اردو
Saturday 20th of April 2024
0
نفر 0

باغ فدک کے تعجبات

فدک ایک خوبصورت باغ کا نام تھا جو مدینے سے دس یا پندرہ فرسخ کے فاصلے پر واقع تھا جس کی سالانہ آمدنی بارہ ہزار دینار تک بیان کی گئی ہے بعض نے اس میں موجود خرما کے درختوں کی تعداد کو چھٹی صدی ہجری میں کوفہ کے خرما کے درختوں کے برابر قرار دیا ہے( شرح نھج البلاغہ، ۱۶۔ ۱۳۶)
باغ فدک کے تعجبات

دک ایک خوبصورت باغ کا نام تھا جو مدینے سے دس یا پندرہ فرسخ کے فاصلے پر واقع تھا جس کی سالانہ آمدنی بارہ ہزار دینار تک بیان کی گئی ہے بعض نے اس میں موجود خرما کے درختوں کی تعداد کو چھٹی صدی ہجری میں کوفہ کے خرما کے درختوں کے برابر قرار دیا ہے( شرح نھج البلاغہ، ۱۶۔ ۱۳۶)
تمام مورخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمان حیات میں  باغ فدک حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے اختیار میں تھا اور ان کے مزدور اس میں کام کرتے تھے۔ پیغمبر اکرم(ص) کی رحلت کے بعد خلیفہ اول نے حضرت زہرا (ع) کے مزدوروں کو باغ فدک سے بھگا کر اس پر قبضہ کر لیا۔ حضرت فاطمہ زہرا(ع) نے فرمایا: فدک میرے باپ کی طرف سے مجھے ملا ہوا ہدیہ ہے۔ شیعہ منابع کے علاوہ اہل سنت کی کتابوں میں بھی بہت ساری روایتیں موجود ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں جو علمائے اہل سنت نے اس آیت’’ آت ذاالقربیٰ حقہ‘‘ کے ذیل میں تائید کے طور پر نقل کی ہیں۔ لیکن خلیفہ اول و دوم نے حضرت فاطمہ زہرا(ع) کو باغ فدک واپس کرنے سے انکار کر دیا جس کی وجہ سے فدک کا مسئلہ تاریخ اسلام میں ایک بہت بڑا مسئلہ بن کر سامنے آیا۔
تاریخ اسلام میں مسئلہ فدک اہل بیت اطہار(ع) کی مظلومیت پر دلالت کرنے والی ایسی زندہ حقیقت ہے جو ہر دور کے منصف اہل قلم کی توجہات کا مرکز بنی رہی۔ اس کے پشت پردہ کچھ ایسے حیرت انگیز اور تعجب آور نکات پائے جاتے ہیں جن کی طرف مختلف اہل قلم نے وقتا فوقتا اشارہ کیا ہے۔ اس مختصر تحریر میں ایسے ہی بیس حیرت انگیز اور تعجب آور نکات کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ باغ فدک دختر رسول اسلام حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا حق مسلّم تھا اور کارخانہ خلافت نے زور و زبردستی اسے غصب کیا اور اپنے اس عمل سے اہل بیت اطہار(ع) کی نسبت پائے جانے والے بغض و کینہ کا اظہار کیا:
۱: سب جانتے ہیں کہ اگر کسی کے پاس کوئی چیز ہو اور کوئی دوسرا اگر اس کا دعویدار بن جائے تو مدعی کو چاہیے کہ وہ اپنے دعوے پر گواہ پیش کرے کہ وہ چیز اس کی ہے، اور کبھی بھی اس شخص سے گواہ کا مطالبہ نہیں کیا جاتا جس کے پاس وہ چیز ہے۔ لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ کارخانہ خلافت میں کچھ اس کے برخلاف رونما ہوا۔ خلیفہ اول نے پیغمبر اکرم کی بیٹی سے گواہ پیش کرنے کا مطالبہ کیا جبکہ باغ فدک ان کے اختیار میں تھا اور وہ اس کی مالکن تھی!
