اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

شفاعت کے کیا شرائط ہیں؟

سوال: شفاعت کی کیا شرطیں ہیں؟ کون لوگ قیامت کے دن شفاعت کے حقدار ہونگے اور کون لوگ شفاعت کے حقدارنہیں ہونگے؟
شفاعت کے کیا شرائط ہیں؟

وال: شفاعت کی کیا شرطیں ہیں؟ کون لوگ قیامت کے دن شفاعت کے حقدار ہونگے اور کون لوگ شفاعت کے حقدارنہیں ہونگے؟

جواب: قیامت کے دن گنہگاروں کیلئے اولیاء الہی کی شفاعت بغیر حساب و کتاب کے نہیں ہوگی، بلکہ شفاعت کیلئے کچھ شرائط ہیں جنکا اسی دنیا میں حاصل کرنا ضروری ہے۔
آیات اور روایات میں کسی شخص یا گروہ کیلئے شفاعت کی ضمانت نہیں لی گئی ہے کہ حتماً ًانکی شفاعت ہوگی۔ بلکہ شفاعت ہونے اور شفاعت نہ ہونے والوں کے صفات اور انکی خصوصیات کو بیان کیا گیا ہے۔
آیات اور روایات کی بنیاد پر شفاعت ہونے والوں کے شرائط مندرجہ ذیل ہیں۔

الف: خداوند کی رضایت

۱۔شفیع سے راضی ہونا
شفاعت کرنے والے فیض الہی کو حاصل کرنے کا وسیلہ ہیں ۔ اسی وجہ سے شفاعت کی بنیادی شرط یہ ہے کہ شفاعت خداوند کی مرضی کے مطابق ہو۔ شفاعت کرنے والے وہ ہیں جنہیں خداوند عالم نے منتخب کیا ہے اور انھیں شفاعت کرنے کی اجازت دی ہے۔
خداوند عالم قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
یومئذٍ لا تنفع الشّفاعة الا من اذن لہ الرّحمن ورضی لہ قولاًً 1
ترجمہ: اس دن کسی کی سفارش کام نہ آئے گی سوائے انکے جنہیں خدا نے اجازت دی ہواور وہ انکی بات سے راضی ہو۔

۲۔شفاعت ہونے والوں سے راضی ہونا
شفاعت ہونے والوں کیلئے ضروری ہے کہ خدا ان سے راضی ہو یعنی شفاعت اس شخص کیلئے فائدہ مند ہوگی جس نے اپنی زندگی خداوند عالم کی اطاعت میں گزاری ہو۔ خداوند عالم قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
ولا یشفعون الا لمن ارتضی 2
ترجمہ:کوئی شفاعت نہیں کر سکتا ہے مگر یہ کہ خدا اس سے راضی ہو۔
شفاعت حقیقت میں خدا کے ارادہ اور اس کی خواہش کو نمایا کرتی ہے ۔ گنہگار بندوں کی بخشش اس بات پر مبنی ہے کہ انکا عقیدہ اور عمل دنیا میں خدا کی مرضی کے مطابق تھا جبکہ وہ خطا اور لغزش سے دچار بھی ہوئے ہیں، شفاعت ان کے حق میں جزا ہے۔

ب: ایمان کی حفاظت
وہ لوگ شفاعت کے لائق ہونگے جن کے گناہوں کی وجہ سے ان کاایمان ذائل نہ ہو ا ہو۔ اسی وجہ سے منابع دینی میں ذکر ہوا ہے کہ قیامت کے دن کافر ، مشرک اور منافق شفاعت کے لائق نہیں ہونگے۔ اس سلسلہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے:شفاعت منکروں، مشرکوں ،اور کافروں کیلئے نہیں ہے بلکہ شفاعت مومنین کیلئے ہے۔3

