلت و خواری اور برادر کشی کے ماتم میں روحِ حرمین سے وقتاً فوقتاًبلند ہوتی ہیں ۔؟

اس سے بڑھ کر بد نصیبی امت مسلمہ کے لئے اور کیا ہو سکتی ہے کہ مسلکی بنیادوں پر امت میں انتشار پیدا کیا جا رہا ہے ۔اور یہ سب کچھ بظاہر تحفظِ حرمین کی خاطر ہو رہا ہے۔اسی کعبے کو ایک فرضی خطرے سے بچانے کے لئے اتحاد کو داؤ پر لگایا جا رہا ہے کہ جو بذاتِ خود وحدت کی ایک زندہ علامت ہے۔جو امت کا'' مرکزِ محسوس''ہے ۔قاعدۂ کلی ہے کہ مرکز اسی صورت میں محفوظ تصور کیا جاتا ہے کہ جب اسے وابستہ عناصر اپنی اصل ڈگر پر صحیح سمت کی جانب حرکت میں ہوں ۔بصورت دیگر عناصر کے آپسی ٹکراو اور تصادم کے راست اثرات اس کے مرکز پر لازماً پڑتے ہیں۔اس مکان کی بلند و بالا حفاظتی دیواریں اس وقت کار گر ثابت نہیں ہوتی ہیں کہ جب اس کے مکین آپس میں دست و گریباں ہوں۔اس لحاظ سے حرمین کو بیرونی دشمن سے زیادہ خطرہ اندرونی میر جعفر اور میر صادق سے ہے۔ ہمیشہ گھر کے بھیدیوں نے ہی لنکا ڈھائی ہے۔اس لئے حرم کی پاسبانی کے لئے شرط اساسی افتراق پرور عناصر کی ناک میں نکیل ڈال کر افراد ملت کا ایک ہونا ہے ایک ہونا بذات خودحفاظت کی ضمانت ہے۔ افتراق تو اس صورت میں بہت زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتا ہے کہ جب اسے تقدس کے لبادے میں پیش کیا جائے۔ تحفظِ حرمین کے سلسلے میں سب سے بڑا اقدام یہی ہے کہ امت کی وحدت کو کسی بھی قیمت پر پارہ پارہ نہ ہونے دیا جائے۔ اور یقینی طور پر ہر وہ فرد ''خادمِ حرمین''اور ''محافظِ حرمین'' ہے کہ جو وحدت و اتحاد کی خاطر حتی الوسع کوشاں رہے۔ حرمِ پاک کے تئیں یہی سب سے بڑی خدمت ہے ۔اس خدمت کے سلسلے میں تساہل سے کام لینے والا کلمہ گو ''خائنِ حرمین'' ہے چاہے وہ کوئی مولوی ،مفتی، ذاکر، یا آیت اللہ ہی کیوں نہ ہو۔گوشِ شنوا ہوں تو کوئی چیز اس صدا ئے پر درد کو سننے سے مانع نہیں ہو سکتی ہے جو قلبِ حرمین سے نکل کرفضائے حرمین میں مسلسل گونجتی آرہی ہے۔حکیم الامت نے اسی نالۂ حرم کو سن کر اپنے حسرت برے الفاظ میں پیش کیا تھا۔

منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک

ایک ہی سب کا نبی، دین بھی، ایمان بھی ایک

حرمِ پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک

کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک!

