اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

ادب

ادب

ہر ماں باپ کى يہ حتمى خواہش ہوتى ہے کہ ان کے بچے مہذب ہوں، اچھے اور باادب بچے ہر ماں باپ کى سربلندى کا ذريعہ ہوتے ہيں اور وہ ان پر فخر کرتے ہيں جو بچے دوسروں سے ملاقات کے موقع پر سلام کرتے ہيں اور جدا ہونے پر خداحافظ کرتے ہيں مصافحہ کرتے ہيں حال پوچھتے ہيں ،پيار سے انداز سے بات کرتے ہيں، بزرگوں کا احترام کرتے ہيں ، ان کے آنے پر احتراماً کھڑے ہوجاتے ہيں صاحبان علم ، باتقوى اور نيک افراد کا احترام کرتے ہيں محفل ميں مؤدب رہتے ہيں شور نہيں کرتے اور اگر کوئي کچھ دے تو اس کا شکريہ ادا کرتے ہيں کسى کو گالى نہيں ديتے ، دوسروں کو تکليف نہيں پہنچاتے ، دوسروں کى بات نہيں کاٹتے، کھانے کے آداب ملحوظ رکھتے ہيں بسم الله کہتے ہيں چھوتے نوالے ليتے ہيں ، آہستہ آہستہ چباتے ہيں، اپنے سامنے سے کھاتے ہيں ، زيادہ نہيں کھاتے ، کھانا زمين پر نہيں پھينکتے ، اپنے ہاتھوں اور لباس کو خراب نہيں کرتے ، صاف ستھرے اور پاکيزہ رہتے ہيں کسى کى توہين نہيں کرتے دوسروں کا لحاظ کرتے ہيں اور صحيح طريقے سے بيٹھتے اور اٹھتے ہيں، صحيح انداز سے چلتے ہيں اطاعت شعار اور فرمان بردار ہوتے ہيں کسى کا تمسخر نہيں اڑاتے اور دوسروں کى بات کان لگاکر سنتے ہيں ايسے بچے باادب ہوتے ہيں نہ صرف والدين بلکہ سب لوگ با ادب بچوں سے پيار کرتے ہيں اور گستاخ اور بے ادب بچوں سے نفرت

امير المؤمين على عليہ السلام فرماتے ہيں:

''ادب انسان کا کما ل ہے''

حضرت على عليہ السلام فرماتے ہيں:

'ادب انسان کے ليے خوبصورت لباس کے مانند ہے ''

لوگوں کو اچھے آداب کى سونے اور چاندى سے زيادہ ضرورت ہے ''

حضرت على عليہ السلام فرماتے ہيں:

ادب سے بڑھ کے کوئي زينت نہيں ''

امير المومنين على عليہ السلام فرماتے ہيں:

باپ کى بہترين وراثت اپنے بچے کے ليے يہ ہے کہ اسے اچھے آداب کى تربيت دے ''

حضرت على عليہ السلام فرماتے ہيں:

بے ادب شخص ميں برائياں زيادہ ہوں گي''

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام فرماتے ہيں:

سات سال تک اپنے بچے کو کھيلنے کى اجازت دو اور سات سال سے آدا ب زندگى سکھاؤ''

رسول اکر م صلى الله عليہ و آلہ و سلم فرماتے ہيں: ''بچے کے والدين پر تين حق ہيں ،

1اس کے ليے اچھا نام منتخب کريں

2اسے با ادب بنائيں اور

3اس کے ليے اچھا شريک حيات انتخاب کريں ''

ہر ماں باپ کى انتہائي آرزو يہ ہوتى ہے کہ ان کى اولادبا ادب ہو ليکن يہ آرزو خود بخود اور بغير کوشش کے پورى نہيں ہو سکتى اور نہ ہى زيادہ و عظ و نصيحت سے بچوں کو مؤدب بنايا جا سکتا ہے اس مقصد تک پہنچنے کے ليے بہترين راستہ ان کے ليے اچھا نمونہ عمل مہيا کرنا ہے ماں باپ کو خود مؤدب ہونا چاہيے تا کہ وہ اپنى اولاد کو عملى سبق دے سکيں

حضرت على عليہ السلام فرماتے ہيں:

''بہترين ادب يہ ہے کہ اپنے آپ سے آغاز کرو''

امير المومنين حضرت على عليہ السلام فرماتے ہيں:

''اپنے کردار کو مؤدب بنائيں پھر دوسروں کو وعظ و نصيحت کريں''