ج: دستو رات دینی پر عمل
وہ گنہگار شفاعت کے قابل ہونگے جنہوں نے خدا ، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور اولیاء الہی کے ا حکام کی پیروی اور انکی اطاعت کی ہوگی۔ بر خلاف اس کے جیسا کہ بعض لو گ گمان کرتے ہیں کہ شفاعت کا وعدہ ، لوگوں کے گناہ کرنے میں حوصلہ افزائی کا سبب ہوتا ہے اور انہیں اطاعت دین سے روکتا ہے۔ جب کہ دین الہی میں شفاعت کی شرط یہ ہے کہ دین کے احکام پر عمل کرے اور خدا ،رسول اکرم اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی اطاعت کرے۔ جس نے بھی دین کے احکام پر عمل کیا ہے اور خدا ،رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ معصومین علیہم لسلام کی پیروی کی ہے لیکن پھر بھی اس سے گناہ اور غلطی سرزد ہوئی ہے ،تو ایسے لوگ آخرت میں رحمت الہی کو پانے کے حقدار ہونگے۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:جو شخص چاہتا ہے کہ شفاعت اس کے لیئے فائدہ مندہو، تو ضروری ہے کہ وہ خداوند کی مرضی کوحاصل کرے۔ یہ جان لو کہ کوئی شخص خداوند عالم کی مرضی کو حاصل نہیں کرسکتا مگر یہ کہ وہ خداوند عالم، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آل محمد علیہم السلام کی اطاعت اور پیروی کرے۔4
قرآن کی نظر میں شفاعت بعض اہل جہنم کو فائدہ نہیں پہنچائے گی کیونکہ وہ احکام اور وظائف دینی کے پابند نہیں تھے۔
اہل جہنم سے سوال کیا جائے گا کس چیز نے تمہیں جہنمی بنایا؟ تو وہ جواب دینگے کہ ہم نماز گزاروں میں سے نہیں تھے، اور روز جزاء (قیامت) کو جھٹلاتے تھے یہاں تک کہ موت نے ہمیں آگھیرا۔تو ایسے لوگوں کو شفاعت کر نے والوں کی شفاعت فائدہ نہیں پہنچائے گی ۔5    
احکام دینی اور وظائف دینی پر عمل کرنا اس حد تک اہمیت رکھتا ہے کہ اگر کوئی شخص اسے ہلکا سمجھے اور اہمیت نہ دے تو یہ اس کی شفاعت سے محرومیت کا سبب بنے گا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے: ہماری شفاعت اس شخص کو نہیں پہنچ سکتی ہے جو نماز کو ہلکا سمجھتا ہے۔6

د: شفیع اور شفاعت ہونے والوں کے درمیان معنوی رابطہ
شفاعت ہونے والوں کیلئے ضروری ہے کہ دنیا میں انکا روحی اور معنوی رابطہ شفاعت کرنے والوں کے ساتھ رہا ہو۔جو لوگ دنیا میں اولیاء الہی سے محبت اور دوستی رکھتے ہیں اور انکی فکروں، عقیدوں کو قبول کرتے ہوئے انکے بتائے ہوے راستہ پر عمل کرتے ہیں تو آخرت میں انکی شفاعت کے حقدار ہونگے۔
حقیقت میں خداوند عالم کی حکمتوں میں سے ایک حکمت اپنے خاص بندوں کومغفرت و بخشش کیلئے، واسطہ اور شفیع قرار دینے میں یہی روحی اور معنوی رابطہ ہے جو انکے اور شفاعت ہونے والوں کے درمیا ن، دنیا میں رہاہے۔
مختلف روایتوں میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ا اور ائمہ معصومین علیہم السلام سے دوستی اور محبت کرنے کی تاٴکید کی گئی ہے7
کیونکہ محبت اور دوستی معنوی اور روحی رابطہ کے قوی ہونے کا سبب بنتی ہے۔ محبت کرنے والوں کیلئے حقیقی محبت، اپنے محبوب کی پیروی کا سبب بنتی ہے۔ اسی لیئے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام سے حقیقی محبت اور دوستی رکھنا گناہ کی کمی کاباعث ہوتاہے۔
خداکے خاص بندوں سے محبت کرنا شفاعت کی شرطوں میں سے ایک شرط ہے۔ کیونکہ ان سے محبت، خدوند عالم کے کرم اور رحمت کوحاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔
دینی کتابوں میں ذکر ہو اہے
۱۔ عالم ان لوگوں کی شفاعت کرے گا جن کی ہدایت اس نے کی ہے۔8
۲۔ ائمہ معصومین علیہم السلام اپنے شیعوں اور پیروی کرنے والوں کی شفاعت کریں گے9
۳۔ جنہوں نے خدا کے خاص بندوں سے رابطے کو توڑ لیا اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی ولایت کو قبول نہیں کیا ، وہ لوگ انکی شفاعت کے حقدار نہیں ہونگے۔10
اسی وجہ سے روایتوں میں ذکر ہوا ہے کہ جس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اہل بیت کو اذیت پہنچائی وہ انکی شفاعت کاحقدار نہیں ہوگا۔ کیونکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے: میں ان لوگوں کی شفاعت نہیں کروں گا جنہوں نے ہماری ذریت اور فرزندوں کو اذیت پہنچائی ہے۔11

