اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

اسلامی تربیت

اسلامی تربیت

لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیھم رسولا من انفسھم یتلواعلیھم آیاتہ و یزکیھم و یعلمھم الکتاب و الحکمۃ و ان کانوا من قبل لفی ضلال مبین ۔ آل عمران 164 ۔

خدانے ایمان داروں پر بڑا احسان کیا کہ ان کے لۓ ان ہی کی قوم کا ایک رسول بھیجا جو انہیں خدا کی آيتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کی طبیعت کو پاکیزہ کرتا ہے اور انہیں عقل کی باتیں سکھاتا ہے ۔

دین اسلام بھی دیگر آسمانی مذاھب کی طرح انسان کو آلودگیوں اور انحراف سے بچاکر اسے الھی راستے یعنی عالم خلقت کے فطری اصولوں پر چلانے کے سوا کوئی اور ھدف نہیں رکھتا بہ الفاظ دیگر اسلام کی ذمہ داری بھی انسان کی تعلیم و تربیت ہے

اسلام کی تعلیمی اور تربیتی روشیں دنیا کی روشوں سے الگ بلکہ بے نظیر ہیں ، مرحوم زرین کوب لکھتے ہیں کہ
"عیسائیت کے برخلاف جو صرف دینی نقطہ نگاہ سےانسانوں کی تربیت و تعلیم کا قائل تھا جس کی بناپر ہی یورپ آخر کار بے دین ہوکر رہ گیا ،اسلام دنیوي امور پر بھی خاص توجہ کرتا ہے اور یہ امر باعث ہواہے اس بات کاکہ مسلمانوں کے درمیان دینی اور دنیوی امور سے ترکیب یافتہ متوازن صورتحال وجود میں آۓ

اسلام میں تربیتی احکام انسانی فطرت کے تمام امور کو شامل ہیں ،اسلام ان تمام چیزوں پر جو فطرت انسان سے جنم لیتی ہیں خاص توجہ رکھتاہے ان امور کا انسان اور اس کی زندگي کے حقائق پر مثبت اثر پڑتاہے جس کی نظیر کسی اور مذھب میں نہیں دیکھی جاسکتی۔

اسلامی تعلیم و تربیت کا ایک عدیم المثال نمونہ صدر اسلام کی مسلمان قوم ہے جو گمراہی وجھالت کی کھائیوں سے نکل کر کمال کی اعلی منازل تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئی تھی اسلام سے پہلے اس کا کام آپس میں جنگ و قتال کے علاوہ کچھہ بھی نہ تھا اسی قوم نے اسلامی تربیت کے زیر اثر ایسی عظیم تھذیب وتمدن کی بنیاد رکھی جو بہت کم مدت میں ساری دنیا پر چھا گئي اوراخلاق و انسانی اقدار کے لحاظ سےایسا نمونہ عمل بن گئي جو نہ اس سے پہلے دیکھا گيا تھا نہ اس کے بعد

اسلامی طریقہ تربیت انسانی خلقت و فطرت کے تمام تر تقاضوں کو پورا کرنےسے عبارت ہے اسلام انسان کی کسی بھی ضرورت سے غفلت نہیں کرتاہے اس کے جسم عقل نفسیات معنویات و مادیات یعنی حیات کے تمام شعبوں پر بھر پور توجہ رکھتاہے ،اسلامی تربیت کے بارے میں رسول اسلام صلی اللہ وعلیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی ہی کافی ہے کہ آپ فرماتے ہیں مجھے مکارم اخلاق کو کمال تک پہنچانے کے لۓ بھیجا گیا ہے

قرآن میں والدین کو مربی قرار دیا گیا ہے اور ان کی قدر و منزلت کا اس سے اندازہ ہوجاتاہے کہ خدا نے بارہا جھان شرک سے نھی اوراپنی عبادت کا حکم دیا ہے اس کے بعد والدین کے حق میں احسان و نیکی کرنے کا امر فرمایا ہے اس سے اسلام میں تربیت کی اھمیت کا اندازہ ہو جاتا ہے ۔

