اردو
Thursday 28th of March 2024
0
نفر 0

امام بخاری کی مختصر سوانح حیات بیان کیجئے؟

امام بخاری کی مختصر سوانح حیات بیان کیجئے؟

امام بخاری کی مختصر سوانح حیات بیان کیجئے؟
ایک مختصر

"ابو عبدا للھ "، محمد بن اسماعیل بن ابراھیم بن مغیره بن بردزیھ، جعفی البخاری، اھل سنت کے نامور محدثوں میں سے ھیں۔ وه ۱۹۴ ھ ۔ کو بخارا کے ایک گاؤں " خرتنک" میں پیدا ھوئے ۔ اور اپنے بچپن میں ھی باپ کے سائے سے محروم ھوگئے ۔ وه ایک طاقتور حافظھ رکھتے تھے اور اپنے بچپن سے ھی احادیث کی جمع آوری میں گئے۔

ان کے استاد "محمد بن یحیی ذھلی" کو ان سے حسد ھوا۔ اس طرح استاد نے انھیں کفر کا فتوی دیکر، اپنے معاشره سے جلاوطن کردیا ۔ ناچاراً نیشابور کو ترک کرکے انھوں نے بخارا کا رخ کیا۔ اور وھاں پر بھی حکومت کی جانب سے مورد الزام ٹھرائے گئے یھاں سے انھوں نے سمرقند کی جانب سفر شروع کیا اور راستے میں اپنے گاؤں چلے گئے۔ لیکن چند دن وھاں قیام کرنے کے بعد وفات پاگئے۔ ان کی تالیفات کو ۲۵ تک گنا گیا ھے جن میں سب سے اھم صحیح بخاری ھے۔

بخاری اگر چھ شیعوں کے دواماموں ( امام ھادی اور امام حسن عسکری علیھما السلام ) کے ھم عصر تھے لیکن افسوس، کھ ان بزرگوارون سے کوئی حدیث نقل نھیں کی ھے۔ صرف امام علی علیھ السلام سے ۲۹ حدیث اور کچھه احادیث امام حسن مجتبی اور امام محمد باقر علیھم السلام سے نقل کی ھیں۔

اس کے باوجود کھ اھل سنت ان کو سچا اور ان کی کتاب کو قرآن مجید کے بعد سب سے بلند مرتبھ کتاب جانتے ھیں۔ لیکن اھل سنت کے ھی بعض بزرگوں نے ان کی روایات پر مضبوط تنقیدات کی ھیں اور اسی طرح شیعوں نے ان کی "صحیح" پر تنقید کی ھے۔

تفصیلی جوابات

ابو عبدا للھ محمد بن اسماعیل ابن ابراھیم بن مغیره بن بردزیھ ، جعفی البخاری ، اھل سنت کے نامو ر محدثوں میں سے ھیں ، " جعفی " سے ان کی نسبت اس لئے ھے کھ ان کا پردادا مغیره بخارا کے حاکم " یمان جعفی" کا غلام تھا اور اس کے ھاتھوں ایمان لایا.

مغیره کا باپ، بردزیھ (کسان) زردتشتی مذھب پر تھا اور اسی دین پر اس دنیا سے چلا گیا، پس یاقوت حموی نے جو کھا ھے کھ بردزیھ بخارا کے حاکم کے ھاتھوں مسلمان ھوا ھے وه سراسر غلط ھے۔

بخاری نے ۱۳ شوال ۱۹۴ ھجری کو "بخارا" کے نزدیک ایک گاؤں " خرتنگ" میں ولادت پائی۔ بچپن میں ھی باپ کے سائے سے محروم ھوئے، اور ان کی سرپرستی کا بوجھه ان کی ماں کے کندھوں پر آپڑا تھا۔ "صفدی" اور "خطیب بغدادی" نے نقل کیا ھے که وه بچپن میں ھی بینائی سے محروم ھوئے تھے لیکن ماں کی دعا سے خدا نے انھیں بینائی واپس عطا کی۔

خطیب بغدادی کے بقول ، بخاری ایک غیر معمولی حافظھ رکھتے تھے اور بچپن میں بخارا میں ھی علم حاصل کرنے میں مشغول ھوئے ۔ دس سال کی عمر سے حدیث کی جمع آوری شروع کی ۔ گیاره سال کی عمر میں اپنے استاد "ذھلی" کی روایت کی سند کی تصحیح کی اور اس کے تعجب کا باعث بنے۔ اھل سنت کی کتابوں کے مطابق۔ اس کے ساتھیوں نے جو حدیثیں لکھی تھی بخاری سے ان کی تصحیح کراتے تھے اور ان حدیثوں کو بخاری زبانی پڑھ کر انکی تصحیح کرتے تھے۔

سولھ سال کی عمر میں ابن مبارک ( متوفی ۱۸۲ ھ) وکیع بن جراح ( متوفی ۱۹۷ ھ ) کی کتابوں کو زبانی یاد کیا اسی سال اپنی ماں کے ھمراه حج پر تشریف لے گئے اور حدیث سیکھنے کیلئے مکھ میں مقیم ھوئے۔

