اردو
Saturday 20th of April 2024
0
نفر 0

کیا اسلام کی نظر میں تعظیم کا سجده جائز هے؟

کیا اسلام کی نظر میں تعظیم کا سجده جائز هے؟

جس طرح حضرت یوسف علیه السلام کے بها ئیوں نے ان کے لئے سجده کیا، کیا شریعت محمدی (ص) میں مکتب اهل بیت(ع) کے مطابق اس طرح سجده تعظیم کی اجازت دی گئی هے؟
ایک مختصر

اسلام اور مکتب اهل بیت علیهم السلام کے مطابق عبادت کی مکمل ترین اور زیبا ترین صورت سجده هے جو صرف خدا وند متعال سے مخصوص هے اور خداوند متعال کے علاوه کسی کے لئے سجده کر نا جائز نهیں هے-

لیکن حضرت یوسف علیه السلام کے لئے جو سجده کیاگیا ، وه ان پر سجده نهیں تھا ، بلکه یه حقیقت میں خداوند متعال کی عبادت تھی - چونکه هم کعبه کی طرف نماز پڑھتے هیں اور اسی طرف سجده کرتے هیں ، لیکن کبهی همارا یه سجده اور نماز خانه کعبه کے لئے نهیں هوتے هیں ، بلکه خانه کعبه صرف ایک نشانی هے جس کی طرف توجه کر کے هم خدا کی عبادت کرتے هیں -

تفصیلی جوابات

اسلام اور مکتب اهل بیت علیهم السلام کے مطابق توحید، بلند ترین اور قابل قدرترین اصول اور کفر و ایمان کے در میان سرحد هے- توحید کے مقابل میں ، خدا کو شریک ٹهرانا هے که قرآن مجید نے اسے عظیم ظلم [1]اور ناقابل عفو گناه [2] بیان کیا هے-

توحید کی حسب ذیل چار بنیادی شاخیں هیں :

١- ذات میں توحید

٢- صفات میں توحید

٣- افعال میں توحید

٤- عبادت میں توحید

عبادت میں توحید، یعنی صرف خدا کی پرستش کی جانی چاهئے اور اس کے علاوه کوئی عبودیت کی شائستگی نهیں رکهتا هے ، کیونکه عبادت اس کے لئے هونی چاهئے جو کمال مطلق اور مطلق کمال هے -جو عام لوگوں سے بے نیاز هے اور تمام نعمتیں عطا کر نے والا اور تمام مخلوقات کو پیدا کر نے والاهے اور یه سب صفتیں خداوند متعال کی پاک ذات کے علاوه کسی میں نهیں پائی جاتی هیں-

عبادت کا اصلی مقصد ، کمال مطلق اور لا محدود هستی کا قرب حاصل کر نا اور دل وجان میں صفات کمال و جمال کی کرنوں کا انعکاس هے، جس کا نتیجه نفسانی خواهشات سے دوری اختیار کر نا اور خود سازی و تهذیب نفس کی طرف قدم بڑهانا هے- یه مقصد" الله" یعنی کمال مطلق ، کی عبادت کے بغیر حاصل نهیں هو سکتا هے[3]-

عبادت کے وسیع معنی هیں - لغت کے مطابق عبد، اس انسان کو کهتے هیں جو سرتا پا اپنے مولا اور مالک سے متعلق هو، اس کا اراده خدا کے اراد کے تابع اور اس کی چاهت خدا کی چاهت هو- اپنے مالک کے سامنے اس کی ذات کوئی چیز نهیں هے اور وه اس کی اطاعت میں هر گز سستی اور کاهلی کا مظاهره نهیں کرتاهے-

دوسرے الفاظ مین ، " عبودیت" اپنے معبود کے حضورخضوع وخشوع کے آخری درجه کا اظهار کر نا هے ، اسی لئے صرف وه معبود هو سکتا هے جس نے انتهائی درجه کے انعام و اکرام عطا کئے هوں اوروه خدا وند متعال کی ذات گرامی کے علاوه کوئی نهیں هو سکتا هے-

اس بناپر، عبودیت ، ایک انسان کے تکامل اور خداوند متعال سے اس کے قرب کی انتها اور اس کی پاک ذات کے حضور مکمل طور پر تسلیم هو ناهے[4]-

قرآن مجید میں عبادت، انسان اور تمام مخلوقات کی تخلیق کا بنیادی سبب شمار کی گئی هے- اس سلسله میں قرآن مجید کا ارشاد هے : " اور میں نے جنّات اور انسان کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا هے[5]-"