۲: کیا خلیفہ اول اور دیگر مسلمان یہ نہیں جانتے تھے کہ آیت تطہیر حضرت زہرا اور امیر المومنین علی علیہما السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے اور وہ ہر طرح کے رجس سے پاک و منزہ ہیں؟
تو ایسے میں کیا یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ خلیفہ اول فدک کے سلسلے میں حضرت زہرا (س) پر جھوٹے دعوے کی تہمت لگا کر فدک واپس کرنے سے انکار کر دیں!
۳: مباہلہ کے واقع میں پیغمبر اکرم (ص) نے  حضرت علی، فاطمہ زہرا، امام حسن اور امام حسین علیہم السلام کے مقام کو دنیا کے سامنے متعارف کروانے کے لیے صرف انہیں ہی میدان میں لے کر آئے تاکہ وہ آپ(ص) کے ساتھ نبوت کو ثابت کرنے اور جھوٹوں پر لعنت بھیجنے میں شریک ہوں’’ فنجعل لعنۃ اللہ علی الکاذبین‘‘۔ لہذا کیا یہ حیرانگی کی بات نہیں ہے کہ خلیفہ اول ان افراد پر فدک کے مسئلے میں جھوٹ کی تہمت لگائے جنہوں نے کل میدان مباہلہ میں جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجی!۔ جی ہاں، اللہ جھوٹوں پر ان کی لعنت کو قبول کرتا ہے لیکن خلیفہ اول خود انہیں جھوٹا قرار دیتے ہیں!
۴: اسقف نامی عیسائی نے واقعہ مباہلہ میں کہا: اے نصرانیوں میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں جو اگر بدعا کر دیں تو کرہ زمین پر ایک بھی عیسائی باقی نہیں رہے گا۔ ہاں وہ ان چہروں کی عظمت اور پاکیزگی کو جانتا تھا لیکن مسلمانوں کے خلیفہ ان چہروں کی عظمت سے ناآشنا تھے اور انہوں نے ان پر جھوٹا ہونے کی تہمت لگا دی!
۵: پیغمبر اکرم (ص) نے بہت ساری احادیث میں جو شیعہ سنی کتابوں میں موجود ہیں حضرت علی علیہ السلام کو ’’صدیق اکبر‘‘ کا لقب دیا اور فرمایا: انت الصدیق الاکبر( مستدرک الصحیحین، میزان الاعتدال، اسد الغایہ۔۔۔۔۔)
اور قرآن کریم کی آیت ’’الذین آمنو باللہ و رسلہ اولئک ھم الصدیقون‘‘ فریقین کے مطابق امیر المومنین علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے اس کے باوجود خلیفہ اول ان پر جھوٹ کی تہمت لگا کر ان کی گواہی کو رد کر دیتے ہیں!
۶: خداوند عالم کا قرآن کریم میں ارشاد ہے:’’ افمن کان علی بینۃ من ربہ و یتلوہ شاھد منہ‘‘ اور اس کے بعد امیر المومنین (ع) کو اپنے رسول کی نبوت پر گواہ قرار دیتا ہے اور فرماتا ہے’’ قل کفی باللہ شھیدا بینی و بینکم و من عندہ علم الکتاب‘‘ سب نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ حضرت علی(ع)، رسول اسلام(ص) کی رسالت کے گواہ قرار پائے اور اللہ نے انہیں اپنے نبی کی نبوت پر گواہ پیش کیا۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اللہ اپنے نبی کی نبوت کو ثابت کرنے کے لیے ایک طرف خود کو گواہ بناتا ہے اور دوسری طرف حضرت علی علیہ السلام کو جبکہ اسی نبوت کے ماننے والے اور اسی نبی کا کلمہ پڑھنے والے جس کی نبوت علی کی گواہی سے ثابت ہوئی ہے مسئلے فدک میں حضرت علی (ع) کی گواہی کو قبول نہیں کرتے اور ان کی گواہی کو ناکافی سمجھتے ہیں!!
۷: پیغمبر اکرم (ص) نے خزیمہ بن ثابت کی گواہی کو دو گواہوں کے برابر قرار دیا اور اسے قبول کیا اور وہ ذوالشھادتین کے لقب سے معروف ہوگئے۔ لیکن خلیقہ اول اس ذات والا صفات کی گواہی کو قبول نہیں کرتے جو خزیمہ کے ساتھ کسی بھی اعتبار سے قابل مقائسہ نہیں ہیں جب کہ ان کی گواہی کے ساتھ ساتھ جوانان جنت کے سرداروں امام حسن اور امام حسین کی گواہی نیز ام ایمن کی گواہی بھی موجود تھی جو قبول نہیں کی گئی!