اٹھاره سال کی عمر میں مدینھ منوره میں رسول اکرم صلی اللھ علیھ وآولھ وسلم کی قبر مطھر کے کنارے، کتاب " القضایا و التابعین و اقاویلھم " کی تالیف کی ، کھا گیا ھے کھ بخاری نے حدیث کی تلاش میں طویل سفر کئے ھیں۔

وه لوگوں کو نیشابور میں حدیث سکھاتے تھے۔ اور ان کی مجلس میں لوگوں کا جم غفیر ھوتا تھا ۔ یھی بات " محمد بں یحیی ذھلی" کے لئے ، جو بخاری کے اعاظم اساتید میں تھے حسد کا سبب بنی اور وه بخاری کے دشمن بن گئے۔

ذھلی اور دیگر متکلمین قرآن مجید کے قدیم ھونے کے قائل تھے۔ وه اپنے مخالفوں پر ارتداد کا فتوی لگاتے تھے۔ لیکن بخاری قرآن مجید کے مخلوق ھونے کے قائل تھے اس لئے ان پر دین سے انحراف کا اتھام لگایا گیا اور ان کی مجلس میں شرکت کرنا ممنوع قرار دیا گیا، "احمد بن مسلمھ" اور "مسلم" کے علاوه اِن کے سب شاگرد اُن کے حلقے سے دور ھوگئے ۔ انھوں نے مجبوری میں نیشابور سے بخارا کی جانب ھجرت کی۔ وه کچھه مدت تک بخارا میں رھے اور وھاں پر مجلس حدیث بھی تشکیل دی۔

خطیب بغدادی نقل کرتے ھیں: "کھ خالد بن احمد ذھلی ، شھر کے حکمران نے ، انھیں حدیث بیان کرنے کیلئے اپنے محل میں دعوت دی ۔ لیکن بخاری نے ان کی دعوت کو ٹھکرادیا اور کھا کھ میں علم کو ذلیل نھیں کرتا ھوں اور اسے لوگوں کے گھر نھیں لے جاتا ھوں اگر حاکم کو علم کی ضرورت ھے تو اسے چاھئے کھ مسجد میں یا میرے گھرآجائے یھ بات حکومت کو ناگوار گزری اور وه بخاری سے بد ظن ھوگئے اور آخر کار انھیں جلا وطن کردیا ۔

سمرقند کے لوگوں نے انھیں اپنے شھر آنے کی دعوت دی۔ بخاری نے ان کی دعوت کو قبول کیا اور وه سمرقند کی طرف روانھ ھوگئے جب وه سمرقند سے دو فرسخ دور اپنے وطن پھنچے تو ان کے رشتھ داروں نے انھیں دعوت دی اور انھوں نے شب پنچشنبھ عید الفطر سال ۲۰۶ کو اپنے ھی آبائی گاؤں میں وفات پائی اور وھیں سپرد خاک ھوئے۔ اھل سنت نے "بخاری" کے فضائل میں بھت کچھه لکھا ھے یھاں تک کھ بعض نے یھ دعویٰ بھی کیا کھ علم حدیث میں بخاری سے زیاده کوئی عالم نھیں تھا۔ "مسلم" نے کھا ھے کھ میں گواھی دیتا ھوں کھ ان کے مانند دنیا میں کوئی نھیں ھے۔

بخاری نے شیعوں کے اماموں سے بھت کم حدیثیں نقل کی ھیں انھوں نے اپنی "صحیح" میں فقط ۲۹ حدیث امام علی علیھ السلام اور بعض حدیث امام حسن اور امام محمد باقر علیھما السلام سے نقل کی ھیں۔

محققین کے نظریھ کے مطابق بخاری کو مذاھب چھارگانھ میں ، کسی ایک مذھب کا یا کسی اور مشھور مذھب کا پیرو نھیں جانا جاسکتا ھے۔ وه ایک خاص فقھی مسلک رکھتے تھے اور اپنی رائے کے مطابق اجتھاد کرتے تھے اگر چھ مذاھب میں ھر ایک مذھب کے ماننے والوں نے یھ کوشش کی ھے کھ انھیں ان کے مذھب کا تابع جانا جائے ، ان میں ایک "سبکی" ھے جس نے ان کو اپنی کتاب میں شافعی مذھب جانا ھے ۔ اور "قاضی ابن ابی یعلی " نے انھیں حنبلی علماء میں لکھا ھے۔

ان کے آثار کو ۲۵ تک لکھا گیا ھے جن میں سے مشھور مندرجھ ذیل ھیں:

۱۔ تاریخ کبیر ، ۴۰ ھزار ، حدیث کے راویوں کے احوال میں ۔

۲۔ تاریخ صغیر ۔

۳۔ الضعفاء الصغیر۔

۴۔ کتاب الکنی۔

۵۔ کتاب خلق افعال العباد " (فرقھ جھمیھ کی رد میں )