اسی وجه سے عبادت ، خداوند متعال کی ذات سے مخصوص هے اور اس نے اپنی مخلوقات میں سے کسی ایک کو یه اجازت نهیں دی هے که وه کسی دوسرے کی پر ستش کرے، کیونکه غیر خدا کی پرستش و عبادت شرک کی سب سے بڑی مثال هے اور شرک ایک بڑا ظلم اور ناقابل بخشش گناه هے-

عبادت کی ایک مکمل اور سب سے زیبا صورت، سجده هے [6]،کیونکه سجده بندے کا اپنے معبود کے حضور انتهائی خصوع وخشوع کا اظهار هے-

اسلام کی نظر میں خدا وند متعال کے لئے سجده اهم ترین عبادت یا اهم ترین عبادات میں سے ایک عبادت هے - جیسا که روایتوں میں آیا هے که ، انسان سجده کی حالت میں ، دوسری تمام حالتوں کی به نسبت خدا کے نزدیک تر هو تا هے- عظیم پیشوا خاص کر رسول اکرم صلی الله علیه وآله وسلم اور اهل بیت اطهار علیهم السلام طولانی سجدے بجالاتے تھے[7]-

اسی لئے اسلام کے بنیادی اصولوں کے مطابق خدا کے علاوه کسی اور کے لئے سجده کر نا جائز نهیں هے اور هماری حدیث کی کتابوں میں " عدم جوازالسجود لغیرالله " کے عنوان سے ایک باب درج کیاگیا هے اور اس باب میں پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم اور ائمه اطهار علیهم السلام کی طرف سے، کئی ایسی رواًیتیں نقل کی گئی هیں جن کے مطابق خدا کے علاوه کسی اور کے لئے سجده کر نے کو حرام قرار دیا گیا هے[8]-

حضرت یوسف علیه السلام کے لئے سجده کرنا-

قرآن مجید میں غیر خدا کے لئے کئےگئے دوسجدوں کا ذکر آیا هے - ایک ملائکه کا حضرت آدم علیه السلام [9]کے لئے سجده کر نا اور دوسرا حضرت یوسف علیه السلام کے بها ئیوں اور ان کے والدین کا حضرت یوسف کے لئے سجده کر نا هے- چونکه یه دونوں سجدے ایک هی قسم کے هیں ، اس لئے هم یهاں پر حضرت یوسف علیه السلام کے لئے سجده کر نے کے اعتراض کا جواب دیں گے اور حضرت آدم علیه السلام کے لئے سجده کا حکم بهی خودبخود واضح هو جائے گا-

قرآن مجید میں ارشاد هے: " اور انهوں نے والدین کو بلند مقام پر تخت پر جگه دی اور سب لوگ یوسف(ع) کے سامنے سجده میں گر پڑے اور یوسف (ع) نے کها که بابا! یه میرے پهلے خواب کی تعبیر هے[10]---"

اس سلسله میں چند احتمالات بیان کئے گئے هیں :

١- بعض مفسرین نے کها هے که: سجدوں کی دوقسمیں هیں ، ایک سجده عبودیت وپرستش هے، جو صرف خدا وند متعال سے مخصوص هے، اس کے مقابل میں سورج، بتوں اور ستاروں وغیره پر سجده کر نا هے که مشرکین ایسا سجده انجام دیتے تھے اور دوسرا تعظیم و احترام کا سجده هے جو بادشاهوں ، سلاطین، انبیائے کرام اور بزرگوں کے سامنے انجام دیاجاتا هے اور خدا وند متعال کے امرو نهی کے تابع هو تا هے- شریعت اسلام میں سخت تاکید سے کهاگیا هے که اس قسم کا سجده حرام هے، لیکن شرک نهیں هے- خداوند متعال نے اس قسم کے سجده کو حضرت آدم علیه السلام کے لئے واجب قرار دیا هے اور یه بالکل خدا کی اطاعت هے، اس لئے شیطان کو اس کی مخالفت کی وجه سے نکال باهر کیاگیا، لیکن اس قسم کا سجده حضرت ابراهیم علیه السلام اور انبیائے بنی اسرائیل(ع) میں جائز بلکه قابل ستائش تھا- اس کا گواه پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کا یه کلام مبارک هے که: اگر خدا کے علاوه کسی کے لئے سجده کر نا جائز هو تا، تو میں کهتا که بیویاں اپنے شوهروں کے لئے سجده کریں - اس جمله کے معنی یه نهیں هیں که بیویاں اپنے شوهروں کی پرستش کریں بلکه اس طرح (سجده کر کے) اپنے شوهروں کی تعظیم واحترام کریں[11]-

