اردو
Thursday 25th of April 2024
0
نفر 0

قرآن میں غور و فكر

قرآن میں غور و فكر

قرآن سے ارتباط كا ایك عالی ترین مرحلہ آیات الھی میں غور و فكر كرنا ہے۔ "افلا یتدبرون فی القرآن و لو كان من عند غیراللہ لوجدوا فیہ اختلافاً كثیراً" قرآن مین تدبر كے ذریعہ اس نتیجہ تك پھنچا جا سكتا ہے كہ انسان اور كائنات میں موجود تمام چیزوں كے لئے قاعدہ كلی "بے ثباتی و دگرگونی" ہے، قول میں بھی اور فعل میں بھی، لیكن قرآن اس طرح ن ہیں ہے علامہ طباطبائی كے بقول: " قرآن وہ كتاب ہے جس میں تمام انفرادی و معاشرتی قوانین پائے جاتے ہیں، مبدا و معاد سے مربوط مسائل، قصہ، عبرتیں و نصیحتیں وغیرہ جو تدریجاً نازل ھوئی ہیں اور گذرزمان كے ساتھ جس میں كسی بھی طرح كی تغییر و تبدیلی ن ہیں پائی جائے گی"

قرآن میں غور و فكر، علمی فوائد كے علاوہ شخصی ثمرہ ركھتا ہے مذكورہ بالا آیت كے تحت آیات قرآن میں غور وفكر كے ذریعہ پتہ چلتا ہے كہ اس كی آیتیں كسی بھی طرح كا آپس میں اختلاف ن ہیں ركھتی ہیں۔لہذا آیتیں ایك دوسرے كی مفسر واقع ھوسكتی ہیں اور یہ بھت مھم فائدہ تھا كہ علامہ طباطبائی اسی كے سایہ تلے قرآن سے قرآن كی تفسیر تك پھنچے۔ آپ اس آیت كے ذیل میں، قرآن كے ذریعہ قرآن كی تفسیر كا نتیجہ اخذ كرتے ہیں۔ "صاحب مجمع البیان" بھی آیٔہ "افلا یتدبرون القران۔۔۔" كے ذریعہ اس نتیجہ تك پھنچے ہیں-

دوسرا مھم فائدہ یہ ہے كہ چونكہ احكام قرآنی میں تغییر وتبديلي ن ہیں ھوگی لہذا یہ شریعت بھی قیامت تك مستمر ر ہے گی

انفرادی لحاظ سے بھی انسان آیات قرآن میں غور و فكر اور مبدأ ومعاد كو اپنے ذھن مین مجسم كركے داستان خلقت انسان كو یاد كرسكتا ہے اور آئندہ كو پیش نظرركھ سكتا ہے۔ كچھ ایسی روایتیں پائی جاتی ہیں جس میں آیات رحمت كی تلاوت پرمسروراور آیات غضب كی تلاوت پر محزون ھونے كی سفارش كی گئی ہے۔غزالی كتاب "كیمیای سعادت" میں حضرت ابوذر (رح) سے نقل كرتے ہیں كہ پیغمبراسلام (ص) رات كے ایك تھائی حصہ میں اس آیت كی تكرار فرماتے تهے: "ان تعذبھم فانھم عبادك وان تغفر لھم فانك انت العزیز الحكیم"

امام علی علیہ السلام سے منقول ہے كہ" قرآن كو جلدی جلدی نہ پڑھو اور اس فكر میں نہ رھو كہ سورہ كو جلد ختم كرلو، اپنے دلوں میں خشوع پیدا كرو" آپ دوسرے بیان میں فرماتے ہیں: قرآن سیكھو كیونكہ وہ بھترین كلام ہے اور اس میں غور و فكر كرو چونكہ وہ بھار ہے ۔ حضرت كے اس كلام كا اھم نكتہ یہ ہے كہ سیكھنے كے مرحلے میں فرمایا ہے "بھترین كلام" لیكن غور و فكر كے مرحلے میں اسے "بھار" سے تشبیہ كرتے ہیں؛ ایسی بھار جو كہ زندگی اور اگنے كی فصل ہے۔

 


source : www.tebyan.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اسلام پر موت کی دعا
قرآن مجید کے کتنے سورے حیوانوں کے نام پر هیں؟
قرآنِ کریم اور نورِ الہی
قرآن مجيد اور اخلاقي تربيت
قرآن و اھل بیت علیھم السلام
اطاعتِ قرآن
قرآن مجید میں جن حیوانات اور حشرات کا نام لیا گیا ...
سورہ بقرہ میں دعا
زبان قرآن کی شناخت
اتحاد کے قرآني راستے

 
user comment