تربیت کے اصطلاحی معنی بیان کرنےمیں ماھرین و اصحاب نظر کے درمیان اتفاق و اشتراک پایا جاتا ہے ، متقدم و متاخر علما و دانشوروں نے گرچہ مختلف تعبیریں استعمال کی ہیں تاہم ایک ہی بات کہی ہے یہاں پر ہم تربیت کی بعض تعریفیں پیش کر رہے ہیں ۔

اخوان الصفا و خلان الوفا کی نظر میں تربیت ان امور کو کہتے ہیں جو انسان کی روحانی شخصیت کو پروان چڑھانے میں موثر واقع ہوتے ہیں ۔

آیۃاللہ شھید مطہری کا خیال ہے کہ تربیت انسان کی حقیقی صلاحیتوں کو نکھارنے کا نام ہے، ایسی صلاحیتیں جو بالقوہ جانداروں (انسان حیوان و پیڑپودوں ) میں موجود ہوں انہیں بالفعل پروان چڑھانے کو تربیت کہتے ہیں بنابریں تربیت صرف جانداروں سے مختص ہوتی ہے ۔

مرحوم ڈاکٹر شریعتی نے تربیت کے بارے میں خوبصورت اور دلچسپ تعبیر استعمال کی ہے وہ کہتے ہیں تربیت انسانی روح کو خاص اھداف کے لۓعمدا خاص شکل دینے کو کہتے ہیں ،کیونکہ اگر انسان کو آزاد چھوڑدیا جاے تو وہ اس طرح پلے بڑھے گا کہ اس کی شخصیت سے کوئي فائدہ نہیں پہنچے گا لھذا اس کی شخصیت کو ایسی شکل میں ڈھالنے کی ضرورت ہےکہ وہ مفید واقع ہو۔

بہ الفاط دیگراصطلاحا تربیت ایسا علم ہے جس کا ھدف ومقصد سلامت جسم ،پرورش عقل ،اور تجربوں نیز نیک صفات میں اضافہ کرنے کے لحاظ سے انسان کو کمال کے اعلی ترین ممکنہ درجے تک پہنچانا ہے

ویبسٹر انٹرنیشنل ڈکشنری میں education کے ذیل میں چار تعبیریں لائي گئی ہیں جو حسب ذیل ہیں ۔

الف: تعلیم یا تربیت کے عملی مرحلہ کوکہتے ہیں جیسے کسی بچے یا جانور کی تربیت ۔

ب:ایسے مختلف مراحل جن میں علم، مھارت ،لیاقت اور اخلاق حسنہ حاصل کۓ جائيں یہ مراحل باضابطہ دورہ تعلم مکمل کرنے پر اختتام پذیر ہوتے ہیں ۔

ج: ایسا مرحلہ جس میں تعلیم و تربیت مکمل ہوگئي ہو یا تعلیم و تربیت اس کا ھدف ہو۔

د: کلی طور پر اسلامی تعلمی و تربیتی نظام کو کہا جاتا ہے

Encyclopedia of islamکی دسویں جلد میں Tarbiya کے ذیل میں آیا ہے کہ تربیۃ عام اصطلاح ہے جو جدید عربی میں تعلیم و تربیت (education) اور علم تعلیم (pedagogy) کے معنی میں استعمال ہوتی ہے ، تربیت ابتدائي سطح پر اسکول و مدرسہ اور اعلی سطح پر کالج اور یونیوسٹیوں میں انجام پاتی ہے اور یونیوسٹی و کالج کے لۓ عربی میں الجامعۃ و الکلیہ کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں ۔

 


source : www.tebyan.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت عباس (ع) کی صفات کمالیہ
جدیدسائنس اور خدا کا وجود
عریضہ دل، ایک غلام کا آقا کے نام
دوسروں کو نصیحت کرنے کے آداب
تربيت ميں محبت کي اہميت و ضرورت
ادب و سنت
اہم شیعہ تفاسیر کا تعارف
اردو زبان میں مجلہ ’’نوائے علم‘‘ کا نیا شمارہ ...
آٹھ شوال اہل بیت(ع) کی مصیبت اور تاریخ اسلام کا ...
انسان، صحیفہ سجادیہ کی روشنی میں

 
user comment