۸: تمام شیعہ و سنی اس بات پر متفق ہیں کہ قاضی مالی امور میں ایک گواہ اور ایک قسم پر فیصلہ کر سکتا ہے لیکن خلیفہ اول نے حضرت علی(ع) اور ام ایمن کی گواہی کو قبول نہیں کیا اور امام حسن اور امام حسین کو ایک گواہ کے برابر کی حیثیت بھی نہیں دی اور نہ ہی حضرت زہرا سے قسم کا مطالبہ کیا تاکہ ان کے حق میں فیصلہ کریں!
۹: تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ بعض صحابہ جیسے جابر بن عبد اللہ انصاری، جریر بن عبد اللہ اور ابوبشیر مازنی خلیفہ اول کے پاس آئے اور دعویٰ کیا کہ پیغمبر نے ان کی مالی مدد کرنے کا وعدہ دیا تھا خلیفہ نے بغیر گواہ کے ان کے دعوے کو قبول کر لیا اور نہ ہی ان سے گواہ لانے کا مطالبہ کیا اور نہ قسم کھانے کا! لیکن حضرت زہرا (س) جو باغ فدک کی مالکن تھی ان سے گواہ کا مطالبہ کیا جبکہ گواہ لانے پر ان کی گواہی بھی قبول نہیں کی گئی!
۱۰: روایات میں ہے کہ خلیفہ اول نے بیت المال سے چھے ہزار دینار اٹھا کر ان سے ایک کھیت خریدا اور خلیفہ اول کے بعد خلیفہ دوم نے اسے جناب عائشہ کو بخش دیا( الاموال، ابو عبد القاسم بن سلا، ۳۴، الطبقات الکبریٰ، ۳، ۱۹۴، ابن عساکر در تاریخ، ۳ ، ۱۴۲۹)
بعض روایات میں آیا ہے کہ خلیفہ اول نے وفات کے وقت جناب عائشہ سے کہا کہ اولاد میں تم سے زیادہ کوئی بھی میرے نزدیک محبوب نہیں ہے میرے پاس بحرین میں کچھ زمین ہے جو میں تمہیں دے رہا ہوں۔( الطبقات الکبریٰ ۳، ۱۹۴)
جی ہاں خلفاء کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ بیت المال سے جائداد خرید کر اسے اپنی اولاد کو ہدیہ کردیں لیکن جب رسول کی بیٹی کی بات آئے تو وہاں خود ان کا حق بھی انہیں لوٹانے پر تیار نہیں ہوتے،  بلکہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ رسول تو کوئی میراث نہیں چھوڑتا جو اس کی اولاد کو ملے!
۱۱: جب خلیفہ نے فدک کی مالکیت کے سلسلے میں حضرت فاطمہ زہرا (س) کا دعویٰ قبول نہیں کیا تو جناب فاطمہ زہرا (س) نے فدک اور دیگر باغات نیز خیبر سے حاصل شدہ خمس کے باقی ماندہ حصے سے میراث کا مطالبہ کیا تو خلیفہ نے کہا: پیغمبر نے فرمایا ہے: ہم پیغمبر میراث نہیں چھوڑتے جو کچھ ہم سے باقی بچے وہ صدقہ ہے!
حیرت کی بات یہ ہے کہ جب پیغمر اکرم(ص) بیماری کے بستر پر تھے اور وصیت لکھنے کے لیے قلم و دوات مطالبہ کیا تو خلیفہ دوم نے کہا کہ ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے وصیت کی کوئی ضرورت نہیں! لیکن جب اپنے مطلب کی بات آئی تو پیغمبر کی حدیث سے ہی دختر پیغمبر کی بات کو ٹھکرانے کے لیے استدلال کیا گیا!