٢- آیه شریفه کا مراد یه هے که حضرت یوسف علیه السلام کے حکم سے ان (کے والدین اور بهائیوں) کا کافی احترام کیاگیا اور انهیں خاص محل میں تخت سلطنت پر بٹهایا گیا- ، جب حضرت یوسف علیه السلام داخل هو گئے ، ان کے دلکش چهرے سے نور الهی کی کرنیں چکاچوند لگاتی تھیں ، انهوں نے جب یه حالت دیکهی تو آپے سے باهر هو کر زمین پر گر پڑے-

لیکن یه سجده عبادت کے لئے نهیں تها، اس لئے که پرستش اور عبادت کے معنی میں سجده صرف خدا وند متعال سے مخصوص هے اور کسی بھی مذهب میں خدا کے علاوه کسی اور کی پرستش جائز نهیں هے - عبادت میں توحید، جس کا اهم حصه مسئله توحید سے مربوط هے، جس کی تمام پیغمبروں نے دعوت کی هے ، اس کا مفهوم بھی یهی هے-

اس لئے ، نه خدا کے پیغمبر حضرت یوسف علیه السلام اس کی اجازت دیتے که اس کے لئے سجده اور عبادت کریں اور نه حضرت یعقوب علیه السلام جیسے اولوالعزم پیغمبر ایسا کام انجام دیتے اور نه قرآن مجید اسے ایک شائسته عمل کے طور پر جائز قرار دیتا-

اس لئے، مذکوره سجده خداوند متعال کے شکرانه کا سجده تھا، وهی خدا جس نے یه سب لطف و محبت وعنایت حضرت یوسف علیه السلام پر کی تھی اور ایسا عظمت والا مقام انهیں عطا کیا تھا اور حضرت یعقوب علیه السلام کے خاندان کی مشکلات کو دور کیا تھا- اس صورت میں یه سجده ، خدا وند متعال کے لئے هونے کے علاوه چونکه حضرت یوسف علیه السلام کی عظمت کے لئے انجام پایا هے، ان کے لئے تجلیل و احترام بھی شمار هو تا هے اور اس لحاظ سے "له" کی ضمیر جو قطعاً حضرت یوسف(ع) کی طرف پلٹتی هے، اس معنی کے ساتھـ اچهی طرح سازگار هے-

صاحب تفسیر نمونه کهتے هیں : " یه معنی قریب تر لگتا هے ، خاص کر اس لئے که معصومین علیهم السلام سے نقل کی گئی متعدد روایتوں میں ملتا هے که:" ان کا سجده پروردگار عالم کے لئے عبادت کے عنوان سے تها-

بعض دوسری احادیث میں ملتا هے که : یوسف(ع) کے بهائیوں کا سجده پروردگار عالم کی اطاعت کے عنوان سے اور حضرت یوسف علیه السلام کے لئے تعظیم اور احترام کے طورپر تھا-

اسی طرح حضرت آدم علیه السلام کی داستان میں بهی سجده خداوند متعال کے لئے تھا که اس نے اس قسم کی غیر معمولی مخلوق کو پیدا کیا هے - یه سجده عین خداکی عبادت کے لئے هو نے کے علاوه ، حضرت ادم علیه السلام کے مقام کے احترام و عظمت کی دلیل بھی هے- اس کی مثال ایسی هے که کوئی شخص ایک بهت هی اهم اور شائسته کار نامه انجام دیتا هے اور هم اس لئے که خداوند متعال نے اس قسم کے بنده کو پیدا کیا هے ، سجده کریں که یه سجده خداوند متعال کے لئے بھی هے اور اس شخص کے احترام کے لئے بھی[12]-

٣-سجده کے وسیع معنی کے پیش نظر اس کا مراد، خضوع وتواضع هے ، کیونکه سجده همیشه اس کے معروف معنی میں استعمال نهیں هوتا هے بلکه بعض اوقات هر قسم کے تواضع کے طور پر بھی استعمال هوتا هے - اس لئے بعض مفسرین نے کها هے که اس زمانه میں تعظیم اور احترام کا رسم سر جهکانا تھا اور آیه شریفه میں بهی سجده کا مراد یهی هے - لیکن جمله "خروا" کے پیش نظر ، جس کا مفهوم زمین پر گرنا هے، ایسا لگتا هے که ان کا سجده سر جهکانے کے معنی میں نهیں تها[13]-