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟

فی الوقت حرمین کی حفاظت کے نام پر ایک بار پھر سے ایک کلمہ گو نے دوسرے کلمہ گو کومٹی میں ملانے کی ٹھان لی ہے۔ بے گناہوں کی قتل و غارت گری کسی کے دل میں احساسِ ہمدردی پیدا کرے یا نہ کرے لیکن روحِ حرمین ضرور مجروح ہوتی ہے ۔ توحید کے مرکز کو ایک فرضی خطرے سے بچانے کے لئے فرزندان توحید کو ہی توحید کے دعوے دار بے دریغ تہہ تیغ کر رہے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ حرمین شریفین کی حفاظت کا منصوبہ واشنگٹن میں بنایا گیا ۔عالم اسلام کے سب سے بڑے دشمن اسرائیل نے اس منصوبے کی حمایت کی ۔حتیٰ کہ اس کی غیرت بھی جوش میں آگئی اور وہ بھی اس ''حرمین بچاو '' مہم میں شامل ہو ا ۔برطانیہ کے ایک سابقہ ممبر پارلیمنٹ جارج گیلوے نے اس سلسلے میں پتے کی بات کہی ہے کہ مسلمانوں کے موجودہ قبلے کو کس قدر خطرہ لاحق ہے کہ قبلۂ اول کا غارت گر اسرائیل بھی دفاعی میدان'' محافظینِ حرم'' کے شانہ بہ شانہ لڑ رہا ہے۔ یمن کے مفلوک الحال عوام ، معصوم بچے اور مظلوم مسلم خواتین خدا جانے کیونکر حرمین شریفین کے لئے بھیانک خطرہ ثابت ہو رہے ہیں کہ ان کے وجود کو نیست و نابود کرنے کے لئے سرزمین یمن کوچاروں طرف سے گھیر لیا گیا ہے۔اور ان پر کلسٹر بموں کی بارش ہو رہی ہے ۔اور یہ بم عوامی مقامات،رہائشی مکانوں،مسافر بسوں، اسکولوں، اور مھاجر کیمپوں،گیس سٹیشنوں،اور پٹرول پمپوں پر گرائے جا رہے ہیں دلچسپ بات یہ ہے کہ مظلوم و مقہور قوم کو ٹھکانے لگانے میں وہ سب مسلم ممالک پیش پیش ہیں کہ جو اسلام کے ازلی دشمن عالمی طاغوت اور اسرئیل کے سامنے بھیگی بلی کی طرح دم ہلائے رہتے ہیں۔

