اردو
Thursday 28th of March 2024
0
نفر 0

سورۂ فرقان؛ آيات 60۔ 63 پروگرام نمبر 676

حمد و ستائش پروردگار اور حمد و ثنائے احمد مختار و اہل بیت اطہار علیہم السلام کے ساتھ تفسیر کلام نور لیکر حاضر ہیں سورہ فرقان کی آیت ۶۰ میں خدا فرماتا ہے:
سورۂ فرقان؛ آيات 60۔ 63 پروگرام نمبر 676

کلام نور ۶۷۶

سورۂ فرقان ۱۴

آیات۶۰۔ ۶۳

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

حمد و ستائش پروردگار اور حمد و ثنائے احمد مختار و اہل بیت اطہار علیہم السلام کے ساتھ تفسیر کلام نور لیکر حاضر ہیں سورہ فرقان کی آیت ۶۰ میں خدا فرماتا ہے:

وَإِذَا قِيلَ لہم اسْجُدُوا لِلرَّحْمَنِ قَالُوا وَمَا الرَّحْمَنُ أَنَسْجُدُ لِمَا تَأْمُرُنَا وَزَادَہم نُفُورًا (60)

اور (انبیائے الہی کی دعوت حقہ کی مخالفت اور انکار کرنے والے کفار سے) جب کہا جاتا ہے کہ اس رحمان کا سجدہ کرو( جو اس کائنات کا خالق ہے اور خبیر ہے ) تو وہ (تکبر کے ساتھ) کہتے ہیں یہ رحمان کیا ہے؟ (کس بلا کا نام ہے) کیا ہم ا س کا سجدہ کرلیں جس کے بارے میں تم حکم دے رہے ہو؟ اور ان کی نفرت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ سورۂ 25(60:77)

اس سے قبل رحمان کا ذکر تھا کہ آسمانوں اور زمین کے درمیان پوری کائنات کو چھ دنوں میں خلق کرنے والا رحمان عرش قدرت پر متمکن ہے اور اسی کے لطف و رحمت سے ہر شئے کا آغاز ہوا ہے وہ سب کچھ جانتا ہے جو کچھ پوچھنا ہے اس سے سوال کرو پھر جملۂ معترضہ کے طور پر اس آیت میں خداوند عالم نے کفار کے رد عمل کا ذکر کردیا ہے جس میں مرسل اعظم ﷺ اور ان کی دعوت حق کے تئیں کفار کے غرور و تکبر اور کینہ ؤ نفرت کی حکایت کی گئی ہےاور چونکہ گفتگو رحمان کے بارے میں تھی ، شائد اسی لئے الف لام عہد کے ساتھ ذکر ہوا ہے کہ جب رحمان کے سجدے کے لئے کفار سے کہا جاتا ہے تو مزاق اڑانے کے انداز میں ''کون'' سے نہیں ''کیا'' سے سوال کرتے ہیں کہ اس رحمان کی ماہیت و حقیت کیا ہے، یہ کیا چیز ہے؟ یعنی تجاہل میں بھی مبالغے سے کام لیا گیا ہے کہ ہم کو نہیں معلوم کہ کھانے کی چیز ہے پہننے کی یا کسی اور قسم کی، بتاؤ رحمان کیا ہے؟ ویسے ہی کہ جیسے فرعون نے موسی علیہ السلام سے سوال کیا تھا : '' و ما رب العالمین'' (شعراء ؍۲۲)کہ یہ رب العالمین کیا ہے کہ جس کی بات تم کررہے ہو اور پھر نبی اکرم ﷺ کے تمسخر اور مذاق اڑانے کے انداز میں کفار سوال کرتے ہیں کہ کیا ہم اس کا سجدہ کرلیں کہ جس کا تم حکم دے رہے ہو؟ بھلا تم ہوتے کون ہو ہم کو حکم دینے والے!! ہم تمہاری اطاعت و پیروی کیوں کریں گے؟ اور ان کی نفرت اور دشمنی میں اور اضافہ ہوجاتا ہے۔

جی ہاں! مرسل اعظم ﷺ جب بھی کفار کو خدائے واحد کی اطاعت و پرستش کا حکم دیتے ان کا مستکبرانہ مزاج انھیں دعوت حق قبول کرنے کی اجازت نہیں دیتا تھا اور اسلام سے ان کی نفرت اور بڑھ جاتی تھی۔

اس کے بعد خداوند عالم سورۂ فرقان کی آیات ۶۱ اور ۶۲ میں ایک بار پھر اپنی قدرت کی نشانیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:

تَبَارَكَ الَّذِي جَعَلَ فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَجَعَلَ فِیہا سِرَاجًا وَقَمَرًا مُنِيرًا (61)

وہو الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنّہارَ خِلْفہً لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يَذَّكَّرَ أَوْ أَرَادَ شُكُورًا (62)