وہ جو شفاعت سے محروم ہیں
۱۔ کفار ۔
۲۔ دشمنان اہل بیت ۔
۳۔ اولاد رسول کو اذیت پہنچانے والے۔
۴۔ جنہوں نے دنیا میں شفیع سے اپنے رابطے کو توڑ لیا ہے۔
۵۔ شفاعت کا انکار کرنے والے۔
۶۔ نماز کو ہلکا سمجھنے والے۔( یعنی نماز کو اہمیت نہ دینے والے)۔
یہ سب کے سب شفاعت سے محروم رہیں گے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے:میری شفاعت قیامت کے دن یقینی ہے جس نے بھی اس کا انکار کیا وہ میری شفاعت سے محروم رہے گا۔12
اور دوسری روایت میں ارشاد فرمایا ہے: میری شفاعت ان گنہگاروں کیلئے ہے جنہوں نے شرک اور ظلم جیسا گناہ نہیں کیا ہے۔13
امام جعفر صادق علیہ السلام فر ماتے ہیں : جس نے بھی نماز کو ہلکا سمجھا ہم ہر گز اس کی شفاعت نہیں کریں گے۔14


1. سورہ طہ: آیة۱۰۹۔    
2. سورہ انبیاء: آیة ۲۸۔
3. میزان الحکمہ :ج۴ ، ص۱۴۷۲۔
4. بحار الانوار:ج۷۵، ص۲۲۰۔
5. سورہ مدثر: آیة ؛۴۸۔۴۲۔
6. میزان الحکمہ: ج۴،ص ۱۴۷۲ ،ح۹۴۸۵ ۔
7. بحار الانوار : ج۲۷ ،ص ۱۵۸،ح۳۔ کنز العمال: ج۱۴،ص۳۹۹،ح۳۹۰۵۷۔
8. میزان الحکمہ، ج۴، ص۱۴۷۵،ح۹۵۰۶۔
9. میزان الحکمہ:ح ۹۵۰۴ اور ۹۵۰۵۔ بحار الانوار:ج۸،ص۴۳،ح۴۳،۴۲،۳۴ اور ص ۳۶،۳۷۔
10. بحار الانوار:ج۸، ص ۷۳۶،ح۹۔
11. امالی صدوق:ص ۳۷۰، بحار:ج ۹۳، ص۲۱۸، ح۴۔
12. میزان الحکمہ:ج۴ ،ص۱۴۷۲ ، ح۹۴۸۷ ۔ کنز العمال ج۱۴ ،ص۳۹۹، ح۳۹۰۵۹۔
13. میزان الحکمہ:ج۴ ،ص۱۴۷۲ ،ح۹۴۸۴ ۔
14. میزان الحکمہ:ج۴ ،ص۱۴۷۲ ، ح۹۴۸۶


source : abna
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

علوم قرآن سے کیا مرادہے؟
صحابہ کے عادل ہونے کے متعلق تحقیق
گھریلو کتے پالنے کے بارے میں آیت اللہ العظمی ...
کیا عصمت انبیاء جبری طور پر ہے؟
کیا ابوطالب ایمان کے ساتھ اس دنیا سے گئے ہیں کہ آپ ...
تقیہ کتاب و سنت کی روشنی میں
عالم ذرّ کا عہد و پیمان کیا ہے؟
کیا نماز جمعہ کو واجب تخییری ہونے کے عنوان سے ...
ہم شب قدر میں قرآن سر پر کیوں رکھتے ہیں ؟
کیا حدیث" اما الحوادث الواقعہ" کی سند میں ...

 
user comment