واضع رہے جن یمنی حوثیوں کے متعلق ایک فرضی شوشہ کھڑا کیا جارہاہے۔ وہ بھی حرمین شریفین کو اپنے جان و مال اور آل و اولاد سے بھی زیادہ عزیر رکھتے ہیں وہ بھی کعبے کو اپنا قبلہ اور گنبدِ خضرا کو اپنی امیدوں کا سب سے بڑا روشن مینار جانتے ہیں۔وہ بھی اللہ کے اس گھر کے طواف کو سعات ِ ابدی تصور کرتے ہیں۔اگر اپنے حقوق کی جدوجہد کی خاظر اٹھ کھڑا ہونا ہی حرمین شریفین کی حرمت کو پامال کرنے کا نام ہے تو معاف کیجئے حجتہ الوداع کے موقعے پر دئیے گئے رسول رحمت کے اس خطبے کو پھر سے نظر بھر دیکھناہو گا ۔ جس میں انہوں نے فرمایا تھاکہ ''خبردار میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا اور ایک دوسرے کی گردنیں نہ کاٹنے لگ جانا''۔کیا آپ ۖ نے اسی خانہ کعبہ میں نہیں فرمایاتھا لوگو!''تمہاراخون، تمہارا مال اور تمہاری عزتیں ایک دوسرے پر ایسے ہی حرام ہیں جیسا کہ تم آج کے دن کی،اس شہر کی اور اس مہینہ کی حرمت کرتے ہو''جس کی حرمت کے تحفظ کے لئے پانچ سو سے زائد جانیں اب تک یمن میں تلف ہوئی ہیں جن میں ایک بڑی تعداد بے گناہ عام شہریوں،معصوم بچوں اور صنف نازک سے تعلق رکھنے والی عورتوں کی ہے ۔کیا اس خطبے میں انسانی حقوق کی بات نہیں کی گئی ہے۔ کیا اس میں حوثیوں کی مانند غلاموں اور ناداروں کی زندگی گزارنے والے انسانوں کو مورد انصاف ٹھہرایانہیں گیا ہے؟ کیا عرب و عجم کی تفریق اس زریں خطبے کی رو سے امت بلکہ انسانیت کے لئے سمِ قاتل قرار نہیں دی گئی ہے کہ آج حرم پاک کے نام پر امت کو عرب و عجم کے نام پر تقسیم کیا جا رہا ہے ؟ اور اس سلسلے میں امریکہ بہادر کی ایما پر ایک با ضابطہ طورپر فوج تشکیل دی گئی ۔اس منطقی سوال سے کسی کو کفر کی گن آئے تو آئے مگرہر صاحبِ فراست یہ پوچھنے کا حق رکھتا ہے کہ اس فوج ظفر موج کو اس وقت وجود میں کیوں نہیں لا یاگیا جب برطانوی سامراج نے عالمِ اسلام کی پیٹھ میں اسرائیل نام کا چھرا گھونپ دیا ۔امریکی سامراج کے ہاتھوں افغانستان لہو لہاں ہوااور اس فوج کے کتخداووں کی غیرتِ قومی نے انگڑائی تک نہ لی۔ عراق پر استعمار چڑھ دوڑا مگر ان کے کان پر جوں تک نہ رینگی ۔شام صہیونی شازش کی آگ میں گزشتہ چار پانچ برسوں سے جل بن رہا ہے اور یہ حضرات اس آگ میں جلتی پر تیل کا کام کررہے ہے۔لبنان و فلسطین پر وقتاً فوقتاً آتش و آہن کی برسات برسائی جاتی رہی ہے۔اور یہ اپنے شاہی محلوں میں بیٹھ کر اسے آتش بازی کا مزہ لے رہے ہیں۔ غزہ کے مسلمان نہ ختم ہونے والے محاصرے میں کراہ رہے ہیں۔ ان پر آب و دانہ بند ہے۔یہ اپنے عشرت کدوں میں طرح طرح کی نعمات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔اور اس پابندی میں یہ نام نہاد ''پاسبانِ حرم '' اپنا کردار بخوبی نبھا رہے ہیں۔پاکستان میں کعبہ وقبلہ کی نمائندگی کرنے والی مسجدوں کو خون سے نہلانا بھی کیا حرم کی محاظت کے زمرے میں آتا ہے؟ اسی یمن میں جو بیک جنبش دو سو کے قریب قبلہ رونمازیوں کو خاک و خوں میں غلطاں کیا گیا ۔کیا اسے کعبے کی حرمت پامال نہیں ہوئی ؟یہ بات کم از کم میرے عقل و فہم سے بالا ہے کہ جو نمازی اپنے دن کا آغاز اور اختتام قبلہ کی جانب سجدہ ریزی سے کرے ۔اس سے قبلہ کوکو ن سا خطرہ لاحق ہے۔؟

تاریخ کے اوراق اٹھا کر دیکھ لیجئے یا موجودہ عالمی حالات پر ایک گہری نظر دوڑائیے ،تو آپ بھی اس بات کے قائل ہوں گے کہ اسلام اور عالم اسلام کے خلاف ثقافتی ،سیاسی ،اعتقادی ،نظریاتی غرض ایسی کوئی سازش استعماری طاقتوں کی جانب سے نہیں رچائی گئی جس میں ان رہبر نما رہزنوں نے استعمار کا بھر پور ساتھ نہ دیا ہو ۔حرم پاک کے تئیں ایک فرضی خطرے سے کہ جس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔اگر یہ سامراجی کٹھ پتلیاں اس قدر مستعد وفعال ہیں ۔ تو پھر قبلۂ اول کی بازیابی کے تئیں کیوں تجاہل عارفانہ سے کام لے رہی ہیں۔ کیا قبلہ ٔ اول کی حفاظت ان پر فرض نہیں ہے؟                                      