٤- بعض دوسرے بڑے مفسرین نے کها هے که : عبادت کے معنی یه هیں که بنده خود کو عبودیت کے مقام پر قرار دے اور عملی طور پر اپنی بندگی اور عبادت کو ثابت بهی کرے اور همیشه بندگی کی حالت میں رهے-

اس لئے عبادی کام ایسا کام هو ناچاهئے، جس میں مولا کی مولویت اورعبدکی عبدیت کی صلاحیت موجود هو- جیسے سجده اوررکوع کر نا یا مولا کے لئے کھڑا هو نا یا اس کے پیچهےپیچهےچلنا وغیره ، جس قدر یه صلاحیت زیاده هو ، عبادت زیاده اور عبودیت متعین تر هوتی هے- مولا کی عزت اور عبودیت کی ذلت کی سب سے واضح تر دلالت ، سجده کی دلالت هے، کیونکه سجده میں بنده زمین پر گرتا هے اور اپنے چهرے کو خاک پر رکهتا هے ، لیکن سجده، ذاتی طورپر عبادت نهیں هے، بلکه اس میں عبادت کی نیت کر نا ضروری هے - اس لئے اگر سجده میں کسی رکاوٹ کا احساس کیا جائے ، وه حتماً شرعی یا عقلی نهی کی وجه سے هو گا اور جو کچھـ شرع و عقل میں ممنوع هے، وه یه هے که انسان غیر خدا کے لئے اپنے سجدے سے غیر خدا کے لئے ربوبیت کو ثابت کرے- لیکن اگر اس کے سجده کا مراد صرف اس کا احترام و تعظیم هو، اور اس کی ربوبیت کا قائل نه هو ، بلکه اس کا مراد ایک قسم کا تکلف اور احترام انجام دینا هو، تو اس صورت میں اس قسم کے سجده کے حرام هو نے کے لئے نه کوئی شرعی دلیل موجود هے اور نه عقلی دلیل-

جو چیز هے وه دینی ذوق هے، که متدین لوگوں نے اسے ذهن کے انس سے دینی ظواهر میں کسب کیا هے، اس کا تقاضا هے که کلی طور پر اس عمل کو خداوند متعال سے مخصوص کیا جائے اور غیر خدا کے لئے ، حتی تکلف و احترام کے طور پر بهی سر به سجود نه هو جائیں - یه ذوق قابل انکار نهیں هے، لیکن ایسا بھی نهیں هے که خدا کے بارے میں اظهار اخلاص کے سلسله میں انجام پانے والا هر کام ، غیر خدا کے لئے انجام دینا ممنوع هو[14]-

حضرت یعقوب علیه السلام اور حضرت یوسف کے بهائیوں اور والده کاحضرت یوسف علیه السلام کے لئے سجده کر نا حقیقت میں خدا وند متعال کے لئے سجده تھا، لیکن حضرت یوسف کعبه کے مانند قبله تھے، اس لئے بعض اوقات عرب یه تعبیر استعمال کر تے هیں : " فلاں شخص نے قبله کی طرف نماز پڑھی -"

جس طرح هم خدا کی عبادت کر تے هیں اور کعبه کو اپنا قبله جانتے هیں اور نماز و عبادت کو اسی طرف انجام دیتے هیں ، اس لئے کعبه کے سامنے سجده کر نے سے خدا کی عبادت کی جاتی هے نه کعبه کی اور معلوم هے که خدا کی آیت چونکه آیه و نشانی هے، خود مستقل نهیں هے اور اگر اس کے لئے سجده کیا جائے ، تو صاحب آیت، یعنی خداوند متعال کے علاوه کسی کی عبادت نهیں کی گئی هے

[15]-

مذکوره مطالب کے پیش نظر واضح هو تا هے که اسلام میں خدا کے لئے بیان کئے گئے سجده کے علاوه کسی کے لئے سجده کر نا جائز نهیں هے، اگر چه وه تعظیم واحترام کے لئے بهی هو-

جیسا که بعض روایتوں میں آیا هے که پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم سے بعض اصحاب نے درخواست کی تهی که آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم کے لئے سجده کریں ، لیکن آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم نے جواب میں فر مایا: " لا بل اسجدوا لله[16]" " نهیں ، بلکه صرف خدا کے لئے سجده کر نا -"