۱۲: ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر، اللہ کی جانب سے دنیا کے کونے کونے میں مبعوث ہوئے ان کے حالات و احکامات سے بہت ساری باتیں نقل ہوئی ہیں لیکن تاریخ میں کسی بھی نبی سے ایک بھی روایت نقل نہیں ہوئی کہ کسی پیغمبر نے کہا ہو ہم میراث نہیں چھوڑتے یا اپنی اولاد کو میراث سے محروم کر دیا ہو۔ جب ایسا کہیں نہیں ملتا تو پھر خلیفہ اول کہاں سے یہ حدیث نقل کرتے ہیں اور اس کو دلیل بنا کر رسول کی بیٹی کا حق غصب کرتے ہیں؟!
۱۳: کیسے خلیفہ اول انبیا کے میراث نہ چھوڑنے کے بارے میں حدیث نقل کرتے ہیں جبکہ قرآن مجید حضرت سلیمان کا وارث حضرت داوود یا حضرت زکریا کے وارث ہونے کی بات کرتا ہے: فھب لی من لدنک ولیا یرثنی و یرث من آل یعقوب۔۔۔
۱۴: ایک طرف خلیفہ اول یہ دعویٰ کر رہے ہیں انہوں نے پیغمبر اکرم(ص) سے یہ حدیث سنی کہ پیغمبر میراث نہیں چھوڑتے جبکہ دوسری طرف جناب فاطمہ زہرا(س) جن کی صداقت پر آیت تطہیر دلالت کرتی ہے خلیفہ اول کی بیان کی ہوئی اس حدیث کو واضح طور پر جھوٹا قرار دیتے ہوئے فرماتی ہیں: لقد جئت شیئا فریا‘‘، تم نے جھوٹی حدیث پیش کی ہے! اس کے بعد فرمایا کہ کیا تم جان بوجھ کر اللہ کی کتاب کو نظر انداز کرتے ہو اور جھوٹی حدیثوں کا سہارا لیتے ہو؟
 اب فیصلہ آپ کے اختیار میں ہے کہ سچا کون ہے اور جھوٹا کون؟
۱۵: اگر انبیا کے میراث نہ چھوڑنے والی بات درست ہوتی تو کیوں پیغمبر اکرم (ص) اس حدیث کو صرف جناب ابوبکر کے لیے بیان کرتے اور اپنی اولاد کو اس سے آگاہ نہ کرتے جبکہ انہیں اس کی زیادہ ضرورت تھی! یہ وہ سوال ہے جسے فخر رازی نے بھی تفسیر کبیر میں بیان کیا ہے( تفسیر کبیر، ج ۱۰)
۱۶: حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پیغمبر اکرم (ص) کا پارہ تن تھیں اور آپ(ص) سب سے زیادہ ان کی نسبت دلسوز تھے یہاں تک کہ بارہا فرمایا:’’فداھا ابوھا‘‘ ان کا باپ ان پر فدا ہو۔ آپ نے ان کی تعلیم و تربیت کے فرائض خود انجام دئے کیا ممکن ہے کہ پیغمبر اکرم اس حدیث کو جناب فاطمہ زہرا سے پوشیدہ رکھیں جو بعد میں فتنے کا باعث بنے اور انہیں  اس کی وجہ سے اس قدر مصائب اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑے اور نامحرموں سے محو کلام ہونا پڑے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) جیسی شخصیت خود اپنی امت کے اندر اتنے بڑے فساد کے واقع ہونے کا راستہ فراہم کر دیں؟ یہ وہ سوال ہے جو علامہ شرف الدین نے بھی بیان کیا( النص و الاجتہاد)
۱۷: پیغمبر اکرم(ص) کے جید اصحاب جو کاتب وحی تھے جو شہر علم کا دروازہ تھے حافظان حدیث تھے ان میں سے کسی نے بھی پیغمبر اکرم کی میراث کے بارے میں اس حدیث کو بیان نہیں کیا اور صرف خلیفہ اول کو خاص طور پر رسول اسلام(ص) نے یہ حدیث بیان کردی اور کسی اور کو بتایا تک نہیں کہ ہم انبیاء اپنی اولاد کے لیے میراث نہیں چھوڑ کر جاتے جو چھوڑ کر جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے؟!( تاریخ الخلفا، تاریخ دمشق)
جب یہ سوال سامنے آتا ہے کہ کیوں پیغمبر اسلام نے یہ حدیث صرف جناب ابوبکر کے لیے ہی بیان کی؟ چونکہ قرآن کریم کو خبر واحد کے ذریعے تخصیص لگانا درست نہیں ہے تو اس سوال کے جواب میں یوں کہتے ہیں کہ دوسرے افراد جیسے ابوہریرہ اور عمر بن خطاب نے بھی اس حدیث کی تائید کی ہے لہذا یہ خبر واحد نہیں ہے!