بہر کیف ظاہری اعتبار سے حرمِ پاک کا ایک محل وقوع ہے جسے انکار کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ سرزمین ِ وحی کا پوری دنیامیں کسی بھی سر زمین کے ساتھ موازنہ ہی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ بلد الامین کا یقینا کوئی متبادل ہی نہیں ۔مگر معنوی اعتبار سے حرم پاک پوری دنیا پر سایہ فگن ہے۔ ہر خطہ زمین کی تپتی تڑپتی روح وحی الٰہی سے عبارت سحابِ رحمت کی منتظرہے۔اور دنیا کے ہر شہر کے لئے بلدالامین ایک ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے ٹھیک اسی طرح کہ جس طرح رسولِ امیںۖ پوری انسانیت کے واسطے نمونہ ٔ عمل ہے ۔اس اعتبارسے یہ کہنا بجا ہے کہ معنوی اعتبار سے حرم کی وسعت کا احاطہ کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے ۔ اور یوں اس کی محافظت بھی کارے دارد والا معاملہ ہے۔اور اس معنویت کی حفاظت سے وہ مسلم حکمراں چاہے کسی بھی ملک وقوم سے وابستہ ہوں ہر گز اہل نہیں ہیں کہ جن کا کردار اسلامی اصولوں کے منافی ہو۔آپ لاکھ چاہے غلاف ِ کعبہ سے چمٹے رہیں۔اگر اخلاق و کردار کے حوالے سے عریاں ہیں تو غلاف ِ کعبہ آپ کی عریانیت کو ڈھاپنے کے بجائے اور زیادہ عریا ں کرتی رہے گی۔یہاں پر اس بات کی طرف اشارہ کرنا لازمی ہے کہ حجازِمقدس سے مکانی قربت انسانی تقدیس و تکریم کا معیا ر نہیں ہے۔ہاں اس تقدیس کا دوبالا ہونا طے ہے کہ جب حجازِ مقدس میں رہنے والا اسلامی تعلیمات کا مجسمہ ہو۔کیونکہ اسی سرزمین مقدس پر رسول کائنات نے اپنے اجرا کردہ حقوقِ بشرکے منشور میں فرمایا تھاکہ سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم علیہ السلام مٹی سے پیدا ہوئے۔کسی عربی کو عجمی پر اور کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت نہیں تمام انسان برابر ہیں تم میں سے اللہ کے نزدیک سب سے عزت والا وہ ہے جو تم میں سے سب سے زیادہ متقی ہے۔یمن اور آل سعود کے درمیان محاربانہ کشمکش جاری ہے اس میں فریقین کی پرکھ اسی خطبے کی بنیاد پر ہونی چاہئے۔اور اسی تناظرمیں کہا جا سکتا ہے کہ ممکن ہے جو اس ارض مقدس سے ہزاروں میل دور ہوں مگر کردار و گفتار کے اعتبار سے نزدیک ہو وہی اس کا اصل محافظ ہے ۔اور اس میں بود و باش کرنے والا محافظت ِ حرم سے نا آشنا ہو۔

ندا آئی یہ کہ آشوب ِقیامت سے کیا کم ہے

''گرفت چینیاں احرام و مکی خفتہ در بطحا

   حرمین شریفین کے اصل ستون اسلامی اقدار و اصول ہیں ۔ ان اقدار و اصولوں کی پاسداری ہی حرم ِپاک کو استوار و مضبوط رکھتی ہے۔پاسبان ِ حرم خواہ عربی ہو یا اعجمی کے لئے شرطِ اساسی یہی ہے کہ وہ ان اقدار اصول کا چلتا پھرتا مجسمہ ہو۔ بصورت دیگر کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ دل جدید لات و منات سے مامور ہو اور زبان پر حرم کی پاسبانی کا دعویٰ۔بقول اقبال

کعبہ پہلو میں ہے اور سودائی بت خانہ ہے

اس قماش کے سوادئیوں سے تو ہر دور میں کعبے کی معنویت کو زک پہنچی ہے ۔بلکہ ان کا قبلہ رو ہو کر سجدہ ریز ہونے سے کعبہ نالاں ہے۔اوراس قسم کے سجدہ گزاروں سے حرمِ پاک کچھ یوں نالاں ہے ْ