ذیل میں هم اس موضوع کے بارے میں مراجع عظام کے فتوٶں کی طرف آپ کی توجه مبذول کرتے هیں :

دفتر حضرت آیت الله العظمی خامنه ای (مدظله العا لے)

غیر خدا کو سجده کرنا حرام هے اور بعض لوگ جو ائمه اطهار علیهم اسلام کی قبر کے سامنے جو اپنی پیشانی کو زمیں پر رکهتے هیں، اگر خدا کا شکر بجا لانے کے لئے هوتو کوئی حرج نهیں هے، ورنه حرام هے-

دفتر حضرت آیت الله العظمی فاضل لنکرانی (رح):

غیر خدا کے لئےتعظیم اور سجده جائز نهیں هے اور حضرت یعقوب(ع) اور ان کے فرزندوں کا سجده ، خداوند متعال کے لئے شکرانے کا سجده تھا -اس سلسله میں مرحوم سید یزدی کے " عروۃ الوثقی" کی طرف رجوع کریں-

دفتر حضرت آیت الله العظمی سیستانی (مدظله العالے)

علماء اور مفسرین کے درمیان یه معروف هے که ، انهوں نے حضرت یوسف علیه السلام کو خدا کی طرف سے عطا کی گئ عظمت کے پیش نظر خدا کے لئے سجده کیا هے که یه ایک قسم کا سجده شکر هے-


[1] - لقمان ،١٣،" واذ قال لقمان لابنه وهو یعظه یا بنی لا تشرک بالله ان الشرک لظلم عظیم -"

[2] -سوره نساء، ٤٨،" ان الله لا یغفر ان یشرک به ویغفر مادون ذلک لمن یشاء"

[3] - تفسیر نمونه ، ج٢٧،ص٤٤٧-

[4] - تفسیر نمونه ءج٢٢،ص٣٨٧-

[5] - سوره ذاریات ،٥٦،" وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون"

[6] - اگر چه هر سجده عبادت نهیں هے ، یعنی اس طرح نهیں هے که سجده عبادت ذاتی هو اور عبادت کے علاوه اس پر کوئی اور عنوان مطابقت نه کر تا هو- ملاحظه هو: تر جمه فارسی ،المیزان ، ج١،ص١٩٠-

[7] -مکارم شیرازی ،" شعبه جواب دیتا هے" ، طبع سوم ،١٣٨٥ش ،ص١٤٣-

[8] - وسائل الشیعه ، موسسه آل البیت (ع) ، قم ، ١٤٠٩ هجری قمری ،ج٦،ص٣٨٥-

[9] -ملاحظه هو: نجمی، هاشم زاده هریسی ، بیان در مسائل قرآن ،ص٦٢٠-

[10] - سوره یوسف ،١٠٠، " ورفع ابویه علی العرش و خروا له سجداً و قال یا ابت هذا تاویل رء یای"

[11] - طیب ، سید عبدالحسین ،اطیب البیان فی تعسیر القرآن ،ج٧،ص٢٨٠-

[12] - تفسیر نمو نه ،ج١٠،ص٨٢-

[13] - تفسیر نمونه ،ج١٠،ص٨٢-

[14] - تر جمه فارسی ،المیزان ،ج١،ص١٨٩و١٩٠-

[15] - تفسیر المیزان و تفسیر فخررازی آیه مورد بحث کے ذیل میں تر جمه فارسی المیزان ،ج١١،ص٣٣٩-

[16] -مستدرک الوسائل ، مٶسسه آل البیت (ع) ،قم ١٤٠٨هجری قمری ،ج٤،ص٤٨٠-

 


source : www.islamquest.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

روزے کی تعریف اور اس کی قسمیں
کیا یا علی مدد کہنا جائز ہے
علوم قرآن سے کیا مرادہے؟
صحابہ کے عادل ہونے کے متعلق تحقیق
گھریلو کتے پالنے کے بارے میں آیت اللہ العظمی ...
کیا عصمت انبیاء جبری طور پر ہے؟
کیا ابوطالب ایمان کے ساتھ اس دنیا سے گئے ہیں کہ آپ ...
تقیہ کتاب و سنت کی روشنی میں
عالم ذرّ کا عہد و پیمان کیا ہے؟
کیا نماز جمعہ کو واجب تخییری ہونے کے عنوان سے ...

 
user comment