۱۸: جنگ بدر میں جب جناب زینب بنت خدیجہ سلام اللہ علیہا کے شوہر ابوالعاص کو گرفتار کر لیا گیا اور زینب نے ان کی رہائی کے لیے جناب خدیجہ کے گلے کا ہار رسول اسلام کی خدمت میں بھیجا، رسول اسلام نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ ابوالعاص کو رہا کردیں اور ہار کو بھی واپس کر دیں۔ مسلمانوں نے بھی حکم رسول کے مطابق ایسا ہی کیا۔
ابن ابی الحدید یہاں پر لکھتے ہیں کہ میں نے اپنے استاد سے کہا: کیا احسان اور بزرگی کا تقاضا نہیں ہے کہ فدک کے سلسلے میں جناب فاطمہ زہرا کے دل کو خوش کرنے کے لیے مسلمان فدک کو ان کے حوالے کر دیتے؟ کیا جناب فاطمہ زہرا (س) کا مقام ان کی بہن زینب سے کم تھا؟ جبکہ وہ نساء العالمین کی سردار ہیں۔ اس کے بعد لکھتے ہیں کہ قاضی عبد الجبار نے بھی یہ بات بیان کی کہ خلیفہ اول و دوم نے اپنی بزرگی کا بالکل لحاظ نہیں رکھا۔ اس کے بعد ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ یہ وہ بات ہے جس کا کوئی جواب نہیں ہے( شرح نہج البلاغہ، ۱۴، ۱۹۰)
۱۹: واقعہ فدک کے حیرت انگیزیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس کے باوجود کہ خلیفہ دوم عمر بن خطاب نے خود دختر رسول(ع) سے باغ فدک کو چھیننے میں بنیادی کردار ادا کیا لیکن جب منصب خلافت پر پہنچے تو کہنے لگے کہ فدک کو ان کے اصلی وارثوں حوالے کر دو( معجم البلدان، ۴، ۲۳۸)
ہمیں اگر چہ اس بات کی صداقت پر تردید ہے کہ کیا حقیقت میں انہوں نے ایسا حکم دیا لیکن اگر ایسا کیا ہو تو پھر ابتداء خلافت میں ان دونوں بزرگواروں کا اس بات پر اصرار کہ پیغمبر میراث نہیں چھوڑتے اور اس کے بعد پیغمبر کی جانب سے حدیث کا نقل کرنا، یہ سب کیا تھا؟ اگر ہم صحیح مسلم کی بات قبول کریں جو یہ کہتے ہیں کہ جو کچھ حضرت عمر نے حضرت علی(ع) اور جناب عباس کو لوٹایا وہ مدینہ میں پیغمبر اکرم(ص) کا صدقہ تھا نہ ان کا وہ مال جو انہیں خیبر میں ملا تھا اور نہ ہی فدک۔ تو یہاں پر بھی یہ حیرت کن بات سامنے آتی ہے کہ کیا فرق ہے پیغمبر اکرم کے صدقات کے درمیان ( جس سے مراد مدینے کے وہ سات باغ ہیں جو پیغمبر اکرم کی ذاتی ملکیت تھی اور اہل سنت نے ان کا نام صدقات پیغمبر رکھا تا کہ اس جعلی حدیث ’’لانورث‘‘ کی توجیہ کرسکیں) اور پیغمبر اکرم کے دوسرے اموال میں جیسے فدک اور خیبر۔ اگر پیغمبر اکرم کی یہ حدیث( لانورث) صحیح تھی تو پھر کیوں اس مال کو پیغمبر کے وارثوں کو لوٹایا گیا؟!