                 مرا خراب کردی تو بہ سجدہ ریائی

ایک بات وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اسلامی بیداری کی لہر جو پورے عالمِ اسلام بالخصوص عالمِ عرب میں اٹھی ہے حوثیوں کی قیادت میں عوامی انقلاب بھی اسی اسلامی بیداری کا حصہ ہے۔ اس انقلاب سے دین کو نہیں بلکہ دین فروشوں کو خطرہ لاحق ہے۔ ان شاہوں کے راج پاٹ کی چولہیں اسے لرزہ بر اندام ہونا ایک فطری بات ہے کہ جنہوں نے حرم ِپاک کی عزت وآبرو کو بیچ کر اپنے لئے فلک بوس شاہی محل تعمیر کئے ہیں۔اور اپنے عشرت کدوں کو جو طاغوت پرستی کے ذریعے محفوظ کرنا چاہتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اپنے ہوس پرستی کے عشرت کدوں اور جاہ طلبی کے بت کدوں کو خطرے میں دیکھ کر انہوں نے حرمین شریفین کو بحیثیتِ ڈھال استعمال کیا ہے۔یہاں پر حبیب جالب کی ایک نظم تھوڑے سے لفظی رد و بدل کے ساتھ پیش کرنے جارہا ہوں جو انہوں نے کئی سال قبل لکھی تھی لیکن اسوقت کے عالمی حالات اور خطرات کو ظاہر کرتی ہے۔

 

اصول بیچ کے مسند خریدنے والو

نگاہ، اہل وفا میں بہت حقیر ہو تم

دین کا پاس تمہیں تھا نہ ہو سکے گا کھبی

کہ اپنی حرص کے بندے ہو بے ضمیر ہو تم

 

خطرہ ہے زر داروں کو

گرتی ہوئی دیواروں کو

صدیوں کے بیماروں کو

خطرے میں حرمین نہیں

 

سارے عرب کو گھیرے ہوئے ہیں آخر چند گھرانے کیوں

نام نبی کا لینے والے الفت سے بیگانے کیوں

خطرہ ہے خون خواروں کو

رنگ برنگی کاروں کو

امریکہ کے پیاروں کو

صہیونی راج دلاروں کو

خطرے میں اسلام نہیں

خطرے میں حرمین نہیں

(یمن کے انقلابیوں کی ترجمانی اسی نظم کے ان چند اشعار میں ملاحظہ کیجئے)

آج ہمارے نعروں سے لرزہ ہے بپا ایوانوں میں

بک نا سکیں گے حسرت و ارمان اونچی سجی دوکانوں میں

خطرہ ہے آستین کے ماروں کو

مغرب کے بازاروں کو

چوروں کو مکاروں کو

خطرے میں اسلام نہیں

خطرے میں حرمین نہیں

ا من کا پرچم لے کر اٹھو ہر انسان سے پیار کرو

اپنا تو منشور ہے جالب ، سارے جہاں سے پیار کرو

خطرہ ہے درباروں کو

شاہوں کے غم خواروں کو

نوابوں ، غداروں کو

خطرے میں اسلام نہیں

خطرے میں حرمین نہیں

                     حبیب جالب


source : abna
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

مناظرہ امام جعفر صادق علیہ السلام و ابو حنیفہ
اسارائے اہل بيت کي دمشق ميں آمد
میثاقِ مدینہ
سکوت امیرالمومنین کے اسباب
مسلم بن عقیل کی بیٹیوں کے نام کیا تھے؟
امام حسين (ع) کي طرف سے آزادي کي حمايت
حُرّ؛ نینوا کے آزاد مرد
قرآن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ(اول)
آيت ولايت؛ خدا، رسول خدا اور علي (ع) ہي مؤمنين کے ...
امام حسن(ع) کی صلح اور امام حسین (ع)کے قیام کا فلسفہ

 
user comment