بڑی ہی بابرکت ہے وہ ذات جس نے آسمان میں بر ج بنائے اور اس میں ایک روشن و درخشان چراغ اور چمکتا ہوا چاند قرار دیا۔ سورۂ 25(61:77)

اور وہی وہ ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کا جانشین بنایا ان (افراد) کے لئے جو عبرت و نصیحت حاصل کرنا چاہیں اور (پھر) شکر کردگار بجا لانا چاہیں)۔ سورۂ 25(62:77)

کفار و مشرکین کے استکبار کا ذکر کرنے کے کے بعد اس آیت میں خداؤرسول کی عزت اور بے نیازی کا ذکر ہے کہ کفار اگر مرسل اعظم(ص) کا مذاق اڑاتے ہوئے رحمان سے کمال ناآشنائی کا اظہار کرنے کی جسارت کررہے ہیں تو یاد رکھیں وہ اپنی باتوں سے خدا کو عاجز و لاچار نہیں کرسکتے ، خدا ان پر کامل اختیار رکھتا ہےوہ اللہ کے دائرۂ ملک و مُلک سے کہاں باہر نکل سکتے ہیں، اللہ کو تمہارے سجدے اور پرستش کی ضرورت نہیں ہے، لیکن خود تم اس سے بے نیاز نہیں ہوسکتے اور نہ ہی اس کی خدائی میں کسی عنوان سے دخل اندازی کرسکتے کیونکہ یہ آسمان اپنی تمام شوکت و عظمت کے ساتھ اللہ تبارک و تعالی کی ہی حکمرانی میں ہے ، ذرا سوچو تو وہ کس قدر بابرکت ذات ہے کہ جس نے آسمان میں ایسے محفوظ ومامون برج بنائے ہیں جن میں آفتاب کا چراغ اور چمکتا ہوا چاند قرار دے دیا ہے، کہ دنیا ان سے فائدہ اٹھائے گویا اس میں بھی خدا نے اپنے رسول(ص) کی رسالت کی طرف اشارہ کیا ہے جس طرح آفتاب و ماہتاب کی روشنی اور درخشندگی سے عالم اجسام میں لوگ بھرہ مند ہوتے ہیں خدا کے نبی و رسول انسانوں کی روحانی دنیا کو روشنی عطا کرتے ہیں ، جس طرح آفتاب کی روشنی دیدۂ چشم کو منور کرتی ہے اور آدمی راہ چل پاتا ہے، رسالت کی روشنی دیدۂ بصیرت کو وا کرتی ہے اور آدمی حق باطل میں تمیز پیدا کرتا ہے۔

اس کے بعد خدا فرماتا ہے: یہ شب وروز جو سورج کی تابشوں میں اور کبھی چاند کی چاندنی میں دنیا کو غرق کردیتے ہیں ان کی تخلیق اور نظام بھی ہمارے ہی ہاتھ میں ہے، ہمارے ہی حکم سے وہ ایک دوسرے کی جگہ لے کر ایک دوسرے کے جانشین بن جاتے ہیں، تا کہ طلوع آفتاب کے ساتھ لوگ اپنے کار و کوشش میں مشغول ہوجائیں اور غروب آفتاب کے بعد شب کی ٹھنڈٰ ی چاندنی میں آرام و استراحت کریں، البتہ اس الہی لطف و رحمت کو ، وہی سمجھ سکتے ہیں جو ان مسائل سے عبرت و نصیحت حاصل کریں،اور شکر پروردگار بجا لانا چاہیں، ظاہر ہے ذکر و شکر وہی عمل قرار دیا جاسکتا ہے جو حمد و ثنائے پروردگار یعنی عبادت اور بندگی کے اظہار کے ساتھ ہو، اور اس کو عمل صالح کہا جاسکے، کیونکہ وہ قول و عمل جو حمد و ثنائے خدا کا پہلو رکھتا ہو عبادت اور عمل صالح کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا ، چنانچہ مفسرین نے آیت میں تذکر یا ذکر سے واجبی نمازیں اور شکور یا شکر سے مستحبی نمازیں مراد لی ہیں اور علامہ طباطبائی کے مطابق آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ شب و روز کا آنا جانا پروردگار سے بندوں کے تقرب میں مانع ایجاد نہیں کرتا یکے بعد دیگرے شب و روز ایک دوسرے کی جگہ جانشین کے طور پر آتے ہیں، تا کہ کوئی بندہ اگر ان اوقات میں سے کسی وقت خدا سے ترقب حاصل کرنا فراموش کرگیا ہو تو دوسرے وقت اس کا تدارک کرلے۔

اس کے بعد سورۂ فرقان کی آیت ترسٹھ میں خدا فرماتا ہے:

وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الارْضِ ہونًا وَإِذَا خَاطَبہم الْجَاہلونَ قَالُوا سَلَامًا (63)