۶۔ الادب المفرد فی الحدیث۔

۷۔ قضایا الصحابۃ و التابعین و اقاویلھم۔

۸۔ تفسیر بخاری۔

۹۔ الجامع الصحیح ( صحیح بخاری)

صحیح بخاری:

یھ کتاب اھل سنت کے نزدیک خاص اھمیت کی حامل ھے بعض لوگ یھ دعوی کرتے ھیں کھ امت اسلامی کو اس پر اتفاق نظر ھے کھ قرآن مجید کے بعد سب سے صحیح کتاب "صحیح بخاری" ھے۔ اس کے بعد " صحیح مسلم " لیکن بعض اھل سنت کے بزرگوں نے اس کتاب پر تنقید کی ھے اور اس پر نھایت مضبوط تنقیدات کی ھیں۔ ان میں " حافظ دار قطنی" نے مختلف تنقیدات صحیح بخاری پرلکھی ھیں جو زیاده تر بخاری کے رجال کی سند میں ھیں ان میں سے بعض یوں ھے :

۱۔ وه احادیث جو دو سند یا اس سے زیاده سند کے ساتھه نقل ھوئی ھیں لیکن ایک سند میں دوسری سند کی بھ نسبت زیاده راوی موجود ھیں یا بعض راویوں کی جگھ دوسرے لوگ ذکر ھوئے ھیں۔

۲۔ ایسی احادیث کو نقل کیا ھے جن کے بعض راوی "مطعون" ھیں۔ [1]

۳۔ بعض راویوں کے منفردات کو ذکر کیا ھے جو مورد تنقید واقع ھوئے ھیں (وه روایت جن کو ان راویوں کے علاوه کسی اور نے ذکر نھیں کیا ھے)۔

علماء شیعھ کی طرف سے بھی بعض تنقیدات یوں واقع ھوئی ھیں۔

۱۔ شیعھ اماموں اور ان کے فرزندوں کے ذریعے سے حدیث کا نقل نھ کرنا۔ اس کے باوجود کھ وه دو اماموں ( امام ھادی اور امام حسن عسکری علیھما السلام ) کے ھم عصر تھے۔ اور صرف حضرت علی علیھ السلام سے ۲۹ اور امام حسن مجتبی اور امام محمد باقر علیھما السلام سے بعض احادیث نقل کی ھیں۔ اس کے مقابلے میں خوارج اور نواصب جیسے ، عکرمھ ، عمر بن خطان اور عروه ( جن پر اھل سنت کے بھت سے علماء نے جرح کی ھے [2]) بخاری کی حدیثوں میں آئے ھیں اور اس لحاظ سے کھ شیعوں کے امام غیر مشھور شخصیات نھیں تھے اور ان کے شاگرد خصوصا امام باقر اور امام صادق علیھ السلام کےشاگرد عراق اور حجاز میں بھت زیاده تھے۔ بخاری نے صرف شیعھ رجال کے ۲۰ افراد کو نقل کیا ھے۔

۲۔ اھل بیت کی شان میں حدیث نقل نھ کرنا باوجودیکه اھل سنت اور راویوں نے رسول اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم سے اھل بیت کے بارے میں حدیث نقل کی ھے جو کھ اھل سنت کی دوسرے کتب میں بھت زیاده ھیں۔

3۔ بخاری کی روایات میں جعلی راویوں کا موجود ھونا اور جعلی احادیث کو قبول کرنا۔

۴۔ بھت ساری احادیث کی تقطیع کرنا۔

۵۔ احادیث کے "متن" کے نقل میں مقید نھ رھنا بلکھ نقل بھ معنی کرنا ، یھ کام ان کے اپنے اجتھادات اور خاص نظریات کے احادیث میں داخل ھونے کا سبب بنا ھے۔[3]


[1] علم رجال کی اصطلاحات میں سے ھے جس کے معنی مورد اشکال ھونے کے ھیں۔

[2] علم رجال کی اصطلاحات میں سے ھے جس کے معنی مورد اشکال ھونے کے ھیں۔

[3] یھ بات قابل توجھ ھے کھ سب مطالب دانش نامھ جھان اسلام ( ڈاکٹر غلامعلی حداد عادل ) ج ۲ ، کلمھ بکاری ، نقل ھوئے ھیں اور مزید آگای کیلئے اس کی طرف رجوع کریں۔

 


source : www.islamquest.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اہم شیعہ تفاسیر کا تعارف
اردو زبان میں مجلہ ’’نوائے علم‘‘ کا نیا شمارہ ...
آٹھ شوال اہل بیت(ع) کی مصیبت اور تاریخ اسلام کا ...
انسان، صحیفہ سجادیہ کی روشنی میں
نجف اشرف
اذان میں أشھد أن علیًّا ولی اللّہ
انقلاب حسینی کے اثرات وبرکات
اذان ومؤذن کی فضیلت
ہماری زندگی میں صبر اور شکر کی اہمیت
نیکی اور بدی کی تعریف

 
user comment