بچہ تو نرا مقلّد ہوتا ہے تقليد کى فطرت اس کے اندر بہت اہم اور طاقتور ہوتى ہے بچہ ماں باپ اور دوسرے لوگوں کے گفتار و کردار کى پيروى کرتا ہے يہ صحيح ہے کہ تلقين بھى تربيتى عوامل ميں سے ايک ہے ليکن تقليد انسانى جبلّت ميں زيادہ قوى اور طاقت ور ہوتى ہے خصوصاً بچپن ميں جن ماں باپ کى خواہشہے کہ ان کے بچے مؤدب ہوں انہيں چاہيے کہ پہلے اپنے طرز عمل کى اصلاح کريں وہ با ادب ماں باپ بنيں انہيں چاہيے کہ ايک دوسرے سے ، اپنے بچوں سے اور تمام لوگوں سے مؤدبانہ طرز عمل اختيار کريں اور آداب زندگى کى پابندى کريں تا کہ بچے ان سے سبق حاصل کريں ان سے درس حيات حاصل کريں اگر ماں باپ آپس ميں ايک دوسرے سے بااب ہوں ، گھر ميں آداب واقدار کو ملحوظ رکھتے ہوں بچوں سے بھى با ادب رہتے ہوں لوگوں سے مؤدبانہ طريقہ سے ميل ملاقات کرتے ہوں ايسے گھر کے بچے فطرى طور پر مؤدب ہوں گے وہ ماں باپ کا طرز عمل ديکھيں گے اور اسے اپنے ليے نمونہ عمل بنائيں گے اور اس کے ليے ان کو وعظ و نصيحت کى ضرورت نہيں ہوگى جو ماں باپ خود آداب کو محلوظ نہيں رکھتے انہيں بچوں سے بھى ادب کى توقع نہيں کرنى چاہيے اگر چہ سينکڑوں مرتبہ انہيں نصيحت کريں جو ماں باپ ايک دوسرے کے ساتھ بدتميزى سے پيشآتے ہيں اور خود اپنے بچوں کے ساتھ غير مودبانہ سلوک کرتے ہيں وہ کيسے توقع کرسکتے ہيں کہ ان کے بچے با ادب ہوں ايسے گھر کے بچے زيادہ تر ماں باپ کى طرح يا ان سے بھى زيادہ بے ادب ہوں گے اور انہيں اچھى تلقين اور وعظ و نصيحت کا کوئي فائدہ نہيں ہوگا بچے بھى سوچتے ہيں کہ اگر ماں باپ کى بات صحيح ہوتى تو وہ خود عمل نہ کرتے لہذا يہ ہميں دھوکا دے رہے ہيں البتہ تلقيں بالکل بے اثر نہيں ہوتى ليکن اسکا پورا اثر اس وقت ہوتا ہے کہ جب بچے اس کا نمونہ عمل ديکھيں با ادب ماں باپ بچوں کو اچھے آداب کى نصيحت بھى کر سکتے ہيں ليکن اچھے انداز سے ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے ، تندى ، بدتميزى اور بے ادبى سے نہيں بعض ماں باپ کى عادت ہوتى ہے کہ جب وہ بچوں کا کوئي خلاف ادب کام ديکھتے ہيں تو دوسروں کى موجودگى ميں ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہيں اور برا بھلا کہتے ہيں مثلاً کہتے ہيں اوبے ادب تو نے سلام کيوں نہيں کيا خداحافظ کيوں نہيں کيا ؟ گونگے ہو احمق اور بے شعو ربچے تو نے دوسروں کے سامنے پا ؤ ں کيوں پھيلائے ؟ کسى کے ہاں آکر شور کيوں مچا رہے ہو حيوان کہيں کے دوسروں کى باتوں ميں بولتے کيوں ہوں يہ نادان ماں باپ اپنے تئيں اس طرح سے اپنے بچوں کى تربيت کررہے ہوتے ہيں جب کہ بے ادبى سے ادب نہيں سکھايا جا سکتا اگر بچے سے کوئي بے ادبى سرزد ہوجائے تو اسے نصيحت کرنى چاہيے ليکن بے ادبى سے نہيں نہ دوسروں کے سامنے بلکہ تنہائي ميں اور بھلے انداز سے پيغمبر اکرم صلى الله عليہ و آلہ بچوں کو سلام کرتے تھے اور فرماتے تھے'' ميں بچوں کو سلام کرتا ہوں کہ ( سلام کرنا ان کا معمول بن جائے

 


source : www.abna.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article


 
user comment