یعنی رحمن کے بندوں کی شان یہ ہے کہ وہ زمین پر تواضع کے ساتھ آہستہ(اور نرم روی کی چال چلتے ہیں) اور جب جاہلوں سے مخاطب (یا روبرو) ہوتے ہیں تو ان کو سلام کرکے (گذر جاتے ہیں)۔ سورۂ 25(63:77)

''رحمن'' سے تجاہل یا نا آشنائی کا جھوٹا اظہار کرنے والے کفار کے استکبار کا ذکر کرنے کے بعد اس آیت اور اس کے بعد کی آیات میں بھی رحمن کے بندوں کی خصوصیت اور خاصیت بیان کی گئی ہے کہ کفار جس رحمن کے سجدے سے انکار کررہے ہیں اسی سجدے کے نتیجے میں رحمن کے بندے خدا کے سامنے غرور و رعونت اور توہین و جسارت کجا، خود کو بندۂ رحمن سمجھتے ہوئے روئے زمین پر سر جھکا کر تواضع اور انکساری کے ساتھ آہستہ آہستہ نرم روی کی چال چلتے ہیں اور لوگوں کے درمیان اکڑنے اور اترانے کے بجائے سلیم الطبع ہیں اور خاکساری کی زندگی بسر کرتے ہیں یعنی خدا کے سامنے بھی متواضع ہیں اور بندوں کے سامنے بھی خاکسار رہتے ہیں کیونکہ ان کا تواضع مصنوعی نہیں ہوتا مریضانہ یا ریاکارانہ چال نہیں چلتے اسی طرح مستکبرانہ انداز میں وہ کسی پر تسلط اور برتری نہیں جتاتے، مگر جھوٹی عزت و شہرت کے حصول کے لئے جو کفار و مشرکین کا شیوہ ہےکفار و ظالمین کے سامنے ذلت و حقارت کا اظہار بھی نہیں کرتے ، چنانچہ جب جاہلوں کی طرف سے کسی نامناسب حرکت کا مشاہدہ کرتے ہیں یا کوئی بدتمیزی سے خطاب کرتا یا جاہلانہ روش و رفتار سے پیش آتا ہے تو وہ کوئی جاہلانہ جواب دینے کے بجائے انھیں سلام کرتے ہوئے گذر جاتے ہیں یعنی اپنے مہذب عمل سے اعلان کرتے ہیں کہ ہم جاہلوں کے منھ لگنا پسند نہیں کرتے اور اس موضوع کی طرف سورۂ قصص کی ۵۵ ویں آیت میں بھی اشارہ کیا گیا ہے۔

معلوم ہوا:

سجدہ یکتا پرستی کا مذہب اور توحیدی ادیان کی روح اور پہچان ہے۔وہ لوگ جو اسلام کا ادعا کرتے ہیں اور نماز ترک کردیتے ہیں عمل کے ذریعے کفر وشرک کی پیروی کرتے ہیں، حق بات ان ہی پر اثر ڈالتی ہے جن میں قبولیت کی آمادگی پائی جاتی ہو۔ ضدی اور ہٹ دھرم قسم کے لوگ حق بات سن کر حق سے اور زیادہ نفرت و دشمنی پر اتر آتے ہیں۔آسمان و زمین خورشید و ماہ اور ستارہ ؤ سیارے ان سب کی خلقت اور ان میں کارفرما نظام الہی حکمت و رحمت کی علامت ہے۔خدا پر ایمان عبادت میں منحصر نہیں ہے، سماجی اور اخلاقی امور پر توجہ بھی مؤمن کے لئے ضروری ہے۔تواضع خدا کی بندگی کا نتیجہ ہے اور مؤمن کی علامت ہے۔خدا کے اچھے بندے اگر ظلم و جہالت کے سامنے ان ہی کے جیسا نازیبا عمل انجام نہیں دیتے اور صبر وبردباری سے کام لیتے ہیں تو یہ ان کی کم زوری یا خوف و ہراس کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ ان کی بزرگی اور عظمت کی نشانی ہے، جاہلوں کے منھ لگنا، رحمان کے بندوں کا کام نہیں ہے، وہ انھیں اخلاق کریمانہ کے ذریعے سلام کرتے ہوئے گذر جاتے ہیں۔

 

source : abna
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

تفسیر "سورہ البقرة " (آیات 61 تا 65)
ختم سورہ واقعہ
قرآن مجید میں مسلمان کن معنی میں آیا هے؟
قرآن و اھل بیت علیھم السلام
قرآن کے اسماء کیا کیا هیں؟
اسلام پر موت کی دعا
تاویل قرآن
قرآن مجید کاتعارف
قرآن مجيد کي رو سے اسلامي اتحاد
تفسیر "سورہ البقرة " (آیات 66 تا 70)

 
user comment