اس جعلی حدیث کے باطل ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ خلیفہ بنی امیہ عمر بن عبد العزیز نے لوگوں سے کہا: اے لوگو! میں ان مظالم کا جو گزشتہ دور میں اولاد رسول پر روا رکھے گئے جبران کروں گا اور اس میں کا سب سے پہلا ظلم فدک ہے جو میرے اختیار میں ہے اور میں اسے پیغمبر اور علی کی اولاد کو لوٹاوں گا۔۔۔
۲۰: جب امیر المومنین ظاہری خلافت پر بیٹھے تو جناب عائشہ نے مخالفت کے لیے قدعلم کیا اور طلحہ و زبیر کے حمایت سے امیر المومنین کے خلاف شورش کی اور دسیوں ہزار لوگوں کو امام و خلیفہ وقت کے مقابلے میں لا کر کھڑا کر دیا۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ جب دختر رسول نے مسجد نبوی میں خلافت غصب کرنے والوں کے خلاف خطبہ پڑھا اور اپنا حق حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کو مدد کے لیے طلب کیا اور آواز دی کہ اے مسلمانوں یہ کیسی خاموشی ہے جو تم نے میرے حق کے مقابلے میں سادھ لی ہے کیا تم لوگوں کی نگاہوں کے سامنے مجھ پر ظلم نہیں ہو رہا ہے؟ تاریخ نے لکھا ہے کہ کوئی ایک بھی ان کی مدد کے لیے نہیں اٹھا اور نہ کسی نے حمایت کا اعلان کیا! اس معما کا راز کیا ہے؟
دختر رسول(س) مسلمانوں کے اس رویہ سے سخت ناراض ہوئیں اور جب گھر واپس لوٹیں تو امیر المومنین سے فرمایا: انصار نے میری مدد کرنے سے انکار کیا، اور مہاجرین ہم سے دور ہو گئے اور لوگوں نے اپنی نگاہیں ہم سے موڑ لیں اور ہم بے یار و مددگار ہو کے رہ گئے‘‘۔ ’’خرجت کاظمۃ و عدت راغمۃ‘‘ میں غصے کو سینے میں دبا کر گئی تھی لیکن سرجھکائے ہوئے واپس لوٹی ہوں، کاش میں جانے سے پہلے اور یہ ذلت اٹھانے سے پہلے ہی مر گئی ہوتی۔۔۔۔ ’’مات العمد و وھن العضد‘‘ میرا ستون (پیغمبر) دنیا سے رخصت ہوا اور میرا بازو سست ہو گیا ’’ شکوای الی ابی و عدوای الی ربی( بحار الانوار، ج ۴۳، ۴۸)
آخر میں یہ شبہہ ذہنوں سے دور کرنے کے لیے کہ کیا حضرت زہرا (ع) کو فدک سے اتنی محبت تھی یا نعوذ باللہ وہ مال دنیا کے لیے اتنی لالچی تھی کہ دربار خلافت میں نامحرموں کے درمیان پہنچ گئیں؟  شہید مطہری کا یہ جملہ جو انہوں نے کتاب ’’سیری در سیرہ نبوی کے صفحہ نمبر ۱۰۱ میں لکھا ہے بیان کر دوں جس سے جناب زہرا (س) کے دربار خلافت میں جانے کا مقصد واضح ہو جاتا ہے:
شہید مطہری لکھتے ہیں کہ زہرا مرضیہ اگر فدک کے لیے دربارہ خلافت میں گئی ہیں تو اس عنوان سے گئی ہیں کہ اسلام میں ’’احقاق حق‘‘ یعنی اپنا حق لینا واجب ہے ( لاتظلمون و لا تظلمون) اور اگرنہ جاتیں تو ترک واجب کرتیں اس لیے کہ اگر فدک کے لیے دربار میں نہ جاتیں تو اس کا مطلب یہ تھا کہ گویا انہوں نے ظلم قبول کر لیا اور اسلام میں جس طرح ظلم کرنا حرام ہے اسی طرح ظلم قبول کرنا بھی حرام ہے۔ ورنہ فدک کی کیا قیمت ہے؟ زہرا (س) تو وہ ہیں جو فدک جیسے سینکڑوں باغات راہ خدا میں خیرات کر دیتی ہیں فدک کی بعنوان باغ فدک یا مال دنیا زہرا (س) کے سامنے کوئی قیمت نہیں تھی مسئلہ احقاق حق کا تھا اور ظلم قبول نہ کرنے کا تھا جو جناب زہرا قیامت تک کے مسلمانوں کو بتانا چاہتی تھیں کہ یاد رکھو اپنا حق حاصل کرنے کے لیے اگر سیدہ کونین کہ دنیا جن کی جوتی کے نوک کے برابر بھی ارزش نہیں رکھتی دربار خلافت میں نامحرموں کے سامنے جا سکتی ہیں تو عام مسلمانوں کو ظلم کے سامنے خاموش نہیں رہنا چاہیے اور ظلم سہتے ہوئے گھر نہیں بیٹھ جانا چاہیے یا اگر خواتین پر ظلم ہو رہا ہے تو اسے سہہ کر گھر میں نہیں بیٹھ جانا چاہیے کہ گھر سے باہر نکلیں گی تو بدحجابی ہو جائے گی بلکہ حجاب کا لحاظ رکھتے ہوئے ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا اور ظلم کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنا حق لینا سیرت فاطمہ زہرا(س) ہے جو عین اسلام محمدی ہے۔ اور دوسرا مقصد جناب زہرا(س) کا دربار خلافت میں جانے کا یہ تھا کہ جناب زہرا اپنے اس عمل سے خلافت کے حقیقی چہرے کو مسلمانوں کے لیے آشکار کرنا چاہتی تھی تاکہ مسلمان کبھی دھوکا نہ کھا جائیں کہ تخت خلافت پر بیٹھنے والے اور جانشینی رسول کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے ہی حق پر ہیں اور ان کا کردار عین مطابق اسلام و شریعت ہے۔ جناب زہرا نے بنفس نفیس دربار خلافت میں جا کر خلافت کے چہرے پر پڑی جھوٹ و فراڈ کی نقاب اتار دی اور مسلمانوں کے لیے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیا کہ اب اس کے بعد بھی اگر کوئی خلافت کا تابع رہے اور اسی کو سچا اسلام مانتا رہے تو وہ جان بوجھ کر اپنے پاوں پر کلہاڑی مار رہا ہے اور خود کو ہلاکت میں ڈال رہا ہے۔ حقیقی اسلام وہ نہیں ہے جس کی بنیاد غصب و ظلم پر مبنی ہو بلکہ رسول اسلام کا لایا ہوا حقیقی اسلام جو نجات دھندہ ہے جو انسان کو شرافت انسانیت کے زیور سے مالا مال کرتا ہے جو انسان کے لیے دنیا و آخرت کی فلاح و کامیابی کا ضامن ہے وہ اہل بیت رسول (ع) کے کردار میں درخشاں ہے وہ سیرت زہرا و اولاد زہرا(س) میں نمایاں ہے۔ اگر جناب زہرا گھر میں بیٹھی رہتیں اور دربار خلافت میں نہ جاتی تو یہ حقیقت پوشیدہ رہ جاتی اور خلافت کے ظاہری خوبصورت چہرے کو دیکھ کر گمراہ ہونے والے کل قیامت بارگاہ رسالت میں شکایت کرتے لہذا دختر رسول نے اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے اپنے اس عمل سے قیامت تک عالم بشریت کے لیے سامان ہدایت فراہم کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


source : abna
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت علی المرتضیٰ۔۔۔۔ شمعِ رسالت کا بے مثل پروانہ
پیغمبر كی شرافت و بلند ھمتی اور اخلاق حسنہ
یزیدی آمریت – جدید علمانیت بمقابلہ حسینی حقِ ...
فاطمہ (س) اور شفاعت
نجف اشرف
امام زمانہ(عج) سے قرب پیدا کرنے کے اعمال
حضرت فا طمہ زھرا (س) بحیثیت آئیڈیل شخصیت
حضرت علی اور حضرت فاطمہ (س) کی شادی
محشر اور فاطمہ کی شفاعت
اقوال حضرت امام جواد علیہ السلام

 
user comment